سلام بحضور حضرت امام حسینؓ

چشمِ فطرت سے بہے تھے جو بہتّر آنسو
آنکھ سے گرتے ہیں وہ بن کے سمندر آنسو
رونے والو ہے اگر دل میں غمِ آلِ عبا
کربلا جائیں گے ان آنکھوں سے بہہ کر آنسو
تپشِ روزِ قیامت سے بچانے کے لئے
آئیں گے بہر سفارش لبِ کوثر آنسو
اہلِ غم ہیں، ہمیں معلوم ہے قیمت ان کی
ہم نہ دیں لعل و جواہر کے برابر آنسو
چشمِ زینبؓ سے بہے تھے جو بروزِ عاشور
بن کے عنوانِ وفا بٹ گئے گھر گھر آنسو
دیکھ کر نعشِ پسر، شاہؓ کہیں رو نہ پڑیں
ورنہ لے جائیں گے دنیا کو بہا کر آنسو
تر بہ تر غنچۂ و گل، شاخ وثمر، سبزہ و برگ
ہر نئی صبح دکھاتے ہیں یہ منظر آنسو
کون یہ گریہ کناں ہوتا ہے چھپ کر ہر شب
کس کی آنکھوں سے بہا کرتے ہیں شب بھر آنسو
غمِ مظلومیِ شہؓ کرتی ہے ظاہر فطرت
اپنی آنکھوں سے ہر اک رات بہا کر آنسو
سُن کے افسانۂ مظلومیِ عابدؓ، ساجدؔ
کس کی آنکھیں ہیں جو لے جائیں بچا کر آنسو
(مرزا ساجد حسین ساجدؔ امروہوی)
گہر بخشش، صفحہ 225 - صفحہ 226
 

الف نظامی

لائبریرین
اہلِ غم ہیں، ہمیں معلوم ہے قیمت ان کی
ہم نہ دیں لعل و جواہر کے برابر آنسو

غمِ مظلومیِ شہؓ کرتی ہے ظاہر فطرت
اپنی آنکھوں سے ہر اک رات بہا کر آنسو

 

سیما علی

لائبریرین
ضمیر اہل وحشت اورذات اہل وحشت کو
بہم پیچیدہ و دست و گریباں کر دیا تو نے

جو دھندلا ہو چلا پہلا ورق منشورِ فطرت کا
تو اپنے خون دل کو زیبِ عنواں کر دیا تو نے

بنا کر شمعِ طور اپنے لہو کے گرم قطروں کو
دیارِ ذہنِ عالم میں چراغاں کر دیا تو نے

بقائے آسماں پر ایک ضیائے نو دمک اٹھی
زمیں پہ چاک جب اپنا گریباں کر دیا تو نے

جوش ملیح آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
پھر حق ہے آفتاب لب بام اے حسین
پھر بزم آب و گل میں ہے کہرام اے حسین

پھر زندگی ہے سست و سبک گام اے حسین
پھر حریت ہے مورد الزام اے حسین

ذوق فساد و ولولہ شر لیے ہوئے
پھر عصر نو کے شمر ہیں خنجر لیے ہوئے

جوش ملیح آبادی
 
Top