زاویہ

ماوراء

محفلین
میں نے کہا، جناب میں ان کو صاحبِ علم نہیں کہتا۔ میں ان کو آپ کے، اور اپنے برابر سمجھتا ہوں۔ وہ اتنی تعلیم کا مالک ہے جتنے ہم ہیں۔ کہنے لگے خدا کا خوف کریں۔ بڑے پریشان ہوئے۔ کہنے لگے، آپ یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں۔ وہ کیسے اس درجے میں آ سکتے ہیں؟ میں نے کہا، دیکھیے جج صاحب پاکستان میں جتنی بھی ہائی کورٹس ہیں، ان کے نیچے بیٹھنے والے جج جن چھتوں کے نیچے بیٹھتے ہیں جو ان پڑھ مستریوں نے بنائی ہوئی ہیں، اور آپ اپنے فیصلے لکھتے ہیں۔ آپ ان کوکہاں پلیس کریں گے۔ خدا کا خوف کریں۔ کہنے لگے چلیے یہ بات ہے تو ٹھیک ہے لیکن یہ بڑا مشکل ہے، اس کو اس حد تک برداشت کرنا۔ پھر انہوں نے کہا دیکھیے میں آپ کو یہ رعایت دیتا ہوں۔ پروفیسر کہنے لگے، آپ ان کو Skilled Labour کہہ لیں۔ میں نے کہا، آپ انہیں ٹیکنیشین کہیں۔ جب بھی آپ بات کرتے ہیں، بڑے بڑے مضمون لکھتے ہیں۔ سائنس اینڈٹیکنالوجی کی بات کرتے ہیں۔ سائنس تک آپ پہنچتے ہیں۔ ٹیکنا لوجسٹ تک آپ نہیں پہنچتے تو پھر اس ملک کا کیا بنے گا۔ ہاں کیوں کہیں گے ان کو Skilled Labour کیوں کہیں گے؟ کہنے لگے، نہیں۔ اس بات پر کچھ دیر جھگڑا چلا۔ وہاں پر ایک ڈاکٹر صاحب تھے۔ بہت اچھے آدمی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے اشفاق صاحب دیکھیے اتنی رعایت آپ کو دے دی ہے کہ Skilled Labour کہہ لیں۔ میں نے کہا، ڈاکٹر صاحب آپ کے خوب صورت ہسپتال کے اندر جہاں آپ ہارٹ کا بائی پاس کرتے ہیں۔ اس کے باہر ایک ویلڈر ہے۔ وہ ویلڈر بھی ٹانکا لگاتا ہے۔ آپ بھی ٹانکا لگاتے ہیں۔ تو آپ میرے حسب سے دونوں برابر ہیں۔ دیکھیں ویلڈر بھی تو کمال کا کام کرتا ہے۔ کہنے لگے، یہ برابر کیسے ہو گئے۔ میں نے کہا، دیکھیے۔ میں ویلڈر کی گن آپ کو دے دیتا ہوں۔ کتنے بڑے آپ ڈاکٹر ہیں۔ آپ سے کہتا ہوں، مجھے ایک ٹانکا لگا کر دے دیں تو آپ نہیں لگا سکتے۔ تو کہنے لگے، یہ تو کبھی ہم نے سوچا ہی نہ تھا، اس کے بارے میں اب کیا فیصلہ کریں۔ میں نے کہا اس کے بارے میں بہت سنجیدگی سے فیصلہ کیا جانا چاہیے۔ آپ اتنے بڑے اپنے صاحبانِ علم کو کاٹ کر پھینک رہے ہیں۔ اپنے، اور ان کے درمیان بڑی خلیج پیدا کر رہے ہیں جس نے آپ کے ملک کو بہت کمزور کر دیا ہے۔ آپ مجھے یہ بتائیے، کیا آپ ان لوگوں کو وہ عزتِ نفس لوٹا کے دینا چاہتے ہیں یا نہیں۔ وہ Self Respect جس کے وہ حق دار ہیں۔ جیسا کہ ولایت کے مہذب ملکوں میں ان کو تنخواہیں زیادہ نہیں ملتیں۔پیسے ان کو زیادہ نہیں ملتے، لیکن عزت تو ان کو وہی ملتی ہے جو بونڈزسٹریٹ کے ایک لارڈز کو ملتی ہے یا چلًی کے ویلڈر کو ملتی ہے۔ کہنے لگے ہمارے ہاں چونکہ ایک ہندو کا نظام ذہنوں میں چلتا آ رہا ہے، منوں کا براہمنوں، کھشتری، ویش، شودر، وہ نکل نہیں سکا ہے، اس لیے اس پر بڑی شدت سے غور کیے جانے کی ضرورت ہے۔
 

ماوراء

محفلین
شروع میں ڈیرے پر بابا جی علاج بالغذا بھی کرتے تھے، ہمارے بابا لوگ کرتے ہیں علاج Alternate Medicine (متبادل ادویات) سے۔ وہیں اس کا پتا چلا۔ وہاں کچھ لڑکیاں آئی ہوئی تھیں۔ بڑی پیاری خوب صورت بہت گہرے سانولے رنگ کی، چار پانچ چھ برس کی، ایک بڑی عمر کی عورت تھی۔ ساتھ ایک بابا تھا۔ وہ اس کا علاج کروانے کے لیے آئی تھیں تو میں نے بابا جی سے پوچھا، یہ کون بچیاں ہیں جو اپنا علاج کروانے کے لیے آئی ہیں۔ انہوں نے کہا اپنے تائے کو لے آئی ہیں، اور یہ بچیاں وہ ہیں جو بہاولپور، ملتان میں کاٹن Pickers (کپاس چننے والی) ہیں۔ تو مجھے خیال آیا کہ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی وہ خواتیں ہیں جو کپاس چنتی ہیں یا رائس پلانٹر ہیں۔ یہ خواتیں ہیں جن کا نام اخباروں میں آتا ہے یا جو روز اپنی برتری کے دعوے کرتی ہیں۔ نہ نہ نہ وہ تو ہمارے جیسی ہیں۔ ہم ان کے ساتھ کے ہیں۔ یہ آپ کا پاکستان جس کی ساری اکانومی کا دارومدار کاٹن کی اکانومی پر ہے، اور جو آپ کے لیے اتنے سارے ڈالر، پاؤنڈ، ڈچ مارک، ین حاصل کرتی ہیں، وہ ہی لڑکیاں ہیں جو Cotton Pickers ہیں۔
میری چونکہ تجسس کی عادت ہے تو میں نے پوچھا، بیبیو! یہ کپاس چننے کا کام اتنا مشکل ہے؟ ہاں جی بابا! یہ جو پھٹی چگنا ہوتا ہے، بڑا مشکل ہوتا ہے۔ تو میں نے کہا، تمھاری بڑی شیخی ہے یعنی میری نگاہوں میں تمھاری عزت سب سے زیادہ ہے۔ اخبار والی عزت نہیں۔ اس نے کہا، نہیں آپ کی بڑی مہربانی۔ میں نے کہا، مجھے بتاؤ۔ یہ جو تم کاٹن چنتی ہو تو کای یہ مشکل کام ہے۔ کیا میں یہ نہیں کر سکتا؟ تو کہنے لگی مرد یہ کام نہیں کر سکتے۔ میں نے کہا، کیوں۔ کہنے لگی: “ان کی انگلیاں موٹی ہوتی ہیں، وہ پھٹی نہیں پٹتے پورا جو ٹاپٹ کے لیے جاندے نیں“۔ تو اگر مردوں کو یہ کام دے دیا جائے خدانخوستہ تو آپ کی اکانومی جو ہے، یہ جو آپ تھوڑا بہت فارن ایکسچینج کماتے ہیں، یہ بھی نہ ہو۔ اسی طرح یہ جو رائس پلانٹ کی بات ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا، گاؤں میں دیکھا ہو گا۔ وہ عورتیں جو پانی میں کھڑی ہو کے لگاتی ہیں اور وہ پیچھے کو چل رہی ہوتی ہیں تو پیچھے کو جب آپ دیکھتے ہیں۔ حیرانی سے کہ وہ لائن بالکل سیدھی ہوتی ہے۔ پھر وہ پیچھے ہٹتی جاتی ہیں۔ پھر وہ اپنا گانا گائے جاتی ہیں۔ پھر وہ اس میں پلانٹ کرتیں ہیں تو کم از کم میرے حساب سے رائس پلانٹنگ کی یا رائس ایگریکلچر کی ایم ایس سی ہوتی ہیں۔
اور ان کے ساتھ جو بوڑھے کام کرنے والے ہوتے ہیں، وہ Ph.D کا حق رکھتے ہیں، تو ان لوگوں کو جو ہمارے ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، اور صاحبانِ علم کو جن میں عملی طور پر موجود ہے، ان کو کوئی ایسی صورت پیدا کریں کہ ان کے پاس یہ جو تحریری، اور حرف شناسی کا علم ہے، وہ بھی پہنچ جائے۔ پہنچ اس لیے نہیں رہا کہ ان کو ہم نہیں مانتے۔ اس بارے جہاں جہاں میرا جھگڑا چلا صورتِ حال ایسی ہی تھی۔ ایک فوجی تھے، وہ کہنے لگے کہ یہ آپ کی باتیں عجیب عجیب سی ہیں، ہم ان کو کیسے مان لیں۔۔۔
 

ماوراء

محفلین
میں نے کہا، سر آپ اپنے ساڑھے 32 لاکھ کی موٹر محمد صدیق ان پڑھ مستری کو دے آتے ہیں، اور ان سے کہتے ہیں، دو دن میں ٹھیک کر دیں۔ وہ کہتا ہے نہیں دو نہیں تین دن لگیں گے۔ یہ کمپنی بے عقل ہے، اس کو بنانی نہیں آتی۔ تو اب میں آپ لوگوں سے آپ کی وساطت سے اپنے سارے حضرات سے پوچھتا ہوں، کیا پاکستان میں یہ وقت آسکتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو مضبوط رکھنے کے لیے اپنے آپ کو طاقتور رکھنے کے لیے ان لوگوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کریں۔ ان کے ساتھ کوئی رشتے داری نہیں کرنی۔ ان کے ساتھ کوئی محبتیں نہیں کرنی۔ ان کے ساتھ کوئی پیسے میں ترقی نہیں، لیکن جب آپ جائیں تو ان کو اتنی عزت ضرور عطا کریں جتنی جب آپ ولایت جاتے ہیں تو ایک ٹیکسی ڈرائیور کو عطا کرتے ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں یہ سوال پیش کر رہا ہوں، اور اپنے ناظرین، اور سامعین کی خدمت میں بھی کہ اس کو کیسے حل کیا جائے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ کل غروبِ آفتاب سے پہلے ہم سارے مل جائیں، اور اس مضبوطی کو اپنا لیں جو آپ بڑے فخریہ انداز میں کہا کرتے ہیں کہ ترقی یافتہ ملکوں میں یہ ہوتا ہے، وہ ہوتا ہے میری خیال میں ہم کوئی ایسا ڈھانچہ بنائیں جس میں صاحبانِ قلم کے ساتھ تھوڑا سا عملی طور پر ان کو اپنے کام کرنے کا موقع ملے۔
انہیں تھوڑے سے حروف وہ بتائے جائیں کہ آپ جو عمل کر رہے ہیں۔ ایک بندہ تیسا چلا رہا ہے، رندہ مار رہا ہے، اس میں اس کو پتا چلے کہ اس میں کیا کیا دنیا نے کمال دکھایا ہے، اور کیا کیا کام ہو رہا ہے۔ تھوڑی سی حروف شناسی بھی آنی چاہیے۔ اشفاق صاحب! جیسے انہوں نے پیچھے سے شروع کیا تھا۔ کئی دفعہ حکومت نے تعلیم بالغاں۔ ا۔ ب۔ پ۔ سے شروع کر دیتے ہیں، اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اگر اس لائن میں جیسا آپ نے فرمایا، جو عملی کام کرتے ہیں۔ اب ان کو Push کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ان کے لیے کوئی ادارہ یا کوئی نظام قائم کیا جائے۔ واقعی یہ ان کی تھوڑی سی کمی ہے جو عملی طور پر سب کچھ جانتے ہیں۔ اب یہ ہے دوسروں کو سمجھانے کے لیے یا کچھ کرنے کے لیے، یہی چیز وہ کوئی صاحبِ علم ہو جیسے کہ نجمہ نے کہا، ہم اپنے علم پر تھوڑا سا فخر کرنا شروع کریں گے تو ہم میں تقویت آئے گی۔ ابھی ہم تھوڑا ساڈرے ہوئے ہیں۔ میری بھانجی ہے وہ، M.Sc ہے۔ پروفیسر ہے ہوم اکنامکس کی، اور اس نے سپیشلائز کیا ہے کھانا وغیرہ پکانے میں۔ لیکن ہمارے گھر میں جب کوئی دعوت ہوتی ے تو ہم صدیق باورچی کو بلاتے ہیں۔ ایک مرتبہ شادی پر، دیر کی بات ہے، بیالیس دیگیں پکانی تھیں، اور وہ باورچی بیالیس دیگوں کو کس ترتیب سے تیار کر رہا تھا، اور کتنی مستعدی سے، اور اس کے پاس کتنا علم تھا۔ آپ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ تو میں یہ درخواست لے کر آیا تھا۔ آپ کی خدمت میں کہ لوگوں کو Self Respect جو کہ ان کا حق ہے، جو ان کی توقیر ہے، وہ ان کو لوٹا دینی چاہیے۔ بہت ضروری ہے، ورنہ پھر ہم اسی غلط فہمی، اور کوتاہی میں مبتلا رہیں گے جس میں اب ہیں۔ یہ تو میری بات جو میں نے آپ کی خدمت میں پیش کر دی۔
 

ماوراء

محفلین
کچھ الجھنیں میری بھی ہوتی ہیں جس سے میں آپ کو زحمت دیتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ ایک بہت ہی ذہین انسان، غیر معمولی ذہین انسان، بہت زیادہ۔ کیا بات ہے وہ عام لوگوں سے مل نہیں سکتا۔ ان کے درمیان زندگی نہیں بسر کرتا۔ ان سے کچھ کٹا کٹا رہتا ہے۔ میرا خیال ہے وہ اپنی تخلیقی قوتوں میں اتنا مگن ہوتا ہے کہ اس کو شاید دنیا کی ضرورت نہیں رہتی۔ شاید یہ بات ہو سکتی ہے۔ یہ نہیں کہ وہ کٹا رہنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ اپنے میں اتنا مگن ہے جس طرح ہمارے ملنگ بابا ہیں۔ وہ اتنا پر سکون ہے کہ باہر کی دنیا میں آنا چاہتا ہی نہیں۔ جہاں تک ذہانت کا تعلق ہے جس کی Latest Definition یہ ہے۔ کہ “ وہ شخص ذہین ہے جو خود کو ماحول میں ایڈجسٹ کرے“۔ لیکن وہ ایسا نہیں کر رہا۔ اس کا مطلب ہے اس کی ذہانت میں کوئی خرابی ہے، میرا خیال ہے کہ اس کو اپنی ایک مکمل دنیا ملی ہوئی ہے۔ ایک انٹلکچوئیل ڈسکورس اپنے ساتھ کر رہا ہے۔ وہ جینئیس کی بات کر رہا ہے۔ غیر معمولی ذہانت کی بات ہے۔ جس طرح آپ نے شروع میں مثال دی ہے، بابا جی نور والے کی جو کبھی سکول نہیں گئے تھے۔ کبھی کالج نہیں گئے تھے، لیکن جوان کا نالج تھا، اس کی بنیاد پر شاعر، اور آپ جیسے سکالر ان کے پاس جا کر بیٹھتے تھے، اور شیئر کرتے تھے۔ اس کا مطلب ہے ان میں ذہانت اوسطاً زیادہ تھی۔ وہ آپ لوگوں کو متاثر کرتے تھے اور وہ پوری طرح لوگوں کے اندر گھلے ملے بھی رہتے تھے، انہوں نے پوری طرح ایڈجسٹ بھی کیا خود کو، اپنے آپ کو۔ یہ آخری فقرہ آپ کا غور طلب ہے کہ گھلے ملے رہتے تھے، بلکہ گھلنے ملنے کے بغیر ان کا علم نکلتا ہی نہیں تھا۔
یہ کیوں ہے؟ میں نجمہ کی بات یہاں تک تو مانتا ہوں، یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ وہ اپنے آپ میں اپنے کام میں، اپنی لگن میں ایسا مصروف ہوتا ہے کہ اپنا رابطہ قائم نہیں رکھ سکتا لیکن اگر وہ ملنگ بابا ہے تو پھر وہ (Irritant) کیوں ہوتا ہے؟ ملنگ بابا (Irritant) نہیں ہوتا۔ میں آپ سے سوال یوں نہیں کر رہا کہ اس کا جواب یوں دیں۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے، لیکن یہ لوگوں سے میل ملاقات کرنے میں لوگوں کے ساتھ گھلنے ملنے میں وہ اتنا کیوں پابند ہوتا ہے۔ اپنی ذات کے اندر وہ آگے نہیں چل سکتا۔
اگر وہ ملے تو بہت کچھ فائدہ پا سکتا ہے۔ اس کی ذات کو بھی معاشرے کو بھی۔ یہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی پیچیدگیاں ہیں جو کہ انسان کے ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں، لیکن ان پہ غور کیا جانا بہت ضروری ہے۔ میں نے یہ دیکھا ہے کہ ڈیروں میں تکیوں پر زاویوں ہر ایسی باتوں کا بڑا پالن ہوتا ہے، اور ان پر غور کیا جاتا ہے، اور آپس میں مل کے بات کی جاتی ہے۔ اور ہمارے بابے جو ہیں، میں آخری بات عرض کر دوں۔
ان میں جو بالکل صیحح بابے ہیں، وہ علم کو صرف دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک وہ ڈیرے کو مانتے ہیں۔ یہاں علم ملتا ہے۔ یا پھر وہ سائنس لیبارٹریوں کو مانتے ہیں، جہاں سائنسدان کھڑا ہو کے کام کرتا ہے۔ جہاں ڈائی سیک ٹنگ ٹیبل ہے جہاں پر کام ہو رہا ہے۔ جہاں پر سرالیگزینڈر فلیمنگ بیٹھا ہوا ہے۔ اس کی بابے بہت عزت کرتے ہیں، اور سائنسدانوں کی اتنی وزت کرتے ہیں جتنی وہ میٹا فزکس کی عزت کرتے ہیں۔ خواتین و حضرات اتنی ہی فزکس کی عزت کرتے ہیں۔ بڑی مہربانی آپ کی۔ بڑا شکریہ آپ کا۔ انشاءاللہ پھر کسی اگلی نشست میں ملاقات ہو گی تو کچھ اور چیزیں آپ کی خدمت میں پیش کر کے پھر آپ سے فائدہ اٹھاؤں گا، اور پھر اس کو مجتمع کر کے آئندہ کسی وقت میں کچھ اور لوگوں کو دینے کی کوشش کروں گا بشرطِ زندگی۔ اللہ حافظ۔
 

شمشاد

لائبریرین
محبوب کون ؟​


خواتین و حضرات جب عید آتی ہے تو ایک تو اس کی اپنی خوشی ہوتی ہے۔ ایک اس کے ساتھ بہت ہی چھوٹی چھوٹی عیدیں وابستہ ہوتی ہیں جو ماضی میں ایک پرانی لڑی کے ساتھ لٹکتی رہی ہیں۔ ایک زمانہ ہوتا ہے، یا ایک زمانہ تھا، جب ہم اپنے باپ کی انگلی پکڑ کر عید پڑھنے جاتے تھے۔ پھر یہ وقت آیا ہم انگلی چھڑوا کے، بالکل آزاد ہو کے، نوجوان، لڑکوں کی طرح اکیلے اکیلے عید پڑھنے جانے لگے اپنے دوستوں کے ساتھ۔ پھر یہ وقت آیا کہ اپنے بچوں کے بچوں کو ساتھ لے جا کر، اور انہوں نے پیچھے مڑ مڑ کر اپنے باپوں کو یہ کہہ کر کہ دادا بہت پیچھے رہ گیا، آہستہ چلو۔ پھر بھی ہم عیدیں پڑھنے گئے۔ اس عید کے رشتے سے مجھے بات یاد آئی، آج سے ٹھیک بائیس برس پہلے میں اپنی مسجد کی چاردیواری سے عید پڑھ کے نکل رہا تھا، اور ہم لوگوں سے مل رہے تھے، جب آپ عید کی نماز پڑھ چکے ہوتے ہیں، تو پھر اپنے دوستوں، ساتھیوں، عزیزوں، دوسرے نمازیوں سے گلے ملتے ہیں، اور ایک خاص انداز کا معانقہ کرتے ہیں۔ ایک دفعہ سر ادھر ایک دفعہ ادھر کرتے ہیں، تو یہ کرتے کراتے جب ہم باہر نکلے، بہت سارے پرانے دوست ملے، تو مجھے اچانک خیال آیا کہ یہ ہم اپنے دوستوں کو تو ملتے ہیں جن کو جانتے ہیں، اور جو اس مسجد میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بظاہر ہمارے دوست نہیں ہوتے لیکن ان کا ہماری ذات کے اوپر کسی نہ کسی حوالے سے احسان ضرور ہوتا ہے تو میرے ذہن میں خیال آیا کہ میں ماڈل ٹاون میں رہتا ہوں، اس علاقے کا جو تھانیدار ہے، جو رات کو سیٹی بجانے والے سپاہی بھیجتا ہے، جو بائیسکل پر گشت کرتے ہیں، وہ کون ہیں؟ مجھے ان کے ساتھ بھی جا کر عید ملنی چاہئے، اور ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے محافظ ہیں، اور آپ اس کے لیئے اتنی ساری کوششیں، اور “ کھیچل “ کرتے ہیں۔ چنانچہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ ہمارا تھانہ کہاں ہے۔ میں نے لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا، اے بلاک میں، تو میں گاڑی لے کر وہاں گیا کہ ان سے ملوں۔ جب میں گیا تو اس تھانے میں ہُو کا عالم تھا۔ سب لوگ اپنی اپنی نماز ادا کرنے کے لیئے جا چکے تھے۔ جوانوں کو چھٹی دی گئی تھی۔ تھانیدار صاحب ایس ایچ او صاحب اپنی پرانی وضع کی میلی، سلوٹوں بھری وردی پہن کر، اور یہاں انگلی میں پھنسا کے سگریٹ اور چٹکی بجا کر گل جھاڑنے کے لیئے کرسی پر بیٹھے تھے۔ انہوں نے اپنے پاؤن میز کے اوپر رکھے ہوئے تھے اور وہاں تھا کوئی نہیں۔ میں جب اندر داخل ہوا تو میں نے کہا، جناب اجازت ہے۔ کہنے لگے، فرمائیے جنابِ اعلی۔ میں نے کہا نہیں میں تو آپ سے ملنے کے لیئے آیا ہوں۔ کہنے لگے جی حکم۔ انہوں نے پاؤں نیچے اتار دیئے میز سے، اور بیٹھ گئے۔ تھانے والے جناب عالی یا جناب اعلی کہہ کر بلاتے ہیں۔ ان کا ایک انداز ہے۔ تو کہنے لگے، جنابِ عالی کیا کام ہے۔ میں نے کہا کوئی کام نہیں۔ میں تو ایسے ہی آیا ہوں۔ کہنے لگے یہ کیسے ہو سکتا ہے کو کوئی آدمی تھانے میں آئے، اور اس کو کوئی کام نہ ہو۔ میں نے کہا، نہیں آج میں اس غرض سے نہیں آیا۔ آپ ایس ایچ او ہیں۔ کہنے لگا جی میں ایس ایچ او ہوں۔ میں نے کہا، میں آپ سے عید ملنے کے لیئے آیا ہوں تو وہ بڑے حیران ہوئے اور کہنے لگے۔ بڑی مہربانی و علیکم عید مبارک۔ میں نے کہا دیکھیئے تھانیدار صاحب و علیکم عید مبارک ایسے تو نہیں ہو جاتی۔ آپ کو اٹھ کر کھڑے ہونا پڑے گا، اور پھر میرے ساتھ عید ملنی پڑے گی۔ یہ تو کوئی طریقہ نہ ہوا عید ملنے کا۔ میں اتنی دور سے آیا ہوں۔ ان کو میری بات سمجھ میں نہیں آئی تو میں نے گستاخی کرتے ہوئے ان کے کندھوں سے پکڑ کر جہاں ان کے سٹارز لگے ہوئے تھے ان کو اوپر اٹھایا تو کھڑے ہو گئے۔ کھڑے ہو کر میں نے ان کو ایک “جپھی“ ڈالی تو وہ ذرا سے گھبرائے۔ جب میں نے دوسری طرف سر کر کے معانقہ کیا جو انداز ہوتا ہے، تو انہوں نے اتنی زور سے رونا شروع کیا، آں او آں کر کے کہ میں ڈر گیا۔ یااللہ یہ کیا ہو گیا۔ بہت اونچی آواز میں۔ اتنا بڑا تھانیدار، بھاری بھر کم جسم کا آدمی اونچی آواز میں رونے لگا۔ تو میں لرزہ براندام ہو گیا تو وہ جو تیسرا معانقہ ہوتا ہے، وہ میں نہیں کر سکا، کیونکہ میں گھبرایا ہوا تھا، روتے ہوئے انہوں نے کہا، جناب عالی اگر آپ سچے آدمی ہیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ انیس برس کی سروس میں یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی شخص مجھے عید ملنے آیا ہے۔ کسی نے آ کر مجھے جپھی ڈالی ہے۔ ورنہ میں اور میری ساری قوم جو ہے تھانے کی، اچھوت ہے، ہم چنڈال ہیں، اور ہم چور ہیں، اور ہم کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔ انیس برس کی سروس میں آج پہلی مرتبہ مجھے انسان سمجھا ہے۔ اگر آپ ۔۔۔۔۔ میں نے کہا، بالکل میں اتنی دور سے چل کر آیا ہوں، اور آپ جیسا، اور کوئی انسان ہے بھی نہیں، لوگوں نے ہمارے درمیان بہت بڑا خلا، اور بہت بڑی خلیج پیدا کر رکھی ہے۔ لوگ ہمارے قریب نہیں آتے۔ ہم لوگوں کے قریب نہیں جاتے۔ یہ غلطی پتہ نہیں کہاں سے شروع ہوئی ہے، اور کیوں ہوئی ہے، اور ہم چاہتے ہیں کہ ہم ملیں، لیکن ہمارے اوپر ایک ایسی شرمندگی کی چادر تنی ہوئی ہے کہ ہم مل نہیں سکتے۔ آپ لوگ چونکہ بڑے لوگ ہیں، اس لیئے آپ ہمارے قریب نہیں آتے۔ تو پھر بار بار مجھ سے پوچھتے، کیا آپ سچ مچ مجھ سے ملنے آئے ہیں۔ تو میں نے کہا، میں سچ مچ آپ سے ایمانداری سے اللہ رسول کو حاظر ناظر جان کر کہتا ہوں، میں مسجد سے نکلا ہوں۔ ابھی میں گھر نہیں گیا۔ آپ سے ملنے آیا ہوں۔ تو پھر کہنے لگے، آپ بیٹھیں میرے ساتھ چائے پیئں۔ میں نے کہا، میں ضرور بیٹھوں گا اور ضرور چائے پیئوں گا۔ اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی ہے۔

جب میں ان سے مل کر چلا، تو میرے دل میں خیال آیا، گھر جاتے جاتے کہ یہ محبت کی وہ کمی ہے جس کی آمدورفت ہمارے درمیان میں رُک چکی ہے، اور ہم ایک دوسرے کو جانتے نہیں ہیں۔ اور ایک دوسرے کہ پہچانتے نہیں ہیں۔ اور اس میں بہت بڑی اونچی دیواریں ہیں جو ہمارے درمیان کھڑی کر دی گئی ہیں تو میں نے یہ ارادہ کیا کہ میں اپنے ادیب دوستوں کو، صحافیوں کو اور دانشوروں کو بلا کے، اور تھانے کے ان لوگوں کو جو پولیس کے محکمے سا تعلق رکھتے ہیں، ملاؤں گا، اور ان کی آپس میں گفتگو کرواؤں گا تاکہ ان میں ارتباطِ باہمی پیدا ہو، اور وہ ایک دوسرے کو پہچان لیں، تو اس کا انتظام کیا گیا۔

ہمارے ہاں لاہور میں ایک جگہ ہے الفلاح، ہمارا ایک دفتر تھا نیشنل ری کنسٹرکشن کا۔ تو وہاں ایک ہال تھا۔ اس میں بندوبست کیا۔ تو پولیس والے بہت خوش ہوئے وہ اپنی نئی نئی وردیاں اچھی کلف لگی ہوئی استری کی ہوئی، اچھے بوٹ چمکا کے آ گئے۔ ان میں ڈی آئی جی، ایس ایس پی، انسپکٹر، ایس ایچ او، اور کافی ہال جو تھا، بھرا ہوا تھا۔ پھر الگ کرسیاں بھی تھیں، اور ہم لوگ جو تھے، ہمارے ساتھی دانشور، ادیب، صحافی وہ بھی موجود تھے۔ یہ ہمارے درمیان بڑا خلا ہے اور بہت بڑی خلیج ہے۔ اس کو پُر کرنا چاہیئے، اور اس کو Bridge Over کر چاہیئے تو میں نے ان کو زحمت دی ہے۔ آئیں، آپ بھی کچھ بات کریں۔ یہ بھی کریں۔ اچھی ہے یہ ابتدا جس طرح دنیا کے دوسرے ممالک میں خاص طور پر انگلستان میں جو “بوبی“ محبت کی نظروں سے دیکھتا ہے، “بوبی“ جا سپاہی ہوتا ہے، اس کا بچوں نے پیار سے نام “بوبی“ رکھا ہوا ہے، اور جتنے بچے سکول جاتے ہیں، اور راستے میں کوشش کرتے ہیں کہ بوبی ان کو ملے جو ٹریفک کنٹرول کر رہا ہوتا ہے، وہ اسے ہاتھ ملا کر جائیں۔ بوبی کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کی سکول جاتے بچوں کو ساتھ چمٹا کے تھپکی دے کے، اگر اس کی جیب میں کوئی میٹھی گولی، لیمن ڈراپ ہو، وہ رکھتا ہے جیب میں، وہ ان کو ضرور دیتا ہے۔ ان کے درمیان محبت کا بہت گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو راستہ پوچھنے والے کوئی بھی، آپ کو مشکل ہو تو آپ اپنے بوبی سے پوچھتے ہیں کہ مجھے کہاں جانا ہے۔

میں لندن میں تھا تو ایک مائی بڈھی ہمارے یہاں کی، کوئی اس کو زبان بھی نہیں آتی تھی تو وہ بوبی اس کے ساتھ بیچارہ لگا رہا۔ اب وہ بول رہی تھی پنجابی وہ انگریزی۔ اب باہمی گفتگو جاری تھی۔ وہ ایک ہی بات کہہ رہی تھی کہ برہمی گاؤں میں جانا ہے۔ برہمی گاؤں جانا ہے وہ سمجھتا نہیں تھا۔ میں نے بھی مائی سے پوچھا میری بیوی بھی ساتھ تھی کہ “تو اُیتھے کتھے برہما کر رہی ایں“۔ “سنیں مینوں میرے پت نے لہیا سی اوتھے ہے گا۔ میں سارا لبھ لاں گی“۔ تو وہ بعد میں پتا چلا کہ وہ برمنگھم جانا چاہتی تھی اور برہمی گاؤں تلاش کر رہی تھی۔ تو اتنا ہمیں پتا چل گیا۔ اس نے کہا Thank you very much میں اس مشکل سے نکل گیا ہوں۔ وہ برمنگھم گاؤں جانا چاہتی تھی۔ I would help her آپ گھبرائیں نہیں۔ میں نے کہا، کیسے۔ اب نہ اس کے پاس ٹکٹ ہے، لندن تک تو وہ پہنچ گئی جہاز نے اتار دیا۔ کہنے لگا، Now it is my duty تو میں اس کو لے کر جاؤں گا۔ تو میں نے کہا آپ کیسے جائیں گے۔ کہنے لگا، نہیں ہمارے پاس روزمرہ کے اخراجات میں سے سرکار نے اتنے پیسے دیئے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی مشکل میں ہو تو اس کی مدد کریں۔ تو میں لے جاؤں گا۔ اپنا بھی ٹکٹ خرچ کروں گا، اس کا بھی کروں گا، اور اس کو منزل تک پہنچاؤں گا تو اگر اس کا بیٹا جس کا پتہ اس نے بتایا ہے، اس کے ہاں سے پیسے مل گئے تو ٹھیک لے، ورنہ میں آ کر اپنے محکمے کو بتا دوں گا۔ تو میں یہ چاہتا تھا کہ ہمارے درمیان بھی اس قسم کا رشتہ قائم ہو تو کیسی محبت کی بات ہے۔ ہال میں یہ بات کر چکنے کے بعد پھر میں نے اپنے ایک جو سینیئر دوست تھے، ان سے کہا، کہ آپ ان سے گفتگو کریں تو وہ آئے روسٹرم کے اوپر، مائیک پر کھڑے ہو کر کے انہوں نے کہا، بڑی خوشی کا موقع ہے۔ اشفاق صاحب نے یہ بندوبست کیا ہے ہم بہت خوش ہیں۔ آج بہت سارے پولیس والوں سے ملنے کا اتفاق ہو گیا۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آج کل رشوت کا کیا ریٹ ہے تو سارے کیے دھرے پر انہوں نے پانی پھیر دیا۔ ایک ہی بات کہہ کے۔ انہوں نے کہا، اچھا اشفاق صاحب، السلام علیکم، بڑی مہربانی آپ کی، آپ نے ہمیں بلایا تھا، اور اس طرح سے ذلیل و خوار کر کے بھیج دیا ہے۔ اب ٹھیک ہے۔ آپ کی مرضی۔ میں نے بڑی کوشش کی۔ بڑی ان کی منتیں کیں، لیکن وہ سارے سیٹوں سے اٹھ گئے اور کہا، یہ ہمارے ساتھ ہونا تھا۔ اس کو بھی کہا، بابا ہم یہ تو آپس میں محبت پیدا کرنے کی کوششوں میں تھے، کہنے لگے جی نہیں۔ یہ نامعقول لوگ ہیں۔ ان کے ساتھ محبت نہیں کی جا سکتی۔ تو پھر مجھے خیال آیا۔ کہ یہ جو محبت کا معاملہ ہے اس کو بھی ہم لوگ اچھی طرح سمجھے نہیں ہیں۔

میری بیوی اپنے بیٹے کو، جو سب سے بڑا ہے، اس کو غالب پڑھا رہی تھی، وہ سٹوڈنٹ تو تھا سائنس کا، B.Sc کا، اردو اس کا آپشنل مضمون تھا۔ غالب پڑھا رہی تھی تو وہ اوپر بیٹھا کچھ توجہ نہیں دے رہا تھا۔ میں نیچے بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ ہماری ایک میانی سی ہے، اس پر بیٹھ کر پڑھ رہے تھے تو میری بیوی نے آواز دے کر شکایت کی کہ دیکھو جی یہ شراریں کر رہا ہے، اور کھیل رہا ہے کاغذ کے ساتھ، اور توجہ نہیں دے رہا۔ میں اس کو پڑھا رہی ہوں۔ تو اس نے کہا، ابو اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ امی کا قصور ہے۔ اس سے پوچھ رہا ہوں۔ امی محبوب کیا ہوتا ہے، اور یہ بتا نہیں سکتیں کہ محبوب کیا ہوتا ہے۔ میں نے کہا بیٹے میں بتاتا ہوں کہ محبوب وہ ہوتا ہے جس سے محبت کی جائے۔ کہنے لگا، یہ تو آپ نے ٹرانسلیشن کر دی۔ ہم تو سائنس کے سٹوڈنٹ ہیں، ہم اس کی Definition جاننا چاہتے ہیں کہ محبوب کیا ہوتا ہے۔ یہ امی نے بھی نہیں بتایا تھا۔ آپ ایک چھوڑ دو ادیب ہیں۔ دونوں ہی ناقص العقل ہیں کہ آپ سمجھا نہیں سکے۔ میں نے کہا، یہ بات تو ٹھیک کہہ رہا ہے۔ یہ تو ہم نے اس کا ٹرانسلیشن کر دیا۔ لیکن محبوب کی Definition تو نہیں دے سکے اسے۔ میں نے کہا۔ بانو قدسیہ اور وہ میرا بیٹا نیچے اتر آئے۔ میں نے کہا، چلو بابا جی کے پاس چلتے ہیں ڈیرے پر، وہاں سے پوچھتے ہیں۔ یہ محبوب کیا ہوتا ہے؟ اس نے کہا چھوڑیں آپ ہر بات میں بابا کو لے آتے ہیں۔ وہ بے چارے ان پڑھ آدمی ہیں۔ بکریاں وکریاں رکھی ہیں، گڈریا قسم کے، وہ کیا بتائیں گے۔ میں نے کہا نہیں، مجھے جانے دیں پلیز ضرور۔

بانو قدسیہ بھی ساتھ بیٹھ گئی۔ گاڑی لے کر ہم نکلے، وہاں پہنچے۔ انفنٹری روڈ پر۔ بابا جی ہانڈی وغیرہ پکانے میں مصروف تھے۔ دال پکا رہے تھے۔ ساتھ تنور تھا۔ روٹیاں لگوانے کے لیئے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ تو یہ میری بیوی اتری جلدی سے جیسے آپ پنجابی میں کہتی ہیں اگل واہنڈی پہلے ہی پہنچ کے، اس نے جلدی سے اونچی آواز میں یہ کہا کہ جو باہر مجھے سنائی دی۔ میں تالا لگا رہا تھا گاڑی کو۔ ان نے اونچی آواز میں کہا، بابا جی محبوب کیا ہوتا ہے۔ تو بابا جی کی عادت تھی کہ وہ انگلی اٹھا کر بات کرتے تھے، اور انہوں نے ایک انگریزی کا لفظ، پتا نہیں کہاں سے سیکھا تھا۔ نوٹ (Note) تو ہم اٹینٹیو (‌Attentive) ہو جاتے تھے کہ اب اس کے بعد کوئی ضروری بات آ رہی ہے۔ تو انہوں نے ڈوئی چھوڑ دی جو پھیر رہے تھے۔ کہنے لگے نوٹ “ محبوب وہ ہوتا ہے جس کا نہ ٹھیک بھی ٹھیک نظر آئے۔“ یہ Definition تھی۔بچوں کی کافی چیزیں نہ ٹھیک ہوتی ہیں، لیکن ماں اس سے محبت کرتی ہے۔ اس کی ہر چیز نہ ٹھیک ہوتی ہے۔ محبوب وہ ہوتا ہے جس کے نہ ٹھیک کا پتا ہوتا ہے کہ نہ ٹھیک ہے، لیکن ٹھیک نظر آتا ہے۔ میں نے کہا آ جاؤ بھئی۔ تو ہم یہ جو پڑیا تھی ساتھ لے کر آئے۔ میرے ذہن پر اس کا اثر تھا۔ جب میں نمازِ عید پڑھنے گیا، تھانیدار سے ملنے، تو میں نے یہ سوچا کہ باوجود اس کے بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نہ ٹھیک آدمی ہے، لیکن اب اگر کوئی ہم کو محبت کی پڑیا دینا چاہ رہے ہیں تو ان کہ نہ ٹھیک والوں کو ٹھیک سمجھ کر ہی اپروچ کی جا سکتی ہے نا، تو بڑی کوششیں کی، لیکن ابتدا میں ایسا نہ ہو سکا۔

پھر مجھے آہستہ آہستہ پتہ لگنے لگا کہ یہ طبقہ اپنے طور پر بڑا مظلوم ہے۔ میں ان سے ملتا رہا۔ اپنے اس دوست سے، جس سے نئی نئی دوستی پیدا کی تھی۔ تو میں نے کہا، میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ تو وہ مجھے کہنے لگے، اگر آپ کو کبھی موقع ملے تو ایک دستہ کاغذوں کا تھانے میں دے دیں۔ ایک دستہ کاغذوں کا بارہ آنے کا آتا تھا، اور دو پنسلیں جس کے پیچھے ربڑ لگا ہوا ہو۔ تو میں نے کہا، آپ کو سٹیشنری نہیں ملتی سرکار کی طرف سے۔ کہنے لگے ملتی ہے۔ سارے تھانے کی گیارہ روپے مہینے کی سٹیشنری ہوتی ہے ساری۔ (اور وہ ضمنیاں بھر بھر کے جو ان کا سٹائل ہے، لکھنے کا بے شمار کاغذ بھرتے ہیں) تو میں نے خود اپنے دوستوں سے کہہ کے ان کو تحفتًہ سٹیشنری جتنی بھی ہم مہیا کر سکتے تھے، انہیں دیتے رہے۔ اور وہ خوش ہوتے رہے۔ پھر میں سوچتا تھا، ان کہ “بوبی“ میں کیسے منتقل کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو بہت مشکل بات ہے کہ ہم نے پورا تعلق ہی ان سے توڑا ہوا ہے۔ انہوں نے ہم سے توڑا ہوا ہے، کسی وجہ سے ٹوٹ گیا، تو اب استوار ہو نہیں سکتا۔

پھر بھی میں نے دیکھا، میرا دفتر مال روڈ پر تھا۔ میاں میر پُل پر، وہاں سپاہی سڑک کے دونوں طرف کھڑے ہوتے تھے، اور کسی سربراہِ مملکت کو ایئرپورٹ جانا ہوتا تھا۔ وہ گورنر ہاؤس سے نکلتا تھا۔ ایئرپورٹ جاتا تھا، اور گرمی میں دھوپ میں بری حالت میں کھڑے ہوتے تھے۔ اب پتا نہیں وہ کب نکلے سربراہِ مملکت صدر ہو یا وزیر اعظم۔ ایک دن ایسا ہوا کہ وہ صبح دس بجے کے کھڑے شام کے تین بج گئے۔ میں دو تین دفعہ دفتر سے نکلا۔ میں نے دیکھا تو ان سے پوچھا، گزرا نہیں صاحب ایئرپورٹ کو جانے کے لیئے۔ انہوں نے کہا، جی وہ نکلے تھے گورنر ہاؤس سے، پھر ان کو کچھ کام پڑ گیا، اور پھر واپس چلے گئے۔ وہاں کوئی پیغام ٹیلکس آ گیا۔ وہ وہاں پر بیٹھے ہیں میٹنگ ہو رہی ہے۔ تو میں نے کہا، آپ یہاں کھڑے ہیں، بہت زیادہ گرمی ہے، آپ کیسے کھڑے ہیں۔ کہنے لگے ہم ہل نہیں سکتے۔ میں نے کہا، آپ نے پانی پیا ہے۔ کہنے لگے نہیں جی، ہمارا کوئی ایسا بندوبست نہیں ہے۔ میں اپنے دفتر گیا تو ہمارے پاس فضول پرانی بالٹیاں گندی قسم کی تھیں، ان میں پانی جو گھڑے کا تھا، ٹھنڈا بھی نہیں کر سکے، کوئی ایسا انتظام تھا ہی نہیں، ڈال کے، دو گندے مندے گلاس لے کر آیا۔ ان کو پانی پلایا تو بے چارے بڑے شکر گزار ہوئے۔ وہ مجھے بہت اچھا، اور نیک آدمی سمجھنے لگے کہ لاہور میں ایک اچھا آدمی ہے۔ ورنہ ان کو پانی کون پلاتا ہے۔ جب شام کو ہمارا دفتر بند ہوا، اور ہمارے سربراہ مملکت چلے گئے تو پھر وہ آہستہ آہستہ اپنی جگہ سے ہلتے ہوئے واپس جانے لگے، تو میں جا رہا تھا گھر کو، جب میں نے ان کو دیکھا تو پوچھا، آپ کے جانے کا کوئی بندوبست ہے، تو انہوں نے کہا، ہمارے ہاں یہ رواج نہیں ہے۔ صبح ہم کو پھینک جاتے ہیں یہاں پر، ہم ظلم کر کے ڈنڈا دکھا کے کسی کو روک لیتے ہیں کہ ہمیں سڑک پر یہاں اتار دو۔ ہماری یہاں ڈیوٹی ہے۔ شام کو واپس جاتے وقت ہمارا کوئی انتظام نہیں ہے۔تو پھر میں نے گاڑی روکی اور کیرئیر اور انہیں کہا کہ بیٹھیں۔ اب وہ پچیس تیس سپاہی، اور آپ نے اگر چھوٹی کیریئر گاڑی چلائی ہو، اور اس میں پیچھے اتنا لوڈ ہو، اور آپ مڑیں ایک دفعہ تو آپ گرتے گرتے بچیں۔ وہ کہنے لگے اگر آپ ہم پر بہت مہربانی کرنا چاہتے ہیں تو آپ چیئرنگ کراس تک پہنچا دیں۔ وہاں سے ہم کوئی بندوبست کر لیں گے تو انہیں لے کر وہاں گیا۔ یہ بات جو تھی میرے لیئے بڑی تکلیف دہ جب بھی تھی، اب بھی ہے۔ اور میری آرزو جب بھی تھی، اب بھی ہے کہ ان کہ میں “بوبی“ سے بھی بہتر روپ میں دیکھوں۔ اور ہمارے اور ان کے درمیان ایک محبت کا رشتہ قائم ہو۔ یہ نہ ہو سکا، لیکن یہ آرزو میرے اپنے طور پر پروان چڑھتی رہی۔ تو پھر ایک آئی جی آئے۔ بہت ادیب نواز تھے۔ چوہدری سردار محمد ان کا نام تھا۔ ان سے جب بات ہوئی تو انہوں نے کہا، جی بسم اللہ آپ آئیں، اور ان کو ایڈریس کریں، اور ملیں، کچھ اور ادیبوں کو بھی ساتھ لیکر گیا۔

ان کے ساتھ بات چیت ہم نے شروع کی۔ تو ان کو یہ پہلی دفعہ احساس ہوا کہ یہ عطاء الحق قاسمی ہیں، یہ امجد اسلام امجد ہیں، یہ اصغر ندیم صاحب ہیں۔ بڑا حوصلہ ہوا ان کو۔ اور یہ ہماری عزت افزائی کے لیئے آئے ہیں، تو انہوں نے ہمیں دعوت دی کہ گوجرانوالہ آ کے ہم سے بات کریں۔ گوجرانوالہ جا کے ان سے گفتگو ہوئی۔ وہ اتنے خوش ہوئے، اتنے متاثر ہوئے، وہاں پر ایک حملہ کر دیا تھا ڈاکوؤں نے اوجلہ کلاں ایک جگہ تھی، جہاں پر ان کی جگہ ہے، وہاں پر مقابلہ ہوا، اور آٹھ پولیس آفیسر جو تھے، وہ شہید ہوئے، انہوں نے کہا، کوئی بات نہیں، ہم تیار ہیں۔ اگر ہمیں عزت کی دولت ملتی ہے۔

تو خواتین و حضرات! ہم نے اس پر کبھی غور نہیں کیا کہ لوگوں کو پیسے کی، روپئے کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی، جتنی احترام کی، عزت نفس کی، توقیرِ ذات کی ہوتی ہے۔ اور ہمارے ملک میں بدقسمتی سے اس کا رواج بڑا کم ہے، اور ہم نے کبھی اس بات کی طرف توجہ نہیں دی۔ آپ حیران ہو کے سوچتے ہوں گے کہ وہ لوگ جا پیسا کماتے ہیں، چراتے ہیں، رشوت لیتے ہیں، اور ہم نے ان کو انٹرویو کر کے پوچھا ہے کہ آپ کیوں رشوت لیتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ آپ ایسے قبیح فعل میں داخل ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں، ہم بہت سارا روپیہ لے کر، اکٹھا کر کے اس سے عزت خریدتے ہیں۔ پیسا زیادہ ہو گا تو دیکھیئے نا پھر آپ ان کو سلام کریں گے۔ وہ عزت خریدتے ہیں، ناجائز طریقے سے، اور جب خرید چکتے ہیں تو پھر معتبر بنتے ہیں۔ بڑی کار میں بیٹھتے ہیں، ہاتھ میں ٹیلیفون اٹھاتے ہیں،دوسرے میں کلاشنکوف ہوتی ہے اور آپ کہتے ہیں سلام چوہدری صاحب۔ اگر یہ سب کچھ کیئے بغیر صاحبانِ عزت کو عزت عطا کی جائے یاد جو آدمی جس مقام پر ہے، اس کو عزت عطا کر کے اتنا زچ کر دیا جائے، زچ میں کہہ رہا ہوں کہ وہ کوئی بدفعل کر ہی نہیں سکتا کہ میں ایک صاحبِ عزت آدمی ہوں، تو ترقی یافتہ معاشروں نے اسی ٹرِک کو اپنایا ہے کہ انہوں نے لوگوں کی وہ Due عزت عطا کر دی ہے اور وہ لوگ اپنی عزت کی تلوار اپنے پہلو کے ساتھ لٹکا کر کوئی ایسا فعل نہیں کر سکتے، جو ان کو تذلیل کی طرف، بے عزتی کی طرف مائل کرے۔ وہ کہتے ہیں، ہم عزت دار آدمی ہیں ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ جس طرح میں پچھلی مرتبہ عرض کر رہا تھا کہ جب آپ روزہ رکھتے ہیں تو آپ رہزے داروں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ایک خاص قسم کی عزت اپنی نگاہوں میں ہوتی ہے۔ پھر چاہے آپ کہیں بھی ہوں، غسل خانے میں ہوں، بند کوٹھوں میں ہوں، چھپے ہوئے ہوں، پانی چوری نہیں پیتے، کوئی چیز نہیں کھاتے، کوئی آپ کے اوپر سپاہی نہیں ہوتا، تھانیدار نہیں ہوتا، کوئی اس کی قدغن نہیں ہوتی۔ کہ یہ بندہ جو ہے اس کے اوپر نگاہ رکھی جائے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری حکومتیں جو ہیں، ان کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی جانی چاہئے۔ میں یہ سمجھتا ہوں حکومتیں تو بڑی بے معنی، اور لایعنی سی چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک دوسرے کی بیمار پرسی ایک دوسرے کی مزاج پرسی انسان ہی کرتے ہیں۔ وہی ایک دوسرے کا پالن کر سکتے ہیں۔ وہی ایک دوسرے کو سہارا دے سکتے ہیں۔ حکومتیں کبھی نہیں دے سکتیں، تو میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے ہاں یہ چیز بتدریج کم ہو رہی ہے، اور ہمیں ایسے مراکز کی، اور ایسے ڈیروں کی ضرورت ہے، جہاں چاہے ہمیں تعلیم نہ ملے، جہاں چاہے ہم کو گرائمر نہ سکھائی جائے، جہاں چاہے ہم کو درس نہ ملے، لیکن لوگوں کی تکریم ضرور ہو اور یہ نہ کہا جائے کہ یہ صاحبِ علم نہیں ہے، اس لیئے ہم عزت نہیں کرتے۔ ہم یہ کہیں گے، چونکہ یہ انسان ہے، اور یہ حضرت آدم کی اولاد ہے، اس لیئے ہم اس کی عزت ضرور کریں۔

ہمارے ڈیرے پر ایک دفعہ ایک نوجوان آیا، اسلامیہ کالج کا سٹوڈنٹ تھا، بڑا اچھا، اور وہ سائیکل پر چڑھا ہوا سائیکل کے ساتھ ہی اندر آ گیا تو جہاں بابا جی بیٹھے تھے چارپائی کے اوپر وہاں پائے پر پیر رکھ کر کہنے لگا کہ “ او بابا توں کیا لوگوں کہ غلط تعلیم دے رہا ہے، اور اِن کو اُلٹی اُلٹی باتیں پڑھا رہا ہے۔“ اس پر ہم بہت ناراض ہوئے کہ جناب یہ کیا بات ہوئی۔ تو اس نےکہا، “ تجھے پتا ہے کہ انسان جو ہے یہ Evolution کے ساتھ انسان بنا ہے۔ پہلے انسان بندر ہوتا تھا۔“ بابا جی نے کہا، بیٹا تم کم از کم یہ بات نہ کرو۔ ہماری تو عزت افزائی ہوئی ہے۔ تُو تو پیغمبروں کی اولاد سے ہے۔ ہم بڑے حیران ہوئے۔ کہنے لگے، یہ بابا آدم کا بیٹا ہمارے پاس تشریف لایا ہے۔ اپنے آپ کو کبھی بھی بندروں کی اولاد نہ کہنا۔ تم نبیوں کی اولاد ہو۔ اب جب اس نے یہ بات سنی کہ وہ نبیوں کی اولاد ہے تو وہ اس بات پر بہت خوش ہوا اور پھر ایک اور طرح سے ایک اور رخ لے کر چلا گیا۔

میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ تشریف لائے، باتیں سنیں، اور آپ کا بھی جو ہم سے دور ہیں، لیکن دلوں کے قریب ہیں۔ اللہ آپ سب کو آسانیاں عطا فرمائے، اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔
 

