زاویہ 2

قیصرانی

لائبریرین
بشیرا
میں‌ایک طویل مدت اور لمبے عرصے کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہو رہا ہوں اور آپ یہ ملاحظہ فرما رہے ہو ں گے کہ اب “زاویہ“ کا رنگ کچھ مختلف ہے اور اس کی ہئیت میں‌پہلے کے مقابلے میں‌تبدیلی آ گئی ہے۔ اس طوی۔ مدت اور اس قدر لمبی مدت کی غیر حاضری کی کیا وجہ ہے؟ اس کا میں‌ہی سراسر ذمہ دار ہوں اور میں‌سمجھتا ہوں کہ یہ کوتاہی میری طرف سے ہوئی ہے۔ مجھے خیال آیا اور ایک مقام پر میں نے سوچا کہ شاید میں زاویےکےپروگرام سے بہترطور پر آپ کی خدمت کر سکتا ہوں اور کسی ایسے مقام پر پہنچ کر آپ کی دستگیری کروں جہاں‌پر مجھے پہنچ جانا چاہئے تھا لیکن یہ خیال باطل تھا اور یہ بات میرے نزدیک درست نہیں تھی لیکن اس کا احساس مجھے بہت دیر میں‌ہوا کہ جو شخص جس کام کے لئے پیدا ہوتا ہے، بس وہی کر سکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کرنے کی کوشش کرے تو وہ معدوم ہوجاتا ہے۔ میں آئیندہ کے پروگراموں میں‌شاید اس بات کا ذکر کروں کہ میں‌آپ کے بغیر اور آپ کی معیت کے بغیراور آپ سے دور کس طرح سے معدوم ہوتا ہوں۔ ہمارے فیصل آباد گورنمنٹ ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس ایک جیبی گھڑی تھی۔ اس اعلٰی درجے کی گھڑی کے ساتھ ایک سنہری زنجیر بندھی ہوئی تھی۔ یہ وہ گھڑی تھی جس کا ڈائل بڑا سفید اور اس کے ہندسے بڑے بڑے اور سیاہ رنگ کے تھے۔ اس گھڑی کے زور پر اور اس کی وجہ سے سارے سکول کا کام چلتا تھا اور اسی گھڑی کے حوالے سے ارد گرد کے لوگ اپنی گھڑیاں ٹھیک کیا کرتے تھے لیکن خدا جانے کیا ہوا کہ ہر روز گھنٹہ گھر کے قریب سے گزرتے ہوئے ہیڈ ماسٹر صاحب زنجیر کھینچ کر اپنی گھڑی کا وقت فیصل آباد کے گھنٹہ گھر سے ملاتے تھے اور دونوں‌میں مطابقت پیدا کرتے تھے۔ پھر ایک روز یہ ہوا کہ گھڑی کے دل میں‌خیال آیا کہ کیوں‌نہ میں‌بھی گھنٹہ گھر کے مقام پر پہنچوں اور لوگوں‌کی خدمت کروں۔ ان کو وقت بتاؤں اور ان کے لئے وہی کچھ اور اتنی ہی خوبیاں لا کر ان کی جھولی میں‌ڈالوں‌جو فیصل آباد کا گھنٹہ گھر ان کو عطا کرتا ہے۔ سنتے ہیں کہ کسی طلسمی یا کسی روحانی زور سےوہ گھڑی کہ ان کی جیب سے اچھلی اور گھنٹہ گھر کے ماتھے پر جا کر چپک گئی اور جونہی وہ اس مقام پر پہنچی وہ اپنی ہستی باکل کھو بیٹھی اور معدوم ہو گئی اور وہ لوگوں کو وقت بتا کر جو پہلے خدمت کیا کرتی تھی اس سے بھی دور نکل گئی اور اتنی اونچائی پر پہنچ گئی کہ اس اونچائی پر اسے پہنچنا نہیں چاہیئے تھا۔ اسی انداز میں‌میرے ساتھ بھی کچھ ویسا ہی ہوا۔ میں سمجھا کہ میں‌آپ کی ایک اور طریقے سے اور ایک بلندی یا رفعت پر پہنچ کر خدمت کر سکوں گا لیکن وہ بات کچھ ٹھیک نہ نکلی اور میں لوٹ کر پھر آپ کی خدمت میں‌حاضر ہو گیا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب یہ ہرگز ہرگزنہیں‌ہے کہ ہمارے اور آپ کے درمیان فراق و جدائی رہی۔ اس میں‌ہم ایک دوسرے کو فراموش کرتے اور چلے گئے ایسا نہیں ہے۔ ایک روز جب میں بابا جی کے پاس ڈیرے پر گیا تو میں اس بات پر شرمندہ تھا کہ میں‌بڑی دیر کے بعد بابا جی کو مل رہا تھا۔ تقریباً چھ ماہ میں ان سے نہیں‌مل سکا تھا۔ میرا کام کچھ اس نوعیت کا تھا کہ مجھے ملک میں‌ٹھہرنا نصیب نہ ہوا اور مجھےایران اور ترکی میں‌کچھ کام کرنا ہوتے تھے۔ وہ آر-سی-ڈی کا زمانہ تھا۔ جب میں باباجی کے پاس گیا اور بیشتر اس کے کہ میں ان سے معذرت کا کوئی جملہ بولتا، انہوں‌نے خود سے کہنا شروع کر دیا کہ “یہیں ہوتے ہو، ہمارے درمیان ہی رہتے ہو۔ ہم سے ملتے جلتے ہو۔ باوصف اس کے کہ تم یہاں‌نہیں آئے لیکن نہ ہم نے تمہیں‌فراموش کیا، نہ ہم تمہاری یاد بھولے اور عاجز آئے۔“ میں‌اپنی جگہ پر شرمندہ اور ششدر کھڑا تھا، کہنے لگے، جس طرح گاڑی میں سفر کرتے ہوئی، ہوائی جہاز میں‌بیٹھے ہوئے زندگی کے مراحل طے کرتے ہوئے، سڑکوں پر چلتے ہوئی، محفل مشاعرہ یا گانے سنتے ہوئے آپ کبھی بھی اپنے دل سے، اپنے گردوں اور جگر کی کارکردگی سے واقف نہیں ہوتے لیکن وہ موجود ہوتے ہیں بالکل اسی طرح ہم بھی ایک دوسرے کی فراموشی میں زندہ تھے اور ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ یہ مت سمجھا کیجئے کہ کسی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے دور رہے، یا ہم نے ایک دوسرے کو دور سمجھا ہے۔ مجھے اس سے ایک اور عجیب سی بات جس کا بظاہر تو اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، یونہی میرے ذہن میں آئی کہ میری نواسی کا بچہ باہر کوٹھی کی لان میں کھیل رہا تھا۔ مجھے اس کا علم نہیں تھا کہ وہ باہر کھیل رہا ہے۔ میں اپنی نواسی سے باتیں‌کرتا رہا، اچانک دروازہ کھلا اور وہ بچہ مٹی میں‌لتھڑا ہوئے ہاتھوں اور کپڑوں پر کیچڑ اور اس کے منہ پر “چھنچھیاں“(خراب منہ اور بہتی ناک) لگی ہوئی تھیں، وہ اندر آیا اور اس نے دونوں ہاتھ محبت سے اوپر اٹھا کر کہا، امی مجھے ایک “جپھی“ اور ڈالیں۔ پہلی “جپھی“ ختم ہو گئی ہے تو میری نواسی نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا باوصف اس کے کہ وہ بچہ باہر کھیلتا رہا ہوگا اور اس کے اندر وہ گرماہٹ اور حدت موجود رہی ہوگی جو اسے ایک “جپھی“ نے عطا کی ہوگی اور جب اس نے محسوس کیا کہ مجھے اپنی بیٹری کو ری چارج کرنے کی ضرورت ہے تو وہ جھٹ سے اندر آگیا۔ میرے اور آپ کے درمیان بھی یہ بیٹری اپنا کام کرتی رہی، گو نہ مجھے اس کا احساس رہا اور نہ شاید آپ کو اس قدر شدت سے رہا لیکن ہم ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ اور ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو چلتے رہے۔ زندگی کے یہ معاملات بڑے عجب ہوتے ہیں۔ میں‌آپ سے وعدہ کرتاہوں کہ میں‌بہت دیر تک اور جیسے ہمارے بزرگ کہا کرتے ہیں “بشرطٍ زندگی“ ایک دوسرے کے ہم ساتھ رہیں گے اور اس پروگرام کی نوعیت ویسی ہی رہے گی جیسے پہلے پروگراموں میں رہی اور جن میں‌آپ کی شمولیت میرے لئے فخر کا باعث تھی اور آپ نے مجھے بڑی محبت عطا کی۔ یہ بات آپ بالکل اپنے ذہن میں‌رکھئے گا کہ باوصف اس کے کہ چیزیں نظر نہیں آتیں، دکھائی نہیں دیتیں لیکن موجود رہتی ہیں۔ فرانس کا ایک بہت بڑا رائٹر جسے میں دل و جان سے پسند کرتا ہوں، وہ تقریباً تیس پینتیس برس تک فرانس سے غیر حاضر رہااورجب وہ اس طویل غیر حاضری کے بعد لوٹ کر اپنے وطن آیا اور سیدھا اپنے اس محبوب گاؤں پہنچا جہاں‌اس کا بچپن گزرا تھا۔ رائٹر کفسو کہتا ہے کہ جب وہ اپنے گاؤں پہنچا تو اس پر ایک عجیب طرح‌کی کیفیت طاری ہو گئی اور مجھے وہ سب چیزیں یاد آنے لگیں جو بچپن میں‌میں‌نے یہاں‌دیکھی تھیں، لیکن ان کا نقشہ اس قدر واضح‌نہیں تھا جیسا کہ ان کا نقشہ اس وقت واضح تھا۔ جب وہ چیزیں میرے قریب سے گزرتی تھیں اور میرے پاس تھیں، کفسو کہتا ہے کہ ایک عجیب واقعہ اسے یاد آیا کہ ایک ندی کی چھوٹی سی پلی پر سے جب وہ گزرا کرتا تھا تو اس کے داہنے ہاتھ پتھروں کی ایک دیوار تھی جس پر غیر ارادی طور پر میں اپنی انگلیاں اور ہاتھ لگاتا ہوا چلتا جاتا تھا اور وہ آٹھ دس فٹ لمبی دیوار میرے ہاتھوں کے لمس اور میں اس کے لمس کو محسوس کرتا رہا۔ وہ کہنے لگا کہ میرا جی چاہا کہ میں‌اس پُلی پر سے پھر سے گزروں اور اپنے بچپن کی یاد کو ویسے ہی تازہ کروں لیکن جب میں نے دیوار پر ہاتھ رکھا تو میں‌نے اس لمس کو محسوس نہ کیا جو وہ پتھر کی دیوار مجھے میرے بچپن میں عطا کیا کرتی تھی۔ میں‌اس دیوار پر ہاتھ پھیرتا ہوا پورے کا پورا راستہ عبور کر گیا لیکن وہ محبت اور چاہت جو پتھر کی دیوار اور میرے زندہ جسم کے درمیان تھی، وہ مجھے میسر نہ آ سکی۔ میں‌پھر پلٹا لوٹ کے پھر اسی طرح‌گزرا۔ پھر میں اتنا جھکا جتنا اس زمانے میں میرا قد ہوا کرتا تھا اور پھر میں‌نے اس پر ہاتھ رکھا اور میں‌اس قد کے ساتھ جب میں‌چھٹی ساتویں‌میں‌پڑھتا تھا، چلا تو میں‌نے محسوس کیا اور میرے ہاتھ نے محسوس کیا اور میرے ہاتھ نے میری روح اور جسم کو سگنل دیا جو سگنل میں‌آج تک اپنی تحویل میں‌کسی بھی چیز میں‌نہیں لا سکا۔ اس لمس کو اپنی روح پر طاری کرتے ہوئی یوں‌لگا جیسے میری ماں‌صحن خانہ میں‌کھڑی مجھے پکار رہی ہو اور اس کے ہاتھ میں‌وہ Cookies ہوں جو وہ مجھے سکول سے واپسی پر دیا کرتی تھی(وہ ہاتھ کے لمس کا ذکر کر رہا ہے کہ اسے ماں‌کے بدن سے اور اس کے جسم سے لہسن اور پیاز کی خوشبو آ رہی ہے۔ ساتھ میری بہن کھڑی ہے اور مجھے اپنی بہن کے سارے وجود کی خوشبو آ رہی ہے، جو وہ بچپن میں‌محسوس کیا کرتا تھا)۔
میرے دیوار کے لمس کے ساتھ مجھے وہ سارا اپنا بچپن یاد آگیا اور سارا منظر آنکھوں‌کے سامنے فلم کی طرح‌چلنے لگا اور میں‌لوٹ کر اس زمانے میں‌چلا گیا جب میں‌چھوٹا سا تھا اور اس دیوار کے لمس کی یاد کے سہارے اور اس Imaginationکے زور پر سارے کا سارا سین میرے وجود پر حقیقت کی طرح طاری ہو گیا اور میں‌وہاں‌سے گزر گیا۔ فرانسیسی رائٹر کی باتوں پر مجھے تھوڑی سی شرمندگی بھی ہوئی کیونکہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کچھ لوگ درگاہوں پہ آتے ہیں اور وہ اپنے بزرگ کی قبر کے ساتھ کھڑے ہو کر چوکھٹوں پر ہاتھ ملتے ہیں؛ قبر کے تابوت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور سنگٍ مرمر کا جو چوکھٹا ہوتا ہے، اسے چھونے کی کوشش کرتے ہین۔ ہم ان لوگوں کی وہ حرکت سخت ناپسند کرتے ہیں لیکن جان کفسو کی یہ بات پڑھنے کےبعد اب میں‌کچھ کچھ ان لوگوں کا ساتھی ہو گیا ہوں۔ بہت ممکن ہے کہ انہیں مرقد کے چوکھٹے پر یا کھڑکی کی چوکھٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کچھ اپنا پن محسوس ہوتا ہو، کچھ روحانی رابطہ، کچھ روحانی نسبت، ان کے ساتھ قائم ہوتی ہو۔ میرا خیا ل ہے انہیں منع نہیں کرنا چاہیئے بلکہ ان کے بارے میں یہ بھی نہیں سوچنا چاہیئے کہ یہ کس قدر تنگ نظر، دقیا نوس اور پرانی وضع کے لوگ ہیں۔ انہیں چھونے دیجئے۔ ان کو ہاتھ لگانے دیں۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں اس طرح سے ہاتھ لگانے میں، چھونے میں‌کچھ محسوس ہوتا ہو۔ جس طرح‌میری نواسی کے بیٹے نے کہا تھا کہ مجھے ایک “جھپی“ اور ڈالیں۔ میری امی کیونکہ میری پچھلی “جپھی“ ختم ہو گئی ہے۔ اسی طرح سے بہت سے لوگ ان یادوں کے سہارے کچھ محسوس کرتے ہیں‌جو دماغ کے نہاں‌خانے سے نہیں آتی ہیں‌بلکہ جسم کے ساتھ ان کا زیادہ اور گہرا تعلق ہوتا ہے اور وہ لمس کے ساتھ اور ہاتھ کی لکیروں‌کے ساتھ اور انگلیوں کے نشانوں‌کے ساتھ وجود پر وارد ہوتی ہیں۔ میں اس لمبی بات کے ذریعے آپ کی خدمت میں‌یہ عرض کرنا چاہتا تھا کہ جب کبھی آپ ملے، نظر آئے یا نہ آئے یا میں‌کبھی آپ کے شہر میں سے گزرا یا شہر کے اوپر سے گزرا تو وہ ساری باتیں اور وہ ساری یادیں جو میرے اور آپ کے درمیان تھیں یا نہیں تھیں لیکن ہم ایک دوسرے کے ساتھ “زاویے“ کی نسبت سے وابستہ تھے، وہ یادیں لوٹ لوٹ کر ذہن میں آتی رہیں اور میں آپ سے ملتا رہا جس طرح سے آپ اس پروگرام کے لئے مجھ سے ملتے رہے۔ ظاہری طور پر، باطنی طور پر یا معنوی طور پر، اس طرح‌میں‌بھی آپ کے ساتھ وابستہ رہا اور ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ کبھی نہ ٹوٹا اور میں اب پھر لوٹ کر آپ کی خدمت میں اسی طرح حاضر ہوتا رہوں گا۔ہمارے ماسٹر الہ داد کے بشیرے کی طرح ۔ہمارے ماسٹر الہ داد تھے۔وہ پڑھاتے تو فیروز پور میں تھے لیکن وہ قصور کے رہنے والے تھے۔وہ پڑھانے کے بعد ہر روز گاڑی پکڑ کر شام کو گھر چلے جاتے تھے۔ ان کا ایک بڑا لاڈلا بیٹا تھا اور بشیر اس کا نام تھا اور مجھے درمیان میں ہی ایک اور بات یاد آ گئی۔ اگر کبھی آپ قصور گئے ہوں یا آپ کا وہاں‌جانے کا ارادہ ہو تو( میں‌نے یہ بات محسوس کی ہے، آپ بھی کر کے دیکھئے گا) آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ قصور میں‌ہر تیسرے بچے کا نام بشیر ہوتا ہے۔اگر آپ راستہ بھول جائیں یا کچھ پوچھنا چاہیں اور قصور کے کسی بازار میں کھڑے ہو کر بشیر کہیں تو تین چار آدمی ضرور مڑ کر دیکھیں گے اور آپ ان سے رابطہ کر کے اپنا مسئلہ ان کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ ہمارے ماسٹر صاحب اپنے بیٹے سے بڑی محبت کرتے تھے۔ وہ بڑا غصے والا بھی تھا۔ ظاہر ہے کہ لاڈلا بچہ تھا۔ وہ معمولی سی بات پر بھی ناراض ہو جاتا ہوگا اور وہ گھر والوں سے وقتی طور پر قطع تعلق کرلیتا ہوگا۔ ماسٹر صاحب اس کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ ایک روز وہ ان سے ایسا ناراض ہوا کہ گھر سے بھاگ گیا اور پھر ملا ہی نہیں۔ ماسٹر صاحب کئی ماہ اس کی تلاش کرتے رہے۔ وہ ٹیچر آدمی تھے اور استادوں کا سوچنے کا انداز بڑا مختلف ہوتا ہے۔انہوں نے اپنے ہاتھ سے پرانی وضع سے خوش خط اشتہار لکھ کر بابا بلھے شاہ رح کے مزار کے باہر گیٹ پر چسپاں ‌کر دیا جس پر مارکر سے لکھا ہوا تھا کہ “پیارے بیٹے بشیر گھر واپس آجاؤ۔ تمہاری جدائی میں‌میں‌یہ وقت آسانی اور سکون کے ساتھ نہیں گزار سکتا۔“ وہ اشتہار چسپاں کر کے ماسٹر صاحب گھر آگئے۔ اگلے دن ماسٹر صاحب اس خیال کے پیش نظر کہ جہاں‌میں نے اشتہار لگایا ہے وہاں میرا بیٹا ضرور آتا ہوگا، درگاہ گئے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو ان کی حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ وہاں‌سات بشیرے بیٹھے ہوئے تھے لیکن ان کا بشیرا وہاں‌نہیں‌تھا۔ ماسٹر صاحب پریشانی کے عالم میں‌اور اس خیال سے کہ شاید کسی روز ان کا بشیرا بھی وہاں‌آجائے، بار بار وہاں‌کا چکر لگاتے رہے اور ماسٹر صاحب نے ایک دن لڈو بانٹے تو ہمیں پتہ چلا کہ ان کا بشیرا واپس آ گیا ہے۔ میں‌بھی آپ سے یہی کہنے کے لئے حاضر ہوا ہوں کہ آپ کا بشیرا واپس آ گیا ہے اور اب کبھی ناراض‌ہو کر، ناخوش ہو کر خوشی کی ترنگ میں‌آپ کو چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ میرا اور آپ کا بڑا گہرا، بڑا پرانا بڑی محبتوں‌کا رشتہ ہے اور اپنی اس غلطی اور کوتاہی کی معافی مانگتا ہوں جو میرے اور آپ کے درمیان ایک وسیع خلیج بن کر چند دن حائل رہی، آئیندہ انشاءاللہ ایسا نہیں ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ آپ کو اپنے بشیرے کی اس بات پر یقین آ گیا ہوگا۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطافرمائے اور آسانیاں‌تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ
 

قیصرانی

لائبریرین
اسطخدوس کے عرق سے سٹین گن تک
آج سے ٹھیک چالیس برس پہلے کی بات ہے، گرمیوں کا موسم اور اگست کا مہینہ تھا اور گرمی یہ نہیں بلکہ بلا کی گرمی تھی اور ہم جس جگہ کام کرتے ہیں وہاں کا جو Cooling System تھا وہ اچانک چلتے چلتے جواب دے گیا اور خراب ہو گیا۔ اس وقت ہم ایک پروگرام کی Editing کر رہے تھے اور سسٹم میں خرابی کے باعث ہماراوہاں بیٹھنا مشکل ہو گیا اور ہم نے سوچا کہ جسمانی تکلیف ان ذہنی تکالیف سے شدید تر نہیں جو انسانی زندگی میں‌منفیانہ سوچ اور منفیانہ پیش قدمی اور ایسے منفی رویوں‌سے پیدا ہوتی ہے جیسے آپ Negative Thoughts کہتے ہیں۔ اس میں سب سے بڑی Negative Thoughtsخوف ہے، دوسری نفرت، تیسری کدورت، چوتھی تشدد اور پانچویں جو بھی کسی سے کم درجے یا طاقت کی نہیں وہ غصہ ہوتا ہے۔ انسان میلادٍ آدم سے لے کر اب تک اس کوشش میں‌مصروف رہا ہے کہ وہ ان منفی خیالات اور منفی پیش قدمی سے نجات حاصل کرے۔ انسان نے اس سلسلے اور ضمن میں‌بڑے پاپڑ بیلے ہیں اور بڑی ماریں‌کھائی ہیں لیکن یہ عوارض اس کے ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں اور اس نے انسانی زندگی کو بڑی بُری طرح سے کھدیڑ کے رکھ دیا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا پرانے زمانے میں‌لوگ کچھ دم درود، کچھ وظائف اور کچھ جھاڑ پھونک سے ڈیروں پر جا کے کچھ فقیروں، سادھوؤں اور سنتوں کی خدمت میں‌حاضر ہو کر ان Negative Thoughts کو ملیا میٹ کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن وہ اس میں‌کامیاب نہیں‌ہو پاتے تھے۔ اس کے باوجود انسان کی کوششیں جاری رہیں اور شاید مستقبل میں بھی جاری رہیں گی۔ پھر مجھے یاد ہے کہ ڈیرے پر جہاں‌ہم اپنے باباجی کے پاس جایا کرتے تھے رات کے وقت جب باباجی اپنا درس دیا کرتے تھے‌(جو تقریباً اڑھائی بجے شروع ہوتا تھا) تو اس وقت وہ ہم سب کو گاؤ زبان کا قہوہ پلایا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ گاؤ زبان کے قہوے میں‌یہ تاثیر ہے کہ وہ انسان کے اندر سے منفی خیالات اور رویوں کو چوس لیتا ہے اور آدمی میں‌تقریباً ویسی ہی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ وہ اپنی پیدائش کے وقت تھا۔ ہم باباجی سے قہوہ تو پیتے رہے لیکن اس کا ہم پر ایسا اثر نہیں ہوا جیسا کہ ہونا چاہیے تھا۔ آپ نے حکیموں‌سے یہ سنا ہوگا کہ اگر دماغ کو بہت گرمی ہو گئی ہے تو “تخم بلنگو“ جسے آپ “تخم ملنگاں“ کہتے ہیں اس کا استعمال کیا جائے۔ اس دور میں‌گرمی دانے کا بھی بہت استعمال ہوتا تھا۔ یہ ساری دوائیاں جسمانی عارضوں کے ساتھ نہیں‌لڑتی تھیں بلکہ یہ روحانی، ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کا مقابلہ کرتی تھیں۔ کہیں‌تو یہ خوش قسمتی سے کامیاب ہو جاتی تھیں اور کہیں‌نہیں‌ہوتی تھیں۔ان ساری دوائیوں میں‌مجھے ایک ایسی دوا یاد ہےجو واقعی بڑی مفید ہے اور اس کے نہایت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ ذہنی بالیدگی میں‌اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسطخدوس ہے۔ ہمیں‌ہفتے میں‌ایک روز ایک چمچ بھر اسطخدوس اور اس میں‌سات سیاہ مرچیں ڈآل کر اس کا ابلا ہوا پانی چھان کے دیا جاتا تھا اور حکماء اور صوفیاء کہتے ہیں کہ اس کے پینے سے دماغ پر اس کا بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔۔۔۔ اس کو “جھاڑوبہ دماغ“ بھی کہتے ہیں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ یہ دماغ کے سارے جالے جھاڑو کی طرح سمیٹ کر ذہن میں‌صفائی کرکے جٍلا بخشتا ہے۔ Herbal Treatment کا زمانہ بھی گزرا۔ پھر نفسیاتی علاج دان آئے وہ بھی ذہن کے اندر پراگندگی کو دور کرنے کے لئے اپنے اپنے درماں‌لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہے۔ آپ کو مجھ سے بہتر علم ہوگا کہ فرائیڈ اس ضمن میں Psycho Analysis لے کر آیا۔ ایڈلر کچھ اور کہ کے لوگوں کے ذہن سے وہ منفیانہ پیش قدمی کو دور کرتا ہے جو انسانی زندگی پر اپنا پنجہ جما کر بیٹھی ہوئی ہوتی ہے اور کسی صورت بھی انسانی ذہن کو، انسانی روح کو نہیں‌چھوڑتی۔ پھر سائیکو ڈرامہ آیا جس میں‌لوگ مل جل کے ایک ڈرامہ کرتے تھے جس میں‌وہ اپنے دکھ درد کا اظہار کرتے تھے اور انسان بیچارہ اس تناظر میں بس “ترلے“ ہی کرتا رہا، تڑپتا ہی رہا لیکن اس کے ذہن سے وہ باتیں دور نہ ہو سکیں جسے وہ دور کرنا چاہتا تھا۔منفی خیالات بھی بڑے عجیب و غریب ہوتے ہیں اور وہ بہت عجیب و غریب طریقے اور انداز سے حملہ آور ہوتے ہیں اور جو لوگ شدت سے اس کی لپیٹ میں‌آجاتے ہیں وہ بیچارے یہ بھی کہتے ہیں کہ بزرگ اور پاکیزہ ہستیوں کے بارے میں‌بہت بہت بُرے خیالات ذہن میں‌آتے ہیں۔ باوصف اس کے ہمارے روحانی پیشوا اور ہمارے ذہنی مبلغ اس امر کا یقین دلاتے ہیں کہ یہ خیالات اختیاری نہیں ہوتے اس لئے اس سے حوالے سے زیادہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ انسانی زندگی پر حملہ آور ہوتےہی رہتے ہیں۔ جب ہم Editing پر کام کر رہے تھے اور گرمی اپنی جوبن پر تھی تو وہ بڑے جہازی سائز کے امریکی کولنگ سسٹم سے ٹھنڈا رہنے والا بڑا ہال اور اس سے منسلک تیرہ کمرے گرمی میں ڈوب گئے اور ہمیں کام جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔ وہاں ہم ریکارڈنگ کرتے تھے اور ریکارڈنگ کو پھر آگے وائس آف امریکہ واشنگٹن ڈی سی بھیجتے تھے جہاں‌امریکہ کہ خوبیان بیان کی جاتی تھیں کہ یہ بہت اچھا ملک ہے۔ یہ لوگوں کے ساتھ بہت محبت اور بھلائی کا سلوک کرتا ہے اور پسماندہ اور گرے پڑے لوگوں پر خاص توجہ دیتا ہے اور ہم امریکہ کے اس سحر میں آئے ہوئے تھے اور تب بھی آئے ہوئے تھے اور اب بھی بہت حد تک آئے ہوئے ہیں لیکن اس گرمی میں کام کرنا ہمارے لئے مشکل تھا اور مشینیں‌بھی جواب دے رہی تھیں۔ مستری یعنی مقامی ماہرین کو بلا کر پوچھا گیا کہ اس سسٹم کو کیا مسئلہ ہو گیا ہے۔ وہ ماہرین اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے تھے اور پورے سات دن تک عملی طور پر وہ دفتر اور وہ کارخانہ بالکل ویسے ہی بند رہا جیسا کہ عام طور پر چھٹی کےروز بند ہوتا ہے۔ ہم وہاں‌جاتے ضرور تھے لیکن کام نہیں کر پاتے تھے۔ آخر تنگ آکر گیارہویں‌دن ہم نے اسلام آباد سے Experts منگوائے۔ ان میں‌ایک امریکی ماہر تھا اور اس کے ساتھ ایک لبنانی ایکسپرٹ تھا۔ ان دونوں نے شروع سے آخر تک اس پلانٹ کو چیک کرنا شروع کیا کہ آخر اس میں ایسی کون سی خرابی پیدا ہو گئی ہے یہ کولنگ سے عاجز آ گیا ہے اور عاری ہو گیا ہے۔ وہ دونوں‌لگے رہے اور بڑی دیر تک سوچتے رہے لیکن تین دن کی مسلسل شب و روز کی محنت کے بعد ان کی سمجھ اور گرفت میں کچھ نہ آ سکا۔ آخر ایک روز اللہ نے ہم پر اور ہماری جانوں‌پر مہربانی کرنی تھی اور اس لبنانی نے خوشی سے ایک زور کا نعرہ بلند کیااور اس نے چلا کر کہا کہ میں نے خرابی پکڑ لی ہے۔ اس پلانٹ میں ایک نہایت ہی پیچدہ جگہ پر جہاں بڑا ہی حساس آلہ (تھرمو سٹیٹ) لگا ہوتا ہے جو سسٹم کے چلنے اور بند ہونے کو کنٹرول کرتا ہے اس کے اندر ایک حساس مقام پر چھپکلی کا ایک بچہ پھنس کر کٹ چکا تھا اور اس کی نرم و نازک ہڈیاں وہ ساری اس مشین میں‌پیوست ہو چکی تھیں اور اس چھپکلی کے بچے نے اس سارے پلانٹ کو روک رکھا تھا تو اب مجھے یاد آتا ہے کہ جس طرح‌ایک معمولی سے چھپکلی اتنے بڑے پلانٹ کو یوں روک لیتی ہے کہ انسان کا بس ہی نہیں چلتا اور اس طرح نفرت، کدورت اور منفی سوچ کی چھپکلی انسانی زندگی میں پھنس کرکس طرح‌سے انسان کی ساری زندگی ویسے ہی روک لے گی جیسے کہ اس معمولی چھپکلی نے اس پلانٹ کو جام کر دیا تھا۔ آدمی کوشش کرتا رہتا ہے اور بڑا نیک نیت ہوتا ہے، بڑا بھلا اور اچھا ہوتا ہے لیکن ایسے خیالات سے نکل نہیں سکتا۔ تشدد، ایک نفرت، ایک غصہ، ایک خوف اگر انسان کی زندگی میں‌کسی طرح سے اس چھپکلی کی طرح‌پھنس جائے تو ستر اسی سال اور اس سے لمبی عمر بھی اس کا ساتھ نہیں دے سکے گی اور ان عوارض میں‌مبتلا شخص اس مرض‌کا شکار ہو کر اس دنیا سے چلا جائے گا۔ مجھے ہمیشہ اس بات کا خیال رہا، رہتا ہے اور اب بھی ہے اور بہت سے لوگ، بہت سے بچے اب زیادہ ہی ہو گئے ہیں جو اس بیماری کو ڈیپریشن کا نام دیتے ہیں چونکہ یہ انگریزی زبان کی Term میڈیکل کی دنیا سے ہمارے اوپر آئی ہے اور یہ لفظ یا بیماری جسے ڈیپریشن کہتے ہیں اور اس کے بارے میں‌بہت کچھ کہا جاتا ہے اس کے وجود میں‌آنے اور پیدا ہونے کی ساری وجہ یہ ہے کہ انسان کی چلتی ہوئی زندگی میں ایک چھپکلی پھنس جاتی ہے اور یہ پھنستی بھی ایک ایسے انتہائی حساس مقام پر ہے جو آپ کی روح‌کے تھرمو سٹیٹ کو کنٹرول کرتا ہے اور وہ چھپکلی وہی منفی پیش قدمی اور Negative Approach ہوتی ہے جس کو میں‌بار بار آپ کی خدمت میں‌یہ کہ کر پیش کرتا ہوں کہ وہ یا تو تشدد کی صورت میں‌آتی ہے یا پھر غصہ، خوف یا نفرت کی شکل میں آتی ہے۔
آپ کبھی بھی اپنی زندگی کا جائزہ لے لیں یہ عارضہ جس شخص میں‌کم ہوگا یا جس کسی نے اس کے اوپر کنٹرول کر رکھا ہوگا وہ خوش نصیب ہے اور وہ کم بیمار ہے۔ کچھ نہ کچھ خرابی تو آدمی میں‌رہتی ہی ہے لیکن اللہ جسمانی عارضے کے مقابلے میں روحانی اور نفسیاتی عارضے سے بچائے۔
ہم ایک بار تھر پارکر کے ریگستان میں‌تھے اور جیپ پر محوٍ سفر تھے۔ ریت میں‌جیپ آہستہ آہستہ حرکت کر رہی تھی۔ ریت میں‌گاڑی چلانا خاصا محال ہوتا ہے۔ اسے وہاں‌کے ماہر ڈرائیور ہی چلا سکتے ہیں۔ آدھا Desert عبور کر کے ہم اسلام کوٹ پہنچے۔ وہاں ہمارے میزبان مکھی نہال چند تھے جو ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ شام کے وقت جب میں‌اور ممتاز مفتی سیر کرنے کے لئے نکلے تو ہمیں‌وہاں‌پرعجیب و غریب طرز کی دو چیزیں‌نظر آئیں۔ یہ تو یہ کہ کھلے ریگستان میں‌جگہ جگہ ٹینٹ لگے ہوئے تھے اور ان میں‌بڑے ہی خوبصورت پیارے پیارے بچوں والے خاندان آباد تھے اور ان میں‌نہایت کڑیل نوجوان مرد تھے اور عورتیں‌چونکہ لمبا گھونگھٹ نکال کے پردہ کرتی تھیں اس لئے ان کے بارے میں ہم کچھ وثوق سے نہیں کہ سکتے کہ وہ کس شکل و صورت کی تھیں۔دوسرا ان ٹینٹوں‌کے آگے یا اس کارواں‌کے آگے جو خیمہ زن تھا ایک چھوٹا سا کچا گھر تھا جس کے باہر ایک پرانی پیٹی پڑی ہوئی تھی ایسی پیٹی جیسی آموں‌والی ہوتی ہے اور اس پر پرانی مسواک سے لال رنگ میں‌جامعہ اشرفیہ لکھا ہوا تھا۔ میں‌نے ممتاز مفتی سے کہا کہ اس مقام پر اتنی دور جامعہ اشرفیہ کہاں‌سے آ گیا۔ ہم نے اس کچے مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک صاحب نکلے۔ ان کی پینتالیس پچاس برس عمرہوگی۔ ہم نے ان سے کہا! صاحب آپ کے گھر کا نام جامعہ اشرفیہ کیوں ہے؟انہوں‌نے کہا کہ جی میں‌نے کچھ وقت مولانا اشرف علی رح کی خدمت میں‌تھانہ بھون میں‌گزارا تھا۔ میں ان سےمتائثر ہوں اور انہی کی یاد میں‌میں‌نے اپنے گھر کو یہ نام دے دیا۔ ہماری ان کے ساتھ بڑی باتیں‌ہوتی رہیں اور آخر میں‌ممتاز مفتی نے پوچھا کہ دل میں‌طرح‌طرح کے خیالات آتے ہیں جن میں‌منفی قسم کے خیالات بہت زیادہ ہیں اور ان خیالات میں بری بری باتیں بھی ہیں۔ کچھ ایسی بری باتیں جو میرے دل کو بھی بری لگتی ہیں اور کچھ ایسی باتیں‌جو لوگوں‌کو ناگوار گزریں، تو مولوی صاحب آپ یہ بتائیں کہ کیا آپ نے اس کے بارے میں کچھ سوچا۔ دوائیاں تو بنی ہیں، حکیموں نے اس کے توڑ کے لئے جوشاندے بھی بنائے ہیں اور لوگ دم درود بھی کرتے ہیں لیکن یہ خیالات ذہن اور دل سے نکل نہیں‌پاتے تو مولوی صاحب نے کہا جی میں‌نے تو یہ سوچا ہے کہ اگر آپ تشدد پر مائل ہوں، اگر آپ کی طبیعیت میں‌غصہ ہو اور آپ خوفزدہ رہتے ہوں اور آپ کو کسی شخص کے ساتھ نفرت ہو تو آپ ہمیشہ اپنی سٹین گن اپنے ساتھ رکھیں اور جو مد مقابل ہے، جس سے آپ کو نفرت ہے اس کو کمرے میں‌داخل ہوتے ہی یا ملتے ہی‌(انہوں‌نے باقاعدہ سٹین گن پکڑ کا پوزیشن بنا کر دکھائی) اس پر فائر کر دیں پھر آپ کی جان بچ گئی اور اس کے بارے میں‌پروا نہ کریں۔ اب میں‌بھی اور ممتاز مفتی بھی حیران کہ بھئی یہ اچھا آدمی ہے یہ سٹین گن سے بندوں‌کو ہی تباہ کیے جاتا ہے۔ اس نے کہا کہ جناب جب تک آپ اپنی سٹین گن ہر وقت تیار نہیں رکھیں‌گے اس وقت تک اس عمل سے آپ گزر نہیں‌سکیں گے اور یاد رکھئے سٹین گن میں‌ہر طرح‌کی گولی پڑے گی چوکور، لمبی، چھوٹی اور بڑی اور وہ چلے گی۔ ہم نے کہا مولوی صاحب ہم نے تو ایسی سٹین گن نہیں دیکھی جس میں گولیوں کی شکل و صورت اور حجم بھی مختلف ہو۔ کہنے لگے کہ آپ کو بس یہ گن ہر وقت تیار رکھنی ہے اور اپنے بائیں‌کندھے کے ساتھ لٹکا کر چلنا ہے اور اس سے غافل نہیں‌ہونا۔ مفتی بڑا متجسس آدمی تھا۔ انہوں‌نے کہا کہ جی یہ گن کہاں سے ملتی ہے، تو مولوی صاحب نے کہا کہ یہ آپ کو خود ہی تیار کرنا پڑے گی۔ مفتی صاحب نے کہا باڑے سے ملے گی؟ انہوں‌نے کہا کہ نہیں۔ پوچھا سندھ سے، تو بھی جواب نفی میں ملا۔
ہم نے کہا کہ صاحب یہ تو ایک مشکل کام ہمیںبتا دیا‌ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے تیار کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ سارا دارومدار گولیوں‌پر رکھیں جن کا میں‌نے ذکر کیا“یعنی چھوٹی، موٹی، لمبی، پتلی، چوکور، چورس“۔ جب وہ تیار ہوں گی تو پھر آپ حملہ آور ہوں گے۔ میں‌نے کہا جناب وہ کس قسم کی گولیاں‌ہیں۔ انہوں‌نے کہا کہ وہ جو گولیاں‌ہیں وہ آیات کی گولیاں‌ہیں جتنی بھی آیات آپ کو یاد ہوں اور سورتوں کے ٹکڑے اور جتنی بھی دعائیں‌یاد ہیں یہ آپ محفوظ رکھیں اور انہیں عربی میں یاد کر کے رکھیں اس کا آپ کو بڑا فائدہ ہوگا۔ یہ آئتیں اور یہ دعائیں اور یہ درود و وظائف کے جو طے شدہ الفاظ ہیں اور جو اللہ کے پاک نام میں استعمال ہوں ان کو گولیوں کے طور پر اپنے وجود کی سٹین گن میں ہر وقت فٹ رکھیں اور جونہی آپ کو اپنا مد مقابل نظر آئے جس سے آپ کو سخت نفرت ہے تو اسے دیکھتے ہی فائر کر دیں اور جو کچھ آپ کو اپنے مخالف کو زیر کرنے کے لئے یاد ہے پڑھنا شروع کر دیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے رہیں‌کہ یا اللہ یہ شخص بہت برا لگتا ہے، مجھے اس سے نفرت ہے، میں‌اس شخص(نفرت، غصہ اور دیگر منفی سوچیں) کو قتل کرنے پر مائل ہوں اور میں‌اس سے کسی صورت محبت نہیں‌کر سکتا۔ اب تو ہی اس کا بندوبست کر، جب آپ سوچتے جائیں گےاور اپنی قرآنی سٹین گن سے گولیوں (آیات) کی بوچھاڑ کرتے جائیں‌گے تو آپ کا منفی خیالات پر غلبہ ہو تا جائے گا۔ ہم مولوی صاحب کی اس بات پر اپنے اپنے دل میں‌غور کرتے رہے، میں اور ممتاز مفتی اپنے اپنے بستر پر لیٹے تو اس پر غور کرتے رہے لیکن ہم نے اس پر کوئی بات نہیں کی۔ اگے دن صبح سیر کے وقت ممتاز مفتی نے کہا کہ بھئی اس کی بات تو ٹھیک ہے لیکن پتہ نہیں ہم اس میں‌کامیاب ہو بھی سکیں گے کہ نہیں۔ میں‌نے کہا ہاں یار ہے تو مشکل بات لیکن تجربہ کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔
میری ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ قبل ایک سردیوں‌کی خوشگوار چمکتی دوپہر تھی۔ میں‌اپنے دفتر کے لان میں‌چھتری لگا کر مزے سے دھوپ میں‌بیٹھا تھا کہ میں‌نے دفتر کے بڑے پھاٹک پر یعنی سڑک کے موڑ پر وہ کار دیکھی جس کے اندر میرا نہایت ہی منحوس اور نہایت قبیح دشمن بیٹھا تھا اور جو “کنی“ کاٹ کر میری طرف ہی آرہا تھا۔ جونہی میں‌نے اسے دیکھا وہ کار کھڑی کر کے اس میں‌سےنکل آیا۔ جب وہ اپنی کار کا دروازہ کھول کر باہر نکل رہا تھا تو مجھے اسلام کوٹ‌(تھر پارکر) کے مولوی صاحب کی بات یاد آ گئی جس میں‌انہوں‌نے Defence کا طریقہ بتایا تھا چنانچہ میں اچھل کر اٹھ کھڑا ہو گیا اور میں‌نے پوزیشن لے لی تو میرا ہاتھ سٹین گن پکڑنے کے انداز میں‌اور ایک نیچا ہو گیا اور میں‌نے فٹا فٹ اور کھٹا کھٹ درود اور آیات کا ورد شروع کر دیا۔ چھوٹی کچھ بڑی جو بھی منہ اور ذہن میں‌آیا ان آیات کی گولیوں‌کی بوچھاڑ میں‌نے جاری رکھی۔ جوں‌جوں‌وہ میرے قریب آرہا ہے میں‌اور الرٹ ہوتا جا رہا ہوں۔ وہ بڑا ہی نالائق، بے وقوف، منحوس اور تکلیف دہ آدمی تھا۔ جب اس نے قریب پہنچ کر السلام علیکم کہا تو میں‌نے اسے وعلیکم السلام کہا اور بیٹھنے کا کہا تو وہ حیرانی سے میری جانب دیکھ کر کہنے لگا! اشفاق صاحب میں‌نے دور سے یہ سمجھ کہ آپ کوئی بلب لگا رہے ہیں لیکن یہاں‌آکر میں‌دیکھتا ہوں‌کہ یہاں‌نہ کوئی بلب ہے اور نہ کوئی تار ہے اور نہ ہی یہاں‌کوئی ایسا لیمپ ہے تو یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔میں‌نے کہا تشریف رکھیے۔ آدھامیرا غصہ تو دور ہو چکا ہے اور انشاء‌اللہ ابھی ہو جائے گا کیونکہ میری سٹین گن میں ابھی چند گولیاں‌باقی ہیں اور یہ آپ کے بیٹھتے بیٹھتے اسی طرح سے چلتی جائیں‌گی۔ وہ بیٹھ گیا اور باتیں‌ہونے لگیں۔ (میں‌نے پھر صحرا میں‌رہنے والےمولوی صاحب کی بات یاد کی۔ خدا ان کی عمر دراز کرے شاید اس وقت بھی وہ حیات ہوں‌گے) میں‌نے آنے والے شخص سے کہا کہ دیکھئے مولوی صاحب نے کیسا اچھا نسخہ بتایا ہے کہ اتنی دیر کے بعد آنے والے صاحب جو مجھے ہمیشہ اذیت اور تکلیف دیا کرتے تھے اب میرے سامنے بیٹھے ہیں‌اور میری طبیعت پر اتنا بوجھ نہیں‌پڑ رہا جس قدر پہلے پڑا کرتا تھا چنانچہ اب زندگی میں‌جب بھی کبھی موقع ملتا ہےاور میں اس حوالے سے خوش قسمت ہوں اور مجھے ان بابوں نے بڑی آسانیاں‌عطا کی ہیں۔ یہ بابے ہی ہوتے ہیں جن سے انسان پوچھتا رہتا ہے۔ آپ بھی پوچھتے رہا کریں کہ جناب مجھے یہ مسئلہ ہے یا تکلیف ہے۔ اس کا کیا سدٍباب کیا جائے۔
میں‌اسطخدوس کے عرق سے لے کر اپنی سٹین گن چلانے تک جتنی بھی عمر گزری ہے اس میں‌کافی آسانیوں سے گزر گیا ہوں اور میری آرزو ہے کہ آپ بھی میرے ساتھ اس دعا میں‌شریک ہوں‌کہ اللہ مجھے اور آپ کو آسانیاں‌عطا فرمائے اور آسانیاں‌تقسیم کرنے کامزید شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ
 

