ناصر علی مرزا
معطل
سات ارب افرادکی جاسوسی...ذراہٹ کے۔۔۔۔۔یاسر پیر زادہ
SMS: #YPC (space) message & send to 8001
yasir.pirzada@janggroup.com.pk
اٹلی میں حاصل سفر ایک امریکی نوجوان سے ملاقات تھی، اتنے ذہین لوگ زندگی میں کم ہی ملتے ہیں، پہلی نظر میں وہ آپ کو کسی کلب کا ’’بائونسر‘‘ لگے گا مگر جوں ہی آپ اس سے گفتگو شروع کریں گے آپ کو اندازہ ہوگا کہ حقیقتاً کسی شعبے کا ماہر کیا ہوتا ہے۔ اپنے ہاں تو جو کرسی پر بیٹھا بیٹھا سینئر ہو جائے اسے شعبے کا ایکسپرٹ تصور کر لیا جاتا ہے حالانکہ ایسے لوگوں کو منیر نیازی مرحوم ’’خر کہنہ مشق‘‘ (محنت کرنے والے گدھے) کا خطاب دیا کرتے تھے (افسوس کہ اب یہ گدھے محنت بھی نہیں کرتے)۔ جیکب ایک کسرتی جسم کا مالک شخص ہے، قد چھ فٹ سے بھی نکلتا ہوا، بازو پر اژدھے کا ٹیٹو، آنکھوں میں ذہانت، اپنے موضوع پر کئی گھنٹے لگاتار گفتگو کر سکتا ہے اور مجال ہے کہ سامعین بور ہو جائیں۔ جس ورکشاپ میں مجھے شرکت کرنا تھی وہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی اٹلی میں منعقد ہو رہی تھی اور جیکب کو اس میں انٹرنیٹ کو درپیش خطرات کے حوالے سے گفتگو کرنا تھی۔ اس خشک ترین موضوع پر جیکب نے چار گھنٹے مسلسل بول کر حاضرین کو مبہوت کر دیا، امریکی ہونے کے باوجود جیکب نے جس انداز میں امریکی حکومت اور اس کے جاسوس اداروں کی غیر انسانی کارروائیوں کا پردہ چاک کیا، ایک عام پاکستانی شاید یہ سوچ بھی نہیں سکتا۔نیشنل سیکورٹی ایجنسی امریکہ کا ایک جاسوس ادارہ ہے، اس ادارے میں تیس سے چالیس ہزار لوگ کام کرتے ہیں، اس کا کام عالمی سطح پر مختلف قسم کا ڈیٹا اکٹھا کرنا، اس کا تجزیہ کرنا اور اس سے حاصل شدہ معلومات کو ایک مربوط شکل دے کر عالمی سطح پر نگرانی کا ایسا نظام وضع کرنا ہے جس سے یہ پتہ چلانے میں آسانی ہو کہ دنیا کے سات ارب لوگوں میں سے کون وہ لوگ ہیں جو امریکہ کے لئے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں این ایس اے پوری دنیا کے لوگوں کی کارگزاریوں کی جاسوسی کرتا ہے، کون انٹرنیٹ پر کیا سرچ کرتا، کون سی ای میل کسے بھیجی جاتی ہے، کس پیغام میں کیا لکھا ہوتا ہے، کون سی فون کال کہاں کی جاتی ہے، کون سا موبائل فون کس جگہ سے استعمال ہوتا ہے، ان تمام معلومات کو یکجا کرکے یہ ادارہ کسی بھی شخص کی زندگی گذارنے کے طریقہ کار کا مشاہدہ کرکے اسے دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال سکتا ہے۔ بظاہر دنیا کے سات ارب لوگوں کی جاسوسی کرنے والی بات ناممکن سی لگتی ہے مگر جیکب کا کہنا تھا کہ این ایس اے میں نصب جدید ترین کمپیوٹرز دراصل جناتی قسم کی حسابی مشینیں ہیں جن کے دو کام ہیں، پہلا، یہ حسابی مشینیں انٹرنیٹ کی نگرانی کے ذریعے تمام ڈیٹا اکٹھا کرتی ہیں اور دوسرا، اس ڈیٹا کا تجزیہ کر کے اس میں سے ’’بے ترتیبی کے نمونے‘‘ علیحدہ کر لئے جاتے ہیں۔ اس کی مثال یوں ہے کہ اگر کوئی شخص انٹرنیٹ پر مسلسل بم بنانے کا طریقہ تلاش کرتا رہے، پھر اس کے بعد وہ امریکہ کی حساس تنصیبات کی محل وقوع کی تفصیلات حاصل کرے اور ایسا شخص پاکستان جیسے کسی ملک میں بیٹھ کر یہ سب کام انجام دے رہا ہو اور ساتھ اس نے فیس بک پیج پر کچھ ایسے صفحات کو پسند کر رکھا ہو جو امریکہ مخالف متشدد تنظیموں سے متعلق ہوں تو لامحالہ این ایس اے کی مشین ایسے ’’بے ترتیب‘‘ نمونے کو اس کھربوں بائٹس کے ڈیٹے سے الگ کر لے گی (کم از کم ہمیں یہی بتایا جاتا ہے)۔ جیکب امریکی جاسوس اداروں کے اس طریقے کار کا سخت ناقد ہے، اس کا کہنا ہے کہ ان مشینوں کو جو فیڈ کیا جاتا ہے اس کی بنیاد پر کسی کو دہشت قرار دے کر کسی کی جان لینا بدترین جرم ہے، جب اس سے پوچھا گیا کہ اس بات کا فیصلہ کون کرتا ہے کہ کسی انسان کی زندگی میں کس قسم کا نمونہ ’’بے ترتیبی‘‘ کا مظہر سمجھا جائے گا تو اس کا کہنا تھا کہ اس کا فیصلہ جاسوس اداروں کے افسران ہی کرتے ہیں اور اس ضمن میں وہ کسی قسم کے جمہوری ادارے کو جوابدہ نہیں ہوتے۔ یقیناً ان ممالک کی پارلیمانی کمیٹیاں ان جاسوسی اداروں سے رپورٹ وغیرہ طلب کرتی رہتی ہیں مگر اس کے باوجود یہ ایجنسیاں اس قدر منہ زور ہیں کہ اپنے ’’ڈیٹا ‘‘کی بنیاد پر کسی کو دہشت گرد ڈکلیئر کر سکتی ہیں ۔
جیکب کی این ایس اے سے آنکھ مچولی چلتی رہتی ہے، اس نوجوان نے اپنے لیپ ٹاپ اور موبائل فون میں کچھ ایسے سافٹ ویئر لگا رکھے ہیں جن کی وجہ سے این ایس اے اس کے ڈیٹا تک مکمل رسائی حاصل نہیں کر پاتی، گویا ایک طرح کا چیلنج ہے جو جیکب نے انہیں دے رکھا ہے کہ ’’catch me if you can‘‘ این ایس اے کے بارے میں اس کی تحقیق اور کھلم کھلا تنقیدکی وجہ سے ایک مرتبہ نوبت اس کی گرفتاری تک بھی پہنچ گئی تھی مگر بات آگے نہ بڑھ سکی کیونکہ بقول جیکب وہ ایک سفید فام امریکی تھا ’’اگر میں مسلمان ہوتا اور خاص طور سے پاکستانی تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ میرا کیا حشر کرتے، اور میرا ان سے یہی جھگڑا ہے۔ امریکی حکومت کے نزدیک صرف امریکی ہی مکمل انسان ہیں جن کے بنیادی انسانی حقوق ہیں، باقی لوگ ایک sub-human levelپر رہتے ہیں، جن کا ڈیٹا اکٹھا کرکے، ان کی زندگی گذارنے کے طریقہ کار سے سے متعلق معاملات ایک حسابی مشین کے ذریعے کھنگال کر انہیں دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ بدترین جرم ہے، آزادی اظہار ہر شخص کا حق ہے اور میں اسی کے لئے کام کرتا ہوں۔ میرا مقصد آپ کو یہ بتانا نہیں کہ آپ انٹرنیٹ پر اپنے آپ کو ان جاسوس اداروں سے کیسے چھپا سکتے ہیں، میرا مقصد آپ کو یہ ادراک دلانا ہے کہ یہ آپ کا حق ہے کہ کب آپ نے اپنی شناخت ظاہر کرنی ہے اور کب آپ ایسا نہیں کرنا چاہتے!