سائنسی شاعری

سیما علی

لائبریرین
جسم میں ہیں یہ مطلع انوار
صورت ماہ تاب ہیں آنکھیں
ہیں یہ شمع حیات کی تنویر
ضوفشاں آفتاب ہیں آنکھیں
برقی اعظمی
 

Gulmaily

محفلین
لڑکیاں بھی ہیں کمپیوٹر وائرس
زندگی کے واسطے ہیں ڈینجرس

کرتی ہیں اسکین لڑکوں کے دماغ
ہوش مندی کے بجھاتی ہیں چراغ

بات حق کہتا ہوں کر دیجے معاف
پہلے بھاری جیب کو کرتی ہیں صاف

پرابلم کرتی ہیں ڈاؤن لوڈ پھر
بینک کا معلوم کر کے کوڈ پھر

لڑکیاں لڑکوں کا مائنڈ سیٹ کر
بینک ایکاؤنٹ بھی کر لیں ٹرانسفر

لنچ کرتی ہیں ڈنر یہ مستقل
بھرتے ہی رہتے ہیں پزآ ہٹ کے بل

کر کے پھر لڑکوں کی اسمائیل ڈیلیٹ
ایپلی کیشن یہ کرتی ہیں ریپیٹ

ہینگ کر کے ہول لائف آپ کی
کچھ تو بن جاتی ہیں وائف آپ کی
 

سیما علی

لائبریرین
لڑکیاں بھی ہیں کمپیوٹر وائرس
زندگی کے واسطے ہیں ڈینجرس
ارے ارے یہ کیا بات ہوئی ایسی بھی کیا ڈینجرس ہوگئیں لڑکیاں ۔۔
لڑکیاں بھی ہیں کمپیوٹر اکیسپرٹ
کرتیں نہیں کسی کی لائف ڈسٹریکٹ
دیکھیے سید عاطف علی بھیا
فوراً فوراً دماغ میں ہوسکتا ہے غلط بھی ہو پر ہماری بٹیاؤں کے بارے میں ہم ایسی بات سن نہیں سکتے 😊
 

Gulmaily

محفلین
ارے ارے یہ کیا بات ہوئی ایسی بھی کیا ڈینجرس ہوگئیں لڑکیاں ۔۔
لڑکیاں بھی ہیں کمپیوٹر اکیسپرٹ
کرتیں نہیں کسی کی لائف ڈسٹریکٹ
دیکھیے سید عاطف علی بھیا
فوراً فوراً دماغ میں ہوسکتا ہے غلط بھی ہو پر ہماری بٹیاؤں کے بارے میں ہم ایسی بات سن نہیں سکتے 😊
میں آپ کے کمنٹ کو لائک کرنا چاہتی تھی، لیکن سمجھ نہیں آیا کہ لائک بٹن ہے کہاں، اس لئے تحریری لائک کر رہی ہوں۔ ویسے یہاں نوری فونٹس نہیں ہیں کیا؟ میں نے کئی اردو ویب گاہوں پر دیکھے ہیں، اردو محفل میں صرف نستعلیق ہیں، نوری نہیں نظر آتے۔ یہ شاید گلزار فونٹس ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
میں آپ کے کمنٹ کو لائک کرنا چاہتی تھی، لیکن سمجھ نہیں آیا کہ لائک بٹن ہے کہاں، اس لئے تحریری لائک کر رہی ہوں۔ ویسے یہاں نوری فونٹس نہیں ہیں کیا؟ میں نے کئی اردو ویب گاہوں پر دیکھے ہیں، اردو محفل میں صرف نستعلیق ہیں، نوری نہیں نظر آتے۔ یہ شاید گلزار فونٹس ہیں۔
آپکے مراسلے 50 ہو جائیں گے تو آپ لائک کر سکیں گی شکریہ پسند کرنے کا ۔۔جلدی جلدی 50 مراسلے کیجیے ۔۔
تعارف کی لڑی میں تشریف لائیے ۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
مِلا تھا ایک ہی گاہک تو ہم بھی کیا کرتے
سو خود کو بیچ دیا بے حساب سستے میں
احمد فراز
 

جاسمن

لائبریرین
کیمیا
‏دل راکھ ہو چکا تو چمک اور بڑھ گئی
‏یہ تیری یاد تھی کہ عمل کیمیا کا تھا
احمد ندیم قاسمی
 

جاسمن

لائبریرین
وقت (نظم)
(جاوید اختر)