فریب

محفلین
“عالمِ اصغر سے عالمِ اکبر تک“
ہم سب کی طرف سے آپ سب کی خدمت میں سلام پہنچے۔ ہمارے ہاں بڑی دیر سے عالمِاکبر کا تصور چلا آ رہا ہے اور اس پر بڑا کام بھی ہوا ہے اور اِس کے بارے میں صاحبِ حال لوگ جانتے ہیں اور جو اس میں گزرے ہیں ان کی کیفیت ہم لوگوں سے ذرا مختلف رہی ہے۔
Macrocosm (عالم اکبر) کے ساتھ ساتھ Microcosom (عالمِ اصغر) کا بھی سلسلہ چلا، کہ جو کچھ ہے وہ اس خدا کی طرف سے ہے۔ مغرب کے لوگ خاص طور پر امریکہ اور روس نے اس موضوع پر برا کام کیا ہے۔ ہمارے ہاں مشرق میں مولانا روم نے اور ان کے بعد مولانا روم کے شاگرد حضرت علامہ محمد اقبال نے بھی اس پر بہت کچھ لکھا اور بتایا ہے لیکن اس کے اسرار اہستہ اہستہ اس وقت کھلنے لگے جب مغرب میں Parapsychology کا علم بطورِ خاص پڑھایا جانے لگا اور اس کی تفاسیر باہر نکلنے لگیں۔ امریکہ کی انیس کے قریب یونیورسٹیوں جن میں نارتھ کیرولینا کی یونیورسٹی بہت معروف ہے وہ اس سلسلے میں بہر آگے ہے۔ بھارت کی گیارہ کے قریب یونیورسٹیاں بھی اس پر کام کر رہی ہیں۔ ہم اس پر کام نہیں کرتے کیونکہ اس کو وقت کا ضیاع خیال کرتے ہیں یا سمجھتے ہیں کہ یہ بالکل دقیانوسی تصور ہے لیکن West نے جو تصور قائم کیا ہے وہ Macrocosm اور Microcosom کا تصور تھا جسے عالمِ اکبر اور عالمِ اصغر کہتے ہیں۔ مغرب والے کہتے ہیں کہ عالمِ اکبر تو وہ کائنات ہے جو آپ کے اردگرد پھیلی ہوئی ہے اور عالمِِ اصغر “میں “ ہوں یعنی چھوٹا سا ایک وجود‘ میرے سے لے کر مینڈک کا وجود۔ اب اس بات پر غور ہو رہا ہے اور بڑی اچھی لائینوں اور خطوط پر سوچا جا رہا ہے کہ عالمِ اکبر کا عالمِ اصغر کے اوپر کوئی اثر پڑتا ہے یا عالمِ اصغر کا کوئی کیا ہوا کام عالمِ اکبر میں پہنچتا ہے؟
کیا یہ بات سچ ہے کہ
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں
وہ اس نتیجہ پر پہنچے( خاص طور پر ویانا یونیورسٹی کے پروفیسر) ہیں کہ اس کا برا شدید اثر بڑتا ہے اور وہ بات جس پر ہم ہنسا کرتے تھے کہ جی ستاروں کا آدمی کے ساتھ اور اس کی قسمت کے ساتھ کیا تعلق ؟ ستارہ ستارہ ہے اور اس کی اپنی گردش اور اپنی چال ہے اور آدمی یہاں بیٹھا ہے آخر تعلق کیسے ہو سکتا ہے۔ لیکن علم بتاتا ہے کہ نہیں آدمی یہاں ایسے ہی بیٹھا نہیں ہے اس کے پُرکھوں اور Arche Types کے ذریعے ایک پورا عمل جاری ہے۔
میں معافی چاہتا ہوں کہ میں ایسے ہی Technically Detail میں چلا گیا۔ میں یہ بات آپ سے اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ ١٩٥٣ء میں میں پہلی مرتبی انگلستان گیا۔ میرے لندن میں بڑے پیارے دوست تھے جن سے ملے ہوئے مجھے ایک عرصہ ہو گیا تھا۔ جن میں جاوید، اعجاز، الیاس، گرنجش اور جگجیت سنگھ وغیرہ شامل تھے۔ یہ سارے لوگ بی بی سی میں کام کرتے تھے اور انہوں نے اپنی پرھائی بھی جاری رکھی ہوئی تھی۔ اس وقت بی بی سی کا تی ہاؤس ایک ایسی جگہ تھی جہاں ہم سارے اکٹھے ہوتے تھے اور گپیں ہانکتے تھے۔ وہاں پر ہمارا دوست الیاس جو تھا وہ بڑا خاموش طبع آدمی تھا۔ وہ سدھانیہ سے پاکستان اور پھر یہاں سے انگلستان چلا گیا تھا۔ اسے بائیں کان سے سنائی نہیں دیتا تھا۔ لاہور مین اس نے آپریشن بھی کروائے لیکن کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس نے لندن سے بھی آپریشن کروایا لیکن ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کا یہ مسئلہ لا علاج ہے۔ پہلے اس نے چارٹراکاؤنٹنگ کا کام شروع کیا لیکن وہ اس میں ناکام ہو گیا پھر اس نے بیرسٹری والا پڑھائی کا سلسلہ شروع کیا جو اس کے دوسرے دوست کر رہے تھے۔ اس میں بھی اس کا دل نہ لگا۔ یہ بو عجیب آدمی تھا۔ ایک دن ہم شام کو بیٹھے ہوئے تھے تو جگجیت کہنے لگا“ اوئے تم تو ہم سکھوں سے بھی گئے گزرے ہو‘ یہ تمھاری اردو زبان بھی کیا زبان ہے اس میں تم لکھتے “ خ و آ ب“ ہو ار پڑھتے “ خاب“ ہو۔ لکھتے خ و ش“ ہو اور پڑھتے “خش“ ہو۔ یہ تو کوئی زبان نہ ہوئی۔ اعجاز یہ سن کع کہنے لگا۔ دیکھو بھئی گرائمر کے بھجی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ کافی دیت تک یہ بحث ہوتی رہی اور ہم بڑے غور سے اسے سنتے رہے۔ میں نے بھی اپنے علم کے بطابق اس موضوع پر بات کی۔ الیاس ایک کونے میں بیٹھا وا تھا۔ اس نے کہا کہ جگجیت سنگھ “ ایہہ جیہڑی خواب دے وچ‘و‘ ائے نا ایہہ کیہندی اے میں نئیں بولدی بس اینا ای راز اے“ وہ اس مزاج کا آدمی تھا اور وہ کہتا تھا کہ “ بس میں نئیں بولدی“ وہ ذرا دھیما اور ڈھیلا سا آدمی تھا۔ مجھے اعجاز کہنے لگا کہ تو الیاس سے پوچھ کہ اس کے ساتھ یہاں کیا واقع گزرا۔ میں نے اس سے پوچھا کیوں بھئی تیرے ساتھ کیا ہوا؟ کہنے لگا یار میں نے ایک پڑھائی شروع کی ‘ پھر چھور دی۔ پھر دوسری کی اس میں بھی دل نہ لگا۔ میں تھوڑا سا پریشان تھا اور ایک دن شام کے وقت آ رہا تھا اور مجھے سینٹ جونزووڈ سٹریٹ سے ہو کے البرٹ روڈ جانا تھا۔ البرٹ روڈ کراس کر کے پھر مجھے ریمنز پارک جانا تھا۔ میں Potato Chips کھاتا جا رہا تھا اور سڑک سنسان تھی۔ ایک اور سنسان گلی کے درمیان میں میں جب پہنچا تو ایک لمبے تڑمبے امریکن سیاح نے مجھ سے کہا کہ Do you know the hide park اور میں نے اس سے پتا نہیں کیوں کہہ دیا کہ Yes i know but i do not tell you کیونکہ اس طرح کا جواب دینے کا کوئی “تک“ نہیں تھا۔ وہ امریکی سیاح “کھبچو“ تھا اس نے “کھبے“ بائیں ہاتھ کا ایک گھونسا میری کنپتی پہ مارا اور میں گھٹنوں کے بل زمیں پر گر گیا۔ جب میں گھٹنوں کے بل گر گیا تو میں نے سر اٹھا کر اس سے کہا Thank you very much
اور اس امریکی نے برجستہ کہا: you are well come
الیاس نے کہا کہ میں اس کے یہ الفاظ تو سن سکا لیکن پھر میں بے ہوش ہو گیا اور وہیں پڑا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھے ہوش آیا تو مجھے شرمندگی اس بات پر تھی کہ میں نے اسے “ تھینک یو“ کیوں کہا۔ مجھے چاہیے تھا کہ اسے جواباً مارتا یا پھر نہ مارتا۔ الیاس اب دوستوں کے تنگ کرنے پر جواز یہ پیش کر رہاتھا کہ غالباً اس کا جو گھونسا تھا وہ میری کنپٹی کے ایسی پقام پر لگا تھا جہاں سے شریانیں دماغکے اس حصے میں جاتی ہیں جو بڑا ہی شکر گزار ہوتا ہے اور وہ تھینک یو تھینک یو کہتا ہے اور میں نے اسے مجبور ہو کر Thank you کہ دیا۔
الیاس نے مزید بتایا کہ اگلے دن جب وہ صبح سویرے اٹھا( میرے پاس ایک الارم تھا جو جب چلتا تھا تو اس کے ساتھ بی بی سی ریڈیو کی نشریات چلنا شروع ہو جاتی تھیں) اور جب الارم کے ساتھ ریڈیو چلا تو میں حیران رہ گیا کہ اس کی آواز کچھ عجیب سی تھی چناچہ جب میں نے اپنے دائیں کان میں انگلی ڈال کے بند کیا تو میرا بایاں کان ڈن ڈناڈن کام کر رہاتھا۔ میں پھر چیخ مار کے باہر نکلا اور اپنی لینڈ لیڈی سے لپٹ گیا اور خوشی سے کہا کہI can listen and hear fron both Ears
وہ بھی بڑی خوش ہوئی اور کہا کہ Realy Ilyas
میں نے کہا کہ بالکل تم کچھ لفظ بولو اور اس طرح وہ میرا ایک کان بند کرکے ٹیسٹ لیتی رہی۔ الیاس کہنے لگا کہ میں اب سوچتا ہوں کہ کیا یہ حادثاتی واقعہ تھا؟ ایسے ہی ہو گیا یا ایک آدمی کو کیلی فورنیا سے نیویارک، نیویارک سے لندن بھیجا گیا اور وہ چلتا ہوا اور سارا سفر طے کر کے یہاں پہنچا اور عین اس وقت اس گلی میں پہنچا جب کہ مجھے بھی وہاں سے گزرنا تھا اور ایک شریف آدمی کی طرح میں نے اسے راستہ بتانا تھا جو دراصل میری طرف سے حماقت کے مترادف تھا اور میں نے اس کے برعکس اسے کیوں کہا کہ ہاں راستہ تو میں جانتا ہوں بتاؤں گا نہیں۔
یہ سب کچھ کیا ہے؟ اور اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ اور کیا ہم بڑی کائنات میں جو عالمِ اکبر ہے اس کے ساتھ وابستہ ہیں اور جو جو کچھ وہاں سے طے ہوتا ہے یا لکھا گیا ہے اور کیا اس لکھے کے مطابق سارے کام ہو رہے ہیں یا کہ ہمارے سارے افعال انفرادی طور پر طے پاتے ہیں۔ یہ بات ان دنوں بی بی سی کی کینٹین میں زیرِ بحث تھی لیکن کوئی کسی نتیجہ پر نہپیں پہنچتاتھا اور سارے الیاس کو اس کی خام خیالی اور نالائقی کی بات ہی قرار دیتے تھے۔ اس وقت شاید عالمِ اکبر اور عالمِ اصغر کا علم اس قدر آگے نہیں بڑھا تھا۔ ہم جب بھی اس حوالے سے بحث کرتے ہیں تو اکثر بہت میں یہ کہتے ہیں اگر اللہ پر پورا ایمان ہو اور اگر انسان کو اپنی ذات پر اعتماد ہو یا اگر انسان کی خودی بلند ہو تو وہ کچھ کر سکتا ہے۔ پھر خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب تو کتابی باتیں ہیں اور ٹکسٹ کی باتیں ہیں جو ہم نے پڑھی ہوئی ہیں۔ ہم تو یہ پوچھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اللہ پر ہم ویسا اعتماد کیسے لائیں جیسا کہ ہونا چاہیے اور جس طرح کے اعتماد کو ہم ذکر کرتے ہیں میرے ابا جی نے بتایا تھا کہ اللہ میاں ہوتے ہیں اور میں اس بات کو لے کر چلا آ رہا ہوں۔ اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں‘ فوت ہو جاؤں گا اور اس کا محض یہی تصور میرے ساتھ رہے گا۔ زندگی کے اور بھی تو بہت سارے معاملات ہیں۔ ان میں ہمارا کتابی اور ٹکسٹ بک کا علم وہ ہمیں ایک بات فیڈ کر دیتا ہے لیکن وہ ہمارا سہارا نہیں بنتا۔ آگے نہیں لے جاتا لیکن جو مرشدوں اور گروؤں کا علم ہوتا ہے وہ انفارمیشن کے علم سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ انفارمیشن کا علم وہ ہے جو ہم اور آپ نے حاصل کیا ہے۔ یہ علم ہمیں اطلاعات کے طور پر ملتا ہے اور استاد اور طالب علم کے درمیان ہمیشہ ایک فاصلہ ہوتا ہے اور علم دور کھڑے ہو کر یا چاک سے لکھ کر دور بیٹھے سٹوڈینٹس کو فراہم کیا جاتا ہے اور یہ فلائنگ علم Flying Kiss کی طرح سے پہنچتا ہے اور ایسے ہی اثرانداز ہوتا ہے جیسے Flying Kiss اثر انداز ہوتی ہے( اس مثال پر معافی چاہتا ہوں) لیکن گرو کا جو علم وہ اس سے مختلف ہے۔ یہ اس لیے مختلف ہے کہ گرو اور چیلے کے درمیان یا مرشد اور مرید کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہوتا فاصلہ رکھا نہیں جاتا۔ قربت ہوتی ہے۔ مرشد چٹائی پر بیٹھ کر مرید کو تعلیم دیتا ہے اور مرید تعلیم حاصل کرتا ہے۔ اکثر و بیشتر اس کے ہاتھ گرو کے پاؤں پر ہوتے ہیں یا زانوں ہر ہوتے ہیں۔ اتنی قربت کے باعث وہ اپنے استاد یا مرشد کے اتنے قریب آ جاتا ہے کہ وہ اس کو بہت اچھا لگنے لگتا ہے اور اسے اپنے گرو یا مرشد سے پیار ہو جاتا ہے اور ایک دن ایسا ہوتا ہے کہ وہ شاگرد شوق میں آ کے فرطِ محبت سے اپنے گرو کی “ چھنگی“ کھا جاتا ہے۔ گرو اس کو نہ منع کرتا ہے نہ اس کو انکار کرتا ہے اور اسے کھانے دیتا ہے۔ دوسرے دن شاگرد اس کی دوسری “ چھنگی“ بھی کھا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے وہ سارے مرشد کو کھا جاتا ہے۔ اب مرشد اس کے پیٹ کے اندر ہے اور معدے میں اتر کر اس کی رگ رگ میں سرائیت کر گیا ہے اور مرشد کا سارا علم سارے کا سارا مرید کے بدن کے اندر خون کی صورت دوڑنے لگتا ہے۔ اسی لیے آپ نے دیکھا ہو گا کہ آستانوں پر جب میلاد یا درود شریف کی محفل ہوتی ہے تو ( خاص طور پر سلسلہ نقشبندیہ میں کیونکہ میں نے ولایت میں اکثر ایسے ہی دیکھا ہے۔ لندن اور نیویارک میں بھی وہاں انگریز ترک بھی خوب درود شریف پڑھتے ہیں) تو وہاں کھڑے ہو کر ایک شجرہ پڑھا جاتا ہے جس میں شاعری نہیں ہوتی۔ وہ ایسے ہی ہوتا ہے کہ
“ میرے پیر اولیا کے واسطے
حضرت نظام الدین کے واسطے“
وہ اس طرح سے پڑھتے چلے جاتے ہیں اور ایک کے بعد ایک گرو کا نام آتا چلا جاتا ہے۔ وہ اس بات کا اشارہ ہوتا ہے۔ دوسرے نے پہلے سے علم حاصل کیا اور اس طرح یہ پٹی آگے چلتی جاتی ہے۔ اس طرح سے علم آگے سے آگے عطا ہوتا ہے۔ ولایت کی طرح ڈگریاں عطا نہیں ہوتیں۔ گرو کے علم میں یہ آسانی ہوتی ہے کہ آپ کو کتابی علم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ ایسی جو بھی بات جس میں مرشد یا گرو بولتا ہے وہ کرتے ہیں تو وہی ہو گی جو مرشد کرتا رہا ہے۔ آپ منہ میں روٹی کا ایک لقمہ رکھ کے تین دن کھومتے رہیں وہ آپ کی نشونما کا باعث نہیں بن سکے گا۔ جب تک وہ آپکے معدے میں نہ اتر جائے اور معدے میں اتر کر آپکے خون کا حصہ نہ بن جائے اور پھر آپکو تقویت عطا ہوتی ہے۔ میں آپ اور ہم سب منہ کے اندر رہے علم کو ایک دوسرے کے اوپر اگلتے رہتے ہیں اور پھینکتے رہتے ہیں اور پھر اس بات کی توقع کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم کو اس سے خیر کیوں حاصل نہیں ہوتی۔ حالانکہ میں نے یہ بات بڑی اچھی کی تھی اور بڑی سوچ سمجھ کے کی تھی اور وہ بات جو گرو آپ کو عالمِ اکبر سے عالمِ کبیر کے ساتھ وابستہ کر کے دیتا ہے اور اس کے اسرارو رموز بیان کرتا ہے جبکہ کتابی صورت میں صرف اپنا آپ پیش کر کے یا اپنے آپ کو فولڈر بنا کے پیش کیا جاتا ہے۔ میرا یہ ذاتی خیال ہے کہ کہ واقعی جو عالمِ صغیر ہے جو میں ہوں‘ جو آپ ہیں یہ سارے کے سارے بنی آدم ادائے یک جگرن کی طرح سے ہیں اور جب اقبال کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انسان تو بڑی حدیں عبور کر کے کئی بار تو عالمِ کبیر سے بھی آگے نکل جاتا ہے۔
بات الیاس میاں سے کہاں سے کہاں چلی گئی لیکن اگر وہ واقعی عالمِ اصغر اور عالمِ اکبر میں کسی وابستگی کو جاننے کے خواہاں ہیں تو اس کے لیے ہمارے بزرگوں نے پہلے ہی کہ دیا ہے کہ آپ اپنے نفس کو جان جائیں تو پھر آپ خدا کو جان لیتے ہیں‘ پا سکتے ہیں اور جب خدا کو جان جائیں گے تو پھر آپ عالمِ اکبر سے بھی آگے گزر جائیں گے۔ اپنے نفس کو جاننے کے لیے بڑی اہم بات اور فارمولا یہ ہے کہ شام کے وقت آپ مغرب کی نماز کے بعد دیوار کے ساتھ “ڈھو“ لگا کر اپنے آپ کو اور اپنے اس چھوٹے سے چوزے کو تلاش کریں جو بڑے بڑے تختوں کے نیچے چھپا ہوا ہے۔ وہ چوزا ہمارا نفس ہے۔ اس کے اوپر ہم نے بڑے بڑے تختے لگائے ہوئے ہیں۔ ایک تختہ ہوتا ہے دانشور، ایک ہوتا ہے پہلوان۔ ایک لیڈر کے نام کا ہوتا ہے۔ ایک امیر آدمی کے نام سے ہوتا ہے تو دوسرا کسی اور نام کا۔
اس طرح ہم بچپن سے لے کر اوپر تک بہت سارے “پھٹے“ لگاتے چلے جاتے ہیں تو جب ہمارا چوزا باہر بازار میں نکلتا ہے تو یہ تختے کھرکنے لگتے ہیں اور سارے لوگ دیکھتے ہیں کہ جناب وہ ہیرو جا رہا ہے۔ جناب وہ رائٹر جا رہا ہے۔ یہ اشفاق صاحب ہیں جی اور دانشور ہیں۔ اگر کوئی باہمت آدمی جس طرح کچھ لوگ کرتے بھی ہیں وہ ہمت سے زور لگا کر‘ کندھا دے کر ان پھٹوں یا تختوں کے نیچے سے اپنے نفس کو نکال کر اس کی اصل شکل و صورت سے آشنائی حاصل کر کے عالمِ اکبر سے وابستہ ہو کر بہت آگے نکل جاتے ہیں اور جو کہا گیا ہے کہ “ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔“ اور رب کو پہچان لینے کے بعد کوئی مشکل رہ ہی نہیں جاتی ہے۔ دنیاوی زندگی میں سب سے مشکل کام اس تختے کو ہٹانا ہے جو ہم نے بری محنت سے بڑے بڑے وزنی صندوقوں میں اپنے اوپر بٹھا رکھے ہیں۔ اب یہ سب آپکے سامنے ہیں۔ میں تو ساری زندگی ان تختوں کو ہٹا نہیں سکا۔ میں تو ان پھتوں تختوں سمیت ہی لحد میں جاؤں گا اور فرشتے وہ تختے دیکھ کر حیران ہوں گے کہ یہ کن چیزوں کو اپنے ساتھ لگائے پھرتا ہے جس طرح لوگ اپنی ڈگریوں کو فریم کر کے لگاتے ہیں‘ ہمارے بزرگ اپنے نفس کی تلاش کے کام کو تلاوت الوجود کہتے ہین کہ اپنے وجود کی تلاوت کرو۔ الیاس میاں ابھی تک لندن میں ہی ہے لیکن ابھی تک اس کا وہاں دل نہیں لگا اور وہ ابھی تک یہی سمجھتا ہے کہ “ خواب“ کی “و“ ہم سب سے ناراض ہے اور کہتی ہے کہ جا میں نہیں بولتی۔ بڑی مہربانی‘ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 
تکبر اور جمہوریت کا بڑھاپا

