زندگی امتحان لیتی ہے

یوسف-2

محفلین
زندگی اور امتحان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بقول شاعر ع زندگی امتحان لیتی ہے (اور زندگی سے پیار کرنے والے) پریمیوں کی جان لیتی ہے۔ زندگی کے آغاز کے ساتھ ہی امتحان کابھی آغازہوجاتا ہے۔ ایک نومولود کو سب سے پہلے اس ”امتحان“ سے گذرنا پڑتا ہے کہ جیسے ہی اُسے بھوک پیاس لگے یا کوئی اور تکلیف دہ صورتحال کا سامنا ہو ، فوراََاپنی ماں کو اس بات کی ”اطلاع“ کردے کیونکہ ذرا سی تاخیر سے بھی اس کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ایک ایسا انسان جوا بھی ابھی اس دنیا میں آیا ہو، ماں کے علاوہ کسی اور سے اُس کی کوئی خاص ’واقفیت‘ بھی نہ ہو۔ نہ اُسے چلنا پھرنا آتا ہو اور نہ صحیح سے بولنا کہ بھوک پیاس لگتے ہی ماں کو ڈھونڈ کر اپنی ضرورت بتلا سکے۔ لیکن پھر بھی وہ رو دھو کر اپنی ’باڈی لینگویج‘ کی مددسے اپنی تمام ضروریات اُس وقت تک پوری کروانے میں کامیاب رہتا جب تک وہ خود چلنا پھرنا اور بولنا نہیں سیکھ جاتا ۔ حضرت انسان کی دنیا کے اس پہلے امتحان میں کامیابی کے بعد نہ ختم ہونے والے امتحانوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ، جو اُس کی موت تک جاری رہتا ہے ۔ موت کے بعد امتحانوں کی ایک دوسری سیریز کا آغاز ہوتا ہے۔ زندگی کے امتحانوں کی سیریز میں وہ امتحانات سر فہرست ہوتے ہیں، جنہیں طلبہ مخصوص کمرہ امتحان میں بیٹھ کر رسمی طور پر دیا کرتے ہیں۔ امتحانوں کی اس سیریز کا فائنل، داخلہ کا امتحان یا انٹری ٹیسٹ کہلاتا ہے۔ انٹری ٹیسٹ میں کامیابی کسی بھی پیشہ وارانہ تعلیمی ادارہ یا جامعہ میں داخلہ کی کنجی کہلاتی ہے۔ایک نسبتاََبہتر عملی زندگی میں داخل ہونے کے لئے اِس اِنٹری ٹیسٹ کامیاب ہونا اولین شرط ہے۔ آئیے ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ پیشہ وارانہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلباءکیسے کامیابی حاصل کرتے ہیں۔​

