زاویہ

شمشاد

لائبریرین
ایک معصوم بیٹی کی کہانی

اتنی ساری بیٹیوں کی موجودگی میں آدمی کا دل بہت خوش ہوتا ہے اور اس کو ہمیشہ بڑی تقویت ملتی ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ بیٹا مطلوب ہوتا ہے، اور بیٹی لاڈلی ہوتی ہے۔ اس کی جگہ وہ نہیں لے سکتی اور اس کی جگہ وہ نہیں لے سکتا، لیکن اگر حساب لگا کر دیکھو اعداد و شمار کے مطابق تو بیٹی کا نمبر ہمیشہ اوپر ہی رہتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ طے شدہ بات ہے کہ عورت کا احترام بہت ہے۔ جب آپ باہر نکل کر دیکھیں تو ہر ایک شے کے اوپر آپ کو ماں کی دعا لکھا ہوا ملے گا۔ پپو کی دعا کہیں بھی نہیں۔ ایک بھی رکشہ پر نہیں لکھا ہوتا۔ عورت ماں کے روپ میں ہو، بیٹی کے روپ میں، بہن کے روپ میں ہو، عورت کی بڑی عزت دلوں میں ہوتی ہے۔ جھگڑے وگڑے ہو جاتے ہیں، لیکن بابا کو اپنی بیٹی اور بیٹیاں ہمیشہ بہت پیاری اور بہت لاڈلی ہوتی ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ یورپ کے کچھ ملک یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے یہاں پر عورت کی عزت نہیں ہے اور اس کے ساتھ بُرا برتاؤ کیا جاتا ہے، اور کچھ ادارے انہوں نے اس طرح کے بنا دیئے ہیں کہ چیک کرنے کے لیے کہ کیا واقعی بُرا برتاؤ ہوتا ہے۔

کافی دیر کی بات ہے کہ میرے دفتر میں آیا ایسے ہی ایک ادارے کا آدمی، وہ بڑا بھلا سا نیک سا نوجوان تھا، جرمنی کا۔ اور جرمنی کے لوگ تحقیق کے معاملے میں اتنے ضدی، اتنے کڑوے اور اتنے کسیلے نہیں ہوتے۔ وہ بات کی تہہ تک پہنچ کے اس کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ لیکن وہ بیچارہ آیا تھا بہت سارے تصورات لے کر اپنے ذہن میں کہ میں پاکستان جا رہا ہوں اور اس کے بارے میں یہ یہ کہانیاں موجود ہیں۔ تو اس نے میرے دفتر میں مجھ سے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ سر You don't mind if I ask you direct question کہ آپ اپنی بیوی کو صبح کے وقت مارتے ہیں یا شام کو مارتے ہیں؟ تو میں نے کہا، شام کے وقت۔ میں دفتر سے تھکا ہارا جاتا ہوں تو ٹھیک طرح سے مار نہیں سکتا اس لیے میں صبح جب میں فریش ہوتا ہوں تو بانو قدسیہ کو “ کھڑکا “ جاتا ہوں۔

بے چارے کو بڑی کوفت ہوئی۔ کہنے لگا، آپ تو بڑے اچھے آدمی لگتے ہیں۔ میں نے کہا یہ تو کوئی بات نہیں۔ ویسے ہماری جو محبت آپس کی ہے وہ چلی آ رہی ہے۔ چاہے آپ کتنا بھی ہمارے خلاف پروپیگنڈا کریں، اس کا اثر مجھ پر یا میری بچیوں پر یا میرے بچوں پر نہیں ہو گا۔

ایسے ہی بارہ پندرہ برس پہلے کی بات ہے۔ یہ بچے بڑے پیارے لوگ ہوتے ہیں، اور بڑے اڑیل ہوتے ہیں، بڑے ضدی ہوتے ہیں، اور بہت زمین پر پاؤں مار کر اپنی بات منوانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ میں چونکہ اس عمر میں ہوں، اور میں نے بہت سے زمین پر پاؤں بجتے سنے ہیں، اور میں نے اس کے آگے سر جھکایا ہے، تو میرے دفتر میں پانچ چار نوجوان طالب علم آ گئے۔ ان مین تین لڑکیاں تھیں اور دو لڑکے تھے، اور وہ پولیٹیکل سائنس کے 6th year میں تھے۔ اسے آپ کیا کہتے ہیں، Second Part کے سٹوڈنٹ تھے۔ ان میں ایک تھی، اس کا نام کلثوم تھا۔ ایک کا یاسمین، ایک کا مجھے یاد نہیں، اسے ببلی ببلی کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ کچھ زیادہ بولی نہیں، اور دو لڑکے تھے، نوجوان بڑے اچھے تھے پیارے خوش شکل۔

کلثوم ان کی لیڈر تھی، اور اس کے چہرے کے اوپر کچھ نشان تھے۔ لڑائی جھگڑے کے دھبے۔ جب یہ لوگ میرے دفتر میں آئے تو کلثوم آتے ہی دھم سے صوفے پر بیٹھ گئی، اور کہنے لگی، انکل ہم نے دیکھا ہے، آپ کا معاشرہ، اور ہم نے دیکھا ہے آپ کا مذہب، اور سب لوگ جو ہیں بڑے چالاک اور بے ایمان، اور سخت ہوتے ہیں۔ ہم لڑائی کر کے آئے ہیں۔ میں نے کہا، کیا ہو گیا۔ اس نے کہا، میرا نام یہ ہے، اور یہ میرے ساتھ میری کلاس فیلو، ان کا نام یہ ہے، اور ان کی نام یہ ہے۔ تو تعارف کرانے کے بعد اس نے کہا، آپ بڑے مامے بنتے ہیں اخلاقیات کے اور دین کے۔ میں نے کہا، ہو کیا گیا؟ کہنے لگی، ہم سپہنوں ( خواتین پولیس اہلکار) سے لڑ کے آئے ہیں۔ انہوں نے جلوس وغیرہ نکالا ہو گا۔ آگے سپہنیں ہوتی ہیں۔ بے چاری اچھی ہوتی ہیں۔ ان کو حکم جو ہوتا ہے، ان کو روکو تو ان کی مڈبھیڑ ہو گئی۔ ہمارے لاہور میں ایک جگہ ہے جہاں یہ T.V وغیرہ بہت بکتے ہیں، ہال روڈ۔ اس کے اوپر جھگڑا تھا۔ میں نے کہا، جھگڑا کس بات پر ہو گیا؟ تو اس نے کہا، جی یہ کیا قانون بنایا ہے آپ نے، لوگوں سے خوامخواہ کہا کہ ہمارے حقوق آدھے ہیں، مردوں کے پورے۔ کہنے لگی یہ کیا بات ہوئی کہ عورت قتل ہو جائے تو آدھی دیت اور مرد قتل ہو جائے تو زیادہ۔ میں نے کہا، تم نے اس پر جلوس کیوں نکالا، یہ تو مجھے جلوس نکالنا چاہیے تھا۔ میں نکالوں گا کل سے جلوس، یہ تو کمال کی بات ہے۔ وہ غصے میں تھی، کہنے لگی۔ آپ کیوں جلوس نکالیں گے۔ میں نے کہا، میں اس لیے جلوس نکالوں گا کہ یہ بڑی زیادتی کی بات ہے کہ میں مر جاؤں گا تو بانو قدسیہ کو ایک لاکھ روپیہ مل جائے گا۔ وہ مرے تو مجھے پچاس ہزار ملیں گے۔ یہ تو الٹا ہو گیا کام۔ کہنے لگی، ہاں ہم تو پھر جلوس نکال کے آئے ہیں۔ میں نے تو یہ الٹا جلوس نکال دیا تمہارا۔ میں تو یہ چاہوں گا کہ اگر میری بیوی خدانخواستہ قتل ہو جائے تو مجھے چار پانچ لاکھ ملیں۔ میں مارا جاؤں تو میری بیوی کو 25-26 روپے مل جائیں۔ تا کہ اس کو کوئی سزا ملے۔ اس کی ساتھی کہنے لگی، دیکھو یاسمین میں نے تم سے کہا تھا نا کہ انکل کے پاس نہیں جانا۔ یہ ہمیشہ ایسی الٹ بات کرتے ہیں۔ میں تو اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ تو کہنے لگی، یہ ہم نے دیکھا ہوا ہے۔ آپ کا یہ سب فلسفہ، میں آپ کی پرواہ نہیں کرتی۔ میں اپنی زندگی بسر کرنا چاہتی ہوں۔ ہم سارے اپنی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ پرانے دقیانوسی دھات، پتھر کے زمانے کی چیزیں، اس زمانے کی آپ نے اخلاقیات میں رکھی ہوئی ہیں۔ یہ سب میں نے کنڈم کر دی ہیں۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں۔ کنڈم کرتی ہیں تو کریں، تمہیں پورا حق پہنچتا ہے۔ وہ کہنے لگی، میں آپ کو بتاؤں ایک بات، اور آپ کان کھول کے سن لیں کہ میں نے دوزخ میں جانا ہے۔ میں نے بالکل نہیں جانا بہشت وغیرہ میں، مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ غصے میں تھی بیچاری۔ بڑی پیاری سی تھی، اور اچھی طاقت تھی اس میں، بہت خوبصورت بازو چڑھائے ہوئے تھے۔ اس کے ارادے مضبوط تھے۔ ہنسنے والی لڑکی تھی۔ میں نے تو دوزخ میں جانا ہے۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں آپ کی۔۔۔۔ میں نے کہا، نہیں نہیں، تو نے دوزخ میں جا کر کیا کرنا ہے۔ دفع کرو۔ کہنے لگی نہیں میں نے تہیہ کر لیا ہوا ہے میں نے دوزخ میں جانا ہے۔ میں نے کوئی قانون نہیں ماننے۔ میں نے نہ دین کے، نہ اسلام کے۔ میں نے اپنی مرضی سے رہنا ہے۔ میں نے کہا، بیٹی دوزخ میں جانا بڑا مشکل کام ہے۔ تو کیسے جائے گی۔ دوزخ میں جانے کے لیے بڑی محنت کرنا پڑتی ہے۔ اس نے کہا، جی کیسی محنت کیا؟ وہ جی میرا، اور اس کا جھگڑا ہو گیا۔ بڑا زبردست۔ میں نے کہا، تو نہیں جا سکتی۔ کہنے لگی میں جا کے دکھاؤں گی۔ اتنا جھگڑا ہو گیا کہ میں نے کہا کہ تو دوزخ میں تو ۔۔۔۔۔؟ “تو کیہہ تیرا پیؤ نہیں جا سکدا“۔ میں نے کہا بڑا لمبا کام ہوتا ہے۔ اس میں کئی مصیبتیں اٹھانا پڑتی ہیں۔ پھر جا کے کہیں بندہ ہوتا ہے دوزخی۔ پہلے جا کے تو شرک کر۔ پھر اللہ کی زمین پر فساد پھیلا، پھر جائے گی۔ کسی کی چیز چرا لے گی، پنسل کالج سے لے آئے گی، یا کسی کا دوپٹہ کھسکا لے گی تو اس سے تو نہیں جائے گی دوزخ میں۔ کہنے لگی نہیں بس میں نے تہیہ کر لیا ہوا ہے۔ میں نے کہا، نہ نہ بچے، غصہ تھوک دے، کوئی بات نہیں۔ ہم ایسے کریں گے کہ تجھ پر بوجھ نہیں پڑنے دیں گے، تو تم کو آسانی سے چلنے دیں گے۔ مجھے یہ بتاؤ جس زمانے میں ہم ایم اے میں پڑھتے تھے، اس وقت پرچے میں پانچ سوال ہوتے تھے، بیس بیس نمبر کے، اور وہ پانچ کرنے ہوتے تھے، کہا جاتا تھا کہ آؤٹ آف Eight کوئی پانچ سوال کریں۔ اب سمسٹر سسٹم چل گیا ہے، جس کی مجھے کچھ سمجھ نہیں ہے۔ کہنے لگی، سنیں، سمسٹر سسٹم چلا تھا، وہ پھر کینسل ہو گیا۔ اب پھر پیپر ہی ہوتا ہے۔ اور پانچ سوال ہی کرنے ہوتے ہیں، اور پانچوں سوال بیس بیس نمبر کے ہوتے ہیں۔ میں نے کہا، اور تیرا بھلا ہو جائے اسلام میں بھی پانچ ہی سوال ہوتے ہیں۔ وہ بھی بیس بیس نمبر کے ہوتے ہیں۔ کہنے لگی ہیں، یہ کیا؟ میں نے کہا۔ دیکھ اب تو ایسے کریں گے۔ تو ہے غصے والی بیٹی، تو تیرا انتظام ایک اور طرح سے کرنا چاہیے کہ ہم ایسے کریں گے کہ تم کو لڑکیوں کو بہت شوق ہوتا ہے ڈائٹنگ کرنے کا، اور اپنی Figure ٹھیک رکھنے کا، ٹھیک ہے نا، ہم ایسے کریں گے تجھے سال میں ایک مہینہ ڈائٹنگ کرائیں گے ٹھیک ہے نا۔ صبح کھلا دی روٹی سارا دن پانی بھی میں نے پینے نہیں دینا اور کھانا بھی نہیں کھانے دینا۔ کہنے لگی Oh yhou are talking of Ramzan۔