فریب

محفلین
اللہ کا نظام
ہم جو یہ اپنے زاوئے کی محفل سجاتے ہیں، اور آپ تک پہنچتے ہیں تو یہ بات یقین سے نہیں کہ سکتے کہ آپ ہم سے کتنا خوش ہیں، کیونکہ یہ یک طرفہ معاملہ ہے، اور یہ بات میں آپ کو بتا دوں کہ ابلاغ کی دنیا میں یہ جو ہم نے نئی کھڑکی کھولی ہے۔ اس کے بارے میں لوگ اکتسابی طور پر‘ کتابی طور پر تو یقیناً بہت کچھ جانتے ہیں، لیکن بہت کم لوگوں کا یہ حال رہا ہے کہ انہوں نے بابوں کے ساتھ بلا واسطہ طور پر رابطہ قائم کیا، اور ان سے کچھ پوچھا، اور علم حاصل کیا۔ ولایت کے لوگوں نے ایسے کام کیے ہیں، لیکن ہماری سطح پر ایسا نہیں ہوا، لیکن ایک درد ناک بات بھی اس کے درمیان میں یہ ہے کہ ہم جو ان کے پاس جاتے رہے تو ہم بھی پورے طور پر ان کی خوشنودی کا باعث نہیں بن سکے، کیونکہ میں اکثر اپنے بابا سے لڑ پڑتا تھا۔ کچھ معاملات ایسے آ جاتے تھے کہ وہ میری دنیاداری کی راہ میں حائل ہوتے تھے، اور یوں بھی ہوا کہ دس دس مہینوں تک میں کبھی ان کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا یا ان سے جا کر کچھ پوچھا نہیں۔بڑے مسائل ہوتے تھے۔پھر بات یہ تھی کہ ان کی سوچ کا انداز اور ان کی زندگی بسر کرنے کا رویہ ہماری سوچ سے، اور ہمارے چلن سے بالکل مختلف ہوتا تھا، اور ان کے اوپر قابو پانا بڑا مشکل کام تھا۔
ایک مرتبہ جیسے ہم شاکی لوگ اکثر شکایت کرتے ہیں‘ وہاں ڈیرے پر بیٹھ کر یہ شکایت کر رہے تھے کہ دیکھیں اللہ کا نظام کس قدر تکیف دہ ہے کہ ایک آدمی اعلیٰ درجے کی کار پر چڑھا پھرتا ہے اور دوسرے کو پیدل چلنا بھی میسر نہیں۔ ایک لڑکی وہاں آئی تھی۔ ایک سال ہوا اس کی شادی ہوئی تھی لیکن پھر اس کو طلاق ہو گئی۔ اس کا خاوند چھوڑ گیا۔ ایک اور بی بی تھی اس پر آبلے پڑے ہوئے تھے، چھالے جن کو ہم “ پھلوئے“ کہتے ہیں۔ بہت بڑے بڑے پھلوئے، اور میں عرض کرتا تھا ان سے کہ اس کا کچھ علاج کریں تو وہ کہتے‘ ٹھہریں ابھی دیکھتے ہیں۔ ایک دن گزر گیا، دو دن گزر گئے۔ تکلیف ہوتی تھی کہ اس کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی۔ اور بہت سی چیزیں‘ جن میں ہم ہر وقت اپنی زندگی کے ایام میں، مہینوں میں ہفتوں میں شکایت کرتے ہیں وہ وہاں بھی چلتا تھا۔ یہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اللہ ایسا کیوں کرتا ہے تو اس کا خاطر خواہ جو جواب ملتا تھا، وہ ان کی مسکراہٹ سے ملتا تھا۔ لیکن ہم چاہتے تھے کہ ہم کو خصوصی طور پر Specifically یہ بتایا جائے کہ اللہ ہم پر کیسے مہربان ہوتا ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ دیکھو زندگی بسر کرنے کے لیے، زندگی گزارنے کے لیے جس شے کی بے حد ضرورت ہوتی ہے‘ جس کے بغیر زندگی کی گاڑی آگے نہیں چل سکتی، اور اس کا تانا بانا نہیں بن سکتا، وہ اللہ نے Free of cost دی ہے اور سب لوگوں کو دی ہے۔ کالے، پیلے، نیلے، گورے، موٹے، دبلے۔ سب سے ضروری چیز ہے آکسیجن۔ اگر آکسیجن کسی وجہ سے جا کے کسی صاحب کو لانی پڑے ڈاکٹر کی دکان سے اور ہر صاحب صبح اٹھ کر اپنے اپنے کنستر اٹھا کے گئے ہوں تیں بچوں کے لیے بھی لانی ہے۔ دو اپنے لیے کنستر تو بابا جی جو گھر ہے، وہ روتا تہ جائے کہ مجھ بڈھے کو پاچھتا نہیں۔ میرا کنستر گھر ہی بھول گئے تھے۔ تو جائیں اور صبح کنستر بھروا کر لائیں، اور پھر لوگوں کو دیں یا ہمارے یہاں پر ایسے پمپ لگے ہوں، پٹرول پمپ جیسے، وہاں جا کر اپنی آکسیجن حاصل کریں تو زندگی عزاب بن جاتی۔ لیکن اللہ نے کچھ اس کا ایسا انتظام کیا ہے کہ ہر سخص کو وہ نہ بھی چاھتا ہو تو اس کو آکسیجن ملتی رہتی ہے۔ آپ سر کے اوپر رضائی لے لیں، اور بالکل اس کے اندر سر گھسیڑ کے، یہ کوشش کریں تو ایک دم آپ کا Reaction ہو گا کہ آپ اس کو اٹھا کے، اور چھپاک سے اس دائرے میں آ جائیں گے، جہاں آپ کو آکسیجن مل سکتی ہے تو یہ تو Free of Cost چیز ہے۔ اس سے زیادہ قیمتی چیز تو کوئی ہے ہی نہیں۔
پھر دوسری قیمتی ترین چیز جو ہے، وہ پانی ہے۔ پانی کا بھی اللہ نے ایسا انتظام کیا کہ 3/4 حصہ کرہ ارض کا پانی رکھا ہے۔ بادل آتے ہیں۔ بارش برستی ہے۔ ہر ایک کو یہ نعمتجو ہے آسانی سے بغیر کسی Cost کے بغیر کسی پیسا خرچ کرنے کے ملتی ہے، ہر آدمی اس سے فائدہ اٹھاتا ہے، اور ہر کوئی سخص میری خیال میں اس کرہ ارض پر ایسا نہیں ہے جس نے یہ کبھی کہا ہو کہ میں پانی کے ذائقے سے نا آشنا ہوں، کیونکہ یہ بہت مہنگی چیز ہے، اور صرف امیر آدمی پانی پی سکتا ہے، ہم تو نہیں پی سکتے۔ دور سے لانا پڑے، نزدیک سے لانا پڑے، مشکل سے لانا پڑے، لیکن پانی جو ہے وہ ہماری زندگی میں داخل ہے۔ اس طرح سے خواتین و حضرات کھانے کا سلسلہ ہے۔ روٹی جو ہے وہ بھی کوئی اتنی مہنگی نہیں ہے۔ وہ بھی ایک عام آدمی کو بڑی آسانی کے ساتھ مل جاتی ہے، اور واقعی یہ کوئی آدمی نہیں کہہ سکتا کہ میں نے آج تک روٹی کا ذائقہ نہیں چکھا ہے کہ اس کی خوشبو کیسی ہوتی ہے۔ جو سارے ظلم ہیں، یہ انسان نے انسان کی ذات پر کیے ہیں، دوسرے جانوروں کے خلاف۔ دوسرے جانور اپنی Species کو کچھ نہیں کہتے، لیکن انسان ایک ایسا ہے کہ وہ یہ نہیں چاہتا کہ اس آدمی کو جو میرا بھائی ہے، پڑوسی ہے یا رشتے دار ہےفائدہ پہنچے، اور یہ بھی آسائش میں داخل ہو جائے جس آسائش میں مَیں داخل ہوں۔ تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس بات پر غور کیا جائے، اور اس کو قریب سے دیکھا جائے، اور جو ہم شکایت کرتے ہیں، اکثر شاکی ہوتے ہیں کہ اللہ نے ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ تو نکلے گا گھوم پھر کے بالآخر انسان ہی جس نے ہمارے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا ہے۔
باقی رہ گئی بیماری کی بات۔ مثلاً وہ جو بی بی آئی تھی، وہ عجیب و غریب سی بیماری میں مبتلا تھی، اور میں ذرا شکایت میں بابا جی سے کہتا تھا کہ اس کو تین دن ہو گئے ہیں تو ہمیں پتا نہیں چلا کہ آپ نے اس کا علاج کب شروع کرنا ہے، تو وہ کہتے تھے کہ ٹھرو بیٹا، ذرا جب میں اس کا صاحبِ حال ہوں گا، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ بیماری کیا ہے تبھی اس کا علاج کر سکوں گا۔ تو میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کسی بیماری کا صاحبِ حال کس طرح سے ہوا جاتا ہے۔ چار دن کے بعد خود ان کے بازو پر ویسے ہی چھالے پڑنے شروع ہو گئے، اور تقریباً ان کا بازو بھر گیا تو پھر انہوں نے کہا کہ فلاں مرہم لگا کے دیکھتے ہیں۔اب ان کو پتا چلا کہ تکلیف کیسی تھی۔ یہ درد کس نوعیت کا ہے، اور میں اس میں سے گزر رہا ہوں، تو پھر میں اس کو Apply کروں گا اپنی دوائی‘ تو پھر مجھے پتہ چلے گا کہ اس کے اوپر کیا گزر رہی ہے، کیا تکلیف اس کے اوپر طاری ہے۔ چناچہ خیر اس کا علاج شروع ہوا، اور ہم خوش ہوئے کہ اس کی کیفیت جو تھی، وہ ٹھیک ہونا شروع ہو گئی، لیکن اس سے ہماری جو شکایت تھی اس کے جزبے میں تو کمی ہو گئی لیکن شکایت کی نوعیت، اور اس کی Volume کم نہیں ہوئی اور ایسی ایسی باتیں کیں کیونکہ ہم پڑھے لکھے لوگ تھے، اور اس زمانے میں نیٹشے کا فقرہ زبان زدِ عام تھا کہ God is jet۔ نیٹشے نے کہا ہے تو ہم بھی ایسی باتیں کرتے تھے کہ Religion is the opium of people ہم اس کا ترجمہ کر کے انہیں بتاتے تھے۔ انہوں نے کبھی اِس بات کا برا نہیں مانا۔ لیکن ایک تکلیف دہ بات ضرور کہ، جس سے ہم ناراض ہوئے ان سے۔ اور وہ رشتہ کٹا، اور مجھے اب افسوس ہوتا ہے کہ اتنا دس ماہ کا گیپ کیوں آیا ہے۔ کئی دفعہ آیا۔ انہوں نے یہ کہا کہ جا لوگ غربت کی، اور عسرت کی زندگی بسر کرتے ہیں، او آپ کے گروہِ انسانی کے درمیان رہتے ہیں، اور آپ تو جانتے ہیں ان کی بہت ساری ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے۔ مجھ سے پوچھا کہ آپ کے کوئی غریب رشتہ دار ہیں۔ میں نے کہا، ہاں جی ہیں۔ کہنے لگے، کہاں ہیں۔ میں نے کہا جی وہ لاہور میں ایک علاقہ ہے، اس کو ہم مصری شاہ کہتے ہیں، اور وہ دو موریہ پل عبور کر کے وہاں جایا جاتا ہے، ہم لوگ جونکہ صاحبِ حیثیت لوگ ہیں۔ ہم تو کبھی ان سے ملتے ہی نہیں۔ وہ چونکہ ہمارے غریب رشتہ دار ہیں۔ اس لیے وہ بہ امرِ مجبوری ہمارے پاس آتے رہتے ہیں۔ عید کو سلام کرنے اتے ہیں۔بہت قریبی یعنی میری پھوپھی کے بیٹے اور میری ایک دور کی خالہ کا سارا کنبہ۔ تو ہم ان سے ملنے اس لیے نہیں جاتے کہ ہم ان کو برا سمجھتے ہیں۔ ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہوتا، اور ہماری مصروفیات اس نوعیت کی ہوتی ہیں کہ ہم ان کے ساتھ اتنا سارا وقت نہیں گزار سکتے۔ تو وہ کہنے لگے کہ دیکھیں بات یہ ہے کہ آپ کو جتنی تنخواہ ملتی ہے وہ ساری کی ساری آپ کی نہیں، چونکہ آپ کے غریب رشتہ دار یا آپ کے غریب ساتھی مفلوک الحال ساتھی ہمسایے‘ اتنے لائق نہیں ہیں جتنے آپ ہیں‘ اس لیے آپ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ ذہین آدمی ہیں، آپ دانشور ہیں، آپ نامی گرامی آدمی ہیں، آپ اشفاق صاحب ہیں، اور اللہ کو بھی یہ پتا ہے کہ آپ ان کے مقابلے میں زیادہ لائق،اور سمجھدار ہیں، اس لیے ان کو کم عقل سمجھتے ہوئے ان کے حصے کے پیسے بھی آپ کو پہنچادئے جاتے ہیں۔ چونکہ وہ بیچارے نہیں جانتے نا کہ کیا کرنا ہے۔ تو آپ کی تنخواہ کتنی ہے؟ میری اس وقت تنخواہ نو ہزار روپے تھی، تو انہوں نے کہا، بالکل ٹھیک ہے۔ سات ہزار تو آپ کے، تو دو ہزار اللہ میاں ہر مہینے آپ کو مزید دے دیتا ہے کہ آپ عقل مند آدمی ہیں، لائق آدمی ہیں، ایماندار ہیں، Honest ہیں، اور سمجھدار ہیں، اور آپ کے وہ عزیز و اقارب جو دو موریہ پل کے اس طرف رہتے ہیں، وہ اتنے لائق نہیں۔ تو ان کے پیسے یہ دو ہزار آپ کو دے دئے گئے تو میربانی فرما کر یہ آپ ان کو دے آیا کریں۔ تو یہ بات بڑی تکلیف دہ تھی۔ میں نے انہی ددنوں اپنی سنٹرل گورنمنٹ کو اپنی منسٹری اف ایجوکیشن کو لکھا تھا کہ میری تنخواہ کم Calculate ہوئی ہے۔ اس میں دو ہزار کا اضافہ ہونا چھاہیے، اور میرے منسٹر نے مجھے یقین دہانی کرائی تھی کہ آپ کا دعویٰ ٹھیک ہے، اور ہم نے بھیج دیا ہے، منسٹری آف فنانس میں پھنسا ہوا ہے۔ وہاں ایسے وہ Objection لگا دیتے ہیں، لیکن ملے گا۔ جہاں میں دو ہزار کا اور متمنی تھا، اور سمجھتا تھا کہ میں لوٹا گیا، میں مارا گیا، میری تنخواہ اتنی کم ہے۔ اس میں اضافہ ہونا چاہیے‘ میرا بابا مجھ سے یہ کہ رہا تھا۔ جس کو میں اتنا پراپیگیٹ کر رہا تھا، اور اتنی عزت افزائی کرتا تھا کہ جو نو ہزار مل رہا ہے، اس میں سات ہزار تو آپ کے ہیں، اور دو ہزار ان بے وقوف لوگوں کے ہیں جو پیسے کو سنبھال کر نہیں رکھ سکتے۔ آپ چونکہ سنبھال کر رکھ سکتے ہیں۔ اس لیے ان کو دے آئیں۔ اب بتائیے صاحب! یہ کوئی عقل کی بات ہے، تکلیف دہ بات ہے، اور تھی۔ میں نے کہا، صاحب السلام علیکم، میں اس جگہ آنے کے لیے تیار نہیں، آپ تو بدراہ کرتے ہیں۔ واقعی لوگ ٹھیک کہتے ہیں کہ آپ رہبانیت کی طرف مائل کرتے ہیں لوگوں کو۔ اکثر یہ کہتے ہیں نا جی کہ یہ رہبانیت ہوتی ہے، اور یہاں بھنگ وغیرہ پیتے ہیں لوگ۔ و آپ چاہیے تھا کہ آپ رہبانیت کی طرف مائل نہ کریں۔ یہ کیا الٹا سلسلہ آپ نے شروع کر دیا ہے، تو وہ گیپ آیا میری زندگی میں۔ آج میں ا۔س کا ذکر کرنا چاھتا تھا، آپ کی خدمت میں۔ وہ کافی تکلیف دہ تھا، اور اس گیپ کے اندر اس ویکیوم کے اندر جا چیزیں ھاصل کی جا سکتی تھیں، وہ میں حاصل نہیں کر سکا۔ اس لیے ان لوگوں کی باتیں جو کتابوں میں یا ابلاغ کے دوسرے ذرائع میں ملتی ہیں۔ اب آگیا شکر گزار ہونے کا موقع، اس میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے، جو وہاں آتے تھے، اور جن کو شکر گزار ہونے کا فن آتا تھا۔ اب شکر گزار ہونے کا فن بھی بڑا مشکل فن ہے۔ ہماری پوتیاں، تواسیاں، لڑکیاں خاص طور پر ایک لڑائی ہوتی ہے۔ ?Why me۔ یہ لڑکیوں نے Why me کا بڑا محاورہ نکالا ہے کہ یہ میرے ساتھ ایسا کیوں گزر رہا ہے۔ میں جو اتنی شاہزور لڑکی ہوں، اور اتنی پڑھی لکھی ہوں۔ میں نے .M.A انگلش کیا ہے، اور میں نے فرسٹ ڈویژن لی ہے۔ میں نے .2nd. Div میں کیا ہے۔ تو کیا مجھے یہ بتایا جائے کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ میں نے کیا کیا ہوگا، کہنے لگی، میرے ناک پر پمپل نکلا ہے تو Why۔ میں نے کہا، یہ سب کے نکل آتا ہے۔ تو کہنے لگی، نہیں ÷اپ دیکھیں کہ میری اتنی خوبصورت ناک ہے۔ چہرہ اچھا ہے۔ میں نے کہا اگر ایا ہے تو چلا جاے گا، اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے۔ انہوں نے کہاWhy me لوگوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا، میرے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ تو ناشکری کا جو سبق ہم کو پڑھایا جاتا ہے یا ہم پرھتے ہیں یا ہماری زندگی میں داخل ہے۔ جان باجھ کر نہیں، ہمارے ماحول کی وجہ سے، ہمارے گردوپیش کی وجہ سے، ہماری تربیت کی وجہ سے، یہ ہماری زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کو میں نے ایسے دیکھا ہے، اپنی زندگی میں ظاہری طور پر، جسمانی طور پر، آسودہ نہیں ہوں گے، لیکن اس کے چہروں پر ایک تمانت کا رنگ ہو تا ہے، اور سکون ہوتا ہے، وہ یہ کیسے حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ ایک برا مشکل کام ہے جو میں زندگی میں کسی طرح بھی اپنی گرفت میں نہیں لا سکا۔
ہم نے ایک دفعہ آج سے پہلے، کئی برس کی بات ہے جب گلگت میں ریڈیو سٹیشن کھولا، تو میں چونکہ پرانے لوگوں میں سے تھا، گیا تو وہاں جاکر ایک جگہ سلیکٹ کی، منتخب کی۔ وہ اچھا ایک کھلا باگ ہے۔ آپ کبھی جائیں گے تو دیکھیں کے وہاں ہم کو دو کمرے مل گئے۔ وہاں چھوٹا سٹیشن چلانے کے لیے کچھ دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ تو وہاں پر ایک عارضی ملازمت کے لیے آدمی مل گیا۔ بنارس خان پٹھان تھا۔ اس نے مجھے بڑا متاثر کیا۔ مجھ میں ایک خرابی ہے کہ میں کچھ اور طرح کے آدمی سے بہت جلد متاثر ہوتا ہوں۔ بہت پڑھا لکھا آدمی مجھے اتنا متاثر نہیں کرتا، لیکن اگر وہ مجھ سے اعلیٰ و ارفع ہو سینئر، تو میں اس سے دبک جاتا ہوں، اور اس کے ساتھ ساتھ مجھ میں یہ تجسس بھی ہوتا ہے کہ میں اس کے قریب جا کر اس سے معلوم کروں۔ میری تو قسمت میں شاید نہیں ہوتا کہ میں ویسا بن سکوں۔ بنارس خان میں ایک یہ خوبی تھی کہ جو کام اس کو سونپ دیا جاتا، ایک تو وہ خوش اسلوبی سے کرتا تھا، اور پھر اس کی طبیعت کے اوپر بوجھ نہیں پڑتا تھا، اور جو کام دے دیا گیا، وہ کر رہا ہے۔ یہ وہ نہیں کہ مارے گئے صبح سے آئے ہوئے ہیں، چھ بجے تک روٹی نہیں ملی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ بنارس خان تم شاکی آدمی نہیں ہو، شکوہ نہیں کرتے۔ کہنے لگا، صاحب ہم بہت شکوہ کرتا تھا،یہ تو ہماری زندگی کا ایک حصہ تھا۔ اپنا گھر چھوڑ کر ہم ادھر تو آ گیا۔ شکوہ کرتا کہ ادھر تو کواٹر میں کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم نے ادھر آ کر کام کیا۔ تو میں نے کہا، اب تم نہیں کرتے ہو؟ کہنے لگا جی میں ادھر آیا تھا سکون کی تلاش میں۔ بڑا پرباش رہنا چاھتا تھا۔ بڑی کوشش کی، بڑے لوگوں سے ملا، بڑے پیروں فقیروں کے پاس گیا کہ جناب ہم کو سکوں کی تلاش ہے تو نہیں ملا۔ ایک شام کو کھانا کھاتے کھاتے میں نے فیصلہ کیا۔ میرے ہاتھ میں لقمہ تھا، رکھ دیا۔ میں نے کہا، یارا دفع کوع سکون کو۔ ہم نے اس کو لے کر کیا کرنا ہے۔ ہم سکون کے بغیر ہی زندگی بسر کرے گا۔ کوئی بات نہیں ایسے ہی چلتے رہتے ہیں تلاش میں۔ اس دن سے مجھے سکون ملنا شروع ہو گیا۔ تو میں نے کہا، تم نے یہ کمال کی بات کی ہے۔ کیسے سوچھا؟ کہنے لگا بس یہ اللہ کی طرف سے میرے ذہن میں آیا۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے کہ آپ نے سکون کے پیچھے بھاگنی چھوڑ دیا، اور اپنے آپ کے ساتھ ایک مصالحت کر لی لیکن یہ خوش دلی آپ میں کیسے آئی، میں یہ جاننا چاہتا ہوں۔ کہنے لگا جی یہ بھی بڑا مشکل کام تھا۔ کہنے لگا، جی یہ بھی ہمارے اوپر ایک مشکل آئی تو ہماری اس جھگی میں، جس چارپائی پر سوتا تھا، تو ہر سخص جو دنیا میں سوتا ہے اور صبح اٹھتا ہے تو میں بھی صبح اور لوگوں کی طرح اٹھا تھا تو اپنا پیہر چارپائی سے نیچھے اتارنے سے پہلے، میں نے کہا یارا بنارس خان قدم تو نیچے اتارنا ہی ہے تو کلفت میں کیوں اتاریں۔ خوشی میں کیوں نہ دن گزاریں، تو سارے دن میں جب کبھی جس مقام پر بھی جاتا، نتور پر روٹی کھانے، دوستوں سے ملنے یا کہیں مصیبت “ اڑچن“ میں گزرنے، تو مجھ کو یہ بات یاد آ جاتی کہ آج میں نے فیصلہ کیا ہے کہ “کلفت“ میں یہ دن نہیں گزارنا، آرام کرنا ہے۔ اس کے بعد صاحب عادت پڑ گئی۔ اگر انسان فیصلہ کر لے، اور تہیہ کر لے، اور اس پر قائم ہو جائے تو یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے۔ وہ تہیہ کرنے کی بات کر رہا تھا۔ بڑے سالوں کے بعد، پندرہ سولہ سال کے بعد پھر مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہوا گلگت میں۔ تو میں نے پوچھا بنارس خان۔ تو پتہ چلاوہ ادھر نہیں ہوتا۔ میں نے کہا، وہ ہے یہیں پر۔ ہمارا وہ تو اب بہت بڑا استاد ہے، گرو ہے، ہمارا پیر ہے، میں اس سے ضرور ملوں گا۔ کہنے لگے ہے تو ادھر ہی، لیکن اب کام نہیں کر سکتا۔ میں نے کہا، ہم کو اس کے ڈیرے پر لے جاؤ۔ ہم جائیں گے۔ تو میں اس کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ جھگی میں تھا۔ لیکن معذور تھا، اور تکلیف میں تھا۔ اس کو گاؤٹ ہو گیا تھا، گنٹھیا۔ اور وہ جڑا ہوا تھا، اور چارپائی پر بیٹھا تھا۔ مجھ کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ میں نے کہا، بنارس خان کیسی طبیعت ہے۔ کہنے لگا، اللہ کا شکر ہے۔ میں نے کہا، سنا ہے بیمار ہو گیا۔ کہنے لگا، ہاں صاحب مجھے گنٹھیا ہو گیا ہے، اور چل پھر نہیں سکتا آسانی سے۔ تو میں نے کہا تم تو شکر ادا کرتے ہو۔ کہنے لگا، ہاں بڑا شکر ادا کرتا ہوں۔ میں نے کہا، کیوں شکر ادا کرتے ہو۔کہنے لگا صاحب اس لیے کہ میرے گھٹنے تو قائم ہیں۔ گوڈے میرے ہیں نا۔ اگر میرے گوڈے نہ ہوتے تو گنٹھیا کہاں ہوتا۔ پھر تو یہ اللہ کی بہت مہربانی ہے کہ میرے پاس گھٹنا ہے۔ صاحب اگر نہ ہوتا، کہیں کٹ جاتا تو پھر مجھے گنٹھیا کہاں سے ہوتا، تو میں اللہ کا بڑا شکر گزار ہوں۔ اس نے مہربانی فرمائی ہے۔ یہ ساری بات سننے کے باوجود، سمجھنے کے باوصف یہ ہمارے حال کا ایک حصہ نہیں بنتیں۔
ہمارے بابا کہا کرتے تھے کہ وہ مومن جو ماضی کی یاد میں مبتلا نہ ہو، اور مستقبل کے خوف سے آزاد نہ ہو اس کو صاحبِ حال کہتے ہیں۔ کہ جو حال اس کو عطا کیا گیا ہے، وہ اس کے مطابق زندگی بسر کرے، اور خوش و خرم بڑی چاہت کے ساتھ بسر کرے، اور جب تک اس کو تحفہ دیا گیا ہے اس کو ساتھ لے کر چلے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس وہ زمانہ آ گیا ہے جو خود تو ناسازگار نہیں ہے، اس نے ہماری سوچ کو ہمارے روئے کو بہت ساری ناسازگاری میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں زندگی کے اس حصے میں پہنچ کر کہ جب تک اللہ کا ساتھ نہ ہو اور اللہ کو اس طرح سے نہ مانا جائے جس طرح سے ماننے کا حق ہے۔ صرف کتابی طور پر نہیں۔ مثلاً میری خرابی یہ ہے میں بڑا اس کا ایمانداری سے اعتراف کرتا ہوں، اور بڑا مجھے دکھ بھی ہے کہ میں اللہ کو مانتا ہوں لہکن کتابی طور پر۔ میری ماں کہتی تھی نکاز پڑھو لیکن میں نے کبھی یہ ارادہ یا تہیہ نہیں کیا کہ میں اس کے ساتھ ایک ربطِ باہمی قائم کروں گا۔ ہمارے بابا جی کہتے ہیں۔ لفظ خدا، خدا نہیں ہے۔ خدا تو، اور ہے نا، جو لکھا ہوا ہوتا ہے یا جو ہم گانا گاتے ہیں۔ ٹی وی پر خدا کا نام لیتے ہیں۔ وہ ایک اور چیز ہوتی ہے اور اس کا تجربہ ہونا اس کو زندگی کے اندر سے گزارنے کا لطف کچھ اور ہی ہے۔ اور میں یہ بات آپکو گارنٹی سے کہ سکتا ہوں کہ میں آپ لوگوں سے بہت Privileged ہوں۔ میں ایک اونچے مقام پر ہوں کہ میں ایک ایسے بندے سے ملا ہوں، اور میں ان کا تجربہ، اور مشاہدہ اور مطالعہ رہا ہوں اور وہ لوگ بہت بڑے لوگ ہیں۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جن کی جھگی میں بادشاہ جوتے اتار کر جانے کو سعادت تصور کرتے ہیں، یعنی کیا کمال ہوتا ہے۔ کچھ یہ تو نہیں ہوتا کہ ان کے پاس پیسے ہوتے ہیں یا دولت ہوتی ہے یا توپ خانہ ہوتا ہے۔ کسی قسم کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ کچھ اور ہی چیز ہوتی ہے۔
مشہور واقع ہے کہ دیو جانس کلبی سے سکندر ملا۔ اور میں شاید پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ساحل کے اوپر گرم گرم کلکنی ریت میں قلابازیاں لگا رہا تھا۔ تو سکندر نے جا کر کہا، اے آقا میں تیری کوئی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا تم میری خدمت کیا کرو گے۔ دھوپ چھوڑ کر کھڑے ہو جاؤ۔ دھوپ آ رہی تھی۔ وہ ایک طرف ہو کے کھڑا ہو گیا۔ اس نے کہا سائیں تو وقت کا بڑا فلسفی ہے اور بہت عظیم انسان ہے۔ یہ جس طرح سے تو مزے سے کر رہا ہے۔ قلابازیاں لگا رہا ہے، میں بھی لگانا چاھتا ہوں۔ تو اس نے کہا، تو بڑا نالائق آدمی ہے۔ کپڑے اتار اور قلابازیاں لگانی شروع کر دے۔ اتنا بڑا ساحل پڑا ہوا ہے۔ یہ تو مجھ سے کیا ڈسکس کر رہا ہے۔ تو سکندر نے کہا، معافی چاہتا ہوں۔ میں سکندر اعظم ہوں، مقدونیہ کا شہنشاہ۔ اس وقت میں نے آدھی دنیا فتح کر لی ہے، اور باقی کی مجھے ابھی فتح کرنی ہے، اور مجھے یقیں ہے، اور میرے دیوتاؤں نے کہا ہے کہ تم وہ آدھی دنیا بھی فتح کر لو گے، تو اے آقا جب میں وہ آدھی دنا فتح کر لوں گا، تو پھر انشاء اللہ آ کر آپ کے ساتھ قلابازیاں لگاؤں گا۔ تو اس نے کہا، تم کیسے بد نصیب ہو۔ میں آدھی دنیا فتح کیے بغیر قلابازیاں لگا رہا ہوں۔ تو جائے گا آدھی دنیا فتح کر کے آئے گا، پھر ایسا کرے گا۔ تو خواتین و حضرات یہ اتنا مشکل کام نہیں ہے جتنا نظر آتا ہے۔ اللہ آپ کو آسانیا عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔
 
اینڈریو​
میری دلی آرزوکے مطابق ہمارے شہزاد احمد یہاں اس محفل میں تشریف لائے تو انہوں نے آتے ہی اس عہد کی یاد دلا دی جس کا تعلق 60-61-62 کی دہائی کا ہے ۔ مجھے صحیح طرح سے سن یاد نہیں رہا ۔ اور اس بات کا تعلق ایک حد تک اس درس روحانیت سے ملتا ہے جس کے بارے میں علم حاصل کرنے کے لیئے اور تعلیم پانے کے لیئے بڑی بڑی جگہوں پر گھومتا رہا، لیکن یہ میرا ابتدائی دور تھا اور میرا اس روحانیت کے بکھیڑے میں پڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھانہ ہی مجھے اس سے کوئی دلچسپی تھی ۔ شام کے وقت بچوں کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا کہ ہمارے دروازے پر دستک ہوئی تو میں گیا، جاکے دروازہ کھولا تو وہاں ایک بڑا دبلا سا نوجوان، داڑھی ، سنہرے بال ، انگریزی مزاج ، گھسی ہوئی جینز پہنے ہوئے اور آدھی آستین کی قمیص پہنے دیوار سے لگا کھڑا تھا چوکھٹ سے ۔ تو اس نے مجھ سے کہا Are you Ashfaq Ahmed? میں نے کہا، میں ہی ہوں تو وہ کچھ دیر چپ رہا، پھر میرے چہرے کو دیکھتا رہا۔ پھر اس نے کہا، مجھے آپ سے کچھ معلومات حاصل کرنا ہیں کہ آپspiritualism (روحانیت) کے بارے میں کچھ جانتے ہیں ۔ میں نے کہا نہیں ۔اس سے میرا کوئی تعلق نہیں ۔ میں نے اس کے بارے میں پڑھا ضرور ہے ۔ میں یہ کہ سکتا ہوں کہ میں اس علم کا ایک صحافی ہوں زیادہ سے زیادہ، لیکن میں اس کے اندر داخل نہیں ہوا ۔ اس نے کہا ، مجھے بڑی مایوسی ہوئی۔ مجھے تو کسی نے کوئٹہ میں بتایا تھا جہاں سے میں اپنا ٹریول چیک کیش کروا رہا تھا ۔ اشفاق صاحب سے مل لینا، وہ آپ کو بہت ساری معلومات بتائیں گے ۔ میں نے کہا میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا لیکن تم کہاں ٹھرے ہو ۔ اس نے کہا، میں ریلوے اسٹیشن لاہور، وہیں رہتا ہوں ۔ مجھے آئے ہوئے تین دن ہو گئے ہیں ۔ اس سے پہلے میں ہندوستان میں رہا ۔ بنارس میں ایک سال رہا ، اور وہاں سے پھر میں کھٹمنڈو چلا گیا ۔ کھٹمنڈو میں میں نے تانترک ودیا کا علم حاصل کیا ۔ وہاں دس گیارہ مہینے رہا ۔ تانترا کا علم حاصل کرنے سے میری کوئی تشفی نہیں ہوئی، تو پھر میں یہاں آگیا لاہور میں۔کسی نے بتایا کہ لاہور بھی روحانیت کا گڑھ ہے ۔ میں نے کہا ، یہ مدینۃ الاولیا ہے تو سہی، لیکن میں اس کے بارے میں کچھ زیادہ جانتا نہیں ہوں ۔
سچی بات یہ کہ میں جانتا بھی نہیں ہوں ۔ وہ مایوس ہوا ، چہرہ شہزادہ اس کا ، بالکل ، آپ کو آسانی ہوگی جاننے میں، ڈی ایچ لارنس سے ملتا جلتا تھا ۔ اتنا ہی دبلا ، ویسی ہی شکل ، وہی آنکھیں ، ویسی ناک ، ویسے اس کا انداز کھڑے ہونے کا ، گردن بھی ۔ میں واپس اندر آیا تو میری بیوی نے پوچھا کون تھا ؟ میں نے کہا، کوئی باہر کا آدمی تھا ۔ غیر ملکی ، یہ پوچھتا تھا ۔ اس نے کہا ہمارے پاس کیوں آگیا ۔ میں نے کہا، مجھے بڑا تجسس ہے کہ ہمارے پاس کیوں آگیا ۔ تو خیر شام کو جب میں لیٹا تو مجھے خیال آیا کہ پتا نہیں وہ کہاں رہتا ہوگا، اور اس کو دقت ہوئی ہوگی، شریف سا آدمی تھا ، اور وہ کچھ جاننا چاہتا تھا اور دقت میں میں بھی تھا، ہپی اس زمانے میں بہت آیا کرتے تھے اور اس کا انداز بھی ہپیانا تھا تو یوں میرے ذہن پر یہ ساری چرخی چلتی رہی ۔ اگلے دن میں دس گیارہ بجے ریلوے اسٹیشن پر گیا تو وہ تھرڈ کلاس کے نلکے کے پاس اپنی کتاب کھولے دیوار سے ڈھو لگا ئے کچھ پڑھ رہا تھا ، میں اس سے ملا ۔ میں نے کہا میں معافی چاہتا ہوں ۔ کل آپ سے ٹھیک سے بات نہ ہو سکی ۔ آپ کا نام کیا ہے ۔؟ اس نے کہا میرا نام اینڈریو ہے ۔ میں نے کہا تم یہاں کہاں رہتے ہو ۔؟َ ۔ کہنے لگا میں یہیں رہتا ہوں ۔ میں نے کہا تمہیں یہاں دقت ہوگی ۔ اس نے کہا نہیں دقت کوئی نہیں، ہم عام آدمی ہیں ۔ ایسی کوئی مشکل نہیں ۔ یہ بہت اچھا ہے، پانی مجھے مل جاتا ہے پینے کو ۔ کھانے کو ایک آدھ سموسہ کھا لیتا ہوں ۔ میں نے کہا ، تم ایسے کرو میرے ساتھ چلو گھر، اور وہاں تمہیں تھوڑی سی آسائش ہوگی ۔ میری طبیعت پر بڑا بوجھ ہے ۔ اس نے کہا ٹھیک ہے ۔ میں حاضر ہوں ۔ جب چلنے لگا تو اس کے پاس کچھ تھا ہی نہیں ۔ میں نے کہا اپنا تھیلا اٹھا لو کہنے لگا، کون سا تھیلا ۔ میرے پاس تو کچھ نہیں ۔ میں اسے اپنے گھر لے آیا ۔ تو میری بیوی کہنے لگی، یہ کیا چیز پکڑ لائے ہو، کیونکہ جب وہ گھر آیا تو اس کے بدن کی بڑی بو تھی ۔ ہپیوں سے خاص قسم کی بو آیا کرتی ہے ۔ دوسرے جب وہ بیٹھ گیا تو اس نے مجھ سے کہا، کیا میں سگریٹ لے سکتا ہوں ۔ تو میں نے کہا، پی لو ۔ جب اس نے سگریٹ پیا ۔ تو میری بیوی نے کہا، یہ کیسا سگریٹ ہے ۔ اس میں تو اور قسم کی بد بو ہے ۔ تو میں نے کہا، یہ ایسے ہی ہوتا ہے ۔ اجازت دے دیں ۔ کوئی بات نہیں ۔ اسے اجازت دے دیں ۔ تو کہنے لگی آپ اسے کیا کریں گے ۔ میں نے کہا ہمارا یہاں ایک کمرا ہے ۔ بڑا اچھا سا، خالی پڑا ہے تو اس میں رہ لے گا ۔ پڑھا لکھا آدمی ہے ۔ تو اس نے بادل نخواستہ کہا، اچھا رہ لے ۔ کتنے دن کے لئے ۔ میں نے کہا مجھے پتا نہیں کتنے دن کے لئے ۔ وہ صبح جب اٹھا تو اس نے کہا اشفاق صاحب ! I am not a poet, I am sort of a poet میں شاعر تو نہیں ہوں لیکن میں نے ایک نظم لکھی ہے رات کو۔ تو وہ مجھے سنانے لگا ۔ میں شاعری سے بڑی رغبت رکھتا ہوں ۔ لیکن اتنی گہرائی میں جانے کے لئیے جب کہ کوئی مشکل نظم ہو تو میں رک جاتا ہوں کہ مجھے لکھی ہوئی ملے، دھیان سے دیکھ کر کچھ سمجھوں لیکن وہ سنانے لگا انگریزی میں تو میری بیوی آگے ہو کے بیٹھ گئی وہ چونکہ کانونٹ کی پڑھی ہوئی تھی اس کو ذرا آسانی ہے تو اس نے کہا Andrew Please Say It Again اس نے پھر پڑھا تو وہ جناب بالکل اس کی محبت میں مبتلا ہوگئی، اور میں نے شکر کیا کہ میرے اوپر بوجھ نہیں رہا ۔ تو اس نے کہا Do you write’…have you written something else too.. اس نے کہا ہاں میری ایک کاپی ہے ۔ جو جیب میں تھی تو اس نے دو تین نظمیں اس میں سے سنائیں تو میری بیوی کہنے لگی یہ تو بڑا کمال کا poet ہے ۔ غضب کا ہے یہ تو ، اور وہ یہ ساری لمبی لمبی باتیں Detail سے بیان کرنے لگی ۔ اس کو اچھی خوراک ملنے لگی، ہمارے گھر سے کیونکہ وہ بہت اچھا شاعر تھا ۔ اینڈریو صاحب وہاں رہنے لگے ۔ ہمارے گھر میں ایک کونہ تھا جہاں کوئی نہیں بیٹھتا تھا، کارنر میں تو وہ اس نے اپنی جگہ بنا لی ۔ وہاں ایک ٹوٹا ہوا مصلیٰ بچھا لیا ۔ دن بھر وہ اسی کونے میں بیٹھا رہا ۔ کسی سے کوئی سروکار نہیں ۔ کبھی ہم کو ڈسٹرب نہیں کیا ۔ کبھی ہم سے کچھ پوچھا نہیں ۔ کبھی کسی چیز کی فرمائش نہیں کی ۔ بس وہیں بیٹھا رہتا تھا اور لکھتا رہتا تھا ۔ شام کو میری بیوی پوچھتی Have you something new .?تو وہ کہتا تھا کہ ایک بندstanza ہوا ہے یا دو یا پوری نظم تو وہ سناتا تھا ۔ ایک ہی اس کی سامع تھی اور ایک ہی تھا poet اور وہ اپنا مشاعرہ کرکے شام کو پھر اوپر چلاجاتا ۔ ایک دن میری بیوی بڑی پریشان تھی اور وہ بھاگی پھرتی تھی ۔ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں ۔ دوسرے سے تیسرے کمرے میں اور ملازم بھی پریشان ۔ وہ بار بار جاتی تھی برآمدے میں اور بار بار باہر آتی تھی تو اینڈریو جس نے کبھی دخل نہیں دیا کام میں اور انگریز آدمی کبھی دخل دیتا بھی نہیں، پوچھتا بھی نہیں ۔ اس نے جب آپا جی کی پریشانی کو ایسا دیکھا تو اٹھ کر اپنی جگہ سے آیا ۔ کہنے لگا
If you do not mind …ApaJi, You seem to be discomfort and you are uncomfortable, what is wrong ..?
مجھے آپ سے پوچھنا تو نہیں چاہیئے کیونکہ یہ Manners سے خلاف ہے، اور مجھے دخل نہیں دینا چاہیئے تھا ، لیکن میں یہ برداشت نہیں کر سکتا، آپ بہت گھبرائی پھرتی ہیں ۔ تو اس نے کہا، Andrew do not talk to me یہ تمہارا کرنے کا کام نہیں ہے تم چھوڑو اس قصے کو میں ہوں بس گھبرائی ہوئی You do not disturb me وہ بے چارہ ڈر گیا، پتہ نہیں کہ مشرق کے لوگوں کا کیا انداز ہے لیکن جب اس کی پریشانی اور بڑھی، ایک آدمی آگیا ۔ ایک ہتھوڑی اور پلاس اٹھائے ہوئے ۔ وہ اندر کچھ کھٹاکھٹ کرتا رہا ۔ پھر چلا گیا واپس، تو اینڈریو نے کہا، آپ مجھے جو مرضی کہیں آپا جی ، میں تو ضرور پوچھوں گا کہ کیا مسئلہ ہے۔ اس نے کہا بات یہ ہے میری جو کوٹھڑی ہے جہاں کھانے پیے کا سامان رکھا ہوا ہے، اس کو لاک لگا ہوا ہے آٹومیٹک بند ہونے والا تو میں اپنی چابیاں اندر بھول گئی ہوں۔ غلطی سے ہاتھ لگ گیا دروازے کو تو وہ بند ہوگیا، اب وہ کھلتا نہیں، اب میں نے پٹرول پمپ سے آدمی کو بلوا کے بھیجا ۔ اس نے کہا 60 روپے لوں گا ۔ اس نے بہت Try کیا ۔ اس نے کہا ہے کہ تالا ایسا ہے جو دنیا کا کوئی بندہ نہیں کھول سکتا ۔ ترکھان کو بلوائیں، وہ آری لے کر اتنا حصہ کاٹے گا ۔ پھر لاک نکلے گا اس نے کہا کہ کیا میں آپ کا وہ تالا دیکھ سکتا ہوں ۔ اس نے کہا تو دیکھ کے کیا کرے گا مسٹر poet اس نے کہا نہیں جی میں دیکھنا چاہتا ہوں ۔ تو وہ کہنے لگی آجا ۔ آجا دیکھ لے ۔ اس نے تالا جا کے دیکھا تو اس نے کہا آپا جی کوئی تار ہوگی تو اس نے کہا کہ ، تار کوئی نہیں ہے تو اس نے خود گھوم پھر کے ایک ٹوٹی ہوئی چھتری پڑی تھی ہمارے گھر میں جو پرانی تھی اس نے اس کی تار نکالی اور اس کو مروڑ دیا اور اس کے اندر یوں ہلا کے کڑک سے دروازہ کھول دیا تو میری بیوی بڑی حیران ہوئی ۔ تو اس نے کہا، یہ تم نے کیسے کھول دیا ۔ کہنے لگا، بس یہ کھل گیا ، بس یہ کھل جاتا ہے ۔ کہنے لگا Yes it was a very complicated Lock۔ تو اس نے کہا کہ اینڈریو مجھے بتاؤ کہ تم نے کھولا کیسے؟

اس نے کہا ، آپا جی میں لندن کا ایک نامی گرامی چور ہوں، اور میں نے دو سال قید بھگتی ہے چوری کرنے پر ۔ میرا کریکٹر اچھا تھا ۔ ماجھے چار مہینے کی معافی مل گئی تو ایک سال آٹھ مہینے کی سزا کاٹنے کے بعد پھر میں جیل سے نکلا ہوں، تو میرے سامنے کوئی دروازہ کوئی لاک جو ہے، وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ہے ۔ میں شام کو گھر آیا تو کہنے لگی یہ اینڈریو جو ہے، یہ چور ہے اور اس کو ہم نے گھر میں رکھا ہوا ہے ۔ میں نے کہا، اس میں ایسی کوئی بات نہیں ۔ اس نے کہا کہ اس نے خود اس کا اعتراف کیا ہے ۔ جب میں نے پوچھا تو کہنے لگا، یس سر میں تو بہت مشہور چور ہوں ۔ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو وہ اخبار کی نیوز کٹنگ دکھا سکتا ہوں جس میں میری فوٹو ہے ۔

مجھے چار مہینے کی معافی مل گئی کیونکہ میرا کریکٹر بہت اچھا تھا ۔اس کے بعد کہنے لگا ، میں نے پرائمری سکول میں نوکری کرلی بطور پروفیسر آف فلالوجی He did M.A in English لٹریچر کا آدمی تھ ۔ لسانیات کا آدمی تھا ۔ لغت کا، بالکل لسانیات کا پروفیسر ہوگیا، تو پڑھتا پڑھاتا رہا ۔ تو کہنے لگا لسانیات بڑا سخت subject ہے آپا جی ، میں کبھی آپ کوبھی بتا ؤں گا ، کیونکہ آپ کویہ ضرور آنا چاہیئے ، اس کی بنیادی باتیں ۔ تو پھر مجھے روحانیت کاشوق ہوا تو پھر میں انڈیا چلا گیا ۔
اب ہم گھر میں دونوں میاں بیوی بڑے خوف زدہ ہوئے کہ چور کو گھر میں رکھا ہوا ہے، یہ سزا یافتہ بھی ہے، اور ساتھ ساتھ شاعر بھی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ انگریزی کا پروفیسر بھی ہے، اور پروفیسر بھی لسانیات جیسے مضمون کا، فلالوجی وغیرہ کو بہت اچھی طرح جانتا ہے ۔ اب میں اس سے تھوڑا تھوڑا ڈرنے لگا اور اس نے بھی بھانپ لیا اور وہ صبح اٹھ جاتا تھا ۔ اور ایک لمبا راستہ طے کرکے دن بھر غائب رہتا تھا ۔ شام کے پانچ چھ بجے واپس آجاتا تھا ، پھر ہم کھانا وغیرہ کھاتے ۔ دن کا کھانا وہ ہمارے پاس نہیں کھاتا تھا ۔ ایک دن میں نےاس سے پوچھا، تم دن بھر کہاں جاتے ہو ۔ اس نے کہا کہ آپ تو میری مدد نہیں کر سکے، لاہور میں بڈھے راوی کے پاس، ایک بابا چھتری والا ہے۔ اس کے پاس جاتا ہوں تو آپ کو بھی چلنا چاہیئے ۔وہ بہت عجیب و غریب ہے، اس کے پاس علم ہے، اور وہ بہت ساری آپ کو ایسی چیزیں بتائے گا ۔ تو میں نے کہا میں ایسی چیزوں پر اعتماد نہیں نہیں رکھتا ۔ میں ان چیزوں پر یقین نہیں رکھتا ۔ اس نے کہا نہیں آپ میرے ساتھ ضرور چلیں ۔ تو میں شوق اور تجسس کے مارے اس کے ساتھ گیا ۔ وہاں گئے تو وہ بابا چھتری والے جو تھے وہ کشمیری زبان بولتے تھے ۔ ان کو کوئی اور زبان نہیں آتی تھی، لیکن یہ دونوں صبح بیٹھ جاتے تھے گفتگو کرنے، اور شام تک ایک دوسرے سے سوال و جواب کرتے تھے ۔ اب یہ کیا کرتے ہوں گے، یہ وہی جان سکتے ہیں ۔ میرے لئے تو یہ بہت بڑا مسئلہ تھا ۔ یہ ایسے کیسے ہو سکتا ہے ۔ وہ کہتا تھا کہ یہ بابا جو بات کرتا ہے، ایسی ہوتی ہے جو مین نے اس سے پہلے نہ کھٹمنڈو میں سنی ، نہ بنارس میں سنی تھی اور بابا سے میں نہیں پوچھ سکتا تھا ۔ سر جو آپ سے پوچھتا ہے کیسا آدمی ہے، لیکن اینڈریو کو ان ساری باتوں کا پتہ چلتا ہے ۔ اب دیکھئے انسان تلاش کے لئے کسی طرف کو نکلتا ہے ، رخ اس کا کسی اور طرف ہوتا ہے ۔ چلا کہیں سے آگیا ہمارے گھر ۔ ہم جو بے یقینے لوگ تھے جن چیزوں پر اعتماد نہیں رکھتے تھے ۔ اس کو وہاں رہنا پڑا ۔

اب اس نے ایک دن بتایا کہ میری ایک منگیتر بھی ہے اس کانام جوئی ہے، جوئی آنا چاہتی تھی ۔ اس کو خط لکھتی تھی کہ I want to Join You تم کہاں ہو، اس وقت اینڈریو کا والد جو تھا ، وہ برٹش ریلوے کا ریٹائرڈ آفیسر تھا ۔ جوئی کا باپ کاؤنٹی میں ایک ڈرافٹر تھا ۔ جی پی ڈرافٹر تو اچھے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا میری بیوی کا شوق ہوا ۔ اس نے کہا جوئی کو ضرور آنا چاہیئے ۔ یہ الگ الگ کیوں رہتے ہیں ۔ تو ہم نے کہا، ٹھیک ہے ۔اسے بلا لیتے ہیں، تو اسے خط لکھا گیا ۔ اب جوئی جب آئی ہمارے گھر میں ۔ بڑی خوبصورت تھی ۔ بڑی گوری اونچے قد کی، لیکن طبیعت ذرا جسے کہتے ہیں نا، جلدی گھبرا جاتی تھی، وہ تحمل اور بردباری جو اینڈریو میں تھی، اس میں نہیں تھی، اور وہ بہت سی باتوں پہ اینڈریو پر چڑ ھ دوڑتی تھی تو جب میری لڑکیوں نے دیکھا ، میری بھانجیوں، میری بھتیجیوں ، میرے گھروالوں نے تو انہوں نے کہا ، جوئی اور اینڈریو کی شادی کی جانی چاہیئے ۔ چنانچہ انہوں نے کہا پہلے ہم اس کی ڈھولکی رکھیں گے ۔

پھر اس کی گھوڑیاں ہونگی ۔ آدھی لڑکیاں ادھر ہوگئیں ۔ اس کی طرف اور آدھی جوئی کی طرف ۔ ہمارے برآمدے میں صاحب اتنی بڑی شادی پہلے کبھی ہوئی نہیں ۔ بچیاں روز بیٹھ جاتی تھیں ڈھولکی لے کر، انہوں نے بجانا شروع کر دیا ۔ جوئی بہت خوش ۔ اتنی توعزت نہیں ہوتی ولایت میں ۔ وہ تو جاتی ہیں ایک سیکنڈ کے لیئے ۔ چرچ میں گئے اور ختم ۔ ہوگئی شادی، جب شادی قریب آتی گئی ۔ تو مجھے اینڈریو نے کہا ، شادی تو میری ہو چکی ہے، لیکن میں اسے بلانا چاہتا ہوں ، ملاں جی جو ہوتا ہے نا وہ بھی ہو۔ میں نے کہا ، یہ کیسے ہو سکتا ہے تم کو ہم کیا درج کرائیں گے اس میں ۔ اس نے کہا نہیں ویسے ہی آجائے ، تو میں نے محلے کے مولوی سے کہا، آج ہمارے شادی ہے ۔ گورا اور گوری کی تو آپ آجائیں تو کہنے لگا ٹھیک ہے ۔ میں نے کہا ، نکاح پڑھا دیں، کچھ پڑھ دیں آپ ۔ اس نے کہا کوئی بات نہیں نصاریٰ ہیں ۔ میں نے کہا ہاں نصاریٰ ہیں ۔ اب جس دن اس کا شادی کا دن تھا تو وہ صبح چلا گیا، اپنے بابا سے ملنے، بابا چھتری والے سے اور اس سے دعا وغیرہ لینے ۔ دن گزر گیا ہے لڑکیاں ڈھولکی بجا بجا کر تھک گئی تھیں ۔ شام پڑ گئی ۔ مولوی صاحب آگئے ۔ اینڈریو صاحب کا کوئی پتہ نہیں، اور ہم سارے پریشان بیٹھے ہیں۔ گھر میں اور جوئی جو ہے وہ Pins and needles لئے بھاگتی پھرتی ہے ۔ رات پڑ گئی ۔ رات کے آٹھ نو بج گئے ۔ آدھی رات کو اینڈریو صاحب چلے آرہے ہیں ۔ ایک ستھن پہنی ہوئی گھٹنوں سے اونچی اور سر کے اوپر ایک ایسا صافہ اور قمیص تو میں نے ذرا شاؤٹ کیا اس کو ۔ میں اس سے کہا Where have you been Andrew تو اس نے کہا I am very sorry I am lazy- Sorry sir forgive me یہ بار بار کہے ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے لیکن یہ ساری لڑکیاں بیٹھی ہیں تمہاری شادی کا سارا اہتمام ہو رہا ہے وغیرہ وغیرہ تو کہنے لگا کہ مجھے بڑا ضروری کام تھا ۔ وقت مجھے مل نہیں رہا تھا ۔ مجھے سرٹیفکیٹ لینا تھا تو وہ نہیں مل رہا تھا، دیر ہوگئی ۔ تو میں نے کہا کون سا سرٹیفکیٹ کہنے لگا جی میں آج مسلمان ہوگیا ہوں اور مجھے اس کا سرٹیفکیٹ لینا تھا۔ میں نے کہا کہاں سے لیا سرٹیفکیٹ ۔ اس نے کہا شاہی مسجد میں مولوی صاحب نے مجھے دیا ۔ میں یہ لے آیا ہوں تو میں نے اپنا نام سلیمان رکھا ہے ۔ میں نے کہا یار تجھے مسلمان ہونا ہی تھا تو مجھ سے کوئی اچھا سا نام پوچھتا ۔ ہم نے ڈراموں میں اتنے اعلی نام رکھے ہیں ۔ سلیمان کہنے لگا ، یہ مجھے اچھا لگتا ہے ۔ بس ہاں حضرت سلیمان کی نقل ۔ (اس پر ایک کیفیت طاری تھی ، عجیب و غریب آدمی تھا) اس نے کہا نام میں کیا رکھا ہے ۔ ادھر لڑکیاں ڈھولک بجا رہی تھیں ۔ انہوں نے شور مچا دیا کہ سلیمان بھائی زندہ باد ۔ جوئی کہنے لگی what has happened اب میں تو چپ، میری بیوی بھی چپ ۔ ایک لڑکی میری بھانجی ہے نیلو کہنے لگی ۔ He has embraced Islam, Now he is a muslim, His name is Sulaiman جوئی نے یہ سن کر اپنے خوبصورت کپڑے جو پہنے ہوئے تھے، پھاڑ دئیے، سر کے بال نوچے، چیخیں ماریں ۔ زمین پر لیٹنے لگی ۔ تھوکنے لگی، اور اتنی پریشان ہوئی کہ ہمیں مشکل پڑ گئی، یا اللہ یہ کیا ہوا ۔ اس نے کہا I will kill him, take it away from my side سلیمان تو اس کی یوں سمجھانے کی کوشش کرے ۔ Look اس نے کہا Do not talk to me تم اتنے ظالم ہوتے ہو، دہشت گرد ہوتے ہو ۔ تم کچھ بھی ہو جاتے، مسلمان نہ ہوتے ۔ تمہیں پتا نہیں یہ دنیا کی خوفناک ظالم خونخوار قوم ہے ۔ اس نے کہا Look I Know We Are Not Such People ۔ اچھا اس کو بتا رہا ہے کہ ہمارے دین میں یہ اکیلا دین ہے جس میں "لا اکراہ فی الدین" ہے دین پر کوئی جبر نہیں ہے ۔ میں تم کو کبھی نہیں کہوں گا کہ تم اپنا دین تبدیل کرو۔ مجھے اس بات کا حکم ہے ۔ وہ اس کو اس طرح سے کہ رہا ہے جس طرح سے وہ اب ایک اور چیز ہوگیا ہے ۔ جوئی کو ہم نے سمجھایا، ملاں جی بیٹھے ہوئے ہیں ادھر آکے، لڑکیوں کی ڈھولک بند ہو گئی۔ اس نے کہا I quit میں یہ نہیں کروں گی ۔ چنانچہ ہم نے کہا، اس کی اگر مرضی نہ ہو ۔ تو وہ کہنے لگی ، آپاجی نو نو نو نو ایک ہی بات کرے، مسٹر سلیمان جو کہ پہلے اینڈریو تھا، ایک ہی بات کہے، لکم دینکم ولی دین ۔ یہ پتا نہیں کیا کچھ پڑھا ہوا تھا کہ شادی زبردستی نہیں کرنا۔
میں نے بتایا تو ہے کہ پاجامہ سا پہنا ہوا تھا ۔ بو بھی ویسی آرہی تھی ۔ خیر وہ اسے چھوڑ کر واپس چلی گئی، یہ رہ گیا ۔ اس نے کہا کوئی بات نہیں ۔ ایسا ہو ہی جاتا ہے۔ ہم زبردستی کرنے والے بندے نہیں ہیں ، لیکن میں اس کو مناؤں گا ضرور ۔ چاہے کوئی شامل ہو یا نہ ہو تو آپ میری ایک مدد کریں ۔ میں نے کہا کیا۔ میں نے کبھی کوئی آپ سے چیز نہیں مانگی تو وہ میں نے دیکھی ہے ۔ میں نے ایک دن سٹور کھولا تھا آپا جی کے ساتھ چاول نکالنے کے لیئے ۔ وہاں سٹور میں ایک ڈبہ تھا ٹین کا ۔ سر اس میں ایک بہت قیمتی چیز پڑی ہے کیا آپ وہ مجھے دے سکتے ہیں ۔ میں ڈر گیا ، پتا نہیں کیا مانگ رہا ہے ۔ میں نے کہا کیا ہے تو اس نے کہا کہ Real crude sugar گڑ پڑا تھا ہمارا پانچ چھ سال کا گندہ بدبودار، وہ اس نے دیکھ لیا ۔ تو اس نے کہا، یہ تم نے کہاں سے لیا ہے اور یہ اللہ کی نعمت ! ہم تو سفید شوگر کھاتے ہیں ۔ وہ تھا جو ہم بھینس وغیرہ کو دیتے ہیں ۔ ہمیں اسے پھینکنے کے لیئے کوئی مناسب سی جگہ نہیں ملی تھی ۔ وہ کہنے لگا تو میں نے پوچھا، تم اس کا کیا کرو گے؟، اس نے کہا You Don’t Know Sir اس میں کیلشیم ہوتا ہے، اس میں آئرن ہوتا ہے، اس میں قاسفیٹ ہوتا ہے، یہ ساری چیزیں موجود ہیں ۔ یہ بڑی نعمت ہے۔ مجھے دیں میں اس کا کیک بناؤں گا۔ میں نے کہا جوئی چلی گئی ۔ شادی تمہاری ہوئی نہیں ۔ کیک بنا کے کیا کرو گے۔؟ اس نے کہا نہیں ۔ چنانچہ وہ گندہ گڑ واہیات اس نے گھول کے آٹا ڈال کے اتنا اعلیٰ درجے کا کیک بنایا، ہم تو نہ کھا سکے، لیکن وہ کاٹ کاٹ کر چھری سے کھا رہا تھا ۔ ہمارے گھر والوں کو ایک ایک ٹکڑا دیا ۔ تو میری بیوی نے کہا، اس کی شادی کا ہے ۔ ہم کو لینا چاہیے تو ہم نے بھی لے کر جلدی جلدی تھوڑا تھوڑا کھایا ۔ تو اس نے کہا میں اپنی ماں کو فون کرنا چاہتا ہوں ۔ تو میں نے کہا ضرور کرو ۔ اس نے U.K برطانیہ ماں کو فون کیا کہ یہاں پر مقامی لوگوں نے میری شادی سیلی بریٹ کی ۔ ماں اس کے بجائے اس سے یہ پوچھتی کہ یہ کون لوگ ہیں؟ کدھر ہیں؟ کہنے لگی how was the cake ? بس ایک ہی بات کرتا کہ ماما فائیو پاؤنڈ رادر ٹین پاؤنڈ، اور اس میں یہ تھا، اور اس نے اس کو گڑ کی کیفیت بتائی ۔ اس میں کیلشیم، فلانا آئرن، فلانا فلانا کوئی اٹھارہ قسم کی خوبیاں گنوا دیں ۔ پھر اس نے کہا، میں تمہیں کل ایک کٹنگ لے کر پارسل کر کے کیک کی بھیجوں گا۔ کیک شادی کا بڑی عجیب چیز ہوتی ہے ۔ پھر اچانک ایک دن وہ ہم کو چھوڑ کر چلا گیا ۔
مجھے کوئی ایک مہینے بعد اس کا خط آیا کہ میں بدین میں رہتا ہوں ۔ سوات میں ایک جگہ ہے ، اور یہاں دریا بہ رہا ہے، اور اللہ میں نے اگر کوئی جنت زمین پر اتاری ہے تو وہ سوات ہے اور میں یہاں بہت ہی خوش ہوں ۔ یہاں پر ہوں، اور مجھ پر اللہ کا بڑا فضل ہے، میں نے جگہ خرید لی ہے ۔ میرے پاس تیرہ کنال زمین ہے ۔ میں نے کہا، وہ تم نے کیسے لی؟ اس نے کہا اس نے کہا یہاں جن لوگوں کی زمین تھی، ایک باپ تین بیٹے ہیں ۔ اس میں سبزی اگتی ہے کہ دنیا دیکھے اور میں حسرت بھری نگاہوں سے اس ٹوٹے کو دیکھتا تھا پہاڑ میں ۔ تو وہ مجھ سے پوچھتے تم کیا دیکھتا ہے گورا ۔ میں نے کہا یہ کتنی خوب صورت زمین ہے ۔ انہوں نے کہا، لعنت ہو، یہ کوئی زمین ہے ۔ یہ کوئی جگہ ہے ۔ یہ کوئی ملک ہے ۔ دفع دور تو میرا ان کا جھگڑا ہوگیا ۔ میں نے کہا تم زمین مجھے دے دو، انہوں نے کہا، تم زمین ہم سے لے لو ۔ چار ویزا ہم کو لندن کا منگوا دو ۔ میں نے کہا منظور ۔ میں نے اپنے باپ کو خط لکھا ، اس نے مجھ کو چار ویزا بھیج دیا ۔ انہوں نے کچہری جاکر زمین میرے نام کر دی ۔ میں نے کہا ، اگر جنت ہے تو وہ کہتے تھے اگر جنت ہے تو انگلستان ہے ۔ ہمیں کیا اچھی چیز مل گئی ۔ کہنے لگا اشفاق صاحب میں سمجھ نہیں سکا ۔ یہ کیا ہے۔ وہ لوگ جنت کیوں چھوڑ گئے ہیں ۔ وہ جو پٹھان تھے وہ کہتے تھے یہ بے وقوف کا بچہ انگلستان کی جنت چھوڑ کر ادھر کیوں آگیا ہے۔ تو یہ اینڈریو کی کہانی تھی ، جو وقت کی کمی کی وجہ سے مجھے یوں بند کرنی پڑ رہی ہے ۔ پھر کسی محفل میں آیا تو پھر بیان کروں گا کہ یہ فیصلہ انسان کے لیئے بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ اسکی جنت ارضی کہاں پر ہے ۔