ایک انگریز مصنف ہے جس کا میں نام بھولنے لگا ہوں۔ اس کی معافی چاہتا ہوں لیکن شاید گفتگع کے دوران نام یاد آجائے ، وہ مصنف کہتا ہے کہ تکبر ، رعونت اور گھمنڈ اور مطلق العنانیت جب قوموں اور حکومتوں میں پیدا ہوتی ہے تو یہ ایک طرح کی ڈویلپمنٹ بلکہ بڑی گہری ڈویلپمنٹ ہوتی ہے اور اس کے بعد جب کوئی حکومت ، کوئی مملکت یا کوئی بھی طرزِ معاشرت یا زندگی وہ Democratic یا شعورائی انداز سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہو تو پھر یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ اب جمہوریت بوڑھی ہوگئی، کمزور ، بیمار ہوگئی ہے اور اس کے آخری ایام ہیں۔ کسی بھی قوم میں تکبر یا گھمنڈ آجائے تو وہ اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ وہ جمہوریت جس کو لے کر یہ کئی صدیوں سے چل رہے تھے، اب کمزور اور ماؤف ہوگئے ہیں۔ تکبر اور فرعونیت کے بڑے روپ ہیں ، اونچے بھی اور نیچے بھی اور ان کو سنبھالا دینا اور ان کے ساتھ اس شرافت کے ساتھ چلنا جس کا معاملہ نبیوں نے انسانوں کے ساتھ کیا ہے، بڑا ہی مشکل کام ہے۔ کسی قسم کی تعلیم ، کسی قسم کی دنیاوی تربیت ہمارا ساتھ نہیں دیتی اور تکبر سے انسان بس اوپر سے اوپر ہی نکل جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی اس حوالے سے بہت کوششیں ہوتی ہیں۔ ٢٢٠ یا ٢٤٠ قبل مسیح میں جب ہمارے خطے میں گندھارا حکمرانی تھی ، تب سوات کے قریب بدھوؤں کی ایک بستی تھی اور وہ بڑے بھلے لوگ تھے۔ جیسے بدھ لوگ ہوتے ہیں۔ ان پر ایک ہندو راج دھانی ( حکومت ) نے حملہ کر دیا۔ بدھوؤں نے فصیل کے دروازے بند کردیئے اور وہ بیچارے اندر چھپ کے بیٹھ گئے۔ ہندو فوج نے اپنے تیر ، ترکش اور اگن بم پھینکے تو فصیل کے اندر بے چینی پیدا ہوئی۔ کچھ بوڑھے ، بزرگ اور صلح پسند بدح دروازہ کھول کے باہر نکلے اور انہوں نے کہا “ تم کیا چاہتے ہو “ انہوں نے جواب دیا کہ ہم تم سے لڑنا اور جنگ کرنا چاہتے ہیں۔ بدھوؤں نے کہا کہ جناب ، حضور ہم تو لڑنا نہیں چاہتے۔ تب ہندو مہاراجہ نے کہا کہ ہم تمہارا “بیج ناس“ (نسل ختم ) کرنا چاہتے ہیں اور تم کو زندہ نہیں چھوڑنا چاہتے اور اس چھوٹی سی ریاست پر جو تم نے سوات کے کنارے بسائی ہے، اس پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں۔ بدھوؤں نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ۔ آپ قبضہ کرلیں۔ چنانچہ انہوں نے ہندو مہاراجہ سے ایک گھنٹے کی مہلت مانگی ۔ وہ بدھ بزرگ پلٹے ، انہوں نے اپنی بستی کے لوگوں سے کہا کہ اپنا سامان اٹھاؤ جو بھی چھوٹا موٹا اٹھا سکتے ہو اور ایک گھنٹے کے اندر اندر بستی کو خالی کردو، پھر یوں ہوا کہ وہ جتنے بھی بدھ لوگ تھے ، وہ وہاں سے چل پڑے ، باہر فوج کھڑی تھی اور بدھ ان کو سلام کرتے ہوئے جارہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ جی ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے جارہے رہیں ، آپ قبضہ فرما لیجیے۔ جب وہ بستی بالکل خالی ہونے لگی تو ہندو فوج کے سپہ سالار یا “سینا پتی “ نے انہیں روک کے کہا “ اوہ بدھوؤ یہ تم کیا کررہے ہو ،تم بستی خالی کرکے جارہے ہو۔ ہم اس خالی خولی بستی پر قبضہ کرکے کیا کریں گے؟ انہوں نے کہا یہ خالی نہیں ، اس میں ہمارا سامان بھی رکھا ہوا ہے۔ سپہ سالار نے کہا ، خالی سامان نہیں چاہیے۔ ہماری گھمنڈ کی جو آگ ہے ، وہ خالی سامان سے نہیں بجھے گی۔ یہ اس وقت بجھے گی جب تک ہم تم کو زیر نگیں نہیں کریں گے۔ جب تک تم کو زیر کریں گے اور تم پر حکمرانی نہیں کریں گے یا تم کو اپنے ہاتھوں لڑ کے ختم نہیں کریں گے۔ بدھوؤں نے کہا کہ ہم تو خود تسلیم کرتے ہیں کہ ہم آپ کے زیر نگیں ہیں اور ہم نے اب جنگل میں بسنے کا اہتمام بھی کر لیا ہے۔ اس کے باوجود ہندوؤں نے جاتے ہوئے گھمنڈ اور تکبر میں بدھ بھکشوؤں پر حملہ کر دیا - کچھ کو مار ڈالا، کچھ کو زنجیرویں ڈال کر غلام بنا لیا اور اپنے گھمنڈ کی آگ کو اس طرح ٹھنڈا کیا -انسانی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں چلتی آٰٰٰٰٰٰٰئی ہیں اور آرہی ہے۔ یہ مت سمجھئے گا کہ تعلیم کی وجہ سے یا بہت اعلی درجے کی تربیت کی وجہ سے یا قدم قدم یہ قافلہ چلنے کے باعث انسان کے اندر رعونت ، تکبر اور گھمنڈ کا جذبہ کم ہوجائے گا۔ آپ جب بھی تاریخ کے ورق پلٹیں کے ، بڑے برے حکمرانوں ، شہشاہوں ، بادشاہوں اور سلطانتوں نے اپنے گھمنڈ اور تکبر کی خاطر چھوٹی چھوٹی مملکتوں اور راج دھانیوں اور بستیوں پر اور اپنے برابر والوں پر بھی بڑھ چڑھ کے حملے کیے ہیں اور ان کو ذلیل و خوار کرنے کی نیت سے ایسا کیا ہے۔
خواتین و حضرات! ہماری زندگی میں اکثر اوقات یہ ہوتا ہے کہ معاشرتی زندگی میں آپ کی کسی ایسے مقام پر بے عزتی ہو جاتی ہے کہ آپ کھڑے کھڑے موم بتی کی طرح پگھل کے خود اپنے قدموں میں گر جاتے ہیں۔ مجھے اس وقت کا ایک واقعہ یاد ہے جب میں اٹلی کے دارالحکومت روم میں رہتا تھا اور تب قدرت اللہ شہاب کورس کرنے کے لیے ہالینڈگئے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے وہاں سے خط لکھا ک میں ایک ہفتے کے لیے تمھارے پاس آنا چاھتا ھوں اور میں روم کی سیر کروں گا اور وہاں پھروں گا،باوجود اس کے سات دن بہت محدود اور کم عرصہ ہے لیکن کہتے ہیں کہ روم سات دنوں کے پھروں گا، باوجود اس کے کہ سات دن بہت محدود اور کم عرصہ ہے لیکن کہتے ہیں کہ سات دنوں کے اندر کسی حد تک روم دیکھا جا سکتا ہے تو میں بھی کسی حد تک اسے دیکھنے کے لیے تمہارے پاس آرہا ہوں۔ میں نے ضرور آئیے ۔ جب وہ آئے تو تین دن ہم روم کے گلی کوچوں اور بازاروں میں گھومتے رہے اور جتنے بھی وہاں عجائب گھر تھے ، انہیں دیکھا لیکن لوگ کہتے کہ روم کے میوزیم تو سال بلکہ سو سال میں بھی نہیں دیکھے جاسکتے۔ بہرحال ہم پھرتے اور گھومتے رھے۔ایک شام ب قدرت الہ شہاب کے دل میں آیا اور کہنے لکے ، میں “پومپیائی“؛(وہ شہر جو ایک بڑے پہاڑ کے لاوے کی وجہ سے تباہ ہو گیا تھا اور اب بھی وہ جلا ہوا اور برباد شہر ویسے کا ویسے کا پڑا ھے اور لاوے کے خوف سے ایک کتا لاوے کے آکے آکے چختے ہوا بھاگا تھا لیکن ایک مقام پر آ کر لاوے نے اسے بھی پکڑ لیا اور وہ جل بھن گیا۔چنانچہ اس کا حنوط شدہ وجود اب بھی اسی طرح موجود ھے۔)جانا چاھتا ھوں۔پومپیائی کے بارے میں آپ کو مزید بتاؤں کہ لاوے کے باعث وہاں جس طرح لوگ مرے تھے،گرے تھے،انھیں بھی ویسے ہی چھوڑا ہوا ہے۔ حماموں اور غسلخانوں اور دوکانوں میں جسں طرح سے لوگ تھے ویسے ہی پڑے ہیں۔وہ بڑی عبرت کی جگہ ہے۔قدرت اللہ کہنے لگے، میں اسں شہر کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں گا کیونکہ پھر مجھے ایسا موقح نہیں ملے گا۔ پومپیائی روم سے کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ وہاں جانے میں ٹرین پر غالبا دو پونے دو گھنٹے لگتے ہیں۔جب ہم وھاں جانے لگے تو کہا کہ میں ایک ایسا جوتا لینا چاہتا ہوں جو بڑا نازک اور لچکیلا ہو اور وہ پاوں کو تکلیف نہ دے تاکہ میں آسانئ سے چل پھر سکوں۔میں نے کہا ی تو جوتوں کا گھر ھے،یہاں تو اعلی درجے کے جوتے ملتے ہیں۔ چنانچہ ہم ایک اعلی درجے کی جوتوں کی دوکان پر گئے۔ میں نے دوکان والے سے کہا کہ ہمارے ملک کے بہت معزز رائٹر ہیں اور انہیں ایک اعلی قسم کا جوتا خریدنا ہے۔انہوں نے ہمیں ایک انتہائی خوبصورت ، نرم اور لچکدار جوتا دکھایا جسں کو ہاتھ میں پکڑنے پر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ،،چرمی،، (کھال) جوتا نہیں ہے بلکہ کپڑے کا ہے اور لچک اس میں ایسی کہ یقین نہ آئے ، یقین کریں آپ کا ہاتھ سخت ہو گا لیکن وہ جوتا انتہائی نرم تھا۔قدرت اللہ نے اسے بہت پسند کیا اور خرید لیا۔جب چل کے دیکھا تو انہوں نے خوشی سے سیٹی بجائی کہ اس سے اچھا جوتا میں نے ساری زندگی میں نہیں پہنا، ہم وہاں سے پومپیائی کے لیے روانہ ہوئے۔ اب ظاہر ہے پومپیائی ایک پتھریلا علاقہ ہے ، اس کی سڑکیں ٹوٹی ہوئی ، جلی ہوئی کیونکہ جیسا کسی زمانے میں تھا ویسا ہی پڑا ہوا ہے۔ ہم چلتے رہے ، کوئی پندرہ بیسں منٹ کے بعد ایک پاؤں کا جوتا ٹوٹ گیا اور اسں کے ٹانکے اکھڑ گے۔وہ انہوں نے ہاتھ میں پکڑ لیا اور ایسے چلتے رہے جیسے بگلا چلتا ہے۔ اب ہاتھ میں جوتا پکڑے اونچی نیچی گھاٹیوں اور پہاڑیوں پر چل رہے تھے کہ تھوڑی دیر کے بعد دوسرے پاؤں کا جوتا بھی جواب دے گیا۔ چنانچہ دونوں کو تسموں سے لٹکا کر انہوں نے پکڑ لیا اور ننگے پاؤں وہ پومیائی کی زیارت کرتے رہے۔جیسے یاتری مقدس مقامات کی کرتے ہیں اور شام کو ننگے پاؤں واپس آئے اور کہنے لگے،یار یہ جوتے جو اتنے قیمتئ تھے، انہوں نے یہ حال کیا۔ میں نے دیکھا کہ ان جوتوں کے تلے اور پتاوے تک الگ ہو چکے تھے بہت غصہ آیا اور اس میں میری بے عزتی بھی تھی کیونکہ میں تو ہر وقت روم کی تعریف کرتا رہتا تھا جسں طرح اب بھی کرتا رہتا ہوں۔ اگلی صبع میں دوکان پر گیا، ساتھ شہاب صاحب بھی تھے۔ میں نے کہا ، دیکھئے آپ نے اتنے مہنگے جوتے ہمیں دیئے ہیں ، یہ تو دو گھنٹے سے زیادہ بھی نہیں چلے اور آپ کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے تھا کہ ایک آدمی اتنی دور سے آیا ہے اور تہمارے نامی گرامی اور تاریخی شہر کی زیارت کر رہا ہے لیکن تم نے ایسے جوتے دے دیئے۔ جو دوکاندار تھا وہ بڑے نرم خو اور محبت والے انداز میں کہنے لگا “ صاحب ہم شرفاء اور معزز لوگوں کے لیے جوتے بناتے ہیں ، پیدل چلنے والوں کے لیے نہیں بناتے۔ “یہ ایک تکبر کی تلوار تھی جس نے ہم دونوں کو اس مقام پر بری طرح سے قتل کر دیا۔ انسان اکثر دوسروں کو ذلیل و خوار کرنے کے لیے ایسے فقرے مجتمع کرکے رکھتا ہے کہ وہ اس فقرے کے ذریعے وار کرے اور حملہ آور ہوا اور پھر اس کی زندگی اور اس کا جینا اس کے لیے محال کر دے۔ اس طرح حملے بڑی سطح پر بھی ہوتے ہیں اور چھوٹے لیول پر بھی ہوتے ہیں لیکن ہمارے مذہب میں یہ روایت بہت کم تھی۔ اگر تھی تو ہمارے پیغمبر محمد اپنی تعلیمات کے ذریعے لوگوں کو اس فرعونیت سے نکالتے رہتے تھے جس کا گناہ شداد ، فرعون ، نمرود اور ہامان نے کیا تھا۔ ان کا یہ بس ایک ہی گناہ تھا جو سب گناہوں سے بھاری تھا۔ ازل سے لے کر آج تک انسان کے ساتھ گناہ اور بدیاں چمٹی رہی، کچھ کم ہوتی ہیں اور کچھ زیادہ۔ کسی کے پاس ایک بدی بالکل نہیں ہوتی۔ کسی کے پاس کافی تعداد میں ہوتی ہیں۔ لیکن کہتے ہیں کہ کائنات میں کوئی آدمی ایسا نہیں گزرا جو تکبر کا مرتکب نہ رہا ہو۔ کسی نہ کسی روپ میں وہ ضرور اس گناہ کا شکار ہوا ہے یا اس میں مبتلا رہا ہے۔ ہمارے صوفی لوگ اس تلاش میں مارے مارے پھرے ہیں کہ کوئی ایسا راہ تلاش کی جائے جس سے تکبر کی شدت میں کمی واقع ہو۔ ایک درویش جنگل میں جارہے تھے۔ وہاں ایک بہت زہریلا کو برا سانپ پھن اٹھائے بیٹھا تھا۔ اب ان درویشوں ، سانپوں ، خوفناک جنگلی جانوروں اور جنگلیوں کا ازل سے ساتھ رہا ہے۔ وہ درویش سانپ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور وہ بیٹھا پھنکار رہا تھا۔ انہوں نے سانپ سے کہا کہ ناگ راجہ یار ایک بات تو بتا کہ جب کوئی تیرے سوراخ کے آگے جہاں تو رہتا ہے ، بین بجاتا ہے تو ، تو باہر کیوں آجاتا ہے ۔ اس طرح تو تجھے سپیرے پکڑ لیتے ہیں۔ سانپ نے کہا، صوفی صاحب بات یہ ہے کہ اگر کوئی تیرے دروازے پر آکر تجھے پکارے تو یہ شرافت اور مروت سے بعید ہے کہ تو باہر نہ نکلے اور اس کا حال نہ پوچھے۔ میں اس لیے باہر آتا ہوں کہ وہ مجھے بلاتا ہے تو یہ شریف آدمیوں کا شیوا نہیں کہ وہ اندر ہی گھس کے بیٹھے رہیں۔ ایک طرف تو مشرق میں اس قسم کی تعلیم اور تہذیب کا تذکرہ کر رہا ہے اور دوسرے طرف اسی مشرق کے لوگ اپنے قد کو اونچا کرنے کے لیے اور اپنی مونچھ کو اینٹھ کے رکھنے کے لیے مظلوموں اور محکوموں پر حملے کرتے رہے ہیں تاکہ ان کی رعونیت اور تکبر کا نام بلند ہو۔ بعض اوقات بڑے اچھے اچھے افعال جو بظاہر بڑے معصوم نظر آتے ہیں ، وہ بھی تکبر کی ذیل میں آجاتے ہیں۔ میں نے آپ سے یہ بات شاید پہلے بھی کی ہو کہ جب میں اول اول میں بابا جی کے ڈیرے پر گیا تو میں نے لوگوں کو دیکھا کہ کچھ لوگ بابا جی سے اندر کوٹھڑی میں بیٹھے باتیں کر رہے ہوتے تھے تو کچھ لوگ ان کے بکھرے ہوئے “ الم بلغم“ اور “اگڑم بگڑم“ پڑے ہوتے تھے۔ انہیں اٹھا کر ترتیب سے دروازے کے آگے ایک قطار میں رکھتے چلے جاتے تھے تاکہ جانے والے لوگ جب جانے لگیں تو انہیں زحمت نہ ہو اور وہ آسانی کے ساتھ پاؤں ڈال کے چلے جائیں۔ میں یہ سب چار ، پانچ ، چھ روز تک دیکھتا رہا اور مجھے لوگوں کی یہ عادت اور انداز بہت بھلا لگا۔ چنانچہ ایک روز میں نے بھی ہمت کرکے (حالانکہ میرے لیے یہ بڑا مشکل کام تھا) میں نے بھی ان جوتوں کو سیدھا کرنے کی کوشش کی لیکن چونکہ اس زمانے میں سوٹ پہنتا تھا اور مجھے یہ فکر رہتا تھا کہ میری ٹائی جیکٹ کے اندر ہی رہے لٹکے نہ پائے۔ اس لیے جھکے ہوئے بار بار اپنے لباس کو اور اپنے وجود کو اور خاص طور پر اپنے بدن کے خم کو نظر میں رکھتا تھا۔ ایک دفعہ دو دفعہ ایسا کیا۔ جب بابا جی کو پتہ لگا تو وہ بھاگے بھاگے باہر آئے ، کہنے لگے “ نہ نہ آپ نے ہرگز یہ کام نہیں کرنا ، میرے ہاتھ میں جوتوں کا ایک جوڑا تھا۔ انہوں نے فورا واپس رکھوادیا اور کہا یہ آپ کے کرنے کا کام نہیں ہے، چھوڑ دیں۔ میں بڑا نالاں ہوا اور مجھے بڑی شرمندگی ہوئی کہ لوگوں کے سامنے مجھے اس طرح سے روکا گیا اور مجھے یہ ایک اور طرح کی ذلت برداشت کرنا پڑی ۔ ایک روز جب تخلیہ تھا ، میں نے بابا جی سے پوچھا کہ “سر یہ آپ نے اس روز میرے ساتھ کیا کیا ، میں تو ایک اچھا اور نیکی کا کام کر رہا تھا۔ جو بات میں نے آپ ہی کے ہاں سے سیکھی تھی ، اس کا اعادہ کر رہا تھا۔ “ انہوں نے ہنس کے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کے کہا کہ آپ پر یہ واجب نہیں تھا جو آپ کررہے تھی۔ انہوں نے کہا کہ نہیں ، آپ تکبر کی طرف جارہے تھے۔ اس لیے میں نے آُپ کو روک دیا۔ میں نے کہا، جناب یہ آپ کیسی بات کرتے ہیں! کہنے لگے ، اگر آپ وہاں جوڑے اسی طرح سے سیدھی قطاروں میں رکھتے رہتے ، جس طرح سے اور لوگ رکھتے تھے تو آپ کے اندر تکبر کی ایک اور رمق پیدا ہو جانی تھی کہ دیکھو “ میں اتنے بڑے ادارے کا اتنا بڑا ڈائریکٹر جنرل ہوں اور اتنے اعلی سرکاری عہدے پر ہوں اور میں یہ جوتے سیدھے کر رہا ہوں ، لوگوں نے بھی دیکھ کر کہنا تھا ، سبحان اللہ یہ کیسا اچھا نیکی کا کام کر رہا ہے۔ اس سے آپ کے اندر عاجزی کی بجائے تکبر اور گھمنڈ کو اور ابھرنا تھا۔ اس لیے آپ مہربانی کرکے اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھیں اور یہ کام ہرگز نہ کریں ، پھر مجھے رکنا پڑا اور ساری عمر ہی رکنا پڑا۔ اس لیے کہ دل کی سلیٹ پر اندر جو ایک لکیر کھینچی ہوئی ہے ، انا کی اور تکبر کی وہ کسی صورت بھی مٹتی نہیں ہے۔ چاہے جس قدر بھی کوشش کی جائے اور اس کے انداز بڑے نرالے ہوتے ہیں۔ ایک شام ہم لندن میں فیض صاحب کے گرد جمع تھے اور ان کی شاعری سن رہے تھے۔ انہوں نے ایک نئی نظم لکھی تھی اور اس کو ہم بار بار سن رہے تھے۔ وہاں ایک بہت خوبصورت ، پیاری سی لڑکی تھی۔ اس شعر و سخن کے بعد self کی باتیں ہونے لگیں یعنی “ انا “ کی بات چل نکلی اور اس کے اوپر تمام موجود حاضرین نے بار بار اقرار و اظہار اور تبادلہ خیال کیا۔ اس نوجوان لڑکی نے کہا فیض صاحب مجھ میں بھی بڑا تکبر ہے اور میں بھی بہت انا کی ماری ہوئی ہوں، کیونکہ صبح جب میں شیشہ دیکھتی ہوں تو میں سمجھتی ہوں کہ مجھ سے زیادہ خوبصورت اس دنیا میں اور کوئی نہیں ، اللہ نے فیض صاحب کو بڑی sense of Humour دی تھی، کہنے لگے بی بی۔ یہ تکبر اور انا ہرگز نہیں ہے ، یہ غلط فہمی ہے (انہوں نے یہ بات بالکل اپنے مخصوص انداز میں لبھا اور لٹا کے کی ) وہ بچاری قہقہہ لگا کے ہنسی ۔ زندگی کے اندر ایسی چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں لیکن قوموں کے لیے اور انسانی گروہوں کے لیے تکبر اور انا رعونت، گھمنڈ اور مطلق العنانیت بڑی خوفناک چیز ہے، اس انگریز مصنف جس کا نام اب میرے ذہن میں آرہا ہے ، وہ انگریز مصنف جی - کے چیٹسن کہتا ہے کہ جب تکبر انسان کے ذہن میں آجائے اور وہ یہ سمجھے کہ میرے جیسا اور کوئی بھی نہیں اور میں جس کو چاہوں زیر کرسکتا ہوں اور جس کو چاہوں تباہ کر سکتا ہوں تو وہ حکومت ، وہ دور ، وہ جمہوریت یا وہ بادشاہت چاہے کتنی ہی کامیابی کے ساتھ جمہوری دور سے گزری ہو، اس بابت یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس جمہوریت کا جس کا نام لے کر وہ چلتے تھے ، اس کا آخری پہر آن پہنچا ہے اورہ جمہوریت ضعیف ہوگئی ہے اور اس میں ناتوانی کے آثار پیدا ہو گئے ہیں اور وہ وقت قریب ہے جب وہ جمہوریت فوت ہوجائے گی اور فورا ہی گھمنڈ اور فرعونیت میں بدل جائے گی ۔ مشرق میں اس پر بطور خاص توجہ دی جارہی ہے اور بار بار مسلسل دہرا دہرا کر ایشیا کے جتنے بھی مذاہب ہیں ان میں بار بار اس بات پر زور دیا جاتا رہا کہ اپنے آپ کو گھمنڈ ، فرعونیت اور شدادیت سے بچایا جائے کیونکہ یہ انسان اور نوح انسانی کو بالکل کھا جاتی ہے کیونکہ اس کا مطلب خدا کے مقابلے میں خود لانا ہے ۔ حافظ ضامن صاحب کے خلیفہ تھے۔ ان کا نام شمس اللہ خان یا اسداللہ خان تھا۔ حلئے اسد اللہ خان رکھ لیتے ہیں۔ وہ خلیفہ تھے لیکن طبیعت کے ذرا سخت تھے (پٹھان تھے، طبیعت کے سخت تو ہوں گے ہی) ان کے ہاں ایک مرتبہ چوری ہوگئی۔ اب وہ گاؤں کے “ مکھیا “ (چودھری) تھے۔ ان کے چوری ہو جانا بڑے دکھ کی بات تھی۔ انہوں نے لوگوں کو اکھٹا کیا اور اپنے طور پر تحقیق و تفتیش شروع کردی۔ ایک بڑا نیک نمازی جولاہا جو گفتگو میں بڑا کمزور تھا ، وہ بھی پیش ہوا۔ اب لوگوں نے اس کے حوالے سے کہا کہ چونکہ یہ بولتا نہیں ہے اور ڈرا ڈرا سا ہے اور اندازہ یہی ہے کہ اس نے چوری کی ہے۔ چنانچہ اسد اللہ خان نے پکار کر کہا کہ جولاہے سچ سچ بتا ورنہ میں تیری جان لے لوں گا ۔ وہ بچارہ سیدھا آدمی تھا ، وہ سہم گیا اور ہکلا گیا اور اس کی زبان میں لکنت آگئی۔ خان صاحب نے اس کی گھبراہٹ اور لکنت سے یہ اندازہ لگایا کہ یقینا چوری اسی نے کی ہے۔ انہوں نے اسے زور کا ایک تھپڑ مارا ، وہ لڑکھڑا کے زمین پر گر گیا اور خوف سے کانپنے لگا اور سر اثبات میں ہلایا کہ جی ہاں ، چوری میں نے ہی کی ہے۔ وہ جولاہا سیدھا مولانا گنگوہی کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا واقعہ انہیں سنایا اور کہا کہ میری زندگی عذاب میں ہے اور میں یہ گاؤں چھوڑ رہا ہوں۔ مولانا گنگوہی نے خان صاحب کو ایک رقعہ لکھا کہ تمہارے گاؤں میں یہ واقعہ گزرا ہے اور اس طرح تم نے اس جولاہے پر ہاتھ اٹھایا ہے تو آپ ایسے کریں کہ کیا آپ نے شرعی عذر کی وجہ سے اس پر ہاتھ اٹھایا ہے ؟ آپ کو کیا حق پہنچتا تھا ؟ اس بات کا جواب ابھی سے تیار کرکے رکھ دیجیے کیونکہ آگے چل کر آپ کی اللی کے ہاں یہ پیشی ہوگی اور پہلا سوال آپ سے یہی پوچھا جائے گا۔ جب یہ رقعہ اسد اللہ خان کے پاس پہنچا تو ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور سٹپٹائے ، گھبرائے اور وہیں سے پیدل چل پڑے اور گنگوہا پہنچے۔ جب مولانا سے کہہ دیجیے ایک ظالم اور خونخوار قسم کا آدمی آیا ہے۔ کہیں تو حاضر ہو جائے، نہیں تو وہ جا کر اپنے آپ کو ہلاک کرلے اور کنویں میں ڈوب کر مر جائے اور میں تہیہ کرکے آیا ہوں۔ مولانا نے انہیں اندر بلوالیا۔ آپ لیٹے ہوئے تھے اور فرمانے لگے ، میاں کیوں شور مچایا ہوا ہے ؟ اور کیا ایسا ہوگیا کہ تم وہاں سے پیدل چل کے آگئے۔ غلطی ہو گئی ، گناہ ہوگیا ۔ معافی مانگ لو اور کیا ہوسکتا ہے۔ جاؤ چھوڑو ، اپنے ضمیر پر بوجھ نہ ڈالو۔ چنانچہ خان صاحب واپس آگئے اور آکر گاؤں میں اعلان کیا کہ اس جولاہے کو پھر بلایا جائے۔ (اسی میدان میں جہاں اسے سزا دی تھی)
وہ جولاہا بے چارہ پھر کانپتا ڈرتا ہوا حاضر ہوگیا۔ کہنے لگا جتنا میں نے تجھے مارا تھا، اتنا تو مجھے مار ، اب لوگ کھڑے دیکھ رہے ہیں۔ لوگوں نے کہا جناب! یہ بے چارہ کانپ رہا ہے ، یہ کیسے آپ پر ہاتھ اٹھا سکتا ہے۔ خان صاحب کہنے لگے ، اس نے ہاتھ نہ اٹھایا تو میں مارا جاؤں گا۔ جولاہے نے بھی کہا، جناب میری یہ بساط نہیں ہے اور میرا ایسا کرنے کو دل بھی نہیں چاہتا ہے۔ اگر کوتاہی ہوئی ہے تو اللہ معاف کرنے والا ہے۔ اللہ ہم دونوں کو معاف کرے۔ چنانچہ وہ گھر واپس آ گئے۔ اگلے دن جب وہ جولاہا کھڈی پر کپڑا بن رہا تھا تو خان صاحب اس کی بیوی کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے ، گھر کے کام کاج کے لیے اب میں حاضر ہوں۔ جو چیز سودا سلف منگوانا ہو مجھے حکم کیا کیجیے ، بھائی صاحب کے ہاتھ نہ منگوایا کیجیے ( اب عورتوں کو اگر مفت کا نوکر مل جائے تو کہاں چھوڑتی ہیں ) پھر خان صاحب آخری دم تک ہر روز صبح اپنی بگھی دور کھڑی کرکے اس جولاہے کی بیوی کے پاس جاتے اور جو بازار سے چیزیں لانا ہوتیں لا کر دیتے رہے اور وہ گھر کا سودا اپنے کندھوں پہ اٹھا کے لا کے دیتے۔ بعض اوقات وہ دوپہر کو بلوا بھیجتی کہ فلاں کام رہ گیا ہے۔ انہوں نے اپنے ملازموں کو حکم دے رکھا تھا کہ اگر میں سویا بھی ہوں تو بھی مجھے بتایا جائے۔ جب تک وہ زندہ رہے ، اس جولاہے کی بیوی کا ہر حکم بجا لاتے رہے کہ شاید اس وجہ سے جان بخشی ہو جائے اور آگے چل کر وہ سوال نہ پوچھا جائے۔ کس شرعی ضرورت کے تحت آپ نے اس تھپڑ مارا تھا؟ امید ہے ان سے یہ سوال نہیں پوچھا گیا ہوگا۔
اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین۔ اللہ حافظ
 

