زندگی درد کی آغوش میں سونا چاہے

-

  • 10

    Votes: 0 0.0%
  • 10

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    0

ابن رضا

لائبریرین
تازہ غزل برائے اصلاح حاضرِ خدمت ہے

زندگی درد کی آغوش میں سونا چاہے
اشکِ یادِ وفا مژگاں میں پرونا چاہے

ایک میں ہوں کہ شب و روز تجھے ہی مانگوں
ایک تُو ہے کہ کسی اور کا ہونا چاہے

یوں رُکی ماہ پہ جا کر نِگَہِ شوق مری
جیسے بچہ کوئی من بھایا کھلونا چاہے

لاکھ سمجھا کے اِسے دیکھ لیا میں نے مگر
تیرا غم ہےکہ رگِ جاں میں سمونا چاہے

ڈرے کیوں کر کسی گرداب کی سازش سے وہ
جس کو ساحل ہی سمندر میں ڈبونا چاہے

اٹھ گیا ہے تری محفل سے مِرا دل ساقی
اب کہیں گوشۂ تنہائی میں رونا چاہے

داغ جودل پہ لگا ہے، لگا رہنے دے رضاؔ
تیرا ہی آنسو نشانی تری دھونا چاہے







ٹیگ: اساتذہ کرام و برادران
فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعلن
رمل مثمن سالم مخبون محذوف و مسکن کے چاروں اوزان یکجا ہیں کہیں کہیں فعِلاتن کو مفعولن بھی باندھا ہے۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
تازہ غزل برائے اصلاح حاضرِ خدمت ہے

زندگی درد کی آغوش میں سونا چاہے
اشکِ یادِ وفا مژگاں میں پرونا چاہے

ایک میں ہوں کہ شب و روز تجھے ہی مانگوں
ایک تُو ہے کہ کسی اور کا ہونا چاہے؟

تھم گئی یوں نِگَہِ شوق مری ماہ پہ جاکے
جیسے بچہ کوئی من بھایا کھلونا چاہے

لاکھ سمجھا کے اِسے دیکھ لیا میں نے مگر
ترا غم ہےکہ رگِ جاں میں سمونا چاہے

خوف کیوں کر ہو اُسےبھنور کی سازش سے
جس کو ساحل ہی سمندر میں ڈبونا چاہے

اٹھ گیا ہے تری محفل سے مِرا دل ساقی

اب کہ گوشۂ تنہائی میں رونا چاہے
تجھ کو تو چھین لیا مجھ سے زمانے نے رضاؔ
دل تری یاد کی سوغات نہ کھونا چاہے





ٹیگ: اساتذہ کرام و برادران
ان مصرعوں میں الفاظ کی بندش اوزان کی حدود سے متجاوز ہو رہی ہے۔انہیں کسی مناسب معمولی ترمیم سے ایڈجسٹ کرلیں۔
غم کے لیے آپ نے "سمونا " استعمال کیا ہے یہاں غالباً سمانا ہو نا چاہیے۔(شاید قافیے کی مجبوری سے)۔۔۔اس لئے کہ سمانا لازم ہے سمونا سے متعدی کا ٹچ محسوس ہو رہا ہےجو برجستہ و بر محل نہیں۔اسے میرے خیال میں کسی اور صورت میں ری ارینج کریں
ترا غم کو تیرا غم کردیں تو زیادہ اچھا ہو اگر چہ ترا غم بھی ٹھیک لگ رہا ہے۔
نگہ کے لیے تھمنا کی بجائے ٹھہرنا یا جمنا زیادہ اچھا ہو گا۔
خیالات میں اگر چہ گہرائی اور ندرت نہیں مگر لہجہ البتّہ تغزّل کا مجموعی تاثر اچھا پیش کررہا ہے۔
 
بلا تمہید ۔۔۔
کچھ مصرعے خارج از اوزان ہیں۔
اس غزل کی بحر (میرے نزدیک) بحرِ ارمولہ (بحر رمل سے ماخوذ) ہے۔ فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن؛ جس میں آخری فاعلتن کے مقابل مفعولن، مفعولات یا فاعلتان آ سکتا ہے۔
 