خواتین و حضرات !۔ آپ کا بہت شکریہ، اور بڑی مہربانی، اور اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
انسانی عقل اور رضائے الٰہی​


بعض اوقات زندگی میں کچھ ایسے مراحل آتے ہیں، جن کے لیئے انسان تیار نہیں ہوتا۔ ایک مشکل مرحلہ میرے سامنے تھا۔ پچھلے آٹھ دس روز سے مشکل میں اضافہ ہو گیا، کیونکہ وہ بوجھ تو پہلے ہی موجود تھا، لیکن سوال کرنے والے چند نوجوانوں نے اس میں اضافہ کر دیا۔ پوچھا گیا کہ ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں، کیا قوم کا تصور محض افراد کے سانس لینے کا نام ہے؟ میں بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ ہاں، یہ افراد کے سانس لینے کا نام ہے اور جن افراد کے سانسوں کے اوپر پہرے ہیں اور جن کے سانس گھونٹ دیئے گئے ہیں، وہ زندہ قوم نہیں۔ جتنی زندہ قومیں آپ کو اپنے گرد نظر آئیں گی، ان کی خوبیاں تو بعد میں دیکھیں گے، پہلے اس بات کی آپ کو تسلی کرنا ہو گی کہ کیا وہ سانس لے رہی ہیں، پورا سانس اندر لے جاتی ہیں اور پورا باہر چھوڑتی ہیں؟

میرے ملک میں ایک گروہ انسانی جس میں، میں بھی شامل ہوں، بڑی آسانی کے ساتھ بہت اچھی سانس لیتا ہے اور بڑی آرام دہ زندگی بسر کرتا ہے۔ ہم جو چاہتے ہیں کرتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں جاتے ہیں، خوشحال ہیں، لیکن باقی 14 کروڑ جو ہیں، ان کی اکثریت سانس لینے کی بات تو بعد میں ہے، ان کو ان کی عزت نفس بھی نہیں لوٹائی گئی۔ بحثیت انسان کے اور اللہ کی مخلوق کے، وہ ایک عزت لے کر آتے ہیں، پیسہ نہ دیں، ان کو روٹی نہ دیں، کپڑا نہ دیں، مکان نہ دیں، لیکن ان کی عزت تہ ان کا حق ہے۔میں اپنی نواسی سے کہتا ہوں کہ یہ جو آپ کا ڈرائیور ہے، آپ اس کو رمضان صاحب کہہ سکتی ہیں۔ “نہیں نانا میں نہیں کہوں گی، یہ تو رمضان ہے ہمارا ملازم“ وہ کہتی ہے۔ گویا یہاں آ کر کام رُک گیا ہے۔ اسی طرح آپ عام زندگی میں دیکھ لیں، دفتروں میں، گھروں پر اگر وہ سانس ہی ٹھیک طور پر نہیں لے رہے تو پھر زندہ قوم کیسے ہر گئی؟ کسی نے پوچھا کہ بابا یہ بتاؤ کہ کچھ لوگ بڑے امیر ہوتے ہیں اور کچھ بڑے غریب ہوتے ہیں۔ جو غریب ہوتے ہیں وہ شکل و صورت سے تھی اچھے ہوتے ہیں۔ دانش کے اعتبار سے بھی اچھے ہوتے ہیں۔ پڑھائی اور خاندانی اعتبار سے بھی اچھے ہوتے ہیں اور جو لوگ امیر ہو جاتے ہیں، بعض اوقات وہ کچھ بھی نہیں ہوتے۔ ان میں نہ عقل نہ دانش نہ شکل نہ صورت، لیکن دیکھیں پھر بھی وہ کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔

میں نے کہا یہ تخصیص اور تقسیم جو آپ نے متعین کی ہے یہ محض آپ کو بےچین رکھنے کے لیئے ہے۔ ہم سب کے دل میں یہ مشکل اور مصیبت قائم ہے۔ میرا پوتا کہہ رہا تھا کہ میرے ابو کہتے ہیں کہ یہ شخص سول لائن ایریا میں جہاں افسر لوگ رہتے ہیں وہاں بڑ کے ایک درخت میں کیل ٹھونک کر، شیشہ لٹکا کر وہاں دو چار آنے میں حجامت بناتا تھا۔ اب اس کے تین پلازے اسلام آباد میں ہیں، دہ یہاں ہیں، پانچ گاڑیاں ہیں اور سونے چاندی کے زیورات سے اس کی بہوئیں، بیٹیاں لدی ہوئی ہیں۔ یہ کیا ہے؟ یہاں پر آ کر اس کے پھسلنے اور ٹھوکر کھانے کا اندیشہ ہوتا ہے اور ڈپریشن کی جتنی بھی بیماری چل رہی ہے، وہ محض اسی وجہ سے چل رہی ہے۔ اگر آدمی اللہ کو مان لے، شرک کے بارے میں کہتے ہیں کہ جی قبروں پر سر جھکانا اور تعویذ گنڈہ کرانا یہ شرک ہے۔ یہ شرک اگر ہے تو بہت معمولی درجے کا ہے۔ اصل شرک وہ ہے جب اللہ کے کیئے ہوئے کام کے اندر بندہ بیٹھ کر نقص نکالے کہ یہ کیا ہوا ہے؟ یہ ٹھیک نہیں ہے، فلاں کام میری مرضی کے مطابق نہیں ہوا۔ اب ان بچوں کو کوئی کیسے بتائے کہ ایک تمہاری دانش ہے، ایک تمہاری عقل ہے، ایک تمہارے انصاف کے تقاضے ہیں، ایک اللہ کی دانش ہے، اس کے لیئے دانش سے بھی بڑا لفظ چاہیے۔ وہ علیم مطلق ہے۔ وہ بہتر سمجھتا ہے کہ کیا کرنا ہے؟ میں یہ نہیں جانتا۔

میں چونکہ ان کی آسانی کے لیئے یہ بات عرض کر رہا تھا کہ اللہ کے بالکل واضح الفاظ ہیں اور وہ بیشمار مرتبہ فرماتا ہے اور جگہ جگہ فرماتا ہے کہ بیشک اللہ ہی روزی دینے والا ہے اور وہی بڑی مضبوط قوت والا ہے اور اللہ جس کی چاہتا ہے روزی فراخ کرتا ہے اور جس کے چاہتا ہے روزی تنگ کرتا ہے۔ اب اس میں ہم کیا ہیں؟ وہ شخص بڑا ہی خوش نصیب ہے، جو مسکرا کے پہلے “ سبحان اللہ و بحمدہ تبارک الذی کمالہ“ پھر وہ لُوٹ کر لے گیا گڈی اور پرسکون ہو گیا اور اللہ کے بندوں کی صف میں شامل ہو گیا۔ اگر اس نے بیٹھ کر یہ کہا کہ “ اللہ میاں (نعوذ باللہ) ادھر بیٹھو سامنے میں آپ سے دو دو ہاتھ کر لوں کہ تو نے یہ کیا انصاف کیا۔“ پھر وہ مارا گیا یعنی وہ اپنی ذات کے لیئے مارا گیا، اپنے سکون کے لیئے مارا گیا۔ کیا اسے معلوم نہیں کہ اللہ جس کے لیئے چاہتا ہے روزی فراخ کر دیتا ہے۔ دیکھیئے اس آیت میں کہ “ جو لوگ ایمان لائے سچ مچ اور مومن ہو گئے، وہ ایسی بات نہیں کرتے، ان کے لیئے ایک نشانی ہے۔“

میرے جیسے لوگ جو سطحی علم رکھتے ہیں، وہ ضرور اعتراض کرتے ہیں۔ ایسی بات خداوند فرماتا ہے “اے حضور نبی اکرم صلی اللہ وسلم فرما دیجئے کہ میرا پروردگار اپنے بندوں کے لیئے جس کا چاہتا ہے رزق تنگ کر دیتا ہے اور جو چیز تم خرچ کرتے ہو، اس کا عوض ضرور دیتا ہے“ اور عموماً “خرچ کرتے ہو“ کے ساتھ جو ترجمے ہوتے ہیں، ان میں بریکٹوں میں یہ لکھا ہوتا ہے “اور جو تم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو‘ اس کا عوض دیتا ہے۔“

میں سمجھتا ہوں کہ اللہ پاک فرماتا ہے کہ خرچ کرو، روپیہ ایک جگہ پڑا نہ رہے، کیونکہ یہ کھاد کا جو ڈیر ہوتا ہے “روڑی“ جسے کہتے ہیں، اگر اسے کھیتوں میں پھیلا دیا جائے تو یہ سونا ہے اور اگر اسے ایک جگہ پر جمع رکھا جائے تو یہ بدبو کا گھر ہے، کوئی گاؤں اس کے قریب بس نہیں سکتا۔ یہی دولت کا حال ہے کہ جب اس کو پکڑ کر رکھ لیا، میرے جیسے لوگوں نے اکاؤنٹ بھی کھول لیا، نمبر بھی مجھے 41-22007 یاد ہے اپنا، تو پھر جب دولت گھومتی نہیں ہے لوگوں کے ہاتھوں میں، تو مشکل پڑ جاتی ہے۔ اللہ کہتا ہے خرچ کر دو، کسی جگہ بھی۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ میری سوچ ہے کہ بس اس کو خرچ کر دو، لگا دو اور خود اس سطح پر آ جاؤ جس سطح پر اور لوگ موجود ہیں۔

ہمارے ایک دوست تھے، میری ہی عمر کے، اللہ بخشے وہ فوت ہو گئے۔ شروع سے ہی اللہ نے اس کی ایسی طبیعت بنائی تھی۔ کراچی کا بات ہے وہاں الفنسٹن سٹریٹ میں شام کو دفتر سے فارغ ہو کر ایک ریستوران میں بیٹھ جاتے چائے کی پیالی پینے کے لیئے۔ ان کاروں کو دیکھ کر وہ بڑے خوش ہوتے کہ بھئی یہ بڑی خوبصورت ہیں۔ کئی کاروں پر جا کر ہاتھ پھیرتے اور کہتے یار آج میں نے کمال کی ایک کار دیکھی۔ میں نے کہا بدبخت تیرے دل میں نہیں آتا کہ تیرے پاس بھی ایسی کار ہو، تو کہتا، نہیں یہ کار کراچی ہی میں ہے، جب چاہیں گے دوبارہ دیکھ لیں گے۔ وہ تو بہت اچھی ہے۔ وہ میری عمر کا ہو کر فوت ہوا۔ بڑا خوش و خرم بہت آسان زندگی میں رہنے والا بندہ تھا۔ اب اللہ کی مرضی کے سامنے “ اڑ “ کے بیٹھ جانا درست نہیں۔ میں یہ مشکل آپ سے بیان کر رہا تھا کہ ایک چیز پھنسی ہوئی تھی، سورہ رحمٰن میں جسے آپ بڑی محبت اور شوق سے سنتے ہیں اور قاری باسط کی تو ماشاءاللہ قرات بھی اچھی ہے، اس میں ایک آیت آتی ہے کہ اللہ کو ہر روز ایک نیا کام ہے۔ اس پر میں ہمیشہ رکتا تھا۔ شاہ عبدالقادر نے اس کا ترجمہ کیا ہے کہ “ اللہ کو ہر دن ایک انوکھا دھندہ ہے۔“ وہ پرانے زمانے کا ترجمہ کرتے تھے بہت پیارا۔

مولانا اشرف علی تھانوی کہتے ہیں اپنے ترجمے میں “ اور اللہ کو ہر روز ایک نیا کام ہے۔“ فتح محمد جالندھری نے لکھا ہے کہ “ اور اللہ کو ہر روز ایک کام ہے۔“ تو میں اپنے طور پر بہت حیران ہوتا تھا اور ہوتا رہا ہوں کی اللہ کو ہر روز کیا کام ہو سکتا ہے۔ بڑی پریشانی ہوتی، کئی تفاسیر دیکھیں، سمجھ میں بات نہ آئی۔ الحمدللہ جب یہ بچے مجھ سے ملے تو ایک ایسی کتاب جس کی جلد پھٹی ہوئی تھی اور پتہ نہیں تھا کہ کس کی ہے؟ کیسی ہے، اس کو میں ایسے ہی دیکھ رہا تھا تو اس میں ایک بادشاہ نے اپنے وزیر سے سوال کیا کہ اللہ نے یہ جو کہا ہے کہ مجھے ہر روز ایک نیا کام ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ تو وزیر بیچارے کا یہ سن کر رنگ فق ہو گیا۔ بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ ایک ہفتے کے اندر جواب دو، ورنہ تمہارا سر قلم کر دیا جائے گا۔ وزیر روتا ہوا گھر آ گیا۔ بڑا رنجور اور پریشان اور درد مند۔ اس کو سوال کے معنی سمجھ میں نہ آتے تھے۔

ایک روز وہ بازار میں گیا۔ اس جگہ ایک عمارت بن رہی تھی۔ ایک سیاہ فام مزدور، اس زمانے میں وہ عرب افریقہ کا ہو گا، چنائی کے لیئے گارا تیار کر رہا تھا۔ اس نے وزیر کو دیکھا اور پوچھا وزیر سلامت آپ کیسے پریشان بیٹھے ہیں، کیا بات ہے؟ وزیر نے کہا کہ بادشاہ نے مجھ سے یہ سوال پوچھا ہے اور اس کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آتا۔ مزدور نے کہا اس کا مطلب میں بتا دیتا ہوں۔ وہ سیاہ فام جو کچھ بھی پڑھا لکھا نہیں تھا، اس نے کہا لیکن تمہیں نہیں بتاؤں گا، یہ تو بادشاہ سلامت کو ہی بتاؤں گا ان کے سامنے۔ وزیر اسے بادشاہ کے دربار میں لے گیا اور جا کر کہا کہ حضور یہ ایک بندہ ہے، یہ مطلب بتائے گا۔ بادشاہ اسے دیکھ کر بہت حیران ہوا، کیونکہ وہ پھٹے پرانے کپڑوں میں خستہ حالت میں تھا۔ مزدور نے کہا، حضور اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہر روز ایک نئے کام میں داخل ہوتا ہے۔ صحتمند آدمی کو بیمار کر دیتا ہے، بیمار کو صحتمند کر دیتا ہے، غنی کو محتاج کر دیتا ہے اور محتاج کو غنی کر دیتا ہے، پتہ نہیں کل ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ بادشاہ کو فقیر اور فقیر کو بادشاہ بنا دیتا ہے۔ جب وہ چاہتا ہے اور جیسے چاہتا ہے کرتا ہے۔ بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ اپنا لباس اتار کر اسے پہنا دو۔ آج سے یہ وزیر ہو گا، تم نالائق ہو۔ مزدور نے کہا کہ دیکھا آپ کو آج کیا ہو گیا۔ میں آپ کے حکم کے مطابق ایک بار لباس پہن لیتا ہوں، لیکن اسے اتار کر پھر وزیر کو دے دوں گا، کیونکہ یہ تو اللہ کے کام ہیں۔

آپ کو زندگی میں عجیب و غریب واقعات پیش آئیں گے۔ میں‌ جلدی سے آپ کو آپ کے دور کی ماڈرن کہانی سناتا ہوں، کیونکہ اس کی آپ کو زیادہ سنجھ آئے گی۔ ایک لڑکا تھا پیٹرہین کوک، وہ گاؤں میں غربت سے دھکے کھا رہا تھا۔ ماں باپ اس کے تھے نہیں، وہ شکاگو میں آ گیا۔ وہاں آ کر اس نے دیکھا کہ اس زمانے میں بگھیاں چلتی تھیں، موٹریں ایجاد نہیں ہوئی تھیں۔ گھوڑے سڑکوں پر لمبا سفر کرتے تو بھاگتے ہوئے اکثر مر جاتے تھے۔ کارپوریشن اس وقت انہیں اٹھانے کا ذمہ نہیں لیتی تھی۔ اس نے کہا کہ اگر میں مرے ہوئے گھوڑے اٹھا لیا کروں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا۔ لوگوں نے کہا کہ ہم تو اس کے لیئے آپ کے بڑے شکر گزار ہوں گے۔ چنانچہ اس نے ایک ہاتھ گاڑی بنا لی اور دن بھر گھومتا۔ جہاں اسے مردہ گھوڑا نظر آتا تھا، وہ اس کو ہاتھ گاڑی میں ڈال لیتا اور سریش فیکٹری، جہاں گھوڑوں کے غدود اور ہڈیوں سے گودا نکال کر سریش بناتے ہیں، میں جا کر اسے مہنگے بھاؤ بیچ دیتا۔ اس کا خرچ کچھ ہوتا نہیں تھا۔

چلتے چلتے ایک وقت ایسا آیا کہ وہ اتنا امیر ہو گیا کہ اس کی سمجھ میں نہ آئے کہ وہ اس دولت کا کیا کرے۔ جب اس کے پاس کچھ بلین ڈالر جمع ہو گئے تو اس نے کہا میں یہ کام چھوڑتا ہوں، لیکن مجھے جیسا کہ گھوڑوں سے ایک طرح کی محبت ہے، اس نے ایک اعلی درجے کا گھوڑوں کا فارم بنایا۔ اس میں بڑی نسل کے وشیرے اور وشیریاں منگوائے اور ریس کے میدان میں داخل ہو گیا۔ گویا وہ ریس کھیلنے لگا اور اس کا سارے امریکا میں شہرہ ہو گیا کہ ریس کا جو ٹریک اس بندے نے بنایا ہے اور جو اصطبل اس کا ہے، اور جا 180 گھوڑے اس نے رکھے ہیں، ان کا کوئی مقابلہ نہیں۔ وہ ریس کھیلتا رہا۔ جتنی زندگی اس نے ریس کھیلی اور جتنے اعلی درجے کے گھوڑے اس نے بھگائے، ان میں ایک بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ گو کہ گھوڑے اعلی نسل کے تھے، لیکن وہ ہر دوڑ میں ہار جاتا تھا اور ہارتا چلا جاتا تھا۔ پھر اس نے بنک سے قرضہ لیا اور اس اے گھاٹے پورے کیئے، لیکن اس کا برا حال ہو گیا۔ وہ پھر انہی سڑکوں پر گھومنے لگا، جہاں سے اس نے اپنا آغاز کیا تھا۔ وہ مرے ہوئے گھوڑوں سے ارب پتی ہو گیا اور زندہ گھوڑوں سے پھر فقیر ہو گیا۔ تو اللہ جو چاہتا ہے، جو ٹھیک سمجھتا ہے کرتا ہے، یا جو اس کی مرضی ہوتی ہے وہی کرتا ہے اور ہمارا سرِ تسلیم اس کے آگے خم ہے۔ پھر ایک دن یہ ہوا کہ لوگوں نے دیکھا کہ پیٹرہین کوک اسی سڑک پر کسمپرسی کے عالم میں پرا پڑا ہے، جہاں سے وہ مردہ گھوڑے اٹھایا کرتا تھا۔ چناچہ لوگوں نے اسے اٹھایا اور ویسی ہی ہتھ ریڑھی میں اس کو ڈال کر لے گئے۔

اب اس پر آپ اپنا کیا فیصلہ دیں گے، اسے کیا کہیں گے؟ میں یہ ساری کہانی اس لیئے عرض کر رہا تھا کہ آپ کو آسودگی کے ساتھ رہنا ہے، خوشی کے ساتھ رہنا ہے تو اس کا ایک ہی راز ہے کہ اللہ کے کاموں میں آپ دخل نہیں دے سکتے، کیونکہ اللہ سپریم ہے۔ وہ جو کرتا اور فرماتا ہے، وہی ٹھیک اور بہتر ہوتا ہے۔ اگر آپ اس کی تحقیقات اپنی عقل سے کریں گے تو وہ آپ کے بس کا روگ نہیں۔

میں پرسوں پڑھ رہا تھا، جرمنی کا ایک بہت بڑا اکانومسٹ پیٹر مائیکر ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب ملکوں کی اکانومی فیل ہوتی ہے تو اس کی اسے کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ ہم سارے لوگوں نے سر جوڑ کر دیکھا ہے کہ اتنی اعلی درجے کی اکانومی اتنی اوپر جاتی ہے اور جب عروج پر پہنچتی ہے تو خود بخود گلنا سڑنا شروع کر دیتی ہے اور اس کو زوال آ جاتا ہے۔ اعلی درجے کی چڑھی ہوئی بادشاہی، جس کو دیکھ کر انسان حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور کہتا ہے کہ یہ کس طرح سے ممکن ہے کہ اس بادشاہی کو زوال آ جائے، خود بخود اس کے اندر ایسا نظام اور عمل شروع ہو جاتا ہے کی اسے زوال آ جاتا ہے۔ آپ نے مغلیہ خاندان کی سلطنت کے زوال کا تو پڑھا ہو گا۔ ہم بعد میں نکتے نکالتے ہیں کہ یہ کیوں ایسا ہوا تھا کس لیئے ہوا تھا۔ جس طرح سے گیند کو ہوا میں بہت اونچا پھینکتے ہیں، وہ اونچا جاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ اونچا گیند خود بخود زمین پر گرتا ہے۔ اسی طرح سے معشیت کا حال ہے، اسی طرح سے ساری چیزوں کا حال ہے۔

اللہ کو مانتے ہوئے، اس کے احکامات تسلیم کرتے ہوئے، یہ مان لینا ضروری ہے کہ جو تو نے فرمایا ہے ٹھیک ہے اور اللہ کے احکامات کو بجا لانا تو خوش قسمت لوگوں کے اختیار میں ہے اور ہوتا ایسے ہی ہے جیسے اللہ کرتا ہے۔ لیکن ہم کمزور لوگ ہیں، ہم اپنی عقل و دانش کو ضرور اس میں ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں اس میں معافی دی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ہم لالچی لوگ ہیں۔ ہم کو سکون بھی دیا جائے، جو کبھی اس طرح سے نہیں ملتا زیادہ مین میخ نکالنے سے بلکہ اس طرح ملتا ہے، جیسے میرا موٹروں کو پسنی کرنے والا دوست تھا۔

میرے ایک اور دوست ہیں، جی پی او کے پاس کھڑے ہو جاتے ہیں اور کار میں جاتے ہوئے لوگوں کو دیکھ دیکھ کر نفرت کا اظہار کرتے اور کہتے ان کی شکلیں دیکھو، اس کی پکوڑے جیسے ناک ہے اور کتنی اعلی درجے کی کار میں جا رہی ہے۔ میں کہا اب کیا کریں؟ کہنے لگا، بس میرے جی میں آتا ہے کہ میں اسے توپ سے اڑا دوں۔ توپ سے اڑانے والی ذہنیت اپنی اپنی جگہ پر ہم سب میں ہے۔ لیکن اس سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ اپنے آپ کو لالچ کے ساتھ زندہ رکھنے کے لیئے بہت ضروری ہے کہ اپ اس بات کو تسلیم کر لیں کہ اللہ سپریم ہے اور جو اس نے چاہا ہے، وہ ہو گا اور میں اس کے ان بندوں میں سے ہوں، جو اس بات کو مانتا ہوں کہ وہی ہوگا، جو اللہ چاہے گا۔ لیکن کام کرتے رہنا انسانیت کا شرف ہے۔ وہ میں ضرور کروں گا۔ جیسے بدصورت سے بدصورت عورت بھی میک اپ ضرور کرتی ہے، تو میں بھی میک اپ کروں گا۔ اے میرے پیارے اللہ تعالٰی ! میں کسی بات کو اس کے ساتھ وابستہ نہیں کرتا کہ میری دانش، میری عقل اور میری کوشش کوئی تبدیلی پیدا کر سکتی ہے۔ میں ناچتا رہوں گا اپنا کشکول ہاتھ میں لے کر۔ اگر اس میں کچھ پڑنا ہے تو پڑ جائے، لیکن میں اپنا ناچ نہیں روکوں گا، جو تیری بارگاہ میں چوبیس گھنٹے ہوتا رہے گا۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے، اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ !!
 

شمشاد

لائبریرین
اللہ کا فضل​


آج کل ہمارے ارد گرد جو باتیں بڑی شدت سے ہونے لگی ہیں کہ یہ دنیا بڑی Materialistic ہو گئی ہے، ہم مادی زندگی میں داخل ہو گئے ہیں، لالچی ہو گئے ہیں اور ہماری توجہ روپے پیسے کی طرف زیادہ ہے۔ پہلے شائد ایسا زمانہ نہیں تھا، لیکن میں سوچتا ہوں اور اپنے بچپن کی طرف لوٹتا ہوں اور اس مسئلے پر غور کرتا ہوں، تو مجھے یوں لگتا ہے کہ بڑی دیر سے ہماری Material اور مادے کے ساتھ وابستگی چلی آ رہی ہے اور ہم لوگوں کے ساتھ جو اتنی وابستگی نہیں ہونی چاہیے تھی، پھر بھی موجود ہے، پتا نہیں کیوں؟

اس وابستگی کی بیشمار وجوہات ہوں گی، لیکن میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں، وہ بڑا عجیب ہے اور میں اسے آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں کہ آپ بھی اس پر غور کریں اور سوچیں۔ جب ہم بچپن میں لڑکپن میں جمعہ کی نماز پڑھنے جاتے تھے، تو اپنے اباجی کے خوف کے باعث جاتے تھے۔ وہ تیار ہو کر کپڑے بدل کر ہمیں بھی نئے صاف کپڑے پہنا کر جمعہ پڑھانے لے جاتے تھے۔ میٹرک تک ہم نے تقریباً ایسا ہی جمعہ پڑھا ہے، زور زبردستی۔ لیکن جب میں فرسٹ ایئر میں آیا اور یہاں آ گی، بڑے شہر میں تعلیم حاصل کرنے کے لیئے، تو پھر عجیب بات ہے کہ جمعہ مجھے اچھا لگنے لگا اور میں اس میں اپنی مرضی ایما اور دل کی خوشی سے داخل ہو گیا اور جمعہ پڑھتا رہا۔ پڑھائی کا دور ختم ہوا۔ نئی زندگی میں داخل ہوئے، میں نے نوکری شروع کر دی۔ پھر بھی جمعہ کا چلن ویسے ہی رہا اور جمعہ کے بارے میں اللہ کا یہ حکم ہے‘ اس کا مفہوم بیان کرتا ہوں :

“ اے مومنو ! جب نماز کی اذان دے جائے، تو جمعہ کی طرف دوڑو اور خریدوفرخت بند کر دو اور جب نماز ادا کر چکو تو پھر دُور دُور پھیل جاؤ اور اپنے اللہ کے فضل کا تلاش شروع کر دو۔“

اس میں اللہ کے فضل کا جو بریکٹوں میں ترجمہ عام طور پر دیا جاتا ہے، وہ یہی ہے کہ تم پھر اپنی روزی کی تلاش کی طرف لگ جاؤ۔ ہم بھی یہی سمجھتے رہے اور اب تک بھی یہی سمجھا جاتا رہا ہے۔ پچھلے چند سال کی بات ہے میرے ساتھ ایک اور صاحب بھی قریب قریب اکثر جمعہ پڑھنے آتے تھے۔ میری ہی عمر کے تھے، لیکن میں نے ان سے کبھی کچھ پوچھا ہی نہیں۔ کبھی علیک سلیک بھی نہیں ہوئی۔ لیکن ہم ایک دوسرے کی طرف مقناطیسی طور پر ضرور متوجہ ہوتے تھے۔ ایک دن جب وہ نماز ادا کر چکے اور نکلنے لگے اور ہم جوتے پہن رہے تھے، تو میں نے کہا، صاحب ! آپ کیا کرتے ہیں اور کہاں رہتے ہیں؟ اس نے کہا میں سکول ٹیچر ہوں اور ریٹائرڈ ہو چکا ہوں۔ میں نے کہا میں بھی ریٹائرڈ ہوں۔ جو آدمی ریٹائرڈ ہوتا ہے وہ بہت بے چین ہو جاتا ہے۔ نئی نوکری تلاش کے نے کے لیئے۔ اس میں اتنا خوف پیدا ہو جاتا ہے ریٹائرمنٹ کے قریب کہ وہ گھر کے کام کا نہیں رہتا اور لڑائیاں کرتا ہے اور جلدی فوت ہونے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ میرا نوکری کا کام تو ختم ہو گیا، گھر والے بھی اسے بڑا نالائق سمجھتے ہیں کہ یہ خوامخواہ ریٹائرڈ ہو کر گھر بیٹھ گیا ہے۔

ہم دونوں تقریباً اسی کیٹیگری میں تھے۔ میں نے کہا آب آپ کیا کرتے ہیں؟ اس نے کہا، میں جمعہ کی نماز پڑھ کر پھیل جاتا ہوں اور اللہ کے فضل کی تلاش میں نکل جاتا ہوں۔ میں نے کہا، اللہ کے فضل کی تلاش تو یہ ہے کہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں جمعہ پڑھ کے میں اس زمانے میں ریڈیو میں ملازم تھا، دور دور تک تو نہیں پھیلتا تھا، کیونکہ میرا کام ہی لاہور میں ہوتا تھا۔ میں امریکن سفارتخانے کو جمعہ کے دن انگریزی سے اردو اور اردو سے انگریزی سے تراجم کر کے دیتا تھا اور معقول معاوضہ حاصل کرتا تھا۔ پھر انہیں وائس آف امریکہ میں کچھ ریکارڈنگز کی ضرورت تھی، تو ظاہر ہے کہ میں وہ کام بطریق احسن کرتا رہا۔ میں جمعہ پڑھنے کے بعد اللہ کے فضل کا سہارا لیتا تھا اور جمعہ سے قبل خریدوفرخت بند کر دیتا تھا۔

میں نے اس سے کہا آپ نے کچھ طے نہیں کیا ہوا، پہلے سے پتا ہونا چاہیے کہ آپ کو جا کر کیا کرنا ہے۔ آڑھت منڈی جانا ہے، اکبری منڈی جانا ہے یا سوتر منڈی میں جا کر کام کرنا ہے۔ انہوں نے کہا میں تو بس فضل کی تلاش میں نکل جاتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے جمعہ کے حوالے سے یہ قرآنی آیات پڑھیں تو میرے دل پر یہ وارد ہوا کہ اللہ کا فضل خالی روزی ہی نہیں اور رزق خالی کھایا جانے والا، ماش کی دال، چھلکے والی، بغیر چھلکے والی، گرم مصالحہ “ لون “ (نمک) مرچ ہی نہیں، اللہ کے فضل کے بڑے روپ ہیں۔ اس نے کہا کہ جب میری شادی ہوئی اور میری ماں نے کڑکی کو تلاش کیا تو میں نے اسے پہلے نہیں دیکھا تھا، کیونکہ پہلے دیکھنے کا اس وقت رواج ہی نہیں تھا۔ میں نے کہا اماں ! کیسی ہے ؟ اس نے کہا کہ بس ٹھیک ہے۔ تھوڑی سی اس میں کسر ہے، ذرا بھینگی ہے۔ تم اسے برداشت کرنا کہ یہ اللہ کا رزق ہے اور تمہیں اس میں اللہ کا فضل تلاش کرنا ہے۔ لڑکی کی شکل صورت میں کچھ ڈھونڈنے کی کوشش نہ کرنا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، مجھے منظور ہے۔

جب میں نے اپنی بیوی کو دیکھا تو اس کی شکل تقریباً نورجہاں سے ملتی تھی۔ بہت خوبصورت تھی اور اس کی آنکھوں میں کوئی “ٹیڑھ ویڑھ“ (بھینگا پن) بھی نہیں تھا۔ وہ کہنے لگا کہ اس سے مجھے بڑا شاک ہوا کہ اماں نے میرے ساتھ اچھا مذاق کیا ہے۔ میں نے کہا، اماں وہ تو ٹھیک ٹھاک ہے۔ کہنے لگی، یہ تو تجھ پر اللہ کا فضل ہو گیا اور وہ تیری بیوی نہیں، وہ اللہ کا فضل ہے۔

اب میرے ذہن میں یہ آیا کہ میں اللہ کے فضل کی تلاش میں نکلوں۔ میں نے اس سے کہا کہ میں بھی آپ کے ساتھ نکل سکتا ہوں۔ اس نے کہا ذرا دور تک آپ پیدل چلیں گے؟ میں نے کہا ہاں - وہ پیدل چلتا رہا، مجھے تو اتنی پریکٹس نہیں تھی اس لیئے میں منہ میں گولی رکھ کے چلتا رہا۔ یہ جو عمران خان کا ہسپتال ہے، ہمارے لاہور میں شوکت خانم یہ کھلی جگہ ہے، وہاں قریب ہی بہت ساری جھگیاں ہیں چنگڑوں کی اور ان کے بچے جو ہیں وہ پرانے لفافے اکٹھے کرتے ہیں۔ ہم وہاں پہنچے ان کے چودہ پندرہ سولہ سال کے بڑے اچھے کڑیل قسم کے لڑکے جو لفافے اکٹھے کرنے کا پیشہ کرتے تھے، بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے ہمیں دیکھ کر ہاتھ ہلا کر کہا “ آ گئے، آ گئے، آ گئے، “ اور خوشی کا نعرے مارے۔ میرے ساتھ جانے والے نے اپنی جیب سے نکال کر سیٹی بجائی۔ وہ سارے آٹھ لڑکے قطار میں کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے کہا پچ تیار ہے۔ لڑکوں نے کہا ٹھیک ہے۔ انہوں نے کہا وکٹیں لگاؤ اور پھر وہاں کرکٹ کا میچ شروع ہو گیا اور یہ امپائر بن کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے، یہ کئی مہینوں سے کرکٹ کھیلتے تھے اور ان بیچاروں کو کوئی امپائر نہیں ملتا تھا، تو لڑتے تھے۔ میں جب اللہ کے فضل کی تلاش میں نکلا تو میں نے دیکھا وہ تو یہاں پڑا ہے۔

وہ بڑے سخت امپائر تھے اور بڑی سختی کے ساتھ فیصلہ دیتے۔ جب انہوں نے ایک لڑکے کو ایل بی ڈبلیو دیا تو میرے اندازے میں وہ غلط تھا، لیکن جب انہوں نے انگلی اٹھائی تو بیٹسمین وہیں بلا چھوڑ کر چلا گیا۔ انہوں نے ایسے ڈسپلن والے بچے تیار کیئے ہوئے تھے، کیونکہ وہ جو انہیں کھلانے والے تھا، وہ کسی اور پچ پر کھیل رہا تھا اور وہ پچ کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ اس نے کہا کہ میں ہر جمعہ یہاں آ جاتا ہوں۔ میرا ان کے ساتھ وعدہ ہے اور اس طرح میں اللہ کے فضل کی تلاش میں نکلتا ہوں اور مجھے اس کا فضل کثیر صورت میں نصیب ہوتا ہے۔

اب میں ان سے بڑا شرمندہ ہوا کہ میں تو جا کر ترجمے کرتا تھا اور پیسے کماتا تھا، کیونکہ بریکٹ میں یہی لکھا ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ جب میں نے آیات کے ترجمے میں پھیل جانا پہلی بار پڑھا تو مجھے اس پھیلنے کا یہی مطلب ملا کہ چلتے جاؤ، چلتے جاؤ۔ سو اشفاق صاحب میں چلتا گیا چلتا گیا اور ریلوے سگنل کے پاس پہنچ گیا، جہاں پر میرے رشتے کی ایک بھانجی رہتی تھی اور وہ بیچارے غریب لوگ تھے۔ تھی تو وہ میری چچازاد بہن کی بیٹی، لیکن چونکہ وہ امیر نہیں تھے اور ہم نے ان کی جانب توجہ نہیں دی تھی اور کبھی ملے ہی نہیں۔ جب چلتے چلتے اس کا گھر آ گیا تو میں اندر چلا گیا، تو اس نے خوشی سے چیخیں ماریں کہ “ ماما جی آ گئے، ماما جی آ گئے “ اور اپنی دونوں بیٹیوں کو بلا لیا کہ یہ میرے ماما جی ہیں۔ وہ بھی میرے ساتھ لپٹ گئیں اور کہنے لگیں “ ماما جی ! آپ ہمارے پاس آتے کیوں نہیں؟ میں نے کہا، میں جمعہ پڑھنے کے بعد اس کے فضل کی تلاش میں نکلا ہوں، تو آج مجھے یہ فضل نصیب ہوا ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ اسے اپنی بھانجی کے گھر جا کر پتا چلا کہ میری بھانجی کی بیٹیاں اور وہاں کی پانچ لڑکیاں پرائیویٹ کالج سے ایف ایس سی کر رہی تھیں اور کسی بڑے کالج نے انہیں جمعہ کی شام کو پریکٹیکل کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ وہ چونکہ سب اکیلی ہوتی تھیں اور علاقہ بہت دور کا تھا، تو وہ ڈرتی تھیں اور جاتی نہیں تھیں۔ لٰہذا جب مجھے پتا چلا تو میں ان کا سپاہی بن کر ہر جمعہ انہیں کالج لے بھی جاتا تھا اور لے کر بھی آتا تھا۔ یہ میری ڈیوٹی مجھے اس آیت کی وجہ سے لگی رہی۔ میں خوش رہا۔ میں زندگی میں اتنا خوش کبھی نہیں ہوا، جتنا کہ اللہ کا فضل ملنے کے بعد رہا۔

ایک دن میری بھانجی نے کہا کہ ماما جی! آپ آتے تو رہیں گے یہاں کہ نہیں؟ میں نے کہا، میں یہاں ضرور آتا رہوں گا۔ بھانجی نے کہا کہ عقیلہ اور سجیلہ کا بندوبست ہو گیا ہے اور کالج نے کچھ چندہ کے عوض ایک وین کی سہولت دے دی ہے۔ میں نے کہا نہیں پھر بھی آتا رہوں گا۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایسے ربط کے ساتھ نہیں آ سکوں گا۔ مجھے کوئی نوکری یعنی اللہ کا فضل تلاش کرنا پڑے گا۔ یہ فضل کی نوکری بڑے مزے کی ہوتی ہے۔ یہ بیٹھے بیٹھائے ہر کسی کو نہیں ملتی۔ کہنے لگے کہ یہ بھی اللہ کی بڑی مہربانی رہی کہ میں بھانجی کو ملنے وہاں جاتا رہا اور مجھے ایک کھوئی ہوئی بھانجی مل گئی۔ بھانجی نے کہا کہ ماما جی ! یہاں قریب ہی ایک خاتون ہیں، جو معذور ہیں۔ چلنے پھرنے سے اور اکیلی رہتی ہیں۔ انہیں سودا وغیرہ لانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ یہ ڈیوٹی ذرا سخت تھی۔ تو میں جمعہ کے بعد اس کے پاس گیا۔ وہ پڑھی لکھی خاتون تھیں، لیکن طبیعت کی سخت تھیں۔ کہنے لگے، میں نے ان سے کہا کہ جی سودا میں لا دیا کروں گا۔ اس خاتون نے پہلے میری شکل غور سے دیکھی اور کہنے لگی، دیکھو ! تم مجھ پر مہربانی کرنے آئے ہو، لیکن میں تمہیں پہلے پیسے نہیں دوں گی۔ تم سودا لا دیا کرو اور حساب کر دیا کرو، تو پھر میں پیسے دوں گی، کیونکہ کئی لوگ دھوکہ کرتے ہیں۔ میں نے کہا نہیں جی، یہ تو میری توہین ہے۔ میں کیوں بےایمانی کروں گا آپ کے ساتھ۔ میں تو پہلے پیسے لوں گا۔

جب میں اڑ گیا تو خاتون نے میرے چہرے سے بھانپ لیا کہ ماسٹر کریم شرارت کے طور پر ایسا کر رہے ہیں۔ اب اس خاتون نے پتوکی سے پھولوں کے بیج منگوائے۔ پتوکی جہاں بہت پھول ہوتے ہیں، پتوکی سے ہم پھول ایکسپورٹ بھی کرتے ہیں۔ یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ پتوکی جیسا علاقہ خشک بے آب و گیاہ۔ کڑوا پانی۔ وہاں اللہ نے اتنے پھول پیدا کر دیئے ہیں کہ ہم وہ ولایت کو ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔ وہ خاتون ہر بار سودے اور چیزوں کا بغور جائزہ لیتی تھیں۔ کبھی کہتی یہ دارچینی تو انتنے کی نہیں ہوتی، تم تین آنے زیادہ دے آئے ہو، یہ سوکھا دھنیا جو بھی کچھ ہوتا تھا، ان کی قیمتوں کا سخت جائزہ لیتی تھیں اور اسے سخت طریقے سے بار بار چیک کرتی تھیں اور میں نے کئی دفعہ یہ ارادہ کیا۔ میں اس “ فضل “ کو چھوڑ دوں، لیکن جب جمعہ کی اذان ہوتی تو میں دوڑتا ہوا نماز کے لیئے آتا تھا اور نماز پڑھ لیتا تھا، تو میرے کانوں میں یہ گونجنے لگتا تھا کہ “ تم پھر اللہ کی زمین پر پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرؤ “ تو میں پھر رہ نہیں سکتا تھا اور اس سخت اور کڑوی خاتون کی خدمت میں حاضر ہو جاتا تھا۔

میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کے فضل کی ایک ہی شکل نہیں ہے، اللہ کا فضل تو وسیع ہے۔ یعنی میری اور آپ کی سانس سے لے کر کبھی کبھی آدمی ناشکرا ہوتا ہے کہ مجھے زندگی میں کیا ملا۔ یہ بیبیاں ہوتی ہیں کہ ذرا ذرا سے بات پر چڑ جاتی ہیں۔ میری پوتی ناراض ہو کر جب دروازے میں چابی ڈالتی ہے تو وہ کھلتا نہیں، پھر چڑ جاتی ہے اور کہتی ہے “بابا یہ مجھ سے کیوں نہیں کھلتا ہے؟ بس ذرا سی بات پر رنجیدہ ہو جاتی ہے۔ حالانکہ وہ بیچارہ کھل رہا ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ میں کہوں کھل جا سم سم تو یہ جھٹ سے کھل جایا کرے۔ میں نے کہا اللہ نے تم کو اتنی نعمتیں دی ہیں۔ کہنے لگی نہیں نہیں کوئی نعمتیں نہیں دیں۔ میرے پاس کون سے نعمت ہے بتائیں؟ اس نے کہا کہ ہم نے مرسیڈیز لینی ہے، یہ ٹویوٹا کرولا تو فضول چیز ہے۔ میں نے کہا، دیکھو یہ اللہ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ تم کو سب سے قیمتی چیز مفت مل رہی ہے۔ وہ آکسیجن ہے۔ دنیا کی بیش قیمت چیز اگر تمہیں ہر صبح جا کر خریدنی پڑے تو کتنی مشکل ہو۔ قتل و غارت گری ہو، کچھ کنٹرول ہی نہ ہو۔ اللہ جو ہمیں پانی دیتا ہے اور میں پانی کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ یااللہ تعالٰی تو نے یہ کیسے بنایا اور ہمارے کتنے کام اس کے ساتھ وابستہ ہیں اور ہمارا کام مفتا مفت چلا جا رہا ہے۔ تو اللہ کے فضل کے بڑے رُوپ ہیں۔

یہ “زاویہ“ پروگرام تو آپ سے ملاقات کا ایک بہانہ ہے۔ میں اسی لیئے عرض کرتا ہوں اپنے آپ کو سمجھانے کے لیئے بھی۔ میرے اندر ایک چڑ رہتی ہے اور میں ایک سخت گیر آدمی ہوں اور ایک انسان میں لچک ہونے چاہئے۔ وہ میرے اندر نہیں ہے اور اپنے آپ کو سمجھانے کے لیئے میں آپ کا سہارا لیتا ہوں کہ اے اشفاق احمد ! اللہ کا فضل تو بڑے مختلف روپ میں پھیلا ہوا ہے۔ آپ نے تو کبھی غور نہیں کیا کہ جب آپ کرکٹ کا کوئی میچ دیکھنے بیٹھتے ہیں، تو بڑا فضل بڑی راحت محسوس ہوتی ہے۔ کبھی Tension میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ “ اوہ “ اگر اس کا چھکا لگ جاتا تو بڑی اچھی بات ہوتی۔ اچھا شوکت خانم کی جھگیوں کے پاس جو لڑکوں کی ٹیم ہے، وہاں چوکے تک کی تو اجازت ہے، چکھے کی نہیں ہے۔ اب دیکھئے امپائر نے کتنی سخت شرط لگائی ہوئی ہے، چھکے کی اجازت اس لیئے نہیں ہے کہ چوکے کے باہر اردگرد کوٹھیاں شروع ہو جاتی ہیں اور چھکے سے خطرہ ہوتا ہے کہ بال ان کے شیشوں میں جا نہ لگے، لیکن اگر کوئی چوکا چھکے کی اہمیت کا ہو تو امپائر جو پاکستان کا واحد امپائر ہے، جو دونوں ہاتھ کھڑے کر کے چھکے کا فیصلہ دے دیتا ہے اور اس کے فیصلے کو دونوں ٹیمیں تسلیم کرتی ہیں، کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔ سو، جناب اللہ کی مہربانیوں کے بڑے روپ ہیں۔ اگر ہم تھوڑی سی لچک پیدا کر کے چِڑنا چھوڑ دیں، جلنا بھننا چھوڑ دیں تو آسانیاں اور اللہ کا فضل حاصل ہو سکتا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر چِڑنا کہ بس لیٹ آتی ہے، دیر ہو جاتی ہے، فلاں کام ہماری مرضی سے نہیں ہوا۔

ایک نابینا بابا بس سے اترا اور میں نے ہی اسے مدد کر کے اتارا۔ عین اسی وقت جب نابینا بزرگ کو میں اترنے میں مدد دے رہا تھا، ان کے ساتھ ہی اترنے والے ایک صاحب کے Cell Phone پر فون آ گیا۔ انہوں نے کہا “ ہیلو!“ تو نابینا صاحب نے بھی کہا “ہیلو “ اس صاحب نے کہا “ کیسا حال ہے؟ نابینا صاحب کہنے لگے اللہ کا شکر ہے۔ وہ صاحب تو اپنی بات کر رہے تھے، لیکن نابینا صاحب اسے پورا ٹھیک جواب دے رہے تھے۔ وہ صاحب فون پر کہنے لگے، کل آپ آئے نہیں؟ نابینا صاحب کہنے لگے، کل آپ نے مجھے کب بلایا تھا۔ وہ کہنے لگے تم نے وعدہ کیا تھا، نابینا صاحب کہنے لگے، نہیں میں نے وعدہ نہیں کیا۔ اب میں درمیان میں کھڑا ہوں اور سوچ رہا ہوں زندگی میں کیسے کیسے عجیب و غریب واقعات سامنے آتے ہیں۔ آپ اگر غور سے سفر کریں تو ایسی عجیب و غریب چیزیں ملتی ہیں۔

میں جو آپ سے عرض کرتا ہوں یہ یہیں کہیں وہیں سے اکٹھی کی ہوئی باتیں ہوتی ہیں، لیکن ہم نے چونکہ ایک سخت قسم کا اور تنگ راستہ بنا لیا ہوا ہے اور ہم سارے سرنگ میں چلنے کے عادی ہیں۔ کھلے راستوں کے عادی نہیں رہے، اس لیئے یہ سارے واقعات اور اللہ کے فضل اور رحمتیں نظر نہیں آتیں، ورنہ اللہ کا فضل تو مسلسل جاری ہے۔ اب یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ ہماری آنکھیں سلامت ہیں اور ہم دیکھ سکتے ہیں۔

میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی آپ کو فضل کی تلاش میں زیادہ آسانیاں فرمائے اور اتنی آسانیاں عطا فرمائے کہ آپ انہیں تقسیم کریں اور لوگ ان سے فائدہ حاصل کریں اور انہیں آگے تقسیم کر سکیں۔ اللہ حافظ۔
 