‘‘ جیکب نے وہ تمام طریقے بھی بتائے جن کی مدد سے وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے، مثلاً اس کا کہنا تھا کہ سکائپ پر کی جانے والی تمام کالز این ایس اے ریکارڈ کرتا ہے، اس کا متبادل سافٹ ویئر موجود ہے، اسی طرح دیگرApps کا متبادل بھی ہے حتیٰ کہ موصوف اپنے لیپ ٹاپ پر ایسا آپریٹنگ سسٹم استعمال کرتے ہیں جس کے لئے کسی ہارڈ ڈسک کی ضرورت نہیں، سو جب وہ اپنا کام ختم کر چکتا ہے، کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ اس کے لیپ ٹاپ پر کیا محفوظ ہے !امریکی حکومت اور ایجنسیوں کے علاوہ جیکب ایپل، مائیکرو سافٹ اور خاص طور سے آئی بی ایم کو بھی ناپسند کرتا ہے، ایپل اور مائیکروسافٹ نے تو این ایس سے شراکتی معاہدے کر رکھے ہیں جن کی رو سے وہ جاسوس ادارے کو وہ معلومات دینے کے پابند ہیں جن کا ان سے قومی سلامتی کے نام پر تقاضا کیا جائے جبکہ آئی بی ایم وہ کمپنی ہے جس نے دوسری جنگ عظیم میں جرمنوں کو جاسوسی کا ایسا نظام وضع کرکے دیا جو ہولوکاسٹ کا باعث بنا۔ جیکب کی اس تمام گفتگو کے بعد میرے دوست اجمل شاہ دین نے ایک دلچسپ سوال کیا ’’اگر امریکیوں کے جاسوس اداروں کے پاس واقعی یہ ٹیکنالوجی ہے کہ وہ دنیا کے سات ارب انسانوں کی جاسوسی کر سکتے ہیں تو پھر وہ ملائشیا کا گمشدہ طیار ہ کیوں تلاش نہیں کر سکے‘‘۔ سوال سن کر جیکب مسکرایا، آنکھوں سے اپنی عینک اتاری اور بولا ’’اس لئے کہ ایجنسیاں ہمارے لئے کام نہیں کرتیں، ہمارے اوپر کام کرتی ہیں ۔‘‘ایک لمحے کو مجھے یوں لگا جیسے اس کا جواب ہمارے ملک سے متعلق ہو !





SMS: #YPC (space) message & send to 8001
yasir.pirzada@janggroup.com.pk
اٹلی میں حاصل سفر ایک امریکی نوجوان سے ملاقات تھی، اتنے ذہین لوگ زندگی میں کم ہی ملتے ہیں، پہلی نظر میں وہ آپ کو کسی کلب کا ’’بائونسر‘‘ لگے گا مگر جوں ہی آپ اس سے گفتگو شروع کریں گے آپ کو اندازہ ہوگا کہ حقیقتاً کسی شعبے کا ماہر کیا ہوتا ہے۔ اپنے ہاں تو جو کرسی پر بیٹھا بیٹھا سینئر ہو جائے اسے شعبے کا ایکسپرٹ تصور کر لیا جاتا ہے حالانکہ ایسے لوگوں کو منیر نیازی مرحوم ’’خر کہنہ مشق‘‘ (محنت کرنے والے گدھے) کا خطاب دیا کرتے تھے (افسوس کہ اب یہ گدھے محنت بھی نہیں کرتے)۔ جیکب ایک کسرتی جسم کا مالک شخص ہے، قد چھ فٹ سے بھی نکلتا ہوا، بازو پر اژدھے کا ٹیٹو، آنکھوں میں ذہانت، اپنے موضوع پر کئی گھنٹے لگاتار گفتگو کر سکتا ہے اور مجال ہے کہ سامعین بور ہو جائیں۔ جس ورکشاپ میں مجھے شرکت کرنا تھی وہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی اٹلی میں منعقد ہو رہی تھی اور جیکب کو اس میں انٹرنیٹ کو درپیش خطرات کے حوالے سے گفتگو کرنا تھی۔ اس خشک ترین موضوع پر جیکب نے چار گھنٹے مسلسل بول کر حاضرین کو مبہوت کر دیا، امریکی ہونے کے باوجود جیکب نے جس انداز میں امریکی حکومت اور اس کے جاسوس اداروں کی غیر انسانی کارروائیوں کا پردہ چاک کیا، ایک عام پاکستانی شاید یہ سوچ بھی نہیں سکتا۔