میں نے کہا، اب تم جو مرضی نام دے لو اس کا۔ کہنے لگی، انکل وہ تو جو رمضان ہے نا وہ تو روزے میں رکھتی ہوں سارے۔ کہنے لگی گھر میں تو کوئی بھی نہیں رکھتا لیکن میں رکھتی ہوں سحری کھا کے۔ مالی بابا اور اس کی فیملی جاگی ہوئی ہوتی ہے، میں ان کے کوارٹر میں چلی جاتی ہوں۔ بڑے مزے کی روٹیاں پکائی ہوتی ہیں ماسی نے تو میں سحری کھا کے آ جاتی ہوں، تو میرا روزہ ہو جاتا ہے۔ میں نے کہا تیرے بیس میں سے بیس نمبر آ گئے، ٹھیک ہے نا۔ پھر میں نے کہا تم جیسی لڑکیوں کو بڑا شوق ہوتا ہے سیر و تفریح ک، بہت مرتی ہیں، ایسے تصویریں دیکھتی ہیں، کیلنڈر دیکھتی ہیں۔ کہتی ہیں ہائے ہائے ملیشیا جائیں گے۔ یہ امریکا کا ساحل ہے، یہ دیکھو یہ ڈزنی لینڈ ہے، اس جگہ جانا چاہیے، شوق ہوتا ہے۔ میں ایسا بندوبست کروں گا۔ میں ہوں تو غریب آدمی لیکن میں تمہیں پاسپورٹ بنوا کے دوں گا اور میں تمہیں ملک سے باہر بھیجوں گا، اور تمہیں بڑا شاندار نظارہ ملے گا، جو تمہیں دنیا میں کہیں اور نہیں نظر آئے گا۔ کہنے لگی، کیسی جگہ۔ میں نے کہا، ایک ایسی جگہ جہاں آدمیوں کا بڑا ہجوم ہو گا۔ اتنا بڑا ہجوم دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔ وہ کہنے لگی، آپ حج کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ میں نے کہا، ہاں۔ کہنے لگی، انکل وہ تو مجھے شوق ہے دیکھنے کا، کیونکہ دینا میں سب سے بڑا ہجوم۔ وہ کہنے لگی، آپ مجھے نہ دیں پاسپورٹ، اور نہ دیں ٹکٹ۔ وہ تو میں انشاء اللہ خود جاؤں گی۔ وہ میرا پکا تہیہ ہے وہ تو میں نے طے کیا ہوا ہے۔ لیکن میں اپ کے اسلام وغیرہ کو نہیں مانتی۔ غصے میں تھی نا۔ تو بار بار ایسے کہتی تھی۔ میں نے کہا چلو بیس نمبر تیرے یہ ہو گئے، چالیس ہو گئے۔ تو میں نے کہا کہ تم نیو کیمپس میں کیسے آتی ہو۔ کہنے لگی نیو کیمپس میں ابو کار میں چھوڑ جاتے ہیں۔ کئی دفعہ نہیں آتے تو میں خود کار لے کر آ جاتی ہوں۔ اگر دونوں میں سے کوئی صورتِ حال نہ ہو تو ڈیڈی مجھے دس روپے دیتے ہیں۔ میں 83-1984 کی بات کر رہا ہوں۔ تو اس زمانے میں ڈیڑھ روپیہ آنے جانے میں لگتا تھا۔ ہماری بس ہوتی ہے۔ میں نے کہا اگر میں تجھے کہوں یہ جو تجھے دس روپے ملتے ہیں، ان میں سے تھوڑے سے پیسے اٹھنی اس سے بھی کم یہ ایک طرف رکھ کے Put by کر کے ایک طرف رکھ دے تو دے دیا کر کسی غریب کو۔ تو کہنے لگی۔ آپ مجھے پھنسا رہے ہیں۔ میں نے کہا، میں آپ کو کہاں پھنسا رہا ہوں، تو میرے پاس آئی ہے، اتنی محبت کے ساتھ، تیرا بابا اتنی محبت سے تم سے بات کرتا ہے، تو پھنسانے کی بات کرتی ہے۔ کہنے لگی، آپ مجھے زکٰوۃ میں پھسانا چاہ رہے ہیں۔ جسے انکل آپ ڈھائی فیصد کہتے ہو۔ یہ تو غلط ہے، یہ تو فلاں نے بنائی ہے ڈھائی فیصد۔ اللہ کا حکم اور ہے۔ میں نے کہا، بھئی وہ کیا ہے۔ کہنے لگی اللہ تو کہتا ہے جو کچھ تمہارے خرچ سے باقی بچے وہ سارے کا سارا دے دو۔ یہ تو میں نے پہلی بار سنا۔ میں نے کہا، اوہ تیرا بھلا ہو جائے تو نے تو مجھے ڈرا دیا۔ ڈھائی فیصد پر میں یقین نہیں رکھتی۔ یہ کیلکولیشن غلط ہے۔ کہیں نظر نہیں آتی۔ میں نے کہا، یہ تو تیری اور کمال کی بات ہو گئی۔ تیرے تو ساٹھ نمبر ہو گئے۔ ٹھیک ہے کہ نہیں۔ تو اسی طرح میں نے کہا، اب اگلا کام آتا ہے جہاد کا۔ وہ مرد بھی جاتے ہیں عورتیں بھی جاتی ہیں، لیکن ذات کے خلاف لڑنا بھی ایک جہاد ہے۔ خرابی کے خلاف۔ تو وہ تو سامنے ہے۔ کہنے لگی، دیکھو میں کہاں کہاں ماری ماری پھر رہی ہوں۔ تو میں نے کہا 80 نمبر ہو گئے۔ میں نے کہا بے وقوف لڑکی کلثوم بی بی تم نے آج تک اسّی نمبر لیے ہیں کسی پرچے میں۔ کہنے لگی اسّی تو انکل بہت ہوتے ہیں۔ میں تو یہی رو رہا تھا کہ تو دوزخ میں کیسے جائے گی۔ تو تو مصیبت یہ ڈالے بیٹھی ہے۔ تیرا ارادہ دوزخ میں جانے کا ہے۔ کہنے لگی، وہ میں غصے میں کہہ رہی تھی۔ اس کا جھگڑا دین کے ساتھ تو نہیں تھا بے چاری کا۔ آدمی دکھی ہوتا ہے۔ اپنی ماما جی سے اپنی اماں سے اپنے ابو سے لڑتا ہے تو پھر اس کو غصہ آتا ہے۔ پھر جن باتوں کی وہ تلقین کرتے ہیں، جس کے اوپر قائم رہنے کے لیے۔۔۔۔؟ اس کو وہ ہٹ کرتا ہے۔ میں نے کہا، کلثوم بچے اب ایسے کریں گے کہ پھر تمہیں ایک لفظ سکھائیں گے۔ وہ ہے تو مشکل عربی کا لیکن تو ذہین لڑکی ہے۔ میرا خیال ہے تو سیکھ جائے گی اگر مشق کرے تو۔ کہنے لگی وہ کیا ہے۔ میں نے کہا، وہ ہے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ کہنے لگی، لو کیا بات کی۔ یہ تو میں صبح منہ دھوتے وقت، صبح سویرے جب پانی ڈالتی ہوں تو یہی پڑھتی ہوں۔ تو میں نے کہا، اب بتاؤ بچے تم نے تو پھنسا دیا، ہم دوزخ کیسے جائیں گے۔ یہ تو تم نے میرے بھی راہ بند کر دی۔ اب میں بھی کلثوم بی بی کا بابا دادا بن کے بیٹھ گیا۔ میں بھی تیرے ساتھ چلوں گا۔ مجھے بھی فائدہ ہو جائے گا۔ باقی رہ گئی نماز کی بات۔ تو میں نے کہا، عید کو لڑکیاں بڑے شوق سے گھر میں مصلٰی ڈالے سروں کے اوپر دوپٹے لپیٹ کر کھڑی ہو جاتی ہیں نا تو تین نمبر تو اس میں بھی آ جائیں گے۔ 83-84 نمبر ہو جائیں گے۔ بیس تیرے کلمے کے ہوئے پڑے ہیں۔ کہنے لگی نہیں نہیں خیر نمازیں میں رمضان شریف میں تو ساری پڑھتی ہوں پوری، اور اس کے علاوہ بھی جب بھی موقع لگ جائے، لیکن ریگولر نہیں ہوں۔ میں نے کہا، کوئی بات نہیں، تیرے نمبر تو 94-95 سے زیادہ بن رہے ہیں، تو اب تیرا کیا کریں۔ تو اس کی سہیلی یاسمین کہنے لگی، تم اٹھو، میں نے تم سے کہا تھا نا کہ انکل اشفاق کے پاس نہیں جانا یہ بہت چالاک ہیں۔ یہ ہمیں دھوکے سے پھنسا رہے ہیں۔ تو ان کے جو ساتھی لڑکے تھے وہ بڑے غور سے یہ باتیں سنتے رہے اور حیران ہوتے رہے۔ انہوں نے بھی میرے ساتھ تھوڑی سے باتیں کیں کہ سر ہم بھی کچھ تھوڑے سے ایسے ہی تھے۔ گستاخ کچھ الٹے سیدھے الفاظ ہمارے منہ میں بھی، اور ذہن میں بھی آ جاتے ہیں۔ میں نے کہا، کوئی بات نہیں۔ ذہن میں آ جاتے ہیں تو بے اختیاری کی بات ہے۔ ذہن کے اوپر کنٹرول نہیں ہے۔ کوئی بات نہیں، چلتے رہیں، لیکن کہنے لگے، رخ ہمارا البتہ ادھر کا ہو گیا ہے جس طرف کی بات آپ کر رہے ہیں۔ تو کلثوم بی بی اپنی آستین چڑھائے ہوئے غصے میں لٹیں کھلی ہوئی، لیکن وہ ذرا تھوڑی سی ٹھنڈی ہوئی، لیکن اس کا غصہ پورے کا پورا کم نہیں ہوا۔ میں محسوس کر رہا تھا، پولیس نے انہیں تنگ کیا تھا۔ بات بھی اس کی سن لیں۔ جب آپ بات کسی کی سنیں۔ سننے کے لیے کوئی بھی ہو۔ آپ کے گھر میں جھاڑو دینے والی ہے۔ ماسی کھانا پکانے والی ہے۔ اس کی بات ہے۔ کہنے سننے کے لیے آپ کے پاس بھی وقت ہونا چاہیے۔ کلثوم کی اور یاسمین کی بات، اور ان کے ساتھیوں کی بات نہیں سنی گئی تھی؟ اس لیے ان کو غصہ تھا۔ اور غصہ سارا وہ ڈائریکٹ گیا تھا اس دین کی طرف اور اتھارٹی کی طرف، اور بڑوں کی طرف۔ اب اس میں ساری جہالت جو ہے وہ بڑوں کی ہوتی ہے۔ بڑوں کو سنبھالنا نہیں آتا۔ وہ اپنی اتھارٹی میں لگ جاتے ہیں، اور ہمارے ملک میں اتھارٹی کا رواج ذرا ضرورت سے زیادہ ہے۔ ہاں اکیلے بڑوں کی اتھارٹی نہیں۔ آپ بھی جب سوچیں گی، اور آپ جب گھر جا کے غور کریں گی تو آپ دیکھیں گی، آپ اپنی اتھارٹی کو ان معصوموں پر، ان لوگوں پر ضرور استعمال کر جاتی ہیں، جو کہ اپ سے نیچے ہیں۔ لیکن الحمد للہ آپ نے اس بات کو تسلیم کیا۔ لڑکے تو مانتے نہیں، لیکن ہم کیا کرتے ہیں ہمارے ہاں لوگ جو ہیں وہ بھی اپنی اتھارٹی کو بڑی شدت سے، اور بڑی بری طرح سے استعمال کرتے ہیں۔

میں شاید پیچھے بھی بیان کر چکا ہوں۔ مجھے اس بات کا بڑا غصہ تھا۔ یہاں ایک جگہ ہے اچھرہ، اس میں خواتین بہت جاتی ہیں۔ کچھ کپڑے وپڑے لینے کے لیے۔ میں بھی جاتا ہوں، بیگ پکڑ کر اپنی بیوی کے ساتھ۔ انہوں نے کچھ لینا ہوتا ہے، کچھ سلی سلائی چیزیں۔ تو وہاں پر ایک خاتون کسی سکول کی ٹیچر تھی، اچھی پیاری معزز، سیاہ برقع اس نے اوڑھا ہوا، ہاتھ میں تھیلا پکڑا ہوا۔ ہم جس دکان سے کچھ سودا لے رہے تھے تو اس نے کچھ پوچھا، سرخ رنگ کا کوئی کپڑا، پتا نہیں کیا کہا، لیکن دکاندار نے سنا ہی نہیں۔ پھر اس نے ذرا وضاحت سے کہا تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے کہا، تیرے کام کی یہاں چیز نہیں ہے اس دکان پر آگے جا کے پتا کر۔ تو میں غصے میں بھی آیا اور مجھے رونا بھی آ گیا۔ میں نے کہا یہ تو آپ کو حق نہیں پہنچتا۔ اس نے کہا، اشفاق صاحب یہ ایسے ہی ہے کوئی کم پیسوں والی۔ تو یہ اتھارٹی دیکھیں نا، حالانکہ وہ کوئی افسر نہیں ہے۔ کسی بڑی جگہ پر نہیں ہے، لیکن وہ اپنی اتھارٹی بے جا طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اور اگر آپ اپنے ارد گرد دیکھیں گی تو بڑا ظلم چل رہا ہے۔ بہت زیادہ تکبر شامل ہو گیا ہے۔ ہر بندے کے ذہن میں۔ اور تکبر میں اضافہ کرنے کے لیے وہ بہت ساری چیزیں اکٹھی کرتا رہتا ہے، تا کہ دوسروں کو ڈرانے کے لیے تکبر نمایاں کرے۔ یہ بات، خوشی کا اظہار اس لیے کر رہا ہوں کہ تھوڑے دن ہوئے میں اپنے گھر کے لان میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بڑی خوبصورت سی، پیاری، لمبی عورت ایک خوبصورت سے بچہ ٹوپ اس نے پہنا ہوا، اون کے موزے جرابیں، وہ آ گئی۔ آ کے وہ عورت میرے سامنے کھڑی ہو گئی۔ ہنسنے لگی اور کہنے لگی اپ نے مجھے پہچانا؟ میں نے کہا، نہیں۔ کہنے لگی انکل میں کلثوم ہوں۔ میں نے کہا، اور تیرا بھلا ہو جائے بیٹھ۔ میں نے کہا، تو اتنی دیر کہاں رہی۔ کہنے لگی میں سیدھی شکاگو سے آ رہی ہوں، اور میں نے آپ کا پتا ڈھونڈ کے سب سے پہلے آپ کے ہاں حاضری دی، میرا خاوند وہاں ڈاکٹر ہے۔ اچھا آدمی ہے۔ میں آپ سے اپنی پرانی محبت، اپنی برخوداری، اپنی بیٹی ہونے کا ایک چھوٹا سا حق مانگنے آئی ہوں۔ سیدھی آپ کے پاس۔ میں ڈر گیا۔ میں نے کہا، فرمائیں۔ میں تجھ سے بڑا ڈرتا ہوں، اور اتنے سال میرے ڈر میں ہی گزرے ہیں۔ کہنے لگی، یہ میرا بیٹا ہے۔ بہت پیارا ہے، اور بہت صحت مند ہے، اور ہم اس کو صحت اور حفظانِ صحت کے اصولوں پر پال رہے ہیں۔ یہ روتا بہت ہے۔ ہم نے بہت کوشش کی ہے کہ کسی طرح اس کا رونا کم ہو، کئی دوائیاں دی ہیں۔ میرے خاوند ڈاکٹر ہیں، لیکن اس کا رونا کم نہیں ہوا تو میں اس کو آپ کے پاس لائی ہوں کہ اس کو دم کر دیں۔ میں نے کہا، اوہ تیرا بھلا ہو جائے۔ میں کوئی نیک آدمی نہیں ہوں۔ میں کیسے دم کروں۔ مجھے دم کرنا نہیں آتا۔ کہنے لگی آپ “ شو “ کر دیں۔ میں نے کہا، نہیں بچے یہ تو ۔۔۔۔۔؟ اب میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ مجھے واقعی نہیں آتا دم کرنا کہ کیا پڑھتے ہیں۔ کیسے کرتے ہیں۔ کہنے لگی آپ میرے ساتھ ہمیشہ ۔۔۔۔۔؟ اب پھر وہی غصہ پرانا اس کا کہ میں کتنی دور سے چل کر آئی ہوں، اور کتنی آرزو لے کر آئی ہوں۔ کہنے لگی۔ اب آپ پھر تکبر کے میز کے اوپر چڑھ گئے ہیں۔ اپ کریں اس کو دم۔ میں نے کہا، پیارے بچے ! اگر مجھے کچھ آتا تو میں ضرور کرتا۔ اس نے کہا، آپ جھوٹے ہی کر دیں۔ “ شو شو “ کر دیں۔ اب میں نے کہا، جھوٹی پھوک کیسے ماروں گا۔ پھر میں نے کہا، چل ہمارے مولوی صاحب ہیں۔ مسجد میں، بہت نیک آدمی ہیں۔ میں جمعہ پڑھنے جاتا ہوں وہاں۔ ان سے دم کرواتے ہیں۔ تو کہنے لگی، نہیں آپ سے کرواؤں گی۔ آپ ہی کریں۔ دیکھیں انسانی کوتاہی کیا ہوتی ہے۔ میں بھلا اس کا دل رکھنے کو کر دیتا۔ ایسے ہی “ شو“، لیکن میں رکا رہا۔ میں نے کہا، مجھے نہیں آتا۔ یہ اللہ نے میرے اندر صلاحیت نہیں رکھی ہے۔ میری صلاحیت ہے کہ میں کچھ لکھ لیتا ہوں ڈرامے، لیکن یہ کام نہیں جانتا تو اٹھ کے کھڑی ہو گئی، جس طرح سے میرے دفتر میں اپنا پاؤں مار کے گئی تھی، زور سے، اتنے ہی زور سے اس نے ویسے ہی پاؤں مارا۔ کہنے لگی نانا۔ (بچے کے حوالے سے مجھے نانا کہی رہی تھا) “ بابا یو آر ہولی مین “ یہ اس کا آخری فقرہ تھا۔ اور غصے میں کار میں بیٹھ کے چلی گئی۔ اب بتاؤ میں تم کو کس کھاتے میں ڈالوں۔ تم جو آ گئی ہو ساریاں (ہال میں بیٹھی خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے) مجھے ڈر ہے کہ تم بھی اندر سے لڑائی کرو گی۔ کسی نہ کسی دن میرے ساتھ، اور پیاری تم بہت ہوتی ہو۔ یہ آپ اپنے بڑوں سے اپنے بھائیوں سے اپنے ابو سے پوچھیں۔ باوجود اس کے کہ اختلاف ہوتے ہیں۔ اب ہمارے درمیان کوشش ہو رہی ہے کہ ہمارے درمیان ہماری محبت کے درمیان کچھ ایسی دیواریں کھڑی کر دی جائیں، تاکہ ہم ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں۔ تو پیارے بچو، میں اب تمہارے سامنے شکایت کرنے کا استحقاق رکھتا ہوں۔ آپ کو جب بھی ووٹ دینا پڑے، آپ میرے حق میں دینا۔ کلثوم کے حق میں نہ دینا۔ وہ مجھے بہت جھڑکیاں دے کر گئی ہے۔