قیصرانی

لائبریرین
وقت ایک تحفہ
میں وقت کے بارے میں بہت گنجلک رہتا ہوں۔ میں کیا اور میری حیثیت کیا۔ میں کس باغ کی مولی ہوں۔ وقت کےبارے میں بڑے بڑے سائنسدان، بڑے فلسفی، بڑے نکتہ دان، وہ سارے ہی اس کی پیچیدگی کا شکار ہیں کہ وقت اصل میں ہے کیا؟اوریہ ہماری زندگیوں‌پر کس طرح سے اثر انداز ہوتا ہے؟ حضرت علامہ اقبال رح اور ان کےبہت ہی محبوب فرانسیسی فلسفی برگساں بھی وقت کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ مولانا روم اپنی چھوٹی چھوٹی کہانیوں میں وقت کا ہی ذکر کرتے ہیں۔آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ آئن سٹائن نے بھی اپنی Theory of Reality میں سارا زور وقت پر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ “شئے“ کوئی چیز نہیں ہے “وقت“ شئے کی ماہئیت کو تبدیل کرتا ہے۔ اس نے ہم لوگوں کی آسانی کے لئے ایک مثال دی ہے کہ اگر آپ ایک بہت گرم توے پر غلطی سے بیٹھ جاتے ہیں اور وہ بھی ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے تک اور آپ پریشانی کی حالت میں یا تکلیف میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، تو آپ کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ پوری صدی آپ کے ساتھ چمٹ گئی ہے۔
اگر آپ اپنے محبوب کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور اس نے کہا ہے کہ میں دس بج کر پندرہ منٹ تک پہنچ جاؤں گا، یا پہنچ جاؤں گی، فلاں جگہ تو اس میں اگر ایک منٹ کی بھی دیری ہو جاتی ہے، تو آپ کو یوں لگتا ہے کہ ڈیڑھ ہزار برس گزر گیا ہے اور وہ ایک منٹ آپ کی زندگی سے جاتا ہی نہیں۔ یہ سارا وقت کا ہی شاخسانہ ہے کہ آنے جانے، ملنے ملانے اور گرم ٹھنڈے کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ ساری بات وقت کی ہے، پھر جو آئن سٹائن سے اختلاف رکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ Sub-atomic Partical Level پر جب ہم اس کو دیکھتے ہیں تو کبھی وہ ہم کو Wave نظر آتا ہے، تو کبھی وہ ہمیں Particleدکھائی دیتا ہے اور اگر اس میں سے وقت کو نکال دیا جائے، تو پھر شاید اصل بات پتا چل سکے کہ Sub-atomic Levelکے اوپر یہ کیا چیز ہے۔ بہر کیف یہ ایسی پیچیدگیاں ہیں، جن کے بارےمیں بات ہوتی رہتی ہے۔ میرے جو سمجھدار نوجوان اس نسل کے ہیں، یہ بھی وقت کے بارے میں بہت لمبی اور سوچ بچار کی کریں گے۔
وقت کا ایک پیچدہ سا خاکہ ہر انسان کے ساتھ گھومتا رہتا ہے۔ چاہے وہ اس پر غور کرے یا نہ کرے۔ میں جب اپنی ملازمت سے ریٹائر ہو رہا تھا، تو ریٹائرمنٹ کا بڑا خوف ہوتا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ یعنی آدمی نے ایک نوکری کی ہوتی ہے اور اس میں‌پھنسا چلتا رہتا ہے، لیکن آخر میں کچھ لوگ تو Re-employmentکی تیار کر لیتے ہیں۔ ایک پھانسی سے نکلوں گا، دوسری پھانسی انشاءاللہ تیارہوگی۔ اس میں اپنا سر دے دوں گا اور پھر آخرت کا سفر کر جاؤں گا۔
جب میں ریٹائر ہونے کے قریب تھا، تو مجھ پر بھی یہ خوف سوار ہوا۔ میں نے قدرت اللہ شہاب سے، جو بڑے ہی نیک اور عبادت گزار تھے، ان سے پوچھا کہ “سر! میں ریٹائر ہونے والا ہوں، تو میں کیا کروں؟“انہوں نے کہا کہ ریٹائر ہونے کا جو خوف ہوتا ہے، اس کا سب سے بڑا دباؤ آپ پر یہ پڑتا ہے کہ پھر لوگ آپ پر توجہ نہیں دیتے یعنی اپنا وقت آپ کو نہیں دیتے۔ آپ ان کے وقت کی آغوش سے نکل جاتے ہیں، پھر آپ کلب کی ممبر شپ اختیار کرتے ہیں۔ گالف کھیلنے لگتے ہیں، زور لگاتے ہیں کہ نئے دوست بنیں۔ اس کا آسان نسخہ یہ ہے کہ ہم متوسط درجے کے لوگوں کا کہ آپ مسجد میں جا کر نماز پڑھنے لگ جائیں۔
میں‌نے کہا کہ اس کا کیا تعلق؟ یعنی ریٹائرمنٹ کا اور مسجد کا آپس میں‌کیا تعلق؟ میں نے کہا کہ خیر نماز پڑھ لوں‌گا۔ کہنے لگے، نہیں مسجد میں جاکر، جب میں ریٹائر ہوا تو میں‌نے سوچا کہ انہوں نے کہا ہے اور یہ بات مانی جانی چاہئے کہ مسجد میں جا کر نماز پڑھوں۔ اب میں‌مسجد میں‌جا کر نماز پڑھنے لگا، لیکن عصر اور مغرب کی۔ اس طرح کوئی دو مہینے گزر گئے۔ مجھے تو اس میں کوئی عجیب بات نظر نہیں آئی۔ لیکن چونکہ انہوں نے کہا تھااس لئے میں ان کی بات مانتا تھا۔ایک دن میری بیوی یہ بیان کرتی ہے کہ کچھ عجیب و غریب جسم کے چار پانچ آدمی، جن کی شکلیں میں نے پہلے نہیں‌دیکھی تھیں، ہاتھ میں چھڑیاں‌لے کر اور دوسرے ہاتھ میں تسبیحات لٹکا کر میرے گھر کے دروازے پر آئے اور انہوں نے گھنٹی بجائی اور جب میں‌باہر نکلی تو کہنے لگے:“اشفاق صاحب خیریت سے ہیں!“ میں(بانو قدسیہ) نے کہا، ہاں‌ٹھیک ہیں۔ وہ کہنے لگے، ان سے ملاقات نہیں‌ہوسکتی کیا؟ میں‌نے کہا کہ وہ پچھلے چھ دن سے اسلام آباد گئے ہوئے ہیں۔ کہنے لگے “الحمدللہ، الحمدللہ! ہمارے تسلی ہو گئی، اچھا بہن السلام علیکم!“ میری بیوی پوچھنے لگی وہ کون لوگ تھے؟‌میں‌نے کہا کہ، وہ میرے دوست تھے، جو مسجد جانے کی وجہ سے میرے حلقہ احباب میں‌شامل ہوئے ہیں۔ میرے پاس تو اتنے پیسے نہیں تھے کہ میں‌کلب میں ممبر ہو کر نئی دوستیاں‌استوار کر سکوں۔ وہ مجھے وقت عطا کرتے ہیں اور اس وقت کی تلاش میں کہ میں اس میں شامل نہیں ہوں، پوچھنے آئے تھے کہ میں‌کہاں‌ہوں؟انسان دوسرے انسان کو جو سب سے بڑا تحفہ عطا کر سکتا ہے، وہ وقت ہے۔ اس سے قیمتی تحفہ انسان انسان کو نہیں دے سکتا۔ آپ کسی کو کتنا بھی قیمتی تحفہ دے دیں، اس کا تعلق گھوم پھر کر وقت کے ساتھ چلا جائے گا۔ مثلاً آپ مجھے یا میں آپ کو نہایت خوبصورت قیمتی پانچ ہزار روپے کا “اوڈی کلون“ دوں یا آپ مجھے قالین کا ایک خوبصورت ٹکڑا دیں، یا میرے آرٹسٹ بچے مجھے ایک بہت قیمتی پینٹنگ بطور تحفہ دیں، یا سونے کا کنگن ایک خاتون کو دیا جائےیا ہیرے کا ایک طوطا یا کوئی اور قیمتی چیز، تو آپ دیکھیں گے کہ یہ سارے تحفے جو بظاہر اور حقیقت میں قیمتی ہیں، ان کے پیچھے وقت ہی کار فرما ہے۔
پہلے میں‌نے وقت لیا، پھر میں نے کمائی کی۔ میں نے دس دیہاڑیاں لگائیں، جو مجھے ایک ہزار فی دیہاڑی ملتے تھے، پھر دس ہزار کا میں نے قالین خریدا اور تحفے کے طور پر آپ کی خدمت میں‌پیش کیا۔ ٹائم پہلے لینا پڑتا ہے، پھر اس کو بیچنا پڑتا ہے، پھر اس کو تحفے کی شکل میںConvertکرنا پڑتا ہے، پھر وہ آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ انسان کےپاس تحفہ دینے اور لینے کے لئے سب سے قیمتی چیز بس وقت ہی ہے۔ اکثر یہ ہو جاتا ہے جیسے آج مجھ سے ہوگا اور میں‌ مجبور ہوں ایسا کرنے پر کہ میں اپنا وقت اس شخص کو دینے کی بجائے جو میری آس میں ہسپتال کے ایک وارڈ میں موجود ہے، میں‌اسے پھولوں کا ایک گلدستہ بھیجوں گا، لیکن وہ شخص اس گلدستے کی آس میں‌نہیں‌ہوگا، بلکہ وہ میرے وجود، میرے لمس اور میرے ٹچ کے لئے بے چین ہوگا کہ میں‌اس کے پاس آؤں اور اس کے ساتھ کچھ باتیں کروں۔ ڈاکٹر اس کی بہت نگہداشت کر رہے ہیں۔ نرسیں‌اس پر پوری توجہ دے رہی ہیں اور اس کے گھر کے لوگ بھی ظاہر ہے اس کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کر رہے ہیں، کیونکہ وہ بیمار ہے۔ لیکن ایک خاص کرسی پر اسے میرا انتظار ہے، لیکن میں اس کے پاس اپنے وقت کا تحفہ لے کر نہیں جا سکتا۔
خواتین وحضرات! وقت ایک ایسی انوسٹمنٹ ہے، ایک ایسی سرمایہ کاری ہے جو باہمی اشتراک رکھتی ہے۔ ہمارے بابے کہتے ہیں کہ جب میں آپ کو اپنا وقت دیتا ہوں تو سننے والا اور آپ سے ملاقات کرنے والا اور آپ کے قریب رہنے والا آپ کو اپنا وقت دیتا ہے اور باہمی التفات اور محبت کا یہ رشتہ اس طرح سے چلتا رہتا ہے۔ میرے بھتیجے فاروق کی بیوی کشور جب ساہیوال سے اپنے میکے اسلام آباد گئی، تو کشور نے جاتے ہوئے(اس کا خاوند فاروق انکم ٹیکس آفیسر ہے اور اس نے سی ایس ایس کیا ہوا ہے، کشور بھی بڑی پڑھی لکھی ذہین لڑکی ہے) ایک کاغذ پر لکھا، یہ تمھارے لئے ایک Instruction Paper ہے کہ دھوبی کو تین سو روپے دے دینا، دودھ والا ہر روز ایک کلو دودھ لاتا ہے، اس کو کم کرکے پونا سیر کر دینا اور بلی کے لئے جو قیمہ ہے ، یہ میں‌نے ڈیپ فریزر میں رکھ کر اس کی “پڑیاں“ بنا دی ہیں اور ان کے اوپر Datesبھی لکھی ہیں، روز ایک پڑیا نکال کر اس کے صبح کے وقت دینی ہے(اس کی سیامی بلی ہے، وہ قیمہ ہی کھاتی ہے)۔ اس نے اور دو تین Instructionsلکھی تھیں کہ مالی جب آئے تو اسے کہنا ہے کہ فلاں‌پودے کاٹ دے، فلاں‌کو “وینگا“(ٹیڑھا) کر دے اور فلاں کی جان مار دے، جوجو بھی اس نے لکھنا تھا، ایک کاغذ پر لکھ دیا۔
اس نے اپنے خاوند سے کہا کہ ساری چیزیں ایمانداری کے ساتھ ٹٍک کرتے رہنا کہ یہ کام ہو گیا ہے۔ جب وہ ایک مہینے کے بعد لوٹ کر آئی اور اس نے وہ کاغذ دیکھا، تو اس کے Dutifullخاوند نے ساری چیزوں کو ٹٍک کیا ہوا تھا۔ اس نے آخر میں کاغذ پر یہ بھی لکھا تھا کہ “مجھ سے محبت کرنا نہیں‌بھولنا“ جب اس نے ساری چیزیں ٹٍک کی ہوئی دیکھیں اور آخری ٹٍک نہیں‌ہوئی تو اس نے رونا، پیٹنا شروع کر دیا کہ مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے باقی کام تو نہایت ذمہ داری سے کئے ہیں، یہ ٹٍک کیوں نہیں‌کی؟ تب اس(فاروق) نے کہا کہ پیاری بیوی جان یہ تو میں ٹٍک کر نہیں سکتا، کیونکہ یہ تو Continuous Process ہے۔محبت کا عمل تو جاری رہتا ہے۔ یہ کہیں رُکتا نہیں ہے۔ محبت گوالے کا دودھ نہیں ہے، یا اخبار کا بل نہیں‌ہے، اس کو میں‌کیسے ٹٍک کر سکتا تھا؟یہ تو چلتی رہے گی۔ یہ کاغذ ایسا ہی رہے گا۔ تم سو بار مجھے لکھ کر دے جاؤ، ہزار بار میں ہر آئٹم کو ٹٍک کروں گا، لیکن یہ معاملہ تو ایسے ہی چلتا رہے گا۔ تو یہ ایک انوسٹمنٹ ہے، وقت کی۔ پلیز! خدا کے واسطے اس بات کو یاد رکھیئے۔ بظاہر یہ بڑی سیدھی سی اور خشک سے نظر آتی ہے، لیکن آپ کو اپنا وقت دینا ہوگا، چاہے تھوڑا ہی، بے حد تھوڑا ہو اور چاہے زندگی بڑی مصروف ہو گئی ہو۔
واقعی زندگی مصروف ہو گئی ہے، واقعی اس کے تقاضے بڑے ہو گئے ہیں، لیکن جب انسان انسان کے ساتھ رشتے میں داخل ہوتا ہے، تو سب سے بڑا تحفہ اس کا وقت ہی ہوتا ہے۔ وقت کے بارے میں‌ایک بات اور یاد رکھئے کہ جب آپ اپنا وقت کسی کو دیتے ہیں تو اس وقت ایک عجیب اعلان کرتےہیں اور بہت اونچی آواز میں اعلان کرتے ہین، جو پوری کائنات میں سنا جاتا ہے۔ آپ اس وقت یہ کہتے ہیں کہ “اس وقت میں اپنا وقت اس اپنے دوست کو دے رہی ہوں، یا دے رہا ہوں۔ اے پیاری دنیا!اے کائنات!!اس بات کو غور سے سنو کہ اب میں‌تم ساری کائنات پر توجہ نہیں دے سکتا، یا دے سکتی، کیونکہ اس وقت میری ساری توجہ یہاں‌مرکوز ہے۔“آپ اعلان کریں‌یا نہ کریں، کہیں‌یا نہ کہیں جس وقت آپ ہم آہنگ ہوتے ہیں اور ایمانداری کے ساتھ وقت کسی کو دے رہے ہوتے ہیں، تو پھر یہ اعلان بار بار آپ کے وجود سے، آپ کی زبان سے،آپ کے مسام سے آپ کی حرکت سے نکلتا چلا جائے گا۔ توجہ ہی سب سے بڑا راز ہے۔
ایک دن ہمارا ڈرائیور نہیں تھا۔ میری بہو درس میں جاتی ہے، تو میں نے اس سے کہا کہ تم کیوں پریشان ہوتی ہو؟ میں تمھیں‌چھوڑ دیتا ہوں۔ دن کے وقت میں‌ گاڑی چلا لیتا ہوں۔ میں نے کہا۔ اس پر اس نے کہا، ٹھیک ہے۔ ماموں آپ مجھے چھوڑ آئیں بڑی مہربانی۔ جب میں اسے اس جگہ لے گیا، جس مقام پر بیٹھ کر خواتین درس دیتی ہیں، تو ظاہر ہے میں تو آگے نہیں جا سکتا تھا، میں‌نے اسے اتارا۔اسی اثناء میں میں نے درس دینے والی خاتون کا عجیب اعلان سنا۔ جو میں سمجھتا ہوں کہ مردوں‌کی قسمت میں تو نہیں۔ میں‌نے مردوں کے بڑے بڑے جلسے دیکھے ہیں۔ ان میں، میں نے اتنی خوبصورت بات نہیں سنی۔ وہ بی بی اندر کہ رہی تھیں کہ “اے پیاری بچیو اور بہنو!اگر تم اپنی بیٹی سے بات کر رہی ہو، یا اپنے خاوند سے مخاطب ہو، یا اپنی ماں کی بات سن رہی ہو اور ٹیلیفون کی گھنٹی بجے تو ٹیلیفون پر توجہ مت دو، کیونکہ وہ زیادہ اہم ہے، جس کو آپ اپنا وقت دے رہی ہو۔ چاہے کتنی ہی دیر وہ گھنٹی کیوں نہ بجتی رہے، کوئی آئے گا سن لے گا۔“ یہ بات میرے لئے نئی تھی اور میں نے اپنے حلقہء‌احباب میں‌لوگوں یا دوستوں سے کبھی ایسی بات نہیں سنی تھی۔
میں اس خاتون کی وہ بات سن کر بہت خوش ہوا اور اب تک خوش ہوں اور اگر یہ بات ان بیبیوں‌نے سمجھی ہے تو یہ بے حد قیمتی بات ہے اور غالباً انہوں نے اس سے قیمتی بات اس روز کے درس میں‌اور نہیں دی ہوگی۔ اب آپ بڑے ہو گئے ہیں، آپ کو وقت کی پیچیدگی کے بارے میں‌سوچنا پڑے گا۔ ایک آپ کو چھپے چھپائے مسائل ملتے ہیں اور ایک وہ یہں، جن کو آپ جیسے بچے اپنے کالج کے برآمدوں میں ستونوں کے ساتھ ٹیک لگا کر سوچتے ہیں۔ آپ ان مسائل کو سوچیں، جو آپ کی زندگیوں کے ساتھ ٹچ کرتے ہیں۔ گزرتے، لمس کرتے اور جیسے پنجابی میں کہتے ہیں “کھیہ“ کے جاتے ہیں، پھر آپ کی سوچ شروع ہوگی، ورنہ پٹے ہوئے سوال جو چلے آ رہے ہیں، انگریز کے وقتوں سے انہی کو آپ اگر Repeatکرتے رہیں گے، تو پھر آپ آنے والے زمانے کو وہ کچھ عطا نہیں‌کر سکیں‌گے، جو آپ کو عطا کرنا ہے۔ اس وقت کا تعلق حال سے ہے۔ جب آپ کسی کو وقت دیتے ہیں، یا کوئی آپ کو وقت دیتا ہے، اپنا لمحہ عطا کرتا ہے تو آپ حال میں‌ہوتے ہیں، اس کا تعلق ماضی یا مستقبل سے نہیں‌ہوتا۔ لیکن کبھی کبھی (یہ بات میں‌تفریح کے طور پر کرتا ہوں، تاکہ اپنے استاد کو بہت داد دے سکوں اور ان کا مان بڑھانے کے لئے میں ان کے سامنے عاجزی سے کھڑے ہونے کے لئے کہتا ہوں) جس زمانے میں ہمارے استاد پطرس بخاری ہمیں گورنمنٹ کالج چھوڑ کر “یو این او“ میں‌چلے گئے تھے اور وہ نیویارک میں‌رہتے تھے، جس علاقے یا فلیٹ میں وہ رہتے تھے، وہاں‌پر استادٍ مکرم بتاتے ہین کہ رات کے دو بجے مجھے فون آیا اور بڑے غصے کی آواز میں ایک خاتون بول رہی تھیں۔ وہ کہ رہی تھیں کہ آپ کا کتا مسلسل آدھ گھنٹے سے بھونک رہا ہے، اس نے ہماری زندگی عذاب میں ڈال دی ہے۔ میرے بچے اور میرا شوہر بے چین ہو کر چارپائی پر بیٹھ گئے ہیں اور اس کی آواز بند نہیں‌ہوتی۔اس پر بخاری صاحب نے کہا کہ میں‌بہت شرمندہ ہوں اور آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ میرا کتا اس طرح سے Behaveکر رہا ہے۔لیکن میں‌کیا کروں، میں‌مجبور ہوں۔ اس پر اس خاتون نے غصے میں آکر اپنا فون بند کر دیا۔ اگلے ہی روز بخاری صاحب نے رات ہی کے دو بجے ٹیلیفون کر کے اس خاتون کو جگایا اور کہا کہ محترمہ! میرے پاس کوئی کتا نہیں ہے، مجھے کتوں سے شدید نفرت ہے۔ کل رات جو کتا بھونکا تھا، وہ میرا نہیں تھا۔اب دیکھئے کہ انہوں‌نے کس خوبصورتی سے حال کو مستقبل سے جوڑا، یا میں یہ کہوں گا کہ ماضی کو مستقبل کے ساتھ جوڑا۔ یہ بخاری صاحب کا ہی خاصہ تھا۔
میں‌اب آپ سے بڑی عجیب و غریب بات عرض کرنے لگا ہوں۔ مجھے اپنا وہ زمانہ یاد آگیا، جلدی میں‌وہ بات بھی بتا دوں۔ جب میں اٹلی میں رہتا تھا۔ روم میں‌ایک فوارہ ہے، جس میں‌لوگ پیسے پھینکتے ہیں۔ میں‌وہاں‌راستے میں‌کھڑا ہو گیا۔ وہاں‌بہت سارے امریکن ٹورسٹ آئے تھے۔ ایک بڈھا امریکی بھی اس میں‌پیسے پھینک رہا تھا۔اس کی بیوی ہنس کر اس سے کہنے لگی کہ “جارج! میرا نہیں خیال تھا کہ تم اس طرح‌کے دقیانوسی اور اتنے پرانی باتوں‌کو ماننے والے ہوگے۔ اور کیا تم تسلیم کرتے ہو کہ اس طرح سے باتیں‌پوری ہوتی ہیں؟“ اس نے کہا کہ دیکھئے یہ جو میری بات یا منت تھی، یہ تو کب کی پوری ہو چکی ہے۔ اب تو میں اس کی قسطیں ادا کر رہا ہوں۔“یہ ساری محبت اور Attachmentکی باتیں ہیں، جن کا ہمارے ہاں رواج کم ہی ہے۔
جس طرح‌سے میں‌وقت کی بات آپ کی خدمت میں عرض کر رہا تھا اور اسے تحفے کے طور پر ادا کرنے کے لئے آپ کو رائے دے رہا تھا، اسی طرح وقت ہی سب سے بڑا دشمن بھی ہے، کیونکہ جب آپ کسی کو قتل کر دیتے ہیں تو اس سے کچھ نہیں لیتے، سوائے اس کے وقت کے۔ اس نے ابھی سوات دیکھنا تھا، ابھی ڈھاکہ جانا تھا۔ لیکن آپ نے اس سے اس کا وقت چھین لیا۔ جب آپ کسی انسان پر بہت ظلم کرتےہیں، بڑی شدت کا تو آپ اس سے اس کا وقت چھین لیتے ہیں۔ ابھی اس نے نیویارک دیکھنا تھا، ابھی اس نے کئی پینٹنگز بنانی تھیں، ابھی اس نے گانے گانے تھے، ابھی اس نے ناچنا تھا اور وہ سب آپ نے چھین لیا۔
وقت کا بھید پکڑا نہیں جا سکتا۔ اس کی پیچیدگی کو آسانی نے سلجھایا نہیں جا سکتا، لیکن یہ بات یاد رکھئے یہ آپ کے، میرے اور ہم سب کے اختیار میں‌ہے کہ ہم وقت دیتے ہیں تو ہمارا مدٍمقابل زندہ ہے۔ اگر اس سے وقت لے لیتے ہیں، تو روح اور قالب ہونے کے باوصف وہ مر جاتاہے۔میں تو کسی کو بھی وقت نہیں دے سکا اور نہ ہی آج شام ایسا کر سکوں گا۔ اپنے دوست کو پھولوں کا گلدستہ ہی بھیج دوں گا، جو میری بدقسمتی اور کوتاہی ہے۔ آپ دوسروں کو وقت دینے کی کوشش ضرور کیجئے گا۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ نگہبان!!
بےبی ہاتھی
 

شمشاد

لائبریرین
میں کون ہوں

باب 12

میں کون ہوں ؟
بہت دیر کا وعدہ تھا جو جلد پورا ہونا چاہیے تھا، لیکن تاخیر اس لیے ہو گئی کہ شاید مجھ پر بھی کچھ اثر میرے پڑوسی ملک کا ہے کہ اس نے کشمیریوں کے ساتھ بڑی دیر سے وعدہ کر رکھا تھا کہ ہم وہاں رائے شماری کرائیں گے۔ لیکن آج تک وہ اسے پورا نہ کر سکے۔ حالانکہ وہ وعدہ یو این او کے فورم میں کیا گیا تھا، لیکن میری نیت ان کی طرح خراب نہیں تھی۔ میں اس دیر کے وعدے کے بارے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ انسانی وجود او کی پرکھ، جانچ اور اس کی آنکھ دیگر تمام جانداروں سے مختلف بھی ہے اور مشکل بھی۔ جتنے دوسرے جاندار ہیں انکو بڑی آسانی کے ساتھ جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے لیکن انسان واحد مخلوق ہے جس کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہ تو باہر کا کوئی شخص کر سکتا ہے اور نہ خود اس کی اپنی ذات کر سکتی ہے۔ انسانی جسم کو ماپنے، تولنے کے لیے جیسے فوجیوں کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ آپ کا قد ماپیں گے، وزن کریں گے، جسم کی سختی کو ملاحظہ کریں گے، بینائی دیکھیں گے یعنی باہر کا جو سارا انسان ہے، اس کو جانچیں اور پرکھیں گے اور پھر انہوں نے جو بھی اصول اور ضابطے قائم کیے ہیں، اس کے مطابق چلتے رہیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اندر کی مشینری کو جانچنے کے لیے بھی انہوں نے پیمانے بنائے ہیں۔ اگر آپ خدانخوستہ کسی عارضے میں مبتلا ہیں تو اس کو کیسے جانچیں گے؟

ڈاکٹر اپنا اسٹیتھو سکوپ سینے پر رکھ کر دل کی دھڑکنیں اور گڑ گڑاہٹیں سنتا ہے، تھرما میٹر استعمال کرتا ہے، ایکسرے، الٹرا ساؤنڈ اور سی ٹی سکین، یہ سب چیزیں انسان کے اندر کی بیماریوں کا پتا دیتی ہیں۔ پھر اس کے بعد تیسری چیز انسان کی دماغی اور نفسیاتی صورتحال کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ نفسیات دان اس کو جانچتے ہیں۔ انہوں نے کچھ تصویری خاکے اور معمے بنائے ہوتے ہیں۔ ایک مشین بنا رکھی ہے، جو آدمی کے سچ یا جھوٹ بولنے کی کیفیت بتاتی ہے۔ کچھ ایسی مشینیں بھی ہیں، جو شعاعیں ڈال کر پتلی کے سکڑنے اور پھیلنے سے اندازہ لگاتی ہیں کہ اس شخص کا اندازِ تکلم اور اندازِ زیست کیسا ہے؟

نفسیات کے ایک معروف ٹیسٹ میں ایک بڑے سے سفید کاغذ پر سیاہی گرا دی جاتی ہے اور اس کاغذ‌کی تہہ لگا دیتے ہیں۔ جب اس کو کھولا جاتا ہے تو اس پر کوئی تصویر سی چڑیا، طوطا یا تتلی بنی ہوئی ہوتی ہے اور پوچھا جاتا ہے کہ آپ کو یہ کیا چیز نظر آتی ہے؟ اور پھر دیکھنے والا اس کو جیسا محسوس کرتا ہے، بتلاتا ہے، کوئی اسے خوبصورت چڑیا سے تعبیر کر کے کہتا ہے اسے ایک چڑیا نظر آ رہی ہے، جو گاتی ہوئی اڑی جا رہی ہے۔

ایک اور مزاج کا بندہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ اس میں ایک بڑھیا ہے، جا ڈنڈا پکڑے بیٹھی ہے اور اس کی شکل میرے جیسی ہے۔ اس طرح سے دیکھنے والے کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ جانوروں کو بھی اسی معیار پر پرکھا جا سکتا ہے۔ قصائی جس طرح بکرے کو دیکھ کر بیمار یا تندرست کا پتا چلا لیتا ہے۔ بھینس کو دیکھ کر بھی اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ اچھی بھینس ہے یا نہیں۔ گھوڑوں کو بھی چیک کر لیا جاتا ہے۔ جانوروں کا چیک کرنا اس لیے بھی آسان ہے کہ اگر ہم جانور کے ساتھ کسی خاص قسم کا برتاؤ کریں گے، تو وہ بھی جواب میں ویسا ہی برتاو کرئے گا۔ لیکن انسان کے بارے میں یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ممکن ہے کہ آپ ایک آدمی کو زور کا تھپڑ ماریں اور وہ پستول نکال کر آپ کو گولی مار دے۔ ممکن ہے کسی کو ایک تھپڑ ماریں اور وہ جھک کر آپ کو سلام کرے یا ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جائے۔ اس لیے انسان کے حوالے سے کچھ طے نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو جانچنا ہمارے صوفیائے کرام اور “ بابے “ جن کا میں اکثر ذکر کرتا ہوں، ان کے لیے ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے کہ انسان اندر سے کیا ہے؟ اور جب تک وہ اپنے آپ کو نہ جان سکے، اس وقت تک وہ دوسروں کے بارے میں کیا فیصلہ کر سکتا ہے۔

آپ کے جتنے بھی ایم این اے اور ایم پی اے ہیں، یہ ہمارے بارے میں بیٹھ کر فیصلے کرتے ہیں، لیکن وہ خود یہ نہیں جانتے کہ وہ کون ہیں؟ یہ ایسے تیراک ہیں جو ہم کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ان کو خود تیرنا نہیں آتا۔ سیکھا ہی نہیں انہوں نے۔ جو گہری نظر رکھنے والے لوگ ہیں وہ جاننا چاہتے ہیں۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ کبھی اگر آپ نے غور کیا ہو یا نہ کیا ہو، لیکن آپ کے شعور سے یہ آواز آتی ہی رہتی ہے کہ “ میں کون ہوں “ اور “ میں کہاں ہوں “ اور اس سارے معاملے اور کائنات میں کہاں فٹ ہوں، اس کے لیے ہمارے بابوں نے غور کرنے اور سوچنے کے بعد اور بڑے لمبے وقت اور وقفے سے گزرنے کے بعد اپنی طرز کا طریق سوچا ہے، جس کے کئے رخ ہیں۔ آسان لفظوں میں وہ اس نئے طریق کو “ فکر“ یا “ مراقبے“ کا نام دیتے ہیں۔

اب یہ مراقبہ کیوں کیا جاتا ہے، اس کی کیا ضرورت ہے، کس لیے وہ بیٹھ کر مراقبہ کرتے ہیں اور اس سے ان کی آخر حاصل کیا ہوتا ہے؟ مراقبے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوتی ہے کہ کوئی ایسی مشین یا آلہ ایجاد نہیں ہوا، کو کسی بندے کو لگا کر یہ بتایا جا سکے کہ ? What am i? who am i کہ میں کیا ہوں؟ اس کے لیے انسان کو خود ہی مشین بننا پڑتا ہے، خود ہی سبجیکٹ بننا پڑتا ہے اور خود ہی جانچنے والا۔ اس میں آپ ہی ڈاکٹر ہے، آپ ہی مریض۔ یعنی میں‌ اپنا سراغ رساں خود ہوں اور اس سراغ رسانی کے طریقے مجھے خود ہی سوچنے پڑتے ہیں کہ مجھے اپنے بارے میں کیسے پتا کرنا ہے۔ بہت اچھے لوگ ہوتے ہیں، بڑے ہی پیارے، لیکن ان سے کچھ ایسی باتیں سرزد ہوتی رہی ہیں کہ وہ حیران ہوتے ہیں کہ میں عبادت گزار بھی ہوں، میں بھلا، اچھا آدمی بھی ہوں، لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں ہوں کون؟ اور پتا اسے یوں نہیں چل پاتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ خداوند تعالٰی نے انسان کے اندر اپنی پھونک ماری ہوئی ہے اور وہ چلی آ رہی ہے۔ اس کو آپ Erase نہیں کر سکتے۔ اس کو آپ پردہ کھول کر دیکھ نہیں سکتے، آپ ایک لفظ یاد رکھیئے گا Self یعنی “ذات“ کا۔ اقبال جسے خودی کہتا ہے۔ خودی کیا ہے؟ اس لفظ خودی کے لیے کئی الفاظ ہیں، لیکن “ ذات “ زیادہ آسان اور معنی خیز ہے۔

حضرت علامہ اقبال نے اس لفظ کو بہت استعمال کیا اور اس پر انہوں جے بہت غور بھی کیا۔ اب اس ذات کو جاننے کے لیے جس ذات کے ساتھ بہت سارے خیالات چمٹ جاتے ہیں، جیسے گر کی ڈلی کے اوپر مکھیاں آ چمٹتی ہیں یا پرانے زخموں پر بھنبھناتی ہوئی مکھیاں آ کر چمٹ جاتی ہیں۔ خیال آپ کو کنٹرول کرتا ہے اور وہ ذات وہ خوبصورت پارس جو آپ کے میرے اندر ہم سب کے اندر موجود ہے، وہ کستوری جو ہے وہ چھپی رہتی ہے۔ اس کو تلاش کرنے کے لیے اس اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگ meditate (مراقبہ) کرتے ہیں۔ کبھی کبھی کسی خوش قسمت کے پاس ایسا گُر آ جاتا ہے کہ وہ چند سیکنڈ کے لیے اس خیال کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کو دور کر دیتا ہے اور اس کو وہ نظر آتا ہے۔ لیکن خیال اتنا ظالم ہے کہ وہ اس خوبصورت قابل رشک زریں چیز کو ہماری نگاہوں کے سامنے آنے نہیں دیتا۔

جب آپ دو، تین چار مہینے کے تھے تو اس وقت آپ اپنی ذات کو بہت اچھی طرح سے جانتے تھے۔ جو معصومیت دے کر اللہ نے آپ کو پیدا کیا تھا، اس کا اور آپ کی ذات کا رشتہ ایک ہی تھا۔ آپ وہ تھے، وہ آپ تھا۔ ایک چیز تھا دو پونے دو سال یا کوئی سی بھی مدت مقرر کر لیں۔ جب خیال آ کر آپ کو پکڑنے لگا تو وہ پھر یہ ہوا کہ آپ گھر میں بیٹھے تھے۔ ماں کی گود میں۔ کسی کی بہن آئی انہوں نے آ کر کہا کہ اوہ ہو، نسرین یہ جو تمہارا بیٹا ہے یہ تو بالکل بھائی جان جیسا ہے۔ اس بیٹا صاحب نے جب یہ بات سن لی تو اس نے سوچا میں تو ابا جی ہوں۔ ایک خیال آ گیا نا ذہن میں، حالانکہ وہ ہے نہیں ابا جی۔ پھر ایک دوسری پھوپھی آ گئیں۔ انہوں نے آ کر کہا کہ اس کی تو آنکھیں بڑی خوبصورت ہیں، تو اس بچے نے سوچا میں تو خوبصورت آنکھوں والا ہیرو ہوں۔ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ انسان نے اپنی ذات کے آگے سائن بورڈ لٹکانے شروع کر دیے ہیرو، رائٹر، لیڈر، پرایم منسٹر، خوبصورت اور طاقتور، وغیرہ۔ اس طرح کے کتنے سارے سائن بورڈز لٹکا کر ہم آپ سارے جتنے بھی ہیں، نے اپنے اپنے سائن بورڈ لگا رکھے ہیں اور جب ملنے کے لیے آتے ہیں، تو ہم اپنا ایک سائن بورڈ آگے کر دیتے ہیں۔ کہ میں تو یہ ہوں اور اصل بندہ اندر سے نہیں نکلتا اور اصل کی تلاش میں ہم مارے مارے پھر رہے ہیں۔

خدا تعالٰی نے اپنی روح ہمارے اندر پھونک رکھی ہے۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس سے فائدہ اٹھائیں اس کی خوشبو ایک بار لیں، اس کے لیے لوگ تڑپتے ہیں اور لوگ جان مارتے ہیں۔ وہ ذات جو اللہ کی خوشبو سے معطر ہے اس کے اوپر وہ خیال جس کا میں ذکر کر رہا ہوں اس کا بڑا بوجھ پڑا ہوا ہے۔ وہ خیال کسی بھی صورت میں چھوڑتا نہیں ہے۔ اس خیال کو اس کستوری سے ہٹانے کے لیے مراقبے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ اس لیے کہ آدمی ذرا ٹھیک ہو۔ اس کو پتا چلے کہ وہ کیا ہے۔، اس سے پھر اسے نماز میں بھی مزا آتا ہے۔ عبادت، گفتگو، ملنے ملانے میں، ایک دوسرے کو سلام کرنے میں بھی مزا آتا ہے۔ ایک خاص تعلق پیدا ہوتا ہے، اس کے لیے جس کا بتانے کا میں نے وعدہ کیا تھا۔

آسان ترین نسخہ یہ ہے کہ دو اوقات صبح اور شام صبح فجر پڑھنے کے بعد اور شام کو مغرب کے بعد (یہ اوقات ہی اس کے لیے زیادہ اچھے ہیں) آپ بیس منٹ نکال کر گھر کا ایک ایسا کونہ تلاش کریں، جہاں دیوار ہو، جو عمودی ہو، وہاں آپ چار زانو ہو کر “ چوکڑی “ مار کر بیٹھ جائیں۔ اپنی پشت کو بالکل دیوار کے ساتھ لگا لیں، کوئی جھکاؤ “ کُب“ نہ پیدا ہو۔ یہ بہت ضروری ہے، کیونکہ جو کرنٹ چلنا ہے، نیچے سے اوپر تک وہ سیدھے راستے سے چلے۔

اب ماڈرن زندگی ہے، بہت سے لوگ چوکڑی مار کر نہیں بیٹھتے۔ انہیں اجازت ہے کہ وہ کرسی پر بیٹھ جائیں، لیکن اس صورت میں پاؤں زمیں کے ساتھ لگے رہنے چاہیں۔ اور آپ کو Earth ہو کر رہنا چاہیے۔جب تک آپ ارتھ نہیں ہوں گے، اس وقت تک آپ کو مشکل ہو گی۔ پاؤں کے نیچے دری قالین بھی ہو تو کوئی بات نہیں، لیکن زمین ہو تو بہت ہی اچھا ہے۔ چونکہ فقیر لوگ جنگلوں میں ایسا کرتے تھے، وہ ڈائریکٹ ہی زمین کے ساتھ وابستہ ہو جاتے تھے۔ ہماری زندگی ذرا اور طرح کی ہے۔ جب آپ وہاں بیٹھ جائیں گے تو پھر آپ کو ایک سہارے کی ضرورت ہے۔ جس کو آپ پکڑ کر اس سیڑھی پر چڑھ سکیں، جو لگا لی ہے۔ صرف یہ جھانکھنے کے لیے کہ “ ذات “ کیا چیز ہے؟ اس کے لیے ہر کسی کے پاس ایک “ ڈیوائس “ ایک آلہ ہے، جو سانس ہے، جو ساتھ ہے، بیٹھنے کے بعد آپ اپنے سانس کے اوپر ساری توجہ مرکوز کر دیں اور یہ دیکھیں کہ ہر چیز سے دور ہٹ کر جس طرح ایک بلی اپنا شکار پکڑنے کے لیے دیوار پر بیٹھی ہوتی ہے۔ اپنے شکار یعنی سانس کی طرف دیکھیں کہ یہ جا رہا ہے اور آ رہا ہے۔

اس کام میں کوتاہی یا غلطی یہ ہوتی ہے کہ آدمی سانس کو ضرورت سے زیادہ توجہ کے ساتھ لینے لگ جاتا ہے، یہ نہیں کرنا۔ آپ نے اس کو چھوڑ دینا ہے، بالکل ڈھیلا صرف یہ محسوس کرنا ہے کہ یہ کس طرح سے آتا ہے اور جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ پہلے دن تقریباً ایک سیکنڈ یا ڈیڑھ سیکنڈ تک سانس کے ساتھ چل سکیں گے۔ اس کے بعد خیال آپ کو بھگا لے جائے گا۔ وہ کہے گا کہ یہ بندہ تو اللہ کے ساتھ واصل ہونے لگا ہے۔ میں نے تو بڑی محنت سے اس کو خیالوں کی دنیا میں رکھا ہے (وہ خیال چلتا رہتا ہے، موت تک۔ لوگ اکثر شکایت کرتے ہیں کہ جی نماز پڑھنے لگتے ہیں تو بڑے خیال آتے ہیں)۔ وہ خیال آپ کو کہیں کا کہیں کافی دور تک لے جائے گا۔ جب آپ کو یہ خیال آئے کہ میں تو پھر خیال کے نرغے، گھیرے یا چُنگل میں آ گیا، چاہے اسے بیس منٹ بھی گزر چکے ہوں، آپ پھر لوٹیں اور پھر اپنے سانس کے اوپر توجہ مرکوز کر دیں اور جتنی دیر ہو سکے، سانس کو دیکھیں محسوس کریں۔

لیکن زیادہ کوشش نہیں کرنی اس میں جنگ و جدل اور جدوجہد نہیں ہے کہ آپ نے کوئی کُشتی لڑنی ہے۔ یہ ڈھیلے پن کا ایک کھیل ہے اور اسی معصومیت کو واپس لے کر آنا ہے جب آپ ایک سال کے تھے اور جو آپ کے اندر تھی یا چلنے لگے تھے، تو تھی۔ اس میں بچہ معصومیت کو لینے کے لیے زور تو نہیں لگاتا ہے ناں، جب یہ پروسس آپ کرنے لگیں گے تو آپ کا عمل ایسا ہونا چاہیے، یا ہو جیسا کہ ٹینس کے کھلاڑی کا ہوتا ہے۔ ٹینس کھیلنے والا یا کھیلنے والی کی زندگی ٹینس کے ساتھ وابستہ ہے (یہ بات میں نے مشاہدے سے محسوس کی ہے)۔ آپ یہ کبھی گمان نہیں کر سکتے کہ ٹینس کا کھلاڑی آپ کو ہر حال میں ٹینس کورٹ میں اپنی گیم Improve کرتا ہی ملے گا۔ اگر غور سے دیکھیں تو ٹینس کا کھلاڑی ہم سے آپ سے بہت مختلف ہوتا ہے، کیونکہ وہ ہمیشہ ٹینس ہی کھاتا ہے، ٹینس ہی پہنتا ہے، یہی پیتا ہے، ٹینس ہی پہنتا ہے اور ٹینس ہی چلتا ہے۔ یہ اس قدر اس پر حاوی اور طاری ہو جاتی ہے، اس معاملے میں بھی آپ چاہے مراقبے کے اندر ہوں یا باہر نکل آئے ہوں، آپ نے دفتر جانا، منڈی جانا ہے، کام پر جانا ہے، دکان پر جانا ہے، لیکن ٹینس کے کھلاڑی کی طرح آپ کے اندر یہ ایک طلب ہونی چاہیے، دل لگی ہونی چاہیے کہ میں نے ذات کے ساتھ ضرور واصل ہونا ہے۔

یہ سراغ رسانی کا ایک کھیل ہے۔ مثلاً میں اب آپ کے سامنے ہوں، فوت ہو جاؤں گا، بکری کی طرح۔ بکری آئی اس نے بچے دیئے، دودھ پیا، ذبح کیا۔ زندگی میں کوئی کام ہی نہیں تو یہ جاندار جو دوسرے جاندار ہیں، ان میں جان ضرور ہے، سب میں لیکن روح نہیں ہے۔ دیکھیئے اتنا سا فرق ہوتا ہے کئی لوگ کہہ دیتے ہیں ہمارے غیر مسلم دوست کہ جانوروں پر ظلم کرتے ہیں آپ ان کو کھا جاتے ہیں۔ کھاتے ہم اس لیے ہیں کہ ظلم تو جب ہوتا کہ اس کے اندر روح ہوتی اور اس میں ایک Sensibility ہوتی، وہ تو ہے ہی نہیں۔ جب وہیل مچھلی اپنا منہ کھولتی ہے تو تقریباً ساڑھے تین ہزار مچھلیاں ایک لقمے کے اندر اس کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا فلموں میں چھلانگ مار کر خود ہی جا رہی ہوتی ہے، تو یہ اس کی کیفیت ہے۔ اب آپ جاندار تو ہیں، لیکن آپ کے ساتھ روح ہے۔ اس روح کی تلاش کے لیے، اس کی الٹرا ساؤنڈ بننے کے لیے آپ کو خود مشکل میں جانا پڑتا ہے۔ اس کے بغیر چارہ نہیں۔