ماوراء

محفلین
انسان کو شرمندہ نہ کیا جائے۔

انسان کو شرمندہ نہ کیا جائے​

آپ سب کی خدمت میں سلام پہنچے۔
کئی دفعہ زندگی میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی قصوروار نہیں ہوتا لیکن وہ مجرم، قصوروار گردانا جاتا ہے، پکڑا جاتا ہے۔ زندگی میں ایسی باتوں سے اگر ہم زیادہ شدید نہ ہوں، سنجیدہ نہ ہوں تو ہنسی آتی ہے کہ اس میں میرا کوئی عمل دخل ہی نہیں تھا تو میں کیسے پکڑا گیا۔
ہم ڈیرے پر حاضر تھے تو پانچ پڑھے لکھے، اچھے، شریف، ذہین، دانش مند لوگ جو وہاں موجود تھے، وہ پکڑے گئے۔ بابا جی نے ہماری پیشی کروا دی حالانکہ اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں تھا، اور ہم نے کوئی ایسی خرابی نہیں کی تھی۔ لو جی ہماری سرزنش شروع ہو گئی۔
اصل میں بابا جی کسی بڑے جلسے آئے ہوئے تھے، اور زندگی بھر وہ کسی بڑے جلسے میں نہیں گئے تھے، لیکن ان کا کوئی مرید ہمارے الحمر اہال میں جواس زمانے میں بڑا ہال متصور ہوتا تا، لے گیا۔ وہاں پر ان کو ایک ایسے لیکچرار کا لیکچر سننا پڑا جو بڑی اچھی دردمندی کی باتیں کر رہا تھا، اور پاکستان کو دل و جان سے چاہتا تھا۔
، اور بابا جی اس کی باتیں سن رہے تھے۔ لیکن جب سب لوگ سر دھن رہے تھے، تو اکیلے شاید وہی تھے جو اس کے اوپر دیسی توجہ نہیں دے رہے تھے جیسی کہ دہ جانی چاہیے تھی۔ اس شخص نے کہا۔ دیکھو! میرے پیارے ہم وطنو پاکستان بن گیا۔ اللہ کی ہم پر بڑی مہربانی ہوئی ہے۔ یہ خاص عطئیہ خداوندی ہے اور ہم جتنا بھی اس کا شکریہ ادا کریں، کم ہے۔ اگر یہ پاکستان نہ بنتا تو میں جو اس وقت آپ کے سامنے کھڑا ہوا، اس وقت ایک یونیورسٹی کا وائس چانسلر ہوں، میں یا تو ایک چپڑاسی ہوتا یا معمولی ایک کلرک ہوتا، اور یہ پاکستان ہی کی وجہ سے ہے کہ ایسے اونچے مقام پر کھڑا ہوں۔ آپ کو مخاطب کر رہا ہوں۔ بڑی اچھی بات تھی۔ ہم اکثر یہی کہتے ہیں، آپ نے اکثر سنا ہو گا، اب ہم کو انہوں نے بلا لیا، اور قطار میں کھڑا کر کے کہا، دیکھو پیارے بچو! ایسی بات نہیں کرتے۔ ہم نے کہا اگر اللہ ہمیں موقع دے، ہم بھی ضرور ایسی ہی بات کریں گے۔ کچھ بہت اچھے اچھے رتبے پر ہیں، اور جا رہے ہیں تو ہمیں یہی کہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ خبردار جس شخص نے یہاں رہ کر ذرا سی بھی تربیت حاصل کی ہے،میں اس کو یہ بات کہنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ ہم بڑے حیران ہوئے کہ سر یہ کیا بات ہوئی۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے، اور اس کا اعلان عام ہونا چاہیے، اور ہم پاکستان کی سارے شعبوں کی بات سن رہے تھے، وہ شرمندہ ہو رہے تھے کہ یہ اس مقام پر پہنچ گیا پاکستان بننے کے بعد، جبکہ ہم ویسے ہی چھوٹے مقام پر ہیں۔ ان کے دل پر کیا بیتی؟ بابا جی کو دل کا بہت خیال تھا، اور آدمی کا بہت خیال تھا، ترقی کا، ساہنس کا، یا رتبے کا بالکل نہیں۔ وہ کہتے تھے کہ یہ بات کہنا، اور اپنے ہم وطنوں کو اپنے قریبی عزیوں کو شرمندہ کرنا جو ہے، بڑا ہی قبیح فعل ہے، اور پھر وہاں پر عہنے کے بعر ایک اور بات کا اس میں اضافہ ہوا۔ ایک اور بات کا، وہ یہ کہ ہم بڑی سختی سے منع کیا گیا کہ چونکہ آپ ایک ایسے مقام پر رہتے ہیں جہاں روحانیت کی باتیں ہوتی ہیں۔ تو اگر تم میں سے کسی کو خوش نصیبی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم کی زیارت ہو خواب میں، وہ ہر گز ہر گز کسی دوسرے سے ذکر نہ کرے، یعنی اتنا بڑا رتبہ اتنی بڑی سعادت اور یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ ہر گز یہ بات نہ کریں۔ چونکہ ہم بولتے نہیں تھے۔ تو ہم نے کہا، بہت بہتر لیکن یہ بات ہمارے دل میں رہی، اور تجسس پیدا ہوا۔ ایک دن گزر گیا دو دن گزر گئے۔ میں جو بہت بے چین تھا کہ اس بات کی وضاحت ہونی چاہیے اور تھوڑا سا میں منہ چڑھا بھی تھا۔ میں ان سے ڈرتے ڈرتے بہت سی عجیب و غریب باتیں بھی پوچھ لیتا تھا۔ میں نے کہا، حضور یہ بتائیے کہ اس دن یہ بات کی تھی کوئی ایک ہفتہ ہوا کہ اگر کسی خوش نصیب کو زیارت نصیب ہو حضور پاک صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم کی تو اس کا ذکر نہ کریں۔ انہوں نے فرمایا کہ جو سننے والے ہوں گے۔ وہ بہت خفت محسوس کریں گے کہ دیکھو یہ آدمی بڑا خوش نصیب ہے۔ اس کو تو زیارت ہو گئی، ہم بڑے کم نصیب لوگ ہیں۔ ہم میں کوئی نہ کوئی خرابی موجود ہے۔ اس کی وجہ سے ہمیں اتنا بڑا یہ اعزاز اور شرف حاصل نہیں ہوا۔ خبردار کسی کو شرمندہ کرنا تمھارا شعار نہیں ہے۔ اگر تم آدمی کو شرمندہ کرو گے، تو تمھارا یہاں آنا محدود ہو جائے گا، اور آپ کے Rights ریزرو ہو جائیں گے۔خواتین و حضرات! ہم تو اپنے آپ کو برتر ثابت کرنے کے لیے اپنی ذات کا چوگا دیتے رہتے ہیں، اپنا میک اپ کرتے رہتے تھے۔ اور حکم ہے کہ خبردار دوسرے بھی لوگ تمھارے ساتھ رہتے ہیں، باقی کے بارہ کروڑ جتنے بھی آدمی ہیں، ان کو شرمندہ کرنا آپ کا منصب نہیں۔ آپ اس دنیا میں اس لیے نہیں آئے ہیں کہ آپ لوگوں کو خفیف کریں، ان کو شرمندہ کریں۔ یا باعث بنیں ان کی نکبت کا، ان کی خجالت کا۔ تو اس ٹریننگ میں سے گزرتے ہوئے بڑے سال لگے۔ لیکن بد قسمتی سے یہ ٹریننگ پوری نہ ہو سکی۔ چونکہ ڈیرے کے باہر جو عمل چل رہا تھا۔ وہ استکبار کا عمل تھا، تکبر کا عمل تھا، اور ہماری ساری کی ساری قوم تکپر کی راہ پر گامزن تھی۔ اور تکبر سے ہر وہ شخص اپنی ذات کا ہو کر رہ گیا تھا،
اور مجھے رہ رہ کر ایک ہی خیال آتا تھا کہ کسی زمانے میں ایک رنگین کارٹون دیکھا تھا سینما میں۔ کہ ایک کشتی ہے۔ وہ سمندر کی لہروں پر چلی جا رہی ہے، اور اس میں آٹھ آدمی سوار ہیں۔ چار ادھر بیٹھے ہیں، اور چار اس کے آگے نوک کے اوپر، تاکہ کشتی کا وزن، اور توازن برابر رہے۔ اچانک جو آگے کا حصہ ہے، اس میں سوراخ ہو جاتا ہے اور تیزی سے پانی اس کے اندر داخل ہونے لگتا ہے اور کشتی بھرنے لگتی ہے۔ تو جو پیچھے بیٹھے ہوئے آدمی تھے، ان میں ایک اٹھتا ہے ایک ڈبا لے کر، اور وہ چاہتا ہے کہ پانی نکال دے تو دوسرا اس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے اور کہتا ہے خبردار! سوراخ ان کی طرف ہوا ہے ہمیں کیا ضرورت ہے اس کام میں، وہ جانیں یا ان کا کام جانے۔ بیٹھ جاؤ آرام سے۔ وہ واقعی آرام سے بیٹھ جاتا ہے، تو کبھی کبھی اپنے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے، وہ کارٹون یاد آجاتا ہے۔ اس پروگرام میں میں تو صورتِ حال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ ہماری زندگی میں یہ داخل نہیں ہوا تھا کہ دوسرے آدمی کو شرمندہ کر سکیں۔ آپ کے ملک میں دیکھیے، اتنی اتنی بڑی خبریں چھپتی ہیں کہ ہمارا ملک اس وجہ سے ترقی نہیں کرتا کہ اس میں پچاس فیصد لوگ جاہل اور ان پڑھ ہیں۔ میں ان سے بڑی درخواست کرتا ہوں۔ میں نے دفتروں میں بھی حاضر ہو کے کہا تھا، طریقے سے یہ خبر بتایا کریں۔ چونکہ جو آدمی کسی وجہ سے پڑھا نہیں ہے، اس کو کیوں شرمندہ کرتے ہو۔ میرے ساتھ اس طرح کا ایک واقعہ بھی گزر چکا ہے۔ ڈھاباں سنگھ ایک منڈی ہے۔ دانہ منڈی میں وہاں پر ٹریکٹر سے بوریاں اتار کے مزدور لوگ، وہ منڈی میں پھینک رہے تھے۔ اور دانہ منڈی کے ایک آڑھتی کا منشی یہ اخبار پڑھ رہا تھا کہ ہمارے ملک کی بری حالت ہے۔ اس میں ٨٥٪ لوگ ان پڑھ ہیں جو کچھ نہیں کر سکتے، نہ ملک کا بنا سکتے ہیں، نہ بگاڑ سکتے ہیں۔ جب تک ملک تعلیم یافتہ نہیں ہو گا، اس وقت تک اس کی حالت نہیں بدلے گی۔ وہ اب اونچی آواز میں پڑھ رہا تھا۔ میری آرزو تھی کہ اگر یہ خبر اونچی نہ پڑھے تو کوئی حرج نہیں، اور وہ جو بے چارے مزدور، کسان بڑے خوب صورت، صحت مند بوریاں اٹھا اٹھا کر نیچے لا رہے تھے، اور وہ گندم آ رہی تھی پور میں، اور وہ گندم میرے گھر میں پہنچ رہی تھی، جس سے مجھے، اور میرے بچوں کو پلنا تھا، جو ہماری زندگی کا سہارا تھی۔ جو انہوں نے بڑی محنت سے، بڑی محبت سے اگائی تھی اور جسے بڑی محنت، اور محبت سے مجھ تک پہنچا رہے تھے۔ ان کو یہ سنایا جا رہا تھا کہ دیکو تم تو جاہل لوگ ہوتے ہو، اور جاہل جب تک رہیں گے، ہم ترقی نہیں کر سکیں گے۔ میں ضرور چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں علم کی شمع روشن ہو، اور اس کی روشنی دور دور تک پہنچے، لیکن جب تک یہ لوگ شرمندہ کرتے رہیں گے تو آپ کا ملک کمزور ہوتا رہے گا۔
ہر آدمی جاہل تو نہیں ہوتا نا، جاہل ہونا کچھ اور بات ہے۔ یہ ابھی تک معلوم ہی نہیں کہ پڑھے لکھے آدمی کی Definition کیا ہے، کس base پر رکھا جا رہا ہے یا پھر اس کو جو اخبار پڑھ رہا ہے، اس کو پڑھا لکھا کہا گیا ہے، اور پھر یہ بات ہے کہ ہم ابھی تک یہ کلیئر ہی نہیں کر سکے کہ پڑھنے لکھے آدمی کی Definition کیا ہے۔
یو این او نے ساری دنیا کے لیے پڑھے لکھے کی Definition مقرر کر دی ہے جو شخص حرف شناس ہو۔ اب پ ت کو پہچان سکتا ہو، اور اپنا نام لکھ سکتا ہو۔ اس کو یو این او والے پڑھا لکھا آدمی متصور کرتے ہیں۔
پاکستان میں بھی یہی ہے کیا۔
وہ تو ہم U.N.O کے ساتھ چل رہے ہیں نا۔ دنیا کا وہ ادارہ ہے۔
ہر مردم شماری میں یہ بدل جاتا ہے۔ کبھی کہتے ہیں پیرا گراف پڑھ سکتا ہو تو اس کو ہم پڑھا لکھا کہیں گے۔ کبھی کچھ اور ہوتا ہے، کوئی کرائیٹیریا نہیں ہے، ہمارے ہاں۔
دیکھیے ہمارا فورم ڈسکشن کا نہیں ہے، لیکن پڑھے لکھے کی تعریف انٹرنیشنل سطح پر مقرر ہو چکی ہے۔ میرے نزدیک کم سے کم پڑھا لکھا آدمی بی اے ہے۔ آرمی کے نزدیک پڑھا لکھا آدمی کم سے کم ایم اے ہے۔ ڈاکٹر کے نزدیک کم سے کم پڑھا لکھا Ph.D ہے، اس طرح یہ تو کام آگے چلتا ہے۔
مشکل یہ پڑ رہی ہے کہ جو پڑھا لکھا آدمی ہوتا ہے بہت اچھا ہوتا ہے۔ اللہ نے اس کو بڑی صلاحیت دی ہوتی ہے۔ وہ یہ سوچتا نہیں ہے۔ ایک سٹیج پر کھڑا ہو کے کہے گا دیکھو پاکستان بن جانے سے میرا رتبہ کتنا بڑھا ہے۔ میں اپنے رتبے کی بات کرتا رہوں گا۔ میرے ذہن میں لاشعور میں یہ خیال نہیں آئے گا کہ بہت سے لوگ بیٹھے ہیں۔ سامنے سننے والے جو کسی بھی رتبے تک نہیں پہنچ سکے، لیکن وہ کنٹری بیوٹ کر رہے ہیں کسی نہ کسی طرح سے ملک کی اکانومی ہیں۔
فرض کریں وہ کنٹری بیوٹ نہیں کر رہے، لیکن وہ انسان ہیں، اور ان کا استحاق ہے زندہ رہنے کا۔ میری پیاری بی بی اس کائنات میں جب دوسرا شخص پیدا ہوا تھا۔ پہلے کے حقوق آدھے رہ گئے تو دوسرا شخص کون تھا، کیسا تھا۔ کنٹری بیوٹ کرتا تھا یا نہیں کرتا تھا لیکن یہ رہ گیا۔ میں جو اس ملک میں رہتا ہوں۔ میرے حقوق 14\1 کروڑ ہیں، میں یہ کہوں کہ میں چونکہ یہاں بیٹھا ہوا بات کررہا ہوں اور آپ میری شکل دیکھ رہے ہیں، میں تعلیم یافتہ ہوں۔ حقوق کے معاملے میں ہم برابر ہیں۔ یہ مساوات ہم کو خاص طور پر دی گئی ہے۔ آپ لوگ اکثر پوچھتے ہیں اور اس بات پر غم کا اظہار کرتے ہیں، اور یہ جائز طور پر آپ کے دل کا غم بنا ہوا ہے کہ مسلمانوں میں اتفاق کیوں نہیں ہے؟ بہت سوچتے ہیں ہم۔ ہمارے ہاں ہی نہیں ساری ملتِ اسلامیہ میں، ساری امت میں، عالمِ اسلام میں اتفاق کیوں نہیں ہے۔ یہ واقعی دکھ ہے ۔
ہمارا، اور بڑی درد مندی کے ساتھ دل سوزی کے ساتھ اس کا ذکر کرتے ہیں، لیکن موٹی سی بات یہ ہے کہ اس وقت تک نااتفاقی قائم رہے گی جب تک دوسروں کے حقوق کسی جگہ تلف ہو رہے ہوں گے۔ جونہی آپ نااتفاقی کو محسوس کریں آپ فوراً اندازہ لگا لیں۔ آپ کے پاس ایک تھرمامیٹر ہے کہ دوسرے آدمیوں کے حقوق جو ہیں، وہ تلف کیے جارہے ہیں، ضائع کیے جارہے ہیں۔ اس لیے نااتفاقی ہے، اور جو معاشرے، جو علاقے، اور جو ملک بڑے اتفاق سے رہتے ہیں، اور انصاف پسندی سے رہتے ہیں، ان کے اندر حقوق انسانی تلف نہیں ہوتے ہیں۔ آدمی پڑھا لکھا ہو، موٹا ہو، باریک ہو، کالا ہو، پیلا ہو، اس کا حق ہے۔ ملک کے رشتے سے اس کو حق پورے کا پورا ملتا ہے، تو ہم سے یہ کوتاہی ہوتی ہے۔ ہمارے سارے بابے یہ بات کہتے ہیں، اور وہ تکلیف وہ بات ہے۔ اس پر چلنا ہم تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے بڑی مشکل بات ہے۔ وہ یہ ہے کسی محفل میں، کسی مجلس میں، کسی گفتگو میں اگر آپ کے پاس بات کرتے ہوئے بہت اعلٰی درجے کی دلیل آ جائے۔ ذہن میں بہت اچھی Argument آ جائے، تو وہ دوسرے بندے کو جو آپ کا مدِمخالف ہے، وہ گھائل کر دے جو آپ دلیل دیں یا زائل کر دے یا اس کو ملیامیٹ کر دے تو ہمارے بابے کہتے ہیں، ایسی دلیل روک لو، بندہ بچا لو۔
سامعین! بات تو بندے کی ہے، اور آپ ہمیشہ سے یہی بات کرتے رہے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں توہینِ آدمیت ختم ہونی چاہیے، اور ہر آدمی کی عزت نفس جو ہے، وہ بحال کی جائے۔
آپ نے کھبی محسوس کیا کہ یہاں سے بھاگنے والے لوگ یا کسی، اور ملک میں سٹیل ہونے والے لوگ اس ملک کو پسند کرتے ہیں، جس ملک کے رہنے والے سارے کے سارے توانا ہوں۔ ایسے ملک میں کبھی Migrate نہیں کرنا چاہتے، جہاں دو تین چار حکمران ہوں۔ باقی کے سارے بیچارے مینڈک ہوں کمزور اور ناتواں۔ ہمارے ملک میں بھی یہ کوششیں کی جارہی ہیں۔ کچھ لوگ توانا طاقت والے ہوں، اور باقی کے چودہ کروڑ بے چارے ”ڈڈو” ہوں۔ ”ڈڈو” سمجھتے ہیں آپ؟ مینڈک۔ جس کی کوئی حیثیت نہ ہو۔ تو اتنے مینڈکوں کے درمیان رہنا آپ کو تقویت عطا نہیں کر سکتا۔ خواہ ذاتی طور پر آپ کتنے ہی قومی کیوں نہ ہوں۔ مجھے یاد آیا کہ جب میں اٹلی میں تھا، تو مجھے ٹینس کا کھیل دیکھنے کا بہت چسکا پڑ گیا تھا، اور مجھے ٹینس کا کھیل بہت اچھا لگتا تھا۔ یہاں کبھی اتنی شدومد سے نہیں کھیلا جاتا تھا، ہمارے ملک میں۔ وہاں جتنے بھی میچ ہوتے تھے، میں بڑے شوق سے دیکھتا تھا تو ایک بڑی اعٰلی درجے کی ٹینس پلیئر تھی، اس کی ورلڈ چمپئن تو نہ ہو سکی، لیکن اٹلی کی تھی، اور اس کا نام تھا۔ نینالوہیتی، اس کی Opponent تھی سنٹینا Santena ۔ سنٹینا ذرا بڑی عمر کی تھی، اور Nena نوجوان تھی، چھوٹی تھی، لیکن Nena کا جسم مضبوط تھا، ایک دن ان کا میچ ہوا۔ سب کو سو فیصد یہ یقین تھا کہ Nena جیتے گی، کیونکہ ایک تو اس میں صلاحیت بڑی تھی دوسرے وہ نوجوان تھی اور ایک جسمانی ساخت بڑی مضبوط تھی۔تو میچ کھیلتے رہے۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ Santena جیت گئی۔ اس نے خوشی سے زور کا نعرہ لگایا، کیونکہ ہمیں بھی توقع نہ تھی، اور جب وہ Net کے پاس جاتے ہیں، اور جا کر ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں، تو جب ہاتھ ملانے لگی تو جو Nena تھی، وہ شدت جذبات کے ساتھ رونے لگی۔ شکست بڑی ظالم چیز ہوتی ہے اور Santena نے بجائے اس کے ساتھ ہاتھ ملانے کے اپنا ریکٹ زور سے پھینکا، اور وہ Net جو بڑا Tight لگا ہوتا ہے، چھلانگ لگا کر اس کے اوپر سے گزر گئی، اور جا کے ہاری ہوئی نینا کو گلے لگا لیا، اور اس کا سر منہ چومنے لگی۔ جتنی تیزی سے وہ رو رہی تھی، اس سے زیادہ شدت سے جیتنے والی رو رہی تھی۔ اور سنٹینا نے اپنی جسمانی کامیابی کو ایک روحانی کامیابی میں تبدیل کر دیا، اور پھر اس نے اعلان کیا، میں کبھی بھی پھر ایسے مقابلے میں نہیں اتروں گی جہاں کسی دوسرے کو رونا پڑ جائے گا۔ پھر وہ بڑی سہلیاں بن گئیں، اور اخباروں میں تصویریں چھپتی رہیں، جیسے ایکٹرسوں کی چھپتی ہیں۔
سامعین! یہ جذبہ تو ان لوگوں میں بھی ہے، خواہ وہ اٹلی کے بھی ہوں، کہ وہ کسی کو روتے ہوئے دیکھ سکتے۔، جہاں شکست خوردگی کے عالم میں ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ تو ہمارا پروپیگنڈا ہے۔ کہ یورپ والے تو بالکل جذبوں سے خالی ہیں۔
لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں، سارے کا سارا ہمارا ملک، ہمارا علاقہ، یا لوگ ایسے نہیں ہیں۔ میں اس زمانے کو یاد کرتا ہوں۔ جب میں تھر پارکر گیا صحرا میں۔ ایک ضرورت تھی، ایک ایسی تلاش تھی۔ میرے ساتھ میرے دوست ممتاز مفتی بھی تھے تو ہم گاؤں ہے چھوٹا جدو وہاں رہے۔ وہاں لوگوں نے ہماری بڑی خاطر مدارت کی، اللہ ان کو خوش رکھے۔ یہ وہ شہر تھا جہاں ہماری مائی بھاگی رہتی تھی، بہت اعلٰی درجے کی گانے والی۔ نئی نئی اس نے بھینس خریدی تھی، اور اس کو نہلاتی تھی۔ ہم کو بڑا دودھ پلایا۔ یہ ہمارے بھائی آئے ہیں پنجاب سے۔ تو ہم ان کے مہمان تھے۔ گرمی بڑھ رہی تھی، اور جس چیز کی ہمیں تلاش تھی، وہ ابھی ہم سے دور تھی۔ ایک چورا لے کر ہم کو دے دیا۔ چورا جھونپڑی کو کہتے ہیں۔ اس میں ہم رہتے تھے تو وہاں پر ایک لڑکا تھا کول نسل کا۔ آپ سمجھتے ہیں ”کول دراوڑ” کول قوم ہے، جو تھر میں بہت رہتی ہے۔ کولین گوٹھ میں رہتے ہیں۔ گوٹھ گاؤں کو کہتے ہیں۔ آپ کے ملک میں رہے ہیں۔ کبھی باہر نکلیں، اپنے ملک کو دیکھیں۔ کمال کمال کی چیزیں ہیں۔ تو وہ ایک لڑکا آیا کرتا تھا۔ گاچواس کا نام تھا۔ ایک اس کی بہن تھی چھوٹی سی۔ اور وہ گاچو جو تھا، سر کے اوپر ٹوکرا رکھ کے چھائیں بیچتا تھا۔ جنگل چھائیں۔ چھائیں تربوز کو کہتے ہیں۔ صبح بیچارہ لے کر آتا تھا۔ دونوں یتیم تھے۔ جب دھوپ بٹھتی تھی، جب دس بجے کے قریب، تو سر کے اوپر ٹوکرا لے کر آتا تھا۔ میں اس سے چھائیں، جنگل چھائیں ایک دو پھیکے تربوز خرید لیتا تھا۔ تو وہ بچہ جب چل کے آتا تھا دھوپ میں تو اس کا جو سایہ پڑتا تھا پیچھے تو وہ بھولی سی بہن وہ پیچھے پیچھے چلتی تھی اور وہ آگے ہوتا تھا۔ میں کہتا تھا گاچو تو اپنی بہن کو آگے کیوں نہیں چلاتا۔ تو کہنے لگا، سائیں ہم یتیم ہیں، ہم جھونپڑے میں رہتے ہیں تو گرمی بہت ہو جاتی ہے۔ میں چھوٹا بچہ ہوں۔ میرا سایہ بڑا لمبا ہے۔ میں چاہتا ہوں میری بہن کو گرمی نہ لگے۔ وہ میرے سائے سائے میں چلتی ہے۔ یہ پاکستان کے ورثے کی بات ہے تو وہ گرمی اس کو نہیں لگنے دینا چاہتا تھا، تو یہ گاچو تھا۔ مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں آپ کے ملک میں جو تکبر سے دور ہیں، اور دوسروں کے لیے بھی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ مہربانی۔ اللہ آپ سب کو آسانیاں عطا فرمائے۔ آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 

فریب

محفلین
شیئرنگ
میرے اس پروگرام پر جہاں اور بہت سے اعتراض ہوتے ہیں، خاص طور پر ایک بات جو بار بار کہی جاتی ہے اور پوچھی جاتی ہے کہ آپ کے جو مہمان ہوتے ہیں وہ خود سے کوئی بات نہیں کرتے یا آپ انہیں کہنے نہیں دیتے۔ تو میں عرض کیا کرتا ہوں کہ میں کہنے نہیں دیتا۔ اس لیے کہ میں اپنی داستان گوئی ان کی خدمت میں پیش کرنا چاھتا ہوں۔ یہ ٹاک شو نہیں ہے، ڈسکشن شو نہیں ہے۔ اسے ایک اور انداز میں ہم نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر اسی انداز میں چلے تو بہتر ہے۔ اگر آپ اس میں تھوڑی سی آرزو بھی رکھتے ہیں کہ آپ کو شامل کیا جائے تو یہ بھی ہو سکتا ہے۔ ابتدا میں ایسے کیا تھا۔ آج میری آرزو ہے۔ ردِعمل کے طور پر یہ چاہوں گا کہ کچھ سوال آپ سے پوچھوں، میں ہی بات نہ کرتا رہوں۔ ہمارے یہاں لاہور میں پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس سے نکلتے ہوئے اگر آپ‘ ایک علاقہ ہے ماڈل ٹاؤن‘ اس کی طرف جائیں تو راستے میں ایک مقام پر جہاں بڑی تیز رفتار گاڑیاں جا رہی ہوتی ہیں، کچھ جھگیاں ہیں، ان میں جو لوگ وہاں رہتے ہیں، میں کبھی کبھی ان سے کچھ بات کرتا ہوں کیونکہ بہت ساری کہانیاں مفت ہی معلوم ہو جاتی ہیں۔ پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ وہاں پر ایک ماسی عمری ہے، جو بڑی دانشور، دیدہ ور قسم کی خاتون ہے۔ وہ بڑی اچھی باتیں کیا کرتی ہے۔ تو ان سے میں تھوڑے دن ہوئے ملا تھوڑی دیر کے لیے۔ تو ان سے ایک عجیب و غریب چیز معلوم ہوئی، جس پر میں غور کرتا رہا، لیکن کسی خاس نتیجے پر نہیں پہنچ سکا، جیسی کہ میری آرزو تھی کہ پہنچ جانا چاھیے۔ فی الحال یہ بات عرض کرنی چاہ رہا تھا کہ جو عطا ہے Giving، ڈونیٹ کرنا کسی کو، الحمدللہ ہمارے پاکستان میں اس کی طرف خصوصی توجہ دی جا رہی ہے، اور لوگ بڑے مخیّر ہیں، وہ اپنی حثیت سے بڑھ کر بھی اس میں حصہ لیتے ہیں، اور وہ دیتے ہیں لوگوں کو، ضرورت مندوں کو، محتاجوں کو۔ لیکن ایک چیز ہوتی ہے سانجھ یعنی Sharing۔ یہ بہت مشکل کام ہے۔ شیئرنگ کی طرف آدمی راغب نہیں ہوتا۔ میری بیوی کہتی ہے، آج مجھے ایک خوفناک خواب آیا ہے، تم یہ پیسے لے جاؤ، صدقے کا بکرہ وہاں سے لو، اور ذبح کراؤ اور دے آؤ۔ اور اگر کوئی شخص آ کر سیئرنگ کی بات کرے کہ میرا یہ دکھ ہے اور اے آکبار والو میرا دکھ سنو، اس کو چھاپو مت، کچھ مت کرو، لیکن میرا بوجھ ہلکا تو ہو، وہ کہتے ہیں شیئرنگ ہمارا کام نہیں ہے۔ ہم آپ کو کچھ دے دلا سکتے ہیں لیکن شیئرنگ کا کام نہیں کر سکتے۔ حالانکہ اس کائنات میں جتنے بھی جاندار ہیں، وہ اللہ نے شیئرنگ کے لیے پیدا کیے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں یہ شیر، چیتا، پرندے، درخت، پودے یہ سب اسی کائنات میں اسی کرّہ ارض پر رہ کر ہمارے ساتھ شیئرنگ کرنے، سانجھ بٹانے کے آرزو مند ہیں۔ اس میں ایک بڑی حیرانی کی بات یہ ہوئی منظور صاحب( ہال میں ایک صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے) کہ جو جانور تھے، جو درندے تھے، جو چوپائے تھے۔ انہوں نے تو شیئرنگ میں پورا ساتھ دیا ہمارا۔ آپ غور کریں، لیکن انسان نے ان کے ساتھ شیئرنگ میں سانجھ میں وہ سلوک نہیں کیا جو انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے کرنا چاہیے تھا۔ یعنی ایک معمولی سے ہاتھی دانت کی خاطر، انتے بڑے ہاتھی کو مار دیتے ہیں،اور بے دریغ مارتے چلے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کے ڈسپوزل کا بھی کوئی انتظام نہیں۔ اب روتے چیختے پھرتے ہیں کہ شیر جو ہے، Tiger جو ہے، اور لائن جو ہے، یہ کم ہو رہا ہےاس کو بچایا جائے۔ لیکن ایک وقت تھا کہ بے دریغ گورے نے خاص طور پر اسے قتل کیا، اور ختم کیا۔ پانڈا ایک جانور بڑا پیارا قلابازیاں لگانے والا بدھو سا، اس کو بالکل ختم کر دیا۔ تو انسان نے شیئرنگ کا فن نہیں سیکھا، اور اب لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنے میں بھی وہ شیئرنگ کی طرف نہیں آتا، نہیں آنا چاھتا۔ یہ ایک بڑے المیے کی بات ہے، جنگل تھے بہت گھنے۔ خوبصورت اعلیٰ درجے کے جو آپکے حسن میں، اور آپ کے کرہ ارض کی تقویت کا باعث تھے، اسے کاٹ کاٹ کر صاف کر دیا۔
میں پہلی مرتبہ جب امریکہ گیا ١٩٦٣ ء میں، تو صبح اٹھ کے میں نے اخبار لیا نیویارک ٹائم۔ وہ میں لے کے چلا تو مجھے ایک لڑکی کہنے لگی۔hay, you will take rest of it تم تو بیچ میں سے اتنااٹھا کر لے چلے ہو تو میں نے کہا باقی کچھ اور بھی ہے۔ اس نے کہا تم تو سارا اخبار چھوڑے جا رہے ہو۔ کوئی تقریباً ٢٧٠ سفحے کا اخبار Sunday Edition چھپتا ہے وہاں۔ تو میں تو اسے اتھا بھی نہ سکا، چونکہ میں پہلی منزل پر تھا اس لیے میں کندھے پر رکھ کر چلا، اور وہاں پہنچ گیا۔ پھر میں نے اسے پھیلا کے دیکھا۔ یا اللہ میں یہ کہاں سے پڑھنا شروع کروں؟ تو سیانے آدمی سے پوچھا کہ بھئی اس اخبار کو کیسے پڑھیں۔ اس نے کہا، یہ سارا نہیں پڑھا جاتا جو خواتین ہوتی ہیں وہ نکال لیتی ہیں کھانے پکانے والا حصہ۔ جو کپڑے سینے والے ہوتے ہیں وہ اپنا حصہ، وہ اپنے اتھلیٹ جو ہوتے ہیں، وہ اپنے سپورٹس کا سیکشن نکال لیتے ہیں۔ بہت کچھ ہے پڑھنے کو تو وغیرہ وغیرہ۔ میں بڑا حیران ہوا لیکن میں نے سوچا، میں ان کو فون کر کے پوچھوں۔ میں آپکا دفتر دیکھنا چاھتا ہوں۔ انہوں نے کہا چلے آئیے۔ جب میں گیا تو میں نے ان سے پوچھا، یہ جو آپ اخبار کا Sunday Edition چھاپتے ہیں۔ اس پر کتنا کاغذ خرچ آتا ہے، تو انہوں نے کہا، ہمارے سنڈے ایڈیشن پر تقریباً ١٠ ایکڑ درخت کٹتا ہے۔ تو پھر اس کا پلپ بنتا ہے، اور پھر اس پر چھپتا ہے۔ ایک انفرمیشن دینے کی خاطر جو میں سمجھتا ہوں، اتنی اعلیٰ مائے کی انفرمیشن بھی نہیں ہے، جو انسان کو وہ کچھ عطا نہیں کرتی جو انسانیت کا شرف ہے۔ اتنا سارا کاغذ پلپ کی صورت میں بنا کر درختوں کو کاٹتے چلے جاتے ہیں۔ تو پھر میرے تجسس اور تحقیق کا دائرہ بٹھا، تو ٹائم نیوز والوں کا کاغذ بڑا تھِن Thin ہوتا ہے، اور خاص قسم کا۔ انہوں نے کہا، ہم اپنا کاغذ خود بناتے ہیں۔ اب چونکہ جنگل ختم ہوتے جا رہے ہیں اس لیے ہم نے ایسے Ship بنا لیے ہیں جن کے اوپر پلپ بنا کر کا غذ تیار کرنے کے کارخانے ہیں، اور دنیا کے ہم ایسے علاقوں میں شِپ لے کر گھومتے رہتے ہیں جہاں جنگل قریب ہوں، وھاں سے کاٹ لیں۔ پھر یہی اخبار والے رونے لگ گیے ہیں کہ خدا کے واسطے اس کرّہ ارض کو بچایا جائے۔ اس میں بڑی پولیوشن pollution ہو رہی ہے۔ اس کی لیئر Layer جو ہے وہ پھٹ گئی ہے۔ یہ سب کچھ انسان ہی کی وجہ سے ہوا۔ یہ دردناک بصہ بڑی دردمندی سے آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں کہ ہم عطا کرنے میں تو شیر ہیں لیکن شیئرنگ کرنے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ قدرت کے بڑے مظاہر ہیں، جو بڑی طاقتیں کہ لیں۔ ان کو ہم سب شیئر کرنے پر مجبور ہیں۔ چاند ہے، سورج ہے، ستارے ہیں، ہوا ہے، آسمان ہے یہ سارے ہم شیئر کرتے ہیں، کیونکہ اللہ کی مہربانی ہے۔ اگر خدا نخواستہ ان پر ہماررے قبضے ہونے شروع ہو جائیں، جیسا کہ ہو رہے ہیں۔ بڑے بخر سے کئی دفعہ ہم نے لکھا ہوتا ہے کہ کائنات کے اوپر ہم کمندیں ڈال کے اس کو اب تسخیر کرنا ہے، کائنات نے آپ کا کیا بگاڑا ہے کہ آپ اسے تسخیر کریں گے۔ کیا کریں گے تسخیر کر کے۔ یہ کہا جائے ہم اس کے ساتھ ایک دوستی کرنا چاہتے ہیں۔ اک محبت کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح لوگوں کے ساتھ انسانوں کے ساتھ بھی آدمی محبت کرے۔ اور انسان اگر غور سے دیکھے تو سب سے بڑی چیز جو وہ سانجھ میں رکھتا ہے، وہ اس کا تنفس ہے، سانس ہے۔ میں جو سانس اس وقت لے رہا ہوں، یہ غالباً چلتا چلتا کسی جنگل میں پہنچتا ہے۔ کسی ہاتھی، کسی مگر مچھ کا حصہ بنتا ہے۔اس کا تنفس آیا ہوا یہاں پہنچتا ہے۔ ایک تعلق ایک r\Relatedness کی بات ہوتی ہے، انسان ایک انسان سے ٹوٹ کر، بکھر کر پریشان و حیران ہو رہا ہے، اور اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا، یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔ اور باوجود اس کے وہ بڑی گہرائی کے ساتھ، اور گیرائی سے ساتھ اپنے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک مسئلے کا جو ہمارے بزرگانِ دین صوفی کہا کرتے ہیں کہ وہ بڑے صاحبِ حال بزرگ تھے۔ مثلاً وہ حال ان پر وارد تھا۔ وہ اس مشکل میں مبتلا ہوئے، اور اس مشکل کع سمجھ کر پھر اس کا حل نکالا کرتے تھے۔ میں، آپ یا اور پڑھے لکھے آدمی اس مشکل کے اندر داخل نہیں ہوتے۔ میں نے آپ کو پہلے بھی شاید ایک دفعہ بتایا تھا کہ ہمارے بابا جی کے پاس ایک لڑکی آئی۔ اس کے بازو کے اوپر پھنسیاں تھیں۔ بڑی موٹی موٹی خوفناک قسم کی دودھیا۔ پیپ سے بھری، تو انہوں نے دیکھا تو کہا، اس کا کرتے ہیں کچھ۔ ایک دن گزر گیا۔ شام کو مغرب کے وقت میں نے دیکھا تو وہ، اور اس کا باپ بیٹھے ہوئے۔ میں نے کہا بابا جی، اس پر کوئی دوائی لگانے والی لگا دیتے۔ تو کہنے لگے، دوائی ابھی ذہن میں نہیں آ رہی۔ میں نے کہا جی کیوں آہن میں نہیں آ رہی۔ کہنے لگے جب یہ میرا حال ہو گا تو مجھے سمجھ میں آئے کی نا، یہ کیا چیز ہے۔ اب تو یہ میرا حال نہیں۔ میں نے کیا، حال کیا ہوتا ہے۔ کہنے لگے مجھے نہیں پتہ چل رہا بیماری کا۔ تو دوسرے دن ان کے بدن پر ویسی ہی پھنسیاں نکل آئیں، اور ان کی آرزو پوری ہوگئی۔ پھر انہیں پتہ لگا۔ یہ مرچیں کیسی لگتی ہیں۔ دیکھیں نا، آپ کا کوئیی دوست کہتا ہے کہ میرے سر میں درد ہو رہا ہے، تو آپ کو محض کتابی سا اندازاہ ہوتا ہے کہ سر درد ہے لیکن وہ جس کیفیت سے گزر رہا ہے اس کا اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ کیسا ہے۔ جب تک آدمی اس سانجھ میں داخل نہیں ہوگا تب تک وہ صاحبِ حال نہیں بنے گا۔ مجھ پر ہنستے ہیں۔ میرے بچے یہ سارے پڑھے لکھے ہیں، گھر میں بھی اور باہر بھی۔ یہ آپ کیا بات کرتے ہیں صاحبِ حال کی۔ زمانہ ترقی کر گیا ہے۔ سائنس کہیں پہنچ گئی ہے۔ کلوننگ ہو گئی۔ بھیڑ اتنی بڑی ہو گئی ہے۔ اس نے دو بچے بھی دے دئے ہیں، اور آپ ابھی تک وہیں پھنسے بیٹھے ہیں بابوں کی بات کرتے چلے جاتے ہیں۔ تو میں کہتا ہوں، کلوننگ بھلے ہوتی رہے۔ سائنس آپکی آگے بڑھتی رہے، لیکن انسان کا رشتہ قدرت کے ساتھ، اور روح کے ساتھ ایسا ہی ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی آئے گی نہیں۔
اللہ نے جو قوانین طے کر دئے ہیں جو اللہ کی سنت ہے اس کے مطابق کام چلتا رہے گا۔ بڑے بڑے معاشروں کی زندگی میں دن آتے ہیں جو وہ مناتے ہیں، وہ دن اس وقت تک نہیں منایا جا سکتا جب تک سب کی شیئرنگ نہ ہو۔ یہ نہیں کی ایک آدمی کھڑا ہو جائے اور کھڑا ہو کر کہے، جناب ہم نے یہ کام کر دیا ہے، یا توپ چلا دی ہے۔ عید آتی ہے نا، اگر صرف آپ کا ہی گھرانا عید منائے۔ بہت اچھے کپڑے پہنے، اور باقی کے لوگ اس میں شامل نہ ہوں، تو پھر وہ عید نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے اسی طرح سے کوئی اور دن آ جائے بڑا خوبصورت، ١٤ اگست کا آپ مناتے ہیں۔ بازار میں نکلتے ہیں وہاں Display ہوتی ہے۔ تو جبھی ہوتی ہے جب اس کو سارے مل کر کرتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوتا کہ ایسے دنوں کو آپ عطا کے حوالے کر دیں کہ جاؤ تم میری طرف سے دیکھ کر آؤ کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہاں آپ کو شریک ہونا پڑتا ہے۔ اب مثلاً دیکھیے اب ہمارا یہ ٢٨ مئی کا دن ہے(اس دن پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تھے)۔ کتنا بڑا دن ہے، لیکن یہ سارے کا سارا سائنس دانوں یا ٹیکنالوجیز کا دن نہیں ہے۔ پوری قوم اس میں شامل ہے۔ آپ کا، سب کا ہے۔ ان لوگوں کا بھی ہے، جنہوں نے اتنی گہری سرنگ کھودی۔ ان لوگوں کا بھی جو بڑھئی اور ترکھان، ان کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے۔ وہ ویلڈر جن کو ہم نہیں جانتے جن کو ضرورت ہوتی ہو گی، وہ بھی اس میں ساتھ برابر کے شریک ہیں۔ چلیے وہ تو وہ ہو گئے، ہم ان کو سلام کرتے ہیں۔ لیکن ہم اپنے آپ کو بھی سلام کرتے ہیں کہ ہم چودہ کڑور آدمی اس آرزو میں، اور اس دعا میں برابر کے شریک تھے، اور یہ کارنامہ ہمارا کارنامہ ہے، اور ہم اس میں چلے آ رہے ہیں۔ اچھا یہ تو ہوا ایک بہت بڑا کارنامہ، ایک بہت طاقتور کارنامہ ہے، اور جس نے پوری دنیا کو دہلا کے رکھ دیا، اور ہمارا سر فخر سے اونچا کیا۔ اس کی دھمک چاغی میں سے ہوتی ہوئی واشنگٹن ڈی سی کی اس جگہ گئی، اس مشین کے اوپر جس نے واضع طور پر بتایا کہ اس کی طاقت اتنی ہے، اور اس کا حجم ایسا ہے، اور اس کی ماہیت ایسی ہے۔ تو یہ بات طے پا گئی۔ اس میں ہم سب شریک ہیں۔ بہت بڑی طاقتور چیز جو ہو، وہی آپ کو Unite کر دے۔ بہت ہی کمزور چیز، اور بہت ہی دھیمی چیز شوال کا چاند ہوتا ہے، کبھی نظر آتا ہے کبھی نظر نہیں آتا۔ تھوڑی دیر کے لیے ہوتا ہے، اور سب دیواروں پر چڑھے، کوٹھوں پر چڑھے اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں نا۔ تو دہ کھڑے ہو کے دیکھتے ہیں، اور وہ بڑا دھیما سا ہوتا ہے، وہ بھی ہمیں تقویت عطا کرتا ہے۔ یہ شیئرنگ کی برکت ہے۔ اگر یہ سانجھ نہ ہو تو یہ کوڑی کے کام کی نہیں ہے، اور نہ رہ جاتی ہے۔ صرف عطا کرنا اور دینا ہی سب کچھ نہیں ہوتا ہے جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ پانچ ہزار روپے ہیں، دے آؤ۔ یہ اتنا ہے، سکول کو دے دو۔ یہ اس کو چندہ دے دو۔ ٹھیک ہے لیکن چندے کے ساتھ رہنے والے اور لوگ بھی ہیں، جو یہ چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ آئیں، اور ان کو دیں، ہم کو یہ تقویت حاصل ہو، اور ہم کو یہ عزت ملے کہ ہم سب مل کر یہ کام کریں۔
تو میں جو یہ عرض کر رہا تھا کہ وہ سڑک جس سے میں کبھی کبھی گزرا کرتا ہوں، وہاں جو ماسی عمری ہے، وہ مجھے بتا رہی تھی۔ چار پانچ دن ہو گئے ہیں۔ تم لوگ بڑے خوش ہو، اور تمھاری جگھیوں میں یہ بڑے بڑے ڈبے پڑے ہیں۔ تو اس نے کہا، یہ شیخ صاحب نے بیجھے ہیں۔ تو کہنے لگی، جی ان میں سوغاتیں ہوتی ہیں۔ تحفے ہوتے ہیں اور بھی خواتیں آکر اکٹھی ہو گئیں۔کہنے لگی، اللہ بھلا کرے شیخ صاحب کا، بڑے اچھے آدمی ہیں۔ پھر کہنے لگی، باباجی ہم نے کبھی شیخ صاحب کی شکل نہیں دیکھی۔ کبھی آج تک نہیں دیکھا، کون ہیں جب انشاء اللہ ہم فوت ہوں گے، اور شیخ صاحب بھی فوت ہوں گے، تو پھر وہاں جا کے ان سے ملیں گے۔ فوت ہوئے بغیر شییخ صاحب سے ملاقات نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ہم یہ آرزو لیے بیٹھے ہیں مرنے کی۔
تو یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم نہ صرف شیئر نہیں کرتے، کھانے نہیں کرتے، ہم نفسا نفسی میں کیوں مبتلا ہیں؟ آج میں آپ سے یہی پوچھنے آیا تھا، اب میں آپ سے ضرور پوچھوں گا، اس لیے کہ آپ مجھ پر آلزام دیتے ہیں کہ آپ ہی بات کیے جاتے ہیں۔ ہم زیادہ بہتر بات کرسکتے ہیں۔ یقیناً آپ زیادہ بہتر بات کر سکتے ہیں۔ یہ بتائے کہ کیا ہم لوگ عام لوگ، ساری دنیا کے لوگ، ساری دنیا کے لوگ سوچنے میں سمجھنے میں غور کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے۔
بالکل رکھتے ہیں لیکن ہم چیزوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ چیز میں مکان بھی ہے، پیسا بھی ہے، ٹی وی بھی ہے، موٹر کار بھی ہے، صرف موٹر کار نہیں، اچھی موٹر کار ہے، اس بہتر موٹر کار، ہم چیزوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ تو پھر جو جاندار کے ساتھ شیئر کرنا ہے، اس کا تصور ختم ہو گیا ہے۔
بھاگنا ہی پیدا ہو گیا، یعنی یہی تو مسئلہ ہے۔
آپ کاجو ٹیلی ویژن پروگرام ہو رہا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہی بگا رہا ہے چیزوں کے پیچھے۔ کیونکہ اس کے پروگرام جو ہیں ان پروگراموں میں جو ٹائم ہے، اس ٹائم میں سے آدھا ٹائم یہی ہوتا ہے کہ آپ فلاں چیز خریدیں۔ فلانی چیز بڑی گلیمرس، اور فلانی چیز میں آپ بڑے حسین لگیں گے۔ ان میں ٹی وی کمرشل کا بڑا ہاتھ ہے۔ دیکھیے! کیسا اچھا ٹاک شو ہو گیا ہے۔ آپ ان چیزوں کے پیچھے بھاگتے ہیں، جو آپ کی من جاہی چیزیں ہوتی ہیں، بالکل تمنا کے اتھ ساتھ چلتی ہیں۔ جن چیزوں کو آپ نہیں پسند کرتے یا جو آپ کے تفاخر میں اضافی نہیں کرتی ہیں۔ ان چیزوں کو آپ چھوڑ دیتے ہیں تو یہمسئلہ اتنا آسان نہیں ہے کہ جتنی آسانی کے ساتھ ہم نے کہا۔
مزہب سے جو دوری ہو گئی ہے روحانیت سے، بس یہ جو ہم نے چیزوں کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیا ہے۔ میرے اندر جو روح ہے نا اس کا گلا دبا دیا ہے۔
میرے ابا جی تھے، اور میرے دادا تھے۔ ان کی روح کا گلا تو نہیں دبا تھا، اب یہ کیوں دب گیا ہے۔
اس وقت ترغیب کے چانسز، اور مواقع کم تھے، میڈیا کا پھیلاؤ کم تھا۔ اس وقت تعلیم پانا ضروری تھا۔ میں جا کے ٹی وی دیکھتا ہوں، اور ٹی وی پر کسی اچھی چیز کے پراڈکٹ کا اشتہار دیکھتا ہوں، اور میرے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے، میں اس کو خریدوں۔
تو کیا لوگ سوچنے سمجھنے، غور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور کیا وہ سوچنے سمجھنے، اور غور کرنے پر اپنے آپ کو مامور کرتے ہیں؟ یہ آج کا سوال ہے۔
لوگ سوچ رہے ہیں دو طرح سے، ایک دائرے کے لوگ ہیں جو لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق سوچنے پر مائل کر رہے ہیں۔ ایک وہ دائرہ ہے، جو ان کے طابع ہو چکا ہے، اور ان کا اسیر ہے، اور جس طرف وہ پہنچانا چاہتے ہیں، اس طرح سے لوگ سوچتے چلے آ رہے ہیں۔ ام اس میں مجھے ایسا لگتا ہے جیسا کمرشلائزیشن، ضیسا منظور صاحب بات کر رہے تھے کہ چیزوں کی فیسی نیشن اس قدر ہو چکی ہے۔ ان کے اندر کشش اس قدر ہے کہ وہ مقناطیس کی طرح ہمیں کھینچ لیتی ہے، اور اس معاشرے میں جس میں ہم آج موجود ہیں، اور زندہ ہیں، اس میں مجھے لگ رہا ہے کہ ہماری کوتاہیوں کے باعث بہت ساری Negative چیزیں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ اب ہم لوٹ نہیں سکتے۔
میں لوٹ کر پھر اس طرف آؤں گا، اور بار بار ایک سکول ٹیچر کی طرح رہوں گا کہ کیا ہم سوچنے سمجھنے کی طرف مائل ہوتے ہیں یا نہیں آپ تو یہ Indicate کر رہے ہیں کہ بالکل ہم سوچتے سمجھتے نہیں ہیں جیسی بنی بنائی چیزیں ہمیں دی جاتی ہیں، ان کے پیچھے بھاگتے ہیں۔
میں ن ے عرض کیا اس میں دو طرح کے لوگ ہیں
بات بالکل آپ کی سمجھ میں آ گئی ہے کہ ایک بندہ تو آپ کو بگاتا ہے، اب آپ، اور باقی نوے ننانوے فیصد لوگ اس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، تو وہ نہیں سوچتےہیں، تو پھر وہ ایک فیصد والا بھی نہیں سوچتا ہے۔ کیونکہ وہ تو غرض مند آدمی ہے۔ وہ سوچ والا آدمی نہیں ہے۔ اس کو ایک چاھت ہے۔ غرض کا بندہ ہے۔ ڈاکٹر عاصم کا میں زکر کر رہا تھا، سائیکالوجسٹ کا۔ وہ کہتا ہے کہ کچھ لوگ سوچنے سمجھنے کی آرزو نہیں رکھتے۔ بیشتر وقت شطرنج کھیلنے میں، تاش کھیلنے میں گزارنا پسند کرتے ہیں۔ کچھ لوگ گاڑی لے کر کھومنا شروع کرتے ہیں، اسّی نوے میب بلا مقصد کھوم جاتے ہیں، اسی بلا مقصدیت کے اندر انسان جو ہے، وہ اپنے آپ کو گم کرتا چلا جا رہا ہے، میں آپ کو یہ ایک لمحہ فکریہ دے کر جا رہا ہوں کہ اب آپ نے کل کیا کرنا ہے۔ کیا اپنی سوچ کو لے کر چلنا ہے، یا بنی بنائی سوچ کے انتظار میں صبح آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ کے دروازے پر سے سوچ کو اٹھانا ہے، جیسی کہ آپ کو فیڈ کر دی گئی ہے، اور اس کو حرزِ جان بنا لینا ہے۔ اللہ آپ کو خوش رکھے اور اللہ آپ کو بہت آسانیاں عطا فرمائے، اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 
موت کی حقیقت


جب آدمی کے وجود پر بہت سال کی بڑی دھول جم جاتی ہے تو پھر وہ اپنے اردگرد اپنے ماحول میں سے ایسی چیزیں تلاش کرنے لگ جاتا ہے جو بڑی گرد آلود ہوچکی ہوتی ہیں، اور اس کی یہ آرزو ہوتی ہےکہ یہ چیزیں صاف ستھری ہوکے پھر سے ترتیب سے رکھی جائیں۔لیکن میرا وجود اتنا صاف ستھرا ہو کے دیسی ترتیب سے نہیں رہ سکتا ۔ کچھ ایسا ہی میرے ساتھ پرسوں ہوا ۔ میں اپنی پرانی کتابوں کی الماری کو صاف کر رہا تھا ، تو اس میں سے ایک کتاب بڑے پیارے محبوب دوست، اور اس سے بڑےشاعر کی نکل آئی اور میں اسے دیکھنے لگا، اور ماضی کے کافی دور پہنچ کر ان حالات میں بھی پہنچا جو ماضی سے بعید تر تھے ۔ اس میں ایک چھوٹی سی پرچی پر ایک چھوٹی سی نظم میں نے لکھ کر رکھی تھی ۔ یہ نظم ہمیں اپنے زمانے میں بہت ہی پیاری،اور بہت ہی اچھی لگا کرتی تھی، اور ہم اس کو لہک لہک کر، اور چہک چہک کر پڑھا کرتے تھےلیکن اب بالکل ہمارے ذہن سے یہ چیز نکل چکی تھی۔ اس پر وقت کی دھول جم چکی تھی ۔

خواتین و حضرات ! جب کوئی رخصت ہوجاتا ہے آپ کے درمیان میں سے، اور موت اس کے ساتھ رشتہ گانٹھ لیتی ہے تو پھر آدمی سوچنے لگتا ہے کہ یہ موت کا جو وجود ہے، اس کا تعلق عدم کے ساتھ ہے یا موجود کے ساتھ ۔ آدمی تو گزر گیا، چلا گیا، لیکن اپنی یادیں چھوڑ جاتا ہے، اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ زندگی میں اتنا کچھ نہیں تھا چلے جانے کے بعد جتنا کچھ ہوگیا۔ میں سوچتا رہا کہ موت بھی زندگی کا ، ایک روپے کا دوسرا رخ ہی تو ہے، لیکن یہ بڑی اہم بات ہے،اور بڑی دلچسپ ہے، اور اس کے ساتھ ایک گہرا رشتہ رکھنا بہت ضروری ہے ۔ تو مجھے یاد آیا، کتابوں کی الماری صاف کر چکنے کے بعداور اس دوست کاذکر کتاب میں پڑھنے کے بعداس کی شاعری دیکھنے کے بعد، جو کہ اب ہم میں نہیں ہے۔ ہمارے یہاں پر، ہمارے مشرق میں، موت کے بارے میں بہت عجیب و غریب روایات اور بہت ہی عجیب و غریب قصے، اور بہت عجیب و غریب روئیے ہیں ۔ میرے چچا جہلم میں تھے ٹمبر مرچنٹ۔ ان کے دوست کاایک جواں سال بیٹا کسی وجہ سے فوت ہوگیا ۔ اکیلا ہی اس کا بیٹا تھا، اور وہ بڑا صوفی آدمی تھا ۔ میرے چچا کے دوست اپنے زمانے میں نائب تحصیل دار رہے تھے لیکن بے حد ایماندار، اور بہت Honest اور راست گو انسان تھے ۔ کسی وجہ سے میرے چچا نے یہ عرض کیا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ انہوں نے اپنے نمائندے کے طور پر مجھے بھیجا اور کہنا کہ میں جونہی ٹھیک ہوا اور میری صحت بحال ہوئی، میں خود حاضری دوں گا ۔ جب میں وہاں گیا تو بہت سے لوگ جمع تھے اور وہ چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ میں جب ان کے قریب پہنچا تو انہوں نے پہچانا ۔ اور مجھے کہنے لگے اشفاق میاں دیکھو ہم جیت گئے اور سب دنیا ہار گئی، ہم کامیاب ہوگئے اور باقی کے سب لوگ بڑے بڑے ڈاکٹر، بڑے حکیم اور بڑے بڑے نامی گرامی طبیب ہار گئے۔ میں پریشان کھڑا تھا ان کے سامنے کہ یہ کیا بات کہ رہے ہیں ۔ کہنے لگے، دیکھئے ہمارا یار جیت گیا،اور سارے ڈاکٹر فیل ہوگئے۔ ہم ایک طرف تھے اور یہ لوگ سارے ایک طرف تھے وہی ہوا جو ہمارے یار نے چاہا، اور جو اس نے چاہا تھا وہی ہم نے چاہا۔

میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ۔ ایک اکلوتا اس کا بیٹا، جواں سال، اور بار بار یہی بات کہ رہا ہے۔ کچھ وقت ایسی کیفیت درد کی ، اور کرب ، اور الم کی بھی بن سکتی ہے۔ لیکن یہ انداز بتاتا تھا کہ وہ یہ بات اندر سے کہ رہے ہیں اور اس کے اوپر ان کا پورا ایمان ہے، اور وہ ہل نہیں رہے ہیں اس مقام سے۔ اور کہتے تھے جو اللہ نے کیا ہے وہی درست ۔ اور وہی ٹھیک ہوگا جو اللہ کرے گا ۔ اور چونکہ ہم اللہ کی سائیڈ کے ہیں اس لیئے جس اللہ کامیاب ہوتا ہے اور وہ ہربار کامیاب ہی ہوتا ہے، تو ہم کامیاب ہو گئے ہیں ۔ یہ میرے لیئے ایک عجیب بات تھی۔ میں اس وقت ایف اے کر چکا تھا لیکن نہ میرے پاس الفاض تھے ، نہ میں بڑے سلیقے سے ان کے ساتھ افسوس کر سکتا تھا جس کے لیئے مجھے بھیجا گیا تھا ۔ افسوس کے لیئے میں چپ چاپ کھڑا رہا ۔ انہوں نے چائے پلائی ، کھانا وہاں کھانا کھلانے کا رواج تھا ۔ اگلے دن واپس آئے ۔ میں نے آکر ساری بات چچا سے کہی۔انہوں نے کہا کہ وہ بہت مضبوط اور اللہ کو ماننے والے شخص ہیں۔