اللہ آپ کو خوش رکھے اور آپ سب کو آسانیاں عطا فرمائے، اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 

شمشاد

لائبریرین
انسان اپنی خواہش پوری ہونے کی راہ میں خود حائل ہو جاتا ہے
اب تک کا وقت اچھا، اور بے حد خوش گزرا، اور ہماری ہر خواہش پوری ہوتی رہی۔ لیکن خواہشوں کے پورے ہونے کا لوگوں کو یقین نہیں ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں، جب ایک خواہش دل میں پیدا ہوتی ہے تو باوجود اس کے کہ مہاتمابدھ نے بڑی شدت سے منع کیا تھا کہ خواہشوں کو پیدا نہ ہونے دینا ورنہ تم عذاب میں مبتلا ہو جاؤ گے، لیکن میں سمجھتا ہوں اور ہمارے بابے یہ کہتے ہیں کہ خواہش اگر دل میں پیدا ہو اور آپ کی کوئی آرزو ہو اور آپ نے کوئی دھارنا دھاری ہو، تو وہ ضرور پوری ہو کر رہے گی، رکتی نہیں ہے۔ وہ اس لیے کہ جب آپ کوئی آرزو دل جوان کرتے ہیں، اس کو پالتے پوستے ہی، تو جہاں پر یہ آرزو اپنے پورے دباؤ کے ساتھ پیدا ہوتی ہے، وہاں پر ایک ویکیوم پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک خلا پیدا ہو جاتا ہے، اور جہاں خلا پیدا ہو جاتا ہے، اس کو بھرنے کے لیے تند و تیز، خوشگوار نا خوشگوار ساری ہوائیں اس کی طرف چلتی ہیں۔ آپ نے بگولا دیکھا ہو گا۔ کبھی آپ گاؤں میں رہے ہوں تو گاؤں میں زیادہ آتے ہیں، شہروں میں تو نکال ہی دیئے ہم نے۔

یہ بڑی تیزی کے ساتھ گھومتا ہے اور اس کے اندر بڑی شدت کا خلا ہوتا ہے، اور اتنا خوفناک کہ ہر قسم کے ڈبے، سرکنڈے کیا کیا کچھ نہیں اڑتا چلا جاتا اس کے ساتھ پورا ستون سا بن جاتا ہے بہت اونچا۔

میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا، اور سکول سے آ رہا تھا، جب ایک بگولا میں نے دیکھا، تو میں بمع بستہ اس کے اندر گھس گیا۔ اندر اتنی خاموشی، اتنا سکون، اتنی صفائی، کوئی نیچے سے صفائی بھی کرتا چلا آتا ہے۔ میں اس کے اندر چلتا چلتا ایک سکون کی کیفیت میں چلتا آ رہا تھا۔ جب آرزو پیدا ہوتی ہے دل میں، آدمی چاہ رہا ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح تکمیل کو پہنچے تو اس کے حصول کے لیے قدرت بھی چاروں طرف سے آپ کی مدد کرتی ہے۔ لیکن آپ کہیں گے کہ اشفاق صاحب الٹی بات کر رہے تھے۔ ہمارے دل میں آرزوئیں، خواہشیں ہیں کہ کبھی ایک بھی پوری نہیں ہوئی، تو اس میں خرابی یہ ہوتی ہے کہ خواہش کے پوری ہونے کی راہ میں آدمی خود کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ ایک بلے باز کی طرح جو کرکٹ کا بیٹ ہاتھ میں رکھتا ہے، اس مقام پر کھڑا ہو جاتا ہے، جہاں اس کی خواہش کو آ کر پورا ہونا ہو، وہ آنے والے ہر خوش آئیند، اور خوش گوار عنصر (Element) کو ہر اس تکمیل کو پہنچنے والی چیز کو، بلے کے ساتھ چھکے مار مار کر وہاں سے بھگاتا رہتا ہے۔

یہ عجیب انسانی فطرت ہے۔ کبھی آپ اس کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ عجیب لگے گی۔ خاص طور پر کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب ہم نے خواہش پیدا کر دی تو وہ پوری ہو۔ لیکن تم نے اگر غور کیا، تو دیکھو گے، اس کے راستے میں اور کوئی بندہ حائل نہیں ہے، صرف آپ کی ذات، آپ کا وجود حائل ہے، اور آپ بھی کوشش کر کے اسے لاشعوری طور پر جان بوجھ کر نہیں ہٹانے اور مٹانے کو کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے تو آپ کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوتی ہے کہ اس کو فوراً پورا ہونا چاہیے۔ یہی ہے نا، کبھی آپ آئس کریم جمائیں، آپ نے آئس کریم والی مشین تو دیکھی ہو گی نا۔ اب تو بجلی والی آ گئی ہے۔ تو آئس کریم جمانے بیٹھیں تو خدا کے واسطے اس کا ڈھکنا بار بار نہ کھول کر دیکھتے رہیں کہ جمی ہے یا نہیں۔ اس طرح تو وہ کبھی بھی نہیں جمے گی۔ آپ اس کی راہ میں کھڑے نہ ہوں۔ جب آپ نے تہیہ کر لیا ہے کہ اس کو بننا ہے، اس مین سارا مصالحہ ڈال کر مشین کو چلانا شروع کر دیں، اور اس وقت کا انتظار کریں جب وہ پایہ تکمیل کو پہنچے۔

میری اور میری آپا کی ایک بڑی بے چینی ہوتی تھی کہ ہم نے اپنی چتری مرغی کے نیچے انڈے رکھے تھے کہ اس میں سے چوزے نکلیں گے اور ہم دونوں اس بات کے بہت شوقین تھے۔ اب اس کے تئیس دن بعد چوزوں کو نکلنا تھا۔ ہم میں یہ خرابی تھی کہ ہر تیسرے چوتھے دن بعد ایک دو انڈے نکال کر انہیں سورج میں کر کے دیکھتے تھے، آیا ان کے اندر ایمبریو بنا ہے کہ نہیں، تو خاک اس میں سے چوزہ نکلنا تھا۔ بار بار اٹھا کے دیکھتے تھے، اور پھر جا کر رکھ دیتے تھے، آخر میں ہماری والدہ نے کہنا، خدا کے واسطے یہ نہ کیا کرو۔ اس لیے جب آپ نے پورے ایک فریم ورک کے اندر ارادہ باندھ کے چھوڑ دیا، پھر اس کو راستہ دو۔ ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ خدا کے لیے اپنی آرزو کو راستہ دو، اچھی بری جیسی کیسی ہے اس کو راستہ دو۔ اس کے راستے میں کھڑے نہ ہوں، آپ اگر غور کریں گے تو آپ کو محسوس ہو گا کہ بہت سے مقامات پر آپ خود اس کے راستے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اپنی ساری خوبیوں کو خود ہی خرابیوں میں تبدیل کر لیتے ہیں، اور پھر الزام دوسروں کو دیتے ہیں۔ اتنی تو آپ میں صلاحیت ہونی چاہیے۔ یہ الزام مجھے اپنی ذات پر دینا چاہیے۔ دیکھیے آپ نے جب ایک چٹھی لیٹر بکس میں ڈال دی، تو پھر اس کے پاس جا کر کھڑے نہ ہوں کہ کب نکلتی ہے۔ ڈاکیا اسے کہاں لے جاتا ہے۔ اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ اگر آپ اس خط کے ساتھ ساتھ چلنے لگے، تو پھر وہ ساہیوال کبھی بھی نہیں پہنچ سکے گی۔ آپ بار بار پوچھیں، بھئی یہ کدھر لے جا رہا ہے، کس گاڑی میں چڑھا دیا ہے۔ میں تو یہ چاہتا تھا کہ تیز والی پر جائے۔ جب آپ کی خواہشیں ہوتی ہیں، اس میں رخنے اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ آپ کر چکنے کے بعد بھی اس مین رائے اپنی دیتے رہتے ہیں۔ میں اکثر دیکھتا ہوں اور تکلیف بھی ہوتی ہے، مثلاً بچیوں کی شادیاں ایک بڑا مسئلہ ہے اور بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس میں والدین کو بڑی تکلیف ہوتی ہے، اور وہ چاہتے ہیں کہ جلدی ہو اور یہ ہے بھی ٹھیک بات۔ لیکن ایک مرتبہ آرزو کر چکنے کے بعد وہ پھر اتنا زور لگانا شروع کر دیتے ہیں اور اس کو اللہ پر چھوڑنے کی بجائے یا اس آرزو پر چھوڑنے کے بجائے جو آپ نے اپنے اللہ کے ساتھ باندھ دی ہے، پھر اس میں اپنی ذات داخل کرتے رہنا، اور وہ آپ کی ذات اس میں داخل ہو کر کبھی بھی آپ کی مدد نہیں کر سکتی۔ یہ میں آپ کو جیسے کہ پچھلی باتیں بتا رہا تھا اور آئس کریم کی مثال دے رہا تھا، ہمارے گھر میں بچے اس وقت بڑے ہو چکے تھے۔ میں تو فرسٹ ائیر میں تھا، ہمارے گھر میں ایک کیمرا آیا، اس زمانے میں کیمرا آنا بڑی کمال کی بات تھی۔ باکس کیمرے بہت ہوتے تھے۔ باکس کیمرا آپا ہمارے قصبے میں آیا۔ لوگ بڑی بڑی دور سے گھوڑوں پر بیٹھ کر دیکھنے آئے اور انہوں نے کہا کہ خان صاحب کے گھر کیمرا آیا ہے۔ انہوں نے کہا جی کہ تصویر کھینچنی ہے، ذیلدار صاحب آئے اونٹ پر سوار ہو کے کہ تصویر کھینچنی ہے۔

بڑے بھائی بی-اے میں پڑھتے تھے۔ ان کو ابا جی نے باکس کیمرہ لا دیا۔ اب اس میں فلم ڈال کے اس زمانے میں شیشے کی پلیٹ ہوتی تھی پتلی سے۔ Negative کھینچنے کے لیے اس کو ڈال کے تصویر کھینچی، تو پھر ہم بھائی کے گرد جمع ہو گئے۔ ہمیں نکال کے دکھائیں کیسی ہوتی ہے۔ اس نے کہا، نہیں ابھی نہیں۔ ہم نے کہا، اس کا پھر کیا فائدہ۔ کیمرا تو یہ ہوتا ہے آپ نے تصویر کھینچی ہے اور ابھی پوری ہو۔ تو ہم کو یہ بتایا گیا کہ اسی وقت نہیں آتی ہے تصویر، لیکن آتی ضرور ہے، لیکن ہماری یہ تربیت نہیں تھی، ٹریننگ نہیں تھی، ہم چاہتے تھے ابھی ہوا ہے تو ابھی اس کا رزلٹ ہمارے سامنے آئے، اور ہم کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ آرزو کو، اپنی پیاری آرزو کو جو آپ کی زندگی کا بہت عجیب سہارا ہوتی ہیں، میں منع نہیں کرتا، ہونی چاہیں۔ پیدا ہوتی رہتی ہیں انسان کے ذہن میں ہوتی ہیں، قدرتی بات ہے، لیکن اگر آپ ان کے راستے میں خود ان کا راستہ روک کر کھڑے ہو جائیں گے، اور ان کے پورے ہونے کی راہ میں حائل ہو جائیں گے، تو وہ کبھی پوری نہیں ہوں گی۔