ارسلان نے انجینئرنگ کے شعبہ میں پیشہ ورانہ تعلیم کے لئے این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی کا انتخاب کیا تھا، لہٰذا اُس نے ایف ایس سی کے پرچوں کے ختم ہوتے ہی انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لئے شہر کے مشہور کوچنگ سینٹر کا رُخ کیا۔۔ دو گھنٹوں پر محیط یہ انٹری ٹیسٹ متعلقہ نصاب کے اہم مضامین سے تیار کئے گئے MCQs پر مبنی ہوتے ہیں یعنی ہر سوال کے کئی’ چوائس ‘میں سے درست جواب کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ جامعہ این ای ڈی کے انٹری ٹیسٹ میں پچاس فیصد نمبر حاصل کرنے والا طالب علم ہی اگلے مرحلہ میں میرٹ لسٹ کے لئے منتخب ہوتا ہے۔این ای ڈی یونیورسٹی میں میرٹ لسٹ صرف ایف ایس سی کے نمبروں کی بنیاد پر مرتب کی جاتی ہے یعنی اس میںداخلہ ٹیسٹ کے نمبروں کو شامل نہیں کیا جاتا۔ ارسلان کی بہن کو ڈاکٹر بننے کے لئے ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی میں داخل ہونا تھا۔ ہمارے ہاں انجینئرنگ کے مقابلہ میں میڈیکل کالجوں میںداخلہ ٹیسٹ کا معیار جدا ہے۔ گو کہ یہاں بھی داخلہ ٹیسٹ MCQs پر ہی مبنی ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں منفی مارکنگ بھی کی جاتی ہے۔ یعنی اگرطالب علم نے کسی سوال کا درست جواب دیا تو اسے ایک نمبر ملے گا اور اگر غلط جواب دیا تو اسے منفی ایک چوتھائی نمبر ملے گا۔اس بات کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ پرچہ کے کل ایک سَو سوالوں میں سے اگر کسی طالب علم نے ساٹھ سوالات کے درست اور چالیس سوالات کے غلط جواب دیئے توحاصل کردہ ساٹھ نمبروںمیں سے چالیس غلط جوابات کے دَس نمبر منہا بھی ہوں گے اور یوں اُسے عملاََ پچاس نمبر ملیں گے۔ میڈیکل کالجوں میں داخلہ کی میرٹ لسٹ میں انٹری ٹیسٹ کے نمبروں کا پچاس فیصد، ایف ایس سی کے صرف چار مضامین یعنی انگریزی، فزکس، کیمسٹری اور بائیو لوجی کے کل حاصل کردہ مارکس کا چالیس فیصد اور میٹرک کے حاصل کردہ فیصد مارکس کا دس فیصد نمبرشامل کیا جاتا ہے۔ گویا انجینئرنگ کے مقابلہ میں میڈیکل میں داخلہ ٹیسٹ کا معیار اور بھی سخت ہے۔اسی لئے عائشہ نے اپنے بھائی سے بھی زیادہ محنت اور لگن سے داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کی۔ دونوں نے مشق کی خاطر دیگر کالجوں اور جامعات کے انٹری ٹیسٹ بھی دیئے۔ الحمد للہ دونوں کی محنتیں رنگ لائیں اور وہ دونوں علی الترتیب جامعہ این ای ڈی اور ڈاؤ یونیورسٹی میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ واضح رہے کہ ایف ایس سی میں ساٹھ فیصد سے کم نمبر لانے والے طالب علموں کو انجینئرنگ اور میڈیکل کی میرٹ کی دوڑ سے پہلے ہی خارج کردیا جاتا ہے۔​

اپنے دونوں بڑے بہن بھائیوں کے بر عکس فرقان کو بزنس ایڈمنسٹریشن کا شوق تھا اور اس کی نگہ انتخاب مشہور تعلیمی ادارے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن، آئی بی اے پر تھی ۔ آئی بی اے کے لئے درکار تعلیمی قابلیت میں کم از کم ۵۶ فیصد مارکس ہونے ضروری ہیں۔ اس ادارے کا انٹری ٹیسٹ پیچیدہ اور مشکل ترین سمجھا جاتا ہے۔ انٹری ٹیسٹ تین حصوں پرمشتمل ہوتاہے۔ تحریری حصہ میںتین ذیلی پرچے ہوتے ہیں اور تینوں پرچوںمیں الگ الگ کامیاب ہونے کے علاوہ تینوں پرچوں کا مجموعی نمبر بھی مطلوبہ پاسنگ مارکس کے برابر ہونا لازمی ہے۔ گروپ ڈسکشن میں گروپ کے ہر رکن کو دئیے گئے عنوان پر مقررہ وقت کے اندر اندر فی البدیح تقریر کر نی ہوتی ہے، پھر سارے گروپ ارکان مل کر اس موضوع پر اجتماعی بحث مباحثہ کرتے ہیں۔ اس سارے عمل کو ایک ممتحن مسلسل جانچتا رہتاہے اور گروپ کے ہر رکن کو اس کی انفرادی کارکردگی کی بنیاد پر نمبر دیتا ہے۔ آئی بی اے کے انٹری ٹیسٹ کے تیسرے مرحلہ میں ہر طالب علم کا پینل انٹرویو لیا جاتا ہے ۔ جب تک طالب علم تینوں مرحلوںاور ہر مرحلہ کے تمام ذیلی شعبوں میں علیحدہ علیحدہ کامیابی حاصل نہیں کرتا، آئی بی اے میں داخلہ کا مستحق قرار نہیںپاتا۔ فرقان آئی بی اے کا یہ پیچیدہ اور مشکل ترین داخلہ ٹیسٹ پاس کر لیتا ہے۔ پاکستان کے دیگر تمام پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں اور جامعات میں بھی ایسے ہی ملتے جلتے انٹری ٹیسٹ ہوا کرتے ہیں۔ اپنے بہن بھائیوں کی مختلف داخلہ امتحانوں میں کامیابی نے ساتویں جماعت کے طالب علم عدنان کو ابھی سے اس ”مخمصہ“ میں مبتلا کردیا ہے کہ بالآخر اسے بھی ایسے ہی کسی انٹری ٹیسٹ سے گذرنا پڑے گا۔کیونکہ اپنی تمام تر ذہانتوں اور قابلیتوں کے باوجود عدنان فی الوقت ’نمبروں‘کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے ع کے نازک مرحلہ سے گزر رہا ہے۔​