اس کے بعد پھر کچھ عرصے بعد جب میں تعلیم سے فارغ ہو چکا تھا اور میں نے ابھی کوئی ملازمت نہیں کی تھی تو مجھے سالٹ رینج میں جانے کا اتفاق ہوا ۔ یہ جو ہے نا کوہستان نمک تو یہاں پر ایک مقام تھا پہاڑوں کے اندر ۔ اب تو ماشاء اللہ راستہ بہت آسان ہو گیا ہے نا، موٹر وے کی وجہ سے، اس وقت بہت مشکل سے یہاں پہنچتے تھے۔ جب ہم تلہ گنگ پہنچے تو ایک بزرگ تھے ملک صاحب، ان کا بھی اسی طرح بیٹا فوت ہوا تھا، اور ان کے پاس لوگ افسوس کرنے کے لیئے آرہے ہیں ۔ وہ بیٹھے تھے آرام سے ایک مقام پر، اور لوگ گھوڑوں پر، پیدل، ایک دو اونٹ پر بھی وہاں آرہے تھے۔ بہت رئیس تھے اس علاقے کے ۔ جو آدمی بھی، جہاں پر ملک صاحب بیٹھے تھے اس دائرے کے قریب پہنچتا تھا وہ اپنے گھوڑے کی باگ یا شتر کی مہار چھوڑ کر پیدل چلتا ہوا رکتا تھا ، اور ہاتھ اونچے کرکے ایک آواز لگاتا تھا ۔ “ملک صاحب حق ہویا“ یعنی جو کچھ بھی ہوا ، یہ حق ہوا، میں اس سے آگے بول نہیں سکا ۔ پھر وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگتے تھے ۔ یہ بھی پرسا دینے کا ایک انداز تھا، لیکن وہ کہتے اونچی آواز میں ۔ اب بھی یہ رسم ہے کہ جب کوئی فوتیدگی ہوتی ہے تو وہ آنے والے پرسا دینے والے لوگ بہت اونچی آواز میں کہتے ہیں کہ ملک صاحب حق ہویا اور وہ جواب میں یہ کہتا ہے کہ بالکل ٹھیک ہے جو کچھ ہوا حق ہوا ۔ یہ بڑی مشکل بات ہے ۔ اس کو اندر سے نکال کر کہنا ۔ وہاں عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں ۔ بڑا جمع غفیر تھا، اور عورتوں کے دل بڑے نازک ہوتے ہیں، روتی ہوئی آتی تھیں ۔ لیکن وہ بھی ساری ہاتھ کی انگلیاں ہلا کر کہتی تھیں بی بی حق ہوا ، اور وہ ماں جوتھی اس بیٹے کی وہ بھی کہتی تھی ، ہاں ہوا، میں اس کو تسلیم کرتی ہوں ۔ جو کچھ بھی ہوا حق ہوا، تو موت کو زندگی کے ساتھ اس طرح سے وابستہ کرنا، اور اس کو زندگی کی ایک بُنت میں عجیب طریقے سے لانا، یہ کچھ ان لوگوں کا کام ہے جو اللہ کی ذات پر پورا کا پورا اعتماد رکھتے ہیں، اور ان کا ایمان جوہے وہ بڑا مضبوط ہوتا ہے ۔ تو میں اکثر سوچتا تھا اور میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ زندگی کو protect کرنے کے لیئے اس کی حفاظت کرنے کے لیئے موت جو ہے، یہ بڑی اہم اور بڑی ضروری چیز ہے، اور اس کا ہم پر بڑا احسان ہے۔ وہ جو ایک Red Indian تھے شامان جسے کہتے ہیں۔ سیانا آدمی۔ تو اس کے پاس کیلی فورنیا کا ایک طالب علم آگیا۔ اینتھروپالوجی کا پوچھنے کے لیئے۔ اس نے کئے باتیں اس سے پوچھیں۔ جڑی بوٹیوں کے بارے میں۔ تو اس نے کہا کہ ڈان جوآن ،(سیانے کا نام ڈان جوآن تھا)۔ اس کی اصلی رپورٹ میں نام شاید کچھ اور ہو۔ تو اس نے کہا، ڈان جوآن بات یہ ہے کہ زندگی میں بہت سارے مشکل سوالات سامنے آجاتے ہیں، ان کو کیسے حل کیا جائے۔ اس نے کہا کہ مشکل سوال تو آنے ہی نہیں چاہیئں۔ سوال تو تم خود بنا کر اس میں خود کو پھنسا لیتے ہو ۔ سوال کوئی چیز نہیں ہے، لیکن یہ زور دینے لگا کہ صاحب ہم شہر میں رہتے ہیں ۔ آپ کو کیا پتہ ہے۔ خیر ان کا کچھ جھگڑا شروع ہوگیا۔ وہ کہنے لگا ، دیکھیں میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ میری ایک منگیتر ہے۔ میری اس سے کئی سالوں سے منگنی چل رہی ہے۔ اب ایک اور لڑکی ہمارے درمیان میں آگئی ہے۔ مجھے اپنی منگیتر بھی اچھی لگتی ہے، وہ بھی اچھی لگتی ہے۔ میں اس کا حل کیا کروں؟ میرے پاس اس کا کوئی حل نکلتا نہیں ہے، اور میں بڑا اچھا آدمی ہوں۔ میری منگیتر بہت اچھی خاتون ہے، اور وہ لڑکی بہت اچھی ہے۔ ڈان جوآن نے کہا، بھئی اگر اتنی مشکل پیش آجائے تو پھر آپ اپنی موت سے پوچھ لیا کریں۔ ہر آدمی کے ساتھ بائیں ہاتھ پر پانچ فٹ کے فاصلے پر اسکی موت چلتی ہے ۔ ہر وقت ساتھ رہتی ہے تو اس کو کہو، اے موت تو اب بتا اب کیا کریں؟ تو اس نے کہا، کیا وہ جواب دیتی ہے ۔ اس نے کہا ہاں پہلے تو آپ کو احساس کے ذریعے سے پتا چلے گا۔ پھر جوں جوں آپ کے ساتھ رابطہ گہرا ہو جائے گا، تو وہ بات بھی کرے گی آپ کے ساتھ، آواز بھی آئے گی ۔ تو وہ بڑا حیران ہوا کہ یہ کیسے موت اس کے ساتھ بات کرتی ہے۔ خدانخواستہ کسی کی موت پیچھے رہ جائے ۔ کہیں اچھرے میں ، انارکلی میں اور آدمی آگے نکل جائے اور ایکسیڈنٹ ہوجائے تو وہ چیخیں مارے گا کہ میرا کوئی بندوبست کرو۔ بہت اچھی بات ہے۔ Logical وہ کہتا ہے کہ پھر ان کی بات آہستہ آہستہ سمجھ میں آنےلگی تو زندگی کے بارے میں نہ عرض کر رہا تھا کہ اس بُنت اس طرح سے آتی ہے۔

میری ایک بھانجی تھی بڑی دیر کی بات ہے۔ اس کو اپنے دادا سے بڑا پیار تھا۔ ہوتا ہے پوتیوں کو اپنے دادا سے پیار تو، دادا اس کے سیر کرنے جاتے تھے۔ اچانک فوت ہوگئے، تو اس کو بڑا صدمہ ہوا۔ اکیلی بیٹھی رہتی تھی۔ ذرا زیادہ ہی پریشان رہتی تھی ، تو ایک دن اس کے گھر کی ملازمہ نے کہا “ منی تیرا دادا کہاں گیا“ ۔ اس نے کہا میرے دادا روز صبح سیر کو جاتے تھے تو میرے دادا اور اللہ میاں اکٹھے سیر کیا کرتے تھے۔ بہت لمبا چکر لگایا تو میرے دادا تھک گئے، تو اللہ میاں نے کہا، اب تم واپس کدھر جاؤ گے۔ تم میرے گھر میں ہی رہ لو۔ ریسٹ کرلو تو میرے دادا وہاں ریسٹ کر رہے ہیں ۔ تو اللہ ان کے بڑے دوست ہیں ۔ اتنی گہری بات اس نے کہی ، بڑی عجیب و غریب بات کردی، تو یہ مشرق کے لوگ بات کرتے ہوئے مانتے ہیں کہ موت زندگی کا ایک اہم ترین حصہ ہے ۔

میں ١٩٤٨ء میں پڑھتا تھا گورنمنٹ کالج میں ۔ پاکستان نیا نیا بنا تھا، اور قائد اعظم ابھی زندہ تھے تو کالج میں ممتاز مفتی آیا۔ سائیکل ہاتھ میں پکرے ہوئے تو مجھے کلاس سے باہر بلا کر کہنے لگا، تم فارغ ہو؟ میں نے کہا، کالج سے فارغ ہونا کوئی ایسی بات نہیں ۔ اس نے کہا ذرا چلتے ہیں۔ میں آیا ہوں پنڈی سے کہ مجھے خبر لینی ہے ایک بزرگ کی ۔ ان کی طبیعت خراب ہے ۔ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں ۔ میں نے کہا چلو ہم اکٹھے چلتے ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے ہم کرشن نگر میں گئے ۔ وہاں ایک جگہ تھی “لولی لاج“۔ پرانی وضع کے گھر تھے تو اس کے اندر گئے ۔ ایک ذرا سے تاریک کمرے میں ایک بزرگ ایک پرانی وضع کے پلنگ کے اوپر لیٹے ہوئے تھے جس میں شیشہ وغیرہ لگا ہوتا تھا۔ وہ بزرگ کافی تکلیف میں نظر آتے تھے۔ ان کی چارپائی یا پلنگ کے گرد ان نے دوست بیٹھے ہوئے تھے ، جو مسجد میں دوست بن جاتے ہیں ۔ زندگی میں ایک تو آپ کے دوست وہ ہوتے ہیں، جو آج کل ہیں ۔ ایک وہ جب آپ ریٹائرڈ ہوں گے تو پھر آپ دور ہوجائیں گے ان قریبی دوستوں سے تو اس وقت ہمارے سیانے یہ رائے دیتے ہیں کہ جب آپ ریٹائرڈ ہوجائیں تو کم از کم اس وقت مسجد میں جانا شروع کردیں اور وہ ایسا قیمتی مقام ہوتا ہے کہ آپ کی نئی Friendshipڈویلپ ہوتیہے جو اس سے پہلے کبھی بھی نہیں ہوئی تھی ۔ ٹھیک ہے نا نئی دوستی پیدا کریں اور نئی دوستی کا پیدا ہونا بڑی تقویت کا باعث ہوتا ہے ۔ خیر وہ دوست تھے۔ سامنے ان کی بہو اور بیٹا کھڑے تھے۔ بہو بڑی زاروقطار رو رہی تھی۔ تو ممتاز مفتی نے جاکر کہا میں ممتاز ہوں ۔ انہوں نے کہا ہاں ہاں میں نے پہچانا ہے۔ ممتاز مفتی کہنے لگے، آپ کی طبیعت کیسی ہے۔ کہنے لگے، میرے گردوں نے کام بند کر دیا ہے۔ یہ مکمل طور پر فیل ہوگئے ہیں، اور میرا لیور جو تھا، اس کا ایک چوتھائی حصہ کام کرتا تھا، اب وہ بھی کام نہیں کرتا اور سانس جو ہے میری وہ ٹھیک ہے۔ ہاں دل بھی ٹھیک ہے۔ لنگز کے اندر جو ریشہ ہے وہ منجمد ہوتا جارہا ہے۔ ازروئے شریعت (مجھے لفظ ان کے یاد ہیں) یہ حکم ہے کہ جو کوئی تم سے احوال پوچھے تو جزئیات کے ساتھ بیان کردو۔ یہ میں نے جزئیات کے ساتھ آپ کو بیان کردیا ۔ ویسے میری کیفیت اللہ کے فضل سے بہت اچھی ہے۔ واقعی میں ٹھیک ہوں ، جو کچھ گزر رہا ہے، میں اس پر راضی ہوں، لیکن چونکہ حکم ہے بتادو تو میں نے بیان کردیا۔ تو وہ بہو جو کھڑی تھی ۔ بے چاری نرم دل لڑکی وہ رونے لگی۔ وہ کہنے لگے تم گھبرایا مت کرو۔ میں ٹھیک ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں ینگ تھا اس وقت Sixth Year میں پڑھتا تھا۔ مجھے بہت گھبراہٹ طاری ہوئی۔ ایک آدمی کو اس طرح سے لیٹے ہوئے دیکھ کر اور اس کو جاتے ہوئے دیکھ کر ۔ ۔ ۔ باقی لوگ جو تھے حوصلہ مند لوگ تھے ۔ وہ کہنے لگے نہیں شیخ صاحب! انشاء اللہ تعالیٰ آپ ٹھیک ہوں گے ۔ کہنے لگے ہاں کیوں نہیں مہں ٹھیک ہوں۔ پھر انہوں نے ذرا سا اونچے ہوکر وہ جو ڈھو ہوتی ہے اس کا سہارا لے کر کارنس کے اوپر رکھی ہوئی اپنی پگڑی ، کلاہ کو ہاتھ سے اٹھا لیا، اور اٹھا کر اس پگڑ کو سر پر رکھ لیا، بڑی اچھی وہ پگڑی باندھی ہوئی تھی سرپر رکھ کر بیٹھ گئے، اور سب کو ایسے دیکھنے لگے تو میں بھی کھڑا تھا ۔ ممتاز مفتی کی طرف ہاتھ بڑھا کے کہنے لگے، اچھا جی السلام علیکم ، السلام علیکم۔ سب سے ہاتھ ملایا۔ دوستوں سے میں بھی شامل تھا ان میں ۔ تو کہا، اچھا جی صاحبزادے السلام علیکم، اور پھر ڈھو لگائی ، اور پگڑی بندھی ہوئی، ویسے کے ویسے آنکھیں بند کر لیں اور خوشی کے ساتھ برضائے ذات چلے گئے ۔ بالکل کوئی جھگڑا نہیں ، کوئی کچھ نہیں۔ تو چونکہ میں متجسس Cureous تھا، نوجوان تھا۔ میں نے کہا یہ پگڑی ان کی ایسے پھنسی ہوئی ہے۔ اتار دیں تو ان کے جو دوست تھے کہنے لگے ، نہیں نہیں۔ میں نے کہا، جی یہ پگڑی مجھے سمجھ نہیں آئی ۔ کہنے لگے، یہ موت کی تقدیس کے طور پر اس کی عزت افزائی کے لیئے، ننگے سر برا لگتا ہے۔ اب وہ آرہی ہے تو اچھا نہیں لگتا ، اس لیئے مشکل سے اٹھا کر انہوں نے سر پر لے لی ہے۔ یہ ساری باتیں ہو چکیں، تو اب جہاں سے بات چلی، وہ میں آپ سے عرض کروں کہ وہ معروف نظم آپ بھی جانتے ہیں ہم بھی جانتے ہیں، یہ جو ہم اور آپ سب پڑھا کرتے تھے کہ:
“تاج تیرے لیئے ایک مظہر الفت میں سہی، تجھ کو اس وادی رنگین سے عقیدت ہے ۔ میرے محبوب کہیں اور ملا کر مجھ کو ۔ ۔ ۔ یہ تو تاج محل میں ہمیں مل لیتی ہے۔ یہ تو نہیں ہے وہ مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا۔ یہ چمن زار، یہ جمنا کا کنارا یہ محل، یہ منعکس درودیوار، یہ محراب یہ طاق“ (جب تک تو ہمیں زبانی یاد آئی، آج بھول گئی) اک شہشاہ نے دولت کا سہارا لے کر ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق، میرے محبوب کہیں اور ملا کر مجھ کو۔ تو صفائی کرتے ہوئے یہ نظم پڑھتے ہوئے، جو میں نے آج سے ٤٠ -٤٥ سال پہلے پڑھی۔ ہم سب نے پڑھی تھی کہ یہ خیال آیا کہ وہ شہنشاہ جو یہاں سے چلا گیا، اور جس نے اپنی محبت کا Symbol ایک خوبصورت سفید پتھر میں محفوظ کر دیا۔ اپنے طور پر، وہ بھی ایک انسان تھا۔ شاعر بھی انسان ہوتا ہے۔ دانش ور بھی انسان ہوتا ہے۔ شاعر نے اس کو اپنے ایک اور اینگل(زاویہ) سے دیکھا اور بادشاہ نے لاشعوری طور پر ایک اور روپ سے دیکھا، اور پرسوں مجھے خیال آیا الماری صاف کرتے ہوئے کہ شاعر جن غریبوں سے محبت کرتا ہے اور جن کا ساتھ دیتا ہے۔ وہ انہیں سوائے اس نظم کے کچھ نہیں دے سکا، اور شہنشاہ جو فوت ہوگیا ہے، اور جو بادشاہ ہے، اور جو Symbol اچھا نہیں کہلاتا ہے ، وہ اس وقت ہندوستان کو پونے دو ارب ڈالر سالانہ دیتا ہے اور آگرے کے ساڑھے تیرہ ہزار گھرانے تاج محل کی وجہ سے اپنی اعلی درجے کی روٹی کھاتے ہیں۔ جن میں فوٹو گرافر بھی ہیں۔ سنگتراش بھی ہیں، نقاش بھی ہیں۔ پیتل کے وہ برتن جن کے اوپر تصویریں بنی ہوئی ہوتی ہیں ، وہ بھی بناتے ہیں، تو آج ایک اور اینگل سے مجھے یہ بات یاد آئی کہ ہم شاعر، دانش ور اپنی جذباتی کیفیت میں ہر ایک بات کرتے چلے جاتے ہیں، اور ہندوستان کو بڑا ناز ہے اپنی فلم انڈسٹری پر، یہ اس کے لیئے فارن ایکسچینج مہیا کرتا ہے، ہرسال آپ نظم لکھ سکتے ہیں کہ جذباتی بہت اچھی ہوتی ہے۔ میں وہ نہیں کہتا۔ میں اپنے ایک نئے رخ این نئے زاویے کی بات عرض کر رہا ہوں۔ غریبوں کو اتنا پیسہ مل رہا ہے، وہاں پر ، اور آگرے اور اس کے گردونواح کے لوگ اتنے مزے سے ایک تاج محل کی وجہ سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سینکڑوں سالوں وہ ایک صدقہء جاریہ ہے جو اس بندے نے سچ مچ محبت کرنے والے نے ، سچ مچ ایک شخص سے محبت کرنے والے ۔ وہ اس کی بیوی ہو، کچھ ہو، اس کے جواز سے اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت عطا کی ۔ جس سے کئی غریبوں کی کفالت ہو رہی ہے۔

آپ کے لیئے بھی سوچنے والی بات ہے۔ چلا میں کہاں سے تھا اور پہنچ کہاں گیا۔ یہ بڑی عجیب و غریب چیزیں ہوتی ہیں۔ بڑی مہربانی آپ تشریف لائے۔ میں تو اپنی الماری صاف کرتا ہوا، ایک یاد لے کر آگیا۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ ۔
 

ماوراء

محفلین
دعا

دعا

میں سوچتا ہوں کہ آپ لوگ بھی میری طرح کے ہی ہوں گے، کیونکہ جو کوتاہیاں خامیاں مجھ میں سراٹھاتی ہیں، ان مشکلات سے آپ بھی گزرتے ہوں گے، آپ بھی تو میرے ہی بھائی بہن ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ میں کئی بار اس کا اعتراف کر لیتاہوں، مثلاً میں یہ سوچا کرتا ہوں اور میری یہ ایک مشکل ہے کہ جب کبھی کوئی سڑک چوراہا کراس کرتا ہوں تو مجھے سرخ بتی ہی کیوں ملتی ہے۔ میں جب بھی گزرا ہوں، مجھے سرخ بتی ہی ملتی ہے۔ یہ پتا نہیں میری قسمت ہے۔ اچھا چلیے مل گئی، میں وہاں کھڑا ہو گیا، پھر یہ کیوں ہوتا ہے کہ سرخ بتی کا لمحہ جو ہے وہ آدھے گھنٹے پر محیط ہوتا ہے، سبز جو ہوتی ہے وہ دس سیکنڈ میں بدل جاتی ہے، بڑا دکھ ہوتا مجھے، کہ یا اللہ یہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور اس میں میں بہت پریشان ہوتا ہوں کہ کیوں یہ ہوتا ہے۔
میں پرانے زمانے کا آدمی ہوں، جب میں نئے زمانے کا آدمی نہیں تھا تو میں لال صابن سے نہاتا تھا، ہمیشہ۔ اب بھی لال صابن سے نہاتا ہوں، تو میری بہو جو ہے وہ بہت چڑتی ہیں اور وہ شرمندہ ہوتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ماموں یہ آپ خدا کے واسطے چھوڑیں لال صابن نہانے کے لیے نہیں ہوتا۔ تو میں نے کہا، بھئی ہم ایک زمانے سے یہی کرتے چلے آرہے ہیں۔ وہ کہتی، دیکھیں میں آپ کو اچھے والا صابن دے رہی ہوں، اس سے نہائیں، وہ صابن ہوتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے کہ “ ایکڑسوں کے حسن کا راز اس صابن میں ہے“ کچھ اس قسم کی چیز ہوتا ہے اور بہت اچھا خوب خوشبودار اعلٰی درجے کا ہوتا ہے، تو میں اس سے جب نہاتا ہوں، خاص طور پر اپنے پیارے لال صابن سے بھی تو خواتین و حضرات یہ کیوں ہوتا ہے کہ نہاتے وقت جب صابن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے تو وہ غسل خانے کے آخری کونے میں ہی کیوں جاتا ہے۔ پاؤں کے پاس کیوں نہیں گرتا، میں پھر منہ کو صابن لگا ہوا ہوتا ہے اور میں اس کو تلاش کرتا کرتا بڑی مشکل سے وہاں پہنچتا ہوں، اور پھر نہاتا ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صابن گرے قدموں میں گھٹنوں کے پاس آ کر ٹخنوں کے درمیان کھڑا ہو جائے۔ میں آرام سے پکڑوں اور نہانا شروع کر دوں، لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ یہ مشکلات ہیں میری۔ مثلاً میری بیوی مجھ سے کہتی ہے کہ آپ جائیں، یہ بہت ضروری فارم ہے، یہ آپ بینک میں خود جمع کروا کے آئیں۔ پچھلے دنوں جب میٹرککے امتحان تھے نا کسی ملازم کا بچہ وہ میٹرک کا امتحان دے رہا تھا، وہ باہر سے آئے ہوتے تھے، تو اس نے (میری بیوی) کہا کہ جی آپ کروا کے آئیں۔ آپ کا بھی تجربہ ہو گا، اور مجھے یقین ہے کہ آپ بھی اس مشکل مرحلے سے گشرے ہوں گے، اور گزرتے ہوں گے۔ جب آپ بینک میں جاتے ہیں تو بعض اوقات بینک منیجر دباؤ زیادہ ہونے کی وجہ سے دو قطاریں لگا دیتا ہے، تاکہ جلدی جلدی کام ختم ہو۔ ڈاکٹر صاحب! اکثر یہ ہوتا ہے، میں جس قطار میں کھڑا ہوں وہ آہستہ چل رہی ہے، اور وہ جو دوسری ہے تیز چل رہی ہے، بڑا دکھ ہوتا ہے مجھے۔ میں ایک غریب آدمی ہوں مفلوک الحال، اس ملک کا، یہ کیوں سست والی رو چھوڑ کے تیز والی میں چلا جاتا ہوں، یوں میں وہاں پہنچتا ہوں تو وہ سست چلنے لگ جاتی ہے، وہ دوسری والی جس کو میں نے چھوڑا تھا وہ تیز چلتی ہے۔ تو زندگی کے اس پیچ و خم سے مجھے بڑی شکایات رہتی ہیں اور میں چھگڑتا بھی رہتا ہوں، لیکن ہوتا یہی ہے، پھر جب میں شام کو تھک ہار کے واپس آتا ہوں، تو پھر میں شکوہ شکایت نہیں کرتا، کیونکہ یہ ہوتا ہے تو سب کے ساتھ ہوتا ہے، یا میرا وژن ایسا ہے یا مجھے یوں لگتا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ دنیا کے سارے پہاڑ مجھی پر ٹوٹے ہیں، یہ سرخ بتی مجھی کو ملتی ہے، میرا ہی صابن پھسل کر کونے میں جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس میں ایک تکلیف دہ بات جہاں میں پہنچنا چاہتا تھا، وہ یہ ہے کہ یہ جو دعا ہوتی ہے نا جب ہم دعا مانگتے ہیں، اس کے مانگنے کے وقت اور اس کے مانگنے کے طریق کو اپناتے ہوئے مجھے بڑی خوشی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جب بھی پڑتا ہے اب بھی پڑتا ہوں۔ مثلاً یہ کہ کبھی کبھی نماز پڑھنے کے بعد جب میں التحیات پر پہنچتا ہوں تو میری جان آفت میں پڑ جاتی ہے، پھر میں کھٹا کھٹ اس کو ختم کر کے، اور سلام پھیرنے کی کرتا ہوں، اور جب میں سلام پھیرتا ہوں! تو پھر آگے آتا ہوں دعا کا مرحلہ تو دعا کے مرحلے میں ربنا اتنا فی الدنیا حسنتاو فی الآخرۃ حسنتا وقنا عذاب النار کر کے بھاگتا ہوں تو اس کا کنکشن جو ہے، جس کے حضور میں دعا سپیشل کی جاتی ہے، جڑتا نہیں۔ پتا نہیں کیوں دعا مانگتے وقت مجھ پر یہ کیا کیفیت طاری ہوتی ہے کہ میں اس سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہوں، حلانکہ دعا تو بنی اس لیے ہے کہ آپ اپنی عرضداشت لے کر جائیں تھالی میں رکھ کے، روتے ہوئے منہ بسورتے ہوئے، اور جو وہاں ایک بالکل جس کو کہتے ہیں نا “پچھے“ پڑ کے، بس وہیں کے ہور ہیں، اور اس سے کہیں یا اللہ اس کو منظور کر نہیں تو میں نے واپس گھر نہیں جانا۔ یہ کیوں ہوتا ہے کہ جو چیز منتہائے مقصود ہوتی ہے۔
ساری عبادت کی، وہاں پر آ کر ہم رک جاتے ہیں۔ میری خیال میں، اوروں کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہو گا، کیونکہ میں نے عرض کیا کہ بہن بھائیوں کا رشتہ بڑا قریبی رشتہ ہوتا ہے۔ اب یہ بھی ایک مسئلہ رہا میری زندگی میں کہ دعا کو کس طرح سے اپنایا جائے، اور کس طرح سے اس کو اپنی آغوش میں لیا جائے، گرفت کو مضبوط کیا جائے، لیکن یہ فن ہمیں کسی نے سکھایا نہیں، ہمارے بڑوں نے ٹھیک طرح سے بتایا نہیں۔ یہ ڈھونڈنا پڑتا ہے خود ہی۔ اب جب دعا اتنی تیزی سے مانگی بھی جاتی ہے تو پھر اس میں دوسری کوتاہی یہ پیدا ہو جاتی ہے کہ ہم اکثرو بیشتر یہ شکایت کرنے لگتے ہیں کہ بڑی دعائیں مانگیں، بہت وہاں ایڑیاں رگڑیں کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ اللہ ہماری دعا تو قبول ہی نہیں کرتا۔ پہلی بات تو میں یہ سمجھ کر کرتا ہوں کہ جو دعا میری طرف سے مانگی گئی ہے وہ تو پہنچی ہی نہیں۔ جو تار ہے کھٹ کھٹ والا وہ تو پورا گیا ہی نہیں، وہاں جلدی سے ہم نے کر دیا تو اب جب تک کیمونی کیشن نہیں ہو گی، تو بڑی مشکل بات ہو گی، پھر کیسے ہمارے درمیان رابطہ قائم ہو گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ قبول کیوں نہیں ہوتیں دعائیں۔ یہ مسئلہ بڑا پیچیدہ ہے۔ آدمی اکثر سوچتا ہے، دعائیں بڑی خلوصِ نیت کے ساتھ مانگی جاتی ہیں، اور بڑی درد مندی کے ساتھ مانگی جاتی ہیں، تو قبول کیوں نہیں ہوتیں۔ تو میں جسے اکثر ذکر کیا کرتا ہوں اپنے پروفیسر انگارتی جو پروفیسر تھے اٹالین کے اور ملک الشعرا بھی تھے ہم مشکل باتیں ان سے پوچھا کرتے تھے۔ ان کا مذہب ہی اور تھا اور زبان بھی اور تھی، لیکن وہ اتنے بڑے استاد تھے کہ ہم سارے یونیورسٹی کے پروفیسر کھڑے ہو جاتے تھے ان کے احترام میں، جب بھی تشریف لاتے تھے۔ خود زیادہ وہ پڑھے لکھے نہیں تھے، لیکن ان کی دانش کی وسعت ایسی تھی کہ اس کی آغوش میں ساری چیزیں، سارے مشکل سوالوں کے حل موجود ہوتے تھے۔ تو میں نے پروفیسر انگارتی سے پوچھا کہ سر مجھے آپ یہ بتائیں دعا کے بارے میں کہ یہ دعا قبول کیوں نہیں ہوتی، اور آدمی دھکے کیوں کھاتا پھرتا ہے۔ بچپن، اور جوانی پروفیسر انگارتی کی سکندریہ میں گزری تھی، مصر کی بندرگاہ جو ہے۔ ان کے والد کا وہاں پر ایک چھوٹا سا سٹور تھا گروسری کا۔ یہ وہاں پڑھتے تھے، اور ظاہر ہے جب بچہ وہاں بڑھا پلا، تو وہ عربی زبان پر بھی حاوی تھے، بہت اچھی طرح سے جانتے تھے، اور اٹالین ان کی مادری زبان تھی جس میں وہ شاعری کرتے تھے۔ تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ اشفاق بات یہ ہے کہ میں اس معاملے میں بہت تخصیصی اندازِ فکر رکھتا ہوں، کیونکہ میں نے دعا کے بارے میں بہت غور کیا ہے، نہ صرف خود بلکہ اسکندریہ کے علما سے بھی میں نے اس پر بحث و مباحثہ کیا، تو ہمارے سکندریہ کی ایک چھوٹی مسجد کے جو مولوی تھے، عالم تھے، ان سے میں نے یہی سوال پوچھا جو آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے یہ کہا کہ دعا کے قبول ہونے کے تین رخ ہیں۔ ایک یہ کہ جیسی دعا آپ نے مانگی ویسی ہی دعا قبول ہو گئی۔ اور ایک دعا اس کی قبولیت کے لیے، اللہ کو، ظاہر ہے وہ تو مکلّف نہیں ہے، کوئی زحمت نہیں ہو سکتی۔
ایک دعا آپ کی رک جاتی ہے، وہ یہ کہ آپ نے اللہ سے ایک پھول مانگا ہوتا ہے کہ یا اللہ مجھے نرگس کا ایک پھول عطا کر، مجھے اس کی بڑی آرزو ہے، اور اللہ نے ایک ٹوکرا تیار کر کے رکھا ہوتا ہے پھولوں کا آپ کے لیے۔ جب آپ بار بار ایک پھول کی رٹ لگاتے ہیں۔ تو اللہ کہتا ہے‘ میں اس کو کیسے سمجھاؤں کہ میں نے تو اس کے لیے، بڑی نعمتوں کی تیاری کر رکھی ہے، لیکن جب آدمی بہت اصرار کرتا ہے، بہت زور دیتا ہے، تو پھر کہتا ہے، چلو اسے ایک پھول ہی دے دو ٹوکرا ابھی رکھ لو۔ لیتا ہی نہیں ہے اب کیا کریں اس کے لیے بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ آپ نے مانگا ہوتا ہے، وہ اللہ کی مرضی کےے مطابق ملتا ہے آپ کو۔ آپ کی Judgment پر، آپ کی عقل پر، آپ کی دانش پر اعتبار نہیں کیا جاتا۔ آپ کو زیادی ملتا ہے۔ تیسرا انہوں نے کہا یہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات دعا مانگی تو جاتی ہے، لیکن وہ Deffer (رد) کر دی جاتی ہے۔ تاخیر میں ڈال دی جاتی ہے، ملتوی کر دی جاتی ہے کہ ابھی اس کو یہ نہیں دیں گے۔ مثلاً دیکھیے! جس طرح آپ اپنے بچے کو اس کے بہتر مستقبل کے لیے کچھ پیسے دینا چاہتے ہیں، تو آپ اس کو اسی وقت نہیں دیتے، اس کے لیے آپ ایک ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹ خرید لیتے ہیں کہ دس سال کے بعد ایک تو اس کی رقم بھی زیادہ ہو جائے گی، اور ایک انعام بھی پائے گا۔ جو لوگ بہت زیادہ گھبراتے ہیں، اور گلے پڑتے ہیں، اور سینہ زوری کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ میری دعا کیوں نہیں قبول ہوئی؟ Why Me۔ میری جو بھتیجیاں، بھانجیاں ہیں وہ میز پر مکا مار کے کہتی ہیں، دادا دیکھیے Why me؟ یہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے۔ میری بتی کیوں بند ہوئی۔ میں موٹر چلا رہی ہوں، یہ Red (سرخ بتی یا رکنے کا اشارہ) جان بوجھ کر دیتے ہیں۔ بہت غصہ ہوتا ہے ان کو۔ میں نے کہا، تم میں اتنی Courage کہاں سے آگئی؟ تم کو تو خوش ہونا چاہیے کہ اچھا ہے اللہ میاں مجھ سے محبت فرما رہا، کبھی میرا کام ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا ہے، لیکن تم تو مکا مارتی ہو میز کے اوپر اتنی زور سے، کہ نہیں جی میں تو بہت مقتدر حیثیت رکھتی ہوں، میرا درجہ بہت بڑا ہے۔ پروفیسر یہ کہتے تھے کہ سکندریہ کی مسجد کے مولوی صاحب نے کہا، کئی دفعہ تو ایسا ہو گا کہ جب آپ آگے (آخرت میں) جائیں گے تو تاخیر کے لیے رکھی دعاؤں کے وہ جو انعام ہوں گے وہ اتنے بڑے، اور اتنے ارفع ہوں گے کہ آپ کو مسرت ہو جائے گی کہ یا اللہ کاش وہ دوسری دعا دنیا میں پوری نہ ہوتی، یہاں ملتا تو اس کا مجھے فائدہ ہوتا۔
عبد کی شان یہی ہے کہ وہ دعا کرتا ہے، ہماری بھی تو ایک شان ہے نا۔ ہم بھی تو کوئی گرے پڑے لوگ نہیں، ہم دعا کریں گے۔ دے گا تو پھر رہی دے گا۔ اسی کی مرضی کے مطابق ہو گا ہم اس میں گھبرا جاتے ہیں کہ یہ چونکہ پوری نہیں ہو رہی ہے۔ اس لیے ہم میں کوئی کوتاہی ہے۔ یا پھر ہمارے مانگے جانے میں کوئی کمی۔۔۔۔؟ تو میں سمجھتا ہوں، مانگنے میں کوئی ایسی کوتاہی ضرور ہے جس کے اوپر توجہ دی جانی چاہیے۔ بعض اوقات کبھی کبھی انسان کی زندگی میں ایسا وقت بھی آتا ہے کہ پشیمانی حواس کی ہے۔
وہ خود بڑی اچھی دعا کا ایک روپ اختیار کر لیتی ہے۔ کوئی شرمندہ ہوتی ہے اور اس شرمندگی کو مٹانے کے لیے وہ اللہ کے حضور میں اپنے تخیل میں، جو لمحات اس کو میسر آتے ہیں، اسے ٹالنے کی کوششیں کرتا ہے کہ مجھ سے کوتاہی ہو گئی تو میں معافی چاہتا ہوں۔ لیکن دعا مانگنا مشکل یوں ہے کہ دعا مانگنے والا آدمی سب سے پہلے اپنی ذات کے آگے کھڑا ہو کے اس بات کا اعلان کرتا ہے۔ کہ میں نہایت نالائق، کم ظرف، جھوٹا، متکبر، کمینہ، گھٹیا آدمی ہوں، مجھ سے کوتاہیاں ہوئی ہیں اور اب ان کو کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے میں ایک سہارا چاہ رہا ہوں اور وہ اللہ کے واسطے مجھے سہارا عطا کیا جائے، لیکن انسان میں تکبر، اور انا اتنی ہوتی ہے، یہ جو میں عرض کر رہا تھا کہ جلدی سے “ربنا ظلمنا انفسنا“ پڑھا اور پھر بھاگتے ہیں۔ وہ اس لیے کہ انا اتنی بھری ہوتی ہے دعا کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ انا کا پورے کا پورا توڑنا، اور پھر ایک بھکاری کی طرح اپنا ایک ٹھوٹھا(کشکول) لے کر جانا۔ انا اتنی ظالم چیز ہے، اور اتنی متکبر، اتنی تگڑی چیز ہے کہ سینٹ آگسٹائن تھے، نصارٰی کے بہت بڑے بزرگ صوفی۔ ٹھیک اللہ کے پیارے تھے، تو وہ ایک دن دعا مانگ رہے ہیں، بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ۔ اور ان کی دعا مشہور ہے، وہ کہتے ہیں:
O God make me pious but not today
“ اک دن ہوروے دے شرارتاں کرن لئی۔“ یعنی اللہ میں مجھے نیک بنا دے، لیکن آج ہی نہ بنا دینا، تھوڑا سا وقت مجھے مل جائے، اور۔
میں انا کی بات کر رہا تھا، ایک بڑے طوفان میں گھر گئی ایک ملاح کی کشتی، جو پرانے زمانے میں بادبانی کشتی لے کر چلتے تھے وہ ملاح وہ بحری قزاق قسم کا آدمی تھا کشتی ڈولنے لگی، طوفان کی لپیٹ میں آگئی، تو بچے، عورتیں ، آدمی چیخیں مار کے رونے لگے۔ تو انہوں نے کہا، اے بد بخت ملاح ہم سارے دعا کر رہے ہیں اللہ سے، ہم یہ شکایت عرض لے کر اس کی خدمت میں حاضر ہیں کہ ہم کو بچا، تو چپ کر کے بیٹھا ہوا ہے، تو بھی کچھ کہہ۔ اس نے کہا میں نے کبھی دعامانگی نہیں، میں تو ملاح ہوں، ڈوبتی ہے تو ڈوبے؟ انہوں نے کہا، نہیں تو خدا کے واسطے ہم میں شامل ہو تو اس نے کہا، اچھا ٹھیک ہے۔ اس نے کہا، اے اللہ یہ لوگ مجھے اس بات پر مائل کرتے ہیں کہ میں تجھ سے دعا کروں، اور درخواست کروں، میں نے پچھلے پندرہ سال سے تجھ سے کوئی دعا نہیں مانگی، لیکن ان کے مجبور کرنے پر دعا مانگ رہا ہوں، مہربانی فرما کر اس طوفان کو بند کر دے، تاکہ یہ سلامتی سے کنارے پر اتر جائیں اور میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ انشاءاللہ تعالٰی اگلے پندرہ سال میں تجھ سے کوئی دعا نہیں کروں گا۔ انسان کے ذہن میں یہ بات چلتی رہتی ہے۔ اسی لیے دعا مانگتے ہیں ورنہ یہ کمال کا کام ہے دعا کرنا۔ کبھی آپ کو ایک دیوار میسر آجائے، اور مغرب کے بعد کا وقت ہو، اور اس سے ڈھو لگانا نصیب ہو جائے اور پھر آپ کا جوHot line پر کمیونیکیشن آرام آرام کے ساتھ، پھر وہ جو دعا چلتی ہے، ادھر سے اس کا Response ملتا ہے، اور آپ کو پتا چلتا ہے کہ وہاں یہ دعا قبولیت کے دروازے میں داخل ہو گئی۔ میں یہ عرض کر رہاتھا کہ بعض اوقات کوئی خفت شرمندگی جو ہے، وہ بھی دعا کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔ یہ چلتی رہتی ہے جونہی آدمی خفیف ہوا، شرمندہ ہوا، اس کی انا ٹوٹی، وہ بڑی نعمت کی گھڑی ہوتی ہے، پھر انسان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ وہ ابدیت کے دائرے میں پورے کا پورا سما جاتا ہے۔
میرے دفتر میں ایک اکاؤنٹ آفیسر تھے، مبشر نام تھا ان کا۔ وہ کام کرتے تھے، وہ بڑا ریگولر آدمی تھا وقت پر آنا، ٹکا کر کام کرنا، وقت پر جانا، اور کچھ کام Over time کا ہو، اس نے کبھی اوور ٹائم جوائن نہیں کیا۔ وہ دل و جان کے ساتھ، اور لگن کے ساتھ کام کرنے والا تھا۔ ایک دن وہ دفتر صبح آنے کے بجائے ساڑھے بارہ بجے کے قریب آیا، تو میں باہر کھڑا مالی کے ساتھ کوئی بات کر رہا تھا، تو وہ گزرا۔ میں نے کہا، یہ آپ کے آنے کا وقت ہے۔ شاید مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا، لیکن شاید میں تھوڑا غصے میں تھا۔ اس نے کہا، میں معافی چاہتا ہوں۔ میں نے کہا، نہیں معافی کہنے سے تو کام نہیں بنے گا، ساڑھے بارہ کوئی ٹائم نہیں ہے، چلیئے آپ دس منٹ پندرہ منٹ لیٹ ہو جاتے تو خیر۔۔۔۔؟؟ میں تو اس کا بہت سختی سے نوٹس لوں گا اور میں آپ کی A.C.R میں لکھوں گا۔ کہنے لگا، نہیں سر۔ یہ ساری بات کر کے میں نے کہا، آپ میرے دفتر میں آئیں، بات کریں، تو وہ آکے بیٹھ گیا۔ وہ انا کی بات جو میں آپ سے عرغ کر رہا تھا اس نے آکر کہا، میں بہت معافی چاہتا ہوں، میں بڑا شرمندہ ہوں کہ میں وقت پر نہیں آسکا۔ میں نے کہا خالی شرمندگی سے کچھ نہیں بنتا یہ تو آپ کو Explain کرنا پڑے گا۔ کہنے لگا، نہیں، بس آپ مجھے معاف کر دیں۔ میں باس تھا، جیسے ہوتا ہے باس، ایک نہایت بے ہودہ چیز۔ یعنی باس کچھ بھی نہیں ہوتا، انسانیت تو ہوتی ہی نہیں، اس میں۔ تو میں نے کہا، نہیں۔ وہ کہنے لگا بات یہ ہے کہ میری بیٹی تھرڈائیر میں پڑھتی ہے، وہ رات اپنی ماں سے جھگڑی اور غصے میں آئی، ماں کی اور بیٹی کی کچھ تو تو میں میں ہوئی، وہ گھر سے نکل گئی، میں آیا تو رو کے کہا میری بیوی نے کہا شازیہ تو نہیں ہے۔ میں نے کہا، میں کہاں ڈھونڈوں سردیوں کی رات میں اسے۔ ساری رات بے چارہ آدمی، شریف سا، نیک سا آدمی اور جوان بیٹی، وہ چلتا رہا تلاش کرتا رہا۔ بعد میں کافی تلاش کے بعد مجھے خیال آیا، وہ ایک سہیلی کا ذکر کیا کرتی تھی، وہ یہاں سنہری مسجد کے پاس۔۔۔۔۔۔؟ تو میں اندازے سے، زور لگا کے، شاید جھگڑی ہے لڑی ہے، اللہ کرے اس کے پاس چلی گئی ہو، ورنہ زمانہ جیسا خراب ہے، آپ اسے جانتے ہی ہیں، اور باپ کا جو حال ہوتا ہے برا، تو میں گیا تو اس گھر کا دروازہ جا کے کھٹکھٹایا رات کے وقت ڈیڑھ بجے۔ تو اس سہیلی کا والد نکلا، میں نے اس سے ڈرتے ڈرتے پوچھا شازیہ، تو اس نے کہا دونوں سہیلیاں سوئی ہوئی ہیں۔ تو میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ میں نے کہا شکر ہے یا اللہ۔ صبح میں اپنی بیوی کو لے کر گیا، اس کی منت خوشامد کی، تو میں ذرا سا بیٹھ کے سو گیا کرسی پر ہی، تو ساڑھے بارہ بجے میری آنکھ کھلی، تو میں یہاں آ گیا ہوں۔
جب وہ یہ بات کہہ چکا خواتین وحضرات، اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میرے پاس اس کو جواب دینے کے لیے یا خفت مٹانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ میں اٹھا میرا اپنا دفتر تھا، اس کے پیچھے چھوٹا کمرا تھا، اس میں جائے نماز بچھا کر میں نے دو رکعت نمازِ خفت پڑھی، اور میں نے اللہ سے معافی مانگی، اب مجھ میں اتنی جرات تو نہیں رہی تھی کہ میں اس سے معافی مانگتا، لیکن میں نے شرمندگی ٹالنے کے لیے یہ دو نفل جو تھے ادا کیے، اور وہ دن، اور آج کا دن، اس واقعہ کو سولہ سترہ برس ہو چکے ہیں، اب لڑکی کی ماشاءاللہ شادی بھی ہو چکی ہے، اس کے دو بچے بھی ہیں، ایک بیٹا، اور ایک بیٹی وہ اس عید پر مجھ سے ملنے بھی آئے تھے۔ میں نے ان کو پانچ پانچ روپے دیئے۔ بچوں نے کہا دادا اس پر دستخط کر کے دو تو میں نے کہا بظاہر تو یہ پانچ روپے کا نوٹ ہے، میں دستخھ کروں تو یہ پانچ ہزار کا ہو جائے گا۔ اس نے کہا، اسی لیے تو ہم کروا رہے ہیں، تو اس کا باپ بھی تھا، نانا بھی تھا، وہ چلے گئے تو میں اب بھی اتنے برس گزر جانے کے باوجود جب بھی کبھی موقع ملتا ہے، تو پھر میں دو نفل خفت کے ضرور پڑھتا ہوں کہ مجھ سے کوتاہی ہوئی، میں ٹھیک نہیں رو سکا، یوں تو ہر ہر لمحہ ہر ہر قدم پر ہوتی رہتی ہیں، تو میں جلدی میں، چونکہ وقت کم ہے۔ پروفیسر انگارتی کی بات بتاتا ہوں، اور یہ راز کی بات ہے، جو میں نے آج تک کسی کو نہیں بتائی۔خاص طور پر آپ کے لیے کہ دعا مانگنے کے لیے انہوں نے کہا کہ زبانی دعا مانگنے سے بہتر ہے کہ عرضی پر لکھ کر مانگی جائے، اچھا صاف ستھرا پاک سا کاغذ لیں، اور اس کے اوپر بسم اللہ لکھ کے محترمی جناب اللہ میں یا جو بھی آپ لکھ سکتے ہیں جل جلالہ، جو لکھ کے کہ حضور مجھ پہ یہ مشکل ہے، اور میں یہ سوچتا ہوں، ایک پیراگرف، دوسرا پیرا گراف، تیسرا پیراگراف، اور ادب سے اس کو لپیٹ کے جیب میں ڈالیں۔ اگلے دن آپ نے کوئی Amendment کرنی ہو اس میں، ترمیم کرنی ہو تو وہ بھی اس میں کرتے رہیں لکھتے رہیں، اور اس عرضی کے اوپر جب تک آپ توجہ نہیں دیں گے آپ میری طرح سے ہی دعا مانگتے رہیں گے، ربنا اتنا فی الدنیا حسنتاو۔۔۔اس میں تو پورے پورے داخل ہوں، ویسی ہی عرضی جو آپ سرکار کو ڈالتے ہیں دو ٹکے کی سرکار کو، اور پھر اتنے چکر لگاتے ہیں اس کے پیچھے۔ ایسا ہی کاغذ۔ اللہ ان کا بھلا کرے میرے پروفیسر کا، انہوں نے کہا، یہ لکھا کرو۔ تو یہ دعا کا ایک طریق تھا، جو انہوں نے بتایا، میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، آپ اسے آزما کے دیکھیں، اس سے بڑا فائدہ ہو گا۔
اللہ آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، آسانیاں عطا فرمائے، اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 