یہ آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں، ہم بھی نہیں مانتے تھے اس بات کو، کہ آپ Relaxed (ڈھیلے) ہیں، اپنا آپ ڈھیلا چھوڑ دیں۔ ہمارے بابے کہتے ہیں، اتنا ڈھیلا چھوڑ دیں، جس طرح نہر کے اوپر لکڑی تیرتی آتی ہے نا، ہر لہر کے ساتھ، کبھی اونچی ہو جاتی ہے کبھی نیچی۔ جب تک یہ کیفیت پیدا نہیں ہو گی، جب تک آپ Resistance دیتے رہیں گے، تو ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑے گا اور آپ کی کامیابیاں بتدریج ناکامیوں میں تبدیل ہو جائیں گی، حالانکہ آپ کا راستہ سامنے بنا ہوا ہوتا ہے۔ پھر یہ ہو کر رہے گا اور آپ اپنی زندگی کا خود نظارہ کرتے جائیں گے۔ دیکھتے جائیں ان کے اندر بے شمار واقعات نظر آئیں گے، اور پھر آپ کو محسوس ہو گا، اور کئی مرتبہ آپ نے زندگی میں کہا بھی ہو گا کہ کاش میں نے یہ نہ کیا ہوتا۔ اور پچھتاوا بھی ہوتا ہے، اس پچھتاوے سے بچنے کے لیے آپ ذہین آدمی ہیں۔ پڑھے لکھے لوگ ہیں، سمجھدار ہیں۔ آپ جانتے ہیں، اس سے کس طرح اجتناب کیا جائے، اور کس طرح سے اپنا پھول اپنی مرضی سے کھلایا جا سکے۔ تو یہ بات اچانک بیٹھے بیٹھے آپ کو دیکھتے دیکھتے میرے ذہن میں آئی کہ آپ اپنی آرزوؤں کو اپنی حسرت کو تکمیل کرنے کے لیے خود ہی سب کچھ کر سکتے ہیں۔

دیکھیے ایک پیچ کس کو، ایک پلاس کو، آری کو یا ایک برمے کو یہ پتا نہیں ہوتا کہ یہ کیا چیز ہے، اور اسے کیا کرنا ہے۔ ایک ہاتھ آتا ہے، وہ پیچ کس کو اٹھاتا ہے، اور اس سے کمال کا کام کرتا ہے۔ ایک ہاتھ آتا ہے، اور اس آری کو اٹھاتا ہے۔ کمال کا کام لیتا ہے۔ اس کا ایک مستری ہوتا ہے، لیکن اگر آپ ان چیزوں کو جو آپ کی راہ میں آپ کی مدد کے لیے رکھی گئی ہیں، استعمال نہیں کریں گے، بلکہ اس حد تک کسی اور کو بھی استعمال نہیں کرنے دیں گے، تو پھر آپ کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔

آج کے بعد اگر آپ غور کر کے دیکھیں اور جائزہ لیں زندگی کا، ایمانداری کے ساتھ۔ مغرب کے بعد دیوار کو ڈھو لگا کے جب دونوں وقت ملتے ہیں تو پھر اپنا جائزہ لیں کسی کو ڈائری پیش نہیں کرنی کسی کے آگے آپ نے بیان حلفی نہیں دینا، خود اپنے سامنے، یہ بھی بڑا مشکل کام ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ نے کس طرح خوبصورت مسرتوں کو، آرزوؤں کو اپنے ہاتھوں پامال کیا ہے۔ یہ بہت مشکل کام ہے کہ آدمی اپنا احتساب خود کرے۔ سب سے زیادہ آدمی ڈرتا ہے اپنا آپ فیس کرنے سے۔ اور اسی لیے بہت سے لوگ عبادت میں داخل ہو جاتے ہیں لیکن خود احتسابی میں داخل ہونے سے گھبراتے ہیں۔ اس لیے جو خود احتسابی کرتا ہے، وہ وجود تو اس کے سامنے سچ بولے گا اور بہت ساری باتیں ایسی ہیں، جنہیں آپ فیس Face کرنے کے لیے یا ماننے کے لیے تیار نہیں، لیکن یہ عمل اتنا ضروری ہے کہ جیسے آپ احتساب۔ کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ اس سے آپ کا کوئی تعلق نہیں، اپنی ذات کے ساتھ احتساب کرنے کا تعلق ہے۔ یہ ضروری ہے۔

اور بزرگانِ دین ایک اور عجیب و غریب بات کہتے ہیں، اگر آپ اہلِ کتاب و شنید کے پاس جا کر بیٹھو گے، جیسے ہمارے لوگ ہوتے ہیں، تو لوگوں کی ذات میں کیڑے دکھائی دیں گے، اور اگر بزرگانِ دین کے پاس جا کر بیٹھو گے، تو اپنا حال روشن ہونے لگے گا۔ اور یہ سچ ہے، اور بڑی عجیب و غریب بات ہے، میں نے تجربہ کیا۔ اگر ان کے پاس جا کر بیٹھو تو ایک ایسی تسلی، اور تشفی بھی ملتی ہے کہ اپنی خرابی جو ہے باوجود اس کے آپ کو بھی پتا ہے، ان کو بھی پتا ہے، لیکن ایک سہارا ملتا ہے کہ یہ ساری کمیاں، یہ خرابیاں یہ ساری ہیومن ہیں، کوئی بات نہیں یہ گزر جائیں گی۔ ان بزرگانِ دین کے مقابلے میں مغرب کے لوگوں نے سائیکوتھراپسٹ، اور سائیکوانالسٹ تیار کیے ہیں، ان کو ڈھر سارے پیسے اور فیس دے کر لوگ ان کے پاس جاتے ہیں لیکن وہ ان کے ساتھ اس طرح سے ان کی ذات میں شامل نہیں ہوتے، جس طرح بزرگانِ دین ہوا کرتے ہیں، یا ان کو ہونا چاہیے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ اپنے آپ کو پہچاننے کے لیے تھوڑا سا وقت ضرور نکالیں، مگر آپ کو کسی نے بتانا نہیں ہے۔ آپ کو خود اپنی اینٹیں لے کر گارا لگا کے خود اپنی عمارت تیار کرنا ہے۔ آپ کو اللہ نے صلاحیت دی ہے کہ آپ یہ ساری چیزیں بڑی آسانی کے ساتھ تیار کر کے اپنا بہت اعلٰی درجے کا مکان یا اعلٰی درجے کا پلازہ بنا سکتے ہیں۔ جس میں اور لوگوں کو بھی دعوت دے سکتے ہیں کہ وہ آ کر رہیں۔ تو میں یہ درخواست کروں گا آپ سے، اللہ نے آپ کو اچھے چہرے دیئے ہیں، اچھے ذہن دیئے ہیں، اچھی روحیں دی ہیں کہ آپ ضرور ایسا کام کریں۔ آرزوئیں تو ہیں، لیکن خود ہی ان کی راہ میں آپ کھڑے نہ ہوں۔ آرزوئیں تو ہیں لیکن بار بار ان کا ڈھکنا اٹھا کر نہ دیکھیں، بار بار اس کیمرے کو کھول کر نہ دیکھیں کہ ریل کے اوپر کرئی ایمپریشن آیا ہے کہ نہیں۔ جب آپ نے ایک بات طے کر دی، اپنے اور اپنے اللہ کے درمیان یہ طے کر دیا کہ یوں ہونا چاہیے، مجھے یہ چاہیے، پھر اگر اس کا فیصلہ میری خواہش، اور مرضی کے خلاف بھی کرے تو مجھے منظور ہو گا، کیونکہ تُو میرا اللہ ہے۔ تو پھر دیکھیے کہ اللہ بھی بڑا مہربان ہو گا اور وہ کہتا ہے باوجود اس کے اس کی خواہش کچھ ایسی پسندیدہ نہیں ہے، لیکن پھر بھی یہ اس کی ہے، اس انعامی بانڈ میں سے دو لاکھ تو نہ دیں 30 ہزار روپیہ دے ہی دیں، اور مل ہی جاتا ہے، باوجود اس کے مل جاتا ہے۔ ایک کہانی مثنوی شریف کی ہے۔ یعنی مثنوی مولانا روم کی کہ حماقت سے آدمی کس طرح اپنی راہ میں کھڑا ہوتا ہے۔ وہ کوئی چور تھا، تو اس کے اندر کچھ پیسا بنانے کی خواہش پیدا ہوئی، کیونکہ وہ اپنی محبوب بیوی کو کچھ دینا چاہتا تھا یا اپنی ذات کے لیے رکھنا چاہتا تھا۔ اس نے ایک رات ایک گھر کے روشن دان میں سے کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کی کہ یہ اچھا گھر ہے، اور مجھے یہاں سے کوئی مال و متاع ملے گا۔ لیکن جب وہ اتنا اونچا چڑھا، اور روشن دان کے اندر سے گزرنے کی کوشش کی تو وہ روشن دان جس کا چوکھٹا بظاہر ٹھیک نظر آتا تھا، ڈھیلا لگا ہوا تھا۔ وہ بمع چوکھٹے کے اندر فرش پر سر کے بل آ گرا، اور اس کو سخت چوٹیں آئیں، چنانچہ اس نے وہ چوکھٹا اٹھایا اور قاضیِ وقت کے پاس شکایت کے لیے لے گیا۔ دیکھیں کیا کمال کے آدمی تھے۔ اس نے کہا، جناب دیکھیں میں چوری کرنے کے لیے وہاں گیا تھا۔ یہ کیسا نالائق مستری ہے، جس نے ایسا چوکھٹا بنایا کہ یہ ٹوٹ گیا ہے، اور کرچیاں کرچیاں ہو گئی ہیں، تو اس کو سزا ملنی چاہیے۔ قاضیِ وقت نے کہا یہ تو واقعی بری بات ہے۔ اس لکڑی بیچنے والے کو بلایا گیا، چنانچہ وہ پیش ہو گیا۔ اس نے کہا جناب اس گھر کی کھڑکی تو میں نے بنائی تھی۔ اس سے کہا گیا، تم نے ایسی ناقص قسم کی ناکارہ لکڑی لگائی۔ اس نے کہا، جناب اس لکڑی کو بھی دیکھ لیں کسی سے بھی ٹیسٹ کروا لیں، اس گھر کے دوسرے دریچوں، دروازوں، روشن دانوں کو دیکھ لیں، کیونکہ یہ تو اب ٹوٹ گیا ہے تو اگر آپ اس میں کوئی نقص نکال دیں تو میں ذمہ دار ہوں۔ حضور بات یہ ہے کہ اس میں خرابی ہماری لکڑی کی نہیں ہے۔ اس ترکھان کی ہے، جس نے یہ چوکھٹا ڈائی مینشن کے مطابق نہیں بنایا۔ چھوٹا یا بڑا جیسا بھی بنا دیا ہے، چنانچہ اسے کہا، تم کو معافی۔ انہوں نے ترکھان یا بڑھئی کو بلوایا، اور وہ پیش ہو گیا۔ انسانی زندگی کا تماشہ دیکھیں کیا حضرت مولانا نے بیان کیا ہے۔ ترکھان نے کہا کہ میں چوکھٹا بالکل ٹھیک بنایا ہے۔ اپ اس کو نقشے کے مطابق دیکھ لیں، یا جو بھی اس کی ریکوائرمنٹ ہیں ملاحظہ فرما لیں۔ یہ میرا قصور نہیں ہے اپ ماہرین کو بلوا لیں، اور وہ بتا دیں گے کہ میرے چوکھٹے میں کوئی خرابی ہے کہ نہیں۔ میں یقین سے کہتا ہوں، یہ چوکھٹا بالکل ٹھیک ہے۔ راج، معمار جس نے اس کو فٹ کیا تھا، جب وہ عمارت بنا رہا تھ، جب عمارت بن جاتی ہے تو پھر بیچ میں لگاتے ہیں۔ یہ ساری کوتاہی اس کی ہے اس نے اس میں خرابی پیدا کی ہے ورنہ میرا چوکھٹا تو بنا ہوا ٹھیک تھا۔ چنانچہ راج کو بلوایا گیا، وہ عدالت میں پیش ہو گیا۔ قاضیِ وقت نہ کہا، اے نالائق آدمی بہت اعلٰی درجے کا چوکھٹا بنا ہوا ہے۔ ڈائی مینشن اس کی درست ہے، تو نے کیوں “ موکھا “ اس کا ڈھیلا بنایا۔ جب تو بلڈنگ بنا رہا تھا، اور عمارت سازی کر رہا تھا تو نے اسے صحیح طور پر فٹ نہیں کیا تو اب راج پھنس گیا، اس نے سوچا واقعی عدالت ٹھیک پوچھ رہی ہے۔ چوکھٹے میں، اور دیوار میں فاصلہ تو ہے۔ اس نے کہا، حضور بات یہ ہے مجھے اب یاد آیا، جب میں چوکھٹا لگا رہا تھا اور میں سیڑھی پر چڑھا ہوا تھا، تو میں نے باہر سڑک پر دیکھا اس وقت ایک نہایت خوبصورت عورت نہایت اعلٰی درجے کا لباس پہنے، بے حد رنگین لہنگا، اور بے حد رنگین دوپٹہ اوڑھے جا رہی تھی مزے سے اٹکھیلیاں کرتی ہوئی۔ تو میری توجہ اس کی طرف ہو گئی۔ جب تک وہ سڑک پر چلتی رہی میں اس کو دیکھتا رہا، اور میں پوری توجہ نہ دے سکا۔ اس چوکھٹے کو ٹھیک طرح سےنہ لگا سکا۔ انہوں نے کہا اس عورت کو بلاؤ۔ عورت کو تلاش کرنے لگے کہ کس نے اس دن ایسا لہنگا پہنا تھا۔ بتاؤ۔ شہر میں سب جانتے تھے جو تھی چھمک چھلو، کہ وہ وہی ہو گی۔ عدالت میں پیش ہو گئی۔ پوچھا گیا، تم یہاں سے گزری تھیں۔ کہا ہاں میں گزری تھی۔ اس نے کہا تم نے ایسا لہنگا، ایسا غرارہ پہنا ہوا تھا۔ تم نے کیوں پہنا تھا؟ حضور بات یہ ہے کہ میرے خاوند نے مجھ سے کہا تھا کہ یہ تم کیا ڈل وے کلرز پہنتی ہو، یہ کچھ اچھے نہیں لگتے تمہارے رخِ زیبا کے اوپر کہ کپڑے سجتے نہیں ہیں۔ بہت اعلٰی قسم کے شوخ، اور بھڑکیلے قسم کے پہنو۔ میں نے کہا، میرے پاس تو ہیں نہیں۔ اس نے کہا میں تمہیں تمہارے کپڑے رنگ کے دیتا ہوں۔ چنانچہ وہ بازار سے رنگ لایا۔ اعلٰی درجے کی محبت کو استعمال کر کے انہیں رنگا اور مجھے دیئے۔ وہ کپڑے میں اس روز پہن کر جا رہی تھی۔ عدالت نے کہا اس کے خاوند کو حاضر کیا جائے۔ چنانچہ وہ اس کے خاوند کو پکڑ کر لے آئے، عدالت کے سامنے پیش کر دیا۔ وہ خاوند وہی شخص تھا، جو روشن دان سے چوری کرنے کے لیے اترا تھا۔ اس کی خواہش میں وہ خود کھڑا تھا۔