عام انسانوں کے لئے دنیا میں کامیابی کی راہ ہموار کرنے میں مشہور و معروف تعلیمی ادارے اہم اور بنیادی کردار اداکرتے ہیں ۔ لیکن ان اداروں میں داخلہ کے لئے درکار تعلیمی قابلیت کے ساتھ ساتھ ان کے ”انٹری ٹیسٹ“ میں کامیابی حاصل کرنااولین شرط ہے۔عموماََ جب بچے انٹرپاس کرلیتے ہیں تب اِن کے والدین پوچھتے ہیں کہ بیٹا آگے کیا کرنا ہے یا آگے کیا پڑھنا ہے۔ اور بچہ اپنے حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پرجواب دیتا ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے، یا وہ کیا کرسکتا ہے۔ ماہرینِ تعلیم کا کہنا ہے کہ والدین کا یہ رویہ سراسر غلط ہے۔وہ کہتے ہیں کہ والدین کو بچہ کے انٹر میں داخل ہونے سے پہلے ہی باہم مشورہ کرکے یہ طے کرلینا چاہئے کہ بچہ انٹر کس مقصد کے تحت کرنا چاہتا ہے اور انٹر کے بعد اسے کس شعبہ یا کس تعلیمی ادارے میںداخل ہونا ہے اور وہاں کے انٹری ٹیسٹ کے قواعد و ضوابط کیا ہیں۔ارسلان، عائشہ اور فرقان کے معاملہ میں ایسا ہی کیا گیا، چنانچہ انہوں نے مشہور و معروف تعلیمی اداروں کے انٹری ٹیسٹ میں احسن طریقہ سے کامیابی حاصل کرلی۔ہم سب اس حقیقت سے توبخوبی واقف ہیں کہ معروف تعلیمی اداروں کے انٹری ٹیسٹ میں کامیابی، دنیا میں ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہے۔لیکن بہت کم لوگوں کی توجہ اس جانب ہوتی ہے کہ اوسطاََ پچاس ساٹھ سالہ کامیاب ترین دُنیوی زندگی کے اختتام پر ہمارے سامنے ایک اور نئی اور خوبصورت دنیا ہماری منتظر ہوتی ہے، جسے جنت کہتے ہیں۔ اور ہم سب کو ایک اور’ انٹری ٹیسٹ ‘کا سامناکرنا ہوتا ہے جسے ، ’جنت انٹری ٹیسٹ‘ کہا جاسکتا ہے۔​

