سائنسدانوں نے آواز کے ذریعے بدن میں ویکسین پہنچانے کا طریقہ ایجاد کرلیا!

arifkarim

معطل
سائنسدانوں نے آواز کے ذریعے بدن میں ویکسین پہنچانے کا طریقہ ایجاد کرلیا
429764-soundmain-1452436005-274-640x480.jpg

ہائیڈرا نامی سسٹم کے تحت آواز کو قوت میں بدل کر اس کی لہروں کو دوا دھکیلنے کے کام میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

میلبرن: ماہرین نے تجربہ گاہ میں پہلی بار ایک خاص قسم کی آواز کی لہریں پیدا کی ہیں جس کے لیے گزشتہ 50 برس سے کوششیں ہورہی تھیں۔ ان لہروں کو انسانی جسم میں ویکسین داخل کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

آسٹریلیا کی آرایم آئی ٹی یونیورسٹی کی اس کوشش سے منہ کے ذریعے کھائی جانے والی ویکسین کے وقت میں بہت کمی کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اسٹیم سیل (خلیاتِ ساق) کے علاج کی راہ بھی ہموارہوگی۔ اس میں آواز کی دو طرح کی موجوں کو ملایا گیا جو اسی طرح آگے بڑھتی ہے جس طرح سمندری لہریں آگے بڑھتی ہیں اوراسے طبی آلات میں استعمال کرنا ممکن ہوگا۔

nebulizer.jpg


ماہرین کی ٹیم نے آواز کی لہروں کو ایک نئے نیبولائزر میں استعمال کرکے دوا کو پھیپھڑوں کے اندر پہنچانے کا بھی تجربہ کیا جس سے دوا پہنچانے کا وقت 30 منٹ سے کم ہوکر 30 سیکنڈ تک ہوگیا ۔ یونیورسٹی کی مائیکرو اور نینو ٹیکنالوجی لیبارٹری کے سائنسدان امجد رازق نے بتایا کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے خاص اسٹیم سیل کو پھیپھڑے کے متاثرہ حصوں تک پہنچا کر ان کی مرمت کی جاسکتی ہے اور یہ اسٹیم سیل تھراپی کا ایک انقلاب ثابت ہوگا۔

امجد رزاق کے مطابق بجلی تھرتھراہٹ پیدا کرکے مائع دوا کو بخارات میں بدلتی ہے۔ عموماً بچوں کو آکسیجن ماسک پہنا کر نیبولائزر سے دوا دی جاتی ہے جس میں دوا کو بخارات میں بدلا جاتا ہے جس کے ذریعے ایک منٹ میں صرف صفر اعشاریہ 2 ملی لیٹردوا پھیپھڑوں میں جاتی ہے لیکن ’ہائیڈرا‘ نامی اس تکنیک کے ذریعے ایک منٹ میں 5 ملی لیٹر دوا پھیپھڑوں میں داخل کی جاسکتی ہے۔

اگلے مرحلے میں اس کے ذریعے چھوٹے بچوں، دمے اور ذیابیطس کے مریضوں کو کسی تکلیف دہ انجکشن کے بغیر دوا دینا ممکن ہوسکے گا۔

ماخذ
 
Top