اتنا چکر کاٹ کے آدمی کو پتا نہیں چلتا کہ اس کے ساتھ کیا گزر رہی ہے۔ وہ کہاں پر اپنی ہی آرزو اپنی ہی خواہش کے درمیان کھڑا تھا۔ ساری دنیا سے شکوہ کرتا تھا، جیسا کہ اس نے شکوہ سب لوگوں کے ساتھ کیا تو یہ بات بظاہر سیدھی سی لگتی ہے، لیکن بڑی باریک ہے، اور اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ ہم قومی زندگی کے 52 برس گزار چکے ہیں، اور ہم کو میچور ہو جانا چاہیے، اور ہمیں اپنی سوچ کی لہریں جو ہیں، اس کو مضبوطی کے ساتھ خود بھی پکڑنا چاہیے، اور لوگوں کو بھی توجہ دلانی چاہیے۔ اب یہ وقت آ گیا ہے ہم اپنی سوچ، جس کا ہم کو حکم ہے، تفکر بھی کریں، اور تدبر بھی کریں۔

آپ کی تشریف آوری کا بہت بہت شکریہ۔

اللہ آپ کو خوش رکھے اور آپ سب کو آسانیاں عطا فرمائے، اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 

فریب

محفلین
حقوق العباد کا بوجھ

میرے گھر کے فون پر فون کرنے والے کا جلی ہندسوں میں نمبر آجاتا ہے اور نام بھی کیونکہ اس میں نمبر نام کے ساتھ ریکارڈ کرنے کی سہولت ہے۔ مجھے پتہ چل جاتا ہے کہ کس کا پون ہےاور اب مجھے یہ آسانی ہو گئ ہے کہمیں نمبر دیکھ کر یہ فیصلہ کر سکتا ہوں کہ میں اس سے بات کروں یا نہ کروں۔ ایک ہمارا بہت یہ “گپی“ دوست ہے۔ وہ بہت لمبی بات کرتا ہے‘ گھنٹہ‘ ڈیڑھ گھنٹہ۔ اس کا نام آئے تو میں کہتا ہوں کہ میں فون نہیں اٹھاتا۔ یہ میرے پیچھے ہی پڑ جائے گا۔ جان نہیں چھوڑے گا۔ اس طرح سے کچھ ایسے نمبر ہیں جن کے اوپر دل نہیں ٹکتاکہ ان کو رسبانس دیا جائے، یا ان سے بات کی جائے اور جب مجھے کسی پسندیدہ تیلیفون کی آمد کا پتہ چلتا ہے، تو میں بڑی خوشی کے ساتھ بات کرتا ہوں۔ پرسوں،ترسوں میری پوتی نے اسلام آباد سے فون کیا تو میں نے ٹیلیفون اٹھاتے ہی اور اس کی “ہیلو“ سے پہلے ہی کہا“ہیلو مایا! کیا حال ہے، کیا کر رہی ہو؟“ اس نے کہا “دادا! آپ بڑے سمارٹ ہو گئے ہیں۔“ میں نے کہا“ مجھے پتا چل جاتا ہے کہ مایا فون کر رہی ہے، یا اس کا ابو کر رہا ہے۔ اس لیے میں پہچان جاتا ہوں۔ میرے پاس ایک اعلٰی درجے کا سسٹم ہے۔“
اس نے کہا “دادا! یہ اعلٰی درجے کا کالر آئی ڈی نہیں ہے، جس کی آپ بری تعریف کر رہے ہیں۔“ میں نے کہا“ اس نے مجے بری آسانیاں عطا کر دی ہیں اور میں بڑی آسائش میں ہو گیا ہوں۔“ اس نے کہا“ ٹھیک ہے۔ اب میں آپ کے سامنے بولتی تو نہیں۔ لیکن میں آپ سے پوچھتی ہوں کہ اگر آپ کو اللہ تعالٰی فون کریں تو پھر آپ کیا کریں گے؟ یعنی اگر اس کے اوپر "God Almighty Calling" آجائے، تو پھر آپ کیا کریں گے؟ اس طرح آپ کا کالر آئی ڈی اچھا نہیں ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ آدمی کان کو فون لگالے اور پتہ چلے کہ کون ہے؟ میں نے کہا“ اگر اللہ میاں کا فون بھی آئے تو (ابھی تک تو آیا نہیں) مجھے پتا نہیں کہ میں کیا کروں۔“ لیکن اگر آیا اور میں کام میں مصروف ہوا تو مجھ میں ایک خرابی ہے، ضیسے میرے سارے ساتھیوں میں ہے کہ ہم عبادت کے ساتھ بہت مشغول ہوتے ہیں اور عبادت کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں دراصل میں بچی کی بات سن کر ڈر گیا میں نے اپنے طور پر سوچا اور اس کو نہیں بتایا۔ آپ کو خفیہ طور پر بتاتا ہوں کہ میرے دل میں یہ بات آئی کہ اگر اللہ میں کا فون آئے، تو میں کہوں گا کہ اللہ میاں! میری ابھی چار سنتیں رہتی ہیں، وہ پڑھ لوں۔ تو پھر آپ سے بات کروں، حالانکہ وہ سنتیں بھی اللہ ہی کی عطا کردہ ہیں۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ عبادت اہم ہے، اللہ کی ذات سے بھی، جس نے مجھے عبادت کا حکم دیا ہے اور جس نے اپنے آپ کو برائے عبادت ٹھہرایا ہے۔یہ غلط قسم کا خیال میرے ذہن میں آیا، کیونکہ میری تربیت اور طرح کی ہوئی ہے کہ یہ کام پہلے کرنا ہے، یہ کام بعد میں کرنا ہے۔ تو مایا نے مجھے کہا کہ یہ بات آپ یاد رکھیئے کہ اس کا(اللہ میاں کا) فون آ جانا ہے اور آپ سے کوتاہی ہو جانی ہے۔ اس لیے الرٹ ہو جائیں اور بہتر ہے کہ سی ایل آئی یا کالر آئی ڈی اتروادیں۔ ایسے ہی رہنے دیں جیسے پہلے تھا۔ یہ واقعی اس سے میرے لیے مشکل پڑ گئی۔ ایسے ہی جیسا کہ میں نے آپ سے ذکر کیا۔ عشاء کا وقت تھا۔میں نماز پڑھ کر آیا تھا اور وتروں کے بارے میں آدمی کچھ اور طرح کا ہوتا ہے کہ یہ صبح پڑھنے چاہئیں یا ۔۔۔۔۔ کچھ آتا رہتا ہے بدستور خیال۔ لیکن آدمی اس میں مصروف رہتا ہے۔ عشاء کا وقت ہوتا بھی ایسا ہے۔
میرے پڑوسی کے ثوکیدار نے آ کر کہا یہ گرمیوں کا واقعہ ہے کہ وہ سب میرے پڑوسی حاجی صاحب کی فیملی تو گئی ہوئی ہے مری، صرف چھوٹے صاحب شاہد میاں، جو فورتھ ایئر کے سٹوڈینٹ ہیں، وہ گھر پر ہے۔ چوکیدار کہنے لگا کہ پتا نہپیں اچانک اسے شاہد کو کہا ہوا کہ وہ پہلے تو تشنج میں مبتلا ہوئے اور پھر تڑپے اور پھر اچانک بےہوش ہوگئے۔ انہیں ہسپتال لے جانا ہے۔ میں اکیلا ہوں آپ میری مدد کریں۔ میں نے کہا کہ دیکھو میاں میں اپنی نماز ختم کر لوں، پھر دیکھوں گا کہ کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ میں نماز پڑھ چکا، تو میں نے اپنے سلیپر پہنے، پنکھا بند کیا۔ پھر آرام سے باہر گیا کہ اسے پوچھوں کہ شاہد کو کیسے لے جانا ہے۔ باہر نکلا تو پتا یہ چلا کہ چوکیدار نے یہ بتایا کہ ہم اسے لے گئے۔ یہاں ایک پنوں نام کا گدھا گاڑی والا ہے۔ جو لڑکے سے بورے میں رکھ کر “چھلیاں“ (مکی کے سٹے) بیچتا ہے۔ اس کی گدھا گاڑی میں رکھ کر ہسپتال لے گئے ہیں۔ ہسپتال والوں نے ٹیکا ویکہ دیا اور انہوں نے کہا کہ اسے یہیں چھوڑ جاؤ، کل صبح ہم آپ کو بتائیں گے کہ کیا کرنا ہے۔ لیکن خیریت ہے آپ نے اسے وقت پر ہسپتال پہنچا دیا، ورنہ مشکل پڑجاتی۔
میں نے چوکیدار سے کہا کہ چلو یہ اچھا ہوا۔ مایا نے پوچھا پتا نہیں اسے کشف ہوتا ے کہ آپ کو اللہ میاں کا فون آیا سی ایل آئی پر۔ میں نے کہا نہیں ابھی تک تو نہیں آیا۔ کہنے لگی کہ دادا آیا تھا۔ لیکن آپ نے اس کی طرف توجہ نہیں دی۔ بالکل آیا اور بڑی وضاحت کے ساتھ آیا اور اس نے آپ کو حکم دیا کہ یہ کرو۔ میں نے کہا تجھے یہ کیسے معلوم ہے؟ کہنے لگی میری ایک تار آپ کے ساتھ بھی تو لگی ہوئی ہے۔ اسے پورے وقعے کا تو نہیں پتا، لیکن اس کا دل کہتا تھا۔ پھر میں نے کہا کہ بھئی ایسا واقعہ گزرا تھا۔ اس نے کہا کہ دیکھئے آپ نے فائدہ نہیں اٹھایا پورا۔ آپ چھوڑ دیتے نماز، پھر پڑھ لیتے۔ آکے پڑھ لیتے۔ اگلے دن پڑھ لیتے۔ یہ تو آپ نے بڑی زیادتی کی۔ اس نے یہ مجبوری میرے ساتھ وابستہ کر دی کہ میں اسے اتروا دوں اور میں ہر کال موصول کروں۔ اب کیفیت یہ ہے کہ وہ ویسے ہی لگی ہوئی ہے اور مجھے فون کرنے والے کا پتہ بھی چل جاتا ہے۔ لیکن کوتاہی اس کے ساتھ ساتھ ہی چلتی رہتی ہے کہ میں ایک نظر دیکھ کر کہتا ہوں کہ یہ فون سننے والا نہیں ہے۔ لیکن اب مجھے یہ کام کرنا پڑے گا۔
زندگی میں اور بھی کام ہوتے ہیں، لیکن انسانوں سے متعلق جو کام ہوتا ہے، اس کا بوجھ بہت زیادہ ہوتا ہے اور ناقابل برداشت ہوتا ہے، اٹھایا نہیں جاتا۔ پھر ایسے ہی میری پوتی کے کہنے کے مطابق ایک کال ہی کہ لیجئے، اسے اور آ گئی۔ وہ بھی کافی مشکل تھی اور میں یہ سمجھتا رہا کہ میں حق بجانب ہوں۔ ہوا یہ کہ جس گھر میں، میں رہتا ہوں اس سے دو تین گھر چھوڑ کر ایک بہت بڑی کوتھی ہےاور اس میں بہت معزز لوگ رہتے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیاں وہاں کھڑی ہوتی ہیں۔ پچھلے دنوں جب الیکشن کاکام چلا اور الیکشن میں یہ خوشخبری سنائی گئی کہ بہت ساری خواتیں کو بھی ایم پی اے اور ایم این اے بنا دیا جائے گا اور مبارک ہو۔ اس گھر کے باہر ایک جمگھٹا لگ گیا۔ خواتیں آتی رہیں، خواتیں جاتی رہیں۔ کاریں آتی جاتی رہیں تو مجھے اندازہ تھا کہ وہ مسز اکرم بھی ایم پی اے ہونے کی آرزو مند ہیں، یا ایم این اے ہونے کی ہیں۔ میں نے کہا بڑی اچھی بات ہے۔ ہمیں بھی خوشی ہوئی کہ چلو ہمارے علاقے کی بھی ایک بی بی ہو جائے گی اور یہ بھی جاکے ڈیسک بجائے گی( مسکراتے ہوئے)۔ ایک دن یہ ہوا، اس دن میں ساہیوال جا رہا تھا، اپنی ہمشیرہ کے پاس۔ ہوا یہ کہ انہوں نے ( مسز اکرم نے) بہت بڑی دعوت کا بندوبست کیا اور اس میں امیدوار خواتین، جو ایم این اے اور ایم پی اے شیپ کی تھیں، وہ آئیں۔ بہت معزز لڑکیاں Colour Full قسم کے کپڑے پہنے ہوئے۔ اس نے اعلٰی درجے کے کھانے بھی تیار کیے ہوئے تھے۔ ان میں ایک کھانا شامی کباب بھی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بہت ہی اچھے بنے ہوئے تھے۔ وہ شامی کباب ان کے خانساماں نے بجائے میری میز کے اوپر رکھنے کے، میز کے نیچے رکھ دیے۔
ان کا کتا جیکی بہت چھوٹا سا پیارا کتا۔ وہ آیا او نے جناب ایک شامی اٹھایا اور آدھا ت گٹ گٹ کر کے کھا گیا اور آدھا منہ میں دبا کر کھڑا تھا کہ مالکن اور دیگر بیرے خانساماں آئے اور دیکھا تو کہا کہ روکو اس کو، پکڑو پکڑو۔ خیر کتا ان کی نظروں کے سامنے کھا گیا، یا خراب کر گیا۔ اب اصل دعوت شروع ہوئی۔ ظاہر ہے خواتین خوش گپیوں میں مصروف ہوں گی۔ اپنے سنہرے مستقبل کی باتیں کر رہی ہوں گی۔ پروگرام طے کر رہی ہوں گی کہ کیسے سیاست میں جانا ہے اور اسمبلی میں کدھر سے داخل ہونا ہے۔ یقیناً ایسی باتیں ہوئی ہوں گی۔ جب وہ کھا رہی تھیں اور اختتام کو پہنچیں اور سویٹ ڈش کھا رہی تھیں، تو ان کے مالی نے آکر روتے ہوئے یہ کہا کہ جیکی مر گیا ہے اور وہ سڑک کے اوپر مرا پڑا ہے۔
اب مالکن جان گئی کہ اس نے جو کباب کھایا ہے اس میں کوئی زہریلی چیز تھی۔ گھر کی مالکن نے کہا سب دوڑو، بھاگو اللہ کے واسطے۔ سب نے بطرف ہوپتال موٹروں میں چھلانگیں لگا دیں۔ وہاں ان کے گلوں میں لمبی لمبی نالیاں ڈال کر ان کی واشنگ شروع کی گئی۔ جتنا اچھا کھانا کھایا تھا، وہ تین مختلف ہسپتالوں نے نکالا اور سب نے دعا کی کہ یا اللہ! ہم اگر زندہ سلامت بچ جائیں تو تیری بڑی مہربانی ہو گی۔ ڈاکٹر نے بھی کہا کہ اب خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔ بیگم صاحبہ نے خوشی میں دو دیگیں داتا صاحب بجھوائیں کہ اللہ تیرا فضل ہے کہ میں اس ناگہانی مصیبت سے نکل آئی۔ میں یہ ہنگاما دیکھ کر ہی ساہیوال جا رہا تھا اپنی گاڑی میں۔ وہاں کسی وقت مقررہ پر جانے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ میں وہاں پانچ دس پندرہ منٹ کے لیے رُک بھی سکتا تھا، لیکن میں چلا گیا اور دوسرے تیسرے دن وہاں سے واپس آیا۔ واپس آ کر میں نے مسز اکرم سے کہا بڑا افسوس ہے۔ مجھے آپ کے کتے کا افسوس کرنا تھا۔ وہ آپ کا تنا پیارا کتا تھا۔ اس نے کہا ہاں بھائی صاحب! یہ ہمارے ساتھ تو بڑی ٹریجیڈی ہو گئی۔ میں وہیں کھڑا تھا۔ جب وہ ٹرک بیک کر رہا تھا، ٹرک بیک کرتے ہوئے ٹرک کا لوہا کتے کے سر پر لگا اور وہ وہیں “چوں“ کر کے ختم ہو گیا۔ مجھے ان لوگوں کو جا کر بتا دینا چاہیے تھا کہ یہ کتا کس وجہ سے فوت ہوا ہے۔ لیکن میں نے ان کو نہیں بتایا۔ میری پوتی مایا کہتی ہے کہ دادا! ایک ٹرنک کال آپ کو اور آ گئی ہے اللہ میاں کی۔ وہ بھی مس ہو گئی۔ اس لیے کہ آپ کو یہ بات ان تک پہنچانی چاہیے تھی۔ کوئی سی اچھی بات ہو۔ خیر کی بات ہو۔ یہ بتائی جانی چاہیے۔ حضور نبی کریم کے پاس ایک صحابی تشریف لائے۔ پہلی مرتبہ کوئی یمن سے آئے تھے۔ انہوں نے پتا نہیں کس صحابی کو دیکھا اور حضور نبی کریم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے آپ کے یہ صحابی بڑے اچھے لگتے ہیں۔ آنحضور نے کہا کہ آپ نے ان کو یہ بات بتا دی ہے کہ آپ مجھے اچھے لگتے ہیں۔ انہوں نے کہا جی نہیں۔ میں تو شرم سے ایسا نہیں کیا۔ وہ صحابی اس وقت تک جا چکے تھے۔ حضور نے فرمایا کہ آپ بھجاگ کر ان کے پیچھے جائیں اور انہیں گلے ملیں اور بتائیں کہ آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔ اس کا اظہار کیا جانا بہت ضروری ہے۔ ہم یہ جھوٹی موٹی شرمندہ سے ہو کر کھڑے ہو جاتے ہیں، آپ ضرور کہیں اپنے پڑوسی سے، ہمسائے سے آپ کا فلاں بچا مجھے پیارا لگتا ہے اور اس سے بھی کہیں کہ ماشاء اللہ بیٹے آپ کس کے بیٹے ہیں۔ وہ کہے گا جی میں شمس الدین کا بیٹا ہوں۔ وہ کیا کرتے ہیں؟ وہ کہے گا کہ جی وہ یہ کرتے ہیں۔ آپ اس سے کہیں بیٹے آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔ اللہ آپ کی عمر دراز کریں۔ کہاں پڑھتے ہیں؟ فلاں فلاں ۔ یہ بات کی جانی چاہیے۔ اپنے تک محدود نہیں رکھنی چاہیے۔ نہ کہ میری طرح سے اگر میں ساہیوال جانے سے پہلے انہیں سب کچھ بتا دیتا تو آگے اتنی بڑی کہانی نہ چلتی اور ان بیچاریوں کا اتنا اچھا کھایا ہوا کھانا یوں ٹونٹیاں ڈال ڈال کر نہ نکال دیا جاتا۔ تکلیف دہ بات ہے۔
میں یہ عرض کر رہا تھا کہ اللہ بڑے بڑے انداز میں برے روپ میں آپ کے پاس آتا ہے۔ میرے پاس آتا ہے اور وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ جو کچھ اس نے فرما دیا ہے اس کے مطابق عمل کیا جائے اور بالکل یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ دیکھ رہا ہے، لیکن ہم نے اپنی ذات کے ساتھ ایسی سی ایل آئی لگائی ہوئی ہے کہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی جونہی اللہ کا نمبر آتا ہے تو ہم کہتے ہیں کوئی نہیں پھر ان سے بات کر لیں گے۔ پہلے یہ دنیا داری کا کام پورا کر لیں۔ اس میں زیادہ فائدہ ہے۔ اس میں زیادہ نفع ہے۔اللہ کی باتیں تو ہوتی ہی رہیں گی۔ آج نہیں تو کل پوری ہو جائیں گی، تو اس سی ایل آئی کا یقیناً کوئی فائدہ نہیں، جو مجھے اور آپ کو اس راہ سے روک دے کہ ہمارا راستہ نہایت پھولوں بھرا اور گل فروشوں کی گلی بنا ہوا ہے۔ اس میں سے نہ گزریں اور اٹک کر بیٹھے رہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتیں خواتین و حضرات جب آپ ان پر غور کریں یا غور نہ بھی کریں، اکیلے بیٹھے ہوئے سوچیں، تو آپ کو اس میں بڑی اچھی پھلجھڑیاں بڑے پھول اور شگوفے نظر آنے لگیں گے۔ آپ اس پر عمل نہ بھی کریں، لیکن اس سے وابستہ ہو کر بیٹھ رہنا اور بیٹھنے کی عادت ڈالنا اور اس شعور کے ساتھ کہ میں اس اللہ کی دھرتی اس اللہ کے آسمانوں تلے موجود ہوں، جو اللہ نے خصوصی طور پر میرے لیے بنائے ہیں اور میں اس کا احساس رکھ کر اس کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے کچھ ایسی جگہ لپکنا چاہتا ہوں، جہاں میری پہنچ آج تک ہو ہی نہیں سکی۔ تو پھر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ عجیب و غریب رسے کھلیں گے۔ بعض اوقات تو انسان یقین نہیں کرتا کہ میں ایسے رستوں کو اپنائوں کہ نہ اپنائوں، لیکن ایسے رستے کھلتے ضرور ہیں۔
مجھ میں یہ کمی ہے کہ مجھے ایسا وقت نہیں ملتا۔ ایسی دھوپ نہیں ملتی۔ ایسا لان نہیں ملتا کہ جہاں پر میں ہوں اور میرا پالن ہار Creator ہو اور کچھ نہ کچھ اس سے بات ہو۔ عبادت اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہے، لیکن اللہ خود فرماتا ہے کہ جب تم نماز ختم کر چکو تو پھر میرا ذکر کرو۔ لیٹے ہوئے بیٹھے ہوئے پہلو کے بل۔ یعنی یہ بھی اجازت دی ہے کہ جس طرح سے چاہو مرضی کرو۔ لیکن آدمی ایسا مجبور ہے کہ وہ اس ذکر سے محروم رہ جاتا ہے۔ کبھی کبھی یہ سوچیں کہ اس وقت میرا اللہ کہاں ہے؟ کیسے ہے؟ شاہ رگ کے پاس تو ہے ہی، لیکن میں کیوں خالی خالی محسوس کرتاہوں۔ تو پھر بھی آپ کو ایک آواز سے وائبریشن سے، جسے بدن کا ارتعاش کہتے ہیں، اس سے پتا چلتا ہے۔ یہ بڑے مزے کی اور دلچسپ باتیں ہیںم لیکن ہم اتنے مصروف ہوگئے ہیں کہ ہم اس طرف جا ہی نہیں سکتے اور اللہ نے چاہا تو جوں جوں وقت آگے جائے بڑھتا جائے گا، ہمارے اندر شعور کی لہریں اور بیدار ہوتی جائیں گی۔ ہم پہنچیں گے ضرور، لیکن جس طرح سے ‘کے ٹو‘ کی برفوں سے بہنے والا ایک چھوٹا سا نالہ دھکے کھاتا ہوا، جغرافیہ جانے بغیر، نقشہ لیے بغیر سمندر کی طرف جا رہا ہوتا ہے اور ایک دن سمندر میں پہنچ جاتا ہے۔ ہم بھی انشاء اللہ اپنے سمندر کے ساتھ ضرور جاکر ہمکنار ہوں گے۔ اللہ تعالٰی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ!
 