جنت کاعیش و آرام دُنیوی عیش و آرام سے بہت زیادہ ہے۔دنیا میں کامیاب ترین، امیر ترین اور بلند ترین منصب تک پہنچنے والے فرد کی کہانی زیادہ سے زیادہ ایک صدی پرمحیط ہوتی ہے۔ جب کہ مرنے کے بعد والی دنیا کی زندگی لا متناہی یعنی نہ ختم ہونے والی زندگی ہے۔ اور اُس اُخروی دنیا کا سارا عیش و آرام اور مزہ جنت میںرکھ دیا گیا ہے۔ اور جنت میں داخلہ کے لئے جنت انٹری ٹیسٹ پاس کرنا ضروری ہے۔ جو لوگ اس جنت انٹری ٹیسٹ میں ناکام ہوں گے، وہ نہ صرف یہ کہ جنت کی آرام و عیش سے محروم رہیں گے، بلکہ جنت سے محرومی کی صورت میں انہیں لازماََ جہنم میں داخل ہونا پڑے گا۔ جہنم کے بارے میں یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ یہاں جنت کے بالعکس ماحول پایا جاتا ہے۔ اسی لئے کوئی بھی فرد جہنم میں داخل ہونے کو تیار نہیںملتا۔ لیکن طُرفہ تماشہ یہ ہے کہ جہنم میں داخل نہ ہونے کے خواہشمند افراد بھی جنت انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرنا تو درکنار، جنت انٹری ٹیسٹ کے پرچوں اور قواعد و ضوابط تک سے نا آشنا نظر آتے ہیں۔ابھی ہم نے میڈیکل، انجینئرنگ اور بزنس ایڈمنسٹریشن کے اہم ترین تعلیمی اداروں کے انٹری ٹیسٹ کے طریقہ کار پر تفصیلی گفتگو کی ہے تاکہ ان تعلیمی اداروں میں داخلہ کے خواہشمند انٹر کے طالب علم نہ صرف یہ کہ انٹری ٹیسٹ کے قواعد و ضوابط سے آگاہ ہوجائیں، بلکہ ان قواعد و ضوابط کے عین مطابق متعلقہ انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لئے ذہنی طور پراپنے آپ کو تیار بھی کرلیں۔ کیونکہ انٹری ٹیسٹ میں کامیاب ہوکر ہی وہ دنیا میں کامیابی و کامرانی حاصل کرسکتے ہیں۔​

آیئے اب جنت انٹری ٹیسٹ کی بات کرتے ہیں، تاکہ جب عمر کی نقدی ختم ہو جائے اور جنت انٹری ٹیسٹ میں کامیابی کا پروانہ، نامہ اعمال کی صورت میں ہمارے ہاتھ میں ہو تو ہم اِس دنیا سے دوسری دنیا میں منتقل ہوتے ہی جنت کی سہولتوں سے استفادہ شروع کرسکیں۔ جنت انٹری ٹیسٹ کے بارے میںسورة العصر میں زمانے کی قسم کھاتے ہوئے اللہ تبارک تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیںکہ بے شک تمام انسان خسارے میں ہیں ، ماسوائے اُن لوگوں کے جو چار باتوں یعنی ایمان، عمل صالح، حق کی تلقین اور صبر پر عمل پیرا رہے۔ یہ چار باتیں درحقیقت ’ جنت انٹری ٹیسٹ ‘کے چار الگ الگ پرچے ہیں۔ جنت میں داخلہ کے لئے ان چاروں پرچوں میں الگ الگ کامیابی حاصل کرنا لازمی ہے۔ ایمان کے پرچہ میں اللہ اور اُ س کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتلائی ہوئی تمام باتوں پر اسی طرح ایمان لانا ہے جیسا کہ ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے ۔اعمال صالحہ یعنی نیک اعمال والے پرچہ میں وہ سب کچھ لازماََ کرناہے، جس کا قرآن ا ور حدیث میں، امر بالمعروف کے ضمن میں حکم دیا گیا ہے اور ان تمام باتوںسے لازماََ رُکنا ہے ، جس کا ذکر نہی عن المنکر کے ضمن میںکیا گیا ہے۔ اگر ہم اپنے ایمان کا جائزہ لیں تو کم و بیش تمام مسلمان کسی نہ کسی حد تک ایمان والے پرچہ میں کامیاب ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح صالح اعمال والے پرچہ میں بھی ہماری کچھ نہ کچھ کاردگی ضرور ہوتی ہے۔ البتہ اس بات کا جائزہ لیتے رہنے کی ہر وقت ضرورت رہتی ہے کہ کہیں ہم ان پرچوں میںمطلوبہ پاسنگ مارکس سے بھی کم نمبر والی کارکردگی تو نہیں دکھارہے۔ قرآنی اوامر و نواہی کی کسوٹی سے ہم بخوبی ان دو اولین پرچوں میں اپنی اپنی کارکردگی کا جائزہ لے سکتے ہیں۔​

لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ہم بالعموم ایمان اور عمل صالح کے مرحلہ پر ہی رُک جاتے ہیں۔ اور اپنی ساری کاوشیں ان دونوں پرچوں میں خوب سے خوب تر کارکردگی دکھانے میں صرف کردیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جنت انٹری ٹیسٹ کے دو مزید مراحل حق کی تلقین اور صبر بھی ہیں۔ ایمان اور عمل صالح کے بعد جب تک ہم ان دو امور پر بھی مطلوبہ توجہ نہیں دیتے،جنت انٹری ٹیسٹ میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ کیا آئی بی اے انٹری ٹیسٹ کے تین تحریری، دو بات چیت اور ایک انٹرویو یعنی کُل چھ مراحل میں سے صرف تین مرحلوں میں اعلیٰ کارکردگی دکھلانے والا طالب علم آئی بی اے میں داخل ہوسکتا ہے، جبکہ بقیہ تین مراحل میں اس نے کوئی کارکردگی ہی ظاہر نہ کی ہو یا ان میں ناکام رہا ہو۔ جب ایک دُنیوی تعلیمی ادارے میں داخل ہونے کے تمام مراحل میں کم از کم کارکردگی دکھانی لازمی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ جنت انٹری ٹیسٹ کے کُل چار مراحل میں سے دو میں ہماری کوئی کاردگی ہی نہ ہو اور ہم جنت میں داخل بھی ہوجائیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ صاف صاف کہہ رہے ہیں تمام لوگ خسارے میں ہیں ماسوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لا کر عمل صالح کرتے رہے، حق کی تلقین و تبلیغ کرتے رہے اور ان مراحل کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات پر صبر کرتے رہے۔حق کی تلقین کے بعد خصوصاََ صبر کرنے کا ذکر اس لئے بھی کیا گیاہے کہ حق کی تلقین یعنی فرامینِ قرآن و حدیث کی تبلیغ کا لازمی نتیجہ مشکلات و مصائب کو دعوت دینا ہے۔ حق کی تبلیغ کا سب سے زیادہ کام انبیاءعلیہ السلام نے کیا اور انہیں ہی سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ چنانچہ ہر مشکل اور تکلیف پر انہوں نے صبر سے کام لیا۔ اگر کوئی انسان جنت انٹری ٹیسٹ میں کامیاب ہوکر جنت میں داخل ہونا چاہتا ہے تو اُس کے لئے لازمی ہے کہ وہ ایمان لا کر عمل صالح اختیارکرے اور ساتھ ساتھ اپنے گرد و پیش میں موجود لوگوں کو حق کی تلقین بھی کرتا رہے اور اس تلقین و تبلیغ کی راہ میں مصائب و مشکلات پیش آئیں تو اس پردل سے صبر بھی کرے۔ اللہ ہر انسان کو جنت انٹری ٹیسٹ کے چاروں پرچوں میں کامیاب کرے تاکہ وہ ابدی خسارے سے بچ کر جنت میں داخلہ کا آئی ڈی کارڈ حاصل کرسکے ۔ بالکل اسی طرح جیسے ارسلان اور اس کے بہن بھائی نے اپنے اپنے انٹری ٹیسٹ میں کامیابی کے بعد متعلقہ تعلیمی ادارے میں داخلہ کا آئی ڈی کارڈ حاصل کیا اور جس کی تمنا عدنان اپنے دل میں لئے بیٹھا ہے۔٭٭٭
عاطف بٹ فرحت کیانی نیرنگ خیال
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ہم بالعموم ایمان اور عمل صالح کے مرحلہ پر ہی رُک جاتے ہیں۔ اور اپنی ساری کاوشیں ان دونوں پرچوں میں خوب سے خوب تر کارکردگی دکھانے میں صرف کردیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جنت انٹری ٹیسٹ کے دو مزید مراحل حق کی تلقین اور صبر بھی ہیں۔ ایمان اور عمل صالح کے بعد جب تک ہم ان دو امور پر بھی مطلوبہ توجہ نہیں دیتے،جنت انٹری ٹیسٹ میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
تحریر کا نچوڑ ہے یہ۔ ہمارے رویوں کی عکاسی کرتی تحریر ہے یہ۔ بلاشبہ ایمان، یقین بہت پیچھے ہی رہ گیا ہے۔ مجھے تو ایمان اور عمل صالح پر بھی شک ہی ہے۔ کہ کتنے لوگ ہیں جو بنیادی و عمومی ایمان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔​
تحریر کا نچوڑ ہے یہ۔ ہمارے رویوں کی عکاسی کرتی تحریر ہے۔ بلاشبہ حق کی تلقین اور صبر بہت پیچھے ہی رہ گیا ہے۔ مجھے تو ایمان اور عمل صالح پر بھی شک ہی ہے۔ کہ کتنے لوگ ہیں جو بنیادی و عمومی ایمان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔
 