یہ ایک بڑا پرلطف تجربہ یوں ہے۔ اچھا اس سے آپ کو کچھ ملے گا نہین کہ جب آپ مراقبہ کریں گے، تو آپ کو انعامی بانڈ کا نمبر مل جائے گا، نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ لیکن آپ آسودہ ہونے لگیں گے۔ اتنے ہی آسودہ جتنے آپ بچپن میں تھے۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ یہاں آپ اپنے بچوں کو، پوتوں کو، بھتیجوں کو دیکھیں گے۔ آج کے بعد دیکھیں گے کہ یہ کتنی آسودگی کے ساتھ بھاگا پھرتا ہے۔ اس کو کچھ پتہ نہیں اور اللہ بھی یہ فرماتا ہے۔ ہمارے بابے کہتے ہیں ان کا ایک اندازہ ہے کہ جب آپ جنت میں داخل ہوں گے یا جنت میں جانے لگیں گے تو اللہ گیٹ کے باہر کھڑا ہو گا اور جیسے گیٹ کیپر گیٹ پاس نہیں مانگا کرتا، آپ باہر جا کر کھڑے ہیں تو اللہ کہے گا کہ وہ معصومیت جو دے کر میں نے تمہیں پیدا کیا تھا، وہ واپس کر دو اور اندر چلو اور ہم سارے کہیں گے کہ سر! ہم نے تو بی اے بڑی مشکل سے کیا ہے اور بڑی چالاکی سے ایم اے کیا تھا۔ ہم تو معصومیت بیچتے رہے ہیں۔ وہ تو اب ہمارے پاس نہیں۔ اس معصومیت کی تلاش میں، اس روح کی تلاش کی ضرورت ہے۔ اس میں اگر کوئی اور کوتاہیاں وغیرہ ہو گئی ہیں، اس میں تو آئیں گی ضرور، کیونکہ سب سے تنگ کرنے والی چیز وہ خیال ہے، وہ مائنڈ ہے۔ بابے کہتے ہیں کہ جو وجود ہے ذات کا اور جو ذات ہے اللہ کی، وہ قلب ہے۔ یعنی ہمارا یہ ہارٹ جس کا بائی پاس ہوتا ہے۔ یہ نہیں قلب، اس کے قریب ہی اس کے ڈاؤن پر ایک ڈیڑھ انچ کے فاصلے پر قلب کا ایک مقام ہے، چونکہ یہ بھی نظر نہیں آتا ہم کو، روح کا معاملہ اور اللہ نے فرما بھی دیا ہے کہ ہم نے تم کو علم دیا ہے “ الا قلیلاً “ تھوڑا ہے نہیں جان سکو گے روح کے بارے میں ؛ تو وہ اندازہ یہ لگاتے ہیں ‘ مائنڈ جو ہے وہ اس کے اوپر حملے کرتا رہتا ہے اور وہ دیکھتا رہتا ہے کہ میں نے کس طرح سے آدمی کو پکڑ کے پھر پنجرے میں قید کرنا ہے۔ یہ وعدہ تھا بڑی دیر کا وہ آخر کار پورا ہوا۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
خوشی کا راز
ماں خدا کی نعمت ہے اور اس کا پیار کا انداز سب سے الگ اور نرالا ہوتا ہے۔ بچپن میں‌ایک بار بادو باراں کا سخت طوفان تھا اور جب اس میں بجلی شدت کے ساتھ کڑکی تو میں خوفزدہ ہو گیا۔ ڈر کے مارے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ میری ماں‌نے میرے اوپر کمبل ڈالا اور مجھے گود میں بٹھا لیا، تو محسوس ہوا گویا میں امان میں ‌آگیا ہوں۔
میں‌ نے کہا، اماں! اتنی بارش کیوں‌ہو رہی ہے؟‌اس نے کہا، بیٹا! پودے پیاسے ہیں۔ اللہ نے انہیں پانی پلانا ہے اور اسی بندوبست کے تحت بارش ہو رہی ہے۔ میں‌ نے کہا، ٹھیک ہے! پانی تو پلانا ہے، لیکن یہ بجلی کیوں بار بار چمکتی ہے؟ یہ اتنا کیوں‌کڑکتی ہے؟ وہ کہنے لگیں، روشنی کر کے پودوں کو پانی پلایا جائے گا۔ اندھیرے میں تو کسی کے منہ میں، تو کسی کے ناک میں‌ پانی چلا جائے گا۔ اس لئے بجلی کی کڑک چمک ضروری ہے۔
میں ماں کے سینے کے ساتھ لگ کر سو گیا۔ پھر مجھے پتا نہیں چلا کہ بجلی کس قدر چمکتی رہی، یا نہیں۔ یہ ایک بالکل چھوٹا سا واقعہ ہے اور اس کے اندر پوری دنیا پوشیدہ ہے۔ یہ ماں‌کا فعل تھا جو ایک چھوٹے سے بچے کے لئے، جو خوفزدہ ہو گیا تھا۔ اسے خوف سے بچانے کے لئے، پودوں کو پانی پلانے کے مثال دیتی ہے۔ یہ اس کی ایک اپروچ تھی۔ گو وہ کوئی پڑھی لکھی عورت نہیں تھیں۔ دولت مند، بہت عالم فاضل کچھ بھی ایسا نہیں تھا، لیکن وہ ایک ماں تھی۔ میں جب نو سال کا ہوا تو میرے دل میں ایک عجیب خیال پیدا ہوا کہ سرکس میں بھرتی ہو جاؤں اور کھیل پیش کروں، کیونکہ ہمارے قصبے میں ایک بہت بڑا میلہ لگتا تھا۔ تیرہ، چودہ، پندرہ جنوری کو اور اس میں بڑے بڑے سرکس والے آتے تھے۔ مجھے وہ سرکس دیکھنے کا موقع ملا، جس سے میں بہت متائثر ہوا۔ جب میں نے اپنے گھر میں اپنی یہ خواہش ظاہر کی کہ میں سرکس میں‌اپنے کمالات دکھاؤنگا، تو میری نانی “پھا“ کر کے ہنسی اور کہنے لگیں، ذرا شکل تو دیکھو! یہ سرکس میں‌ کام کرے گا۔ میری ماں‌ نے بھی کہا، دفع کر تو بڑا ہو کر ڈپٹی کمشنر بنے گا۔ تو نے سرکس میں‌بھرتی ہو کر کیا کرنا ہے۔ اس پر میرا دل بڑا بجھ سا گیا۔ وہی ماں‌جس نے مجھے اتنی محبت سے اس بادوباراں کے طوفان میں امان اور آسائش عطا کی تھی۔ وہ میری خواہش کی مخالفت کر رہی تھی۔
میرے والد سن رہے تھے۔ انہوں‌نے کہا کہ نہیں، کیوں نہیں؟ اگر اس کی صلاحیت ہے تو اسے بالکل سرکس میں ہونا چاہیے۔ تب میں بہت خوش ہوا۔ اب ایک میری ماں‌کی مہربانی تھی۔ ایک والد کی اپنی طرف کی مہربانی۔ انہوں‌نے صرف مجھے اجازت ہی نہیں دی، بلکہ ایک ڈرم جو ہوتا ہے تارکول والا، اس کو لال، نیلا اور پیلا پینٹ کر کے بھی لے آئے اور کہنے لگے، اس پر چڑھ کر آپ ڈرم کو آگے پیچھے رول کیا کریں۔ اس پر آپ کھیل کریں گے تو سرکس کے جانباز کھلاڑی بن سکیں گے۔ میں نے کہا منظور ہے۔
چنانچہ میں اس ڈرم پر پریکٹس کرتا رہا۔ میں نے اس پر اس قدر اور اچھی پریکٹس کی کہ میں اس ڈرم کو اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق کہیں بھی لے جا سکتا تھا۔ گول چکر کاٹ سکتا تھا۔ بغیر پیچھے دیکھے ہوئے، آگے پیچھے آجا سکتا تھا۔ پھر میں نے اس ڈرم پر چڑھ کر ہاتھ میں تین گیندیں اچھالنے کی پریکٹس کی۔ وہاں میرا ایک دوست تھا۔ ترکھانوں کا لڑکا محمد رمضان۔ اس کو بھی میں نے پریکٹس میں شامل کر لیا۔ وہ اچھے چھریرے بدن کا تھا۔ وہ مجھے سے بھی بہتر کام کرنے لگا۔ بجائے گیندوں کے وہ تین چھریاں لے کر ہوا میں اچھال سکتا تھا۔ ہم دونوں‌ڈرم پر چڑھ کر اپنا یہ سرکس لگاتے۔ ایک ہماری بکری تھی، اس کو بھی میں‌نے ٹرینڈ کیا۔ وہ بکری بھی ڈرم پر آسانی سے چڑھ جاتی۔
ہماری ایک “بُشی“ نامی کتا تھا، وہ لمبے بالوں والا روسی نسل کا تھا۔ اس کو ہم نے کافی سکھایا، لیکن وہ نہ سیکھ سکا۔ وہ یہ کام ٹھیک سے نہیں کر سکتا تھا۔ حالانکہ کتا کافی ذہین ہوتا ہے۔ وہ بھونکتا ہوا ہمارے ڈرم کے ساتھ ساتھ بھاگتا تھا، مگر اوپر چڑھنے سے ڈرتا تھا۔ ہم نے اعلان کر دیا کہ یہ کتا ہماری سرکس ہی کا ایک حصہ ہے، لیکن یہ جوکر کتا ہے اور یہ کوئی کھیل نہیں کرسکتا، صرف جوکر کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
خیر! ہم یہ کھیل دکھاتے رہے۔ ہم اپنا شو کرتے تومیرے ابا جی ہمیشہ ایک روپیہ والا ٹکٹ لے کر کرسی ڈال کر ہماری سرکس دیکھنے بیٹھ جاتے تھے۔ ہمارا ایک ہی تماشائی ہوتا تھا اور کوئی بھی دیکھنے نہیں آتا تھا۔ صرف ابا جی ہی آتے تھے۔ ہم انہیں کہتے کہ آج جمعرات ہے۔ آپ سرکس دیکھنے آئیے گا۔ وہ کہتے، میں‌ آؤں گا۔ وہ ہم سے ایک روپے کا ٹکٹ بھی لیتے تھے، جو ان کی شفقت کا ایک انداز تھا۔
زندگی میں کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے اور آپ اس بات کو مائینڈ نہ کیجئے گا۔ اگر آپ کو روحانیت کی طرف جانے کا بہت شوق ہے تو اس بات کو برا نہ سمجھئے گا کہ بعض اوقات ماں‌باپ کے اثرات اس طرح سے اولاد میں منتقل نہیں ہوتے، جس طرح سے انسان آرزو کرتا ہے۔اس پر کسی کا زور بھی نہیں ہوتا۔ ٹھیک چوالیس برس بعد جب میرا پوتا جو بڑا اچھا، بڑا ذہین لڑکا اور خیر و شر کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے، وہ جاگنگ کر کے گھر میں واپس آتا ہے، تو اس کے جوگر، جو کیچڑ میں‌ لتھڑے ہوئے ہوتے ہیں، وہ ان کے ساتھ اندر گھس آتا ہے اور وہ ویسے ہی خراب جوگروں کے ساتھ چائے بھی پیتا ہے اور سارا قالین کیچڑ سے بھر دیتا ہے۔ میں اب آپ کے سامنے اس بات کا اعتراف کرنے لگا ہوں کہ میں اسے برداشت نہیں کرتا کہ وہ خراب، کیچڑ سے بھرے جوگرز کے ساتھ قالین پر چڑھے۔ میرا باپ جس نے مجھے ڈرم لا کر دیا تھا، میں اسی کا بیٹا ہوں اور اب میں پوتے کی اس حرکت کو برداشت نہیں کرتا۔ دیکھئے یہاں‌کیا تضاد پیدا ہوا ہے۔ میں نے اپنے پوتے کو شدت کے ساتھ ڈانٹا اور جھڑکا کہ تم پڑھے لکھے لڑکے ہو، تمھیں شرم آنی چاہئے کہ یہ قالین ہے، برآمدہ ہے اور تم اسے کیچڑ سے بھر دیتے ہوں۔
اس نے کہا، دادا آئی ایم ویری سوری!! میں جلدی میں ہوتا ہوں، جوگر اتارنے مشکل ہوتے ہیں۔ امی مجھے بلا رہی ہوتی ہیں کہ have a cup of tea، تو میں جلدی میں‌ایسے ہی اندر آجاتا ہوں۔ میں نے کہا کہ تمہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے۔ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو، چنانچہ میں‌اس پر کمنٹس کرتا رہا۔ ٹھیک ہے مجھے ایک لحاظ سے حق تو تھا، لیکن جب یہ واقعہ گزر گیا تو میں‌نے ایک چھوٹے سے عام سے رسالے میں‌اقوالٍ زریں وغیرہ میں ایک قول پڑھا کہ“ جو شخص ہمیشہ نکتہ چینی کے موڈ میں‌رہتا ہے اور دوسروں کے نقص نکالتا رہتا ہے، وہ اپنے آپ میں تبدیلی کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔“ انسان کو خود یہ سوچنا چاہیے کہ جی مجھ میں‌فلاں تبدیلی آنی چاہیے۔ جی میں‌سیگرٹ پیتا ہوں، اسے چھوڑنا چاہتا ہوں، یا میں صبح نہیں اٹھ سکتا۔ میں‌اپنے آپ کو اس حوالے سے تبدیل کر لوں۔ ایک نکتہ چیں میں‌کبھی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس کی ذات کی جو بیٹری ہے، وہ کمزور ہونے لگتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب بیڑی کے سیل کمزور ہو جائیں، تو ایک بیٹری کا بلب ذرا سا جلتا ہے، پھر بجھ جاتا ہے۔ اسی طرح کی کیفیت ایک نکتہ چیں‌کی ہوتی ہے۔
میں‌نے وہ قول پڑھنے کے بعد محسوس کیا کہ میری نکتہ چینی اس لڑکے پر ویسی نہیں‌ہے، جیسا کہ میرے باپ کی ہو سکتی تھی۔ میرے باپ نے سرکس سیکھنے کی بات پر مجھے نہیں‌کہا کہ عقل کی بات کر، تو کیا کہ رہا ہے؟‌اس نے مجھے یہ کہنے کی بجائے ڈرم لا کر دیا اور میری ماں‌نے مجھے بادوباراں‌کے طوفان میں‌یہ نہیں‌کہا کہ چپ کر، ڈرنے کی کیا بات ہے؟ اور میں اس میں‌کمنٹری کر کے نقص نکال رہا ہوں۔ ابھی میں اس کا کوئی ازالہ نہیں‌کر سکا تھا کہ اگلے دن میں‌نے دیکھا میرے پوتےکی ماں (میری بہو) بازار سے تار سے بنا ہوا میٹ ہے آئی اور اس کے ساتھ ناریل کے بالوں والا ڈور میٹ بھی لائی، تاکہ اس کے ساتھ پیر گٍھس کے جائے اور اندر کیچڑ نہ جانے پائے۔ سو، یہ فرق تھا مجھ میں اور اس ماں‌میں۔ میں‌نکتہ چینی کرتا رہا اور اس نے حل تلاش کر لیا۔
جب آپ زندگی میں داخل ہوتے ہیں اور باطن کے سفر کی آرزو کرتے ہیں، تو جب تک آپ چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال نہیں کریں گے اور بڑے میدان تک پہنچنے کے لئے پگڈنڈی نہ تیار کریں گے، وہاں‌نہیں جا سکیں‌گے۔ آپ ہمیشہ کسی “بابے“ کی بابت پوچھتے رہتے ہیں۔ ہمارے باباجی سے فیصل آباد سے آنے والے صاحب نے بھی یہی پوچھا اور کہنے لگے کہ سائیں صاحب! آپ کو تو ماشاء اللہ خداوند تعالٰی نے بڑا درجہ دیا ہے۔ آپ ہم کو کسی “قطب“ کے بارے میں‌بتلا دیں۔ باباجی نے ان کی یہ بات نظر انداز کر دی۔ وہ صاحب پھر کسی قطب وقت کے بارے دریافت کرنے لگے۔ جب انہوں نے تیسری بار یہی پوچھا تو بابا جی نے اس سے کہا کہ کیا تم نے اسے قتل کرنا ہے؟
آدمی کا شاید اس سے یہی مطلب یا مقصد ہوتا ہے کہ کوئی بابا ملے اور میں اس کی غلطیاں‌ نکالوں۔اگر روح‌کی دنیا کو ٹٹولنے کا کوئی ایسا ارادہ ہو یا اس دنیا میں‌کوئی اونچی پکار کرنے کی خواہش ہو کہ “میں ‌آگیا“ تو اس کے لئے ایک راستہ متعین ہونا چاہئے، تیاری ہونی چاہئے۔ تبھی انسان وہاں تک جا سکتا ہے۔ ہم ڈائریکٹ کبھی وہاں‌نہیں جا سکتے۔آپ کو اس دنیا کے اندر کوئی پیرا شوٹ لے کر نہیں جائے گا۔ جب یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں‌ رونما ہونگی، تو جا کر کہیں بات بنے گی۔
میرے بھائی نے ایک بار مجھ سے کہا کہ اگر آپ نے کچھ لکھنے لکھانے کا کام کرنا ہے تو میرے پاس آکر مہینے دو گزار لیں (ان کا رینالہ خورد میں ایک مرغی خان ہے)۔ میں‌وہاں‌گیا، بچے بھی ساتھ تھے۔ وہاں جا کر تو میری جان بڑی اذیت میں پھنس گئی۔ وہ اچھی سر سبز جگہ تھی۔ نہر کا کنارہ تھا، لیکن وہ جگہ میرے لئے زیادہ Comfortable ثابت نہیں ہو رہی تھی۔ آسائشیں‌میسر نہیں تھیں۔ ایک تو وہاں‌مکھیاں‌بہت تھیں، دوسرے مرغی خانے کے قریب ہی ایک اصطبل تھا، وہاں‌سے گھوڑوں‌کی بو آتی تھی۔ تیسرا وہاں‌پر مشکل یہ تھی کہ وہاں ایک چھوٹا فریج تھا، اس میں ضرورت کی تمام چیزیں نہیں رکھی جا سکتی تھیں اور بار بار بازار جانا پڑتا تھا۔یہ مجھے سخت ناگوار گزرتا تھا۔
اب دیکھئے خدا کی کیسے مہربانی ہوتی ہے۔ وہی مہربانی جس کا میں آپ سے اکثر ذکر کرتا ہوں۔ میں اصطبل میں‌یہ دیکھنے کے لئے گیا کہ اس کی بو کو روکنے کے لئے کسی دروازے کا بندوبست کیا جا سکے۔ وہاں‌جا کر کیا دیکھتا ہوں کہ میرے تینوں بچے گھوڑوں‌کو دیکھنے کے لئے اصطبل کے دروازوں کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ وہ صبح‌جاگتے تھے تو سب سے پہلے آکر گھوڑوں کو دیکھتے۔ انہیں گھوڑوں کے ساتھ اتنا عشق ہو گیا تھا۔ ان میں ایک گھوڑا ایسا تھا جو بڑا اچھا تھا۔ وہ انہیں ہمیشہ ہنہنا کر ہنساتا تھا اور اگر وہ “ٹینے مینے“ بچے وقت پر نہیں پہنچتے تھے، تو شاید انہیں بلاتا تھا، اس گھوڑے کی ہنہناہٹ سے یہ اندازہ ہوتا تھا۔ اب میں نے کہا کہ نہیں، یہ خوشبو یا بدبو، یہ اصطبل اور گھوڑے اور ان بچوں کی دوستی مجھے وارے میں ہے اور اب مجھے یہ گھوڑے پیارے ہیں۔ بس ایسے ٹھیک ہے۔
ہم شہر کے صفائی پسند لوگ جو مکھی کو گوارا نہیں کرتے۔ ایک بار میرے دفتر میں میرے بابا جی(سائیں جی) تشریف لائے، تو اس وقت میرے ہاتھ میں‌مکھیاں مارنے والا فلیپ تھا۔ مجھے اس وقت مکھی بہت تنگ کر رہی تھی۔ میں‌مکھی مارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس لئے مجھے بابا جی کے آنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ اچانک ان کی آواز سنائی دی۔ وہ کہنے لگے، یہ اللہ نے آپ کے ذوقٍ کشتن کے لئے پیدا کی ہے۔ میں‌نے کہا، جی یہ مکھی گند پھیلاتی ہے، اس لئے مار رہا تھا۔ کہنے لگے، یہ انسان کی سب سے بڑی محسن ہے اور تم اسے مار رہے ہو۔ میں نے کہا، جی یہ مکھی کیسے محسن ہے؟ کہنے لگے، یہ بغیر کوئی کرایہ لئے، بغیر کوئی ٹیکس لئے انسان کو یہ بتانے آتی ہے کہ یہاں‌گند ہے۔ اس کو صاف کر لو تو میں چلی جاؤں گی اور آپ اسے مار رہے ہیں۔ آپ پہلے جگہ کی صفائی کر کے دیکھیں، یہ خود بخود چلی جائے گی۔ سو، وہاں باباجی کی کہی ہوئی وہ بات میرے ذہن میں‌لوٹ کر آئی اور میں‌نے سوچا کہ مجھے اس کمرے میں‌کوئی فریش چیزیں پھول یا سپرے وغیرہ رکھنی چاہیں اور یہاں‌کی صفائی پر دھیان دینا چاہئے۔ وہ فرش جیسا بھی تھا، اس کو گیلا کر کے میں نے جھاڑو لے کر خود خوب اچھی طرح سے صاف کیا۔ آپ یقین کریں پھر مجھے مکھیوں نے تنگ نہیں کیا۔
جب میں سودا لینے کے لئے(جس سے میں بہت گھبراتا ہوں‌) ایک میل کے فاصلے پر گیا، تو میں نے وہاں اپنے بچپن کے کئی سال گزارنے کے بعد لبساطیوں کی دکانیں‌دیکھیں، جو ہمارے بڑے شہروں‌ میں ‌نہیں ہوتیں۔ وہاں‌پر میں‌نے بڑی دیر بعد دھونکنی کے ساتھ برتن قلعی کرنے والا بندہ دیکھا، پھر عجیب بات، جس سے آپ سارے لوگ محروم ہیں اور آپ نہیں جانتے کہ وہاں ایک کسان کا لڑکا دیکھا، جو گندم کے باریک “ناڑ“ جو تقریباً چھ انچ لمبا تھا، اسے کاٹ کر اس کے ساتھ “الغوزہ“ بجاتا تھا۔ وہ اتنا خوبصورت الغوزہ بجاتا تھا کہ اگر آپ اسے سننے لگیں، تو آپ بڑے بڑے استادوں کو بھول جائیں۔ پھر میں‌آرزو کرنے لگا کہ مجھے ہر شام بازار جانے کا موقع ملے۔ یہ چیزیں‌چھوٹی چھوٹی ہیں اور یہ بظاہر معمولی لگتی ہیں، لیکن ان کی اہمیت اپنی جگہ بہت زیادہ ہے۔
اگر آپ معمولی باتوں کی طرف دھیان دیں گے، اگر آپ اپنی “کنکری“ کو بہت دور تک جھیل میں پھینکیں گے تو بہت بڑا دائرہ پیدا ہوگا، لیکن آپ کی یہ آرزو ہے کہ آپ کو بنا بنایا دائرہ کہیں‌سے مل جائے اور وہ آپ کی زندگی میں داخل ہو جائے، ایسا ہوتا نہیں ہے۔ قدرت کا ایک قانون ہے کہ جب تک آپ چھوٹی چیزوں ‌پر، معمولی سی باتوں‌پر، جو آپ کی توجہ میں کبھی نہیں آئیں، اپنے بچےپر اور اپنی بھتیجی پر، آپ جب تک اس کی چھوٹی سی بات کو دیکھ کر خوش نہیں‌ہوں‌گے، تو آپ کو دنیا کی کوئی چیز یا دولت خوشی عطا نہیں‌کر سکے گی، کیونکہ روپیہ آپ کو‌خوشی عطا نہیں کر سکتا۔ روپے پیسے سے آپ کوئی کیمرہ خرید لیں، خواتین کپڑے خرید لیں اور وہ یہ چیزیں خریدتی چلی جاتی ہیں کہ یہ ہمیں خوشی عطا کریں گی۔ لیکن جب وہ چیز گھر میں آجاتی ہے تو اس کی قدر و قیمت گھٹنا شروع ہو جاتی ہے۔
خوشی تو ایسی چڑیا ہے جو آپ کی کوشش کے بغیر آپ کے دامن پر اتر آتی ہے۔ اس کے لئے آپ نے کوشش بھی نہیں‌کی ہوتی، تیار بھی نہیں‌ہوئے ہوتے، لیکن وہ آجاتی ہے۔ گویا اس رُخ‌پر جانے کے لئے جس کی آپ آرزو رکھتے ہیں، جو کہ بہت اچھی آرزو ہے، کیونکہ روحانیت کے بغیر انسان مکمل نہیں ہوتا، مگر جب تک اسے تلاش نہیں کرے گا، جب تک وہ راستہ یا پگڈنڈی اختیار نہیں‌کرے گا، اس وقت تک اسے اپنے مکمل ہونے کا حق نہیں‌پہنچتا۔ انسان یہ کوشش کرتا ضرور ہے، لیکن اس کی Methodologyمختلف ہوتی ہے۔ وہ چھوٹی چیزوں سے بڑی کی طرف نہیں جاتا۔ آپ جب ایک بار یہ فن سیکھ جائیں گے، پھر آپ کو کسی بابے کا ایڈریس لینے کی ضرورت نہیں‌پڑے گی۔ پھر وہ چھوٹی چیز آپ کے اندر بڑا بابا بن کر سامنے آجائے گی اور آپ سے ہاتھ ملا کر آپ کی گائیڈ بن جائے گی اور آپ کو اس منزل پر یقیناً لے جائے گی، جہاں‌جانے کے آپ آرزومند ہیں۔
سو، ایک بار کبھی چھوٹی چیز سے آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ کبھی کسی نالائق پڑوسی سے خوش ہونے کی کوشش کر کے ہی یا کسی بے وقوف آدمی سے خوش ہو کر یا کبھی اخبار میں‌خوفناک خبر پڑھ کر دعا مانگیں کہ یا اللہ! تو ایسی خبریں کم کر دے، تو آپ کا راستہ، آپ کا پھاٹک کھلنا شروع ہوگا اور مجھے آپ کے چہروں سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ یہ کوشش ضرور کریں گے۔ اللہ آپ کو بہت خوش رکھے۔ بہت آسانیاں‌عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین!!
 
Psycho Analysis

باب نمبر: 13

Psycho Analysis

کبھی کبھی زندگی میں یوں بھی ہوتا ہے کہ بہت زیادہ خوشیوں اور بڑی راحتوں کے ساتھ ان کے پیچھے چھپی ہوئی مشکلات بھی آ جاتی ہیں اور پھر ان مشکلات سے جان چھڑانی یوں مشکل ہوتی ہے۔ کہ انسان گھبرایا ہوا سا لگتا ہے۔ پچھلے دنوں ہمارے ہاں بہت بارشیں ہوئیں۔ بارشیں جہاں خوشیوں کا پیغام لے کر آئیں، وہاں کچھ مشکلات میں بھی اضافہ ہوا۔ ہمارے گھر میں ایک راستہ، جو چھوٹے دروازے سے ڈرائنگ روم میں کھلتا ہے اور پھر اس سے ہم اپنے گھر کے صحن میں داخل ہوتے ہیں، بارشوں کی وجہ سے وہ چھوٹا دروازہ کھول دیا گیا، تاکہ آنے جانے میں آسانی رہے۔ آسانی تو ہوئی، لیکن اس میں پیچیدگی پیدا ہو گئی۔ وہ یہ کہ باہر سے جو جوتے آتے تھے، وہ کیچڑ سے لتھڑے ہوئے ہوتے تھے اور باوجود کوشش کے اور انہیں صاف کرنے کے، کیچڑ تو اندر آ ہی جاتا تھا اور اس سے سارا قالین خراب ہو جاتا تھا۔
میں چونکہ اب تیزی سے بوڑھا ہو رہا ہوں اور بوڑھے آدمی میں کنٹرول کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے۔ تو میں چیختا چلاتا تھا اور ہر اندر آنے والے سے کہتا کہ جوتا اتار کر آؤ اور اسے پہننے کے بجائے ہاتھ میں پکڑ کر آؤ۔ اس سے میرے پوتے اور پوتیاں بہت حیران ہوتے تھے کہ اس جوتے کا فائدہ کیا، جو گھر کے دروازے پر پہنچ کر اتارا جائے اور ہاتھ میں پکڑ کر گھر میں داخل ہوا جائے۔ وہ بے چارے کوئی جواز تو پیش نہیں کرتے تھے، لیکن جوتے اتارتے بھی نہیں تھے۔ جس سے میری طبیعت میں تلخی اور سختی بڑھتی گئی اور میں سوچتا تھا کہ یہ مسئلہ صرف اس طرح سے ہی حل ہو سکتا ہے، جس طرح میں سوچتا ہوں۔
میری بہو نے کوئی اعتراض تو مجھ پر نہیں کیا اور نہ ہی اس نے مجھے کوئی جواب دیا۔ وہ شام کو بازار گئی اور اس نے دو میٹ خریدے۔ ایک تاروں کا بنا ہوا اور دوسرا موٹا بالوں والا۔ اب جب تاروں کے میٹ سے پاؤں رگڑے جاتے تو وہ "رندے" کی طرح صاف کر دیتا اور پھر موٹے بالوں کا موٹا دبیز میٹ مزید صفائی کر دیتا تھا، یہ بعد میں رکھا گیا تھا۔ جب میں نے یہ عمل دیکھا اور اس پر غور کرتا رہا، تو مجھے کافی شرمندگی ہوئی کہ میں جو اپنی دانش کے زور پر اپنے علم اور عمر کے تجربے پر بات کہہ رہا تھا، وہ اتنی ٹھیک نہیں تھی اور اس لڑکی(بہو) نے اپنا آپ اپلائی کر کے اس مسئلے کا حل نکال دیا اور ہمارے درمیان کوئی جھگڑا بھی نہیں ہوا۔
مجھے خیال آیا کہ انسان اپنے آپ میں تبدیلی پیدا کرنے کے لیے دوسروں پر تنقید زیادہ کرتا ہے اور خود میں تبدیلی نہیں کرتا۔ اس مسئلے سے آپ خود بھی گزرتے ہوں گے۔ ہم نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ چونکہ مجھے ماسی اس طرح سے کہتی ہے اور فلاں اس طرح سے کہتا ہے اس لیے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ ماما جی میں خرابی ہے یا چچا ٹھیک نہیں یا پھر محلے والے یا حکومت خراب ہے۔ ٹرانسپیر نسی نہیں ہے اور سسٹم ہی ٹھیک نہیں، اس لیے محلّہ گندہ ہے۔ اگر کہیں پانی کھڑا ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ گورنمنٹ اس پر توجہ نہیں دیتی اور اپنی خرابی سے ہٹ کر ہمارے پاس بہت سارے جواز اور بہانے موجود ہوتے ہیں اور یہ ہماری زندگی میں پھیلتے رہتے ہیں۔
کچھ خوش قسمت ملک ہیں، جہاں لوگ اپنے مسائل اپنے طور پر یا خود ہی حل کر لیتے ہیں۔ جو ان کے کرنے کے ہوتے ہیں۔ میری ایک نواسی ہے، اس نے ڈرائیونگ لائسنس کے لیے اپلائی کیا۔ وہ ایک سکول سے دو تین ماہ ڈرائیونگ کی تعلیم بھی لیتی رہی۔ لائسنس کے لیے ٹریفک پولیس والوں نے اس کا ٹیسٹ لیا، لیکن وہ بے چاری فیل ہو گئی۔ وہ بڑی پریشان ہوئی اور مجھ سے آ کر لڑائی کی کہ نانا یہ کیسی گورنمنٹ ہے، لائسنس نہیں دیتی۔ وہ خود میں خرابی تسلیم نہیں کرتی تھی، بلکہ اسے سسٹم کی خرابی قرار دیتی تھی ایک ماہ بعد اس نے دوبارہ لائسنس کے لیے اپلائی کیا اب مجھے جتنی آیات آتی تھیں، میں نے پڑھ کر اللہ سے دعا کی کہ اس کو پاس کر دے، وگرنہ میری شامت آ جائے گی۔ لیکن وہ ٹیسٹ میں پاس نہ ہوئی اور ٹریفک والوں نے کہا کہ بی بی آپ کو ابھی لائسنس نہیں مل سکتا، تو وہ رونے لگی، شدت سے، اور کہنے لگی تم بے ایمان آدمی ہو اور تمھارا ہمارے خاندان کے ساتھ کوئی بیر چلا آ رہا ہے اور چونکہ تمھاری ہمارے خاندان کے ساتھ لگتی ہے، اس لیے ٹریفک والو تم مجھے لائسنس نہیں دیتے۔ وہ بڑے حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم تو آپ کے خاندان کو نہیں جانتے۔ وہ کہنے لگی، ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے اور میں اس ظلم پر احتجاج کروں گی۔ اخبار میں بھی لکھوں گی کہ آپ لوگوں نے مجھے لائسنس دینے سے انکار کیا، ایسا میری امی کے ساتھ اور ایسا ہی سلوک میری نانی کے ساتھ بھی کیا، جو پرانی گریجوایٹ تھیں اور اس طرح ہماری تین “پیڑھیوں“ (نسلوں) کے ساتھ ظلم ہوتا چلا آ رہا ہے۔ جس سے آپ کا ہمارے ساتھ بیر واضح ہوتا ہے۔
وہ ابھی تک اپنے ذہن میں یہ بات لیے بیٹھی ہے کہ چونکہ ٹریفک پولیس والوں کی میرے خاندان کے ساتھ ناچاقی ہے اور وہ اس کو برا سمجھتے ہیں، اس لیے ہمیں لائسنس نہیں دیتے۔ اپنی کوتاہی دور کرنے کے بجائے آدمی ہمیشہ دوسرے میں خرابی دیکھتا ہے۔ بندے کی یہ خامی ہے۔ میں اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کے لیے تیار ہوں اور ہمیشہ دوسرے کی خامی بیان کروں گا، جیسا کہ میں قالین پر کیچڑ کے حوالے سے اپنے فیصلے کو آخری قرار دے دیا تھا کہ سوائے جوتے ہاتھ میں پکڑنے کے اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ اگر کوئی گروہ انسانی اپنے آپ کو Search کرنا چاہتا ہے اور راست روی پر قائم ہونا چاہتا ہے، تو پھر اسے اپنا تجزیہ اور Analysis کرنا پڑے گا۔ میں اپنا تجزیہ کرنے کے لیے بڑا زور لگاتا ہوں، لیکن کر نہیں پاتا۔ حالانکہ دوسرے کا تجزیہ فوراً کر لیتا ہوں۔ میں ایک سیکنڈ میں بتا دیتا ہوں کہ میرے محلے کا کون سا آدمی کرپٹ ہے۔ میرے دوست میں کیا خرابی ہے، لیکن مجھے اپنی خرابی نظر آتی ہی نہیں۔ میں نے بڑا زور لگایا ہے بڑے دم درود کروائے ہیں۔ Psycho Analysis کروایا، ہپناٹزم کروایا کہ میرا کچھ تو باہر آئے اور مجھے اپنی خامیوں کا پتہ چلے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں تو ایک بہت سمجھدار عاقل، فاضل ہوں۔ مجھ سے زیادہ بڑا دانشمند آدمی تو ہے ہی نہیں۔ اگر آپ کا مطالعہ کریں اور کھلی نظروں سے دیکھیں تو آپ پر یہ کیفیات عجیب و غریب طریقے سے وارد ہوں گی کہ بندہ اپنے آپ کو کیسا سمجھتا ہے اور اصل میں ہوتا کیا ہے۔
میرے ایک کزن ہیں۔ وہ قصور میں رہتے ہیں۔ جب ہم جوان تھے اور نئی نئی ہماری شادی ہوئی تھی، یہ ان دنوں کی بات ہے۔ اس کے ہاں بچہ ہونے والا تھا۔ وہ رات کے ایک بجے قصور سے لاہور چل پڑا۔بالکل عین وقت پر بجائے اس کے کہ وہ اس کا قبل از وقت بندوبست کرتا، اب ایک بجے وہ گاڑی میں چلے اور سارا راستہ طے کر کے پریشانی کے عالم میں لاہور پہنچے اور اللہ نے کرم کیا کہ وہ وقت پر لاہور پہنچ گئے۔ صبح میں نے اس سے کہا کہ اے جاہل آدمی، تجھے اتنی عقل ہونی چاہیے تھی کہ پہلے اپنی بیوی کو لاہور لے آتا۔ اس نے کہا نہیں نہیں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ میں خود اندازہ لگا سکتا ہوں کہ اسے کب لے جانا ہے اور اللہ نے مجھے یہ فہم دی ہے۔ میں نے کہا فرض کرو رات کے ایک بجے گاڑی چلاتے ہوئے کوئی ایسی پیچیدگی یا مشکل پیدا ہو جاتی اور ریحانہ (بیوی) کی تکلیف بڑھ جاتی، تو پھر تم کیا کرتے؟ کہنے لگا کہ اگر تکلیف بڑھ جاتی تو میں اس کو ڈرائیونگ سیٹ سے اٹھا کر پچھلی سیٹ پر ڈال دیتا اور خود ڈرائیور کرنے لگ جاتا۔ پتہ یہ چلا کہ صاحبزادہ ڈرائیور بھی اسی سے کرواتا آیا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ میری دانش اور میری سوچ یہ بالکل آخری مقام پر ہے اور اس سے آگے سوچنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
ہمارے سیانے یہ کہا کرتے ہیں کہ دیواروں سے بھی مشورہ کر لینا چاہیے۔ یہ ناظم اور کونسلرز کی کمیٹیاں تو اب بنی ہیں۔ پندرہ سال پہلے ہماری ریڈیو کی ایک یونین ہوا کرتی تھی۔ اس میں ہم کچھ نئی باتیں سوچتے تھے۔ اپنے آپ کو یا کارکردگی بہتر بنانے کے لیے اور سننے والوں کو آسانیاں عطا کرنے کے لیے۔ اس دور میں ریڈیو کا خاصا کام ہوا کرتا تھا۔ ہماری یونین کے ایک صدر تھے۔ انہوں نے ایک روز میٹنگ میں یہ کہا کہ ظاہر ہے کہ اجلاس میں آپ خرابیاں ہی بیان کریں گے اور آپ لوگوں سے یہ درخواست کروں گا کہ آپ تیرہ اور پندرہ منٹ تک جنتی برائیاں بیان کر سکتے ہیں، کریں۔ لیکن پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں اور جو اصحاب اپنا موقف تقریر میں بیان نہیں کر سکتے، وہ یہ آسان کام کریں کہ تیرہ گالیاں دیں اور کھڑے ہو کر اچھی گندی بری گالیاں کھٹا کھٹ دے کر بیٹھ جائیں، کیونکہ کسی نے ہمیں کوئی تعمیری چیز تو بتانی نہیں، نقص ہی نکالنے ہیں اور بہتر یہی ہے کہ آپ ایسا کر لیں۔ ہم نے کہا کہ اگر انہوں نے اجازت دے دی ہے تو ایسا ہی کریں اور واقعی بیشتر لوگوں نے گالیوں پر ہی اکتفا کیا، کیونکہ آسان کام یہی تھا، آپ لوگوں نے اب بھی اخبارات میں دیکھا ہوگا کہ تعمیری کام کیسے کیا جائے کے بجائے ہم زیادہ تر تنقید ہی کرتے ہیں اور حل پر زور کم دیتے ہیں۔
یہ مشکلات بہت چھوٹی اور معمولی ہیں، لیکن انہیں کس طرح سے اپنی گرفت میں لیا جائے۔ یہ کام بظاہر تو آسان نظر آتا ہے، حقیقت میں بہت مشکل ہے۔ جب ہمارا ریڈیو سٹیشن نیا نیا بنا تھا تو بارش میں اس کی چھتوں پر ایک تو پانی کھڑا ہو جاتا تھا اور دوسرا کھڑکی کے اندر سے پانی کی اتنی دھاریں آ جاتیں کہ کاغذ اور ہم خود بھی بھیگ جاتے۔ ایک روز ایسی ہی بارش میں ہم سب بیٹھ کر اس کو تعمیر کرنے والے کو صلواتیں سنانے لگے کہ ایسا ہی ہونا تھا۔ بیچ سے پیسے جو کھا لیے ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے ساتھ ہمارے ایک ساتھی قدیر ملک وہ صوتی اثرات کے ماہر تھے۔ وہ سائیکل بڑی تیزی سے چلاتے تھے۔ دبلے پتلے آدمی تھے۔ وہ تیز بارش میں سائیکل لے کر غائب ہو گئے۔ ان کے گھر میں پرانا کنستر کا ایک ٹکڑا پڑا تھا۔ وہ اسے لے آئے اور چھت پر انہوں نے کنستر کے ٹکڑے کو ٹیڑھا کر کے ایک اینٹ نکال کر فکس کر دیا۔ اس طرح پرنالہ بن گیا اور چھت کا اور بارش کا پانی کمرے میں آئے بغیر شر ررر۔۔۔کرتا باہر گرنے لگا۔ ہم نے کہا کہ بھئی یہ کیا ہو گیا ابھی بوچھاڑ اندر کو آ رہی تھی، تو قدیر ملک کہنے لگا، پتہ نہیں کیا ہو گیا۔ لیکن اب تو ٹھیک ہو گیا ہے، بیٹھ کر کام کرو۔ بڑے برسوں کے بعد جب ریٹائرمنٹ کے بعد کبھی چائے وائے پیتے ان سے کسی شخص نے اس حوالے سے پوچھا، تو اس نے اصل بات بتائی۔
عرض کرنے کا مطلب یہ تھا کہ جب ہم روحانی دنیا میں داخل ہوتے ہیں تو جب ےک پہلے اندگی کے روزمرہ کے مسائل حل نہیں ہوں گے، تو آپ روحانی دنیا میں داخل ہو ہی نہیں سکیں گے، اس لیے کہ یہ مرحلہ گزرا کر پھر راستہ آگے چلے گا۔ رفو آپ جب ہی کر سکیں گے جب نانی اماں کی سوئی میں دھاگہ ڈال کر دیں گے، اس کو تو نظر نہیں آ رہا، پھر رفو ہو گا پھر وہ اماں وڈھی آپ کو رفو کر کے دے گی۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم روحانی دنیا میں کوئی ایسا فعل اختیار کر لیں۔ کوئی ایسا درد وظیفہ کر لیں کہ فٹا فٹ دودھ کی بارش ہونے لگے اور ہم کو روشنیاں نظر آنے لگیں، ایسا ہوا نہیں کبھی۔ جانا اسی روزمرہ کی زندگی کے راستے سے پڑتا ہے۔ چھوٹے دروازے کے قالین کے اوپر سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے اور پکڑی جائے گی گردن اشفاق صاحب کی کہ تم نے کیا غلط راستہ نکالا تھا، قالین صاف رکھنے کا۔ اگر کسی مقام پر بھی لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے، تو آپ روحانی دنیا میں داخل نہیں ہو سکتے، کیونکہ اللہ کریم کو اپنی مخلوق بڑی پیاری ہے۔ جب تک مخلوق کا احترام نہیں ہو گا، بات نہیں بنے گی۔
آپ اکثر دیکھتے ہیں آس پاس کہ احترام انسانیت اور احترام آدمیت کا فقدان ہے۔ اس میں پاکستان بےچارے کی کوئی خرابی نہیں ہے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ ہم ان لوگوں سے سیکھ کر آئے ہیں، جہاں چھوت، چھات مذہب کی حیثیت رکھتا ہے۔ بھارت میں 32 کروڑ کے قریب انسان ہیں، جو Untouchable کہلاتے ہیں، یعنی اچھوت۔ ان کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ وہ بھی عام بندے ہیں۔ عام لوگوں جیسے ان کے ہاتھ منہ ناک کان ہیں۔ بڑی محنت سے کام بھی کرتے ہیں، لیکن ان کے لیے حکم ہے کہ انہیں ہاتھ نہیں لگانا اوقر جب ان کے قریب سے گزرنا ہے تو ناک پر رومال رکھنا ہے۔ ہم نے پاکستان تو بنا لیا ہے، لیکن ہم یہ تصور ساتھ لے کر آ گئے ہیں۔ احترام آدمیت کا جو اللہ نے پہلا حکم دیا تھا، اس پرکار بند نہیں رہ سکے۔ جب یہ ہی نہیں ہو گا، تو پھر آپ اگر روحانیت کی دنیا میں داخل ہونا چاہیں گے، کسی بابے کو ملنا چاہیں گے، کسی اعلٰی ارفع سطح پر ابھرنا چاہیں گے، تو ایسا نہیں ہو گا، کیونکہ درجات کو پانے کے لیے بڑے بڑے فضول، نالائق بندوں کی جوتیاں سیدھی کرنا پڑتی ہیں اور یہ اللہ کو بتانا پڑتا ہے کہ جیسا جیسا بھی انسان ہے، میں اس کا احترام کرنے کے لیے تیار ہوں، کیونکہ تو نے اسے شکل دی ہے۔
دیکھئے ناں! جو شکل و صورت ہوتی ہے، میں نے تو اسے نہیں بنایا، یا آپ نے اسے نہیں بنایا، بلکہ اسے اللہ تعالٰی نے بنایا ہے۔ میری بیٹیاں بہوئیں جب بھی کوئی رشتہ دیکھنے جاتی ہیں، تو میں ہمیشہ ایک بات سنتا ہوں کہ بابا جی! لڑکی بڑی اچھی ہے، لیکن اس کی “چھب“ پیاری نہیں ہے۔ پتہ نہیں یہ “چھب“ کیا بلا ہوتی ہے۔ وہ ان کو پسند نہیں آتی اور انسان سے کوئی نہ کوئی نقص نکال دیتی ہیں۔ میں انہیں کہا کرتا ہوں کہ اللہ کا خوف کرو۔ شکل و صورت سب کچھ اللہ تعالٰی نے بنائی ہے۔ یہ کسی جوتا کمپنی نے نہیں بنائی ہے۔ انسان کو تم ایسا مت کہا کرو، ورنہ تمھارے نمبر کٹ جائیں گے اور ساری نمازیں، روزے کٹ جائیں گے، کیونکہ اللہ کی مخلوق کو آپ نے چھوٹا کیا ہے، تو یہ مشکلات ہیں۔ گو یہ چھوٹی سی باتیں تھیں، لیکن چھوٹی باتوں میں سے بڑی باتیں پیدا ہو جاتی ہیں کہ جب تک میں اور آپ احترام آدمیت کا خیال نہیں رکھیں گے اور اپنے لوگوں کو پاکستانیوں کو عزّتِ نفس نہیں دیں گے، روٹی کپڑا کچھ نہ دیں ان کی عزّت نفس انہیں لوٹا دیں۔ مثال کے طور پر آپ اپنے ڈرائیور کو سراج دین صاحب کہنا شروع کر دیں اور اپنے ملازم کے نام کے ساتھ “صاحب“ کا لفظ لگا دیں۔ جب تک یہ نہیں ہو گا، اس وقت تک ہماری روح کے کام تو بالکل رکے رہیں گےاور دنیا کے کام بھی پھنسے ہی رہیں گے۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے، آمین!!‌
 

