فارسی شاعری زحالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں ۔ امیر خسرو

فاتح

لائبریرین
فاتح بھائی امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور غزل ’’چھاپ تلک سب چھین لی موں سے نیناں ملائی کے‘‘ کا ترجمہ بھی فرما دیں تو کیا کہنے۔۔
سنا ہے کہ فارسی بہت میٹھی زبان ہے ، اس غزل کے ترجمے کو پڑھ کر یہ زبان سیکھنے کا دل چاہ رہا ہے
بہت شکریہ فاتح بھائی کم علموں کی علم کی پیاس بجھانے کا ، امید ہے کہ انتہا کی بات پر غور فرمائیں گے
آپ کی جانب سے پسند کرنے پر بہت شکریہ۔ جیسا آپ نے حکم فرمایا، میں کوشش کرتا ہوں۔
 

مقدس

لائبریرین
واہ واہ کیا بات ہے
ذرا مجھے بھی بتائیں کس سے سیکھ رہے ہیں مجھے بھی ٹیوشن کی ضرورت ہے آج کل
 
لیجیے آپ جیسے اتالیق و مرشد و ولیِ کامل نے بھی نے ہاتھ اٹھا لیے۔۔۔ اب کس سے رہنمائی مانگیں :(
بروز محشر جب ولی اور مددگار بلانے کی بات آئے گی تو آپ ہمیں گھسیٹ کر آ گے کر دیں گے۔ اب آپ کی "سیہ کاریاں بشکل مشترکہ چغلیاں" اتنی زیادہ ہیں کہ ہم کس کس بات کی دہائی دیں گے۔ بھئی ہم تو ابھی سے ہاتھ کھڑے کر رہے ہیں۔ :)
 
غزل

زحالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں


شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمرِ کوتاہ
سکھی! پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں


یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببردِ تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں


چوں شمعِ سوزاں، چوں ذرہ حیراں، ہمیشہ گریاں، بہ عشق آں ما
نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں، نہ بھیجیں پتیاں


بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں

(حضرت امیر خسرو)

فاتح بھیا یہی کلام مجھے ’’اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘‘ از ڈاکٹر سلیم اختر میں یوں ملا ہے۔ اسے بھی ملاحظہ کیجئے!

زحال ِ مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں ملائے بتیاں
چو تابِ ہجراں ندارم اے جاں، نہ لیو گاہے لگائے چھتیاں

شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلش چو عمر کوتہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببرو تسکیں
کسے پڑی ہے کہ جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں

جو شمع سوزاں چو ذرہ حیراں ہمیشہ گریاں بعشق آں مہ
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں

بحق آں مہ کہ روز محشر بداد مارا فریب خسرو
سپیت من کی دوراہے راکھوں جو جائے پائوں پیا کی کھتیاں

امیر خسرو کا ہندوی کلام مع نسخہ برلن ذخیرہ اشپر نگر ص:46

اس غزل کے ضمن میں یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ آب حیات اور بعض دیگر کتب میں املا اور بعض الفاظ کا فرق بھی ملتا ہے مثلا مطلع یوں ہو گیا ہے:
زحال مسکیں مکن تغافل دوائے نیناں بنائے بتیاں
چو تاب ہجراں ندارم اے جاں، نہ لیہو کا ہے لگائے چھتیاں

مخزن نکات از قائم چاند پوری مرتبہ ڈاکٹر اقتدا حسن
 

تلمیذ

لائبریرین
امیر خسرو کی نہایت عمدہ غزل شئیرکی ہے آپ نے، فاتح صاحب اور ترجمے کی کاوش بھی قابل ستائش ہے۔ آخری شعر

بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
اس شعر کا ترجمہ نہیں کر پایا۔ فارسی و ہندی کے ماہرین کی توجہ درکار ہے۔

کے لئے جناب @محمدوارث صاحب سے گذارش ہے۔ ویسے تو وہ آج کل محفل میں کم کم ہی طلوع ہوتے ہیں، لیکن کیا پتہ ہماری عرضداشت پر ان کی نظر پڑ ہی جائے۔ (اگر انہیں ٹیگ نہ ہوسکا ہو تو براہ کرم درست کر دیں۔)
 