فریب

محفلین
خواب اور معجزہ​

معجزہ کیا ہے؟ ایک عوصے سے مجھے یہ بات ستا رہی ہے کہ میں معجزے یا کرامت کا تعین کیسے کروں، یہ کیا ہوتا ہے؟ یہ معجزہ، کرامت یا اعجاز کس چیز کا نام ہے؟ اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں۔ یہ بات پوچھنے والے اور بتانے والے کے لیے پریشان کن ہے کہ معجزی، کرامات، اعجاز، جادوگری، سائنس اور تماشا کے درمیان لائن کہاں کھینچی جائے؟ میں نے بہت عرصہ قبل ریڈیو سے ملازمت کا آغاز کیا۔ اس وقت ہم آزاد کشمیر سے پروگرام پیش کرتے تھے اور یہ پروگرام بڑے توجہ طلب ہوتے تھے۔ ان دنوں اچھی تنخواہ نہ تھے نہ اچھے حالات تھے، اس کے باوجود وہاں کئی اچھے لکھنے والے جمع ہو گئے تھے جن میں ممتاز مفتی، اعجاز بٹالوی جیسی شخصیات شامل تھیں۔ ایک دن دوپہر کو شارت ویوز ٹو ٤٨۔٤ پر ایک پروگرام چل رہا تھا، جس میں میڈم نور جہاں ‘ سب جگ سوئے ہم جاگیں تاروں سے کریں باتیں‘ گانا گا رہی تھیں۔ اچانک گانا چلتے چلتے رک گیا اور آواز گونجی؛ “ روبینہ کتھے گئی اے۔ کل وی چلی گئی سی۔ اج وی چلی گئی اے۔ چابیاں وی نال لے گئی۔‘ غرض کبھی “ چاند تاروں سے کریں باتیں“ کی آواز آنے لگتی، کبھی یہ مداخلت۔ ہم سب حیران ہو گئے کہ یہ شور یا آواز (Stray Noice) کہاں سے آ گئی۔ یہ سائنسی لفظ ہم نے استعمال کر کے جان چھڑا لی، لیکن سب ٹھیک ٹھاک تھا تو پھر یہ آواز کہاں سے آئی، کیا یہ کوئی معجزی تھا، کرامت، جادوگری یا کچھ اور!!
میں ایسے واقعات پر غور کرنے لگا اور سوچنے لگا کہ آیا ایسا کہیں اور بھی ہوتا ہے؟ تھوڑے دنوں بعد معلوم ہوا کہ لندن میں ایک گٹار بجانے والا جب ہزارون کے مجمعے میں سٹیج پر آیا اور گٹار بجانے لگا تو اس کے گٹار میں سے بی بی سی کے پروگرام کی نشریات شروع ہو گئیں اور جب تک پورا بلیٹن ختم نہ ہوا، گٹارسٹ چپ چاپ پریشان کھڑا انتظار کرتا رہا اور شا کا وقت ختم ہو گیا۔ اس واقعہ کو کافی عرصہ گزر چکا ہے، لیکن ہم سوچتے ہیں کہ یہ کیا معجزہ ہوا، یہ کیا کرامت ہوئی، اسے کس کھاتے اور کس خانے میں رکھیں اور اس واقعہ کو کیا معانی پہنائیں۔
ایسے واقعات میں نے اپنی ڈائری میں لکھنا شروع کر دیئے۔ ایک بار میرے ایک دوست نے اپنے ساتھ ہونے والا ایک واقعہ بتایا اور کہا کہ آپ اسے بھی اپنی ڈائری میں لکھیں۔ اس وقت نئی نئی سوئی گیس دریافت ہوئی تھی۔ ایک شخص جو میرے دوست کا ملنے والا تھا‘ وہ اسے لاہور میں ایک کوکنگ رینج تحفے کے طور پر دے کر گیا۔ وہ میر پور سے تعلق رکھتا تھا۔ میر پور اس وقت امیر علاقہ سمجھا جاتا تھا، کیونکہ وہاں سے بڑی تعداد میں لوگ ولائت گئے ہوئے تھے۔ جب وہ کوکنگ رینج گیس کے استھ منسلک کر کے چلائی گئی تو اس میں سے نزاکت علی، سلامت علی گانے لگے اور ان کی آوازیں آئیں۔ ان صاحبان ک اپ[روگرام کراچی سے نشر ہوتا تھااور آدھ گھنٹہ کے دورانیے پر مشتمل ہوتا تھا۔ وہ پروگرام مسلسل کوکنگ رینج پر چلتا رہا۔ جس پر دوست کی بیوی ڈر گئی اور سوچا کہ اس میں ولائت سے کوئی بھوت وغیرہ آ گیا ہے۔ سمجھانے کے باوجود وہ نہ مانیًں اور اس نے کہا کہ وہ تو اپنا چولہا لکڑی سے ہی جلاے گی ۔
امریکہ کی ریاست ٹیکساس کا ایک نوجوان ذہنی طور پر ڈسٹرب ہوگیا۔ وہ کارخانے میں کام کرتا تھا۔ کام کے بعد گھر جاتا تو اس کے منہ کے اندر حلق میں ریڈیو پروگرام چلنا شروع ہا جاتا۔ یہ سوچ کر وہ نفسیاتی مریض بج گیا کہ اس کے اندر کوئی بھوت پریت سرائت کر گیا ہے۔ کچھ ماہ بعد ڈاکٹروں سے اسے معجزہ قرار دیا۔ اسے اپنے حلق سے پورے پروگراموں کی آواز آتی تھی۔ خبریں، گانے سب کچھ چلتا تھا۔ اس شخص کو ماہریں نفسیات کے سپرد کیا گیا۔ اس امریکی لڑکے پر بڑے بڑے تجربات کیے گئے۔ آخر کار ایک الیکٹرانک انجینئر نے کہا کہ یہ لڑکا چونکہ ریگ مال کی فیکٹری میں کام کرتا ہے جس سے ریگ مال کے باریک ذرات اس کے منہ کے اندر چلے جاتے ہیں۔ اس نے اپنے ایک دانت کی جگہ سونے کی Filling کروائی ہوئی تھی۔ جس طرح ہم بچپن میں کرسٹل ریڈیو سیٹ بنایا کرتے تھے جس میں سرمے کی ڈلی لے کر اس کو باریک تانبے کی تار سے باندھ دیا کرتے تھے۔ اسے ایک طرف سے Earth کر دیتے تھے اور اس پر ہیڈفون لگا کر بڑی آسانی کے ساتھ پورا پروگرام سن لیا کرتے تھے۔ اس الیکٹرانک انجینئر نے کہا لڑکے کے منہ میں چونکہ ذرات چلے جاتے ہیں اور سونے سے ان کا یسا تعلق بن جاتا ہے کہ اسے آوازیں آتی ہیں۔ بعد ازاں اسے کرسٹل ریڈیو سیٹ بنا کر باقاعدہ طور پر دیکھایا گیا۔ جب اس کے باقاعدہ دانت صاف کروائے گئے تو آوازیں آنا بند ہو گئیں اور اس معجزے کی حقیقت کھل۔ اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں۔
امریکہ کے علاقے نیو جرسی میں دو پہلوان سٹیج پر آکر کسرت کرتے اور جب ان کا جسم بالکل تن جاتا اور ان پر مخصوص کیفیت طاری ہو جاتی، تو وہ تاروں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیتے تھے، جس سے پورے کا پورا اکسٹرا بجنا شروع ہو جاتا تھا۔ اسے صرف سائنٹیفک حوالوں سے ہی نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ اس میں بندے کا مسلز سے کام لینا، اپنی روحانی کیفیت سے کام لینا اور سب چیزوں کو ملا کر اپنی مکینیکل چیزوں سے ملا دینے کا نتیجہ تھا۔
میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ معجزہ یا کرامت کی اتنی زیادہ اہمیت نہیں جتنی ہموے افسانہ نگار ذہن نے پیدا کر دی ہے کہ ایسا ہونا چاہیے۔ البتہ خواب کی بہت بڑی اہمیت ہے اور اس بارے میں قرآن پاک کی سورہ یوسف میں حوالہ بھی موجود ہے۔ اللہ تعالٰی خواب کے بارے میں ضرور چاہتا ہے کہ ہم جانیں۔ بد قسمتی سے ہمارے کسی بزرگ، عالم یا روحانی پیشوا نے اس طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ ڈاکٹر فرائیڈ نے اس پر تحقیق کی۔ لیکن وہ بیچارہ بالکل الٹی راہ پر چل نکلا۔ البتہ اب ولائت میں اس پر کام ہو رہا ہے کہ خواب کی کیا اہمیت ہے۔ میرا اپنا خیال ہے کہ جب تک وہ اللہ تعالٰی کی ذات کا سہارا نہیں لیں گے، جس نے خواب کو معنی عطا کیے ہیں، اس وقت تک وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکیں گے۔ اب میں آپ کو ای معجزہ نما خواب کی بابت بتاتا ہوں۔
خراساں میں ایک غریب آدمی شاد علی رہتا تھا کہ ایک وقت کی روٹی سے بھی محتاج تھا۔ وہ بیچارگی کی آخری سٹیج تک پہنچ گیا تو ایک رات اسے خواب آیا کہ“ تو یہاں سے ہندوستان کا سفر کر“۔ یہ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے۔ اسے کہا گیا کہ“ اٹک کا پل آئے گا وہاں تک پہنچ۔ اٹک کے پل کے آخری سرے پر جہاں ستون ہیں، وہاں کے آخری پائے پر داہنی ہاتھ پانی کے اندر پوری بادشاہت کا خزانہ ملے گا۔“ وہ غریب آدمی پا پیادہ چل پڑا‘ مہینوں کی منزلیں برسوں میں طے کرتا ہوا نہایت تنگدستی میں وہاں پہنچا۔ پل پر انگریز کا پہرہ تھا۔ جب پہریدار اس سے کچھ پوچھنے کے لیے قریب آتے تو وہ ڈر کے مارے دور بھاگ جاتا۔ آخر ایک ماہ کے بعد ایک سپاہی نے پل سے نیچے اتر کر اس حالت کی وجہ پوچھی تو اس غریب آدمی نے سپاہی کو آپنا خواب سنادیا۔
اس پر پوچھنے والا قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا اور کہا کہ کیسی احمقوں جیسی بات کرتے ہو اور کہا کہ مجھے پچھلے دو سال سے خواب آ رہا ہے کہ خراسان میں ایک فقیر ہے اور اس کے گھر کے چولہے کے پیچھے ٹین کا ایک ٹکڑا لگا ہوا ہے اور اس ٹکڑے کو اکھاڑو تو اس کے نیچے سات بادشاہوں کا خزانہ ہے۔ غریب نے فقیر کا نام دریافت کیا تو سپاہی نے علی شاد بتایا۔ غریب آدمی واپس بھاگا اور گھر پہنچا۔ اس نے ٹین اکھاڑا تو اسے خزانہ مل گیا۔
اس طرح خواب کی اہمیت اورمعانی رکھتی ہے اور معجزات کی باتیں زیادہ توجہ طلب نہیں ہیں۔ میں نے اپنے بابا سائیں صاحب سے پوچھا کہ معجزہ کیسے ہوتا ہے؟ کہنے لگے کہ کمالیہ سے قوال آئے ہیں اور یہ جھوٹے قوال ہیں اور یہ کہ رہے ہیں کہ انہوں نے چوکی بھرنی ہے، جبکہ ان کے پاس ایک ہی طبلہ ہے اور ان کے ہارمونیم سے ہوا نکل جاتی ہے اور یہ اب ہمارے سامنے قوالی کریں گے۔ان کے چھوٹے چھوٹے بال بچے ہیں۔ اگر ان قوالوں کا کچھ بن گیا تو اسے معجزہ کہیں گے، نہیں تو پھر کچھ نہیں۔ اس لیے معجزہ ہمیشہ بندے کے حوالے سے ہوتا ہے۔ اگر بندے کا کچھ بن گیا تو معجزہ ہو گیا۔
اب آپ خدا کے لیے معجزے کی تلاش میں اٹک کے پل کی طرف نہ چل پڑنا۔ خواب کی اہمیت مسلم ہے۔ میری خواہش ہے کہ علماء اس پر توجہ دیں۔ اس پر بڑی توجہ دی جاتی رہی ہے، لیکن سائنٹیفک طریقے سے اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ اگر توجہ دی جائے تو اس سے بہت سے مطالب اور معانی اخز کیے جاسکتے ہیں۔ مغرب والے اس پر جتنی بھی تحقیق کریں، وہ کسی مقصد تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ کیونکہ ان کا رخ الٹا ہے۔ خدا آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔
 