شمشاد

لائبریرین
باب 14

باب 14

“ ترقی کا ابلیسی ناچ “

آج سے چند روز پہلے کی بات ہے، میں ایک الیکٹرونکس کی شاپ پر بیٹھا تھا تو وہاں ایک نوجوان لڑکی آئی۔ وہ کسی ٹیپ ریکارڈ کی تلاش میں تھی۔ دوکاندار نے اسے بہت اعلٰی درجے کے نئے نویلے ٹیپ ریکارڈ دکھائے لیکن وہ کہنے لگی مجھے وہ مخصوص قسم کا مخصوص Made کا مخصوص نمبر والا ٹیپ ریکارڈ چاہیے۔ دوکاندار نے کہا، بی بی یہ تو اب تیسری Generation ہے، اس ٹیپ ریکارڈ کی اور جو اب نئے آئے ہیں، وہ اس کی نسبت کارکردگی میں زیادہ بہتر ہیں۔ لڑکی کہنے لگی کہ یہ نیا ضرور ہے لیکن میرا تجربہ کہتا ہے کہ یہ اس سے بہتر نہیں۔ میں بیٹھا غور سے اس لڑکی کی باتیں سننے لگا کیونکہ اس کی باتیں بڑی دلچسپ تھیں اور وہ الیکٹرونکس کے استعمال کی ماہر معلوم ہوتی تھی۔ انجینئر تو نہیں تھی لیکن اس کا تجربہ اور مشاہدہ خاصا تھا۔ وہ کہنے لگی کہ آپ مجھے مطلوبہ ٹیپ ریکارڈ تلاش کر دیں۔ میں آپ کی بڑی شکر گزار ہوں گی۔ میں نے اس لڑکی سے پوچھا۔ بی بی آپ اس کو ہی کیوں تلاش کر رہی ہیں؟ اس نے کہا کہ ایک تو اس کی مشین بہتر تھی اور اس کو میری خالہ مجھ سے مانگ کر دبئی لے گئی ہیں اور میں ان سے واپس لینا بھی نہیں چاہتی لیکن اب جتنے بھی نئے بننے والے ٹیپ ریکارڈز ہیں، ان میں وہ خصوصیات اور خوبیاں نہیں ہیں جو میرے والے میں تھیں۔ اس واقعہ کے دوسرے تیسرے روز مجھے اپنے ایک امیر دوست کے ساتھ کاروں کے ایک بڑے شو روم میں جانے کا اتفاق ہوا۔ شو روم کے مالک نے ہمیں کار کا ایک ماڈل دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ ماڈل تو ابھی بعد میں آئے گا لیکن ہم نے اپنے مخصوص گاہکوں کے لیے اسے پہلے ہی منگوا لیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس ماڈل میں پہلے کی نسبت کافی تبدیلیاں کی گئی ہیں اور یہ کمال کی گاڑی بنی ہے۔ میں نے استفسار کیا کہ کیا پچھلے سال کی گاڑی میں کچھ خرابیاں تھیں جو آپ نے اب دور کر دی ہیں؟ وہ خرابیوں کے ساتھ ہی چلتی رہی ہے۔ اس میں‌کیا اتنے ہی نقائص تھے جو آپ نے دور کر دیئے ہیں؟ کہنے لگے نہیں اشفاق صاحب یہ بات نہیں۔ ہم کوشش کرتے رہتے ہیں کہ اس میں جدت آتی رہے اور اچھی، باسہولت تبدیلی آتی رہے۔ تو یہ سنکر میرا دماغ پیچھے کی طرف چل پڑا اور مجھے یہ خیال آنے لگا کہ ہر نئی چیز، ہر پیچیدہ چیز، ہر مختلف شے یقیناً بہتر نہیں ہوتی۔ اس مرتبہ میری سالگرہ پر میری بیوی نے مجھے کافی پرکولیٹر دیا اور وہ اسے خریدنے کے بعد گھر اس قدر خوش آئیں کہ بتا نہیں سکتا۔ کہنے لگیں میں بڑے عرصے سے اس کی تلاش میں تھی۔ یہ بالکل آپ کی پسند کا ہے اور یہ آپ کو اٹلی کی یاد دلاتا رہے گا۔ آپ اس میں کافی بنایا کریں۔ میں نے دیکھا، وہ بالکل نیا تھا اور اس میں پلاسٹک کا استعمال زیادہ تھا لیکن اس کا پیندا کمزور تھا اور وزن زیادہ تھا۔ دوسرا اس کی بجلی کے پلگ تک جانے والی تار بھی چھوٹی تھی اور جب میں نے اسے لگا کر استعمال کیا تو اس میں پانی کھولانے کی استطاعت تو زیادہ تھی لیکن کافی بھاپیانے کی طاقت اس میں بالکل نہیں تھی۔ چنانچہ میں ان کا (بانو قدسیہ) دل تو خراب کرنا نہیں چاہتا تھا اور مین نے کہا، ہاں یہ اچھا ہے لیکن فی الحال میں اپنے پرانے پرکولیٹر سے ہی کافی بناتا رہوں گا۔ جب وہ چلی گئیں تو اس وقت میں نے کہا “ یا اللہ (میں نے اللہ سے دعا کی جو میری دعاؤں میں اب بھی شامل ہے) مجھے وہ صلاحیت اور استطاعت عطا فرما کہ اگر تو نئی چیز اور طرح نو کی کوئی اختراع وہ بہتر ثابت ہو بنی نوع انسان کے لیے اور تیری بھی پسند ہو تو وہ تو میں اختیار کروں، لیکن صرف اس وجہ سے کہ چونکہ یہ نئی ہے، کیونکہ لوگوں کا گھیرا اس کے گرد تنگ ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ یہ توجہ طلب ہے تو اس لیے میں اس سے دور رہوں۔“ لیکن صرف اس وجہ سے کہ چونکہ کہ نئی ہے، کیونکہ لوگوں کا گھیرا اس کے گرد تنگ ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ یہ توجہ طلب ہے تو اس لیے میں اس سے درو رہوں۔“ چنانچہ یہ بات میرے دل میں اتر گئی اور میں Progress کے بارے میں جگہ بہ جگہ، گھروں میں، گھروں سے باہر، محلوں شہروں میں، حکومتوں اور اس کے باہر ترقی کی جانب ایک بڑی ظالم دوڑ جاری ہے۔ اس دوڑ سے مجھے ڈر لگتا ہے کہ حاصل تو اس سے کچھ بھی نہیں ہو گا کیونکہ ترقی میں اور فلاح میں بڑا فرق ہے۔ میں اور میرا معاشرہ، میرے اہل و عیال اور میرے بال بچے فلاح کر طرف جائیں تو میں ان کے ساتھ ہوں، خالی ترقی نہ کریں۔ خواتین و حضرات، یہ انتہائی غور طلب بات ہے کہ کیا ہم ترقی کے پیچھے بھاگیں یا فلاح کی جانب لپکیں اور اپنی جھولیاں فلاح کی طرف پھیلائیں۔ لاہور کے قریب گوجرانوالہ شہر ہے۔ اس میں Adult ایجوکیشن (تعلیم بالغاں) کے بڑے نامی گرامی سکول ہیں۔ مجھے ان Adult Education کے سکول میں ایک دفعہ جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں کسان، زمیدار، گاڑی بان تعلیم حاصل کر رہے تھے اور اس بات پر بڑے خوش تھے کہ چونکہ انہوں نے تعلیم حاصل کر لی ہے اور وہ فقروں اور ہندسوں سے شناسا ہو گئے ہیں۔ اس لیے اب انہوں نے ترقی کر لی ہے۔ چنانچہ وہاں ایک بہت مضبوط اور بڑا ہنس مکھ سا گاڑی بان تھا۔ میں نے کہا کیوں جناب گاڑی بان صاحب، آپ نے علم حاصل کر لیا؟ کہنے لگا، ہاں جی میں نے علم حاصل کر لیا ہے۔ میں نے کہا، اب آپ لکھ پڑھ سکتے ہیں، کہنے لگے لکھنے کی تو مجھے پریکٹس نہیں ہے البتہ میں بڑھ ضرور لیتا ہوں۔ میں نے کہا آپ کیا پڑھتے ہیں؟ کہنے لگا جب میں سٹرک پر سے گزرتا ہوں تو جو سنگِ میل ہوتا ہے میں اب اسے پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔ مین نے اس سے پوچھا کہ اس سنگِ میل پر کیا کچھ لکھا ہوتا ہے۔ کہنے لگا میں ہر سنگِ میل پر یہ تو پڑھ لیتا ہوں کہ اسی میل یا ستر میل لیکن کہاں کا اسی میل، کہاں کا ستر میل۔ یہ مجھے کبھی پتہ نہیں لگا کہ کس طرف ہے۔ یہ ستر میل کہاں کے ہیں۔ اس کے باوجود وہ کہہ رہا تھا کہ میں ترقی یافتہ ہو گیا ہوں اور میں نے اب ترقی کر لی ہے۔ یہ اس قسم کی ترقی ہے (مسکراتے ہوئے‌) یہ راہ میں نئی چیز ہونے کے باوصف بڑی حائل ہوتی ہے۔ میں اس پر کافی حد تک سوچتا اور غور کرتا رہتا ہوں کہ اے میرے اللہ کیا ہم ہر نئی شے کو ہر Modern چیز کو اپنا لیں۔ یہ تو وہ تھا جو گزشتہ دنوں میرے ساتھ پیش آیا اور میں نے اس کی دعا کی کہ یا اللہ میں تجھ سے اس بات کا آرزومند ہوں کہ کچھ پرانی چیزیں جو ہیں، میں ان کا ساتھ دیتا رہوں مثلاً میں پرانی زمین کا ساتھ دیتا رہوں، میں پرانے چاند ستاروں کا ساتھ دیتا رہوں۔ اے اللہ میں اپنے پرنے دین کے ساتھ وابستہ رہوں اور یا اللہ میری بیوی سے جو 38 سال پرانی شادی ہے، میری آرزو ہے کہ وہ بھی پرانی ہی رہے اور اسی طرح چلتی رہے۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے دوست اور میرے جاننے والے مجھ پر ضرور ہنسیں گے اور مجھے ایک دقیانوس انسان سمجھیں گے اور میرا مذاق، ٹھٹھہ اڑائیں گے اور مجھے بہت Fundamentalist سمجھیں گے، بنیاد پرست خیال کریں گے لیکن میں کوشش کر کے، جرات کر کے بہت ساری چیزوں کے ساتھ وابستہ رہتا ہوں۔ انہیں چاہتا ہوں اور کچھ نئی چیزیں جو میری زندگی میں داخل ہو کر میرے پہلوؤں سے ہو کر گزر رہی ہیں، ان میں جو ٹھیک ہے، جو مناسب ہے، جو مجھے فلاح کر طرف لے جاتی ہوں، میں ان کی طرف مائل ہونا چاہتا ہوں اور مجھے یہ یقین ہے کہ خدا میری دعا یقیناً قبول کر لے گا۔ جہاں تک تبدیلی کا تعلق ہے تو اس حوالے سے اگر آپ غور کریں تو ایسی کوئی تبدیلی آئی ہی نہیں ہے یا آتی نہیں جیسی کہ آنی چاہیے۔ اگر آپ تاریخ کے طالبعلم ہیں بھی تو یقیناً آپ تاریخ کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ اپ نے ضرور پڑھا ہو گا یا کسی داستان گو سے یہ کہانی سنی ہو گی کہ پرانے زمانے میں جب شکاری جنگل میں جاتے تھے اور شکار کرتے تھے، کسی ہرن، نیل گائے کا یا کسی خونخوار جانور کا تو وہ ڈھول تاشے بجاتے تھے اور اونچی اونچی گھنی فصلوں میں نیچے نیچے ہو کر چھپ کر اپنے ڈھول اور تاشے کا دائرہ تنگ کرتے جاتے تھے اور اس دائرے کے اندر شکار گھبرا کر، بے چین ہو کر، تنگ آ کر بھاگنے کی کوشش میں پکٹرا جاتا تھا اور دبوچ لیا جاتا تھا۔ ان کا یہ شکار کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ ہاتھی سے لے کر خرگوش تک اسی طرح سے شکار کیا جاتا تھا۔ یہ طریقہ چلتا رہا اور وقت گزرتا رہا۔

خواتین و حضرات، بڑی عجیب و غریب باتیں میرے سامنے آ جاتی ہیں اور میں پریشان بھی ہوتا ہوں لیکن شکر ہے کہ میں انہیں آپ کے ساتھ Share بھی کر سکتا ہوں۔ میرے ساتھ ایک واقعہ یہ ہوا کہ میں نے سینما میں، ٹی وی پر اور باہر دیواروں پر کچھ اشتہار دیکھے، کچھ اشتہار متحرک تھے اور کچھ ساکن، کچھ بڑے بڑے اور کچھ چھوٹے چھوٹے تھے اور میں کھڑا ہو کر ان کو غور سے دیکھنے لگا کہ یہ پرانی شکار پکڑنے کی جو رسم ہے، وہ ابھی تک معدوم نہیں ہوئی ویسی کی ویسی ہی چل رہی ہے۔ پہلے ڈھول تاشے بجا کر، شور مچا کر “ رولا “ ڈال کے شکاری اپنے شکار کو گھیرتے تھے اور پھر اس کو دبوچ لیتے تھے۔ اب جو اشتہار دینے والا ہے وہ ڈھول تاشے بجا کے اپنے سلوگن، نعرے، دعوے بیان کر کے شکار کو گھیرتا ہے، شکار بچارہ تو معصوم ہوتا ہے۔ اسے ضرورت نہیں ہے کہ میں یہ مخصوص صابن خریدوں یا پاؤڈر خریدوں۔ اسے تو اپنی ضرورت کی چیزیں چاہئیں ہوتی ہیں لیکن چونکہ وہ شکار ہے اور پرانے زمانے سے یہ رسم چلی آ رہی ہے کہ اس کا گھیراؤ کس طرح سے کرنا ہے تو وہ بظاہر تو تبدیل ہو گئی ہے لیکن یہ باطن اس کا رخ اور اس کی سوچ ویسی کی ویسی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا، آپ خود روز شکار بنتے ہیں۔ میں بنتا ہوں اور ہم اس نرغے اور دائرے سے نکل نہیں‌سکتے۔ پھر جب ہم شکار کی طرح پکڑے جاتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں تو پھر اپنے ہی گھر والوں سے پنجرے کے اندر آ جانے کے بعد لڑنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے ہی عزیز و اقارب سے جھگڑا کرتے ہیں کہ تمہاری وجہ سے خرچہ زیادہ ہو رہا ہے۔ دوسرا کہتا ہے نہیں تمہاری وجہ سے یہ مسئلہ ہو رہا ہے۔ حالانکہ ہم تو شکاری کے شکار میں پھنسے ہوئے لوگ ہیں۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ترقی ہو گی اور وہ شکار کا پرانا طریقہ گزر چکا ہے تو میں سمجھتا ہوں اور آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ یہ کام ترقی کر طرف مائل نہیں ہوا ہے بلکہ ہم اسی نہج پر اور اسی ڈھب پر چلتے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ ایسے عجیب و غریب واقعات میرے ساتھ وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں اور میں ان پر حیران بھی ہوتا رہتا ہوں اور کہیں اگر انہیں جب ڈسکس کرنے کا مناسب موقع نہیں ملتا تو میں آپ کی خدمت میں پیش کر دیتا ہوں۔ پھر مجھے کئی خطوط ملتے ہیں اور لوگ، خط لکھنے والے مجھے راست اور درست قدم اٹھانے پر مائل کرتے ہیں۔ میں آپ سب کا شکر گزار ہوں۔

بادشاہت کے زمانے اور اس سے پہلے پتھر اور دھات کے زمانے سے لے کر آج تک جتنے بھی ادوار گزرے غلاموں کی تجارت کو بہت بڑا فعل سمجھا جاتا رہا ہے۔ لوگ غلام لے کر جہازوں میں پھرتے تھے۔ انہیں بالآخر فروخت کر کے اپنے پیسے کھرے کر کے چلے جاتے تھے اور اس سے بڑا اور کیا دکھ ہو گا کہ انسان بکتے تھے اور کہاں کہاں سے آ کر بکتے تھے اور وہ اپنے نئے مالکوں کے پاس کیسے رہ جاتے تھے۔ یہ ایک بڑی دردناک کہانی ہے، کہ مہاراجوں کے حکومت میں ‘ داسیاں ‘ بکتی تھیں جو مندروں میں ناچ اور پوجا پاٹ کرتی تھیں۔ یہ ‘ داسیاں ‘ دور دراز سے چل کر آتی تھیں، انہیں زیادہ تر مندروں میں رکھا جاتا تھا۔ کپل وستو کے راجہ شدودن کا بیٹا سدھاک جو اپنے باپ کو بہت ہی پیارا تھا اور وہ بعد میں مہاتما بدھ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کا دل لگانے کے لیے اس کے باپ نے ایک ہزار لونڈیاں خرید کے محل میں رکھی تھیں تاکہ صاحبزادے کو دکھ، غم، بیماری، بڑھاپے اور موت سے آشنائی نہ ہو۔ یہ لونڈیاں شہزادے کا دل بہلاتی تھیں اور یہ رسم پہلے سے ہی چلتی آ رہی تھی حتٰی کے ایک وقت ایسا بھی آیا اور اس بات کی تاریخ گواہ ہے کہ ایک جلیل القدر پیغمبر اور ان کے والد بھی پیغمبر تھے، وہ دنیا کے حسین ترین شخص تھے۔ وہ بھی بک گئے۔ میں یہ حضرت یوسف علیہ السلام کی بات کر رہا ہوں۔ ان کی بھی باقاعدہ بولی لگی تھی۔ یہ درد ناک کہانیاں چلی آتی رہی ہیں اور ایسے واقعات مسلسل ہوتے رہے ہیں۔حضرت عیسٰی، حضرت موسٰی کے زمانے میں غلامی کا دور اور رسم بھی تھی۔ غلامی اور انسانی تجارت کے خلاف سب سے پہلی آواز جو اٹھی وہ نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ نہایت قبیح رسم ہے۔ چلتی تو زمانوں سے آ رہی ہے اور اسے پورا کا پورا روکنا بہت مشکل ہو جائے گا لیکن میں درخواست کرتا ہوں کہ جب بھی موقع ملے تو چلو اپنے سو غلاموں میں سے کسی ایک غلام کو رہا کر دیا کرو۔ اللہ تمہارے لیے زیادہ آسانیاں پیدا کرے گا۔ پھر جب کسی سے کوئی گناہ کبیرہ سرزد ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ “ سب گناہ معاف ہو جائیں گے اگر تم یہ غلام آزاد کر دو۔“ اگر وہ شخص کہتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو غریب آدمی ہوں، میرے پاس کچھ نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غلام کسی سے قسطوں پر لے لو ( کوئی پانچ روپے مہینہ، تین روپے مہینہ ادا کرتے رہنا) لیکن غلام آزاد کر دو۔ یہ غلامی کی ایسی قبیح رسم تھی جس سے انسان آہستہ آہستہ نکلنے کی کوشش کرتا رہا لیکن پھر امریکا میں تو اس نے باقاعدہ کھیل کی صورت اختیار کر لی، افریقہ سے غلاموں کے جہاز بھر بھر کر لائے جاتے تھے اور ان افریقی لوگوں کو امریکہ کے شہروں میں فروخت کر دیا جاتا تھا۔ آپ نے سات قسطوں میں چلنے والی فلم “ روٹس “ تو دیکھی ہی ہو گی۔ اس کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ گورے کس کس طریقے سے کیسے ظلم و ستم کے ساتھ کالے (سیاہ فام) غلاموں کو لا کر منڈیوں میں فروخت کرتے تھے۔ چند دن پہلے کی بات ہے یہ دکھ جو ذہن کے ایک خانے میں موجود ہے، اسے لے کر میں چلتا رہتا تھا جیسا کے آپ بھی چلتے رہتے ہیں تو مجھے ایک انٹرویو کمیٹی میں بطور Subject Expert رکھا گیا۔ میں وہاں چلا گیا۔ اس کمیٹی میں کل آٹھ افراد تھے۔ وہ آٹھ افراد کا پینل تھا جس میں خواتین اور مرد بھی تھے اور وہاں ایک ایک کر کے Candidate آ رہے تھے اور ہم ان سے سوال کرتے تھے۔ براڈ کاسٹنگ اور لکھنے لکھانے کے حوالے سے سوال پوچھنا میرے ذمہ تھا۔ وہ بہت بڑا انٹرویو ہر ایک سے لیا جا رہا تھا۔ وہاں کسی صاحب نے باہر سے آ کر مجھے کہا کہ ایک صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔ گھر سے انہیں پتہ چلا کہ آپ یہاں ہیں تو یہاں پہنچ گئے۔ میں اپنے دیگر کمیٹی کے ارکان سے اجازت لیکر اور معذرت کر کے باہر آ گیا کہ براہ کرم ذرا دیر کے لیے اس انٹرویوز کے سلسلے کو روک لیا جائے۔ میں ہال میں اس صاحب سے ملنے کے لیے گیا۔ وہ صاحب ملے، بات ہوئی اور وہ چلے گئے لیکن میں تھوڑی دیر کے لیے ہال میں ان امیدواروں کو دیکھنے لگا جو بڑی بے چینی کی حالت میں اپنی باری آنے کا انتظار کر رہے تھے اور جو باری بھگتا کے باہر نکلتا تھا۔ اس سے بار بار پوچھتے تھے کہ تم سے اندر کیا پوچھا گیا ہے اور کس کس قسم کے سوال ہوئے ہیں؟ اور ان باہر بیٹھے امیدواروں کے چہروں پر تردد اور بے چینی اور اضطراب عیاں تھا۔ میں کھڑا ہو کر ان لوگوں کو دیکھتا رہا اور حیران ہوتا رہا کہ اگلے زمانے میں تو لونڈی غلام بیچنے کے لیے منڈی میں تاجر باہر سے لایا کرتے تھے۔ آج جب ترقی یافتہ دور ہے اور چیزیں تبدیل ہو گئی ہیں، یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خود اپنے آپ کو بیچنے اور غلام بنانے کے لیے یہاں تشریف لائے ہیں اور چیخیں مار مار کر اور تڑپ تڑپ کر اپنے آپ کو، اپنی ذات، وجود کو، جسم و ذہن اور روح کو فروخت کرنے آئے ہیں اور جب انٹرویو میں ہمارے سامنے حاضر ہوتے ہیں اور کہتے ہیں، سر میں نے یہ کمال کا کام کیا ہے، میرے پاس یہ سرٹیفیکیٹ ہے، میرے پرانے مالک کا جس میں لکھا ہے کہ جناب اس سے اچھا غلام اور کوئی نہیں اور یہ لونڈی اتنے سال تک خدمت گزار رہی ہے اور ہم اس کو پورے نمبر دیتے ہیں اور اس کی کارکردگی بہت اچھی ہے اور سر اب آپ خدا کے واسطے ہمیں رکھ لیں اور ہم خود کو آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا وقت بدل گیا؟ کیا انسان ترقی کر گیا؟ کیا آپ اور میں اس کو ترقی کہیں گے کہ کسی معشیت کے بوجھ تلے، کسی اقتصادی وزن تلے ہم اپنے آپ کو خود بیچنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں لے جا کر یہ کہتے ہیں کہ جناب اس کو رکھ لو۔ اس کو لے لو اور ہمارے ساتھ سودا کرو کہ اس کو غلامی اور اس کو لونڈی گیری کے کتنے پیسے ملتے رہیں گے۔ یہ ایک سوچ کی بات ہے اور ایک مختلف نوعیت کی سوچ کی بات ہے۔ آپ اس پر غور کیجیئے اور مجھے بالکل منع کیجیئے کہ خدا کے واسطے ایسی سوچ آئندہ میرے آپ کے ذہن میں نہ آیا کرے کیونکہ یہ کچھ خوشگوار سوچ نہیں ہے۔ کیا انسان اس کام کے لیے بنا ہے کہ وہ محنت و مشقت اور تردد کرے اور پھر خود کو ایک پیکٹ میں لپیٹ کے اس پر خوبصورت پیکنگ کر کے گاٹا لگا کے پیش کرے کہ میں فروخت کے لیے تیار ہوں۔ کہ ایسی باتیں ہیں جو نظر کے آگے سے گزرتی رہتی ہیں اور پھر یہ خیال کرنا اور یہ سوچنا کہ انسان بہت برتر ہو گیا ہے، برتر تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ارد گرد کے گرے پڑے لوگوں کو سہارا دے کر اپنے ساتھ بٹھانے کو کوشش کرتے ہیں اور وہی قومیں مضبوط اور طاقتور ہوتی ہیں جو تفریق مٹا دیتی ہیں۔ دولت، عزت، اولاد یہ سب خدا کی طرف سے عطا کردہ چیزیں ہوتی ہیں لیکن عزتِ نفس لوٹانے میں، لوگوں کو برابری عطا کرنے میں یہ تو وہ عمل ہے جو ہمارے کرنے کا ہے اور اس سے ہم پیچھے ہٹے جاتے ہیں اور اپنی ہی ذات کو معتبر کرتے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ ہمارے بابا جی کے ڈیرے پر ایک نوجوان سا لڑکا آیا۔ وہ بیچارہ ٹانگوں سے معذور تھا اور اس نے ہاتھ میں پکڑنے اور وزن ڈالنے کے لیے لکڑی کے دو چوکھٹے سے بنوا رکھے تھے۔ وہ بابا جی کو ملنے، لنگر لینے اور سلام کرنے آیا کرتا تھا۔ میں وہاں بیٹھا تھا اور اسے دیکھ کر مجھے بہت تکلیف ہوئی اور چونکہ بابا جی کے سامنے ہم آزادی سے ہر قسم کی بات کر لیا کرتے تھے۔ اس لیے میں نے کہا، بابا جی آپ کے خدا نے اس آدمی کے لیے کچھ نہ سوچا۔ یہ دیکھیئے نوجوان ہے، اچھا لیکن صحت مند ہے۔ بابا جی نے ہنس کر کہا، سوچا کیوں نہیں۔ سوچا بلکہ بہت زیادہ شوچا اور اس آدمی ہی کے لیے تو سوچا۔میں نے کہا، جی کیا سوچا اس آدمی کے لیے، کہنے لگے، اس کے لیے تم کو پیدا کیا، کتنی بڑی سوچ ہے اللہ کی۔ اب یہ ذمہ داری تمہاری ہے۔ میں نے کہا جی (مسکراتے ہوئے) آئندہ سے ڈیرے پر نہیں آنا۔ یہ تو کندھوں پر ذمہ داریاں ڈال دیتے ہیں۔ دوسروں کے لیے سوچنا تو فلاح کی راہ ہے اور یہ ترقی جسے ہم ترقی سمجھتے ہیں یا وہ ترقی جو آپ کے، ہمارے ارد گرد ابلیسی ناچ کر رہی ہے یا وہ ترقی جو آپ کو خوفناک ہتھیاروں سے سجا رہی ہے۔ اسے ترقی تو نہیں کہا جا سکتا۔ آج سے کچھ عرصہ قبل آپ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں دو سُپر پاورز تھیں اور ان کا آپس میں بڑا مقابلہ رہتا تھا اور وہ کاغذی جنگ لڑتے ہوئے اور الیکٹرونک کی لڑائی لڑتے ہوئے آپس میں ہمیشہ ایک دوسرے کی تقابل کرتے تھے اور ایک دوسری کو یہ طعنہ دیتی کہ میں تم سے بڑی سُپر پاور ہوں اور دوسری پہلی کو اور وہ اپنی سُپر پاور اور ترقی کی پرکھ اور پیمانہ یہ بتاتی تھیں کہ جیسے ایک کہتی کہ تم دس سیکنڈ میں ایک ملین افراد کو ملیا میٹ کر سکتی ہو، ہم 5 سیکنڈ کے اندر ایک ملین انسان ہلاک کر سکتے ہیں۔ اس لیے ہم بڑی سُپر پاور ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے کبھی تقابلی مطالعہ میں یا معاملہ میں اور کسی بات پر فخر ہی نہیں کیا۔ تو کیا انسانیت اس راہ پر چلتی جائے گی اور جو علم ہمیں پیغمبروں نے عطا کیا ہے اور جو باتیں انہوں نے بتائی ہیں، وہ صرف اس وجہ سے پیچھے ہٹتی جائیں گی کہ ہم نئی چیزیں اور نئے لوگ حاصل کرتے چلے جا رہے ہیں۔ بحر کیف یہ دکھ کی باتیں ہیں اور بہت سے لوگ میرے ساتھ اس دکھ میں شریک ہوں گے۔ اب آپ سے اجازت چاہوں گا۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
باب نمبر 27