یوسف-2

محفلین
کلاسیک سنتے ہوں شاید
جی درست فرمایا۔ زمانہ جہالت (اپنی :p ) میں غزلیں گیت وغیرہ سننے کا شوق تھا۔ یہ گانا اُن دنوں سننے کو ملا، جب ہم نے بطور ”ٹرینی“ اپنے باقاعدہ کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ انڈسٹریز میں عموماً سینئرز اپنا ورک لوڈ بھی ٹرینیز کے شانوں پر ڈال دیتے ہیں۔ اس گانے کے بول اس لئے بھی یاد رہ گئے کہ ہم نے اسی پس منظر میں اس گانے کی ”پیروڈی“ کچھ یوں کی تھی۔ کمپنی امتحان لیتی ہے، ٹرینیوں کی جان لیتی ہے :D
 

عسکری

معطل
جی درست فرمایا۔ زمانہ جہالت (اپنی :p ) میں غزلیں گیت وغیرہ سننے کا شوق تھا۔ یہ گانا اُن دنوں سننے کو ملا، جب ہم نے بطور ”ٹرینی“ اپنے باقاعدہ کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ انڈسٹریز میں عموماً سینئرز اپنا ورک لوڈ بھی ٹرینیز کے شانوں پر ڈال دیتے ہیں۔ اس گانے کے بول اس لئے بھی یاد رہ گئے کہ ہم نے اسی پس منظر میں اس گانے کی ”پیروڈی“ کچھ یوں کی تھی۔ کمپنی امتحان لیتی ہے، ٹرینیوں کی جان لیتی ہے :D

دیکھا میں نے ٹھیک کہا تھا نا یہ آپ کا جانا پہچانا گانا تھا :p
 

bilal260

محفلین
زندگی امتحان لیتی ہے
دو دلوں کی جان لیتی ہے۔
یہ کیا آپ نے گانے سے متا ثر ہو کر موضوع چناہے۔
انتہائی مفید باتیں ہیں۔
شکریہ۔
 
Top