فریب

محفلین
We don't live in present but in future and past

ہم سب کی طرف سے آپ سب کی خدمت میں سلام پہنچے۔
آج کا دن میرے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہےکہ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے یہ اہن ترین دن ہے، جتنے بھی زاویے گزرے، ان میں سے ایک اہم دن۔ اور شاید یہ میرے اور آپ کے درمیان ایک جدائی کا باعث بھی ہو، کیونکہ جس طرح محبت، اور یگانگت، اتفاق، قربت، اور بھائی چارہ بہت اہم چیز ہے، اس طرح جدائی بھی بہت اہم ہے۔ وصال تو اہم ہے ہی۔ فراق اس سے اہم تر ہوتا ہے۔صوفیائے کرام کہتے ہیں، جب تک فراق کی لذت نہ چکھی جائے، اور اس میں داخل نہ ہوا جائے، اور آدمی اس کا صاحبِ حال نہ ہو، اس وقت تک وہ منازل طے نہیں ہوتیں، جن منازل کو سامنے رکھ کر سالک نے پہلا قدم اٹھایا ہوتا ہے، اور یوں بھی حال جو ہے، یہ بہت اہم چیز ہے۔
آج کا دن ہر شخص کے لیے بہتر دن ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہےکہ آدمی کبھی بھی حال کے اندر موجود نہیں رہتا۔آپ نے یہ ٹرم سنی ہو گی کہ وہ بڑے صاحبِ حال بزرگ تھے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ بزرگ نہ ماضی کی یاد میں مبتلا تھے، نہ مستقبل سے خوف زدہ تھے، جو ان کو مل رہا تھا، اس پر شکرِ نعمت بجا لا رہے تھے۔ ہماری سب کی بدقسمتی یہ ہے، خاص طور پر سیانے پڑھے لکھے آدمی کی کہ وہ حال کے اوپر زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ یا تو لوگ ماضی میں رہتے ہیں یا مستقبل کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ جو لذتیں اللہ نے حال پر عطا کی ہوتی ہیں، ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ آپ نے اپنی زندگیوں میں اکثر دیکھا ہو گا، ہم کہتے ہیں ایک وہ وقت تھا جب میرا دوست یہاں کا ڈپٹی کمشنر تھا۔ اس نے کہا، بس یہ عرضی لکھ کے لے آ، میں تجھے کارنر پلاٹ دیتا ہوں، پلازا بنا سکتاتھا، آج جناب کہیں کے کہیں پہنچے ہوتے۔تو ساری بات ماضی کیی کرتے ہیں، یا یہ کچھ کر لو، کل کا کچھ پتہ نہیں ہے، مارے جائیں گے۔ زمانہ خراب آ رہا ہے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ ابھی سے بندوبست کر لو۔ کبھی کبھی ہمارے گھر میں پانے ٹینکی میں ختم ہو جاتا ہے، رات کو میری بیوی ٹونٹی کھولتی ہے تو سوں سوں کی آواز آتی ہے۔ وہ کہتی ہے میں نے پہلے ہی کہا تھا، اس کا کچھ بندوبست کر لو۔
میں کہتا ہوں جگ میں پانی پڑا ہے کچھ لوٹے میں بھی ہے، ہم تو رات کو سو جائیں گے، خوانخواستہ آگ تو نہیں لگ رہی۔ کہتی ہے آپ کیسی فضول باتیں کرتے ہیں۔ صبح اٹھ کر وہ اتنی پریشان ہوتی ہے۔ میں نے مستقبل کے بارے میں اتنی خوفزدگی کا اظہار کیا تھا، وہ مستقبل ابھی تو آیا ہی نہیں، لیکن ہم سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اپنے آگے رکھے ہوئے اعلٰی درجے کے پھل سے ہم لطف اندوز نہیں ہو سکتے، ماضی کی ان بیریوں کو یاد کرتے رہتے ہیں، کانٹے دار جھاڑیوں کے اوپر چڑھ کے، جو ہم بیر کھایا کرتے تھے۔ اکثر ہم ذکر کرتے تھے کہ وہ زمانہ بہت اچھا تھا۔ مستقبل کے باغوں کو دیکھتے رہتے ہیں جہاں سے ٹوکرے اتر اتر کر پھل آئیں گے۔ ہمارے ملازم کھڑے ہوں گے، رسیاں باندھ کر ان کے اوپر ترپال ڈال کے، ٹانکے لگا کے، دوستوں کو تحفے بھیجے جا رہے ہوں گے۔ منڈیوں میں ہمارا پھل جا رہا ہو گا، لیکن یہ جو ہمارے سامنے موجود ہے، آپ کو عطا کر دیا گیا ہے۔ یہ بڑا ہی آسان اور بڑا ہی مشکل کام ہے۔ ہمارے سمیت دنا بھر کی ٹریننگ ایسی ہی ہوتی ہے۔ صاحبِ حال بڑا چلاک ہوتا ہے کیونکہ اس کو جتنا مل رہا، جو مل رہا، اٹھا کے جیب میں ڈال رہا ہے۔ مزے سو کھا رہا ہے۔ گاجر مل گئی تو گاجر کھا رہا ہے میں اور آپ اس کے انتظار میں ہیں کہ انناس ملے گا تو لے لوں گا۔ہم کبھی بھی حال سے مطمئن نہیں ہو سکتے۔ حال سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔زندگی کی سب سے ضروری حقیقت یہ ہے کہ حال سے فائدہ اٹھاتا رہے، اور اس کے گن گاتا رہے۔ اس سے لطف اندوز ہوتا رہے کہ اسی حال کا مستقبل بننے والا ہے۔ بری غور طلب بات ہے، اور جو حال میں جتنا مشکل میں مبتلا ہو گا، عذاب کی زندگی بسر کر رہا ہو گا، مستقبل میں بھی اتنا ہی ہو گا۔ آپ اپنا حال خراب کر کے دیکھ لیں، آپ کا مستقبل لا محالہ ایسا ہی چلتا رہے گا۔اس میں سیدھ آئے گی ہی نہیں۔آپ ایک تجربہ کر کے دیکھ لیں، ہم نے اس ٹیڑھے چمٹے کو جو حال کا ہے سیدھا کر لیا، مستقبل خودبخود خوبصورت سے خوبصورت تر ہوتا چلا جائے گا۔ میری زندگی میں صوفیائے اکرام کے علاوہ ایک ایسا شخص بھی آیا جو بغیر جانے ہوئے حال کی اہمیت کیا ہے، اس پر حاوی تھا۔
سراج دین نامی ایک مزدور تھا، آج سے بہت سال پہلے کی بات ہے میں اپنا دفتر بنوا رہا تھا،جب مزدور کی دیہاڑی تیس روپے روزانہ ہوتی تھی۔ سراج چپس کھسانے کا کام جانتا تھا، بہت ذہیں اور خوبصورت آدمی تھا، اچھی بات کرتا اور بہت کم گو تھا۔ خوبصورت بات کرتا تھا اور لوگ اس کو ٣٠ روپے دیہاڑی کی بجائے ٥٠روپے دیتے تھے، کیونکہ وہ اپنے فن کا ماہر تھا۔ وہ اپنے فن پر پوری استقامت کے ساتھ حاوی تھا۔
ایک بہت اچھا دن تھا ٢٥،٢٦ دسمبر کی بات ہے، دھوپ بہت اطھی نکلی ہوئی تھی، عام طور پر اگر آپ نے غور کیا ہو، یا کریں گے کہ ٢٥ دسمبر کے بعد یا اس دن آسمان ابر آلود ہوتا ہے، لیکن وہ ٢٥ دسمبر کا دن ایسا خوبصورت اور شفاف تھا۔ سورج اپنی پوری تابانی کے ساتھ چمک رہا تھا۔ میں جب دفتر آیا تو سب لوگ کام کر رہے تھے۔ کام بہت تیزی کے ساتھ ہو رہا تھا میں نے ٹھیکے دار سے پوچھا سراج نہیں آیا؟ اس نے کہا نہیں ایا۔ میں نے کہا کیوں نہیں آیا؟ کہنے لگا کوئی پتہ نہیں۔ میں نے کہا، اس نے کوئی اطلاح بھیجی؟ کہا کہ نہیں بھیجی۔ میں نے کہاں ٹھیکیدار صاحب کو تو اس کا نوٹس لینا چاھیے تھا، پتہ ہونا چاہیے، آج تو اس کی بہت سخت ضرورت ہے، اتنا اچھا دن ہے، رگڑائی ہونی ہے اس نے وادعہ کیا تھا کہ میں آؤں گا۔ پھر میری طبیعت میں اللہ جانے کہاں سے طیش آ گیا، ایسے ہی۔ حالانکہ میں تو کبھی بھی افسر نہیں بنا، لیکن اس دن میں ایک مشکل سا افسر بن گیا۔ کہا، اس کو حاضر کیا جائے، ورنہ اس کو کام سے نکال دیا جائے گا۔ کہنے لگا، نہیں صاحب آج نہیں آیا تو کل آجائے گا۔ میں نے کہا نہیں وہ کہاں رہتا ہے۔ ٹھیکیدار نے بتایا اچھرہ کے پیچھے ایک کچیہ آبادی ہے وہاں رہتا ہے۔ میں پتہ کرنے جاتا ہوں۔ میں نے کہا، جائیں۔ جب وہ سکوٹر پر جانے لگا تو میں نے کہا ٹھیکیدار صاحب! رکیے رہنے دیں۔ میں جاتا ہوں۔ ڈرائیور نے گاڑی نکالی، ہم چلے گئے، وہاں گئے تو ایک آدمی کو ساتھ لیا۔ اس نے کہاں گاڑی یہاں روکنی پڑے گی، کیونکہ پچیدہ گلیاں ہیں اور کچی آبادی ہے۔ میں نے کہا، چلو میں شدید غصے میں تھا۔ وہ لمبی چوڑی پچیدہ گلیوں سے گزرنے کے بعد ایک گھر میں جس کے باہر ایک بھٹا سا پردہ لٹک رہا ہے۔ وہ جو چوکیدار میرے ساتھ گیا تھا، اس نے آواز دی سراج! اُس نے کہا، کون؟۔ میں محمد علی۔ اس نے کہا۔ آ محمد علی بسم اللہ! اس نے کہا، باہر آ صاحب آیا ہے۔ اس نے کہا، صاحب کون؟ کہا، اشفاق صاحب آئے ہیں۔ اس نے کہا، یہاں! وہ بے چارہ حیران ہو کر چھلانگ لگا کر باہر نکلا۔ کہنے لگا بسم اللہ۔ میں نے کہا، کوئی بسم اللہ نہیں اور میرے منہ لگنے کی کوشش نہ کرو۔ میں سخت طیش میں ہوں، تمہاری مرمت کروں گا، چلو تم چلو۔ کہنے لگا صاحب! میں کل آجاؤں گا۔ میں نے کہا نہیں تم میرے غصے سے واقف نہیں ہو، افسر لوگ بڑے ظالم ہوتے ہیں، چاہے وہ بعض اوقات کتنا ہی مسکراتے رہیں، تمھیں ابھی چلنا پڑے گا۔ کہنے لگا، میں آپ سے ایک درخواست کرتا ہوں، آپ اندر آئیں، آپ اندر تشریف لائیں مجھے فخر ہو، مجھے خوشی ہو، میں آپ سے بڑی محبت کرتا ہوں۔ میں نے کہا بالکل جھوٹی محبت ہے، غلط کہتے ہو۔ مجھ سے محبت ہوتی تو تم ضرور آتے۔ اس نے کہا، مجھے آپ اجازت دیں کہ میں کل آ جاؤں۔ اس نے کہا، آپ ائیں تو سہی۔ میری بیوی سے تو ملیں۔ میں نے کہا، میں کسی سے نہیں ملتا، میرا آپ کا کوئی رشتہ نہیں، کائی تعلق نہیں۔ اس نے کہا، جناب آپ اندر آ جائیں چائے کی ایک پیالی پئیں۔ میں نے کہا، توبہ کرو، میں پانی بھی نہیں پیوں گا، تم چائے کی بات کرتے ہو۔ تم میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھو، اور میرے ساتھ چلو، تو پھر اس کی بیوی آ گئے پردے کے اس طرف۔ چاچا جی آپ آ جائیں۔ مجھ کو اب تھوڑی خفت ہونے لگی کہ بیچاری کہ رہی ہے۔ اچھا بی بی میں ایک سیکنڈ کھڑا ہوں گا، تیرے کہنے پر اندر داخل ہوں گا۔ ورنہ یہ بہت جاہل آدمی ہے۔ اندر گیا، اس نے کہا بیٹھ جائیں۔ میں نے کہا نہیں۔ تو مجھے بتا تو آیا کیوں نہیں۔ اس نے کہا، کوئی خاص وجہ نہیں تھی۔ میں نے کہا، کیوں نہیں آیا، تمھیں ساری وضاحت دینا پڑے گی۔ اس نے کہا بات یہ ہے کہ یہ جو کنستر ہے نا جی مٹی ڈال کر نرگس کا ایک پودا لگایا تھا کل شام جب میں گھر آیا تو اس میں ایک پھول کھلا ہوا تھا تو مجھے بڑا اچھا لگا۔ دیکھیں ہمارے گھر میں آج ایک نرگس کا پھول ہے۔ یہ میں آپ کو دیتا ہوں، اس کی خوشبو دیکھیں کتنی اچھی ہے۔ میں تمھارے اس پھول کو بالکل قبول نہیں کرتا۔ میں تمہارے اس کنستر کو باہر پھنکوا دوں گا۔ تم کیا فضول بات کے لیے یہاں رہ گئے۔ تم کو آنا چاہیے تھا۔ ساتھ ہی کہنے لگا۔ سر جی جب میں گھر آیاہوں تو میری بیوی نے مجھے کہا کاکا چلنے لگا ہے، پہلے رڑھتا، گھٹنوں چلتا تھا۔ آج پہلا دن ہے کہ وہ ڈگ مگ ڈولے چلا ہے۔ میں نے کہا، وہ تو سو گیا ہے۔ کہنے لگی ہاں۔ میں نے کہا اس کو جگاؤ میں اس کو چلتے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا کمال کرتے ہو کاکا تو سویا ہوا ہے۔ میں اس کو کیسے جگاؤں۔ کہنے لگا، صبح اٹھتے ہی پہلا کام میں نے یہ کیا ادھر وہ چولہے کے پاس بیٹھ گئی، اور میں ادھر بیٹھ گیا تو بیچ میں اپنا بیٹا چھوڑ دیا وہ کبھی ادھر جاتا تھا اور کبھی ادھر جاتا تھا۔ صاحب زندگی روشن ہو گئی۔ کنستر میں پھول کھلا تھا، چھوٹا بچہ تھپ تھپ کرتا اِدھر اُدھر جاتا تھا، سر جی! ہمیشہ آج کا دن دھندلا ہوتا ہے، لیکن آج برا خوبصورت دھوپ والا دن تھا۔ اتنا خوبصورت دن پچاس روپے میں تو نہیں بیچا جا سکتا۔ سر میں کل آ جاؤں گا، رات بھی لگا دوں گا آپ کہیں گے تو، اور آدھی چھٹی بھی نہیں کروں گا۔ لیکن اس خوبصورت دن کو آپ رہنے دیں۔ اتنا سستا نہیں بیچا جا سکتا۔ میں نے کہا، پانچ سو روپے کا بیچتے ہو۔ کہنے لگا، نہیں۔ وہ تو حال پر راضی تھا۔ وہ اکیلا آدمی میں نے دیکھا جس کا تعلق روحانیت سے ہرگز نہیں تھا، لیکن وہ صاحبِ حال آدمی تھا، وہ اس خوشی میں مبتلا تھا کہ میں ایک اچھا دن گزار رہا ہوں۔ اگلے دن دیہاڑی پر لگ جاؤں گا، اگلے دن یہی کام تو کرنا ہے، لیکن اس کو میں ہاتھ سے نہیں جانے دوں گا۔
پرسوں میں اسلام آباد میں تھا تو مجھے سراج یاد آ گیا۔ کتنے بڑے بڑے آدمیوں سے میں زندگی میں ملا ہوں لیکن سراج ان میں بہت بڑا آدمی تھا۔ میں اس کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر آج تک یاد کرتا ہوں۔ پھر وہ دبئ چلا گیا تھا۔ پتا نہیں آج کل کہاں ہو گا۔ پرسوں میں اسلام آباد میں تھا۔ سیر کر رہا تھا، اچانک مجھے سراج یاد آ گیا۔ کسی کو آئن سٹائن یاد آ جاتا ہے، کسی کو نصرت فتح علی خان۔ بڑے لفظوں میں کسی کو ہمارے اجمل صاحب یاد آتے ہیں۔ وہ فلسفے کے استاد تھے۔ قدرت اللہ شہاب یاد آ جاتے ہیں میں چلتا جا رہا تھا۔ سراج یاد آ گیا۔ اس وقت میں شکر پڑیاں میں تھا۔ بہت اچھا مؤسم تھا، شام کا۔ میں نے سوچا اور تو میں کچھ نہیں کر سکتا، پڑھا لکھا ہوں، تشکیک کا مارا ہوا، گھبراہٹ میرے اندر شروع سے جنم لے چکی ہے۔ میں اپنے آپ کو اس طرح کے فریم میں تو سیٹ نہیں کر سکتا، جیسا کہ سراج نے کیا تھا لیکن ان کوئی دیکھ نہیں رہا میری آرزو ہے، کچھ اس طرح لطف اندوز ہونے کی کوشش کرو، جس طعح میں نے سراج کے چہرے کو دیکھا تھا۔ پیارے بچو! میں وہاں ایک پتھر پر بیٹھ گیا میں نے وہاں سب سے پہلے اس خدا کا شکر ادا کیا، ڈھیروں ڈھیر کیا اور دل کی گہرائی سے کیا، جو مجھے قیمی ترین چیزیں مفتا مفت دے تہا تھا، اور وہ آکسیجن تھی، ہر شخص کو ضرورت ہوتی ہے اس کی آکسیجن سے قیمتی چیز کوئی کائنات میں زندگی کے لیے ہے ہی نہیں، وہ سب کو مفت ملتی ہے، اور میں مزے سے اس کو Inhale کر رہا تھا، موسم بڑا خوبصورت تھا۔ شام ڈھل چکی تھی، اور میں بڑے مزے سے اعلٰی قسم کی آکسیجن کو اپنے رگ و ریشے میں سمو رہا تھا، اور آپ یقین کریں اور کریں گے کہ کسی سپاہی نے سیٹی نہیں بجائی، اؤے بے وقوف بڑھے بابے تو Province کا آدمی ہو کے فیڈرل کی کیوں ساری آکسیجن کھینچ رہا ہے۔ میں خوش و خرم بیٹھا رہا۔ کسی نے مجھے برا بھلا نہیں کہا، پھر مجھے خیال آیا کہ ہمارے بابا جی کہا کرتے تھے ہر حال میں موجود رہو، ماضی کی یاد میں مبتلا نہ ہونا، مستقبل سے خوفزدہ نہ ہونا، اس حال کے اندر موجود رہو۔ جب میں نے موجود ہونے کی کوشش کی کہ کوئی گانا بھی گانا چاہیے، اچھا اب مجھے گانا نہیں آتا۔ میں نے بڑا زار لگایا، سوچا ہم ٹی وی پر بڑے اچھے اچھے گانے پیش کرتے تھے۔ بھئی کچھ اچھا سا یاد آئے۔ آخر جب میں بالکل ہی کچھ روہانسا سا ہو گیا، میں نے سوچا اتنا اچھا موسم ہے، سراج کو میں یاد کر رہا ہوں جو میرا گرو ہے، میرا Mentor ہے اور میرا لیڈر ہے اب میں چپ چاپ بیٹھا ہوں تو پھر اللہ نے میری مدد کی اور میں نے گانا شروع کیا۔ “لب پہ آتی ہے دعا بن کے“ چوتھی جماعت میں آخری مرتبہ یہ گایا تھا، اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر۔ سکول میں دعا کے وقت گایا تھا۔ پھر موقع ہی نہیں ملا۔ پھر اس کے بعد ہم گانے کے قریب بھی نہیں پہنچ سکے۔ خرابی یہ ہوتی ہے خواتین و حضرات! کہ ہم مستقبل سے اتنے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ ہمارا سارا حال، ساری زندگی، ساری سوچ سب برباد کر دیتے ہیں۔ اور ہماری حالت بالکل ویسی ہو جاتی ہے جیسی ہماری ایک بزرگ محترمہ تھیں۔ ایک وزیر کی بیوی، کسی زمانے میں چین کا مشہور بادشاہ تھا“منگ“ ڈائنا سٹی کا۔ اپنے وزیر کو ناراض ہو کے کسی وجہ سے پھانسی کی سزا دے دی۔ مقررہ وقت پر جب اس کو پھانسی دی جانی تھی۔ بادشاہ کا دستور تھا کہ جس قیدی کو بھی پھانسی دی جاتی تھی تو بادشاہ خود صبح سویرے اٹھ کر بندی خانے ( قید خانے) میں آتا تھا، اور اس سے پوچھتا تھا تیری کوئی آخری خواہش ہے، تو میں اس کو پوری کرنے کی کوشش کروں گا۔ چناچہ بادشاہ ایک خوبصورت سفید گھوڑے پر سوار ہو کر آیا، اس نے اپنا گھوڑا بندی خانے کے باہر روکا، اندر گیا۔ اپنے وزیر سے ملا۔ وزیر سے کہا، کہو کیا حال ہے۔ کہنے لگا، میں بڑا خوش و خرم ہوں۔ آج شام مجھے پھانسی ملے گی اور اب آپ مل گئے ہیں۔ اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ اس نے کہا، تم تگڑے ہو۔ ہاں میں تگڑا ہوں، لیکن ذرا بادشاہ سلامت آپ پیچھے ہٹ جائیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ چھوٹے سے چھروکے میں سے ایک نہایت خوبصورت سفید گھوڑا باہر بندھا ہے۔ میں نے تو ایسا گھوڑا کبھی نہیں دیکھا۔ میرے بڑوں کا علم میرے پرکھوں کا علم مجھے یہ بتاتا ہے کہ یہ تو اڑنے والا گھوڑا ہے، چلنے والا نہیں۔بادشاہ نے کہا، یہ تو میرا گھوڑا ہے۔ سوار ہو کر آیا ہوں۔ اس نے کہا، حضور یہ آپ کو کہاں سے مل گیا، میں نے آپ کا سارا اصطبل دیکھا ہے۔ بادشاہ نے کہا ابھی کچھ خراساں سے سوداگر آئے تھے، اور گھوڑا دے گئے ہیں۔ وزیر نے کہا، حضور یہ تو اڑنے والا گھوڑا ہے۔ یہ تو کمال کی چیز ہے۔ بادشاہ نے پوچھا لیکن یہ کیسے اڑے گا۔ اس نے کہا، ٹریننگ دینی پڑے گی۔ بادشاہ نے پوچھا ٹریننگ کون دے گا؟ وزیر کہنے لگا، میں دوں گا۔ بادشاہ بولا کتنی دیر لگے گی۔ کہنے لگا ایک سال لگے گا۔ آپ اس پر بیٹھیں گے جیسے بوئنگ جاتا ہے شکاگو سے تیکساس۔ جدھر مرضی جائیں، گھوڑا اڑے گا۔ کہنے لگے ٹھیک ہے، کھول دو دروازہ۔ باہر آ جاؤ، اور گھوڑے کی یہ باگ پکڑو۔ تم اس کو ٹرینڈ کرو۔ تمھیں ایک سال کے بعد پھانسی دی جائے گی۔ اس نے کہا منظور ہے۔ وزیر گھوڑا لے کر اس کے اوپر چھلانگ مار کر بیٹھا، اور ایڑی لگا کے اپنے گھر پہنچ گیا۔ اس کی بیوی نے چیخیں مارنا شروع کر دیں، یا اللہ تو کیسے آ گیا؟ تجھے تو پھانسی ہو گئی تھی۔ اس نے کہا، پروا مت کر۔ یہ بات میں نے بادشاہ کے ساتھ کی ہے اب ایک سال کی چھٹی ہے۔ مزے کرتے ہیں، گائیں گے، خوش رہیں گے۔ اس نے کہا، ایک سال تو ابھی ختم ہو جائے گا۔اور اس نے رونا شروع کر دیا۔ اس نے کہا، تم اس حال کے اندر کیوں رو رہی ہو؟ لیکن وہ بدستور روتی رہی۔ کہنے لگی، ایک سال تو ایک منٹ میں ختم ہو جائے گا۔ پھر وہی کیفیت آ جائے گی۔ بہتر یہ تھا کہ تجھے آج ہی پھانسی مل جاتی۔ میں ذہنی طور پر تیار تھی۔ جیسے انسان کے ساتھ ہوتا ہے۔ پھر یہ سال میرے سینے پر خنجر کی طرح لٹکتا رہے گا۔ نہیں نہپیں ایک سال کے اندر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ وزیر گھوڑا لے کر صبح نکل جاتا، اور مزے سے جو جو جگہیں نہیں دیکھیں تھیں، وہ بھی دیکھیں، اور اعلٰی درجے کا اسے گھورا ملا ہوا تھا، اور کیا چاہیے تھا۔ چناچہ وقت گزرتا رہا، دن پر دن گزرتے رہے، وہ روتی ہوئی بیوی کو کہتا، بھلی لوگ کچھ بھی ہو سکتا ہے تو کیوں فکر کرتی ہے۔ اس نے کہا، نہیں میرا جو فکر ہے، اندر سے نہیں جائے گا، لیکن وزیر خوش و خرم رہا۔
خواتین و حضرات! ہوا یوں کہ تین مہینے بعد تینوں مر گئے۔ بادشاہ، وزیر، اور گھوڑا۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے اور آدمی آپنے حال کو برباد کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ کچھ بھی کرتا رہتا ہے۔ میں آپ سے یہ کہنے کے لیے حاضر ہوا۔ اپنے حال کو خوش تر، خوب تر بنائے رہنا، اور خوش و خرم رہنا۔ آپس میں محبت کی رسم جو ہے اگر پہلے اس کی بنیاد نہیں ڈالی تھی، تو ضرور ڈال کے رکھنا۔ اس کے بڑے فائدے ہوتے ہیں اور اس کی لہریں بڑی دور دور تک پہنچتی ہیں۔ اس کے علاوہ جو محبت آپ نے مجھے اس پروگرام کے ذریعے دی، سب کو دی۔ سارے ٹی وی والوں کو دی۔ وہ آپ کا بہت بڑا ایک انعام ہے اور بہت برا احسان ہے۔ ہم اس کے لیے دنیاوی طور پر اور انسانی طور پر آپ کے شکر گزار ہیں اور خالقِ کائنات کے اس اعتبار سے کہ سب کچھ نعمتیں وہی طا کرتا ہے۔ اپنے بندوں کے ذریعے، اپنے بادلوں کے ذریعے، اپنی ہوا کے ذریعے۔ آپ اتنی جلدی خوفزدہ نہ ہو جایا کریں۔ میں نے اخبار کے لوگوں سے پوچھا، آپ اتنی خوفناک خبریں کیوں چھاپتے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ، خبر ہوتی ہی خوفناک ہے، جو خوفناک نہ ہو وہ خبر نہیں بنتی۔ میں نے کہا، میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی۔ اس نے کہا، ہر روز تیز گام پشاور سے کراچی چلتی ہے، کوئی خبر نہپیں بنتی۔ جس دن اس کا ڈبہ الٹ جائے، تیرہ آدمی مر جائیں تو وہ خبر بن جاتی ہے۔ سیدھے سے چھ آدمیی بڑے مزے سے تاش کھیل رہے ہیں، ایک آ کر کہتا ہے السالام علیکم، کیا حال ہے بھائیو؟۔ خوش رہو، راضی رہو، دیکھو میں ایک اعلٰی درجے کا کھیرا لایا ہوں۔ نمک لگا کر ایک ایک پھاڑی سب کو دیتا ہے، خبر نہیں بنتی۔ اگر چھ آدمی تاش کھیل رہے ہیں، ایک آدمی پستول لے کر آیا، اور تین بندے پھڑکا دئے۔ یہ خبر بنے گی تو ایسی خبر بنانے سے پہلے پر سکون بات محبت کی بات ہے۔ ہمارے اپ کے درمیان چلتی رہنی چاہیے۔ جو چیزیں آپ کو ڈراتی ہیں، وہ مصنوئی ہوتی ہیں۔ ڈرانے والی چیز کوئی نہیں۔ اگر کوئی چیز ڈرانے والی ہے، تو وہ صرف اللہ کی ذات ہے۔ اس کے علاوہ کوئی نہیں۔ اللہ آپ کو خوش رکے، بہت خوش رکھے۔ بہت سی آساناں عطا فرمائے، اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
تائی کریم بی بی اور الیگزنڈر فلیمنگ

میرا بیٹا سائیکالوجی میں ڈاکٹریٹ کرنے امریکہ گیا ہوا ہے تو اس کی ڈکٹریٹ میں ذرا دیر لگی میرے حساب سے۔۔۔۔۔ تو میں ایک احساس والے باپ کی طرح ناراض ہوا کہ بھئی اتنی دیر کیوں لگائی ہے ۔۔۔۔۔ آپ لوگ بھی کبھی کبھی گھر میں ناراض ہوتے ہوں گے۔ میں نے کہا کہ میں اس سے جا کے پوچھوں کہ کیا بات ہے۔ پچھلے سے پچھلے سال میں وہاں گیا، تو اس کے Head of the Department سے ملا، تو انہوں نے کہا کہ نہیں، یہ تو بڑا Perfect ہے۔ کوئی شکایت نہیں، بلکہ ہم تو یہ چاہیں گے کہ یہ اور کچھ دیر ہمارے پاس رہے، اور ہم اس سے کچھ فائدہ اٹھا لیں۔ یوں میرے تسلی ہو گئی۔

یونیورسٹی سے گھر جاتے ہوئے میں اس کی کار میں بیٹھا تھا، اور وہ کار چلا رہا تھا۔ ہماری گاڑی سے آگے ایک اور شخص گاڑی لے جا رہا تھا، اور وہ آہستہ آہستہ چلا جا رہا تھا، اور ہچکولے بھی کھا رہا تھا، تو میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ ہارن بجاؤ، اور اس کو ایک طرف کرو۔ تو اس نے کہا کہ ابو میں ابھی کچھ بندوبست کرتا ہوں۔ تو میں نے کہا کہ بھئی آپ اس کو ہارن دیں۔ تو وہ کہنے لگا کہ ابو یہاں ہارن دینے کا رواج نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ وہ تو Silence Zone ہوتا ہے، یہ تو ویرانہ ہے۔ تو اس نے کہا کہ بس ہارن نہیں دیتے ہیں نا۔ میں نے کہا کہ کیوں نہیں دیتے، کہنے لگا، کہ میں اس لیئے نہیں دیتا ہوں کہ یہ آگے جانے والا مجھ سے عمر میں ذرا بڑا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اس نے نئی گاڑی چلانی سیکھی ہو، اور میں اگر ہارن دوں گا تو وہ گھبرا جائے گا، اور اس کا نقصان ہو گا، تو میں یہ نہیں چاہتا۔ میں نے کہا کہ دفع کرو، اس کا نقصان ہوتا ہے تو ہو، تمہیں اس سے کیا۔ بجا ہارن، اور اس کو ہٹا۔ کہنے لگا، کہ نہیں۔۔۔۔۔ میں معافی چاہتا ہوں ابو۔ یہ ذرا مشکل ہے۔ میں یہ اس لیئے نہیں کر سکتا کہ یہ میرا Colleague ہے۔ اور میں نے کہا، اچھا۔ کیا یہ یونیورسٹی میں تمہارے ساتھ پڑھتا ہے یا پڑھاتا ہے۔ ان نے کہا کہ نہیں، پڑھتا پڑھاتا نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تمہارا Class Fellow ہے ؟ تو اس نے کہا کہ نہیں، ابو یہ میرا Class Fellow نہیں ہے، بلکہ یہ میرا Road Fellow ہے۔ ہم ایک ہی سڑک پر جا رہے ہیں۔ اس رشتے سے ہم ایک دوسرے کے Fellow ہیں، ہم اسے تنگ نہیں کر سکتے۔ تو میں نے کہا کہ بیوقوف! تجھے یہ علم حاصل کرنے کے لیئے یہاں بھیجا تھا نالائق آدمی۔ تم کو کہا تھا کہ Ph.D کر کے آؤ۔ یہ تو تم بالکل ہی میاؤں میاؤں سے ہو گئے ہو۔ یہ کتنی بری بات ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ دیکھو واپس اپنے گھر لاہور چلو، اور بے صبری کی زندگی بسر کرو، اور وہاں کا ٹریفک دیکھو۔ یہاں آ کر تو تم بالکل نالائق ہو گئے ہو۔ اس آدمی کو اپنا Road Fellow بتا رہے ہو، اور اس کی عزت افزائی کے لیئے، اور اس کو نقصان نہ پہنچانے کے لیئے یہ سب کر رہے ہو۔ ہم تو وہاں ذرا کوئی قریب آ جائے تو ایسے دھکا دے کر گزرتے ہیں کہ اس کی جان نکال دیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ صبر کی بات تم نے کہاں سے سیکھی۔ اس نے کہا کہ صبر ہمارے ہاں عام ہے۔ بلکہ ہمارے مسلمانوں میں تو صبر کی بہت تلقین ہے۔ اور ہم اسے پڑھتے تھے، لیکن اس کو گہرائی کے ساتھ نہیں سمجھتے تھے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ یہاں آ کر مجھے عملی زندگی کا پتا چلا کہ صبر کے کیا معنی ہیں، اور اس کے کیا فوائد ہیں، اور یہ انسانی زندگی کو کس قدر استحکام عطا کرتا ہے۔ یہ بات بار بار دہرائی جاتی ہے کہ اللہ جو ہے، آپ اس پر پورا پورا بھروسہ رکھیں اور اللہ جو ہے، وہ آپ کے ہر مسئلے کو حل کرنے کے لیئے آپ کے خالق کے طور پر موجود ہے، اور “ لا تقنطو من رحمت اللہ ۔“ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتا چاہیے، جب تک آپ کے ہاتھ میں صبر کی ڈوری نہیں ہو گی۔ اس وقت تک آپ لا تقنطو کے معنی نہیں سمجھ سکیں گے۔ میں نے کہا کہ بھائی یہ تُو کچھ عجیب سی بات کر رہا ہے، میں دین کے بارے میں اتنا گہرا مطالعہ نہیں رکھتا۔ جتنا کہ تو مجھ سے بات کر رہا ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ عمل ہو، تیزی ہو۔ آگے بڑھنے کے لیئے کچھ کرنا چاہیئے۔ اس نے کہا کہ ایک آئرن ہوتی ہے۔ آئرن جسے کہ Anvil کہتے ہیں۔ جس کے اوپر لوہار لوہا رکھ کر کوٹتے ہیں تو وہ بے بس کر دینے کا سب سے بڑا Symbol ہے نا۔ اس نے کہا کہ جب لوہار آئرن کے اوپر چیزیں کوٹتا ہے تو کئی ہتھوڑے ٹوٹ جاتے ہیں، لیکن آئرن اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے۔

جب صبر کی اس نے یہ بات کی تو میرے ذہن میں اپنا بچپن آ گیا کہ میرے گاؤں میں ایک ہماری تائی تھی۔ تائی میری اصلی تو نہ تھی، لیکن گاؤں کی تائی سب کی تائی ہوتی ہے۔ جب میں آٹھویں میں ہوا تو میں اپنی تائی سے اچھے طریقے سے ملا۔ اس کا خاوند تیلی تھا، وہ فوت ہو چکا تھا۔ میری پیدائش سے پہلے فوت ہو چکا تھا، جس وقت تایا فوت ہوئے، اس وقت تائی کی عمر کوئی 19 برس تھی۔ تائی کے دو بچے تھے۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ میں اپنی زندگی خود بناؤں گی، اور ان دو بچوں کا بوجھ اللہ کے فضل سے ساتھ لے کر چلوں گی، لیکن کام تو مشکل تھا۔ بیل کی نگہداشت کرنا، کولہو چلانا، تیل پیلنا اور پھر اس کے بعد شام کے وقت کندھا لگا کے اس کو نکالنا۔ بہت مشکل کام تھا، یہ کام ایک بہت تگڑا اور تنومند مرد کر سکتا تھا۔ تو میں جب اس سے ملا تو وہ میرے لیئے ایک ایسا کردار تھی جیسا کہ آپ نے ریڈرز ڈائجسٹ میں عام طور پر پڑھا ہو گا۔ The most unforgettable character I ever met میں نے دیکھا کی تائی کے پاس ایک چھوٹی سی رنگین سی پیڑھی تھی۔ وہ ہر وقت اس کو اپنے ساتھ رکھتی تھی۔ بیل کے پیچھے چل رہی ہے تو پیڑھی اس کے ہاتھ میں ہے۔ کھانا پکا رہی ہے تو پیڑھی اس کے ہاتھ میں ہے۔ رنگین سی، بڑی خوبصورت سی تھی۔ کوئی بھی کام کر رہی ہے تو پیڑھی اس کے ساتھ ہے۔ وہ اس کو ہر وقت اپنے قریب ترین رکھتی تھی۔ میں نے کبھی اس کے بارے میں اس سے پوچھا نہیں، لیکن میں اس سے متاثر ضرور تھا کہ یہ ایک نئی طرز کی چیز ہے جو اس نے بڑی احتیاط سے اپنے پاس رکھی ہوئی ہے۔

ایک دن جب اس نے مجھے ساگ اور روٹی دی، اور میں قریب رکھی پیڑھی پر بیٹھنے لگا، تو اس نے کہا کہ نہیں پت (بیٹا) اس کے اوپر نہ بیٹھنا۔ دوسری دو پڑی ہیں، ایک چھوٹا سا موڑھا بھی پڑا ہوا ہے۔ تو میں نے کہا کہ تائی اس کے اوپر کیوں نہ بیٹھوں۔ تو اس نےکہا کہ یہ بڑی ادب والی پیڑھی ہے۔ کہنے لگیں جب تیرا تایا فوت ہوا تھا، اور میں 19 برس کی بیوہ تھی، ایک لڑکی سی تھی نا تو میرے اوپر مشکلات کا ایک پہاڑ ٹوٹا تو ہمارے گاؤں کے ایک مولوی صاحب نے کہا کہ کریم بی بی فکر نہ کرنا۔ اللہ جو ہوتا ہے وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان اللہ مع الصابرین ہ اگر تو صبر کرئے گی تہ اللہ تیرے ساتھ ہو گا، اور اللہ سے بڑی Company کس کی ہو سکتی ہے۔ کہنے لگی کہ میں بڑی خوش ہوئی، اور میں نے تہیہ کیا، اور میں نے دو رکعت نماز نفل پڑھے، اور میں نے کہا “ اے اللہ مجھے تقویت عطا فرما کہ میں صابروں میں سے ہو جاؤں، اور صابرانہ زندگی بسر کروں۔“ چناچہ اسی تہیہ کے ساتھ میں نے زندگی بسر کرنا شروع کر دی، اور میں کرتی رہی۔ ایک دن مجھے خیال آیا کہ کیا واقعی اللہ ہر وقت میرے ساتھ موجود ہے۔ یہ خیال آنے کے ساتھ ساتھ میرے اوپر ایک ذمہ داری عائد ہو گئی کہ اللہ جب موجود ہے، تو ہے، آتا بھی ہے تو میں اس کو بٹھاؤں گی کہاں؟ اللہ کے لیئے تو ایک اچھی سی کرسی ہونی چاہیے نا۔ وہ میرے ساتھ جو ہے تو میں نے ایک پیڑھی لی۔ بڑی اچھی سے، رنگین سی، اور اس کے اوپر یہ نوار لگائی، اور میں اس کو ہر وقت ساتھ رکھتی ہوں۔ چونکہ : ان اللہ مع الصابرین ہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ہے۔ اس لیئے ہم میں سے کوئی بھی اس پر نہیں بیٹھ سکتا۔

جب میں نے یہ دیکھا کہ صبر کی ایک کہانی میرے سامنے ہے، میری زندگی کے درمیان سے ہر کر گزری ہے، تو پھر مجھے خیال آیا کہ یہ جو میرا بیٹا ہے، یہ ٹھیک ہی کہتا ہے، اور اس کی یہ بات وزن رکھتی ہے، لیکن میری زندگی کی تربیت کچھ اس انداز سے ہوئی تھی کہ دبادب “ چھتی“، زیادہ جلدی، ترقی کرنے کی خواہش کرنا، زیادہ اوپر چڑھنے کی کوشش کرنا، اور سہ استحکام، اور وہ خوبی نہیں ملتی تھی جو انسان کا طرہ امتیاز ہونا چاہیے،لیکن ذہن میں یہ خیال آ چکنے کے بعد بھی میرا جو دل ہے وہ اس پر ٹکا نہیں۔

پھر میں جب امریکہ سے یہاں آ گیا، تو میں یہاں آ کر سوچا کہ مجھے کسی مولوی سے یا کسی دین کے معاملات کو گہرائی سے سمجھنے والے سے یہ پوچھنا چاہیئے کہ صبر کیا ہوتا ہے۔ اور کیا کرنا چاہیے اس کے لیئے۔ تو میرے ایک دوست تھے مولوی موسٰی۔ وہ بہت چھریرے بدن کے آدمی، بہت پیارے مولوی، بڑے Enlighted بڑے عجیب طرز کے آدمی تھے۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میری ان کے ساتھ وابستگی کیسے ہوئی۔ جس زمانے میں میں سمن آباد رہتا تھا، یہ لاہور کا ایک علاقہ ہے۔ وہاں جمعہ کی نماز میں جس مسجد میں پڑھنے جاتا تھا وہاں مولوی موسٰی جو تھے، وہ نماز پڑھاتے تھے، اور خطبہ دیتے تھے۔ وہاں ایک دفعہ یہ ہوا کہ مولوی صاحب خطبہ دے رہے تھے، اور منبر پر کھڑے تھے، اور لوگ بالکل چوکس ان کی باتیں سن رہے تھے، اور وہ خطبہ یہ تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ نے کہا کہ جن لوگوں نے زکٰوۃ دینے سے انکار کیا میں ان سے بکرے کے گلے کی رسی تک لے کر رہوں گا، کیونکہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی حکم ہے۔ سب انکاری ہو گئے تھے نا کہ ہم زکٰوۃ نہیں دیتے۔ پیسوں مے معاملے میں انسان کمزور ہوتا ہے۔ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ نے یہ بات غصے سے کہی۔ تو حضرت عمر رضی اللہ نے کہا، اے امیر المومنین ! ذرا آپ رکیں، اور اس کے اوپر غور فرما لیں، تو انہوں نے غصے سے کہا “ اے عمر رضی اللہ ! یہ تیرے منہ سے میں کیا سن رہا ہوں۔“ جب مولوی صاحب نے یہ بات کی، تو پیچھے ایک مڈل سکول میں کچھ بچے فٹ بال کھیل رہے تھے۔ زور سے کسی نے کک جو ماری تو وہ فٹ بال ہوا میں تیرتا ہوا، اچھلتا ہوا مسجد کے صحن میں آ گرا۔ جہاں ہم سب نمازی بیٹھے تھے۔ تو مولوی صاحب منبر پر کھڑے تھے۔ انہوں نے بغیر کسی قسم کے Rowdyism کے، وہ ہم کو چھوڑ کے باہر نکل گئے۔ وہاں فٹ بال پڑا تھا۔ تین قدم پیچھے ہٹ کر انہوں نے اتنی زور سے کک لگائی کہ وہ دو بلڈنگ طے کرتا ہوا واپس سکول میں جا گرا جہاں سے بچوں نے کک مار کر اس کو مسجد میں گرا دیا تھا، اور پھر وہ آ کر منبر پر کھڑے ہو گئے۔ اور انہوں نے کہا کہ “ اے عمر رضی اللہ ! تُو یہ کیا کہہ رہا ہے اور میں حیران ہر رہا ہوں کہ جاریہ کے زمانے میں تو تُو اتنا مضبوط تھا، اور جب کہ یہ معاملہ درپیش آیا ہے تو اتنا نحیف ہو رہا ہے۔ مجھے قسم ہے اللہ کی کہ جو حکم مجھے دیا گیا، میں اس پر پورا عمل کروں گا۔“

میں نے کک مارتے ہوئے ایک مولوی کو دیکھا تو عجیب سا لگتا ہے نا۔ جب خطبہ ختم ہو گیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ مولوی صاحب یہ سب ۔۔۔۔۔۔ ! تو کہنے لگے کہ وہ بچے کھیل رہے تھے، اور بچوں کا شوق ہوتا ہے تو ان کا فٹ بال آ گرا تھا، تو وہ بچے خوفزدہ تھے کہ مسجد میں کیسے جائیں۔ بڑے بزرگ لوگ جھڑکیاں دیتے ہیں نا۔ تو یہاں بھی بہت سے ایسے لوگ ہوں گے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ ان کا فٹ بال تو ان کو واپس ملنا چاہیئے نا۔ تو میں نے وہاں جا کر کک لگا دی۔ اور اس کو واپس پھینک دیا۔ میں نے کہا کہ مولوی صاحب میں آپ کی تلاش میں ہوں۔ مجھے یہ بتائیے کہ صبر کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اشفاق صاحب! آپ وہاں سے سٹارٹ لے سکتے ہیں کہ جب بہت ٹریفک ہو، اور جب گاڑیوں میں گاڑیاں پھنسی ہوئی ہوں، آگے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو، اور آپ اپنی کار چلا رہے ہوں تو آپ پیں پیں نہ کریں۔ ہارن نہ بجائیں بلکہ Steering پر اپنی انگلیاں بھی بے چینی کے عالم میں نہ بجائیں اس کو صبر کہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ پھر ہم کیا کریں۔ کہنے لگے کہ بجائے اس پر انگلیاں مارنے کے یا کسی کو جھڑکنے کے آپ اس وقت ورد شروع کر دیں۔ اللہ کا ذکر کیونکہ یہ آپ کو آسانی دے گا۔ آپ اس وقت آرام سے “یا لطیف، یا ودود“ پڑھنا شروع کر دیں۔ آپ ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہوں تو بے چینی کا مظاہرہ نہ کریں، کیونکہ ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ بےچین ہو، کیونکہ اللہ اس کے ساتھ ہے۔ اس کا دین اس کے ساتھ ہے، اور اس کو جو روشنی ملتی ہے، وہ اپنے پرانوں سے، بزرگوں سے، اپنے پرکھوں سے، ساتھیوں سے ملتی ہے، اس کو بھگانے کی ذرا بھی ضرورت نہیں۔ آپ اس وقت ورد کریں “یا لطیف، یا ودود“ تو آرام سے بیٹھے رہیں۔ جب ٹریفک کھلے گا، مشکل دور ہو گی، تو پھر آپ نکل پڑیں۔ بجائے اس کے کہ آپ بے چینی کا شکار ہوں۔

مجھے یاد آیا کہ جب میں چھوٹا تھا۔ چھوٹے سے مراد، جب میں میٹرک میں تھا تو میرے ایک خالو تھے۔ ان کے پاس ایک بڑے اعلی درجے کی موٹر سائیکل تھی، بڑے سائز کی۔ انڈین موٹرسائیکل۔ میرے خالو پمپ شوز پہنتے تھے، نہ جانے اس کو پمپ شوز کیوں کہا جاتا تھا۔ بس یہ ایک خاص لفظ تھا ان کے لیئے۔ وہ پمپ شوز جس کے اوپر کالی ٹائی لگی ہوتی تھی، پہن کر بڑی شان کے ساتھ موٹرسائیکل پر بیٹھ کر لاہور کی سڑکوں پر دوڑاتے تھے۔ اس زمانے میں لاہور میں 30-25 کاریں ہوں گی، اور وہ ایک ہی موٹرسائیکل تھا۔ جو پتہ نہیں اکیلا ہی 1200cc کا ہو گا۔ اتنی اونچی آواز، اور اتنی اونچی شان، اور اس کے اوپر نہایت خوبصورت آدمی بیٹھا ہوا ہے۔ اور جب وہ لاہور کا چکر لگاتے تھے تو ساری دنیا ان کو منہ میں انگلیاں ڈال کر دیکھتی تھی۔ اونچی گھڑی باندھتے تھے، یعنی تھوڑی اوپر کو، اور عجیب طرح کی خوشبوئیں لگاتے تھے۔ میں ان کو دیکھتا تھا جو ہماری خالہ تھیں، خالہ رابعہ۔ جب یہ موٹرسائیکل پر نکلنے لگے، اور خوب چکر لگانے لگے، تو میں نے اپنی خالہ کو کافی پریشان دیکھا، کیونکہ میرے خالو کی زندگی میں کچھ اور ہی طرح کا ٹیڑھا پن پیدا ہو رہا تھا۔ اور وہ کچھ اور طرح سے، اور کچھ اور لوگوں میں Popular ہو رہے تھے۔ اور جب خاوند میں ذرا سی بھی ٹیڑھ پیدا ہو جائے تو بیوی کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میری خالہ پوچھتی تھی کہ کس طرح سے ہو کہ اکرام خان صاحب (میرے خالو) جو ہیں، وہ راستے پر آ جائیں، اور میری محبت میں مبتلا رہیں، اور ہمارا گھر آباد رہے۔ تو اس وقت مجھے یاد ہے، کسی نے انکو بتایا تھا، میں سمجھتا ہوں کہ آج بھی یہ ذکر بڑا کارآمد ہو گا، خاص طور پر خواتین کے لیئے کہ جب گھر میں اس طرح کی الجھنیں ہوں تو کیا کیا جانا چاہیے۔ تو انہیں کسی نے یہ بتایا تھا کہ آپ ایک ہزار مرتبہ “ یا ودود “ کا ورد کر کے اپنے خاوند کو کھانے پر دم کر کے کھلائیں۔ اس سے محبت اور یگانگت بڑھتی ہے۔ یہ وہی ذکر ہے نا، جو مولوی موسٰی نے بتایا تھا کہ سٹیئرنگ پر انگلیاں نہ بجائیں، بلکہ “ یا لطیف، یا ودود “ کا ورد کریں۔ اس سے آپ کا بھی فائدہ ہو گا۔ اللہ کا ذکر بھی ہو گا، بے چینی بھی کم ہو گی جو ہمارے ہاں Build Up ہو رہی ہے، میں اپنی خالہ کو دیکھتا تھا کہ وہ بہت پریشان تھیں، لیکن اللہ کے فضل سے، اور اس رُخ پر استقامت اختیار کرنے سے، ان کی یہ الجھن دور ہو گئی، اور میرے خالو جو تھے، وہ پہلے والے خالو بن گئے۔

پھر مجھے یاد ہے کہ وہ Piles کی ظالم بیماری سے فوت ہو گئے۔ ان کا جنازہ رکھا تھا گھر میں۔ میری والدہ، اور چچی تھیں، لیکن رونے والی عورتوں میں کچھ عورتیں ایسی بھی شامل تھیں، جو بہت زور سے رو رہی تھیں، جن کو ہم نہیں جانتے تھے۔ پھر میرے ذہن میں خیال آیا کہ کتنا صبر کیا جانا چاہیے۔ مولوی موسٰی نے کہا بے چین ہونے سے، گھبڑاہٹ سے، چیں چیں کرنے سے، گھر والوں سے لڑنے سے، وہ حسن جو اللہ تعالٰی نے آپ کے اندر عطا کیا ہے، وہ نصیب نہیں ہوتا۔ باہر کا حسن تو آدمی میک اپ کر کے کر لیتا ہے، لیکن وہ زیادہ دیر تک ساتھ تو نہیں دیتا نا۔ ایک اندر کا حسن بھی ہوتا ہے۔

میں بڑی دیر تک روم جو کہ اٹلی کا دارالحکومت ہے، وہاں رہا ہوں۔ وہاں میں پڑھتا تھا اور پڑھاتا تھی تھا۔

خیر۔۔۔۔۔ وہاں 53ء میں ایک صاحب ہماری یونیورسٹی میں لیکچر دینے آئے جو کہ بہت نامی گرامی انسان تھے۔ ان کا نام تھا۔۔۔۔۔ سر الیگزینڈر فلیمنگ۔۔۔۔ یہ وہ صاحب تھے، جنہوں نے Pencilline کو Discover کیا تھا۔ نوبل انعام یافتہ، سر کا ان کو خطاب ملا تھا۔۔۔۔۔ تو سر فلیمنگ سے بہت سی باتیں ہوئیں۔ لیکن ایک موٹی بات جو انہوں نے کی تھی، کہ دنیا میں سب سے زیادہ صبر کرنے والا شخص جو ہوتا ہے، وہ Scientist ہوتا ہے۔ تو یہ میرے لیئے نئی بات تھی، اور اچنبھے کی بات تھی۔ مجھے مشرقی نوجوان ہونے کی حثیت سے شاید حق پہنچتا تھا کہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے پوچھوں کہ سر اس کی تفصیل کیا ہے۔۔۔۔؟ تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔۔۔۔ ہوٹل میں ٹائم طے کیا۔ بڑی مہربانی تھی آنجہانی کی کہ انہوں نے ٹائم دیا۔ بڑی دیر تک ان کے پاس بیٹھا۔۔۔۔ بڑے سوالات کیئے۔۔۔۔ میں آج اس کا ایک چھوٹا سا قصہ آپ کو عرض کرتا ہوں۔ میں نے کہا کہ سر یہ جا آپ ایجادات کرتے ہیں، اور جو آپ اتنے رتبے کے Scientist ہوتے ہیں، یہ آپ کو کیسے آ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں ہمارا کوئی اتنا بڑا کمال نہیں ہوتا۔ ہم تو بس لیبارٹری جاتے ہیں، اور لیبارٹری میں حاضر رہتے ہیں، اور چوکس رہتے ہیں، اور ہم کوئی کام نہیں کرتے۔ بس ہم لیبارٹری میں ڈانس کرتے ہیں۔ as a dervesh's dance........ کہنے لگے کہ درویش کا مطلب جانتے ہو؟ میں نے کہا کہ سر وہ تو ہے ہی ہمارا۔ یہ آپ نے Borrow کیا ہے ہم سے۔ کہنے لگے، جیسے ایک درویش ناچ کرتا ہے، اسی طرح سے ایک Scientist اپنی لیبارٹری میں ہر وقت۔۔۔۔۔۔ ہمہ تن اس ناچ میں لگا رہتا ہے۔

The dance of intelligence... dance of life... The dance of something to have

اچھا یہ میرے لیئے نئی بات تھی کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے، اور انہوں نے کہا کہ علم جو ہے، وہ عالم مطلق کے پاس ہے۔ اللہ کے پاس ہے۔ انسان کے پاس نہیں ہوتا۔ پھر وہ ذرا سے ڈرے کیونکہ میں بالکل Young تھا۔ کہنے لگے ? Do you believe in god میں نے کہا سر Believe کیا کرنا ہے، وہ تو ہے ہی ہمارا۔۔۔۔ تو کہنے لگے اچھا ۔۔۔۔۔Thanks God that you believe in God میں آپ کو بتاتا ہوں کہ علم جتنا بھی ہے، وہ اللہ کے پاس ہے، اور وہ اپنی مرضی کے مطابق جب چاہتا ہے، انسانوں کو عطا کرتا رہتا ہے۔۔۔۔ نہ پہلے نہ بعد میں۔۔۔۔ انسان اپنی کوشش، اور جدوجہد سے اور اپنی ہمت سے علم حاصل نہیں کر سکتا۔۔۔۔ میں نے کہا کہ جی یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔ ہم تو کوشش، جدوجہد اور Struggle کے بندے ہیں۔۔۔۔ اس کے بغیر تو ملتا ہی کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں، اس کے لیئے آپ کو ایک Constant ایک مسلسل حاضری اور ڈانس کرنے کی ضرورت ہے۔ جھولی پھیلا کر، کشکول اپنا لے کر موجود رہو کہ کب علم عطا ہو۔ وہ جب چاہتا ہے، دیتا ہے، تو وہ کہنے لگے کہ کئی ہزار برس سے درختوں کے اوپر سے سیب زمین پر گِر رہے تھے کسی نے نوٹس نہ لیا۔ سیب تو گرتا ہی رہتا ہے نا۔ پھر اللہ نے جب علم عطا کرنا مقصود جانا تو پھر اس نے ایک فرشتے سے کہا کہ جا یہ جو ایک بابا کوٹ پہن کرسیب کے درخت کے پاس بیٹھا ہوا ہے، اس کے کان میں جا کر کہہ دے کہ یہ Gravity ہے۔ تو فرشتے نے غالباً کہا ہو گا کہ Gravity........ Gravity۔ پھر اس نے سوچا ہو گا کہ یہ کیسے گرا، اور اس کے اوپر اس نے کام کرنا شروع کر دیا، اور اس طرح سے، علم صرف عالم مطلق اپنی مرضی سے عطا فرماتا رہتا ہے۔

پھر انہوں نے مجھے بتایا دیکھو! عمل اور کوشش سے کچھ نہیں ہوتا۔ ایک بیماری بڑی خوفناک ہے، اور اس کا علاج نہیں ہے، اور بڑے لوگ اس سے مر رہے ہیں۔ اس کی ریسرچ پر ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں، اور ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں پاؤنڈ ڈالر خرچ ہو رہے ہیں، لیکن اس کا کوئی سر پیر معلوم ہی نہیں ہو رہا ہے۔ میں ڈر گیا، میں نے کہا کہ یہ ایسی کون سے بیماری ہے۔ کہنے لگے، اس کی کینسر کہتے ہیں۔ مجھے پتا ہی نہ تھا کہ کینسر کیا ہوتا ہے۔ میں کہا کہ اچھا جی۔ میں نے تو کبھی نہیں سنا۔ ہاں ایک بیماری ٹی‌بی ہے۔ کہنے لگے کہ یہ ٹی بی سے بھی خطرناک ہے۔ ہم کوشش کرتے رہیں گے۔ ہم ڈھونڈتے رہیں گے۔۔۔۔ ہم تلاش کرتے رہیں گے۔۔۔۔ لیکن اس کا علم صرف اسی سے عطا ہو گا، اور وہی اس کی Date مقرر کرے گا۔۔۔۔ کوشش ہماری جاری رہے گی۔ کیونکہ یہ اس کا علم ہے۔ میں نے کہا سر‌! آپ کے خیال میں اس کا علاج کب مل جائے گا؟ تو کہنے لگے کہ میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا، میرا اندازہ ہے کہ شاید 1960ء یا 1962ء میں اس کا علم ہر جائے۔

تو پیارے لوگو! 1960ء، 1962ء گزر کیا۔۔۔۔ 90ء گزر گیا۔۔۔۔ 92 گزر گیا۔۔۔۔ اب 98ء ہے۔۔۔۔ وہ جب چاہے گا، عطا کرے گا۔ ہمیں اپنی جھولی پھیلا کر اس کے حضور مسلسل رقص کرتے رہنا چاہیے، تا کہ وہ دے۔ اور صبر اختیار کرنا چاہیے، جو وہ Scientist اپنی ریسرچ میں، اور اپنی تحقیق میں کرتے ہیں۔

اللہ آپ کو آسانیاں دے، اور آسانیوں کو تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ (آمین)
 