ڈپریشن کا نشہ
ہم بڑی دیر سے ایک عجیب طرح‌کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ ہمیں‌بار بار اس بات کا سندیسہ دیا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں نشے کی عادت بہت بڑھ گئی ہے اور ڈاکٹر و والدین دونوں ہی بڑے فکر مند ہیں اور والدین دانشور لوگوں سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ اس کے قلع قمع کے لئے کچھ کام کیا جائے۔ میں نے بھی ایک سوسائٹی کے ساتھ مل کر اس مسئلے کا مطالعہ کیا۔ میں نے اس سوسائٹی سے کہا کہ نشہ بری چیز ہے لیکن اتنا سا تو قوموں‌کی زندگی میں‌ آ ہی جاتا ہےاور یہ بیہودہ چیز ہے جو کب سے چلی آرہی ہے اور معلوم نہیں کب تک چلتی رہے گی۔ اس تحقیق کے دوران جو میں نے ایک عجیب چیز نوٹ کی وہ یہ کہ ایک اور قسم کا نشہ بھی ہے اور آپ مجھے اس بات کی اجازت دیں کہ میں اسے نشہ کہوں کیونکہ وہ ہماری زندگیوں پر بہت شدت کے ساتھ اثر انداز ہے۔ وہ نشہ Stress، فشار، پریشانی اور دکھ کو قبول کرنے کا ہے۔ اس نشے کو ہم نے وطیرہ بنا لیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک ہم Stressfull نہیں ہوں گے اس وقت تک نارمل زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ آپ محسوس کریں گے کہ اس نشے کو ترک کرنے کی اس نشے سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔ میں ایک بار کچہری گیا، ایک چھوٹا سا کام تھا اور مجھے باقاعدگی سے دوتین بار وہاں جانا پڑا۔ کئی سیڑھیاں چڑھ کر اور اتر کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ بہت سے میری عمر سے بھی زیادہ عمر کے بابے کچہری میں بنچوں کے اوپر بیٹھے ہوئے ہیں اور مقدمے لڑ رہے ہیں۔ میں‌ نے اپنی عادت کے مطابق ان سے پوچھا کہ آپ کیسے آئے ہیں۔ کہنے لگے جی ہمارا مقدمہ چل رہا ہے۔
میں‌نے کہا کہ کب سے چل رہا ہے۔ ایک بابے نے کہا کہ پاکستان بننے سے دوسال پہلے سے چل رہا ہے اور ابھی تک چلا جا رہا ہے۔ وہ سسٹم کے اوپر لعن طعن بھی کر رہا تھا۔ میں نے کہا کہ مقدمہ کس چیز کا ہے۔ اس نے بتایا کہ ہماری نو کنال زمین تھی اس پر کسی نے قبضہ کر لیا ہے۔ میں‌نے کہا کہ 53 میں2 سال ملا کر 55 سال بنتے ہیں۔ آپ دفع کریں، چھوڑیں اس قصے کو۔ وہ کہنے لگا کہ جی اللہ کے فضل سے بچوں‌کا کام بڑا اچھا ہے اور میں اس کو دفع بھی کر دوں لیکن اگر مقدمہ ختم ہو جائے تو میں پھر کیا کروں گا؟ مجھے بھی تو ایک نشہ چاہیے۔ صبح‌اٹھتا ہوں کاغذ لے کر وکیل صاحب کے پاس آتا ہوں اور پھر بات آگے چلتی رہتی ہے اورشام کو گھر چلا جاتا ہوں۔ اس بابے کی بات سے میں نے اندازہ لگا یا کہ ہمارے ہاں‌تو اس نشے نے خوفناک صورتحال اختیار کر لی ہوئی ہے۔ سکولوں میں ‌ماسٹروں، گھروں میں‌عورتوں نے اور دفتروں میں صاحبوں کو یہ نشہ لگا ہوا ہے۔ جسے دیکھیں وہ پریشانی کے عالم میں‌ ہے اور کسی نے اس نشے کو چھوڑنے کی بھی کبھی زحمت گوارا نہیں کی۔ اگر کسی یوٹیلیٹی بل کی آخری تاریخ 17 ہے تو اسے صرف چند لوگوں کو چھوڑ کر باقی دو دن پہلے بھی ادا کر سکتے ہیں لیکن ہم نے اپنے آپ کو صرف فشار کے حوالے کر رکھا ہے۔ اس دکھ سے ہمیں نکلنا پڑے گا۔ تیسری دینا اور بطور خاص ہم پاکستانی اس قدر دکھ کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں کہ جیسے ہمیں اس کے علاوہ اور کوئی کام ہی نہیں رہا۔ ایک زمانے میں سمن آباد رہتا تھا۔ ان دنوں ہمارے پاس پیسے بھی کم ہوتے تھے لیکن جو بوجھ ہم نے اب اپنے اوپر طاری کر لیا ہے ایسا نہیں تھا لیکن اب ہم اس بوجھ اور دکھ کے نشے سے باہر نکلنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ میرے ایک دوست ہیں انہیں‌ آدھے سر کے درد کی شکایت ہے اور وہ ایسا طے شدہ درد ہے کہ ہفتے میں ایک بار بدھ کے دن شام کو تین بجے کے بعد ضرور ہوتا ہے اور اس درد کا حملہ بڑا شدید ہوتا ہے لہٰذا وہ صاحب دو بجے ایک چھوٹے سے سٹول پر اپنی دوائیاں اور ایک بڑے سے سٹول پر اپنے رسالے اور کتابیں لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور کتابوں کو پڑھتے ہوئے اس درد کے حملے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اس وقت ان کی بیوی آرام کرتی ہے اور اسے پتہ ہے کہ اب اسے اٹیک ہوگا اور یہ جانیں اور اس کا کام۔ لیکن وہ صاحب اس “بھاؤ“ کے انتظار میں‌ بیٹھے ہوئے ہیں کہ وہ کب آتا ہے۔ جس طرح ‌پہلے زمانے میں ہم کہانیاں سنا کرتے تھے کہ ایک بستی کے اندر بلا پڑتی ہے تو وہ ایک بندہ یا لڑکی دیتے تھے کہ اس کو قتل کر کے کھا جا اور چلی جا۔ اب وہ “بھاؤ“ سب کو پڑنے لگا ہے اور ہر بندہ اس انتظار میں بیٹھا ہوا ہے کہ یا اللہ میرا “بھاؤ“ کب آئے گا تاکہ میں اس کو اپنے اوپر طاری کروں حالانکہ انسان اس نشے سے نکل بھی سکتا ہے کیونکہ وہ اللہ کے فضل سے بڑا طاقتور ہے۔ اللہ نے اس کو بڑی صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ وہ صاحب بیٹھے ہوئے ہیں اور ساڑھے تین بجے ٹھاہ کر کے انہیں اٹیک ہوتا ہے۔ جب وہ اٹیک ہوتا تو وہ سخت تکلیف میں‌کانپتے ہیں۔ پھر وہ ایک دوائی کھاتے پھر دوسری اور شام کے چھ بجے تک نڈھال ہو کے بستر پر لیٹ جاتے اور پھر صبح جا کے وہ بالکل ٹھیک ہوتے۔ ایک روز جب میں‌اور ممتاز مفتی ان سے ملنے گئے تو وہ اپنی دوائیاں رکھ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے۔ کہنے لگے یہ میری دوائیاں‌ ہیں اور اب میرے اوپر اٹیک ہونے والا ہے اور میں‌ان دوائیوں سے اس کا سدٍباب کروں‌گا۔
ان دنوں ممتاز مفتی کو ہومیوپیتھی کا شوق تھا۔ انہوں‌نے بتایا کہ ہمارے ہومیو پیتھک طریقہء علاج میں ایک ایسی دوائی ہوتی ہے جس اس مرض کے لئے ہوتی ہے۔ ان صاحب نے کہا کہ نہیں میرے پاس یہ دوائیاں پڑی ہیں لیکن ممتاز مفتی اپنے سکوٹر پر گئے اور جا کے دوائی لے آئے۔
اور انہوں‌نے گول گول میٹھی سی گولیاں‌ان کے منہ میں ڈال دیں۔
اب اللہ کی مہربانی اور اتفاق دیکھئے کہ پہلے ساڑھے تین بجے، پھر چار بج گئے اور پانج بجے ان صاحب کے زور سے چیخ ماری اور پریشان ہو کر کہنے لگے کہ میری بیماری کہاں‌گئی۔(اب وہ صاحب تو اس بیماری کے عادی ہو چکے تھے۔)
وہ کہنے لگے کہ میرے ساتھ یہ دھوکا ہوا ہے۔ یہ کیوں ایسا ہوا ہے۔اس کی بیوی کہنے لگی کہ یہ تو اچھی بات ہے لیکن ان صاحب نے رات بڑی بے چینی میں‌گزار دی۔ اگلے دن وہ سی ایم ایچ گئے اور اس دوائی کو دکھایا۔ ہسپتال والوں نے اس دوائی کا ٹیسٹ کیا اور کہا کہ یہ کوئی دوائی نہیں‌ ہے یہ تو میٹھا ہے۔ انہوں نے آکر ممتاز مفتی صاحب سے پوچھا کہ آپ بتائیں کہ وہ کیا تھا۔
مفتی صاحب نے کہا کہ یہ ہماری ایک مشہور دوائی ہے اور خاص طور پر سر آدھے سر کے درد کی شکایت کے لئے ہے۔ انہوں‌نے کہا کہ مجھے یہ دوائی بالکل نہیں چاہئے۔
خواتین وحضرات! وہ بیماری ہی ان کی محبوبہ ہو گئی تھی۔ اتنی پیاری کہ نہ انہیں بیوی اچھی لگتی تھی نہ انہیں‌بچے اچھے لگتے تھے۔ بس انہیں بدھ والے دن آنے والی اس بیماری سے عشق تھا۔
آپ اگر اپنے گھروں میں غور کریں تو آپ کو احساس ہوگا کہ ہر بندہ اپنی اپنی بیماری سے چمٹا ہوا ہے اور مثبت زندگی گزارنے کی طرف کسی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میں‌یہ بات بھی جانتا ہوں اور محسوس بھی کرتا ہوں کہ ہمارے سب کے مالی حالات اتنے اچھے نہیں ہیں جتنے ہونے چاہئیں لیکن اس کے باوصف گزارا چلتا تو ہے ناں!
میں عمر کے بالکل آخری حصے میں‌ہوں لیکن میں‌آپ کو بتاؤں کہ 1964 ہمارا یہ ٹی وی اسٹیشن چلا تھا اس وقت میں‌جو کماتا تھا یا جو میری تنخواہ تھی اور اب جو کچھ میں کماتا ہوں اس میں‌بڑا فرق ہے۔ اٍس وقت میری کمائی کا ستر فیصد حصہ ان چیزوں پر لگ رہا ہے جو 1964 میں موجود ہی نہیں تھیں اور میں‌ حلفیہ کہتا ہوں کہ میں سن چونسٹھ میں‌بھی زندہ تھا۔ اس زمانے میں فوٹو اسٹیٹ مشین نہیں تھی۔ شیمپو نہیں ہوتے تھے جبکہ آج ٹی وی کے اشتہاروں سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ شیمپو کا ہے کہ کون سا شیمپو استعمال کیا جائے اور ہمارے بچے شیمپو کے انتخاب کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ اگر سب عذاب اکٹھے کئے جائیں تو زیادہ عذاب ایسے ہیں جو 1964 میں موجود نہیں تھے لیکن ہم بڑے مزے کی زندگی گزارتے تھے۔
کیا ہم اس عذات سے باہر نہیں نکل سکتے؟ کیا ہم اپنی بیماری کو اس طرح ‌کلیجے سے لگا کر بیٹھے رہیں گے؟
کیا ہماری زندگی میں‌ خوشی کا کوئی دن بھی نہیں آئے گا؟
یہ خوشی ایسی چیز ہے جو صرف اندر سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ یہ باہر سے نہیں لی جاسکتی۔ آج کل کے بچے کہتے ہیں‌کہ اگر ہمارے پاس زیادہ چیزیں‌اکٹھی ہوں گی تو ہمارے پاس زیادہ خوشیاں ہوں گی۔ میری بہو کہتی ہے کہ اگر اس کے پاس پنے(زمرد) کا ہار ہو تو وہ بڑی خوش ہو۔ وہ مجھے کہتی ہے کہ ماموں اگر دو ہار بن جائیں تو پھر بڑی بات ہے۔ میں‌ نے کہا کہ اچھا میں‌تمھیں‌لا دیتا ہوں۔
وہ کہنے لگی 35 ہزار کا ہے۔ میں‌نے کہا کہ کوئی بات نہیں لیکن یہ بتاؤ کہ وہ لے کر تم کتنے دن خوش رہو گی؟ کہنے لگی میں کافی دن خوش رہوں گی۔
میں نے کہا کہ تم اپنی سہیلیوں کے سامنے شیخی بگھارو گی کہ میرے پاس یہ سیٹ بھی آگیا ہے۔ پھر کیا کرو گی؟
وہ مجھے کہنے لگی کہ Possession کا اپنا ایک نشہ ہوتا ہے اور یہ خمار ہوتا ہے کہ فلاں‌چیز میرے قبضے میں‌ہے۔
میں‌نے کہا پیارے بچے!
میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ اتنی ساری قیمتی چیزیں اکٹھی کر کے جب تم سوتی ہو یا سونے لگتی ہو تو ان ساری چیزوں سے تمھارا تصرف تو ٹوٹ جاتا ہے اور میں‌تمہیں جب کبھی صبح جگاتا ہوں تو تم کہتی ہو کہ ماموں بس دو منٹ اور سو لینے دیں۔ یعنی جو خوشی آپ کے اندر سے پیدا ہو رہی ہے وہ زیادہ عزیز ہے اور وہ جو Possession آپ نے اکٹھے کئے ہوئے ہیں وہ اس وقت آپ بھلائے ہوئے ہوتی ہیں لیکن اس بات پر ہم نے کبھی غور ہی نہیں‌کیا۔
میری بہو جس کی سمجھ میں‌میری باتیں تھوڑی تھوڑی آنے لگی ہیں وہ کہتی ہے کہ ماموں ان باتوں پر عمل کر کے کہیں مارے ہی نہ جائیں۔
میں‌کہتا ہوں‌کہ مارے جانے والی کوئی بات ہیں نہیں ہے۔بلکہ آپ خوش ہوں گے۔ میں اس سے کہتا ہوں‌کہ میں‌جب تمھاری عمر کا تھا اور اٹلی میں تھا تو وہاں مجھے جب گھبراہٹ کے آثار پیدا ہونے لگے تو میری لینڈ لیڈی جس کے گھر میں ٹھہرا ہوا تھا یا رہتا تھا اس کا نام تانی تھا وہ کہنے لگی کہ پروفیسر تمھیں کیا مسئلہ ہے؟ میں‌نے اس سے کہا کہ میں ‌پریشان ہو گیا ہوں، مجھ پر بڑا دباؤ ہے۔ وہ کہنے لگی کہ تم ایک دن چھٹی کر لو۔ میں‌ نے کہا کہ میں‌چھٹی کر کے کیا کروں گا۔ میں‌پردیس میں‌ہوں اور دفتر میں‌جا کے ہی میرا دل لگتا ہے۔
اس نے کہا کہ روم اتنا بڑا شہر ہے تم گھومنے جاؤ اور بے مقصد جاؤ۔ میں نے کہا کہ بے مقصد کیسے گھوما جا سکتا ہے؟
کہنے لگی گھوما جا سکتا ہے۔
میں نے مسلسل 23 دن کام کیا تھا اور کوئی چھٹی نہیں‌کی تھی۔ میں‌نے اپنے دفتر والوں‌سے کہا کہ میں آج نہیں آؤں گا تو انہوں‌نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ خواتین و حضرات اس دن میں نے جو پہلا کام کیا تھا وہ یہ تھا کہ نئے کپڑے پہن کر میں دفتر میں‌پہنچا لیکن کام کرنے کے مقصد سے نہیں بلکہ یہ دیکھنے کے لئے کہ میرے کولیگ کیا کر رہے ہیں۔ میں‌نے سونورینا کو دیکھا۔ وہ بیٹھی ٹائپ کر رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگی“مزے کر رہے ہو نا آج چھٹی جو ہے۔“ میں‌نے کہا کہ ہاں‌اور میں اپنی کام کرنے والی کرسی پر بغیر کوئی کام کیے بیٹھا رہا۔
پھر دوسرے دفتری دوستوں‌سے گپ شپ کرتا رہا۔ دفتر میں وقت گزارنے کے بعدمیں سیڑھیاں‌اترا تو وہاں قریب ہی “سانتا ماریا“ میں ایک گرجے کے نیچے انڈر گراؤنڈ بازار ہے اس میں چلا گیا۔ وہاں عورتیں چیزیں بیچ رہی تھیں اور وہاں آواز دے دے کر چیزیں‌بیچنے کا رواج ہے۔ ایک خاتون نے مجھے بلا کر کہا کہ تم یہ جالی کے دستانے لے لو۔ وہ بڑے اچھے بنے ہوئے دستانے تھے۔ وہ کہنے لگی کہ یہ تمہاری محبوبہ کے لئے ہیں یا منگیتر کے لئے ہیں۔
میں‌نے کہا کہ میری تو کوئی منگیتر نہیں ہے۔ کہنے لگی بےوقوف کبھی تو ہوگی۔ میں‌نے کہا نہیں‌مجھے ان کی ضرورت نہیں لیکن وہ اصرار کر نے لگی کہ میں‌تمھیں‌زبردستی دوں گی اور اس نے وہ لفافے میں‌ڈال کے دے دیئے۔ اب مجھے نہیں‌معلوم تھا کہ مجھے یہ کس کو دینے ہیں۔ اس وقت نہ کوئی میری منگیتر تھی اور بانو قدسیہ کا بھی تب کوئی نام ونشان نہیں‌تھا۔ بہر حال میں‌نے وہ دستانے لے لیے۔
میں وہ دستانے لے کر بازارسے باہر آگیا تو دیکھا کہ ریلوے سٹیشن کے پاس ایک سیاہ فام خاتون ایک چھابے میں زرد گلاب کے پھول رکھ کر اپنا پیر کھجا رہی تھی اور اسے جمائیاں سی آرہی تھیں۔ اس نے مجھے کہا کہ یہ پھول بڑا اچھا ہے اور اس نے بھی کہا کہ یہ پھول تیرے بیوی کے لئے بڑا اچھا رہے گا۔ میں نے وہ بھی “بڑا خوبصورت ہے“ کہ کر خرید لیا۔ پھر میں‌نے اسٹیشن پر ٹرام پکڑنے سے پہلے اپنا ایک شام کا محبوب پرچہ(اخبار) خریدا اور میں 77 نمبر کی بس میں‌ آکر بیٹھ گیا۔ اس میں ایک بوڑھا سا آدمی جو بظاہر پروفیسر لگتا تھا گلے میں‌عینک لٹکائے بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ میں‌دھڑام سے سیٹ پر بیٹھا تو اس نے آنکھیں کھولیں۔ میں‌نے کہا کہ آپ کیسے ہیں؟ اس نے کہا کہ ٹھیک ہوں۔ میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ اچانک میرے ہاتھ سے گر گئی ہے اور میں‌نے اسے اٹھانے کی کوشش گوارہ نہیں ‌کی اور سوچا کہ کوئی بندہ آئے گا تو مجھے اٹھا دے گا۔ میں نے وہ کتاب اٹھا کر اسے دے دی۔
وہ ایک ریٹائرڈ سکول ٹیچر تھا۔ ہم باتیں‌کرنے لگے۔ اس نے کہا آج موسم کتنا اچھا ہے۔ میں‌نے کہا ہاں‌جی موسم واقعی بہت اچھا ہے۔
جب میں گھر کے پاس پہنچا تو شام ہو چلی تھی۔ میں نے آسمان پر ایک ستارہ دیکھا جو میں‌نے دوسال سے نہیں دیکھا تھا۔ یہ ستارہ ایک گائیڈ کی طرح‌سے نشاندہی کر رہا تھا کہ میرا گھر اس طرف ہے۔ مجھے وہ بڑا اچھا لگا اور میں‌کافی دیر تک اس کو دیکھتا رہا۔ میں‌نے گھر آکر اخبار، سفید دستانے اور لمبی ڈنڈی والا پھول جب میز پر رکھا تو آپ یقین کریں، میں آپ کو سچ سچ عرض کرتا ہوں کہ مجھے ویسے خوشی عطا کرنے والا دن پھر کبھی نصیب نہیں‌ ہوا حالانکہ میرے پاس کوئی Possessionنہیں تھا۔ اب بھی میں کسی دن ویسے ہی چوبرجی کی طرف نکل جاؤں گا اور جب چلتے چلتے شام ہو جائے گی تو میں‌کہوں‌گا کہ میں یہ نشہ نہیں کرنا چاہتا جو نشہ ہمارے اوپر عائد کر دیا گیا ہے۔ میری آپ سے بھی پرزور درخواست کہ ہم دوسرے نشوں پر توجہ دینے کی بجائے Sress کے نشے سے نکلنے کی کوشش کریں۔ میں‌ پھر کہوں‌گا کہ بڑی تکالیف اور تنگیاں‌ہیں لیکن جس طرح سے بارش کے دنوں‌میں جب آپ کچی گلیوں سے گزرتے ہین اور وہاں‌رکھی پکی اینٹوں‌پر آپ پاؤں رکھتے ہوئے اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں ویسے ہی ان مشکلات کو جانچتے ہوئے، پاؤں‌رکھتے ہوئے اگر خوشی کی طرف نکل جائیں۔ یہ میرے اس دوست کی طرح‌ ہمیں‌یہ خوف لگا ہوا ہے کہ ہم اپنی بیماری کو چھوڑنا بھی ایک بیماری ہی تصور کرتے ہیں اور اپنے اوپر مسلط کردہ بیماریوں سے جان نہیں چھڑانا چاہتے۔ میں پھر یہ تسلیم کرتا ہوں‌کہ ہمیں‌بڑی پریشانیاں‌ہیں اور بچوں کے حوالے سے بڑی مشکلات ہیں۔ ہمیں‌انہیں اس طرح‌سے زندگی کے سفر میں کامیاب طریقے سے گامزن ہونے کے لئے کوئی راستہ نہیں‌مل رہا جیسے انہیں‌ہونا چاہئے۔ لیکن میری اس آرزو میں آپ بھی شریک ہوں‌گے کہ ہم ڈپریشن کی ایسی بیماری کی طرف بڑھ رہے ہیں جو بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے اور ڈاکٹروں ‌کا خیال ہے کہ پانچ سے سات سال کی مدت میں‌یہ بیماری لوگوں‌میں ایسے پھیل جائے گی جیسے کینسر یا ایڈز کی بیماری ہے۔
اس ذہنی بیماری کا سدٍباب کرنے کے لئے میں اور لوگوں کے لیے بھی دعا گو ہوں لیکن اپنے ملک اور اس کے باشندوں کے لئے یہ ضرور تمنا کرتا ہوں کہ اللہ نہ کرے ہم ڈپریشن کی بیماری میں شدت سے مبتلا ہو جائیں جس کی نشاندہی دنیا بھر کے ڈاکٹر چیخ‌چیخ کر کر رہے ہیں۔ ہمیں ایک ہی ذات اور نبی اکرم ص کی رہنمائی کا سہارا ہے جو ہر وقت ہمارے ساتھ ہے اور یہ سہارا ہمارے پاس ہے۔ اس وقت تک نہیں جائے گا جب تک ہم اللہ پر اتنا بھروسہ نہیں‌کرنے لگیں گے جتنا کہ فرمانے والوں نے فرما دیا ہے کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔
میرے بڑے بڑی ہی آسان زندگی گزار گئے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے یہ خاص سکیم کے تحت ہو رہا ہے جبکہ میں‌بدنصیب یہ کہتا ہوں کہ ہوتا ہے تو ہوتا رہے لیکن میں اس میں‌اپنی عقل اور دانش ضرور استعمال کروں گا اور اس عذاب میں ضرور مبتلا ہوں گا جس کا وسط تو پورے طور پر ہو چکا ہے اور ہم اس کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔ ہمیں روحانیت کی رسی تھام کر مادیت کی زمین کے اوپر چلنے کی بڑی اشد ضرورت ہے لیکن رسی وہی تھامنا پڑے گی، اسی میں‌نجات ہے۔
اللہ آپ کو آسانیاں‌عطا فرمائے اور آسانیاں‌تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ
 