فریب

محفلین
زبانی دعوے اور ضمیر کی آواز​

بڑا اچھا موسم ہے اور بڑے اچھے دن ہیں، لیکن جو خوشی دلوں کے اندر ناچتی ہے اور چہروں پر رقص کرتی ہے، وہ عام لوگوں میں مفقود ہے۔ پتہ نہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ کسی سیانے سے پوچھیں تو وہ بھی اس کی وجہ بیان نہیں کر سکتا۔ کسی اکانومسٹ سے دریافت کریں تہ وہ بھی اپنی تمام علمیت کے باوجود یہ نہیں بتا سکتا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ ہماری انسانوں کی بھری پری دنیا میں ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی مغموم، ملول اور پریشان اور دردمند رہتا ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ دن بھی کچھ سیکھانے کے لیے ہوتے ہیں اور آدمی جب سیکھ جاتا ہے تو بہت کچھ حاصل کر لیتا ہےاور چھوٹی چھوٹی باتوں سے بہت بڑی بڑی باتیں آپ کے سامنے آ جاتی ہیں، بشرتکہ آپ غور کریں۔
رمضان شریف سے پہلے کا ذکر ہے۔ میں اپنے گھر میں بالکل اکیلا تھا۔ ایک عجیب و غریب آواز سنی، جو اس سے پہلے کبھی سنائی نہیں دی تھی۔ وہ آواز کچھ کچھ پرندے کی لگتی تھی اور کچھ کچھ مشینی اور کچھ کسی سیارے کے اوپر سے آنے کی سی ککو، کک،کک، ککو میں پریشان ہوا اور میں نے اٹھ کر صحن کا چکر لگایا۔ آواز بدستور آرہی تھی، لیکن پتا نہیں چل سکا کہ وہ کہاں سے آ رہی ہے۔ پھر میں اٹھ کر باورچی خانے میں گیا، وہاں سے بھی ایسی ہی آوازیں آ رہی تھیں، لیکن ذرا مدھم تھیں۔ باورچی خانے کے ساتھ ایک کوٹھری ہے جس میں بانو کھانے پینے کا سامان یعنی سوکھی رسد وغیرہ رکھتی ہیں۔ وہاں بھی ویسی کک کی آواز آرہی تھی، پھر میں باہر نکلا اور محسوس ہوا، جیسے یہ آواز میرا پیچھا کر رہی ہے، جس طرف میں جاتا ہوں میرے ساتھ چل رہی ہے۔میں خاصا پریشان ہوا۔ اس عمر میں آدمی چھوٹی چھوٹی باتوں پر زیادہ پریشان ہو جاتا ہے۔ اتفاق سے میرا بیٹا جو اپنی فائل بھول گیا تھا، دفتر سے گھر آیا تو میں نے کہا، یار دیکھو یہ عجیب سی آواز آتی ہے اور پھر رُک جاتی ہے اور دیر تک نہیں آتی۔ وہ کہنے لگا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے یہ آواز ہماری سڑک سے پچھلی سڑک پر جو سرونٹ کوارٹرز کی جو کالونی ہے، اس کے پیچھے سڑک بن رہی ہے۔ اس طرف سے آ رہی ہے اور زمین کو ہموار کرنے والے بلڈوزر کی ہے۔ میں نےکہا بلڈوزر کی آواز تو اور طرح کی ہوتی ہے۔ اس نے کہا کہ ابو بلڈوزر جب ریورس کرتا ہے تو پھر یہ مخصوص قسم کی آواز دیتا ہے۔ خطرے کے طور پر کہ پیچھے کوئی ہے تو محتاط ہو جائیں۔
میرا بیٹا چلا گیا اور میں سوچنے لگا کہ سائنسدان لوگ بھی کیا کمال کے لوگ ہوتے ہیں۔ انہوں نے مادیت سے اتنا کچھ نہیں سیکھا، جتنا روحانیت سے سیکھا ہے اور میرے اندر بھی یہ وارننگ کا سگنل اکثر اسی آواز میں چلتا ہے اور چلتا رہا ہے۔ اس کو آپ ضمیر کی آواز کہ لیں، اس کو آپ احساس گناہ کا نام دیں، میرے اندر کی آواز سے فائدہ اٹھا کر ہی سائنسدانوں ے اپنی مشینوں میں اس طرح کی آواز بھر دی ہے، جیسے ضمیر کی آواز ہوتی ہے، تاکہ آدمی کو پتا چلتا رہے کہ وہ کیسی غلطی کر رہا ہے اور کیوں ریورس جا رہا ہے اور یہ کہ اسے خداوندتعالٰی نے آگے جانے کا حکم دیا ہے۔ وہ بیک کیوں جا رہا ہے۔ میرے ذہم میں یہ ساری باتیں آئیں تو بہت ساری گزشتہ باتیں اور کیفیتیں جو آدمی کے ذہن پر طاری ہو جاتی ہیں، طاری ہو گئیں۔ مجھے اللہ کی ایک بات یاد آئی، جس کی میں نے ہمیشی ہی حکم عدولی کی ہے اور جس کو نہیں مانا۔ یہ کہ اللہ کہتا ہے کہ وہ کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں اور بہت دفعہ کہا ہے۔ میری یہ کیفیت رہی ہے اور شاید میرے ساتھیوں کی بھی ہو کہ ہم جب سٹیج پر بیٹھے ہیں یا گھر والوں یا دوست احباب میں بات چیت کرتے ہیں تو ضرور ایسی باتیں کرتے ہیں، جن پر ہمارا عمل نہیں ہوتا۔
میرے ایک استاد تھے اور میں خود بھی ٹیچر رہا ہوں۔ وہ اپنے طلبہ، اپنے ساتھیوں اور سارے ملنے والوں کو بتایا کرتے تھے کہ “نبی اکرم اپنے کام خود اپنے ہاتھ سے کرتے تھے، اپنے کرتے کو خود پیوند لگاتے تھے، اپنے جوتے گانتھ لیتے تھے، اگر جگہ صاف نہ ہو تو چھاڑو دیتے تھے اور اگر کوئی کارکن، کارندہ یا خادم سویا ہوا ہے تو اسے کبھی نہیں جگاتے تھے۔“ لیکن میں اکثر یہ پوچھتا ہوں وہ بشیرا کہاں ہے۔ پتا چلا سویا ہوا ہے تو کہتا اسے جگاؤ اور اسے بولو کہ میرے لیے چائے کی ایک پیالی بنائے۔ میری طرح میرے بعد آنے والے استاد پھٹے ہوئے کپڑوں کو پیوند لگانے کی یا جوتا گانٹھنے کی بات اکثر کرتے ہیں، لیکن میں نے کبھی کسی استاد کو آج تک سکول میں نہیں دیکھا کہ اس نے قمیض کو کوئی پیوند ٹاکی لگائی ہو۔ یہ ہم کہ ضرور دیتے ہیں، لیکن کتنی بری اور نقصان دہ بات ہے کہ میرا عمل نہیں ہے۔ لیکن میں اسے زبردستی دھکیلے چلا جاتا ہوں کہ آپ اس پر عمل کریں، میں قبول کروں یا نہ کروں، یہ تکلیف دہ بات ہے۔
پچھلے دنوں میں تی وی پر ایک تقریر سن رہا تھا، ٹی وی پر سمجھدار لوگوں کا ایک پینل کہ رہا تھا کہ دیکھیے ہمارے اسلام میں تو عورت کو خداوند تعالٰی نے اتنی آسانیاں دی ہیں اور اس کے لیے ایسے قانون طے کر دیے ہیں، جو دنیا کے کسی معاشرے اور مذہب میں نہیں ہیں۔ سد کو پوری آزادی دی ہے۔ ولائت والیاں تو اب بڑی مشکل سے وہاں پہنچی ہیں، جو آج سے ١٤ سو سال قبل اللہ نے عورت کو دے دیا تھا۔ بیان تو یہ ہو رہا ہے، لیکن جب میں عمل کی طرف لوٹتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ جو وہ کہتے ہیں، کرتے کہاں تک ہیں۔ میرے ایک عزیز ہیں، چچا زار بھائی۔ وہ بڑے نیک مولوی آدمی ہیں اور ہمیں اچھی نصیحتیں کرتے ہیں۔ ان کی رحیم یار خان میں زمین ہے، جس میں باغ بھی ہے، بارہ مربع زمین ہے، وہ ایک بھائی اور ایک بہن ہیں، ان کے ابا جی حیات تھے تو وہ سب کام سنبھالتے تھے۔ جب وہ فوت ہو گئے تو بڑی سیدھی سی تقسیم تھی کہ آٹھ مربعے بھائی کے اور چار مربع بہن کے۔ اللہ اللہ خیس صلا۔
اس میں کوئی باریکی بھی نہیں تھی تو وہ بھائی صاحب جو بار بار یہ کہتے تھے کہ اللہ نے طے کر دیا ہے، انہیں جب ٤ مربع زمین دینے پڑے ( ایک مربع کی آمدنی تقریباً چار لاکھ روپیہ سالانہ تھی) اور سولہ لاکھ روپیہ سالانہ بہن کو جانے لگا تو ان کے قدم لڑکھڑا گئے۔ وہ خدا اور رسول کے فرمان بتاتے تو بہت تھے، مگر عمل نہیں تھا۔ میں نے کہا یار تو تو ہمیں سمجھایا کرتا تھا، اس لیے آپا کا جو حصہ بنتا ہے اسے دو۔ کہنے لگا نہیں میں ظالم نہیں ہوں، سنگدل نہیں ہوں، مین بڑی احتیاط اور سنبھال کے ساتھ اس کے مربع کا انتظام بھی کرتا ہوں۔ میں نے کہا تو دفع کر۔ ایسا نہ کر۔ اس کا خاوند جانے۔ کہنے لگا نہیں، میں اس کی بہتر مدد کر سکتا ہوں اور مین اس کا خرچ چلانے کے لیے گزارے کے طور پر دو ہزار روپے ماہانہ دے رہا ہوں۔
دیکھیے جب یہ سب کچھ ہو گیا تو مٰن نے ایک روز اپنے اس بھائی کو دیکھا، خواتین و حضرات لاہور میں ایک جگہ ہے شاہ جمال کالونی، وہاں پر سڑک کے کنارے ایک چڑی مار بیٹھا تھا۔ یہ طوطے چڑیاں پکڑ کر بیچنے والے ہوتے ہیں۔ وہاں میرا وہی بھائی کھڑا تھا اور اس نے چڑی مار سے کہا، سو چڑیاں چھوڑ دے اور بتا کتنے کی آتی ہیں۔ اس نے کہا بانچ روپے کی ایک چڑی ہے۔ میرے بھائی نے کہا یہ لو بانچ سو روپے، چڑی مار نے جنگلے کا دروازہ کھول دیا اور چڑیاں پھر پھر اڑنے لگیں۔ میں گاڑی میں بیٹھا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے پوچھا بتاؤ طوطا کتنے کا ہے۔ اس چڑی مار نے جواب دیا پچیس روپے کا۔ میرے بھائی نے کہا کہ چلو دس طوطے چھوڑ دو۔ یہ پیسے دے کر میرا بھائی سمجھا کہ اللہ کے حکم پر اس نے عمل کر لیا ہے اور جو لوگ وہاں کھڑے تھے، وہ سب کہ رہے تھے کہ کتنا نیک دل آدمی ہے، جو جانوروں پر اتنا رحم کرتا ہے تو بندوں پر کیوں نہیں کرتا ہو گا۔ اس طرح کی کوتاہیوں میں ہم سب شامل ہیں، کسی نہ کسی طور پر۔ میں زور لگاتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ یا اللہ ایسی کوئی بات نہ نکلے، لیکنن یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ جو بندہ محفل میں بیٹھا ہے، وہ معتبری بنانے کے لیے چاہے گا کہ اس کی واہ واہ ہو۔ رہا اس کا عمل تو اسے کون دیکھنے جاتا ہے۔ اس طرح آدمی کو بڑی مشکل ہو جاتی ہے۔