اوشو

لائبریرین
جس تن لاگی سو تن جانے
واہ فاتح بھائی!
کیا خوب ترجمہ کیا ہے۔ اس کلام کی نغمگی تو سمجھ میں آئے بغیر ہی انسان پر وارفتگی طاری کر دیتی ہے۔ اور سمجھ کر پڑھی سنی جائے تو دو آتشہ جام۔
آپ کا بہت بہت شکریہ۔
 

عاطف بٹ

محفلین
شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمر کوتاہ
سکھی، پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
فارسی اور برج بھاشا کے امتزاج سے کہی گئی خسرو کی ایک بہت ہی عمدہ غزل۔
شیئر کرنے کے لئے شکریہ
 
بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
ابھی ابھی اس شعر پر سے نظر گزری ہے
پہلے تو شعر کا دوسرا مصرعہ میں لفظ من کے غلط مندرج ہے یہ منکے ہے
اس شعر کا ترجمہ کوئی آسان کام نہیں ہے اس مقطع میں امیر خسرو نے حد تمام کردی ہے
میں ناچیز کوشش کرتا ہوں ترجمہ کرنے دراصل یہ شعر سمجھنے میں آرہا ہے لیکن آپ لوگوں کو سمجھانا بہت مشکل ہے کیونکہ اس کے لیئے ہندی معاشرت کی بھی ضرورت ہے جو آپ لوگوں کو نہیں پتہ بہرحال اب ہندی چینلز نے یہ کسر پوری کردی ہے۔
وصال کے دن خسرو پر یہ رازآشکارا ہوا کہ وہ فریب خوردہ ہے ۔ یہ تو پہلے مصرعہ کا ترجمہ ہوا ۔
سپیت کا مطلب ہے سفید۔۔۔۔منکے مطلب جو فقیروں کے کے گلے میں ہار کی شکل میں لٹکے ہوتے ہیں ۔۔۔۔ورائے راکھوں ۔۔۔۔یعنی راکھ کی شکل میں ۔۔۔۔جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں۔۔۔یعنی جس مقام یا محبوب تک ہم جوتیاں گھساتے ہوئے پہنچے ہیں۔
بامحاورہ ترجمہ:
محبوب جو کہ کثرت میں وحدت کے جلوے دکھا رہا ہے اس نے کمال ہوشیاری سے اپنے آپ کو چھپا رکھا ہے اس نے اپنے جسم پر سفید منکوں کی راکھ کا بھبھوت مل رکھا ہے۔ منکہ کا مطلب گردن بھی ہوتا ہے یعنی اپنی سفید گردن پر راکھ کا بھبوت مل رکھا ہے۔ جب خسرو جوتیاں گھساتا ہوا مطلوب تک پہنچا تو یہ راز آشکارا ہوا کہ یہ تو فریب ہے جس محبوب حقیقی کی تلاش (یعنی اللہ تبارک تعالیٰ ) میں خسرو ادھر تک پہنچا یہ تو اس کا جلوہ ہے۔ اس موقع پر کیا خوبصورت کلام یاد آیا جس کا حق نصرت فتح علی خان نے ادا کردیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ بے حد رمزاں دَس دا میرا ڈھولن ماہی​
 

غدیر زھرا

لائبریرین
میں نے سوچا انگلش ٹرانسلیشن شئیر کر دوں تا کہ جس شعر کا ترجمہ اردو میں کرنے میں دقت ہے شاید اس میں کچھ آسانی ہو جائے :)

Do not overlook my misery
Blandishing your eyes, and weaving tales;
My patience has over-brimmed, O sweetheart,
Why do you not take me to your bosom.


The nights of separation are long like tresses,
The day of our union is short like life;
When I do not get to see my beloved friend,
How am I to pass the dark nights?


Suddenly, as if the heart, by two enchanting eyes
Is beset by a thousand deceptions and robbed of tranquility;
But who cares enough to go and report
To my darling my state of affairs?


The lamp is aflame; every atom excited
I roam, always, afire with love;
Neither sleep to my eyes, nor peace for my body,
neither comes himself, nor sends any messages


In honour of the day of union with the beloved
who has lured me so long, O Khusrau;
I shall keep my heart suppressed,
if ever I get a chance to get to his place
 
Top