فریب

محفلین
صبر، ڈسپلن اور آزادئ کشمیر​

ہم گھر میں کل تین بڑے تھے۔ ایک دادا، ایک دادی اور ایک بہو اور ارسلا۔ اور ارسلا بڑی بیمار تھی۔ دو برس کی عمر کی ایک نہایت پیاری، خوبصورت، سنہرے بالوں والی بچی۔ اسے شدید بخار تھا اور موسم یہی سردیوں کا تھا۔ بخار اترنے کا نام نہیں لیتا تھا اور ڈاکٹروں نے بڑی کوشش کی۔ بڑی اینٹی بائیوٹک دی تھیں، لیکن وہ ان کے قابو میں نہیں آ رہی تھی۔ ارسلا بڑی بے چین تھی۔ اس کے دل کی دھڑکن بڑی تیز تھی۔ وہ صرف دادا کے ساتھ چمٹ کر ہی تھوڑی دیر آرام کر سکتی تھی۔ میں اس وقت بڑا جوان تھا، ابھی ساٹھ برس کا نہیں ہوا تھا۔ ابھی پانچ ماہ کم تھے اور میں “ تگڑا“ تھا۔ ارسلا کا سب سے بڑا تقاضا یہ تھا کہ وہ میرے سینے کے ساتھ لگ گئی، جس طرح چٹان پر کوئی مینڈک چپکا ہوتا ہے۔ میں پیچھے کی طرف جس قدر بھی زاویہ بنا سکوں‘ تو ٹھیک۔ لیکن اگر سیدھا کھڑا ہوتا یا عموداً تو پھر وہ رونے لگتی۔ اتنی دیر تک پیچھے کو جھک کر کھڑے رہنا کافی مشکل تھا۔ لیکن اس کی خوشنودی اور آرام مقصود تھا۔ اتنی سردی میں اس کا پسینہ اس کی ناک سے اس کے ماتھے سے ٹپک رہا تھا۔ میرے نیلے کڑتے پر اور بڑے بڑے “چٹاک“ پڑ رہے تھے اور بجھے پتہ چل رہا تھا کہ یہ میرے کڑتے کا رنگ کچا ہے۔ جب بھی قطرہ گرتا مجھے اور تکلیف ہوتی اور دوسرے اپنے کڑتے کی بھی کہ اس کا رنگ ٹھیک نہیں ہے۔ اس کیفیت سے ہم گزر رہے تھے۔ رات کے وقت میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں ایک ایسی کرسی پر بیٹھتا ہوں، جس کی “ ڈھو“ (سہارا) ذرا سلانٹ ہو تو ارسلا اسی طرح میرے سینے کے اوپر آرام سے لیٹی رہے‘ کیونکہ وہ اپنی ماں پر اعتماد کرتی تھی نہ اپنی دادی کے پاس جاتی تھی۔ اپنے بستر پر نہیں لیٹتی تھی۔
آپ ایسا کریں کہ میں کرسی پر بیٹھتا ہوں اور مجھے ٹی وی لگا دیں اور اس کی آواز بند کر دیں۔تصویر گزرتی رہے گی اور میں دیکھتا رہوں گا اور میرا دل لگا رہے گا۔ اس رمانے میں ٹی وی بارہ بجت تک چلنے لگا تھا۔ وہ وقت بھی گزر گیا اور میں اور ارسلا ایک کمرے میں بیٹھے رہے۔ میری بیوی بڑی پریشان تھی اور ارسلا کی ماں بھی۔ میرا بیٹا بھی بار بار آتا تھا اور کہتا تھا ابو آپ کو تکلیف ہو رہی ہے، میں نے کہا مجھے اپنی تکلیف سے زیادہ اس کی تکلیف کا خیال ہے کہ میں اس کی کیسے مدد کروں کہ اس کی تکلیف کسی طرح سے ذرا سی کم ہو جائے اور مجھے دکھ اس بات کا تھا کہ میں اپنے عہد کا بڑا لائق آدمی تھا۔ لائق پڑھائی لکھائی کے اعتبار سے نہیں، میری ہابی تھی کہ مشینوں مے ساتھ کھیل سکتا تھا۔ اس عمر میں، میں اپنی گاڑی کا تیل گھر پر بدلتا۔ آپ تو تیل تبدیل کروانے جاتے ہیں، میں گاڑی کے نیچے لیٹ کر بڑے رینچ سے کھول کر ڈبہ رکھ کر تیل بدلی کر لیتا تھا۔ میں پرانی ٹوٹی پھوٹی سولڈر وائر کو ٹانکے ٹچ لگا کر بچوں کو لوکل ریڈیو سیٹ بنا دیتا تھا۔ لاہور سٹیشن بجتا تھا اس کے اوپر۔ میں نہایت Sensitive ٹرانسٹرز کو بغیر گیلے کپڑے میں پکڑے ٹانکے لگا دیتا تھا اور ٹھیک رہتا تھا۔ یہاں میں پریشان تھا کہ کچھ نہیں ہو رہا اور کئی دفعہ ایسی کفر کی سی حالتوں میں سے گزرا کہ یا اللہ یہ کیا ہے؟ ایسا کس لیے ہے؟ اور وہ میری بہت پیاری پوتی تھی اور ہمیں ڈر تھا کہ اگلا بیٹا نہ ہو جائے۔ مجھے کم از کم ڈر تھا۔ ہمارے گھر میں ماشاء اللہ سے بڑے بیٹے تھے اور ہمیں آرزو تھی پوتیاں ہوں۔ میں نے کہا اللہ میاں مجھے پوتی سے نواز اور پھر اللہ کی مہربانی ہوئی اور جب ارسلا پیدا ہوئی تو میں نے اس کا نام ارسلا رکھا‘ یعنی ارسال کی ہوئی۔ تو پھر مجھے خیال آیا کہ دیکھ میں کیسی چیزیں ایجاد کر لیتا ہوں۔ مجھے اللہ نے یہ خاص صلاحیت دی ہے۔ میں اب اس کے ساتھ لیٹا ہوا ہوں اور وہ چھوٹا سا مینڈک میرے سینے کے ساتھ چپکا ہوا ہے۔ مجھے طرح طرح کے خیال آ رہے ہیں۔ ان میں کچھ مثبت بھی تھے، کچھ منفی بھی۔ اللہ کے شکرانے کے بھی اور ناراضگی کے بھی۔ عجیب و غریب خیالات اور اس کی کیفیت ٹھیک نہیں ہو رہی تھی۔
مجھے یاد آیا، جب میں روم میں رہتا تھا اور میں یونیورسٹی جاتا تھا۔ تو صبح ناشتے میں ہر روز میں ایک چیز سینڈوچ لیتا تھا، وہ پانچ روپے کا ملتا تھا اور چائے میں اپنے کمرے میں بنا لیتا تھا۔ وہاں چائے کا رواج نہیں ہے‘ کافی پی جاتی ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ پانچ روپے کا تو بڑا مہنگا ہے۔ اس میں تھوڑا سا Cheese اور دو سلائس ہوتے ہیں اور وہاں میرے پاس ایسی کوئی چیز نہیں تھی کہ جس سے میں ہر روز سستے بھاؤ ایک سینڈوچ تیا کر سکتا۔ میں نے ایک دن یوں کیا کہ وہاں سے دو سلائس لیے“ آٹھ آنے کے دو سلائس اور آٹھ آنے ہی کا تقریباً Cheese کا ٹکرا بھی لے لیا اور اوپر کمرے میں آگیا۔ میں ٹھنڈا کھانے کا عادی نہیں تھا۔ گرم کھانے کی عادت بڑی ہوئی تھی۔ میں نے کہا اسے گرم ہونا چاھیے۔ میں نے اسے اس جگہ کے اوپر رکھا، جہاں میں اپنی ٹائی اور سوٹ استری کیا کرتا تھا، میں نے استری گرم کی اور اسے ان سلائیز کے اوپر رکھا، جس سے بہترین چیز سینڈویچ تیار ہو گیا۔ اب مجھے وہ ایک روپے میں پڑنے لگا۔ آپ کو بھی بتا دوں کہ استری سے Cheese سینڈوچ بڑااچھا بن جاتا ہے۔ جب میں نے یہ بات سوچی تو میں نے کہا‘ میں ارسلا کی مدد کیوں نہیں کر سکتا اور اس کے ساتھ ہی چونکہ میں ٹیکنیکل چیزوں کے ساتھ وابستہ تھا‘ جو بھی چیز لینی‘ سب سے پہلے اس کا مینول مطالعہ کرنا کہ یہ کیا کہتا ہے۔ اس کے مطابق ہی اسے استعمال کرتا تھا۔ لاہور میں سب سے پہلے ٹیپ رکاڈر جس میں آواز بھرتے ہیں، وہ میں نے ہی خریدا تھا۔ وہ اس وقت یہاں کے سٹوڈیوز میں بھی نہیں تھا۔ اتنا شوق تھا ان چیزوں کا۔ میں سوچ رہا تھا اللہ مجھے معاف کرے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے استھ اس کا مینول کیوں نہیں آتا۔ میری آرزو تھی‘ ایک دل کی پکار تھی کہ یا اللہ اس کا بھی کوئی مینول ہو اور میں دیکھوں کہ خرابی کہاں ہے۔ یہاں ٹانکا لگانا ہے‘ یہاں نئے سرے سے پیچ کسنا ہے اور یہ میرے سامنے بیٹھ کے کھیلنے لگے گی‘ لیکن کوئی مینول ایسا نہیں آتا جو اس کے جسمانی عارضوں کو دور کر سکے۔ ایک مینول آتا ضرور ہے، جو انسان نبی، اللہ کی مہربانی سے ہم کو دیتا ہے۔ نبیوں نے بتایا ہے کہ زندگی کیسے بسر کرنی ہے۔ ہم کو تو اللہ نے بنا دیا بغیر ہمارے پوچھے ہمیں بنا دیا اور جب ہم بن گئے تو پھر ہم نے پاچھا کہ اے کوزہ گر تو نے یہ جو کوزہ بنایا ہے‘ اس میں ڈالنا کیا ہے ہمیں تو یہ بھی نہیں پتا۔ پھر اللی تعالٰی فرماتا ہے کہ میں نے تمہارا پرچہ‘ترکیب استعمال‘ نبیوں کے ذریعے دے دیا ہے تو اس کے مطابق کر لو جو خوش قسمت ہوتا ہے وہ اس پرچہ ترکیب استعمال کو استعمال میں لے آتا ہے‘ جو ہمارے جیسا کوتاہ بین ہوتا ہے وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ میں اپنے اس مینول کے بارے میں بھی غور کرتا رہا‘ لیکن پوتی کو کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ پھر ایسی ہی دوسری رات آ گئی۔ پھر مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ وہ علم جو میرے پاس ہے‘ وہ مجھے عطا کیا جارہا ہے۔ یہ ٹانکے لگانے یا گاڑی کا تیل بدلنے کا علم نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کسی مینول ہینڈلنگ سے کوئی تعلق ہے۔
مجھے احساس ہوا کہ مجھے اور ارسلا‘ دونوں دادا پوتی کو ایک صبر کی تلقین کی جارہی ہے کہ صبر کیا ہوتا ہے اور اس کے اندر انسان کیسے گزر سکتا ہے اور اسے کیسے گزرنا چاہیے۔ اس میں غصہ بھی آتا ہے‘ آدمی چڑتا بھی ہے اور وہ کہتاہے“Why Me" میری ہوتی جب کسی سے چڑتی ہے تو کہتی ہے داد “ وائی می“۔ میری پوتی نے تیزی، بلکہ بہت ساری تیزی کو اپنا لیا ہے۔ لیکن صبر انسان کو ڈسپلن سیکھاتا ہے اور یہ کس طرح سے انسان کو ادب کی تعلیم دیتا ہے اور ایک ایسی ترکیب میں گزارتا ہے کہ وہ ڈسپلن کی جانب آتا ہے۔
میں آپ اور ہمارا ملک اس لیے پسماندہ ہے کہ ہم میں ڈسپلن نہیں ہے۔ ہم منظّم نہیں ہیں۔ کیا نام ہے؟ ٹورنٹو ریڈیو کی بہت خوبصورت آواز۔ ہاں یوری انڈریو نامی اناؤنسر ہے۔ وہ مسلمان ہو گیا۔ جب میں کینڈا میں تھا تو میں نے اس کا ایک کیسٹ سنا۔ وہ بہت حیران ہے۔ کہتا ہے کہ وہ سورہ روم سن کر مسلمان ہوا۔ جس میں ہے کہ دنیا نے یہ کہا کہ ایران فتح ہو گیا اور ایران فتح ہو بھی گیا تھا۔ لیکن الہ کہتا ہے یہ غلط ہے۔ رومی ہارے نہیں فتح یاب ہوئے اور تاریخ بتاتی ہے کہ چھ دن کے بعد ہی پانسہ پلٹ گیا اور رومی فتح یاب ہو گئے۔ یوری کے دل پر پھر کچھ ایسی گزری کہ وہ مسلمان ہو گیا۔ خیر! میں یوری سے ملنے گیا اور اس سے کہا تم اسلام کو کیسے دیکھتے ہو؟ کہنے لگا" Tha Future of World is Islam, It belongs to Islam۔ میں نے کہا کیسی بات کرتے ہو؟ ہمارے ہاں بھی ایسی ہی باتیں ہوتی ہین۔ اس کی کوئی بنیاد کوئی منطق نہیں ہے۔ اس نے کہا، ہاں! اس کے پیچھے کوئی منطق نہیں ہے لیکن اس کے پیچھے ایک اور چیز ہے۔ اسلاپ ایک اور طرح کا مذہب ہے۔ تم لوگ اس کو نہیں سمجھو گے۔ تم نے پتہ نہیں کیوں یہ مذہب اختیار کر رکھا ہے۔
وہ کہنے لگا، جب امریکہ کے دو ہزار سنہرے بالوں والے گورے مسلمان ہو جائیں گے، کالے نہیں، ایک ہزار کینیڈین، چھ سو سیکنڈے نیوین ممالک مسلمان ہو جائیں گے، تو پھر ہمارا کافلہ نکل چلے گا اور ہم لوگوں کو بتا دیں گے کہ اسلام کیا ہے۔ میں نے کہا ہماری تعداد تو اکیلے ہی ماشاء اللہ چودہ کڑوڑ ہے۔ اس نے کہا نہیں۔ Sorry آپ غیر منظّم ہو اور ایسے غیر منظّم لوگ اتنا بڑا بوجھ نہیں اتھا سکتے۔ تب میرا دل دُکھ سے بھر گیا کہ اتنی بڑی اسلام کی فتح ہو گی۔ کبھی ہو گی۔ میں آپ شاید اس وقت ہوں نہ ہوں، لیکن کیا ہم اس میں شریک نہیں ہوں گے؟ میں نے یوری سے کہا÷ یار ! یہ تو ہمارا بہت پیارا دین ہے، تو تم اکیلے ہی کامیاب رہ جاؤ گے۔ دنیا داری میں بھی اور جب یہ وقت آئے گا تم گورے ہی کامیاب رہو گے۔ اس نے کہا، کیا کریں، بس اللہ نے یہ بات لکھ دی ہے۔ میں نے کہا کہ ہمارا حصہ کچھ نہیں؟ کہنے لگا، نہیں! تم پھر ایسے کرنا تم ہاتھ اوپر اٹھانا اور اونچی آواز میں کہنا ‘I am also Muslim“ تو ہم کہیں گے‘ اچھا “جُلی بسترا“ اٹھا کے پیچھے پیچھے چلتے آؤ‘ تم سے ہونا تو کچھ نہیں۔ ڈسپلن تم میں نہیں، تم ناچ سکتےہو، یا رو سکتے ہو، یا قتل ہو سکتے ہو یا قتل کر سکتے ہو۔
اللہ صبر سکھاتا ہے۔ میں نے اپنے طور پر محسوس کیا۔ ارسلا اب بڑی ہو گئی ہے اور اب تو ماشاء اللہ وہ اٹھارہ برس کی ہے۔ وہ نیوکلیئر فزکس کی بری اچھی طالبہ ہے اور میں اس سے کہتا ہوں اللہ کے واسطے یہ نیوکلیئر فزکس نہ پڑھ۔ تمہیں پکڑ ہی نہ لیں۔ بہر کیف یہ ایک تیسری بات ہے۔ وہ کہتی ہے‘ نہیں دادا یہ مجھے بہت پسند ہے۔ ایک صبر ہوتا ہے جو مجبوری کا ہے کہ کیا جاتا ہے، ہاں ٹھیک ہے جی“ خیر کوئی گل نئیں اللہ نے کہیا تے فیر صبر ای کر لینے آں“ یہ صبر نہیں ہے، یہ تو ڈسپلن نہیں سکھاتا۔
میں اس دُکھ میں سے گزرتا تھا‘ پھر اللہ نے فضل کیا اور مجھے یہ بات سمجھ میں آئی۔ میں دفتر آیا ہوا تھا کہ میری بیوی نے ٹیلیفون کیا کہ ارسلا کا بخار اتر گیا ہے اور وہ مٹی کے کھلونے جو آپ نے اس کے لیے بہاولپور سے منگوائے تھے‘ ان سے کھیل رہی ہے۔ مجھے آج تک یہ سمجھ نہ آئی کہ اس کا بخار اچانک کیسے اتر گیا۔ میں اس وقت دفتر میں سارا کام چھوڑ کر بھاگا اور حیران رہ گیا کہ یہ کیسے ہوا؟ میں نے پھر اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا کہ میری وہ ساری باتیں معاف کی جائیں اور خداوند تعالٰی جو آپ نے درس دیا ہے‘ میں معلوم نہیں کہ ثابر قدمی اس پر قائم رہ سکوں گا یا نہیں۔ مجھے اس کا اندازہ ہو گیا ہے۔
اسی طرح آج میں دیکھتا ہوں۔ اسی ارسلا کی طرح میرا ملک بھی خدا نے مجھے ارسال کیا تھا۔ یہ ہماری کوشش کا نتیجہ نہیں ہے، ہم نے کچھ بڑے کام نہیں کیے ہیں۔ یہ اس کی مہربانیاں تھیں۔ یہ اللہ کا فضل تھا جو اتنا بڑا ملک اتنے بڑے وسائل کے ساتھ اتنے خوبصورت موسموں والا، ایسے پھلوں، پھولوں والا ہمیں مل گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اب جب میں دکھ کی بات آپ سے کرتا ہوں وہ یہ کہ جو میرے سینے سے چمٹی ارسلا تھی وہ پوری طرح سے اتر نہیں سکی ہے اور اس سے زیادہ تکلیف میں مبتلا بچے کی طرح کشمیر بن کر میرے سینے کے ساتھ لپٹی ہے اور کسی آدمی کے پاس ایسا سینہ نہیں ہے جو اس مریض ‘ پامال‘ خوار‘ پریشان کشمیر کے لیے اپنا سینہ پیش کر سکے اور اس مشکل میں سے گزر سکے۔
آپ یقین نہیں مانیں گے کہ کشمیر آج سے دکھوں میں نہیں کھرا۔ یہ بڑے طویل عرصے سے ڈوگرہ راج کے زمانے سے تکلیفیں سہتا چلا آ رہا ہے۔ ہم نے اس کے ساتھ جس قدر محبت کرنی تھی، وہ ہم نہین کر سکے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ہم نے اس کے لیے درد محسوس کیا ہے، لیکن جس طرح سے ایک دکھی دادا اپنی ارسلا کے لیے محسوس کرتا ہے، یا کرتا رہا ہے۔ ویسے ہم نہیں کر سکے۔ بڑی آرزو یہ ہے کہ سیاستدان اور لیڈر تو ایسی محبت عطا نہیں کر سکتے۔ وہ اپنے کچھ اور کاموں میں لگے رہتے ہیں، لیکن لوگ اگر اجتماعی طور پر اپنی محبت کو جمع کر کے، اپنے اپنے گھر بیٹھ کر اپنی اپنی دل بستگی کے ساتھ اس کشمیر کے لیے دعا ہی کریں، تو بہت کچھ ممکن ہو جائے۔ ہمارے پاس اتنا وقت ہی نہیں بچتا۔ ہم نے اپنی اپنی زندگی ساری طویل زندگی میں کسی رات کبھی نو بجے بیٹھ کر خالی اس کشمیر کے لیے دعا نہیں کی، جہاں پچھلے دس برس میں ایک ہزار نئی قبریں بن چکی ہیں، تو اس پر کچھ گزری ہے نا! کچھ ہوا ہے!!
ہم جذباتی، روحانی، نفسیاتی، اور قلبی اثر ضرور ڈال سکتے ہیں اور جب سب مل کر ایسا کریں گے، اپنے خالی لمحات میں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پھر ہر گھر میں یہ ٹیلیفون بجے گا کہ کشمیر آزاد ہو گیا ہے اور اپنے کھلونوں کے ساتھ کھیل رہا ہے، جو پھولوں کی صورت میں اس کی ساری وادی میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ کئی دنوں کا میرے دل پر باجھ تھا، جو میں نے آج آپ کی خدمت میں بیان کر کے اتار دیا ہے۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا کرے اور آسانیا تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ!
 

فریب

محفلین
بابے، جسم اور خیال کا کِلا​

یہ سوال میری روح اور میرے ذہن کے ساتھ اکثر ٹکراتا ہے، جس میں لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ آپ “بابوں“ کا ذکر کرتے ہیں۔ ہمیں تو “بابے“ کوئی ملتے نہیں ہیں‘ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک اچھی، اونچی کرسی لگا کر گھر میں بیٹھے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کوئی بابا پکڑ کے لاؤ اور ہماری خدمت میں پیش کرو‘ ایسا تو ہوتا نہیں ہے۔ اس کے لیے تو مختلف Efforts کوشش جدوجہر کرنی پڑتی ہے۔ جیسے آپ اور دوسرے کاموں کے لیے کرتے ہیں۔ میں اب لوٹ کر بہت پیچھے کی طرف جا رہا ہوں۔ میری عمر میں پہنچ کر پرانی باتیں زیادہ وضاحت کے ساتھ یاد آتی ہیں اور کل کیا کھایا تھا‘ وہ نہیں پتا چلتا۔ مثلاً میں راستے میں سوچتا آ رہا تھا کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کل کیا کھایا تھا‘ تو عین ٹی وی کے دروازے پر پہنچ کے یاد آیا کہ آلو مٹر کھائے تھے۔ لیکن پرانی باتیں مکمل وضاحت اور تفصیل کے یاد ہیں۔
میرا گاؤں، گاؤں نہیں بلکہ ایک قصبہ تھا، جس کی آبادی کوئی پچیس ہزار کے قریب تھی۔ وہاں ہم رہتے تھے، لیکن وہ پچیس ہزار کا قصبہ جنوری کے مہینے میں دس تاریخ کے بعد تین لاکھ کا قصبہ بن جاتا تھا‘ وہاں ایک میلہ لگتا تھا۔ اسے ہن “ماڈھی “ کا میلہ کہتے تھے۔ جنوری کی دس، بارہ، تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو ضلع سے پولیس آتی تھی۔ دُور دُور سے تماشے تھیٹر آتے تھے، جو اپنی زندگی میں، میں نے دیکھے اور ان سے بڑا فائدہ اٹھایا کہ مجھے ڈرامہ لکھنا آنے لگا۔ وہ تھیٹر اور طعح کے ہوتے تھے، لیکن ان کے پس منظر میں وہ سب کچھ ہوتا تھاجو پرانے پارسی تھیٹروں میں تھا۔ اس میلے میں دو بڑے سرکس آیا کرتے تھے۔ میں چونکہ چھوٹا تھا اور میری عمر پانچ سال تھی، اس وقت سرکس میں زیادہ دھیان سیتا تھا۔ جانوروں کے ساتھ وابستگی ہوتی تھی۔ وہاں ایک رتنا بائی گرینڈ سرکس بھی آتا تھا۔ ایک رتنا بائی بنگالی عورت وہ کرتب بھی کرتی تھی اور اس سرکس کی مالک بھی تھی۔ وہ اتنا بڑا جوڑا کر کے اور پلس فور پہن کے، پاؤں میں چمڑے کے جوتے اور وردی اور ہاتھ میں ہنٹر پکڑے ہوتی تھی۔ سارے جانور اس سے ڈرتے تھے۔
میں نے ایسا کوئی رِنگ ماسٹر اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا جو شیروں کے ساتھ جا کر پٹاخہ مار کے بات نہ کرے بلکہ وہ موٹا “نُگا“ ان کے منہ پر مارے اور ان سے کام کرائے۔ رتنا بائی کے سات ہاتھی تھے جو بڑے وزنی تھے۔ میں بڑی بہادری کے ساتھ اس کے سامنے جا کر کھڑا تو ہو گیا، لیکن جب ہاتھی آگے کو جھکا تو میں ڈر کے مارے پیچھے کی طرف ہو گیا۔ میرے ساتھ میرے والد صاحب بھی تھے جو ویٹرنری ڈاکٹر تھے اور ہاتھی کا ٹیمپریچر لینے آئے تھے۔ میرے والد نے مجھ سے کہا اس کی سونڈ پکڑو، لیکن میں ڈرا۔ اس پر میرے والد نے پوچھا کہ تم اس سے ڈرے کیوں؟ میں نے ان سے کہا میں ڈرا اس لیے ہوں ابو کہ یہ ہاتھی جس “کلے“ کے ساتھ باندھا گیا ہے، وہ بڑا کمزور ہے اور میرا خیال ہے کہ زمین میں فٹ ڈیڑھ فٹ سے زیادہ گہرا نہیں ہے۔ یہ اگر زور دے تو یہ اسے اکھاڑ پھینکے گا۔ میرے والد نے کہا یہ ایسا نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ “کلے “ کے ساتھ نہیں بندھا ہوا، یہ اس خیال کے ساتھ بندھا ہوا ہے کہ “کِلا“ مضبوط ہے۔ اگر یہ اپنے خیال میں تبدیلی لائے تو پھر البتہ یہ ضرور کِلے کو اکھاڑے گا۔
میں نے کہا ابو اسے اب یہ خیال کیوں نہیں آتا؟ تو انہوں نے کہا کہ جب یہ چھوٹا تھا تو اسے اس “کِلے “ کے ساتھ باندھا گیا۔ اس نے اپنا پورا زور لگایا، پوری طاقت آزمائی تھی، لیکن یہ اسے اکھاڑ نہیں سکا تھا۔ اس جدوجہد میں تقریباً پانچ چھ سات ماہ گزرے، پھر اس نے فیصلہ کر لیا کہ یہ میری طاقت سے اکھڑ نہیں سکتا اور اب وہ اسی خیال اور اندازے پر قائم ہے۔ تاہم وہ بات جب کی تھی اور اب اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد اپنی زندگی کے مشاہدات و تجربات کے بعد یہ تصور میرے ذہن میں ابھرنے لگا ہے کہ ہن خیال سے کس قدر بندھے ہوئے ہیں اور مائنڈ میٹر یعنی جسم کے اوپر کتنی حکمرانی کر رہا ہے۔ اگر مائنڈ طاقتور ہو تو آپ کا جسم آپ کی مرضی کے مطابق عمل کرنے لگے گا۔ لیکن آپ کہتے ہیں میں سگریٹ چھوڑ نہیں سکتا۔ سگریٹ چھوڑنا کوئی مشکل بات نہیں۔ ایک خیال نے آپ کو اس کے ساتھ باندھا ہوا ہے۔ میں اپنی نواسی سے کہ رہا تھا کہ “ تو نہ لڑیا کر اپنی سس نال“ ( آپ اپنی ساس سے نہ لڑا کرو) کہنے لگی، نہیں میں ساس کے ساتھ لڑنے سے رہ نہیں سکتی۔ نانا میرا خیال یہ کہ بس یہ بڑی کمینی عورت ہے۔ میں نے کہا‘ تو اپنے خیال کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ ساس کے ساتھ بندھ کر دیکھ بڑا مزہ آئے گا۔ اس نے کہا دفع دور میں نہیں بندھتی! زندگی میں اور جتنے مسائل ہیں وہ ایسے ہی ہیں۔
آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں امریکہ میں ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ اس کا نام ہیلن کیلے تھا۔ وہ مادر زاد اندھی تھی اور مادر زاد بہری بھی تھی اور اسی طرح پیدائشی گونگی بھی، لیکن وہ ایک صحت مند لڑکی کی طرح پرورش پا رہی تھی۔ وہ عجیب و غریب کیس تھا۔ اس نے یہ تہیہ کیا کہ میں تعلیم حاصل کروں گی۔ اس نے اپنے آپ کو اپنی ذات کے اس “کِلے“ کے ساتھ نہیں باندھا۔ وہ اب نہ کچھ بیان کر سکتی تھی کہ میں پڑھنا چاھتی ہوں‘ نہ دیکھ کر بتا سکتی تھی کہ وہ کیا آرزو رکھتی ہے۔ لیکن اس کے اندر یہ طلب پیدا ہوئی اور یہ طلب اتنی شدید ہوئی کہ اس کی ایک سہیلی کی خالہ تھی ۔ اس کا بازو اس نے پکڑ کر اس طرح سے دبایا کہ خالہ نے محسوس کیا کہ یہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہے۔ پھر ان دونوں نے بڑی مدت کے بعد زور لگا کر Language ( زبان) ڈویلپ کی، جو اس کے بدن کو دبا کر بیان کرتی تھی اور وہ اسے سمجھتی تھی۔ ایک بار Ship کا لفظ آیا۔ لیکن اس لڑکی کو شپ یا جہاز کے بارے میں تصور ہی نہیں تھا کہ یہ کیا چیز ہوتی ہے۔ اس کی استاد نے کہ شپ سمندر میں چلتا ہے۔ اب اسے سمندر کا بھی کوئی پتہ نہیں تھا۔ لیکن لڑکی نے کہا وہ علم ضرور حاصل کرے گی اور اس کا خیال اس ہر حاوی نہیں ہو گا اور میں خیال کو خود پر حاوی ہونے نہیں دوں گی۔ چناچہ اس لڑکی نے سارا وقت اور ساری توجہ اپنے ذہن کے ساتھ جدوجہد کرنے میں گزاردی اور اپنے مائنڈ کو حکم دیا کہ میرے بدن پر اپنے آپ کو اپلائی کر۔ مجھے وہ علم عتا کر جو دوسرے لوگ اپنی جسمانی ساخت پوری ہونے کے سبب حاصل کرتے ہیں اور اس نے یہ کیا اور پانچ کتا بیں اس نی لکھیں۔
وہ یہاں لاہور بھی آئی تھی پاکستان بننے کے بعد اور ہم بڑی عقیدت کے ساتھ ان سے ملنے گئے تھے وہ بول نہیں سکتی تھی۔ اپنے استادوں کے مخصوص طریقے سے سوالات کے کھٹ کھٹ کر کے مخصوص انداز میں جواب دیتی تھی۔ وہ اپنی آٹو بائیوگرافی میں ایک کمال کی بات لکھی ہے کہ دیکھو میں بہت خوش ہوں کہ میرے خدا نے میرے اوپر بڑا کرم کیا ہے۔ اگر یہ ساری چیزیں، یہ ساری نعمتیں اندھے ہونا، بہرے ہونا، گونگے ہونا مجھے نہ ملی ہوتیں، تو میں دنیا کی ایک نامور عورت نہ ہوتی، بلکہ ایک معمولی سی گھریلو عورت ہوتی۔
اللہ کی نعمت کے کیا کیا روپ ہیں، اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اور شاباش ہے اس بی بی پر جس نے اسے نعمت کہ کر پکارا۔ جب آپ کو کوئی خیال پکڑ لیتا ہے اور آپ اس کے تابع ہو جاتے ہیں تو معاملہ گڑبڑ ہوتا ہے۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ کبھی کبھی بیٹھ کر جب وقت ملے تو ضرور غور کیا کیجئے کہ آیا مجھ کو کسی “ کِلے“ یا “ سنگل“ نے پکڑا ہوا ہے، یا کسی خیال نے پکڑا ہوا ہے۔ جب یہ بات آپ کے ذہن میں آ جائے گی، آپ بری آسانی سے اپنا مسئلہ خود حل کر لیں گے۔خیال کی طاقت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد میں کالج میں ایم اے کے چوتھے سال میں پڑھتا تھا۔ ہم سمجھتے تھے کہ اس سال آدمی بڑا لائق فائق اور ذہین ہوتا ہے۔ اس جیسا دنیا میں اور کوئی ہوتا ہی نہیں اور ہم یہی سمجھتے تھے۔میرے والد اور میرے ماموں کو خاص طور پر میرے ماموں کو اس بات کی بڑی خواہش تھی کہ میں نماز پڑھا کروں۔ چناچہ دونوں بیچارے اپنے اپنے طریقے سے کوشش کرتے تھے۔ لیکن میں اپنے خیال میں اتنا پڑھا لکھا تھا کہ میں باقاعدہ دلائل دیتا تھا کہ نماز میں کیا رکھا ہے۔ اللہ کہاں ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ جیسے پڑھے لکھے لوگ کہا کرتے ہیں۔
وہ کچھ نہیں کہتے تھے۔ مجھے پکڑ کر ایک مولوی صاحب کے پاس لے گئے، جو ہمارے شہر لاہور میں نیلا گنبد کی مسجد کے علاقے میں تھے۔ وہ مولوی صاحب وہاں بیٹھے لیکچر دے رہے تھے اور ان کے پاس تین پہیوں کی چیئر تھی۔ وہ چل نہیں سکتے تھے۔ ایک ٹانگ پر بری خوفناک بیماری کا حملہ تھا، جیسے “ گھمبیر“ وغیرہ کہتے ہیں۔ میرے والد نے کہا جی! یہ میرا بیٹا ہے۔ وہ کہنے لگے ماشاء اللہ بڑا اچھا ہے۔ لائق، زہین، خوبصورت اور فتین لڑکا ہے۔ میرے والد صاحب نے ان سے مجھے کچھ سمجھانے کا کہا، تو کہنے لگے، نہیں پھر کسی دن آپ لوگ آئیں گے تو تلقین کریں گے۔ آج موقع نہیں ہے اور تلقین زیادہ کرنی بھی نہیں چاہیے۔ یہ آتا رہے، ملتا، ملاتا رہے۔ مجھے ان کی شخصیت نے بڑا متاثر کیا، لیکن میں نے ان کی بات نہیں مانی نوجوانوں کے پاس کہاں وقت ہوتا ہے‘ ایسے کام کرنے کا‘ شرافت کا یا عبادت کا۔
میں نے کالج میں اپنے دوستوں کو بتایا تو انہوں نے کہا، ناں ناں خبردار! اس چکر میں نہ پھنسجانا۔ ہمیں دنا بنانی ہے، ترقی کرنی ہے۔ ایک ہمارا ساتھی مولوی سے پڑھتا تھا۔ اس نے فوراً ایک آیت قرآنی کا ترجمہ پڑھا“ کوشش کرو دنیا کی طرف۔“ خیر وقت گزرتا گیا اور میں کبھی کبھی مولوی صاحب کے پاس جا کر ملتا رہا۔ ان مولوی صاحب کا نام تھا مفتی محمد حسن۔ بڑے ضید عالم تھے۔ انہوں نے بڑے اونچے اونچے کام کیے تھے۔ آپ نے فیروز پور روڈ پر جامعہ اشرفیہ دیکھا ہو گا۔ اس کی بنیاد مفتی محمد حسن نے ہی رکھی تھی اور ان کی نگرانی میں اتنی بڑی یونیورسٹی بنی۔ ان کے جو مریدین تھے اور ان کے جو چاہنے والے تھے جن میں میرے ماموں بھی شامل تھے۔ مولوی صاحب بار بار ان سے کہتے تھے یہ ٹانگ اب ٹھیک نہیں ہو گی۔ کاٹنی پڑے گی۔ اس سے ان کے چاہنے والوں کو بڑی تکلیف تھی۔ انہوں نے مولوی صاحب سے ٹانگ کاٹنے پر بہت زور دیا اور کہا اگر ڈاکٹر ٹانگ کاٹنے کا کہتے ہیں، تو پھر اس میں کیا مضائقہ ہے۔ میں آپ کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا واقعہ بتا رہا ہوں۔ اس زمانے کے بڑے اعلٰی سرجن کرنل امیر الدین ہوا کرتے تھے۔ بڑے نامی گرامی سرجن تھے۔ انہوں نے بھی ٹانگ کاٹنے کی ہی رائے دی۔
آخر کار ٹانگ کاٹنے کا وقت مقرر ہو گیا۔ جیسا کہ ڈاکٹر لوگ کرتے ہیں۔ صبح کے وقت ان کی ٹانگ کاٹی جانی تھی اور اس سرجری میں ڈاکٹر کرنل عطاء اللہ، ڈاکٹر ریاض قدیر اور کرنل امیر الدین نے حصہ لینا تھا۔ سب بڑی محبت اور پیار اور عقیدت اوت تپاک کے ساتھ مفتی صاحب کو لے کر آئے۔ اب ایک لائق بے ہوش کرنے والا Anaesthesist چاہیے تھا، جو بالکل مستعد رہے، تاکہ اس عمر کے شخص کی زندگی کو کوئی خدشہ یا خطرہ نہ ہو۔اب Anaesthesist کو بلایا گیا، انہوں نے کہ مفتی صاحب آپ کو تھوڑی سی تکلیف ہو گی‘ کیونکہ انجکشن دینا ہے۔ مفتی صاحب نے کہا یہ کیوں دیتے ہو، تو انہوں نے کہا جی اتنا بڑا کام کرنا ہے، تو اس وجہ سے بے ہوشی مقصود تھی۔ مفتی صاحب نے کہا کہ آپ مجھے بے ہوش کیوں کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا جی! آکر ٹانگ کاٹنی ہے۔ اس میں چاکو، چھری اور آری کی ضرورت پڑے گی۔ مفتی صاحب کہنے لگے، ڈاکٹر صاحب! آپ ایسا کریں کہ مجھے ایسے ہی چھوڑ دیں اور Anaesthesia وغیرہ نہ دیں۔ مجھے یہ پسند نہیں۔ یہ دخل انداز ہو گا میرے ذہن پر، اور میں اپنا ذہن سوائے اللہ کے اور کسی کے حالے نہیں کرنا چاہتا۔ تو آپ اپنا کام کریں، میں اپنا کام کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا، سر! آپ اپنا کام کیا کریں گے؟ انہوں نے کہا، جو بھی میرا کام ہوا کروں گا اور منہ پر کپڑا لے کر لیٹ گئے۔ اب ٹانگ کٹ رہی تھی اور آپ آرام سے لیٹے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر ریاض قدیر جلدی جلدی ٹانکے لگا رہے تھے اور کرنل عطاء اللہ نبض پکڑے بیٹھے ہوئے تھے، تاکہ پتا چلتا رہے کہ ان کا بلڈ پریشر کہاں چلا گیا ہے۔ کام ختم ہوا اور جب پٹی باندھ دی گئی اور تینوں ڈاکٹر حیران پریشان کھڑے ہو گئے، تو پھر مفتی صاحب نے ان سے پوچھا“ میاں ہا گیا کام؟“ انہوں نے کہا، جی ہو گیا۔ تب مفتی صاحب نے کہا “ بہت بہت شکریہ! میں نے آپ کو بڑی تکلیف دی۔“ جو شخص اپنے خیال پر حاوی ہو جائے اور خیال اس کے تصور کی گرفت میں آ جائے اور انسان یہ جان لے کہ Mind over matter کیسے ورک کرتا ہے، تو ساری مشکلات جو روز ہمیں پیش آتی رہتی ہیں اور ہم ہاتھی جتنا ڈیل ڈول لے کر اپنے “ کِلے“ سے ڈرتے رہتے ہیں، جو ایک فٹ کا بھی نہیں ہوتا اور ساری مشکلات لپیٹ کے ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ اسی لئے ہمارے لیے علم کا، اور تفکر کا، بکر کرنے کا بڑا حکم آیا ہے کہ غور کریں، اب تفکر کرنے کے تریقے ہیں، نماز، روزہ، زکوٰہ تو عبادات میں آ جاتی ہیں۔ تفکر کرنے کے لیے آپ کو الگ سے جیسا کہ اللہ چاہتا ہے کہ جب نمازیں ادا کر چکو تو تب میرا ذکر کرو۔ دیکھے نا کہ ذکر سے مفتی محمد حسن کہاں پہنچ گئے اور کیسے انہوں نے تقویت حاصل کر لی کہ میڈیکل ہسٹری میں یہ بات درج ہو کر رہ گئی۔
اگر آپ میں اور ہم سب اس باریکی کو سمجھنے لگیں کہ مائینڈ کے اوپر جسم کا اتنا اثر نہیں ہوتا، جتنا مائینڈ کا اپنا ہوتا ہے، تو پھر آپ ان مشکلات سے خود بخود نکل آئیں گے۔ آپ کو کسی بابے کی، کسی پیر کی، کسی گائیڈ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اللہ آپ کو آساانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ!!
 

ماوراء

محفلین
انا کی لٹھ

انا کی لٹھ​

ہم سب کی طرف سےآپ سب کو سلام پہنچے۔
ایک بڑی مشکل آپ لوگوں کے ساتھ گفتگو کے شروع سے اب تک رہی ہے، اور وہ بدستور اس کے ساتھ چلی آ رہی ہے، اور اس کا مداوا مجھ سے کوئی ٹھیک طرح سے نہیں ہو پاتا، تو میں بڑی ایمانداری سے اس کو تسلیم کرتا ہوں کہ ان خامیوں، اور کمیوں کو کس طرح سے دور کیا جائے، تاکہ اس میں آپ کو بھی تسلی ہو، اور میری بھی تسلی ہو۔ وہ یہ ہے کہ میں “بابوں“ کا بہت ذکر کرتا ہوں، اور آئندہ بھی موقع ملا تو میں ان کا ذکر ضرور کروں گا۔
بابوں کی میں نے اپنے طور پر تعریف بھی آپ کی خدمت میں پیش کی تھی، اور اس کی Defination بھی بتائی تھی کہ ضروری نہیں کہ وہ بابا ایک لمبا سا چوغہ پہنے ہو، گلے میں ایک ہار ڈالا ہوا ہو اس نے منکوں کا، ریٹھوں کا، اور چھوہاروں کا، اور لال ڈاڑھی بھی ہو، اور آنکھوں میں سرخ سرمہ بھی ڈالا ہو، اور سر پر چوگوشیا ٹوپی بھی ہو، صرف وہی ہوتا ہے بابا، یہ ضروری نہیں۔ ایک بابا میں نے بتایا تھا کہ بہت ماڈرن، اعلٰی درجے کا تھری پیس سوٹ پہنے ہوئے سرخ رنگ کی چوڑی پھن دار ٹائی لگائے ہوئے۔ اس کے اندر گولڈ کا بروچ ٹانکے ہوئے۔ اعلٰی درجے کا کیمرا ہاتھ اٹھائے ہوئے، اور جتنی بھی اس موجودہ دور کی ساری Equipment ہیں، وہ اپنے ساتھ لیے ہوئے ہے۔ وہ بھی بابا ہو سکتا ہے۔
بابا کی ایک Basic Qualification یہ ہے کہ وہ اس فریم ورک کے اندر رہتا ہے، جو اللہ نے اپنے نبیوں کے ذریعے انسان کے لیے طے کر دیا۔
ہم گھوڑی کے اوپر اپنا بٹھا کر مری کی پہاڑیوں کے اوپر دوڑا دیتے ہیں۔ گھوڑے کو پتا ہے کہ اس پتھر پر پاؤں رکھنا ہے، اور اس پتھر پہ پاؤں نہیں رکھنا۔ ایک کتا ہے، وہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کو پتا ہے کہ مجھے یوں بو لینی ہے ایک چیز کی، اور یوں اگر کوئی غیر بندہ گھر میں آئے تو اس پر حملہ آور ہونا ہے۔
اسی طرح سے جو سارے جانور ہیں، وہ پختہ پیدا ہوئے ہیں، اور ان کا فریم ورک ان کا چوکھٹا ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایک بے چارہ انسان ہی ایسا ہے کہ جب پیدا ہوتا ہے تو اسے تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ تعلیم حاصل کر کر کے، پوچھ پوچھ کے، توجہ دے دے کے، استفسار کر کر کے اپنی زندگی کا ڈھانچہ بناتا ہے، اور ایک ڈگر تیار کرتا ہے جس پر کہ وہ چلتا ہے۔ پھسلتا ہے، پھر چلتا ہے، پھر پھسلتا ہے۔ مثلاً کتا ہو، اور گھر میں چور آ جائیں تو آپ اس کی سنگلی کھول دیں، اور اس کو کہیں کہ ہش۔۔۔۔، اور وہ کہے کہ جی میں نے تو ابھی F.A ہی نہیں کیا تو میں کیسے حملہ کردوں۔ کوئی Education تو دینی چاہیے نا اس کو۔ تو کتا آرام سے بیٹھ جائے کہ جی میں B.A کروں گا تو حملہ کروں گا، ورنہ مجھے تو نہیں آتا، یا میں نے ٹائپ نہیں سیکھی، یا میں نے کمپیوٹر نہیں سیکھا۔ تو اللہ میاں سے پوچھا گیا کہ جی میں کیا کروں تو اللہ نے فرمایا کہ دیکھو! میں نے تمھارے لیے انبیاء کے ذریعے تمھارا ایک فریم ورک پہلے ہی پہنچا دیا ہے۔ جیسا وہ فرمائیں، اسی کے مطابق کرنا ہے، اور مزے سے سیٹی بجاتے ہوئے، زندگی کے سارے مزے لیتے ہوئے اپنی آکسیجن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، سینری سے، دریاؤں سے، پہاڑوں سے، چٹانوں سے زندگی کے سفر طے کرنا ہے۔
تو ہم اس مقام پر آ کر پھنس جاتے ہیں، اور ہمارے درمیان وہ جو چوکھٹا یا فریم ورک دیا ہوتا ہے، اس میں، اس کا طے شدہ پروگرام ہے۔ وہ طے شدہ پروگرام کے مطابق چلا جا رہا ہے۔ کبھی اس کے اندر اس قسم کا ٹیڑھا پن نہیں آتا، جیسا کہ انسان کے اندر آتا ہے۔
تو یہ جو بابے ہوتے ہیں نا، جنہوں نے مجھے بہت Attract کیا، جو ایک سیدھے راستے پر، سیدھی لائن پر، صراطِ مستقیم پر چلے جا رہے ہیں، وہ پکار کر کہتے ہیں اھدنا الصراط المستقیم، اللہ کہتے ہیں کہ یہ ہے، اور وہ کہتے ہیں بسم اللہ، ہم اس پر چلیں گے، اور وہ نعمت علیھم والے لوگ ہیں ان پر انعام نازل ہوتا ہے، وہ بن جاتے ہیں اور میں اس کی آرزو میں بھاگتا رہا۔ بھاگتا ہوں، اور بھاگتا رہوں گا کہ میں انعمت علیھم والے کسی بندے کو پکڑ لوں جس کے اوہر انعام نازل ہو، اور جب انعام کسی بندے کو ملا ہے، اور جس راستے پر وہ جا رہا ہو گا، اس کا راستہ صراطِ مستقیم ہی ہو گا۔ ٹھیک ہے نا۔ اب میرے اندر ایک چلاکی ہے، میں اس کے ذریعے ایک خود کلامی، یعنی ایک Self Dialogue کرتا رہتا ہوں۔ مجھے کس طرح وہ راہ ہاتھ آئے، جو آسان ہو۔ ہم لوگ جو ہیں وہ کم کوش لوگ ہیں، آرام طلب لوگ ہیں، اور بھی کئی مصیبتیں ہوتی ہیں۔ میں تصور کے زور پر ایک Fiction Writer ہونے کی حیثیت سے، یہ سوچتا ہوں کہ میں، مثلاً کبھی منڈی جاؤں، سبزی منڈی۔ اب میری صحت ٹھیک ہے، میں جا سکتا ہوں۔ تو وہاں پر مجھے کوئی انعام یافتہ بندہ مل جائے جس نے کچھ گاجریں، کچھ مولیاں، کچھ گوبھی خریدی ہوئی ہے، اور میں اس کو پہچانوں کہ یہ اصل بابا ہے۔ تو میں اس سے کہوں کہ سر میں آپ کا سامان اٹھا لوں۔ تو وہ کہتا ہے، کتنے پیسے۔ میں نے کہا، جو آپ دیں گے میں لے لوں گا۔ اب وہ انعمت علیھم والا بندہ ہے۔ وہ کہے گا کہ اچھا۔ تو جب وہ چلے، اور میں اس کا سامان لے کر سر پر اٹھا کر چلوں تو جس رستے پر وہ جا رہا ہے، میری آرزو یہ ہے کہ میں عین اس کے Foot steps کے اوپر چلتا جاؤں، کیونکہ اھدنا الصراط المستقیم جو ہے نا، وہ دکھانا انہوں نے، اور وہ صراط المستقیم پر چلا جا رہا ہے۔ اللہ نے یہ بتا دیا ہے کہ وہ لوگ جن پر میں نے انعام کیا، وہ میرے بندے ہیں۔ خیر، تو میں اس تلاش میں یہ کوشش کرتا ہوں کہ وہ بابے جو، جو سیدھے راستے پر چلتے ہیں، جو کبھی کسی منڈی میں نظر آ جائیں، سڑک پر مل جائیں تو میں ان کو Follow کروں، اور جب تک میری سانس نہیں ٹوٹتی، میں ان کا پیچھا کروں، کیونکہ یہی میری زندگی کی آرزو ہے، کیونکہ میں اور جانداروں، جانوروں کے مقابلے میں ایک Human being ہوں، میں Animal of Soul ہوں۔ میرے اندر روح بھی ہے۔ بکرے، کٹے، اور دوسرے جانوروں کے اندر جان ہوتی ہے۔ Spirit کہہ لیں ہوتی ہے، Soul نہیں ہوتی۔ میرے اندر اللہ نے Soul بھی رکھ دی ہے، اور پھونک اپنی مار دہ ہے، تو میں اس کی تلاش میں رہا اور یہی بات میں نے آپ سے ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ کی ہے۔
تو آج میں آپ کو ایک آسانی بتانے لگا ہوں، اور اس کی مثال جو ہے اس علاقے سے۔ اس ٹیلیویثن سے ہے، جہاں پر میں نے ١٩٦٤ء سے لے کر اب تک کا وقت کسی نہ کسی صورت میں گزارا ہے۔
میرے اوپر سب سے زیادہ گرفت اس کی بات ہوتی ہے کہ جناب ہم کو بھی بتائیں کہ بابا کہاں ہوتا ہے؟ ہم کو تو کبھی مللا نہیں۔ سچی بات ہے وہ صیحح کہتے ہیں کہ ہم کو تو ملا نہیں۔ کئی دفعہ تو یہ ہوتا ہے کہ میں گاڑی میں جا رہا ہوں، تو ریڈ بتی آ جاتی ہے آگے۔ تو کوئی بندہ شیشہ نیچے کر کے کہتا ہے کہ اشفاق صاحب! وہ بابا ہم کو بھی بتائیں، اور پھر شیشے چڑھا لیتا ہے۔ تو وہ اس طرح سے کہتا ہے کہ جیسے میری دکان ہو گی تو میں بتا دوں گا کہ یہ اپنا فلاں سٹور ہے وہاں سے جا کر لے لیں۔ بابا کو تو تلاش بھی اور طرح سے کرنا پڑتا ہے۔ وہ بھی میں ابھی آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔ وہ بابا جو ہوتا ہے، اچھے، خوش نصیب انداز کا بابا، جس کے پاس راستہ ہے یا نہیں ہے۔ اس کی نگاہیں راستے کے اوپر رہتی ہیں۔ کسی نہ کسی طریقے سے۔ اور وہ لکی ہوتا ہے، اور وہ آپ کے قریب، آپ کے ارد گرد۔ آپ کے لوگوں میں سے ایک ہوتا ہے۔ آپ کے ساتھیوں میں سے ایک ہوتا ہے، اور میری، اور آپ کی انا اس بات کی اجازت نہیں دہتی کہ میں ایک ایسے آدمی کو بابا سمجھ لوں، جو میرا چپڑاسی ہے۔ یہاں پھنستی ہے بات۔ کیوں نہیں ملتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ وہ بار بار پوچھتے ہیں۔ کہتے ہیں جی کیا آج کل بھی بابا ہوتا ہے۔
اکثر لوگ کہتے ہیں۔ تو اس معاملے میں ہمارے بابے کہا کرتے ہیں کہ جس ماضی کا حال شاہد نہ ہو، وہ ماضی جھوٹا ہے۔
اس عہد کو شہادت دینی پڑے گی کہ پہلے کے جو لوگ گزرے ہیں، وہ ٹھیک تھے تو ایک آدمی ویسا یہاں ضرور ہے، پھر ہی کہے گا نا۔ ورنہ تو یہ کہانی ہی ہے نا۔ قصہ ہی ہے نا۔ تو وہ شاہد موجود ہوتا ہے۔ ان وہ مجھے، میرے جیسے اندھے آدمی کو، جس کے دیدے ہیں، اس کو کیوں نظر نہیں آتا، کیونکہ میرے اوپر انا کی، تکبر کی، استکبار کی ایک گہری تہہ چڑھی ہوئی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ میں برانڈرتھ روڈ میں ایک دکان کرتا ہوں۔ وہاں کا جو بابا ہے، جس کے اوپر میں سامان صندوقڑی (صندوقچی) چکوا کر بھیجتا ہوں کہ جا فلانی دکان پر جا کے دے آ۔ یہ کس طرح سے بابا ہو سکتا ہے کہ میں اس کو کہوں، سلام۔ بڑی مشکل ہو جاتی ہے۔ اس لیے آپ نگاہیں میری نگاہیں، اس آدمی کو تلاش نہیں کر سکتیں، اور کبھی بھی تلاش نہیں کر سکیں گی۔ کیونکہ آپ کے، اور اس کے درمیان ایک گہرا پردہ لٹک رہا ہے۔
جب میں ١٩٦٤ء میں ٹیلی ویژن کے ساتھ متعلق ہوا۔ یہ ٹیلی ویژن ٦٤ء میں آیا تھا تو میں ریڈیو میں کام کرتا تھا تو یہاں اسلم اظہر تھے۔ اس کے پہلے مدارالمہام۔ تو انہوں نے مجھے بلوا بھیجا کہ اشفاق صاحب آئیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہم ٹیلی ویژن کھول رہے ہیں، اور انشاءاللہ یہ جلد ہی کام شروع کر دے گا۔ چونکہ آپ کا ریڈیو کا کافی تجربہ ہے، اس لیے آئیں دیکھیں کہ ڈرامہ کیسے کریں گے تو میں ڈر گیا کہ یا اللہ ہماری تو کوئی ٹریننگ نہیں ہوئی۔ میں تو کہیں باہر سے پڑھ کر بھی نہیں آیا۔ ہمیں پتا ہی نہیں کہ یہ سب کیسے ہو گا۔ تو اگلے دن میں کرسی پر بیٹھا تھا، اور اسلم صاحب اندر کچھ کام کر رہے تھے، اور مجھے ان سے ملنا تھا لیکن خوف دل میں بدستور قائم تھا، ڈرامے کے بارے میں یہ ڈرامہ کیسے لکھا جائے گا۔ یہ کیسے ہو گا، ہماری تو کوئی ٹریننگ نہیں ہوئی۔ تو جہاں میں کرسی پر بیٹھا تھا، اس کے قریب ہی ایک اور بنچ تھا۔ اس کے اوپر اور نوجوان لڑکا بیٹھا تھا۔ تو میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کو بھی ملنا ہے، تو اس نے کہا کہ جی ہاں۔ تو میں نے کہا کہ اچھا بڑی خوشی کی بات ہے۔ پھر میں اندر چلا گیا۔ باتیں ہوتی رہیں۔ کچھ ڈسکس کرتے رہے، اور میرا خیال تھا کہ وہ نوجوان بھی اندر چلا گیا ہو گا۔ اس نے بھی کچھ باتیں کی ہوں گی، اور وہ جس نوکری کے لیے آیا تھا، اسے اس نوکری پر رکھ لیا گیا۔ وہ صاحب کا ڈرائیور تھا۔ اس شخص کا نام میں آپ کو آج بتاتا ہوں، وہ گل حیدر تھا۔ وہ اس سٹیشن میں اس چار دیواری کے اندر صاحب کی بڑی گاڑی چلانے پر مامور ہو گیا لیکن جب میں اس کے پاس بیٹھا تھا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اس کے انداز سے، اس کے چہرے سے، اس کے ساتھ ایک دو باتیں کرنے کے انداز سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوا تھا کہ یہ آدمی کچھ مختلف سا ہے۔ بہر کیف اس کی نوکری لگ گئ۔ چلتا رہا یہ سب۔ پھر ہم یہاں آتے رہے، اور وہ ملتا رہا۔ سلام کرتا رہا بڑے ادب کے ساتھ، اور ہماری اور اس کی گفتگو ہوتی رہی، لیکن میرے سارے ساتھی جو ٢٠٠٠ بندے یہاں کام کرتے تھے، ان کے مقابلے میں کیری نگاہ مختلف تھی کہ یہ ڈرائیور جو ہے گل حیدر، یہ کچھ اور طرح کا ہے۔ لوگ اپنی تنخواہیں بڑھانے کے لیے نعرے مارتے تھے، جیسے چھوٹے ملازمین وغیرہ جو ہیں کرتے ہیں۔ تو یہ بھی ایک کونے میں پرے کھڑا ہوتا تھا۔ تو میں کہتا تھا کہ گل حیدر تم بھی نعرے لگاؤ۔ وہ کہتا تھا نہیں صاحب! وہ سب کھڑے ہیں نا، وہ Community اپنی۔ لیکن اس کے اندر ایک احتجاجی رنگ نہیں اختیار کر سکا۔ پتا نہیں کونسی بات تھی یا کونسی بات نہ تھی کہ میں یوں کر کے کہہ دوں کہ یہی بات تھی، لیکن میں اس سے متاثر ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ میں اسے دیکھ دیکھ کر اس کے متعلق بات نہ کر کر کے اس سے اتنا خوفزدہ سا ہو گیا تھا کہ میرے اندر ادب کی وہ لہر جو ایک اچھے آدمی کے لیے دل میں پیدا ہوتی ہے، وہ زیادہ دبیز ہو گئی، اور میں نہیں چاہتا تھا کہ میں اسے زیادہ Face کروں یا وہ میرے سامنے آئے۔ ایسے بھی ہوا کہ میں یہاں سے کوئی ایک دو پروگرام کر کے نکلا ہوں تو اسلم صاحب نے کہا کہ چلیں گل حیدر آپ کو چھوڑ دے گا۔ ڈرائیور تھا نا۔ تو میں نے کہا کہ جی میں اس کے ساتھ نہیں جاؤں گا۔ اور مجھے اسلم صاحب کہتے کہ کیوں جی کیا ہو گیا۔ یہ تو بڑا اچھا ہے۔ یہ ہمارے سارے لوگوں میں سب سے اعلٰی ہے۔ بڑا Safe ہے اور بہت دھیمے مزاج کا آدمی ہے، تو میں کہتا کہ نہیں سر مجھے کسی اور کے ساتھ بھیج دیں، کیونکہ میں اس کے ساتھ جانا نہیں چاہتا۔ خیر ان کو سمجھ نہ آئی میری بات۔ آج میں ایک بڑا عجیب س راز آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں، جو شاید اگر آج یہ بات چیت نہ و رہی ہوتی تو میں کبھی بیان نہ کرتا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے میری انا، اور میرا تکبر اس بات پر مجبور کر رہا تھا کہ میں اس کے زیادہ قریب نہ ہوں جتنا کہ آدمی آ جایا کرتا ہے۔
میں ایک بڑا پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ بڑا Well Placed ہوں، اور میرا رتبہ بہت ہے، اور لوگ مجھے بہت زیادہ سلام کرتے ہیں، لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ جتنی دیر وہ یہاں رہا، اور جتنی دیر میں وہاں رہا، اس کے سامنے اپنے آپ کو ایک معمولی انسان ہی سمجھتا رہا، اور مجھے یقین ہے، اور میرا ایمان ہے کہ میں ٹھیک تھا، اور میں سچائی پر تھا۔۔۔اور میں حق پر تھا۔
ایک وقت ایسا آیا کہ ہم یہاں پر کسی ڈرامے کی شوٹنگ کرنے کے لیے باہر گئے۔ کسی پانی کنارے، کسی دریا پر، راوی کے اوپر، تو وہاں پر گل حیدر کا جو بیٹا تھا۔ اس کو بھی انہوں نے Cable boy یعنی جو تار اٹھاتے ہیں مقرر کر دیا تھا۔ تو out door شوٹنگ تھی۔ گل حیدر کا بیٹا بڑا اچھا، بڑا پیارا سا، خوب صورت سا جیسے پٹھانوں کے بچے ہوتے ہیں، وہ تھا۔ بچہ کچھ شرارتی سا تھا۔ اس نے، جیسے بچے Rowdyism کرتے ہیں، پانی میں چھلانگ لگا دی۔ اب وہ ایسی خوفناک جگہ تھی کہ جہاں پر اس بچے کے ڈوبنے کا لوگوں کو ١٠٠ فیصد خدشہ ہو گیا تھا، اور کسی کی بھی ہمت نہ پڑی کہ اسے نکالا جائے۔ جو تیرنا جانتے تھے، ان کی بھی نہیں تو اس Cable boy نے کیبل چھوڑ کر اس کے پیچھے چھلانگ لگا دی، اور جا کر اس کو پکڑ لیا۔ ڈوبنے سے اس کو بچا لیا۔ لیکن خود ڈوب گیا، اور سب لوگ جو شوٹنگ کے لیے وہاں موجود تھے، ان کے دلوں پر اس کا بڑا بوجھ تھا۔ اور ہم اس کے جسدِ خاکی کو لے کر گئے۔ ایک جیتا جاگتا اچھا بھلا آدمی لے کر گئے تھے لاش لے کر آ گئے۔ واپس لے کر آئے۔ اب میرے لیے اس کو Face کرنا مشکل ہو گیا، وہ ایک باپ تھا، اور اس نے بڑی امنگوں، آرزوؤں کے ساتھ اس کو پالا تھا، تو میرا حوصلہ نہیں پڑتا تھا، لیکن میں چاہتا تھا کہ میں ضرور جاؤں۔ تو آخر میں اس کے پاس گیا۔ میں نے کہا کہ گل حیدر یہ حادثہ ہو گیا ہے، اور مجھے اس کا بڑا افسوس ہے۔ کہنے لگا، نہیں سر افسوس تو تب ہوتا جب یہ حادثہ ہوتا۔ یہ تو بس اللہ کا حکم ہی ایسا تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ صاحب اللہ کی کتاب ہوتی ہے نا۔ بس اس میں ایسے لکھا تھا۔ اب میں Faith کی بات کرتا ہوں۔ اس نے کہا کہ صاحب اس کا حکم تھا، اب ہم اس کے حکم کے آگے سر نہیں اٹھا سکتے۔ میں نے کہا، افسوس ہے۔ کہنے لگا، ہاں جی افسوس ہے۔ میں نے کہا کہ غم ہے، کہنے لگا، جی غم ہے۔ میں نے کہا شکایت ہے، کہنے لگا، شکایت نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ کوئی شکوہ ہے۔ کہنے لگا، کوئی شکوہ نہیں۔ بس جی جب میں گھر جاتا ہوں تو میں بیٹھتا ہوں، مجھے اس کا چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ میں غم میں ڈوب سکتا ہوں، کرب میں مبتلا ہو سکتا ہوں، اپنے آپ کو پامال کر سکتا ہوں۔ لیکن شکایت نہیں کروں گا۔
میں نے بہت سا وقت اس کے قریب مختلف زاویوں سے گزارا کہ دیکھیے! ایک بڑی آدمی کو Face کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ اور جب آپ کا اندر ماننے لگے، تو پھر تو اور بھی مشکل ہے۔ دیکھیے نا پولیس آفیسر آتے ہیں۔ ان سے لوگ ڈرے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب آپ کا اپنا اندر ماننے لگے تو بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ بہر کیف اب ہم بوڑھے ہو گئے ہیں۔ لمبا وقت گزر گیا۔ ٹائم کتنا سارا چلا گیا اور گل حیدر اس ٹیلی ویژن کے دفتر سے، اس سٹیشن سے ریٹائر ہو گیا، اور وہ اپنے گھر چلا گیا۔ میری بڑی آرزو تھی کہ میں اب ریٹائر ہونے کے بعد اس سے ضرور ملوں کچھ موقع نہیں ملا۔ کچھ ٹائم نہیں ملا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ ایک دن وہ مجھے مل گیا، اور وہ بہت خوش تھا۔ میں نے کسی ریٹائر آدمی کو اتنا خوش پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے کہا کہ ریٹائر ہو گئے ہو۔ کہنے لگا، جی صاحب جی۔ میں نے کہا، آپ خوش ہیں۔کہنے لگا کہ جی اللہ کا بڑا فضل ہے۔ میں نے کہا کہ اب تم کیا کرو گے۔ کہنے لگا، کہ سب سے پہلا کام میں یہ کروں گا کہ میں اپنا ڈرائیونگ لائسنس پھاڑ کے پھینک دوں گا کہ دوبارہ آرزو پیدا نہ ہو نوکری کرنے کی، ڈرائیوری کرنے کی۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ میں خضاب نہیں لگاؤں گا۔ وہ لگاتا تھا روزانہ اپنے آپ کو سیٹ رکھنے کے لیے، اور تیسری بات یہ اس نے کہی کہ اشفاق صاحب میری بڑی آرزو ہے کہ اب میں دبا کر عبادت کروں۔ میں اکیلا بیٹھوں گا، اور اپنے اللہ سے کچھ باتیں کروں گا۔ یہ میری بڑی آرزو ہے۔ بڑا جی چاہتا ہے۔ بس وہ یہ تین خواہشیں تھیں اس کی۔ وہ جہاں کہیں بھی ہے، میرا دل سے اس کو سلام پہنچتا رہے۔
میں یہ عرض کر رہا تھا کہ میری انا، آپ کا تکبر، آپ کی سوچ، ہمارا اپنے آپ کے اندر پھنسے رہنا۔ ہمارے قریب سے یقیناً اس قسم کے بڑے آدمی گزرتے رہتے ہیں، اور ہم پوچھتے رہتے ہیں کہ جناب ہم کو تو کوئی نہیں ملا۔ ہم نے اتنی بڑی انا کی لٹھ مونڈھے(کندھے) پر رکھی ہوئی ہے کہ کوئی قریب تو آئے ہم اس کا بوتھا(منہ) سینک دیں گے۔
اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے، اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 

