زمانے نے مجھ کو بہت ہے ستایا------------برائے اصلاح

الف عین
سید عاطف علی
ظہیراحمدظہیر
-----------
زمانے نے مجھ کو بہت ہے ستایا
مگر ان کے آگے نہیں سر جھکایا
----------
ترا مجھ کو یا رب سہارا ہے کافی
گدا بن کے تیرے میں در پر ہوں آیا
----------
تری میں کریمی پہ قربان جاؤں
کیا فضل مجھ پر جو در پر بلایا
-----------
گناہوں کا دل پر پڑا بوجھ بھاری
ندامت سے سر کو جھکا کر ہوں آیا
---------
ترا مجھ پہ یا رب کرم کیا یہ کم ہے
مجھے فہم دے کر جو انساں بنایا
---------
مرا کچھ نہیں ہے ترا سب ہے مولا
تجھی نے مجھے ہے کھلایا پلایا
--------
ترا شکر کرنا ہے واجب سبھی پر
زمیں پر تصرّف کے قابل بنایا
-------------
کرے شکر تیرا بھلا کیوں نہ انساں
تجھی نے فضاؤں میں اڑنا سکھایا
----------
خدایا ترا شکر کرتا ہے ارشد
اسے تُو نے اپنے ہے در پر بلایا
--------یا
اسے امّتی ہے نبی کا بنایا
----------------
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ارشد بھائی آپ کے اشعار میں زبان کا استعمال کچھ عجیب ہوتا ہے، بار بار میں کہتا ہوں کہ الفاظ بدل بدل کر دیکھیں کہ کون سا رواں ترین ہے۔ اب اسی مصرع کو لیں
تری میں کریمی پہ قربان جاؤں
کو کیا
کریمی پہ تیری میں قربان جاؤں
میں قربان جاؤں کریمی پہ تیری
اسی طرح ہر مصرعے کو ایک بار خود دیکھ لیں جانے سے پہلے، ورنہ جب فرصت ملے، تب یہ ایکسرسائز کر لیں۔ ورنہ پھر میں تو ہوں ہی، بشرطے زندگی
 

الف عین

لائبریرین
مزید یہ کہ ردیف بھی ایسی چنی ہے آپ نے کہ 'آیا ہے' کو 'ہے آیا' بنانا پڑتا ہے۔جو کہ روانی کے اعتبار سے ثقیل ہے
 
الف عین
(اصلاح کی کوشش)
------
زمانے نے مجھ کو بہت ہے ستایا
مگر ان کے آگے نہیں سر جھکایا
----------
ترا بس سہارا ہی کافی ہے مجھ کو
تبھی تیرے در پر گدا بن کے آیا
----------
کریمی پہ تیری میں قربان جاؤں
کیا فضل مجھ پر جو در پر بلایا
-----------
گناہوں کا پتھر اٹھانا ہے مشکل
----یا
گناہوں پہ اپنے میں نادم ہوں یا رب
ندامت کے آنسو لئے میں ہوں آیا
---------
ترا مجھ پہ یا رب کرم کیا یہ کم ہے
مجھے فہم دے کر جو انساں بنایا
---------
خزانے ہیں تیرے مرا کچھ نہیں ہے
---------یا
مرا کچھ نہیں ہے ترے اس جہاں میں
تجھی نے ہے مجھ کو کھلایا پلایا
--------
ترا شکر کرنا ہے واجب سبھی پر
زمیں پر تصرّف کے قابل بنایا
-------------
کرے شکر تیرا بھلا کیوں نہ انساں
تجھی نے فضاؤں میں اڑنا سکھایا
----------
مجھے تُو نے توبہ کی توفیق بخشی
گناہوں سے بچنا مجھے پھر سکھایا
---------
خدایا ترا شکر کرتا ہے ارشد
اسے تُو نے اپنے ہے در پر بلایا
--------یا
اسے امّتی ہے نبی کا بنایا
----------------
 

الف عین

لائبریرین
آپ گریڈ کے بعد سے محفل میں کاپی کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے موبائل یا ٹیبلیٹ پر، یعنی ہاتھ سے، ماؤس یا فزیکل کی بورڈ سے ہی ممکن ہے، اس لئے مجھے سلیکٹ آل کر کے سارا پیسٹ کرنا پرتا ہے، اور پھر غیر ضروری مواد ڈلیٹ کرنا پڑتا ہے۔ آئندہ میں اقتباس لے کر اسی میں اصلاح کرنے کی کوشش کروں گا

زمانے نے مجھ کو بہت ہے ستایا
مگر ان کے آگے نہیں سر جھکایا
---------- درست

ترا بس سہارا ہی کافی ہے مجھ کو
تبھی تیرے در پر گدا بن کے آیا
----------ترا بس.... یہ ترا مرا تری مری سے مصرع شروع کرنا آپ کا ٹرید مارک سٹائل بن گیا ہے
بس سہارا میں تنافر بھی ہے
سہارا ہی تیرا مجھے بس ہے کافی
ایک امکان جو فوری ذہن میں آیا

کریمی پہ تیری میں قربان جاؤں
کیا فضل مجھ پر جو در پر بلایا
----------- کریمی اور فضل کیا، ایک ہی بات لگتی ہے، اس کی بجائے دوسرا مصرع یوں ہو تو بات پر اثر اور رواں ہو جائے گی
مجھے اپنے در پر جو تو نے بلایا
اس بیانیہ میں 'اپنے' کے اضافے سے بات واضح تر بھی ہو جاتی ہے

گناہوں کا پتھر اٹھانا ہے مشکل
----یا
گناہوں پہ اپنے میں نادم ہوں یا رب
ندامت کے آنسو لئے میں ہوں آیا
--------- درست، دوسرا متبادل بہتر ہے

ترا مجھ پہ یا رب کرم کیا یہ کم ہے
مجھے فہم دے کر جو انساں بنایا
--------- پہلا مصرع اب بھی رواں نہیں
کرم مجھ پہ تیرا یہ کیا کم ہے یا رب
یا کچھ اور

خزانے ہیں تیرے مرا کچھ نہیں ہے
---------یا
مرا کچھ نہیں ہے ترے اس جہاں میں
تجھی نے ہے مجھ کو کھلایا پلایا
-------- یہ دو لخت لگتا ہے، اسے نکال ہی دیں

ترا شکر کرنا ہے واجب سبھی پر
زمیں پر تصرّف کے قابل بنایا
------------- کس کو قابل بنایا؟ واضح کیا جائے

کرے شکر تیرا بھلا کیوں نہ انساں
تجھی نے فضاؤں میں اڑنا سکھایا
---------- انسان خود سے تو نہیں آتا!
اسے تو نے اڑنے کے قابل بنایا
شاید بہتر ہو

مجھے تُو نے توبہ کی توفیق بخشی
گناہوں سے بچنا مجھے پھر سکھایا
--------- مجھے پھر گناہوں سے بچنا سکھایا
بہتر ہو گا

خدایا ترا شکر کرتا ہے ارشد
اسے تُو نے اپنے ہے در پر بلایا
--------یا
اسے امّتی ہے نبی کا بنایا
------------- دوسرا متبادل بہتر ہے
 
آخری تدوین:
Top