میں نے شاید آپ کو پہلے بھی یہ قصہ سنایا تھا کہ ہمارے سکول میں دو لڑکے آپس مین لڑ پڑے پرنسپل نے انہیں سکول سے نکال دیا دونوں لڑکوں کے والدین میرے پاس آگئے اور آپ صاحب عقل ہیں پرنسپل صاحب کو منائیے۔ میں پرنسپل کے پاس گیا۔ انہوں نے کہا میں یہ بات تسلیم کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں اور انہیں سکول سے نکال دیا اور اس سختی سے نکالا کہ وہ لڑکے کسی اور سکول میں داخلہ ہی نہیں لے سکتے تھے، یعنی ان کا کیرئیر ہی تباہ کر دیا۔ ہوا یہ تھا کہ صبح Prayer کے وقت ایک نے دوسرے کو دھکا دیا اور وہ آپس مین لڑ پڑے۔ بس اتنی بات تھی۔ میں نے پرنسپل سے درخواست کی کہ آپ تو معاف کر دینے والوں میں سے ہیں، تو کہنے لگے ہاں ہم اپنے بچوں کو معافی کا درس دیتے ہیں۔ مین نے کہا، سر! جب تک آپ معاف کرنے کا علم نہیں عطا کریں گے تو انہیں لفظ کے معانی کی سمجھ نہیں آئے گی۔ آپ انہیں آگے بڑھنے کا مقابلہ کرنے کا سبق سکھاتے ہیں تو معاف کرنے کا بھی سکھادیں۔ یہ سکول سے ایسے ہی نکل گئے اور انہین کسی نے معافی کا درس نہیں دیا اور اتفاق سے جاکر کسی ضلع کے ڈپٹی کمشنر بن گئے تو انہیں تو معافی کا پتہ ہی نہیں چلے گا۔ انہوں نے سیکھا ہی نہیں ہو گا، جیسے میں نے باکسنگ کا فن نہیں سیکھا۔ اگر کوئی مجھے اکھاڑے میں کھرا کر دے تو میں تو مارا جاؤں گا۔ کہنے لگے نہیں دیکھئے اس کا کورس میں ذکر ہے اور ماسٹر صاحب سے کہا کہ آپ بھاگ کر وہ کتاب لائیں اور اسے اشفاق صاحب کو دکھائیں۔
اس میں لکھاتھا کہ ایک بدبخت بڑھیا مکہ شریف میں حضور نبی اکرم پر ہر روز کوڑا پھینکا کرتی تھی اور آپ اپنی زلفیں، سر اور کپڑے جھاڑتے ہوئے گزر جاتے تھے۔ یہ کہانی آپ لوگ جانتے ہیں۔ ایک دن یہ سب کچھ نہ ہوا تو آپ کو پتہ چلا کہ وہ عورت بیمار ہے، آپ عیادت کے لیے اس کے گھر گئے اور فرمایا بی بی کیا حال ہے۔ میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔ پرنسپل صاحب کہنے لگے دیکھئے کتنا اچھا معاف کرنے کا سبق ہے۔ میں نے کہا جی یہ تو کہنے کی بات ہے۔ کہنے لگے نہیں ہم پڑھا دیتے ہیں۔ اگلے سبق میں پڑھئے، جب حضور نبی اکرم طائف میضں تشریف لے گئے تھے، وہاں پر شریر نوجوان پیچھے پڑ گئے اور آپ کو تکالیف دیں تو نبی پاک نے دعا کی کہ “ اے اللہ یہ لوگ جانتے نہیں÷“ فرشتہ جبرائیل ان کے پاس آیا اور کہا آپ چاہیں تو ہم پہاڑوں کو ہلا دیں۔ یعنی فرشتے کو تکلیف ہوئی کہ یہ کم بخت لوگ کیا کرتے ہیں، تو آپ نے فرمایا“ انہیں کچھ نہ کہنا۔ انہیں پتا نہیں ہے جب پتا چل جائے گا تو۔۔۔۔“
اچھا ہم سارے یہ بار بتا تو دیتے ہیں، لیکن ہم اس پر کسی طور عمل نہیں کرتے اس لیے بہتر یہ ہے کہ جب تک عمل نہ ہو سکے۔ بتائیں بھی نہیں۔ جب بات کریں تو لوگوں کو غلط فہمی ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھی کوئی آدمی ایسا ضرور آتا ہے زندگی میں جو اس کک، کک، کک سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس کا ضمیر جب اس کو روکتا ہے اور کہتا ہے کہ ریورس مت چل، تو وہ ریورس سے رک جاتا ہے۔ آواز سب کو آتی ہے۔ پتا سب کو چلتا ہے، لیکن وہ خوش قسمت ہوتا ہے۔
آپ کو ایک واقعہ سناؤں بریلی کے کوئی رئیس تھے۔ وہ میر ضامن کے مرید بھی تھے۔ ان سے بیعت تھے۔ ان کے ہاں ایک دفعہ چوری ہو گئی تو لوگوں کو اکٹھا کیا۔ ایک بے چارہ جولاہا وہاں موجود تھا جو برا ڈرپوک قسم کا کارندہ ہوتا ہے۔ اس کو بلا کر ڈرایا دھمکایا تو وہ تھر تھر کانپنے لگا۔ لوگوں نے کہاکہ جناب یہی چور ہے۔ اس کی شکل دیکھیں پیلی رنگت ہو رہی ہے۔ اس پر انہوں نے اس کر تین چار بید مارے وہ تڑپا اور چلایا۔ رئیس جب گھر آیا تو اسے خیال آیا کہ اس کے پاس کوئی ثبوت تو تھا نہیں۔ میں نے ایسے ہی اسے بید لگا دیئے۔ وہ وہاں سے نکلے اور مولوی ضامن صاحب کے پاس گئے، جو اس وقت اپنے کمرے میں تھے اور معمولات میں مصروف تھے۔ خادم نے رئیس سے کہا کہ وہ اس وقت نہیں مل سکتے۔ رئیس نے کہا کہ آپ مولوی صاحضب سے کہ دیجئے کہ یا تو وہ ملاقات کر لیں، یا پھر میں اپنا منی کالا کروں یا جھیل میں ڈوب کر مر جاؤں، کیونکہ میں واپس گھر نہیں جاؤں گا۔ اس پر پریشان ہو کر مولوی ضامن نے انہیں اندر بلایا اور کہا میاں کیا شور مچا رکھا ہے۔ اس نے کہا جی مجھ سے یہ کوتاہی ہوگئی ہے۔ مولوی صاحب نے کہا اس میں شور مچانے والی کیا بات ہے۔ اس شخص سے جا کر معافی مانگ لو۔
رئیس کہنے لگا یہ تو مشکل ہے (کیونکہ وہ بڑا آدمی تھا) مولوی ضامن نے کہا کہ بس خودکشی کرنے، مرنے یا خود کو ایذا دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایک ہی حل ہے کہ معافی مانگو۔ وہ واپس آیا۔ گاؤں کے لوگوں کو اکٹھا کیا اور جولاہے کو بھی بلایا۔ وہ بے چارہ پھر ڈرا کہ سردار نے پھر بلایا ہے۔ رئیس نے کہا یا تو مجھے اتنے بید مارو، نہیں تو میں تجھے اس گاؤں سے جانے نہیں دوں گا۔ تیرا ترکھان بچہ (خاندان) مار دوں گا۔ وہ کہنے لگا، خواہ مجھے آپ جان سے مار دیں، آپ رئیس ہیں اور ہمارے سردار ہیں میں آپ کو بید کیسے مار سکتا ہوں۔ رئیس نے کہا نہیں یہ تو تجھے مارنے ہی پڑیں گے۔ وہاں جھگڑا ہو گیا۔ لوگوں نے کہا حضور یہ بیچارہ غریب آدمی ہے اور آپ سے خوفزدہ ہے۔ یہ اتنا بڑا قدم کیسے اٹھا سکتا ہے۔ آپ معافی مانگ لیں، کافی ہے۔ وہ رئیس گھٹنوں کے بل جھک کر جولاہے کے سامنے کھڑا ہو گیا اور کہا کہ مجھ سے کوتاہی ہو گئی۔ اس پر جولاہے نے کہا جی میں نے آپ کو معاف کیا۔ جب رئیس گھر پر آئے تو پھر بھی اس کا دل مطمئن نہ ہوا کہ پتا نہیں معافی ملی ہے یا نہیں۔ مجھ سے بری کوتاہی ہو گئی۔ گویا رئیس کے اندر بلڈوزر کی “کک، کک، کک“ چلی آ رہی تھی اور وہ اس کا سامنا نہیں کر سکتے تھے۔ پھر رئیس نے جولاہے کو بتائے بغیر اپنے آپ کو اس کے گھر کا خادم بنا لیا۔ صبح اٹھتے تو بگھی لے جاتے اور اس کے گھر والوں سے کہتے کہ بازار سے جو سودا منگوانا ہے، مجھے بتا دیں۔ بیبیوں کے مزے ہو گئے۔ وہ دو سیر جینی، سیر آتا اور مولیاں وغیرہ سب کچھ منڈی سے خرید کر انہیں لا دیتے۔ جب تک زندہ رہے وہ ایک خادم کی حیثیت سے اس گھرانے کا کام کرتے رہے۔
یہ تو خوش سومت لوگوں کی کہانی ہے کہ انہوں نے جو کہا اس پر عمل بھی کیا، کیونکہ مجھ سے یہ ہوتا نہیں ہے اور میں کافی کوشش بھی کرتا ہوں۔ اسلام کی برتری کا تذکرہ کرتے ہوئے ان بڑے لوگوں کہ مثالیں ہم دیتے ہیں کہ جن کے قریب تک پہنچنے کا ہم میں یارا نہیں ہوتا، ہمت نہیں ہوتی اور انہیں ہم کسی تقابل میں لا نہیں سکتے۔ جب اللہ یہ کہتا ہے اور وضاحت سے کہتا ہے “ تم کیوں ایسا کہتے ہو، جو کرتے نہیں ہو۔“ یہ بڑی غور طلب بات ہے۔ اس میں یقیناً تھوڑی سی بے رونقی ضرور آئے گی، لیکن جس بات کا میں نے پہلے تذکرہ کیا کہ دلوں کے اندر خوشی کا سامان ضرور مل جائے گا، جیسے رئیس کے اندر ہوا۔
میں جو سمجھ سکتا ہوں کہ ہماری معاشی کمزوری ہے کہ ہم لوگ سارے کے سارے اعلٰی درجے کی مثالیں دے کر اسے اپنی زندگی کے اوپر حاوی نہیں کرتے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رات کو اپنے دفتر کا حساب کر رہے تھے۔ دیا روشن تھا۔ دوست باتیں کرنے لگا، تو آپ نے پھونک مار کے دیا گل کر دیا اور کہا یہ قوم کا تیل ہے، جس سے یہ جل رہا تھا۔ ہم آپس مین ذاتی باتیں کر رہے تھے، اس لیے یہ دیا نہیں جلے گا۔ اندھیرے میں بات کرو۔ ہم جب یہ بات کہتے ہیں تو سننے والا بھی بیچارہ اور ہم خود بھی یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید ہم بھی اسی رنگ میں ہیں، حالانکہ ہم قومی یا سرکاری سرمائے کو بلادریغ جو استعمال کرنے میں ہرگز کوئی برائی نہیں سمجھتے۔ اس دن کی ریورس کی کک کک کک میرے اندر بڑی شدت سے چل رہی ہے۔ گو میں ابھی اس کک کک پر وہسے قابو نہیں پا سکا، جیسے میر ضامن علی صاحب کے مرید رئیس نے پایا تھا۔
میں آپ کو دعا دیتا ہوں کہ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ!
 
Top