نیشنل سیکورٹی ایجنسی امریکہ کا ایک جاسوس ادارہ ہے، اس ادارے میں تیس سے چالیس ہزار لوگ کام کرتے ہیں، اس کا کام عالمی سطح پر مختلف قسم کا ڈیٹا اکٹھا کرنا، اس کا تجزیہ کرنا اور اس سے حاصل شدہ معلومات کو ایک مربوط شکل دے کر عالمی سطح پر نگرانی کا ایسا نظام وضع کرنا ہے جس سے یہ پتہ چلانے میں آسانی ہو کہ دنیا کے سات ارب لوگوں میں سے کون وہ لوگ ہیں جو امریکہ کے لئے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں این ایس اے پوری دنیا کے لوگوں کی کارگزاریوں کی جاسوسی کرتا ہے، کون انٹرنیٹ پر کیا سرچ کرتا، کون سی ای میل کسے بھیجی جاتی ہے، کس پیغام میں کیا لکھا ہوتا ہے، کون سی فون کال کہاں کی جاتی ہے، کون سا موبائل فون کس جگہ سے استعمال ہوتا ہے، ان تمام معلومات کو یکجا کرکے یہ ادارہ کسی بھی شخص کی زندگی گذارنے کے طریقہ کار کا مشاہدہ کرکے اسے دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال سکتا ہے۔ بظاہر دنیا کے سات ارب لوگوں کی جاسوسی کرنے والی بات ناممکن سی لگتی ہے مگر جیکب کا کہنا تھا کہ این ایس اے میں نصب جدید ترین کمپیوٹرز دراصل جناتی قسم کی حسابی مشینیں ہیں جن کے دو کام ہیں، پہلا، یہ حسابی مشینیں انٹرنیٹ کی نگرانی کے ذریعے تمام ڈیٹا اکٹھا کرتی ہیں اور دوسرا، اس ڈیٹا کا تجزیہ کر کے اس میں سے ’’بے ترتیبی کے نمونے‘‘ علیحدہ کر لئے جاتے ہیں۔ اس کی مثال یوں ہے کہ اگر کوئی شخص انٹرنیٹ پر مسلسل بم بنانے کا طریقہ تلاش کرتا رہے، پھر اس کے بعد وہ امریکہ کی حساس تنصیبات کی محل وقوع کی تفصیلات حاصل کرے اور ایسا شخص پاکستان جیسے کسی ملک میں بیٹھ کر یہ سب کام انجام دے رہا ہو اور ساتھ اس نے فیس بک پیج پر کچھ ایسے صفحات کو پسند کر رکھا ہو جو امریکہ مخالف متشدد تنظیموں سے متعلق ہوں تو لامحالہ این ایس اے کی مشین ایسے ’’بے ترتیب‘‘ نمونے کو اس کھربوں بائٹس کے ڈیٹے سے الگ کر لے گی (کم از کم ہمیں یہی بتایا جاتا ہے)۔ جیکب امریکی جاسوس اداروں کے اس طریقے کار کا سخت ناقد ہے، اس کا کہنا ہے کہ ان مشینوں کو جو فیڈ کیا جاتا ہے اس کی بنیاد پر کسی کو دہشت قرار دے کر کسی کی جان لینا بدترین جرم ہے، جب اس سے پوچھا گیا کہ اس بات کا فیصلہ کون کرتا ہے کہ کسی انسان کی زندگی میں کس قسم کا نمونہ ’’بے ترتیبی‘‘ کا مظہر سمجھا جائے گا تو اس کا کہنا تھا کہ اس کا فیصلہ جاسوس اداروں کے افسران ہی کرتے ہیں اور اس ضمن میں وہ کسی قسم کے جمہوری ادارے کو جوابدہ نہیں ہوتے۔ یقیناً ان ممالک کی پارلیمانی کمیٹیاں ان جاسوسی اداروں سے رپورٹ وغیرہ طلب کرتی رہتی ہیں مگر اس کے باوجود یہ ایجنسیاں اس قدر منہ زور ہیں کہ اپنے ’’ڈیٹا ‘‘کی بنیاد پر کسی کو دہشت گرد ڈکلیئر کر سکتی ہیں ۔