مندرجہ ذیل مقامات پر توجہ فرمائیے گا:

زندگی درد کی آغوش میں سونا چاہے
اشکِ یادِ وفا مژگاں میں پرونا چاہے
اس کو ’’اش کِ یا دے وَ فَ ۔۔۔‘‘ پڑھنا پڑ رہا ہے، جو نا ملائم ہے۔

ایک میں ہوں کہ شب و روز تجھے ہی مانگوں
ایک تُو ہے کہ کسی اور کا ہونا چاہے؟

یہاں علامتِ استفہام غیر ضروری ہے۔

تھم گئی یوں نِگَہِ شوق مری ماہ پہ جاکے

جیسے بچہ کوئی من بھایا کھلونا چاہے
پہلے مصرعے میں ’’کے‘‘ زاید از وزن ہے۔


لاکھ سمجھا کے اِسے دیکھ لیا میں نے مگر
ترا غم ہےکہ رگِ جاں میں سمونا چاہے

یہاں ’’ترا‘‘ کو ’’تیرَ‘‘ پڑھنا پڑ رہا ہے تو پھر کیوں نہ ’’تیرا‘‘ لکھا جائے! دوسرے، یہاںمعنوی تقاضا’’سمونا‘‘ کا نہیں ’’سمانا‘‘ کا ہے۔

خوف کیوں کر ہو اُسےبھنور کی سازش سے
جس کو ساحل ہی سمندر میں ڈبونا چاہے
پہلا مصرع وزن سے خارج ہے، شعر ابہام کا شکار ہے۔


اٹھ گیا ہے تری محفل سے مِرا دل ساقی
اب کہ گوشۂ تنہائی میں رونا چاہے
دوسرا مصرع وزن سے خارج ہے۔

تجھ کو تو چھین لیا مجھ سے زمانے نے رضاؔ
دل تری یاد کی سوغات نہ کھونا چاہے
مقطع کم زور ہے، بس۔

بہت آداب۔
 

ابن رضا

لائبریرین
ان مصرعوں میں الفاظ کی بندش اوزان کی حدود سے متجاوز ہو رہی ہے۔انہیں کسی مناسب معمولی ترمیم سے ایڈجسٹ کرلیں۔
غم کے لیے آپ نے "سمونا " استعمال کیا ہے یہاں غالباً سمانا ہو نا چاہیے۔(شاید قافیے کی مجبوری سے)۔۔۔ اس لئے کہ سمانا لازم ہے سمونا سے متعدی کا ٹچ محسوس ہو رہا ہےجو برجستہ و بر محل نہیں۔اسے میرے خیال میں کسی اور صورت میں ری ارینج کریں
ترا غم کو تیرا غم کردیں تو زیادہ اچھا ہو اگر چہ ترا غم بھی ٹھیک لگ رہا ہے۔
نگہ کے لیے تھمنا کی بجائے ٹھہرنا یا جمنا زیادہ اچھا ہو گا۔
خیالات میں اگر چہ گہرائی اور ندرت نہیں مگر لہجہ البتّہ تغزّل کا مجموعی تاثر اچھا پیش کررہا ہے۔
بہت نوازش عاطف بھائی میں دوبارہ کوشش کرتا ہوں کہ اسقام دور کرکے پیش کر سکوں
 

ابن رضا

لائبریرین
مندرجہ ذیل مقامات پر توجہ فرمائیے گا:



بہت آداب۔
تشکر بسیار استادِ محترم ۔ میں نے درج ذیل بحر استعمال کی تھی ۔ اگر مندرجات میں کوئی غلطی ہے تو پہلے اس کی اصلاح فرما دیں تاکہ اصول واٍضح ہو جائے۔ پھر ددبارہ حاضرِ خدمت ہوتا ہوں

ramal_zpsa0864bcb.jpg
 
تشکر بسیار استادِ محترم ۔ میں نے درج ذیل بحر استعمال کی تھی ۔ اگر مندرجات میں کوئی غلطی ہے تو پہلے اس کی اصلاح فرما دیں تاکہ اصول واٍضح ہو جائے۔ پھر ددبارہ حاضرِ خدمت ہوتا ہوں