یہ وقت کیا ہے
یہ کیا ہے آخر کہ جو مسلسل گزر رہا ہے
یہ جب نہ گزرا تھا
تب کہاں تھا
کہیں تو ہوگا
گزر گیا ہے
تو اب کہاں ہے
کہیں تو ہوگا
کہاں سے آیا کدھر گیا ہے
یہ کب سے کب تک کا سلسلہ ہے
یہ وقت کیا ہے
یہ واقعے
حادثے
تصادم
ہر ایک غم
اور ہر اک مسرت
ہر اک اذیت
ہر ایک لذت
ہر اک تبسم
ہر ایک آنسو
ہر ایک نغمہ
ہر ایک خوشبو
وہ زخم کا درد ہو
کہ وہ لمس کا ہو جادو
خود اپنی آواز ہو کہ ماحول کی صدائیں
یہ ذہن میں بنتی اور بگڑتی ہوئی فضائیں
وہ فکر میں آئے زلزلے ہوں کہ دل کی ہلچل
تمام احساس
سارے جذبے
یہ جیسے پتے ہیں
بہتے پانی کی سطح پر
جیسے تیرتے ہیں
ابھی یہاں ہیں
ابھی وہاں ہیں
اور اب ہیں اوجھل
دکھائی دیتا نہیں ہے لیکن
یہ کچھ تو ہے
جو کہ بہہ رہا ہے
یہ کیسا دریا ہے
کن پہاڑوں سے آ رہا ہے
یہ کس سمندر کو جا رہا ہے
یہ وقت کیا ہے
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
کہ چلتی گاڑی سے پیڑ دیکھو
تو ایسا لگتا ہے
دوسری سمت جا رہے ہیں
مگر حقیقت میں
پیڑ اپنی جگہ کھڑے ہیں
تو کیا یہ ممکن ہے
ساری صدیاں
قطار اندر قطار اپنی جگہ کھڑی ہوں
یہ وقت ساکت ہو
اور ہم ہی گزر رہے ہوں
اس ایک لمحے میں
سارے لمحے
تمام صدیاں چھپی ہوئی ہوں
نہ کوئی آئندہ
نہ گزشتہ
جو ہو چکا ہے
جو ہو رہا ہے
جو ہونے والا ہے
ہو رہا ہے
میں سوچتا ہوں
کہ کیا یہ ممکن ہے
سچ یہ ہو
کہ سفر میں ہم ہیں
گزرتے ہم ہیں
جسے سمجھتے ہیں ہم
گزرتا ہے
وہ تھما ہے
گزرتا ہے یا تھما ہوا ہے
اکائی ہے یا بٹا ہوا ہے
ہے منجمد
یا پگھل رہا ہے
کسے خبر ہے
کسے پتا ہے
یہ وقت کیا ہے
یہ کائنات عظیم
لگتا ہے
اپنی عظمت سے
آج بھی مطمئن نہیں ہے
کہ لمحہ لمحہ
وسیع تر اور وسیع تر ہوتی جا رہی ہے
یہ اپنی بانہیں پسارتی ہے
یہ کہکشاؤں کی انگلیوں سے
نئے خلاؤں کو چھو رہی ہے
اگر یہ سچ ہے
تو ہر تصور کی حد سے باہر
مگر کہیں پر
یقیناً ایسا کوئی خلا ہے
کہ جس کو
ان کہکشاؤں کی انگلیوں نے
اب تک چھوا نہیں ہے
خلا
جہاں کچھ ہوا نہیں ہے
خلا
کہ جس نے کسی سے بھی ''کن'' سنا نہیں ہے
جہاں ابھی تک خدا نہیں ہے
وہاں
کوئی وقت بھی نہ ہوگا
یہ کائنات عظیم
اک دن
چھوئے گی
اس ان چھوئے خلا کو
اور اپنے سارے وجود سے
جب پکارے گی
''کن''
تو وقت کو بھی جنم ملے گا
اگر جنم ہے تو موت بھی ہے
میں سوچتا ہوں
یہ سچ نہیں ہے
کہ وقت کی کوئی ابتدا ہے نہ انتہا ہے
یہ ڈور لمبی بہت ہے
لیکن
کہیں تو اس ڈور کا سرا ہے
ابھی یہ انساں الجھ رہا ہے
کہ وقت کے اس قفس میں
پیدا ہوا
یہیں وہ پلا بڑھا ہے
مگر اسے علم ہو گیا ہے
کہ وقت کے اس قفس سے باہر بھی اک فضا ہے
تو سوچتا ہے
وہ پوچھتا ہے
یہ وقت کیا ہے
 
Top