ام اویس

محفلین
پیارے بچو! آپ نے کبھی صبح سویرے سورج کو نکلتے دیکھا ہے؟
طلوع آفتاب سے چند لمحے قبل، صبح کی نیلگوں فضا، فلک کے کناروں پر ابھرتی شفق کی لالی اور پر پھیلائے محو پرواز پرندے !
کبھی سیاہ کالی رات کی چادر پر چمکتے، چوھودیں کے چاندکا نظارہ کیا ہے؟
کبھی سمندر کی اٹھتی گرتی لہروں کا رقص دیکھا ہے ؟
کبھی کسی کلی کی پنکھڑی پر روپہلی کرن سے چمکتے ہوئے شبنم کے موتیوں سے اپنی نگاہوں کو خیرہ کیا ہے؟
کبھی سوچا ہے کہ بارش سے دھلی، نکھری ہوئی سہ پہر میں جب سورج اپنی چھب دکھا جائے تو مشرق کی سمت کیسی کمان سی قوسِ قزح نمودار ہوتی ہے؟
ناصر کاظمی نے کیا خوب کہا ہے:

سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن
کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سُن

متجسس اور تصوراتی ذہن نے ہمیشہ ان تمام عجائبات کا جواب دیا ہے اور انہیں سمجھنے اور اظہار کرنے کے مختلف طریقے تلاش کرنے کی کوشش کی ۔ انسان ہمیشہ اپنے اردگرد کی دنیا کو جاننے کے لیے بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں سائنس کی ابتدا ہوتی ہے۔
سائنس کیا ہے؟ نوع انسانی کی ہزاروں سالوں پر محیط کاوش!
سائنس کا لفظ لاطینی کے scientia اور اسے قبل یونانی کے skhizein سے آیا ہے جس کے معنی ہیں الگ کرنا، چاک کرنا اور جاننا ۔ سنسکرت میں لفظ Vijnãn اور عربی لفظ علم کا بھی یہی معنی ہے۔
سائنس حصول علم کا ایک منظم ذریعہ ہے جس میں انسان براہ راست تجربے اور مشاہدے کے ذریعے سیکھتا ہے۔
سائنس انسانی کلچر کے آلات میں سے ایک ہے، اس کا تعلق انسان اور انسانی فطرت سے ہے۔
فطرت کو سمجھ کر اس کے متعلق نظریات قائم کرنا، اور پھر تحقیق کے ذریعے نتائج حاصل کرنا، علم سائنس کا بنیادی مقصد ہے۔
جیسے!کسی نامعلوم بات کے بارے میں جاننا، جیسے پانی کا رنگ نیلا کیوں ہے؟ بادل سے پانی کیوں برستا ہے؟ زمین گول کیوں ہے؟ چاند، رات میں کیوں نکلتا ہے؟ کوئی بھی چیز زمین ہی پر کیوں گرتی ہے؟ زمین کیوں گھومتی ہے؟ وغیرہ۔
سائنسی مطالعے کا سلسلہ زمانۂ قدیم سے جاری ہے ،اور زمانے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ اور بہتری ہوتی رہی ہے۔ اسی مطالعہ نے سائنس کو اس کی آج کی موجودہ شکل عطا کی ہے۔
ان مخصوص غیر فنونی علوم کے لیے جو انسان سوچ بچار حساب کتاب اور مطالعہ کے ذریعے حاصل کرتا ہے، سائنس کے لفظ کا جدید استعمال سترہویں صدی کے اوائل سے سامنے آیا۔
سائنس، سائنسی طریقہ کار کی مدد سے ان علوم کے حصول کا نام ہے جو منطقی اور معقول ہوتے ہیں۔
اور منظم مشاہدے اور تجزیے کے بعد تجربے سے ثابت ہوتے ہیں۔
خیال رہے کہ مستقبل کے سائنسدانوں نے ہمیشہ ماضی کے سائنس دانوں کے مشاہدات و تجربات کو سامنے رکھ کر پیش گوئیاں کرنے کی کوشش کی ہے اور سابقہ پیشین گوئیوں کی مدد سے ہی نت نئی چیزیں دریافت کی جاتی ہیں ۔
سائنس کے تین پیرامیٹرز ہیں
تجزیہ کرنا، اسے عام کرنا، اور اس کی بنیاد پر تھیوری قائم کرنا ۔
تجربات اور مشاہدات کے ذریعے، حاصل شدہ معلومات۔۔۔حاصل شدہ اعداد و شمار۔۔
اور تھیوری کے عین مطابق ، بالکل درست نتائج حاصل کئے جاتے ہیں ۔

سائنس مسلسل تبدیل نہیں ہوتی ہے۔ یہ ہمیشہ دریافت پر زور دیتی ہے۔سائنسی علوم کا اہم مقصد ٹیکنالوجی تشکیل دینا اور اسے مکمل بنانا ہے۔
سائنس میں ماہر ہونے کیلئے کسی بھی شخص کے پاس چار قسم کی صلاحیتیں ہونا ضروری ہیں ۔
یعنی اس شخص کو علمی، تجرباتی، تجزیاتی اور منطقی ہونا چاہیے۔

سائنس اور آرٹس یعنی فنیات میں تفریق کچھ یوں کی جاسکتی ہے کہ آرٹس میں وہ شعبہ جات آتے ہیں جو انسان اپنی قدرتی ہنر مندی اور صلاحیت کے اظہار کی صورت کرتا ہے اور سائنس میں وہ شعبہ جات آتے ہیں جن میں سوچ بچار، تحقیق اور تجربات کر کے کسی شے کے بارے میں حقائق دریافت کیے جاتے ہیں۔ سائنس اور آرٹس کے درمیان یہ حدفاصل ناقابلِ عبور نہیں۔ جب کسی آرٹ یا ہنر کا مطالعہ منظم انداز میں ہو تو پھر یہ اس آرٹ کی سائنس بن جاتا ہے ۔
درحقیقت ، سائنس کل کائنات کا علم ہے اور یہ علم انسان کا اجتماعی ورثہ ہے۔
سائنس کی بے شمار شاخیں ہیں : مثلا طبیعیات یعنی فزکس۔
حیاتیات یعنی بائیولوجی
کیمیاء یعنی کیمسٹری اور بائیو کیمسٹری)، مائیکرو بائیولوجی اورریاضی یعنی میتھ وغیرہ
 

ام اویس

محفلین
IMG-8255.jpg
 
Top