ramal_zpsa0864bcb.jpg
1۔ میں نے بھی یہی عرض کیا ہے، بحر وہی ہے؛ بس نام کا اور ارکان بندی کا فرق ہے۔
2۔ تسکینِ اوسط والا معاملہ (دوسرے یا تیسرے رکن میں) البتہ محلِ نظر ہے۔ ایسا اگر ہوتا بھی ہے تو بہت شاذ رہا ہو گا۔ میں تو اِس سے گریز کا قائل ہوں، آپ جانئے۔
3۔ چوتھے رکن کا عروضی متن آپ کی درج کردہ صورتِ تقطیع کے مطابق فَعِلن، فِعلن، فِعلان (مفعول) یا فِعَلان بالکل درست ہے۔ یوں جو کچھ میں نے عرض کیا اور جو آپ نے فرمایا، وہ باہم منطبق ہے (ماسوائے گزارش 2)۔
بہت شکریہ۔
 

ابن رضا

لائبریرین
1۔ میں نے بھی یہی عرض کیا ہے، بحر وہی ہے؛ بس نام کا اور ارکان بندی کا فرق ہے۔
2۔ تسکینِ اوسط والا معاملہ (دوسرے یا تیسرے رکن میں) البتہ محلِ نظر ہے۔ ایسا اگر ہوتا بھی ہے تو بہت شاذ رہا ہو گا۔ میں تو اِس سے گریز کا قائل ہوں، آپ جانئے۔
3۔ چوتھے رکن کا عروضی متن آپ کی درج کردہ صورتِ تقطیع کے مطابق فَعِلن، فِعلن، فِعلان (مفعول) یا فِعَلان بالکل درست ہے۔ یوں جو کچھ میں نے عرض کیا اور جو آپ نے فرمایا، وہ باہم منطبق ہے (ماسوائے گزارش 2)۔
بہت شکریہ۔
شکریہ استادِ محترم ، تیسرے نقطے کے حساب سے میں نے اس مصرع کو یوں تقطیع کیا ہے
تھم گئی یوں نِگَہِ شوق مری ماہ پہ جاکے
فاعلاتن: تھم گئی یو
فعِلاتن : نَگَہِ شو
فعِلاتن: ق مری ما
فعِلان: ہ پہ جا کے
کیا یہ درست نہیں؟؟ از راہِ علم وضاحت فرما دیجیے۔
 
آخری تدوین:
شکریہ استادِ محترم ، تیسرے نقطے کے حساب سے میں نے اس مصرع کو یوں تقطیع کیا ہے
تھم گئی یوں نِگَہِ شوق مری ماہ پہ جاکے
فاعلاتن: تھم گئی یو
فعِلاتن : نَگَہِ شو
فعِلاتن: ق مری ما
فعِلان: ہ پہ جا کے
کیا یہ درست نہیں؟؟ از راہِ علم وضاحت فرما دیجیے۔
شعر کو محض عروضی پیمانوں میں پورا دیکھ کر اس کو صاد کر دینا اس لئے بھی درست نہیں کہ شعر میں صرف اوزان نہیں ہوتے، اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔
یہاں ’’کے‘‘ کی ’’ے‘‘ زیر میں بدل گئی ’’کِ‘‘ بن گیا۔ یہ عربی میں تو عام ہے اردو میں مقبول نہیں ہے۔ اردو میں ہر مصرعے کا آخر اگر ہجائے کوتا ہ ہے تو وہ ساکن ہوتا ہے (مصرعے کے اندر سکون یا حرکت کچھ بھی ہو سکتا ہے)۔
مصرع کے آخر میں ہمزہ متحرک کی بات البتہ مختلف ہے۔ اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
شعر کو محض عروضی پیمانوں میں پورا دیکھ کر اس کو صاد کر دینا اس لئے بھی درست نہیں کہ شعر میں صرف اوزان نہیں ہوتے، اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔
یہاں ’’کے‘‘ کی ’’ے‘‘ زیر میں بدل گئی ’’کِ‘‘ بن گیا۔ یہ عربی میں تو عام ہے اردو میں مقبول نہیں ہے۔ اردو میں ہر مصرعے کا آخر اگر ہجائے کوتا ہ ہے تو وہ ساکن ہوتا ہے (مصرعے کے اندر سکون یا حرکت کچھ بھی ہو سکتا ہے)۔
مصرع کے آخر میں ہمزہ متحرک کی بات البتہ مختلف ہے۔ اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔
جی بالکل اس طرح غلطیوں کی نشاندہی پر گاہے گاہے نئی معلومات کے راستے ہم جیسے طالب علموں کے لیے ہموار ہوتے رہتے ہیں۔ جزاک اللہ خیر
 