جیکب کی این ایس اے سے آنکھ مچولی چلتی رہتی ہے، اس نوجوان نے اپنے لیپ ٹاپ اور موبائل فون میں کچھ ایسے سافٹ ویئر لگا رکھے ہیں جن کی وجہ سے این ایس اے اس کے ڈیٹا تک مکمل رسائی حاصل نہیں کر پاتی، گویا ایک طرح کا چیلنج ہے جو جیکب نے انہیں دے رکھا ہے کہ ’’catch me if you can‘‘ این ایس اے کے بارے میں اس کی تحقیق اور کھلم کھلا تنقیدکی وجہ سے ایک مرتبہ نوبت اس کی گرفتاری تک بھی پہنچ گئی تھی مگر بات آگے نہ بڑھ سکی کیونکہ بقول جیکب وہ ایک سفید فام امریکی تھا ’’اگر میں مسلمان ہوتا اور خاص طور سے پاکستانی تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ میرا کیا حشر کرتے، اور میرا ان سے یہی جھگڑا ہے۔ امریکی حکومت کے نزدیک صرف امریکی ہی مکمل انسان ہیں جن کے بنیادی انسانی حقوق ہیں، باقی لوگ ایک sub-human levelپر رہتے ہیں، جن کا ڈیٹا اکٹھا کرکے، ان کی زندگی گذارنے کے طریقہ کار سے سے متعلق معاملات ایک حسابی مشین کے ذریعے کھنگال کر انہیں دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ بدترین جرم ہے، آزادی اظہار ہر شخص کا حق ہے اور میں اسی کے لئے کام کرتا ہوں۔ میرا مقصد آپ کو یہ بتانا نہیں کہ آپ انٹرنیٹ پر اپنے آپ کو ان جاسوس اداروں سے کیسے چھپا سکتے ہیں، میرا مقصد آپ کو یہ ادراک دلانا ہے کہ یہ آپ کا حق ہے کہ کب آپ نے اپنی شناخت ظاہر کرنی ہے اور کب آپ ایسا نہیں کرنا چاہتے!‘‘ جیکب نے وہ تمام طریقے بھی بتائے جن کی مدد سے وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے، مثلاً اس کا کہنا تھا کہ سکائپ پر کی جانے والی تمام کالز این ایس اے ریکارڈ کرتا ہے، اس کا متبادل سافٹ ویئر موجود ہے، اسی طرح دیگرApps کا متبادل بھی ہے حتیٰ کہ موصوف اپنے لیپ ٹاپ پر ایسا آپریٹنگ سسٹم استعمال کرتے ہیں جس کے لئے کسی ہارڈ ڈسک کی ضرورت نہیں، سو جب وہ اپنا کام ختم کر چکتا ہے، کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ اس کے لیپ ٹاپ پر کیا محفوظ ہے !امریکی حکومت اور ایجنسیوں کے علاوہ جیکب ایپل، مائیکرو سافٹ اور خاص طور سے آئی بی ایم کو بھی ناپسند کرتا ہے، ایپل اور مائیکروسافٹ نے تو این ایس سے شراکتی معاہدے کر رکھے ہیں جن کی رو سے وہ جاسوس ادارے کو وہ معلومات دینے کے پابند ہیں جن کا ان سے قومی سلامتی کے نام پر تقاضا کیا جائے جبکہ آئی بی ایم وہ کمپنی ہے جس نے دوسری جنگ عظیم میں جرمنوں کو جاسوسی کا ایسا نظام وضع کرکے دیا جو ہولوکاسٹ کا باعث بنا۔ جیکب کی اس تمام گفتگو کے بعد میرے دوست اجمل شاہ دین نے ایک دلچسپ سوال کیا ’’اگر امریکیوں کے جاسوس اداروں کے پاس واقعی یہ ٹیکنالوجی ہے کہ وہ دنیا کے سات ارب انسانوں کی جاسوسی کر سکتے ہیں تو پھر وہ ملائشیا کا گمشدہ طیار ہ کیوں تلاش نہیں کر سکے‘‘۔ سوال سن کر جیکب مسکرایا، آنکھوں سے اپنی عینک اتاری اور بولا ’’اس لئے کہ ایجنسیاں ہمارے لئے کام نہیں کرتیں، ہمارے اوپر کام کرتی ہیں ۔‘‘ایک لمحے کو مجھے یوں لگا جیسے اس کا جواب ہمارے ملک سے متعلق ہو !