زندگی ہے کوئی سزا تو نہیں (غزل)

عظیم

محفلین




زندگی ہے کوئی سزا تو نہیں
دوست لگتا مجھے خفا تو نہیں

کوئی رہتا ہے ساتھ میرے مگر
میرا اپنا ابھی ملا تو نہیں

کچھ ہیں شکوے شکایتیں تھوڑی
لیکن اس در سے میں اٹھا تو نہیں

میں گنہگار ہوں یہ سچ ہے مگر
دنیا والوں سے کچھ کہا تو نہیں

ڈھونڈتا ہوں جسے میں باہر وہ
میرے دل سے کہیں گیا تو نہیں

کٹ ہی جائیں گے غم کے دن بھی سبھی
کوئی لمحہ کبھی رکا تو نہیں

اب تو یہ ہے کہ صرف پوری ہوں
لب پہ باقی کوئی دعا تو نہیں

حوصلے پست ہیں تو کیا غم ہے
میں سفر سے ابھی تھکا تو نہیں

جس کو کہتے ہیں بندگی سب لوگ
وہ کہیں آپ سے وفا تو نہیں؟

دل کو پتھر بنانا پڑتا ہے
عشق کچھ کھیل موم کا تو نہیں

دیکھنے کو نہیں ہے کیا کیا یہاں
آدمی سے وہ رب چھپا تو نہیں

جس کو سمجھا ہوں انتہا غم کی
وہ محبت کی ابتدا تو نہیں؟

مشکلیں ہیں کچھ ایک دو باقی
سر سلامت ہے یہ کٹا تو نہیں

میں بھی پہنچوں گا اس کے در پہ کبھی
کس طرح ، یہ میں جانتا تو نہیں

ایک پل خوش تو اک اداس عظیم
یہی عشاق کی ادا تو نہیں؟




 

یاسر شاہ

محفلین
ماشاء اللہ عظیم بھائی خوب غزل ہے۔داد۔
دو ایک مقامات پہ تراش خراش کی ضرورت ہے ،دیکھ لیجیے گا۔مثلا
دیکھنے کو نہیں ہے کیا کیا یہاں
یہ مصرع وزن سے کچھ باہر نکل رہا ہے۔
زندگی ہے کوئی سزا تو نہیں
دوست لگتا مجھے خفا تو
دوسرا مصرع کچھ خام سا ہے۔
یوں کہیں تو واضح ہو:
دوست لگتا ہے کچھ خفا تو نہیں

وغیرہ وغیرہ
 

عظیم

محفلین
ماشاء اللہ عظیم بھائی خوب غزل ہے۔داد۔
دو ایک مقامات پہ تراش خراش کی ضرورت ہے ،دیکھ لیجیے گا۔مثلا

یہ مصرع وزن سے کچھ باہر نکل رہا ہے۔

دوسرا مصرع کچھ خام سا ہے۔
یوں کہیں تو واضح ہو:
دوست لگتا ہے کچھ خفا تو نہیں

وغیرہ وغیرہ
بہت شکریہ آپ کا یاسر شاہ بھائی
مصرع وزن میں ہے اور مطلع کا دوسرا مصرع بھی مجھے اس لحاظ سے واضح ہی لگ رہا ہے کہ جو میں کہنا چاہتا تھا
کہ دوست مجھے خفا تو نہیں لگتا
 
Top