فقیر شبّیر احمد چشتی
محفلین
سلام بحضور حضرت امام حسینؓ
چشمِ فطرت سے بہے تھے جو بہتّر آنسو
آنکھ سے گرتے ہیں وہ بن کے سمندر آنسو
رونے والو ہے اگر دل میں غمِ آلِ عبا
کربلا جائیں گے ان آنکھوں سے بہہ کر آنسو
تپشِ روزِ قیامت سے بچانے کے لئے
آئیں گے بہر سفارش لبِ کوثر آنسو
اہلِ غم ہیں، ہمیں معلوم ہے قیمت ان کی
ہم نہ دیں لعل و جواہر کے برابر آنسو
چشمِ زینبؓ سے بہے تھے جو بروزِ عاشور
بن کے عنوانِ وفا بٹ گئے گھر گھر آنسو
دیکھ کر نعشِ پسر، شاہؓ کہیں رو نہ پڑیں
ورنہ لے جائیں گے دنیا کو بہا کر آنسو
تر بہ تر غنچۂ و گل، شاخ وثمر، سبزہ و برگ
ہر نئی صبح دکھاتے ہیں یہ منظر آنسو
کون یہ گریہ کناں ہوتا ہے چھپ کر ہر شب
کس کی آنکھوں سے بہا کرتے ہیں شب بھر آنسو
غمِ مظلومیِ شہؓ کرتی ہے ظاہر فطرت
اپنی آنکھوں سے ہر اک رات بہا کر آنسو
سُن کے افسانۂ مظلومیِ عابدؓ، ساجدؔ
کس کی آنکھیں ہیں جو لے جائیں بچا کر آنسو
(مرزا ساجد حسین ساجدؔ امروہوی)
گہر بخشش، صفحہ 225 - صفحہ 226
چشمِ فطرت سے بہے تھے جو بہتّر آنسو
آنکھ سے گرتے ہیں وہ بن کے سمندر آنسو
رونے والو ہے اگر دل میں غمِ آلِ عبا
کربلا جائیں گے ان آنکھوں سے بہہ کر آنسو
تپشِ روزِ قیامت سے بچانے کے لئے
آئیں گے بہر سفارش لبِ کوثر آنسو
اہلِ غم ہیں، ہمیں معلوم ہے قیمت ان کی
ہم نہ دیں لعل و جواہر کے برابر آنسو
چشمِ زینبؓ سے بہے تھے جو بروزِ عاشور
بن کے عنوانِ وفا بٹ گئے گھر گھر آنسو
دیکھ کر نعشِ پسر، شاہؓ کہیں رو نہ پڑیں
ورنہ لے جائیں گے دنیا کو بہا کر آنسو
تر بہ تر غنچۂ و گل، شاخ وثمر، سبزہ و برگ
ہر نئی صبح دکھاتے ہیں یہ منظر آنسو
کون یہ گریہ کناں ہوتا ہے چھپ کر ہر شب
کس کی آنکھوں سے بہا کرتے ہیں شب بھر آنسو
غمِ مظلومیِ شہؓ کرتی ہے ظاہر فطرت
اپنی آنکھوں سے ہر اک رات بہا کر آنسو
سُن کے افسانۂ مظلومیِ عابدؓ، ساجدؔ
کس کی آنکھیں ہیں جو لے جائیں بچا کر آنسو
(مرزا ساجد حسین ساجدؔ امروہوی)
گہر بخشش، صفحہ 225 - صفحہ 226