ماوراء

محفلین
اندر اور باہر کی شخصیت کی میچنگ

اندر اور باہر کی شخصیت کی میچنگ​



اہلِ زاویہ کی طرف سے آپ کی خدمت میں سلام پہنچے۔
آج میں پھر آپ کو تھوڑی دیر کے لیے اٹلی لے جانا چاہتا ہوں۔ ابھی بیٹھے بیٹھے یاد آیا ہے یہ واقعہ۔ سبھی پوچھ رہے تھے کہ آج کون سے موضوع پر بات کریں گے۔ کون سا موضوع ساتھ لے کر آئے ہیں، تو خواتین و حضرات کوئی خاص موضوع میرے سوچنے میں، میرے اسٹاک میں ہوتا نہیں ہے۔ باتوں میں اگر کوئی چیز نکل آئی تو پھر اس پر آہستہ آہستہ عمارت کی تعمیر ہوتی رہتی ہے۔
میں روم میں اپنی یونیورسٹی سے واپس آ رہا تھا گھر کی طرف۔ تو جب سینٹ پیٹر کے بڑے میدان سے گزرا تو وہاں پر ایک سکھ سردار نسواری رنگ کی پگڑی باندھے بیٹھا تھا۔ وہ بڑے غور کے ساتھ سینٹ کی بلڈنگ کو دیکھ رہا تھا، اور جو بڑے بڑے ستون تھے ان کو گن رہا تھا۔ میں نے کہا، سردار جی ست سری اکال۔ واگرو کی خالصہ، واگرو کی فتح وہ بے چارہ کانپ گیا گھبرا گیا۔ ایک دم کہنے لگا، جی مینوں جانتے ہو؟ میں نے کہا، میں پاکستانی ہوں۔ وہ بہت خوش ہوا۔ کہنے لگا، لو جی میری بڑی مشکل حل ہو گئی۔ میں دو دن سے یہاں گھوم رہا ہوں میری بولی کوئی نہیں سمجھتا۔ میں نے کہا، نہیں یہاں انگریزی کوئی نہیں جانتا۔ تو میں نے کہا آئیے آپ کو چائے پلائیں۔ میں اسے ایک قریبی ریستوران میں لے گیا، تو جب میں چائے کا آرڈر دینے لگا تو اس سے پوچھا، کافی پیئو گے یا چائے۔ کہنے لگا، نہیں جی دونوں چیزوں میں سے کوئی چیز نہیں لوں گا۔ کچھ گرمی سی لگ رہی ہے۔ آئس کریم ہونی چاہیے۔ میں دو دن سے آئس کریم کی تلاش میں ہوں، لیکن مجھے پتا ہی نہیں آئس کریم کو کیا کہتے ہیں۔ میں انگلی ضرور لگاتا تھا کہ یہ دو، مجھے اور کچھ ہی چیز نکال کے دے دیتے تھے تو مجھے ایک لفظ وہ بتا دیں کہ آئس کریم کو کہتے کیا ہیں؟ میں نے کہا آئس کریم کو جلاتو۔ کہتے ہیں کہنے لگا، لو جی پٹھا ناں رکھ دتا ہے۔ ایہہ جلان والی چیز ہے یا ٹھنڈ پان والی چیز اے۔ میں نے کہا، بس رکھا تو یہی ہے۔ اس کا نام ہی یہ ہے۔ تو ہم بیٹھ کے باتیں کرتے رہے۔ میں نے کہا، سردار صاحب بڑی خوشی کی بات ہے کہ آپ کو دیکھ کر مجھے ایک طرح کی بڑی خوشی ہوئی کہ آپ نے اپنا جو وجود ہے جو آپ کو احکام دیئے گئے ہیں، اس کو آپ پورا مین ٹین کرتے ہیں۔ کیس رکھتے ہیں۔ ڈاڑھی آپ کی ہے، کڑا آپ کا ہے، پگڑی اتنی خوب صورت پہنتے ہیں۔ تو اس نے کہا، ہاں جی یہ ہونا چاہیے۔ یہ انسان کو شناخت کرنے میں بڑی مدد دیتی ہے۔ کچھ تشخص کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا، لیکن پورا حاوی نہیں تھا اس کے اوپر۔ پڑھا لکھا آدمی تھا۔ تو میں نے کہا، سردار صاحب جی آدمی کا دل صاف پاک ہونا چاہیے۔ نیت ٹھیک ہونی چاہیے۔ کہنے لگا، نہیں جی‘ دل پاک صاف نیت اچھی ہو، اس کا پتا نہیں چلتا۔ جب تک اس کا ظاہر جو ہے وہ اس بات کی شہادت نہ دے۔ آپ کے دل میں کیا ہے میں کیا کہہ سکتا ہوں؟ میں نے کہا، باہر کا وجود جو ہے اس کے بارے میں جو آُ نے فلسفہ سازی کی، اس کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہہ۔ اس نے کہا، دونوں کا تال میل ہونا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ اس نے بڑی عجیب بات کی جو بڑے سالوں کے بعد مجھے یاد آئی۔ اس نے کہا، آدمی جو ہے، وہ اپنی وردی سے پہچانا جاتا ہے۔ ہر شخص کی ایک وردی ہوتی ہے، اور وہ وردی طے کرتی ہے کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے۔ تھانیدار کو دیکھ کر اسے بولنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ طلباء کو معلوم نہیں کرنا پڑتا۔ تھانیدار کو دیکھ کر کہتے ہیں یہ تھانیدار ہے۔ میجر کی وردی کو پہچان لیتا ہے، اور یہ باتیں کرتے رہے۔ وہ تو چلا گیا لیکن میرے لیے سوچ کا ایک سامان چھوڑ گیا۔ ایک شخص کا جو Indicator، باہر کا اشارہ ہے، وہ آدمی کے ساتھ ضرور ہونا چاہیے۔ تو میں یہ سوچنے لگا کہ اگر ایک لڑکی ہو، بڑی شوخ و شنگ۔ اس نے جینز پہنی ہوئی ہو، اور بہت اونچی ایڑی کی گرگابی پہنے ہوئے ہو، کانوں کو اس نے لگایا ہو، کیسٹ پلیئر کا ہیڈفون، اور شرشر کر کے چل رہی ہو، اور فرجن کو وہ اوزار بھی دے رہی ہو لیکن وردی اس نے نہ پہنی ہو اور وہ کہے میں نرس ہوں، کام بھی وہی کر رہی، تو اس کو سرجن صاحب کان سے پکڑ کر باہر نکال دیں گے۔ اگر وردی نہیں اس کے بغیر تو ہم نہیں مانتے کہ یہ کام ہو رہا ہے، ہم اس کا تشخص چاہتے ہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں، ہم شناخت کریں، فوراً پتا چل جائے یہ کون ہے؟ مثلاً دیکھیے ایک بہت خوب صورت اعلٰی درجے کا نوجوان ہے، اور پڑھا لکھا ہے۔ تعلیم یافتہ ہے۔ اس نے ایک سلک کی بنیان پہنی ہے، اور چھوٹی سی چڈی پہنی ہوئی ہے۔ اور پاؤں میں قینچی چپل پہنی ہوئی ہے اور وہ جمبو جٹ چلانے کے لیے کاک پٹ میں آنے کی کوششیں کرتا ہے۔ آپ اسے روکیں گے۔ وہ کہے گا میں پائلٹ ہوں، قینچی چپل والا، تو کہے گا جی میرا لائسنس دیکھیں، اور لائسنس سچ مچ ہو۔ اور وہ کہے، میں ہزار گھنٹے فلائنگ کر چکا ہوں اور اس وقت دنیا کی وزنی ترین مشین کو ہوا میں لے جا رہا ہوں۔ میں اس کی صلاحیت رکھتا ہوں، اور اپنے کاغذات پورے دکھائے تو اس کو ہوائی جہاز میں بیٹھنے نہیں دیا جائے گا اور کاک پٹ میں آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں ہو گی، کیونکہ اس کی وردی نہیں ہے۔ یہ انسانی زندگی میں عجیب سی بات ہے جو انسان کے عمل کے اندر حائل ہوتی ہے۔ نیت اس کی اچھی ہے۔ نیت نیک ہے، وہ جانتا بھی ہے، لیکن چونکہ طے شدہ پیٹرن کے اندر، چوکھٹے کے اندر نہیں ہے، اس لیے ہم اسے قبول نہیں کرتے۔
مثلاً ابھی میرے ذہن میں آ رہا ہے۔ چوک ہے، چوراہے ہیں، لاہور، کراچی کے بہت پیچیدہ، اور کثیف ٹریفک والے اور مشکل چوراہے پر ایک نوجوان مونچھوں والا کھڑا ہو۔ اس نے بدن کو تیل ملا ہوا ہو، اور لنگوٹا باندھا ہوا ہو، اور ہاتھ میں اس کے ایک بانس پکڑا ہوا ہو، اور ٹھکا ٹھک مار کے ٹریفک کنٹرول کر رہا ہو، کبھی کسی کے سر پر کبھی گاڑی پر مار دیا، اور کبھی سکوٹر پر، اور کنٹرول کر رہا ہو تو سارجنٹ آ کر، پریشان ہو کے پوچھے گا تو کون ہے؟ وہ کہے گا جناب میں محمد صدیق ٹریفک کانسٹیبل۔ ٣٢٧٢١٢٦٢ اپنا نمبر بھی بتائے گا، تو وہ کہے گا تو کیا کر رہا ہے۔ وہ کہے گا، سر میں ٹریفک کنٹرول کر رہا ہوں تو وہ کہے گا تیری وردی کہاں ہے۔ وردی کی کیا ضرورت سر، دیکھیے میں کتنے اعلٰی درجے کا ٹریفک کنٹرولر ہوں۔ ہاتھ میں بانس ہے، تیل ملا ہوا ہے، اور ساروں کے سر پر مار رہا ہوں۔ لنگوٹی میں نے پہنی ہوئی ہے لیکن ٹریفک کنٹرول کر رہا ہوں۔ وردی کی کیا ضرورت ہے۔ تو کام سے پکڑ کر نہ صرف لائن حاضر کر دیا جائے گا، بلکہ میرا خیال ہے معطل بھی ہو جائے گا۔ تو خالی یہ کہہ کر گزر جانا کہ میرا دل بڑا نیک ہے، میری نیت بہت اچھی ہے۔ میں نے جو سوچ رکھا ہے اس کے مطابق کام کر رہا ہوں۔ اس سے بھی اجتماعی زندگی میں شکوک و شبہات پیدا ہونا لازمی ہیں۔ جس طرح کہ باہر کی شکل و صورت دیکھ کر آدمی کو یقین نہیں آتا کہ یہ آدمی اندر سے ایسا ہو گا۔ لیکن جب آپ نے اجتماعی طور پر ایک وردی طے کر دی ہے تو پھر وردی والے کو بھی اس بات کی حیا ہوتی ہے کہ جو اس کے لیے طے کیا گیا ہے، اس پر قائم رہے، اور جو مجھ سے توقع کی جاتی ہے، وہ توقع پوری کروں تو جب یہ بات مجھے وہاں معلوم ہوئی تو میں غور کرتا رہا، اور پھر آج تک سوچتا ہوں، مجھے بعد میں نفسیات دانوں نے یہ بتایا بھی کہ انسان کا باہر کا تشخص اس کی اندر کی ذات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس فلسفے کے تحت ہم نے انسان کی اندر کی بیماری دور کرنے کے لیے بہت سی ایسی چیزیں اختراع کی ہیں، جو باہر سے اثر انداز ہوتی ہیں۔ ریڈی ایشن کر کے اندر کی بیماری جو ہے، دور کی جاتی ہے۔ تو اندر کا باہر کا بڑا قریبی رابطہ، اور ایک رشتہ ہے، اور اس رشتے کو آپ جبھی اپنا سکتے ہیں جب کہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہوں، اور اس پٹڑی پر دونوں اسی استقامت کے ساتھ قائم ہوں جس طرح ان کا تقاضا ہوتا ہے۔ ایک چھوٹی سی سلطنت کا کوئی بادشاہ بہت اچھا، نیک بادشاہ، صلح کل لیکن طبیعت میں بڑا ڈسپلنڈ تھا، اور اس کو اپنے ملک کی صحت و صفائی کا بڑا خیال تھا۔ مجھے صفائی کی بات کرتے ہوئے یاد آیا کہ اپنی رعایا کی صحت برقرار رکھنے کے لیے، چونکہ وہ صفائی کا بڑا دیوانہ تھا، اس لیے اپنی مملکت میں بھی اس نے خاصا صفائی کا انتظام کر رکھا تھا، اور ظاہر ہے گھر کا بھی، محل کے اندر بھی صفائی کا انتظام بطورِ خاص دیکھا جاتا تھا۔ قریب ہی اس کے ایک چھوٹی سی کالونی تھی۔ بہت اچھے لوگوں پر مشتمل۔ صفائی کا وہ بھی خاص کیال رکھتے تھے۔ تو ایک اماں بوڑھی جو کہ صفائی کے معاملے میں بادشاہ کی، ملکہ کی، اور شہزادی کی بڑی قابلِ اعتبار بھنگن تھی، اس کا بڑا مقام تھا۔ وہ آ کے محل کے اندر زنان خانے میں صفائی کرتی تھی اور ان کی مرضی کے مطابق کام کرتی تھی، اور اس کا احترام تھا۔ بڑے آدمی کا احترام ہوتا ہے۔ اچھا کام کرنے والے کا احترام ہوتا ہے۔ کام چاہے کوئی بھی ہو۔
تو کہانی بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اماں بڑی بیمار پڑ گئی، اور شاہی خاندان کا کام کیا جانا ضروری تھا، تو اس نے اپنے نوجوان بیٹے سے جو بڑا لحیم شیم بڑا خوب صورت اچھا نوجوان تھا، اس سے کہا، بیٹا میں نہیں جا سکتی محل میں تو جا کر میری جگہ پر کام کر۔ چنانچہ وہ اپنا جھاڑو لے کر، ٹاکی لے کر جس طرح کا سامان اسے چاہیے تھا، وہاں چلا گیا۔ اس نے جا کر برآمدے میں جھاڑو ٹاکی لگائی، پھر دوسرے کمرے میں لگائی۔ وہ جب تیسرے کمرے میں جھاڑو لگا کر باہر نکل رہا تھا تو شہزادی غسل خانے سے نہا کر کھلے بال آ رہی تھی اور اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ شہزادی کو دیکھا تھا۔ وپ شہزادی جس کا ذکر کہانیوں میں ہوتا ہے اور بے چارہ کھڑے کا کھڑا بت بنا رہ گیا، اور شہزادی اپنا منہ لپیٹ کے وہاں سے بھاگی۔ دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ جب وہ گھر آیا تو اس نے اپنی ماں سے کہا، پیاری ماں یہ کیا مخلوق ہے تو اس نے کہا، بیٹے کیا ہوا؟ اس نے کہا، ماں وہاں تو ایک لڑکی نکلی، لیکن جیسے آسمانوں سے اتری ہوئی لگتی تھی۔ کبھی ہم نے بازار میں، شہر میں تو ایسی مخلوق دیکھی نہیں۔ اس نے کہا، اوہ تیرا بھلا ہو جائے تو نے شہزادی کو دیکھ لیا۔ کہنے لگا، ماں میں اسے دیکھ تو آیا ہوں، لیکن میری آرزو ہے، میں اسے ایک بار پھر دیکھوں، اور قریب سے دیکھوں۔ اس نے کہا بیٹا اس بات کی کانوں کان خبر نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ ابھی جلا دہلا کر ہم ماں بیٹے کا سر تن سے جدا کر دیا جائے گا۔ اس نے کہا، ماں میری زندگی کی آرزو ہے کہ اس حسنِ مجسم کو قریب سے دیکھوں۔ میں بالکل بھونچکا ہو گیا تھا۔ بوکھلا گیا تھا۔ میرے ذہن پر اس کے نقوش ٹھیک طرح سے نہیں آئے۔ اس نے کہا، بھئی ایسا نہ کر یہ نہیں ہو سکتا۔ تو وہ بیمار پڑ گیا، جان کے لالے پڑ گئے۔ اب ماں ماں ہی ہوتی ہے تو اس نے حوصلہ کیا، سیدھی شہزادی کے پاس گئی۔ چونکہ شہزادی اس کا احترام کرتی تھی، سارے گھر والے کرتے تھے۔ اس نے کہا، بیٹی یہ بات ہو گئی ہے، اگرچہ بڑی ناقابل بیان تھی، میں نے بیان کر دی۔ ناقابلِ برداشت تھی، وہ تو برداشت کر لی۔ مہربانی ہے، مشکل آ پڑی تو اس کا حل نکال۔ اس نے کہا، کوئی بات نہیں۔ اماں آمنا سامنا ہو گیا غلطی سے۔ اس نے کہا، مشکل یہ آ پڑی ہے کہ وہ تجھے دوبارہ دیکھنا چاہتا ہے۔ تو نہ نعوذ باللہ، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ تو ہمارے ہاں ہوتا ہی نہیں۔ لیکن میرا اکلوتا بیٹا ہے، مر جائے گا۔ شہزادی نے کہا، میں کیا کر سکتی ہوں۔ مرتا ہت تو ٹھیک ہے۔ اللہ کی یہی رضا ہے۔ وہ بڑھیا رونے لگی، چلی گئی۔ گھر بیٹھی بیمار بیٹے کو دیکھا۔ جان بہ لب بیٹے کو۔ ماں تھی صبر نہ ہوا پھر لوٹ کر آئی اور منتیں کرنے لگی۔ شہزادی نے ترس کھا کر کہا، اماں تو ایسا کر اس کو ایک جھوٹا پیر بنا دے۔ کوئی بزرگ بنا دے۔ اس کو کہو، اللہ کی عبادت کیا کرے حق ہو کا نعرہ مارا کرے اور جنگل بیابانوں کی سیر کرے۔ میرے والد جو ہیں وہ پیروں، فقیروں کو بڑا مانتے ہیں۔ بزرگوں پر بادشاہ سلامت کا اعتقاد تھا، تو میں سمجھتی ہوں کہ ایک وقت ایسا ضرور آ سکتا ہے کہ اگر اس کا نام بہت دور دور تک پہنچ گیا کہ بڑا کمال کا فقیر ہے تو شاید میرے والد اس سے متاثر ہوں، اور متاثر ہونے کے بعد مجھ کو بھی کہیں، بہٹی جا ان کی زیارت کر آ۔ اس نے کہا، اللہ تیرا بھلا کرے۔ وہ گھر آ گئی۔ اس نے کہا، بیٹا اٹھ یہ لمبا پنیڈا ہے، لیکن طے کرنا ہے اس مسافت کو۔ تو نہا دھو پگڑی باندھ کے نیک بن جا۔ اللہ کا پیارا۔ اس نے کہا، اللہ کا پیارا کیسے بنا جات اہے۔ اس نے کہا یہ تو مجھے بھی نہیں پتا، تجھے بھی نہیں پتا۔ اب جنگل میں جا کے بیٹھ کے اللہ سے کہہ، میں تیرا پیارا ہوں، اور وہ تجھ کو قبول کر لے گا۔ وہ چلا گیا جنگل میں جا کے بیٹھ گیا مزے سے، اور وہاں پر جا کر وقت گزارنے لگا، اور اللہ کی تسبیح جیسی بھی اس کو آتی تھی، اور آرزو دل میں رکھنے لگا کہ کبھی شاید اللہ کی زیارت ہو، اور میں کبھی اس راہ پر چل سکوں۔ اس راہ پر چل کر اس آرا کو بھی دیکھ سکوں جس کی آرزو لے کر میں نے یہ سارا ڈراما رچایا ہے۔ کچھ عرصہ وہاں پر بیٹھا رہا۔ کچھ دیر بعد لوگوں نے اسے دیکھا، ایک نوجوان ہے، شکل صورت بھی اچھی ہے۔ بات کسی سے نہیں کرتا۔ آنکھیں بند کر کے، لو لگا کے بیٹھا ہے۔ تو انہوں نے جب اس کو دن رات وہاں اسے بیٹھے دیکھا۔ سردی میں، گرمی میں، دھوپ میں، بارش میں تو انہوں نے جھونپڑی ایک بنوا دی اور وہ اس جھونپڑی میں رہنے لگا۔ وقت گزرتا رہا تو آہستہ آہستہ اس کے نام کا ڈنکا بجنے لگا کہ ایک بہت کرنی والا بزرگ ہے، اور پہنچے ہوئے بزرگ ہیں، اور لوگ اس کی زیارت کو آنے لگے۔ ایک سلسلہ چل پڑا۔ کسی نے آ کے بادشاہ سے بھی ذکر کیا کہ آپ کی راجدھانی کے فلاں علاقے میں، فلاں پر گنے میں بڑا بزرگ آیا ہوا ہے۔ کمبی داڑھی ہے۔ لمبے بال ہیں، اور بڑا حسین آدمی ہے، اور بات نہیں کرتا کسی سے۔ تو بادشاہ کو اشتیاق ہوا۔ انہوں نے سواری نکالی، پینج ہزاری دس امیر، وزیر اس کے ساتھ چلے کہ، زیارت کرنے چلتے ہیں۔ جنگل میں پہنچے، کٹیا کے پاس کھڑے ہو گئے۔ بادشاہ نے دیکھا، اس کو سلام کیا۔ آنکھیں بند کر کے بیٹھا تھا، اس کو کیا پروا تھی۔ اس نے کہا، میں وقت کا بادشاہ ہوں۔ تجھے سلام کرنے آیا ہوں۔ اس نے کہا بابا تیری مہربانی، ہم نے تیرا سلام قبول کیا، اب چلا جا۔ اس نے کہا، نہیں میں یہاں بیٹھنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ کہنے لگا، کھلی جگہ پڑی ہے بیٹھ جا۔ بادشاہ نے کہا، ساتھ میرا سارا لاؤ لشکر بھی ہے۔ اس نے کہا، وہ بھی بیٹھ جائے، فقیروں کا ٹھکانا ہے۔ چنانچہ وہاں پر بادشاہ کچھ دیر بیٹھا رہا۔ اس نے اندر سے محسوس کیا اس کا Vibration جو ہے، ارتعاش اس کا روحانی، بہت طاقتور ہے، جس نے بادشاہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چنانچہ خواتین و حضرات! وہ بادشاہ وہاں پر آنے جانے لگا۔ ملنے ملانے لگا۔ اس کی رعایا کے لوگ بھی ظاہر ہے، وہ بھی آنے لگے۔ اس کی ڈاڑھی بڑھ چکی تھی۔ بال لمبے تھے۔ کسی نے پہچانا ہی نہیں۔ تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی، کہ بادشاہ نے ایک دن اپنی بیٹی سے کہا کہ پیاری بیٹی ایک بہت بڑے بزرگ ہماری سلطنت میں آئے ہیں، اور ہماری خوش قسمتی ہے، ہمارے قلم رو میں اتنا بڑا بزرگ آیا ہے، تو کسی دن جا اس کی زیارت کرنے۔ تو اس نے کہا، بالکل ٹھیک ہے ابا جی میں جاتی ہوں۔اس کو تو پتا تھا کہ یہ کون ہے۔ چنانچہ وہ اتنی سہیلیوں کے ساتھ پالکی میں بیٹھ کر پہنچی اور جا کر کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی، دیکھ تیرے دل کی آرزو پوری ہو گئی میں نے جو بات بتائی تھی، اس کے مطابق اتنے سالوں بعد تیرے سامنے آ گئی ہوں، تو اب آنکھیں کھول اور جس طرح سے چاہتا ہے میری زیارت کر، دید کر، میں تیرے سامنے کھڑی ہوں۔ وہ کہنے لگا، اچھا اچھا مہربانی، مہربانی، تین دفعہ کہا۔ ویسے ہی بیٹھا رہا آنکھیں بند کر کے۔ اس نے کہا، بد بخت میں اتنا لمبا سفر طے کر کے آئی ہوں اور تو آنکھیں بند کر کے بیٹھا ہے۔ تو اس نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ تو لکھنے والے کہتے ہیں کہ شہزادی نے کھنچ کے ایک تھپڑ اس کے منہ پر مارا تڑاخ سے۔ کہنے لگی، آنکھیں کھول۔ جس کے لیے اتنا بڑا ڈراما رچایا تھا، وہ گوہر مقصود تیرے سامنے موجود ہے۔ تو اس نے کہا۔ بی بی اب آنکھیں بند ہی رہنے دو۔ وہ سچا ہے جس کو لوگ تلاش کرتے ہیں۔ وہ مل جائے گا کبھی نہ کبھی آنکھیں بند کرنے سے۔ اب تجھ میں کیا رکھا ہے۔ اس نے کہا، سن بی بی، سچا تو کوئی ایسے ہی ہوتا ہے، لیکن اگر جھوٹ کی دھارنا دھار کر بھی آدمی چلے، اور اس کے سامنے اس کا سفر موجود ہو، اور اس کا رخ جو ہے ٹھیک ہو، تو وہ سچائی کی طرف جانے لگتا ہے، لیکن اگر بد قسمتی سے شروع ہی سے اس کے سفر میں ٹیڑھ پڑ جائے، جیسے ہمارے معاشرے میں بڑی تکلیف دہ صورت حال پیدا ہونے لگی ہے تو پھر وہ کبھی اس منزل تک نہیں پہنچتا جس کی آرزو اس نے جھوٹے انداز میں کی ہے۔ چنانچہ وہ آنکھیں بند کیے ہی بیٹھا رہ گیا۔ اور گوہرِ مقصود تھا، وہاں سے واپس آ گیا۔ تو باپ نے پوچھا بھئی کیسے بزرگ ہیں۔ کہنے لگی، ابا جی ابھی کچا ہے۔ یہ اس کا اپنا انداز تھا، لیکن ایک وقت آئے گا، یہ بہت بڑا بزرگ بنے گا۔ تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ بعض اوقات باہر کی وردی اختیار کرنے سے بھی اندر کے وجود پر، اندر کی ذات کے اوپر اس کے اثرات مرتب ہونے لگتے ہیں، جس طرح سے باہر سے کیمو تھروپی کر کے آپ اندر کے کینسر کا علاگ کرتے ہیں۔ روحانیت میں بھی ایسا عمل ہوتا ہے۔ آپ کی تشریف آوری کا بہت بہت شکریہ، مہربانی۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔ خواتین وحضرات! اللہ آپ کو بھی آسانیاں عطا فرمائے، اور آسانیں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت صالح کی اونٹنی اور پاکستان

ہم اہلِ زاویہ کی طرف سے آپ سب کی خدمت میں سلام پہنچے۔

میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ آپ نے کبھی اونٹ کی سواری کی ہے یا نہیں۔ پھر بھی ایک اندازے کے مطابق یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے اونٹ دیکھا ضرور ہے۔ ہم نے اپنے بچپن میں اونٹ کی بہت سواری کی۔ اس لیئے کہ ہمارے گھر کے قریب جس گاؤں میں‌ میں رہتا تھا، وہاں بلوچوں کا ایک ڈیرہ تھا۔ بلوچ اور اونٹ لازم و ملزوم چیزیں ہیں، اور بلوچ لوگ بڑے پیارے لوگ ہوتے ہیں۔ میری زندگی پر ان کا بڑا خوشگوار اثر ہے۔ وہ اس لیئے کہ ایک مرتبہ میرے والد نے مجھے جھڑکا اور شائد ایک تھپڑ بھی مارا۔ میں منہ بسورتا ہو اماں بلوچن کے گھر چلا گیا۔ تو اس نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ میں نے کہا، ابا جی نے مارا ہے۔ وہ چادر لے کر غصے سے ہمارے گھر آ گئی۔ اور کہنے لگی، ڈاکدار تو نے بچے کو کیوں مارا؟ کہنے لگے، میں نے اس کو مارا نہیں بلکہ جھڑکا۔ کہنے لگی جھڑکا بھی کیوں۔ وہ سمجھتی تھی کہ جھڑکا بھی اس قسم کی چیز ہے۔

اونٹ پر ہم بہت سواری کرتے رہے۔ پھر اس کے درمیان ایک بڑا لمبا وقفہ آ گیا۔ 1946ء میں جب پاکستان کی تحریک بڑے زوروں پر تھی تو ہمیں دریائے ستلج کے کنارے ایک لمبے سفر پر تبلیغ کے لیئے جانا تھا تا کہ پاکستان کی طرف لوگوں کا جھکاؤ پیدا کیا جا سکے۔ وہاں تقریباً کچھ ایسے لوگ تھے جن کا جھکاؤ پاکستان کی طرف بہت کم تھا اور وہ مسلم لیگ سے ناواقف تھے۔ ہمیں وہاں اونٹ پر جانا تھا۔ ہمارے پاس دو اونٹ‌ تھے۔ دو نوجوان علی گڑھ یونیورسٹی سے آئے تھے۔ یہ ایک لمبا سفر تھا، ہم نے ایک دن میں ساٹھ میل کی مسافت اونٹ‌ پر طے کی، پھر ہمارے خوش قسمتی سے وہاں راستے میں دو ڈاکو مل گئے۔ ایک کا نام گامن تھا، ایک کا نام سجاول تھا۔ رنگ دار بندوقیں تھیں۔ انہوں نے ہمیں روک لیا، تم کدھر جا رہے ہو۔ ہم نے بتایا ہم ایک مشن پر جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہم ڈاکو ہیں، ہمیں ایک کراڑ (ایک ہندو قوم) کو لوٹنے جانا ہے، ہمیں اونٹ دے دیں۔ ہم نے کہا، اونٹ‌ ہمارے لیئے بہت ضروری ہیں۔ تم کراڑ کو بعد میں لوٹ لینا ہمارا کام زیادہ ضروری ہے۔ انہوں نے کہا، نہیں ہماری کام تم سے زیادہ ضروری ہے۔ خیر وہ ایک لمبی کہانی ہے، وہ پھر کبھی سناؤں گا۔ پھر دونوں ڈاکو ہمارے دوست بن گئے۔ اور اونٹ پر بیٹھنے کا طریقہ بتایا کہ اگر کاٹھی نہ بھی ہو تو پھر اونٹ کی کوہان پر لانگڑی مار کر بیٹھا جاتا ہے، ہر ایک کام کا اپنا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ یہ بات میں اس لیئے عرض کر رہا تھا آپ سے کہ چند دن پہلے کراچی جانے کا اتفاق ہوا، میں تقریباً آدھی صدی کے بعد سن پینتالیس کے بعد پاکستان کے سرحد کے اندر اونٹ پر بیٹھا۔ کلفٹن میں آپ نے دیکھا ہو گا، اور ہم نے بھی اپنے بچپن کے زمانے کو یاد کیا، اونٹ پر بیٹھنے کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اونٹ اٹھنے کے انداز میں دوسرے جانوروں سے مختلف ہوتا ہے۔ سب سے پہلے وہ اپنی پچھلی ٹانگیں کھڑی کرتا ہے۔ دنیا کے دوسرے سارے جانور اگلی ٹانگیں پہلے کھڑی کرتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے اس کے اوپر بیٹھنے والا سب سے پہلے سجدہ کرتا ہے۔ یہ اللہ نے اس کا ایک کام رکھا ہے۔ آدمی چاہے یا نہ چاہے سجدہ خود بخود ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اگلی ٹانگوں پر کھڑا ہوتا ہے۔ ہم نے کافی وقت ان اونٹوں کے ساتھ گزارا، لیکن میرے ساتھ عجیب و غریب واقعات گزرتے رہتے ہیں۔ مجھے یہ نہیں پتہ تھا کہ اس اونٹ کے رشتے سے، اور اس کے حوالے سے بھی میں یوں ایک الجھن بھی گرفتار ہو جاؤں گا۔ اللہ تعالٰی اونٹ کے بارے میں بھی قرآن پاک میں کہتا ہے۔ کیا تم نے اونٹ کو دیکھا کہ کس طرح کا جانور بنایا۔ یعنی اس کے عجائب و غرائب ابھی تک پوشیدہ ہیں، اور سارے کے سارے اس کے خصائص لوگوں کے سامنے نہیں آئے، اتنا ہم جانتے ہیں یہ میلوں اور دنوں تک سفر کر سکتا ہے پانی کے بغیر۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کے بارے میں مختلف نظریات ہیں، لیکن یہ اپنے انداز کا بڑا ہی خوبصورت جانور ہے۔ بے حد خوبصورت۔ اگر آپ نے اسے کبھی غور سے نہیں دیکھا، اب آپ کو موقع ملے تو اسے ضرور دیکھیئے گا۔ اللہ کرئے آپ جائیں یا آپ گئے ہوں گے، جدے سے مدینے جاتے ہوئے بڑی خوبصورت سڑکیں ہیں، کبھی کبھی ریگستان کے لق و دق ٹوٹے اور کچے علاقے آ جانے پر آپ کو چلتے پھرتے اونٹوں کی کچھ قطاریں نظر آئیں گی۔ ان کے مالکوں نے کھلے چھوڑے ہوتے ہیں۔ چاندنی جیسی ریت پر جیسے چاندی سے بدن لیکر دھوپ کے اندر ایک عجیب گل کھلاتے ہوئے چلتے ہیں، وہ نظارہ دیکھنے والا ہوتا ہے۔ ہم بس پر سفر کر رہے تھے اور بس سے سر نکال نکال کر بڑی دیر تک ان کو دیکھتے تھے۔ اللہ میاں نے کیسی خوبصورت مخلوق پیدا کی ہے۔ اس کے بارے میں ہم کچھ زیادہ نہیں جانتے۔ اسی سلسلے میں مجھے کچھ یاد آیا۔ پاکستان میں جب امریکہ کا صدر آیا، ابھی تک شائد ایک ہی آیا ہے، جس کا نام Lindon B. Bhonson تھا۔ وہ کراچی اترا، تو جس چیز نے لنڈن بی جانسن کو متاثر کیا، وہ عجیب چیز اونٹ‌ تھا۔ ہماری بہت گاڑیاں تھیں جو سامان، اسبابِ نقل و حرکت میں کام آتی تھیں، بہت سارا سامان ڈھوتی تھیں۔ اونٹ گاڑیاں تھیں، یہ 1952، 1953 کی بات ہے، وہ اونٹ سے اتنا متاثر ہوا تو اس نے کہا میں تو اونٹ امریکا لے کر جاؤں گا، اور اس کو اپنے ساتھ رکھوں گا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ اونٹ کو تو نہیں لے جا سکا اس اونٹ کا ساربان جو کہ شتربان تھا بشیر، اس کو ساتھ لے گیا، اور بشیر بچارے کو بڑی مصیبت پڑی، اور وہ روتا تھا کہ اونٹ کی وجہ سے مجھے امریکہ جانا پڑ رہا ہے۔ وہ امریکہ جانے سے گھبراتا تھا کہ مجھے وہاں کی بولی نہیں آتی۔ اخبار میں بیان دیا، میں وہاں جا کر کیا بات کرؤں گا، امریکہ جا کر مجھے کیا لینا ہے۔ مجھے اونٹ گاڑی چلانی ہے، الغرض اس کو جانا پڑا۔ اس نے نئی رومی ٹوپی خریدی۔ اگر آپ نے تصویریں دیکھی ہوں تو بچارے نے یہ کچھ کیا، وہ آزاد آدمی تھا۔

میں آپ سے اونٹ کی باتیں کر رہا تھا تو میرے ذہن میں اس اونٹنی کا خیال بار بار آتا ہے، جو اونٹنی حضرت صالح کی اونٹنی تھی، اور جو ایک معجزے کے طور پر وجود میں آئی تھی۔ قوم ثمود کی طرف صالح کو اللہ نے بھیجا تھا، اور وہ بہت اونچے درجے کے نبی تھے۔ انہیں حکم ہوا کہ جا کر اس بے ہودہ قوم کو راہ راست پر لاؤ۔ وہ بڑی بگڑی قوم تھی۔ بیشتر میں خرابی یہ تھی کہ ان کے پاس دولت بہت زیادہ تھی۔ علاقہ بہت سرسبز تھا، اردن کے علاقے سے لے کر عرب تک، اور مدینے شریف سے لے کر تبوک کے درمیانی علاقے میں۔ وہاں جا کر ثمود کی جغرافیائی حد ختم ہوتی ہے۔ لمبا چوڑا علاقہ تھا، اور ثمود کے لوگ اپنے تیئں تکبر کے مارے ہوئے اور اپنے آپ کو بہت برتر سمجھتے ہوئے اونچے پہاڑوں کو تراش کر چھینی ہتھوڑی سے اسے چھیل چھیل کر ان پہاڑوں کے اندر نہایت خوبصورت محل بناتے تھے۔ یہ انکا بڑا کمال تھا، یعنی انہوں نے کوئی لینٹر نہیں ڈالا، کوئی اینٹ و پتھر جمع نہیں کیئے، پہاڑ کا چھیلنا، کھرچنا شروع کر دیا، اور اس کے اندر ایسے اعلٰی درجے کے کمرے بنائے، ستون محرابیں ہیں کہ وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ابھی اگر آپ چاہیں تو اردن کے علاتے میں جا کر دیکھ سکتے ہیں۔ سلائیڈیں بھی ملتی ہیں۔ اگر آپ کو جغرافیے کا شوق ہے تو جیوگرافک میگزین میں گاہے بگاہے ان محلات کی وہ تصویریں فوٹوگراف کی صورت میں اور ڈرائینگ کی صورت میں آتی رہتی ہیں۔

تو وہ لوگ بڑے معتبر لوگ تھے، اور وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے، تب اللہ نے ایک پاکیزہ نبی حضرت صالح کو ان کے پاس بھیجا کہ جا کر ان کو اللہ کا پیغام دیں تو ان لوگوں کو نبیوں کے اوپر جو اعتراض رہا تھا، جتنے بھی نبی انکے پاس بھیجے گئے ہیں، ایک ہی اعتراض رہا ہے کہ آپ کیسے نبی ہو سکتے ہو؟ آپ ہمارے جیسے انسان ہو۔ اور کہتے تھے کہ تُو بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، اور پھر تیسری بات کہ تُو غریب آدمی ہے، اور غریب آدمی کیسے نبی ہو سکتا ہے؟ نبی تو بہت امیر آدمی کو ہونا چاہیے۔ فرعون نے بھی یہی کہا تھا کہ تم کیسے نبی ہو سکتے ہو۔ تیرے بازوؤں میں سونے کے کنگن بھی نہیں۔ اور بھی جتنے پیغمبر تھے، اس کے ساتھ بھی یہی تھا۔ نوع علیہ السلام کے ساتھ بھی۔ وہ یہی بات بار بار دہراتے کہ اگر تُو سربلندہوتا اور تیرے بھی اتنے اونچے محل ہوتے جتنے لوگوں کے پاس ہیں، تم نے بھی ایسی عمارتیں بیائی ہوتیں، اے صالح تو ہم تم کو پیغمبر مان لیتے، لیکن اب تو تُو ایک عام آدمی ہے۔ ٹھیک ہے بھلے آدمی ہو لیکن تمہاری اقتصادی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ دیکھیں ہم بھی بار بار Acknowledged Condition کی بات کرتے ہیں، جب بھی کبھی مصیبت پڑتی ہے، بوجھ پڑتا ہے، تو آپ بجائے اس بوجھ کو بلا واسطہ طور پر Directly برداشت کرنے کے لیئے ہمیشہ پلٹ کر اکنامکس کی طرف جاتے ہیں۔ ہماری اکنامکس کمزور ہے، اس لیئے کام نہیں کرتے۔ ہم نیک اس لیئے نہیں ہو سکتے، کہ ہم مالی طور پر کمزور ہیں۔ ہم بہادر اس لیئے نہیں ہو سکتے کہ ہم مالی طور پر کمزور ہیں۔ اچھے انسان اس لیئے نہیں بن سکتے کہ مالی طور پر کمزور ہیں۔ تو وہ بھی یہ کہتے تھے کہ تم مالی طور پر بہت کمزور ہو۔ تمہارے پاس اتنے بڑے محل ہوتے، جتنے ہمارے پاس ہیں، پھر ہم نبی مانتے۔ لیکن وہ کہتے، مجھے یہی حکم دیا گیا ہے اور میں تم کو بھلائی کے راستے کی طرف بلاتا ہوں۔ تمہارا اسی میں فائدہ ہے۔ میں تم سے اس کے عوض کرئی ٹیوشن فیس نہیں مانگتا، جو کچھ ہے مفت میں دیتا ہوں، اور میرا اجر اللہ کے پاس ہے۔ تو انہوں نے کہا ہم تجھ کو پیغمبر نہیں مانتے، اگر ہم طبیعت پر بوجھ ڈال کر آپ کو پیغمبر مان بھی لیں، تو اس کے لیئے ایک شرط ہے کہ ہمیں کوئی معجزہ دکھا دو، ثمود قوم نے کہا۔ حضرت صالح نے فرمایا، آؤ تم کون سا معجزہ چاہتے ہو۔ لیکن انہوں نے Warn کیا کہ معجزہ رونما ہو چکنے کے بعد بھر اگر تم نے خدا کو اور اس کے پیغمبر کو نہ مانا تو پھر تم پر عذاب آ جائے گا۔ خوش نصیب ہیں وہ قومیں، جنہوں نے معجزہ طلب نہیں کیا، لڑائی جھگڑا کرتے رہے ہیں، لیکن معجزہ نہیں مانگا، وہ بچ گئے، لیکن اگر معجزہ مانگ لیا جائے، اور معجزہ طلب کر لیا جائے اور وہ رونما ہو جائے، پھر بھی نہ مانا جائے تو پھر عذاب طے شدہ بات ہے۔ انہوں نے کہا کوئی بات نہیں، ہم برداشت کر لیں گے لیکن اگر تُو معجزہ رونما کرے گا تو۔ دیکھیے ان ظالموں نے معجزہ طلب کیا۔ انہوں نے کہا، ہم یہ چاہتے ہیں سامنے چٹیل پہاڑ ہے، اور بہت چکنا اور مضبوط ہے، کروڑوں سال سے اپنی جگہ قائم ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں تیرا اللہ اس پہاڑ سے ایک اونٹنی پیدا کرے۔ اب پہاڑ کا اور اونٹ کا کوئی تعلق نہیں، اور وہ اونٹنی آئے ہمارے ساتھ ہماری بستی میں رہے، تو پھر ہم مانیں گے تم پیغمبر ہو۔

چناچہ انہوں نے دعا کی، اور اللہ سے معجزے کو طلب کیا کہ اگر یہ لوگ اس طرح سے ہی مان جائیں تو انکا فائدہ ہے۔ ان چٹیل پہاڑوں کے درمیان میں سے اللہ کے حکم سے اونٹنی نمودار ہوئی، اور ان کے آگے چلتی آ رہی ہے۔ پہاڑوں کا قد بت بھی بہت بلند تھا۔ وہ انٹنی بھی چاندی چناچہ انہوں نے دعا کی، اور اللہ سے معجزے کو طلب کیا کہ اگر یہ لوگ اس طرح سے ہی مان جائیں تو انکا فائدہ ہے۔ ان چٹیل پہاڑوں کے درمیان میں سے اللہ کے حکم سے اونٹنی نمودار ہوئی، اور ان کے آگے چلتی آ رہی ہے۔ پہاڑوں کا قد بت بھی بہت بلند تھا۔ وہ انٹنی بھی چاندی کا ایک مرقع نظر آتی تھی، چلتی ہوئی آ گئی اور بستی میں آ کر کھڑی ہو گئی۔ اور ظاہر ہے ادھر ادھر دیکھنے لگی ہو گی، وہاں آ کے۔ ان لوگوں نے اسے دیکھا اور ششدر بھی ہوئے کہ اونٹنی تو پیدا ہو گئی ہے لیکن اب ہم اس کو کیا کریں۔ تو حضرت صالح نے فرمایا تہماری خواہش کے مطابق، تمہاری آرزو کے مطابق یہ اونٹنی انہی پہاڑوں کے درمیان میں سے پیدا ہو کر آپ کے درمیان آ گئی ہے، اور اب یہ آپ کی مہمان ہے۔ اب اللہ نے ایک شرط عائد کی ہے کہ بستی کے ایک کنویں یہ پانی پیئے گی، اور اسکا ایک دن مقرر ہو گا، اس دن وہاں سے کوئی دوسرا آدمی پانی نہیں لے سکے گا۔ نہ مویشی نہ چرند پرند نہ انسان۔ اونٹنی ہماری معزز ترین مہمان ہے، اسکی دیکھ بھال کرنا ہمارہ فرض ہے، انہوں نے کہا، بہت اچھا ہم ایسا ہی کریں گے۔ کچھ دن تو انہوں نے اونٹنی کو برداشت کیا، اور باری کے مطابق جو دن مقرر تھا، اسے پانی دیتے رہے، لیکن پھر انسان انسان ہے، ان میں سے ایک آدمی ایسا پیدا ہوا جس نے مزید آٹھ آدمیوں کو ورغلایا اور وہ نو ہو گئے۔ انہوں نے کہا، یہ کیا شرط ہم نے اپنے آپ پر عائد کر لی ہے، اور اس اونٹنی کی کیا حثیت ہے، ہم اس کا کسی نہ کسی طرح سے قلع قمع کر دیں۔ چناچہ انہوں نے رات کے وقت اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں، جو کہ ٹخنوں کے اوپر کا حصہ ہوتا ہے۔ تو اونٹنی ظاہر ہے وہاں پر اپاہج ہو کر بیٹھ گئی۔ صبح کو جب سب لوگ بیدار ہوئے، اور اونٹنی کے پانی پینے کی باری تھی، لیکن وہ تشریف نہ لائی، کیونکہ وہ وہاں نہ تھی۔ جب حضرت صالح کو علم ہوا کہ یہ واقعہ ہوا ہے۔ تو پھر انہوں نے اپنی قوم سے کہا، یہ بہت بُرا ہوا، نہ صرف تم نے اس معجزے کو جھٹلایا بلکہ اس مہمان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ اب تین دن کے اندر اندر تمہارا قلع قمع ہو جائے گا۔ اور تم نیست و نابود ہو جاؤ گے۔ پھر آنے والی تاریخ میں لوگ انگلیاں اٹھا کر بتایا کریں گے کہ یہ ثمود کے رہنے کی جگہ تھی، اور یہ ان کے محل تھے جو ویران پڑے ہیں، اور قیامت تک اسی طرح ویران رہیں گے۔ چناچہ جیسا فرمایا گیا تھا، بالکل ویسے ہی ہوا، پہلے دن، جیسے کہ بتاتے ہیں کہ ان کے منہ پیلے ہوئے، اگلے دن بے حد سرخ ہو گئے پھر کالے۔ پھر ایک ایسی چنگھاڑ، جیسے آج کل بم بنے ہیں، چنگھاڑ آئی، وہ سارے کے سارے اوندھے منہ گر گئے اور نیست و نابود ہو گئے۔

ایک دفعہ مجھے ایک دوست کے پوتے کی شادی پر اسلام آباد جانا ہو تو اسلام آباد پہنچ کر مجھے ایک پیغام ملا کہ ایک بابا ہیں جو آپ سے ملنا چاہتے ہیں، میں بابوں کا بڑا دیوانہ ہوں۔ آپ کو علم ہے۔ پچھلے ہفتے آپ سے بابا کی بات کر رہا تھا، جو ہمارے ساتھ اسی ٹی وی سٹیشن کا رہنے والا تھا۔ لیکن بابوں کے زائچے بابوں کی شکل و صورت، اور ان کے ڈھانچے، ان کے حلیے ان کے مزاج بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی مجھ سے یہ آ کر نہ پوچھیں، ہر بابا میٹھا نہیں ہوتا، میرے سائیں فضل شاہ صاحب جیسا۔ ایسا نہیں ہوتا۔ چناچہ میں ان سے ملنے ان کے پاس گیا۔ دھوپ تھی، پہاڑی علاقہ تھا۔ میرے گلے میں چھوٹا سا صافہ (لمبا کپڑا) تھا۔ آپ کو پتا ہے پہاڑوں کی دھوپ بہت تیز ہوتی ہے۔ جب میں انکے پاس گیا، تو کہنے لگے، تم بڑی مٹھار مٹھار کے باتیں بناتے ہو، اور باتیں سناتے ہو، میں تم کو Warn کرتا ہوں۔ یہ لفظ انہوں نے استعمال کیا۔ Warn کرنے کے لیئے بلایا ہے یہاں پر۔ تم لوگ بہت بے خیال ہو گئے ہو، اور تم لوگوں نے توجہ دینی چھوڑ دی ہے اور تم ایک بہت خوفناک منزل کی طرف رجوع کر رہے ہو۔ دیکھو‌! کہنے لگے، میں تم کو بتاتا ہوں یہ پاکستان ملک ایک معجزہ ہے، یہ جغرافیائی حقیقت نہیں ہے۔ تم بار بار کہا کرتے ہو، ہم نے یہ کیا، پھر یہ کیا، پھر سیاست کے میدان میں یہ کیا، پھر اپنے قائد کے پیچھے چلے، ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ایسے مت کہو، پاکستان کا وجود میں آنا ایک معجزہ تھا، اتنا بڑا معجزہ ہے جتنا بڑا قومِ ثمود کے لیئے اونٹنی کے پیدا ہونے کا تھا۔ اگر تم اس پاکستان کو حضرت صالح کی اونٹنی سمجھنا چھوڑ دو گے، نہ تم رہو گے نہ تمہاری یادیں رہیں گی۔ میرے گلے میں موجود صافے کو پکڑ کر کھینچ رہے تھے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ میری کیا کیفیت ہو گی۔ انہوں نے کہا تم نے صالح کی اس اونٹنی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ باون برس گزر گئے تم نے اس کے ساتھ وہی رویہ احتیار کیا ہوا ہے جو ثمود نے کیا تھا۔ اندر کے رہنے والوں، اور باہر کے رہنے والوں دونوں کو Warnکرتا ہوں، تم سنبھل جاؤ، ورنہ وقت بہت کم ہے، اس اونٹنی سے جو تم نے چھینا ہے، اور جو کچھ لوٹا ہے، اندر کے رہنے والو اس کو لوٹاؤ، اور اس کو دو، اور باہر کے رہنے والو ساؤتھ ایشیا میں سارے ملکوں کو Warn کرتا ہوں، اس کو کوئی عام چھوٹا سا“ معمولی سا جغرافیائی ملک سمجھنا چھوڑ دیں۔ یہ حضرت صالح کی اونٹنی ہے، ہم سب پر اس کا ادب، اور احترام واجب ہے۔ اس کو ایک معمولی ملک نہ سمجھنا اور اس کی طرف رخ کر کے کھڑے رہنا، اور اب تک جو کوتاہیاں ہوئی ہیں ان کی معافی مانگتے رہو، اور اس کو Recompensate کرو۔

میں ان کی کسی بات کا کوئی جواب نہ دے سکا، اور خوف زدہ ہو کے کھڑا رہا، اور پھر ان کو سلام کر کے، سر جھکا کے واپس چلا آیا۔ میری دعا ہے، اللہ آپ سب کو آسانیاں عطا فرمائے، اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 
Top