ابن رضا

لائبریرین
ان مصرعوں میں الفاظ کی بندش اوزان کی حدود سے متجاوز ہو رہی ہے۔انہیں کسی مناسب معمولی ترمیم سے ایڈجسٹ کرلیں۔
غم کے لیے آپ نے "سمونا " استعمال کیا ہے یہاں غالباً سمانا ہو نا چاہیے۔(شاید قافیے کی مجبوری سے)۔۔۔ اس لئے کہ سمانا لازم ہے سمونا سے متعدی کا ٹچ محسوس ہو رہا ہےجو برجستہ و بر محل نہیں۔اسے میرے خیال میں کسی اور صورت میں ری ارینج کریں
ترا غم کو تیرا غم کردیں تو زیادہ اچھا ہو اگر چہ ترا غم بھی ٹھیک لگ رہا ہے۔
نگہ کے لیے تھمنا کی بجائے ٹھہرنا یا جمنا زیادہ اچھا ہو گا۔
خیالات میں اگر چہ گہرائی اور ندرت نہیں مگر لہجہ البتّہ تغزّل کا مجموعی تاثر اچھا پیش کررہا ہے۔

عاطف بھائی کچھ تدوین کی ہے
ملاحظہ فرمائیں
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
تازہ غزل برائے اصلاح حاضرِ خدمت ہے

زندگی درد کی آغوش میں سونا چاہے
اشکِ یادِ وفا مژگاں میں پرونا چاہے

ایک میں ہوں کہ شب و روز تجھے ہی مانگوں
ایک تُو ہے کہ کسی اور کا ہونا چاہے

رُکی یوں ماہ پہ جا کر نِگَہِ شوق مری

جیسے بچہ کوئی من بھایا کھلونا چاہے

لاکھ سمجھا کے اِسے دیکھ لیا میں نے مگر

تیرا غم ہےکہ رگِ جاں میں سمونا چاہے

ڈرے کیوں کرکسی گرداب کی سازش سے وہ
جس کو ساحل ہی سمندر میں ڈبونا چاہے

اٹھ گیا ہے تری محفل سے مِرا دل ساقی

اب کہیں گوشۂ تنہائی میں رونا چاہے

داغ دل پہ جو لگا ہے لگا رہنے دے رضاؔ

ترا آنسو ہے کہ تحفہ ترا دھونا چاہے







ٹیگ: اساتذہ کرام و برادران
فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعلن
رمل مثمن سالم مخبون محذوف و مسکن کے چاروں اوزان یکجا ہیں کہیں کہیں فعِلاتن کو مفعولن بھی باندھا ہے۔
اچھا ہے @ابن رضابھائی ۔۔آپ کی اجازت سے کچھ تبدیلیاں بطور مثال عرض ہیں ۔
رکی یوں کو یوں رکی کردیں جیسا کہ آپ نے ترا غم کو تیرا غم کیا ہے۔
اب کہیں کو اب تو بس بھی کیا جاسکتا ہے۔
مقطع کی ترتیب ۔
داغ جو دل پہ لگا ہے (یا سجا ہے )اسے رہنے دے رضاؔ
تیرا ہی آنسو نشانی تری دھونا چاہے۔وغیرہ وغیرہ۔۔گرداب والے مصرع کی بندش بھی کچھ اور بہتر ہو سکتی ہے۔
 
آخری تدوین:
Top