ماوراء

محفلین
باب نمبر 24

انسانوں کا قرض​


میری زندگی میں عجیب و غریب واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور ان میں سے کچھ کچھ میں آپ کی خدمت میں بھی پیش کرتا رہتا ہوں۔ اکثر لوگ مجھے راستہ روک کر پوچھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسے واقعات کیوں پیش نہیں آتے جس طرح کے آپ کے ساتھ پیش آتے ہیں تو میں ان سے عرض کرتا ہوں کہ میں تھوڑا وصول کنندہ یا (Receptive) ہوں اور جو Vibration آپ اپنے بدن یا وجود میں رکھتے ہیں وہ باہر کی وائبریشن (ارتعاش) سے مل جاتا ہے اور پھر وہ ہی کچھ ہونے لگتا ہے جس کی آپ کے اندر کو توقع تھی یا جس کا انتظار تھا۔ میں ہر روز صبح سویرے اپنے بستر سے ہمیشہ ایک دستک پر بیدار ہوتا ہوں اور جب میں دروازہ کھولتا ہوں اور جب میں دروازہ کھولتا ہوں تو میرے گھر کے دروازے پر ایک سر ٹوپ لگائے ہوئے، چیک کا سوٹ پہنے ہوئے اور ہاتھ میں رولر پکڑے ہوئے ایک شخص کھڑا ہوتا تھا۔ وہ میرے گھر کے دروازے کو زور سے بجاتا ہے اور جب میں باہر نکل کر اس سے ملتا ہوں تو وہ مجھے ہمیشہ ایک ہی بات کہتا ہے کہ “آپ کے ذمہ میرا قرض واجب ہے، وہ قرض لوٹائیے۔“
اور میں بہت حیران ہو کر اس کی شکل دیکھتا ہوں اور اس سے کہتا ہوں کہ میں نے تو آپ سے کبھی کوئی قرض نہیں لیا لیکن وہ بہت سے کاغذات کے پلندے نکال کر میری طرف بڑھا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ “ آپ نے مجھ سے 35 بلین ڈالر قرض لیا ہے اور یہ دستخط ہیں آپ کے بڑوں کے‘ آپ کے آباؤاجداد کے جنہوں نے یہ قرض لے کر کہیں استعمال کیا ہے۔“
اور میں اس کی بات سن کر شرمندہ اور نہایت “کچا“ پڑ کے اس سے کہتا ہوں کہ اس قرض بابت مجھے تو رلم نہیں کہ یہ کب لیا گیا تھا؟ کیوں لیا گیا؟ اور کس جگہ پر استعمال ہوا؟
لیکن وہ کہتا ہے کہ اس قرض کی ادائیگی کا جلد بندوبست کریں ورنہ یہ آپ کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔ خواتین و حضرات میرے ہر دن کی ابتدا کچھ اسی طرح سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد میں پھر گلیوں، بازاروں، پارکوں میں گھومتا رہتا ہوں اور اس بوجھ کو اپنے ساتھ اٹھائے پھرتا ہوں۔ بہت تنگ سے لوگ ایسے ہوں گے جن کی طبیعتوں اور کندھوں پر یہ بوجھ نہیں ہو گا لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے اس شخص کی شکل سے بھی خوف آتا ہے ار مجھے اس بات کا خوف بھی رہتا ہے کہ کل صبح پھر وہ میرے دروازے پر آ کر اسی زور سے ڈنڈا بجائے گا اور مجھ سے اپنے قرض کا تقاضا کرے گا۔ میں پارکوں میں گھومتا رہتا ہوں اور وقت گزارتا رہتا ہوں لیکن مجھے معلوم نہیں ہے کہ وہ قرضہ جو میرے ساتھیوں، بڑوں یا پرکھوں نے لیا تھا وہ کہاں ختم ہوا؟ کیسے خرچ ہوا؟ کس مقام یا جگہ پر اس کا استعمال ہوا؟ یا اس قرض کی رقم سے کیا فائدہ اٹھایا گیا؟ اور اس دولت کا ذاتی، اجتماعی یا قومی طور پر کیا فائدہ حاصل ہوا؟ ایسی باتوں کا میری طبیعت پر بوجھ پڑتا رہتا ہے اس لیے آپ سے عموماً کہتا رہتا ہوں اور اس بوجھ کی موجودگی میں میں شرمندگی کے عالم میں کچھ اپنے آپ سے شرمسار، کچھ اپنے عزیز واقارب اور کچھ اپنی آنے والی نسل اور خاص طور پر پوتوں سے شرمندہ سا وقت گزرتا ہوں۔ اللہ نہ کرے کہ آپ پر ایسا وقت آئے۔ مجھ پر ایک طرح سے تھوڑی سے تشقی اس طرح سے ہو جاتی ہے اور ذرا سا Respite یوں کم ہو جاتا ہے۔ کہ جو قرض خواہ ہے اس کو بھی بڑی الجھن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قرض خواہ بھی آسانی میں نہیں ہوتا۔ مقروض کو خیر بالکل ہی دبا ہوا ہوا ہوتا ہے لیکن قرض دینے والا بھی ایک عجیب طرح کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہوتا ہے۔ اور دونوں ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے ہوتے ہیں اور ان کے درمیان انسانی رشتے وہ سارے کے سارے منقطع ہو جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے بچپن میں ہمارے قصبے میں ایک شوکت صاحب تھے وہ ابتدائی قسم کا ڈینٹسٹری کا امتحان پاس کر کے آئے تھے اور انہوں نے گاؤں میں کلینک کھولا تھا۔ وہ مصنوعی دانت تیار کرتے تھے اور ڈاکٹر شوکت نے گاؤں میں پہلی بار مصنوعی دانت متعارف کروائے۔ وہاں گاؤں میں ایک سردار تھے (سردار کئی قسم کے پوتے ہیں آپ کے ذہنوں میں تو فلمیں یا ٹی وی ڈرامے دیکھ کر سرداروں کا کچھ اور ہی امیج بنا ہوا ہو گا۔ وہ سارے ہی ویسے نہیں ہوتے۔ سارے ہی ٹی وی والے بابا سائیں نہیں ہوتے، کچھ چاچا سائیں بھی ہوتے ہیں اور خالی سائیں بھی ہوتے ہیں)۔ انہوں نے ڈاکٹر شوکت سے مصنوعی دانت لگوائے اور تمام کے تمام دانت نئے لگوائے اور وہ یہ مہنگا لیکن آرام دہ سودا کر کے مزے سے گھومتے پھرتے رہے لیکن رقم ادا نہ کی۔
ایک دن ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ سردار صاحب میرے پیسے ادا کریں لیکن اس دور میں ڈیڑھ سو کی رقم ادا کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اب ڈاکٹر صاحب قرض خواہ تھے اور گاؤں کے سردار یا بابا سائی مقروض تھے۔ ڈاکٹر صاحب ان سے روز صبح سویرے رقم کا تقاضا کرتے تھے اور وہ آج کل کے وعدے پت ٹرخاتے رہتے تھے لیکن رقم دے نہیں پاتے تھے۔ ایک روز دوپہر کے وقت ڈاکٹر شوکت صاحب غصے کے عالم میں سردار جی کے پاس آئے اور وہاں تو تو میں میں شروع ہو گئی اور وہ کہنے لگے کہ آپ میرے پیسے ادا کریں ورنہ میں نے آپ کو یہ جو “ بیڑھ “ (بتیسی) لگایا ہے وہ واپس کر دیں۔ وہ سردار صاحب بھی علاقے کے آخر مالک تھے۔ غصہ کھا گئے چنانچہ تو تو میں میں کے بعد ان دونوں میں باقاعدہ ہاتھا پائی کی نوبت بھی آن پہنچی اور اس کے بعد ڈاکٹر شوکت بڑی مایوسی کے عالم میں واپس اپنے کلینک پر پہنچ گئے۔ میں ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں مشینیں، آلات اور یہ دیکھنے کہ مصنوعی دانت کیسے بنتے ہیں بڑے شوق سے چلا جاتا تھا۔ اس وقت میں فرسٹ ائیر میں پڑھتا تھا۔ میں وہاں بیٹھا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنا بازو میرے آگے کر کے کہا “دیکھ رہے ہو بابا سائیں کے کر توت“ میں اس سے اپنا قرض مانگنے گیا اور اس ظالم نے مجھے “دندی“ کاٹ لی جیسے کتا کاٹتا ہے۔“
اس نے کہا کہ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس نے “دندی“ بھی ان دانتوں سے کاٹی جو میں نے اسے بنا کر دیئے تھے۔ اس طرح خواتین و حضرات قرض خواہ کا ایک اپنا دکھ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ اگر میں نے اس کو دانت نہ بنا کر دیئے ہوتے تو وہ مجھے کاٹ نہیں سکتا تھا۔ جب میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں تو مجھے وہ واقعہ یاد آ جاتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ میں بھی کہیں نہ کہیں کاٹتا ضرور ہوں کیونکہ میں مقروض ہوں اور میرے سر پر 35 بلین ڈالر کا قرض ہے۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔ یہ بوجھ اس قدر زیادہ ہے کہ میں اس کا کوئی مداوا نہیں کر سکتا، ہر وقت مجھے کسی نہ کسی ایسے الجھاؤ میں اس لیے الجھنا پڑتا ہے کہ میں اس قرض کو بھولا رہوں لیکن ہمارا اہنے قرض خواہ کے ساتھ رشتہ استوار نہیں ہوتا اور قرض خواہ بھی بہانے نکال نکال کے اور ہماری غلطیاں پکڑ پکڑ کر ہمارے کندھوں پر بوجھ اور بڑھاتا رہتا ہے تاکہ ہمیں واجب الا دا قرض کا احساس رہے۔
اوکاڑہ میں ایک میلہ لگتا ہے ( اب پتہ نہیں لگتا ہے یا نہیں کیونکہ میری جوانی کے زمانے میں لگا کرتا تھا) اور مجھے ان میلوں ٹھیلوں سے بہت دلچسپی ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہاں پر ایک پنگھوڑا لگا ہے اور کا مالک آٹھ آتھ آنے لے کر گول گھومنے والے پنگھوڑے سے جھولے دے رہا ہے۔ وہ پنگھوڑا آج کل کے پنگھوڑوں کی طرح بجلی یا مشین سے چلنے والا نہیں تھا بلکہ پنگھوڑے والا اسے ہاتھ کے زور سے گھماتا تھا۔ میں وہاں بغیر کسی مقصد کے کھڑا ہو کر اسے دیکھنے لگا تو ایک گاؤں کا آدمی وہاں آیا۔ اس کی پگڑی کھل کر گلے میں پڑی ہوئی تھی اور اس نے کھدر کی تہبند باندھی ہوئی تھی۔ وہ بھی اس پنگھوڑے کے لکڑی کے گھوڑے پر سوار “جھوٹے“ (جھولے) لے رہا تھا۔ جب ایک “پور“ (چکر) ختم ہوا اور سارے اتر گئے تو تب بھی وہ شخص وہیں بیٹھا رہا اور وہ اکڑوں حالت میں بڑی تکلیف اور پریشانی میں ویسے ہی گھومتا رہا جب وہ تیسرے چکر کے اختتام پر بھی نہ اترا تو میرا اس میں تجسّس بہت بڑھ گیا اور میں نے آگے بڑھ کر اسے کہا کہ آپ نے “جھوٹے“ لے لیے ہیں اور آپ اترتے کیوں نہیں ہیں۔ اگر آپ کو یہ چکر پسند ہیں تو پھر آپ کے چہرے پر خوشی، مزے اور بشاشت کے اشارہ ہونے چاہیں جو بالکل نہیں ہیں۔ اس نےکہا کہ جناب بات یہ ہے کہ یہ جو پنگھوڑے والا ہے اس سے میں‌ نےتیس روپے لینے ہیں اور میں ہفتہ بھر سے اس کے پیچھے گھوم رہا ہوں اور یہ میرا قرضہ نہیں دے رہا ہے اور اب میں‌نے اس کا یہی حل سوچا ہے کہ میں اپنے قرضے کے بدلے اس کے پنگھوڑے پر “جُھوٹے“ لوں۔ اب یہ میرا 29واں‌ پھیرا جا رہا ہے اور ہر مرتبہ میں‌ آٹھ آنے کم کرتا جا رہا ہوں اور اس طرح سے میں اپنا قرضہ واپس لے رہا ہوں۔ حاضرین محترم میرے دل میں‌ بھی ایسا خیال آتا ہے کہ کاش میرا بھی کوئی اس طرح سے سودا طے ہو جائے اور میں‌ نے اپنے قرض خواہ کو جو 35 بلین ڈالر دینے ہیں تو میں‌اس کو بھی کسی گھوڑے پر بٹھا کر ایسے چکر دوں جو ذہنی، جسمانی، نفسیاتی انداز کے چکر ہوں اور وہ 20 ویں پھیرے پر ہی کہ دے کہ میں تمھیں قرض معاف کرتا ہوں اور تم میری جان چھوڑو لیکن میرا قرض خواہ اس دیہاتی جیسا نہیں ہے۔ وہ دیہاتی تو بڑا سیدھا، بھلا سا اور نیک آدمی تھا اس کا غصہ تو ایک چھوٹی سی پٹڑی پر چل رہا تھا جبکہ میرے قرض خواہ کا غصہ میری ساری کائنات پر محیط ہے۔ اس نے میری زندگانی کو اپنے شکنجے میں‌لے رکھا ہے اور وہ مجھے چھوڑتا ہی نہیں‌ ہے۔ آغا‌حشر کا جب طوطی بولتا تھا تو فلم والے ان کے پیچھے پیچھے بھاگتے تھے کہ آپ فلم کے لئے کچھ لکھیں لیکن وہ اپنی تھیٹر کی زندگی اور اس تصور میں‌ اتنے مگن تھے کہ وہ فلم والوں کو گھاس نہیں ڈالتے تھے۔ مختار بیگم بتاتی ہیں کہ انہیں کپڑے سلوانے اور پہننے کا بڑا شوق تھا۔ ممبئی کا ایک بڑا معروف درزی تھا۔ آغا حشر نے اپنا سوٹ سلنے کے لئے اسے دیا اور کہا کہ آپ مجھے ایک تاریخ بتا دیں تاکہ میں اپنا سوٹ آکر لے جاؤں کیونکہ وقت کی کمی کے باعث میں باربار نہیں‌آپاؤں گا۔ انہیں تاریخ‌بتا دی گئی اور جب مقررہ تاریخ‌پر وہ اپنا سوٹ لینے آئےپر درزی نے کہا کہ جی میں ابھی تک سوٹ کی کٹنگ نہیں‌کر سکا۔ اس پر آغا صاحب بہت ناراض ہوئے اور واپس آگئے۔ اس درزی نے عرض کی کہ میں آئیندہ ہفتہ کو آپ کا سوٹ تیار کر کے رکھوں گا۔ آغا صاحب ہفتے ہو گئے تو بھی سوٹ تیار نہ تھا، درزی نے کہا کہ سر آپ اتوار کو آجائیے گا میں‌چھٹی کے دن بھی آپ کی خاطر دوکان کھول لوں گا۔ جب وہ سنڈے کو گئے تو تب بھی سوٹ تیار نہ تھا۔ اس طرح وہ آتے اور جاتے رہے۔ جب آغا حشر نے ٹیلر ماسٹر کی دوکان پر جانا چھوڑ دیا تو وہ درزی سوٹ سی کر اور اسے پیک کر کے خدمت میں‌حاضر ہو گیا۔ آغا صاحب نے کہا کہ تمہارے پیسے تمہیں‌مل جائیں گے اور اس طرح سے مقروض اور قرض‌خواہ کا رشتہ شروع ہو گیا۔ ایک ہفتے کے بعد درزی بل مانگنے آگیا تو انہوں‌نے کہا کہ آپ فکر مت کریں آپ کا بل آپ کو مل جائے گا۔ اب آغا صاحب کو درزی پر قیمتی وقت ضائع کرنے کا غصہ تھا اور وہ بدلہ لے رہے تھے۔ درزی نے کوئی چار پانچ چکر لگائے۔ مختار بیگم بتاتی ہیں‌کہ وہ درزی بے چارہ ایک دن رونے والا ہو گیا اور کہنے لگا کہ آغا صاحب آپ ایسا کریں کہ مجھے ایک آخری وقت یا تاریخ‌بتا دیں میں‌آپ کو درمیان میں‌تنگ نہیں‌کروں گا۔ آغا صاحب نے کہا کہ آپ ایسا کریں کہ ہر جمعرات کو صبح 10 بجے آجایا کریں۔ وہ بےچارہ روتا پیٹتا چلا گیا۔ یہ واقعہ بتانے کا میرا مقصد یہ ہے کہ خالی مقروض پر ہی بوجھ نہیں‌ہوتا قرض خواہ بھی جال میں‌پھنسا ہوتا ہے۔
ایک آدمی بڑا پریشان تھا وہ راتوں‌کو جاگتا تھا اور چیخیں مارمار کر روتا تھا۔ وہ ایک ڈاکٹر کے پاس آیا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ اپنے ڈپریشن کی اصل وجہ بیان کریں؟ آپ کیوں‌اس قدر پریشان ہیں۔ اس نے بتایا کہ میرے ذمہ ایک لاکھ روپے قرض واجب الادا ہے جو مجھے ادا کرنا ہے لیکن میں اس کی ادائیگی نہیں‌کر سکتا۔ راتوں کو اس فکر سے جاگتا ہوں اور دن کو اس قرض کو چکانے کی تدبیریں کرتا رہتا ہوں۔ ڈاکٹر نے کہا دیکھئے آپ کے ذمے قرض‌ایک کاغذ کے ٹکڑے پر ہی لکھا ہوا ہے ناں! اس کو اہمیت نہ دیں، دفع کریں جائیں‌اور اس کاغذ کے ٹکڑے کو پھاڑ دیں۔ اس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب بڑی مہربانی اور وہ چلا گیا۔ وہاں ایک اور شخص بھی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب یہ جو شخص پریشان آیا تھا اور خوش خوش واپس گیا ہے آپ نے اسے کیا کہا ہے تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں نے اسے قرض‌کے معاہدے والا کاغذ پھاڑنے کا مشورہ دیا ہے۔ یہ سن کر وہ شخص رونے دھونے لگا اور کہنے لگا ڈاکٹر صاحب اس شخص نے مجھ ہی ہی ایک لاکھ روپے کا قرض‌لے رکھا ہے۔ عید کے روز بھی میں‌یہیں کہیں ایک غیر معروف کونے میں‌بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بابا آگیا، وہ پرانی وضع کا نیم فقیر یا نیم صوفی قسم کا تھا۔ وہ میرے پاس مخصوص قسم کے شعری جملے جو ہم بچپن میں سنا کرتے تھے۔
میرے پاس ایک پانچ روپے کا نوٹ تھا وہ میں‌نے اس کو دیا کیونکہ میرے بچے مجھے کہا کرتے ہیں کہ اب آپ کسی فقیر کو پانچ روپے سے کم نہ دیجئے گا کیونکہ وہ ناراض ہوتے ہیں۔ اس شخص نے خوش ہو کے وہ نوٹ لے لیا اور کہنے لگا کہ تو بڑا پریشان سا ہے اور یہاں‌ اکیلا بیٹھا ہوا ہے کیا بات ہے؟
میں‌نے کہا کہ مجھ پر بڑا قرض ہے اور میں کوشش کرتا ہوں کہ اس سے کسی طرح باہر نکل جاؤں۔ یہی میری پریشانی کا باعث ہے۔ اس نے ہلکا سا قہقہ لگایا اور کہا “شکر کر اللہ کا اور خوش ہو کہ تیرے اوپر کاغذوں، روپوں اور ڈالروں کا قرض ہے، اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو اور ہر وقت جھک کر رہا کر کہ تیرے اوپر انسانوں کا قرض نہیں ہے، تم نے کسی کو انسان نہیں لوٹانے۔“
میں نے کہا بابا میں تیری بات نہیں سمجھا۔ کہنے لگا کہ شکر کر تو نے کوئی قتل نہیں کیے، کسی انسان کی جان نہیں‌لی۔ اگر خدانخواستہ تیرے اوپر جانوں‌ کا بوجھ ہوتا تو تو اسے کیسے لوٹاتا اور تیرے ملک والے بھی اللہ کا شکر ادا کریں کہ ان کے اوپر جانوں‌کا بوجھ نہیں‌ہے کیونکہ اللہ قرآن میں‌فرماتا ہے کہ اگر تم نے ایک شخص کو ناحق قتل کیا تو گویا تم نے پوری انسانیت کو قتل کردیا۔ میں نے اس سے کہا کہ الحمدللہ میرے اوپر ایسا کوئی بوجھ نہیں‌ہے۔ اس نے کہا کہ تم اپنے پڑوسیوں‌کو دیکھو 73 ہزار بے گناہ کشمیریوں کے قتل کا بوجھ (اب یہ تعداد 75 ہزار سے بھی زائد ہو چکی ہے) ان کی گردن پر ہے کہ وہ کیسے لوٹائیں گے۔ کتنی بھی کوشش کر لیں، جدھر بھی مرضی بھاگ لیں وہ 73 ہزار آدمی جن کے وہ مقروض‌ہیں وہ کیسے آدمی لوٹائیں گے۔ تمھارا تو قرض روپوں کا قرض ہے کسی نہ کسی صورت لوٹایا جا سکے گا۔ پھر ان کو دیکھو انہوں نے ایک لاکھ پندرہ ہزار سکھوں‌کو Blue Star کے Process میں‌قتل کیا۔ وہ ان کی ماؤں کو اور بہنوں کو ان کے بیٹے اور بھائی کیسے لوٹا سکیں‌گے؟ ان سے اگر وہ مانگنے والا(خدا تعالٰی) آگیا کہ میرے انسان واپس کرو تو وہ کہاں‌سے دیں‌گے۔ وہ کہنے لگا تمہیں پتہ ہے میں‌تو جانتا نہیں‌کہ “ایتھوں دور سمندر وچ کوئی پنڈ اے۔“ کہنے لگا وہاں پر دو جگہوں پر بم پھینک کر لاکھوں انسانوں کو ہلاک کر دیا۔ میں نے کہا کہ بابا ان شہروں ‌کو “ہیروشیما“ اور “ناگاساکی“ کہتے ہیں۔ اب وہ کس طرح‌لاکھوں بندے لوٹائیں گے۔ وہ بابا “ٹپوسی“ مار کر چلتا ہے۔ اس نے مجھ سے کہا “میں‌نے سنا ہے کہ جب امریکہ آباد ہوا تو وہاں‌پر ایک قوم آباد تھی جسے Red Indian کہتے تھے۔ وہ قوم اب ساری کی ساری ختم ہو گئی ہے اور اب اگر کوئی کھاتے والا اپنا رجسٹر لے کر آگیا اور اس نے موجودہ قوم کو بڑی طاقتور اور سیانی اور ماہر قوم ہے اس سے کہا کہ مجھے وہ آدمی واپس کرو تم نے انہیں ناحق مارا ہے اور کیوں‌مارا ہے؟جواب دو اور بندے واپس کرو تو وہ کیا کریں‌گے؟ مجھے کہنے لگا کہ تم کونے میں‌لگ کے پریشان بیٹھے ہو حالانکہ تمہیں‌خوش ہونا چاہئے اور تمہاری قوم کے لوگوں‌کو خوش ہونا چاہئے کہ چلو تم قتل کر دئے گئے لیکن قاتلوں‌میں سے نہیں‌ہو۔ اس نے کہا کہ میں تو خوشی سے ناچتا ہوں کہ الحمدللہ مسلمان امہ پر یہ بوجھ نہیں‌ہے۔ مسلمان بے وقوف اور مقتول ہیں، قاتل نہیں ہیں۔ یہ پتھے لے کر مدٍمقابل کو مارتے ہیں اور پتھروں سے ان کے (اسرائیل) ٹینکوں کو نشانہ بناتے ہیں اور ان کے نیچے کچلے جاتے ہیں۔ جان سے جاتے ہیں لیکن ان ظالموں میں سے نہیں‌ہیں جو انسانوں‌کا ناحق خون کرتے ہیں اور پوری کائنات اور معاشرے کو قتل کر دیتے ہیں۔ اس کی بات سن کر میں‌خوشی سے اٹھ کھڑا ہوا اور اس روز سے اب تک میں کافی خوش ہوں‌کہ الحمدللہ میری ذات کے اوپر اور میری قوم پر خون یا آدمی لوٹانے کا بوجھ نہیں‌ہے اور انشاء اللہ وہ وقت بھی قریب ہے کہ ہم ڈھیر سارا قرضہ لوٹا سکیں‌گے اور شکر ہے کہ ہمیں‌زندہ جیتے جاگتے انسان نہیں‌واپس کرنے ہیں۔ انسانوں‌کو لوٹانے کے قرض دار ایسے بھی ہیں‌جو لمبی اڑانیں‌بھر بھر کر سکاٹ لینڈ پر جو نہ پیسے والا ہے اور نہ ان کا کوئی قصور تھا ان پر بمباری کرتے رہے۔ ان سے تو ہمارا قرض‌اچھا ہے۔
میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو آسانیاں‌عطافرمائے اور آسانیاں‌تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین۔
 
باب نمبر : 15

ہاٹ لائن

ایک مرتبہ پروگرام "زاویہ" میں گفتگو کے دوران "دعا" کے بارے میں بات ہوئی تھی اور پھر بہت سے لوگ "دعا" کے حوالے سے بحث و تمیحث اور غور و خوض کرتے رہے اور اس بابت مجھہ سے بھی بار بار پوچھا گیا، میں اس کا کوئی ایسا ماہر تو نہیں ہوں لیکن میں نے ایک تجویز پیش کی تھی جسے بہت سے لوگوں نے پسند کیا اور وہ یہ تھی "دعا" کو بجائے کہنے یا بولنے کے ایک عرضی کی صورت میں جائے- عرض کرنے اور میرے اس طرح سوچنے کی وجہ یہ تھی کہ پوری نماز میں یا عبادت میں جب ہم دعا کے مقام پر پہنچتے ہیں تو ہم بہت تیزی میں ہوتے ہیں اوت بہت (اتاولی) کے ساتھہ دعا مانگتے ہیں- ایک پاؤں میں جوتا ہوتا ہے، دوسرا پہن چکے ہوتے ہیں، اُٹھتے اٹھتے،کھڑے کھڑے جلدی سے دعا مانتے چلے جاتے ہیں یعنی وہ رشتہ اور وہ تعلق جو انسان کا خدا کی ذات سے ہے، وہ اس طرح جلد بازی کی کیفیت میں ہورا نہیں ہو پاتا- ہمارے بابا نے ایک ترکیب یہ سوچی تھی کہ دعا مانگتے وقت انسان پورے خضوع کے ساتھہ اور پوری توجّہ کے ساتھہ Full Attention رکھتے ہوئے دعا کی طرف توجّہ دے اور جو اس کا نفسِ مضمون ہو، اُس کو ذہن میں اُتار کر، تکلّم میں ڈھال کر اور پھر اس کو Communicate کرنے کے انداز میں آگے چلا جائے تاکہ اُس ذات تک پہنچے جس کے سامنے دعا مانگی جا رہی ہے یا پیش کی جا رہی ہے- ہمارے ایک دوست تھے، اُنہوں نے مجھے بتایا کہ میں نے دعا کاغذ پر لکھنے کی بجائے ایک اور کام کیا ہے جو آپ کی سوچ سے آگے ہے-
میرے دوست افضل صاحب نے کہا کہ میں نے ایک رجسٹر بنا لیا ہے اور میں اس پر اپنی دعا بڑی توجّہ کے ساتھہ لکھتا ہوں اور اس پر باقاعدہ ڈیٹ بھی لکھتا ہوں اور اس کے بعد میں پیچھے پلٹ کر اس کیفیت کا جائزہ بھی لیتا ہوں جو دعا مانگنے کے بعد پیدا ہوتی ہے- چنانچہ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ میرے دوست کے رجسٹر بنانے کا بڑا فائدہ ہے اور ان کا تعلق اپنی ذات، اپنے اللہ اور اُس ہستی کے ساتھہ جس کے آگے وہ سر جھکا کر دعا مانگتے ہیں، بہت قریب ہو جاتا ہے- اکثر و بیشتر اور میں بھی اس میں شامل ہوں، جو یہ شکایت کرتے ہیں کہ" جی بڑی دعا مانگی لیکن کوئی اثر نہیں ہوا- پر کوئی توجّہ نہیں دی جاتی اور ہماری دعائیں قبول نہں ہوتیں-"
خواتین و حضرات! دعا کا سلسلہ ہی ایسا ہے جیسا نلکا " گیڑ" کے پانی نکالنے کا ہوتا ہے- جس طرح ہیند پمپ سے پانی نکالتے ہیں- آپ نے دیکھا ہو گا جو ہینڈ پمپ بار بار یا مسلسل چلتا رہے یا " گڑتا " رہے، اُس میں سے بڑی جلدی پانی نکل آتا ہے اور جو ہینڈ پمپ سُوکھا ہوا ہو اور استعمال نہ کیا جاتا رہا ہو، اُس پر " گڑنے" والی کیفیت کبھی نہ گزری ہو- اُس پر آپ کتنا بھی زور لگاتے چلے جائیں، اُس میں سے پانی نہیں نکلتا- اس لیے دعا کے سلسلے میں آپ کو ہر وقت اس کی حد کے اندر داخل رہنے کی ضرورت ہے کہ دعا مانگتے ہی چلے جائیں اور مانگیں توجّہ کے ساتھہ، چلتے ہوئے، کھرے ہوئے، بے خیالی میں کہ یا اللہ ایسے کر دے - عام طور پر جب لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں
" دعاؤں میں یاد رکھنا " اور وہ بھی کہتے ہیں ہم اپ کو دعاؤں میں یاد رکھیں گے اور بہت ممکن ہے کہ وہ دعاؤں میں یاد رکھتے بھی ہوں لیکن آپ کو خود کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھنے کی ضرورت ہے-
خدا کے واسطے دعا کے دائرے سے ہرگز ہرگز نہیں نکلئے گا اور یہ مت کہیے گا کہ جناب دعا مانگی تھی اور اُس کا کوئی جواب نہیں آیا، دیکھئے دعا خط وکتابت نہیں، دعا Correspondent نہیں ہے کہ آپ نے چٹھی لکھی اور اُس خط کا جواب آئے- یہ تو ایک یکطرفہ عمل ہے کہ آپ نے عرضی ڈال دی اور اللہ کے حضور گزار دی اور پھر مطمئن ہو کر بیٹھہ گئے کہ یہ عرضی جا چکی ہےاور اب اس کے اوپر عمل ہو گا-اُس کی (اللہ) مرضی کے مطابق کیونکہ وہ بہتر سمجھتا ہے کہ کس دعا یا عرضی کو پورا کیا جانا ہے اور کس دعا نے آگے چل کر اُس شخص کے لیے نقصان دہ بن جانا ہے اور کس دعا نے آگے پہنچ کر اُس کو وہ کچھہ عطا کرنا ہے جو اُس کے فائدے میں ہے- دعا مانگنے کے لیے صبر کی بڑی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں خط کے جواب آنے کے انتظار کا چکر نہیں ہونا چاہیے- میں نے شائد پہلے بھی عرض کیا تھا کہ کچھہ دعائیں تو مانگنے کے ساتھہ ہی پوری ہو جاتی ہیں، کچھہ دعاؤں میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے اور کچھہ دعائیں آپ کی مرضی کے مطابق پوری نہیں ہوتیں- مثال کے طور پر آپ اللہ سے ایک پھول مانگ رہے ہیں کہ " اے اللہ مجھے زندگی میں ایک ایسا پھول عطا فرما جو مجھے پہلے کبھی نہ ملا ہو-" لیکن اللہ کی خواہش ہو کہ اسے ایک پھول کی بجائے زیادا پھول، پورا گلدستہ یا پھولوں کا ایک ٹوکرا دے دیا جائے لیکن آپ ایک پھول پر ہی Insist کرتے رہیں اور ایک پھول کی ہی دعا بار بار کرتے جائیں اور اپنی عقل اور دانش کے مطابق اپنی تجویز کو شامل کرتے ہیںکہ مجھے ایک ہی پھول چاہیے تو پھر اللہ کہتا ہے کہ اگراس کی خواہش ایک پھول ہی تو اسے پھولوں سے بھرا ٹوکرا رہنے دیا جائے- آپ کی دانش اور عقل بالکل

pg 3 ( یہاں کچھہ چھپنے سے رہ گیا ہے)

میں انسان ہوں اور میری آررزوئیں اورخواہش بھی بہت زیادا ہیں، میری کمزوریاں بھی میرے ساتھہ ہیں اور تُو پروردگارِ مطلق ہے، می\ں بہت دست بستہ انداز میں عرض کرتا ہوں کہ مجھے کچھہ ایسی چیز عطا فرما جو مجھے بھی پسند آئے اور میرے ارد گرد رہنے والوں کو، میرے عزیز واقارب کو پسند ہو اور اس میں تیری رحمت بھی شامل ہو- اگر کہیں کہ اللہ جو چاہے عطا کرے وہ ٹھیک ہے-اللہ \آپ کو فقیری عطا کردے جبکہ |آپ کی |خواہش سی ایس ایس افسر بننے یا ضلع ناظم بننے کی ہو- دعا ایسی مانگنی چاہیے کہ اے اللہ مجھے ضلع ناظم بھی بنا دے اور پھر ایسا نیک بھی رکھہ کہ رہتی دنیا تک لوگ اس طرح یاد کریں کہ باوصف اس کے کہ اس کو ایک بڑی مشکل درپیش تھی اور انسانوں کے ساتھہ اس کے بہت کڑے روابط تھے لیکن پھر بھی وہ اس میں پورا اترا اور کامیاب ٹھہرا- دعا کے حوالے سے یہ باریک بات توجہ طلب اور نوٹ کرنے والی ہے- پھر بعض اوقات آپ دعا مانگتے مانگتے بہت لمبی عمر کو پہنچ جاتے ہیں اور دعا پوری نہیں ہوتی- اللہ بعض اوقات آپ کی دعا کو Defer بھی کر دیتا ہے- جیسے آپ ڈیفنس سیونگ بانڈز لیتے ہیں، وہ دس سال کے بعد میچور ہوتے ہیں- جس طرح کہتے ہیں کہ یہ بچّہ ہو گیا ہے- اب اس کے نام کا ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکٹ لے لیں، اسے آگے چل کر انعام مل جائے گا- اس طرح اللہ بھی کہتا ہے اور وہ بہتر جانتا ہے کہ اب اس شخص کے لیے یہ چیز عطا کرنا غیر مفید یا بے سود ثابت ہو گا، ہم اس کو آگے چل کر اس سے بھی بہت بڑا انعام دیں گے بشرطیکہ یہ صبر اختیار کرے اور ہماری مرضی سمجھنے کی کوشش کرے- دعا کو خدا کے واسطےایک معمولی چیز نہ سمجھا کریں- پہلی بات تو یہ ہے جو مشاہدے میں آئی ہے کہ دعا ایک اہم چیز ہے- جس کے بارے میں خداوند تعالٰی خود فرماتے ہیں کہ " جب تم نماز ادا کر چکو تو پھر پہلو کے بل لیٹ کر، یا بیٹھہ کر میرا ذکر کرو، یعنی میرے ساتھہ ایک رابطہ قائم کرو- جب تک یہ تعلق پیدا نہیں ہوگا، جب تک یہ Hot Line نہیں لگے گی- اُس وقت تک تم بہت ساری چیزیں نہیں سمجھہ سکو گے-" ہم نے بھی بابا جی کے کہنے پر جو بات دل میں ہوتی اُس کو بڑے خوشخط انداز میں لمبے کاغذ پر٠لکھہ کر، لپیٹ کر رکھتے تھے اور اس کے اوپر یوں حاوی ہوتے تھے کہ وہ تحریر اور وہ دعا ہمارے ذہن کے نہاں خانوں میں ہر وقت موجود رہتی تھی- ایک صاحب مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ جب وہ دعا پوری ہوجائے تو پھر کیا کریں؟ میں نے کہا کہ پھر اس کاغذ کو پھاڑ کر ( ظاہر ہے اس میں آپ نے بہت باتیں بھی لکھی ہوں گی کیونکہ آدمی کی آرزو خالص Materialistic یا مادّہ پرستی کی دعاؤں کی ہی نہیں ہوتی کچھہ اور دعائیں بھی انسان مانگتا ہے ) پُرزہ پُرزہ کر کے کسی پھل دار درخت کی جڑ میں دبا دیں، یہ احترام کے لیے کہا ہے - ویسے تو آپ خود بھی جانتے ہیں کہ ایسی تحریروں والے مقدّس کاغذوں کے ڈسپوزل کا کیا طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے- ہمارے دوست جو افصل صاحب ہیں ، انہوں نے دعاؤں کا باقاعدہ ایک رجسٹر بنایا ہوا ہے جو قابل غور بات ہے اور اس میں وہ دیکھتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو فلاں سن میں میں نے یہ دعا مانگی تھی ، کچھ دعائیں چھوٹی ہوتی ہیں، معمولی معمولی سی ۔ وہ ان کو بھی رجسٹر میں سے دیکھتے کہ یہ اس سن میں مانگی دعا اس وقت آکر پوری ہوئی اور فلاں دعا کب اور جب جا کر پوری ہوئی۔ دعا پوری توجہ کا تقاضا کرتی ہے۔ چلتے چلتے جلدی جلدی میں دعا مانگنے کا کوئی ایسا فائدہ نہیں ہوتا۔ کچھ دعائیں ایسی ہوتی ہیں جو بہت “ٹھاہ “ کرکے لگتی ہیں۔ بغداد میں ایک نانبائی تھا، وہ بہت اچھے نان کلچی لگاتا تھا اور بڑی دور دور سے دنیا اس کے گرم گرم نان خریدنے کے لیے آتی تھی۔ کچھ لوگ بعض اوقات اسے معاوضے کے طور پر کھوٹہ سکہ دے کے چلے جاتے جیسے ہمارے یہاں بھی ہوتے ہیں۔ وہ نانبائی کھوٹہ سکہ لینے کے بعد اسے جانچنے اور آنچنے کے بعد اپنے “گلے“ (پیسوں والی صندوقچی ) میں ڈال لیتا تھا۔ کبھی واپس نہیں کرتا تھا اور کسی کو آواز دے کر نہیں کہتا تھا کہ تم نے مجھے کھوٹہ سکہ دیا ہے۔ بے ایمان آدمی ہو وغیرہ بلکہ محبت سے وہ سکہ بھی رکھ لیتا۔ جب اس نانبائی کا آخری وقت آیا تو اس نے پکار کر اللہ سے کہا (دیکھئے یہ بھی دعا کا ایک انداز ہے ) “ اے اللہ تو اچھی طرح سے جانتا ہے کہ میں تیرے بندوں سے کھوٹے سکے لے کر انہیں اعلی درجے کے خوشبودار گرم گرم صحت مند نان دیتا رہا اور وہ لے کر جاتے رہے۔ آج میں تیرے پاس جھوٹی اور کھوٹی عبادت لے کر آرہا ہوں ، وہ اس طرح سے نہیں جیسا تو چاہتا ہے۔ میری تجھ سے یہ درخواست ہے کہ جس طرح سے میں نے تیری مخلوق کو معاف کیا تو بھی مجھے معاف کردے۔ میرے پاس اصل عبادت نہیں ہے۔ بزرگ بیان کرتے ہیں کہ کسی نے اس کو خواب میں دیکھا تو وہ اونچے مقام پر فائز تھا اور اللہ نے ان کے ساتھ وہ سلوک کیا جس کا وہ متمنی تھا۔ “ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دعا مانگی گئی ہے لیکن قبولیت نہیں ہوئی اور جواب ملنا چاہیے لیکن جو محسوس کرنے والے دل ہوتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ نہیں جواب ملتا ہے ۔ ایک چھوٹی سی بچی تھی۔ اس کی گڑیا کھیلتے ہوئے ٹوٹ گئی تو وہ بیچاری رونے لگی اور جیسے بچوں کی عادت ہوتی ہے تو اس نے کہا کہ اللہ میاں جی میری گڑیا جوڑ دو ، یہ ٹوٹ گئی ہے ۔ اس کا بھائی ہنسنے لگا کہ بھئی ٹوٹ گئی ہے اور اب یہ جڑ نہیں سکتی۔ اس نے کہا کہ مجھے اس گڑیا کے جڑنے سے کوئی تعلق نہیں ہے ، میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اللہ میاں جواب نہیں دیا کرتے ۔ اللہ میاں کو تو بڑے بڑے کام ہوتے ہیں۔ لڑکی نے کہا کہ ان سھمیں اللہ میاں کو ضرور پکاروں گی اور وہ میری بات کا ضرور جواب دے گا۔ اس نے کہا ، اچھا اور چلا گیا۔ جب تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو دیکھا کہ بہن ویسے ہی ٹوٹی گڑیا لیے بیٹھی ہوئی ہے اور بہن سے کہنے لگا ، بتاؤ کہ اللہ میاں کا کوئی جواب آیا۔ وہ کہنے لگی ، ہاں آیا ہے ۔ اس لڑکے نے کہا تو پھر کیا کہا ؟ اس کی بہن کہنے لگی ، اللہ میاں نے کہا ہے یہ نہیں جڑ سکتی ۔ یہ اس لڑکی کا ایک یقین اور ایقان تھا۔ بہت سی دعاؤں کے جواب میں ایسا بھی حکم آجاتا ہے۔ ایسی بھی Indication آجاتی ہے کہ یہ کام نہیں ہوگا۔ اس کو دل کی نہایت خوشی کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے۔ ہم برداشت نہیں کرتے ہیں لیکن کوئی بات نہیں۔ پھر بھی ہمیں معافی ہے کہ ہم تقاضہ بشری کے تحت ، انسان ہونے کے ناطے بہت ساری چیزوں کو اس طرح چھوڑ دیتے ہیں اور ہم پورے کے پورے اس پر حاوری نہیں ہوتے۔ کئی مرتبہ دعا مانگنے کے سلسلے میں کچھ لوگ بڑی ذہانت استعمال کرتے ہیں۔ آخر انسان ہیں نا! آدمی سوچتا بھی بڑے ٹیڑھے انداز میں ہے۔ ہمارے گاؤں میں ایک لڑکی تھی ، جوان تھی لیکن شادی نہیں ہورہی تھی۔ ہم اسے کہتے کہ توبھی دعا مانگ اور ہم بھی دعا مانگتے ہیں کہ اللہ تیرا رشتہ کہیں کرا دے۔ اس نے کہا ، میں اپنی ذات کے لیے کبھی دعا نہیں مانگوں گی۔ مجھے یہ اچھا نہیں لگتا۔ ہم نے کہا کہ بھئی تو تو پھر بڑی ولی ہے جو صرف دوسروں کے لیے ہی دعا مانگتی ہے۔ اس نے کہا ولی نہیں ہوں لیکن دعا صرف مخلوقِ خدا کے لیے مانگتی ہوں۔ وہ اللہ زیادہ پوری کرتا ہے۔ ہم اس کی اس بات پر بڑے حیران ہوئے تھے۔ وہ ہمیشہ یہی دعا مانگا کرتی تھی کہ “ اے اللہ میں اپنے لیے کچھ نہں مانگتی ، میں اپنی ماں کے لیے دعا مانگتی ہوں کہ اے خدا میری ماں کو ایک اچھا ، خوبصورت سا داماد دے دے ، تیری بڑی مہربانی ہوگی۔ اس سے میری ماں خوش ہوگی ، میں اپنے لیے کچھ نہیں چاہتی۔ وہ ذہین بھی ہو ، اس کی اچھی تنخواہ بھی ہو۔ اس کی جائیداد بھی ہو۔ اس طرح کا داماد میری ماں کو دے دے۔ “ انسان ایسی بھی دعائیں مانگتا ہے ۔ یہ میری ذاتی رائے ہے کہ اس قسم کی اور اس طرح سے دعا مانگنا بھی بڑی اچھی بات ہے۔ اس سے بھی اللہ سے ایک تعلق ظاہر ہوتاہے ۔ اللہ ہر زبان سمجھتا ہے۔ اپنی دعا کو نکھار نکھار کے نتھار نتھار کے چوکھٹا لگا کے اللہ کی خدمت میں پیش کیا جائے کہ جی یہ چاہیے، ان چیزوں کی آرزو ہے۔ یہ بیماری ہے ، یہ مشکل ہے ، حل کردین۔ آپ کی بری مہربانی ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو دعا مانگنے والے کے لیے مشکل پیدا کردیتی ہیں کہ وہ صبر کا دامن چھوڑ کر بہت زیادہ تجویز کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے اور سوچنے لگتا ہے کہ جتنی جلدی میں دکھاؤں گا ، جتنی تیزی میں کروں گا اتنی تیزی کے ساتھ میری دعا قبول ہوگی۔ وہ ہر جگہ ، ہر مقام پر ہر ایک سے یہی کہتا پھرتا ہے۔ اگر کبھی وہ یہ تجربہ کرے کہ میں نے عرضی ڈال دی ہے اور لکھ کر ڈال دی ہے اور اب مجھے ارام کے ساتھ بیٹھ جانا چاہیے کیونکہ وہ عرضی ایک بڑے اعلی دربار میں گئی ہے اور اس کا کچھ نہ کچھ فیصلہ ضرور ہوگا۔ کئی دفعہ دعا کے راستے میں یہ چیز حائل ہو جاتی ہے کہ اب جب آپ کوئی کوشش کر ہی رہے ہیں تو پھر انشاء اللہ تعالی آپ کی کوشش کے صدقے کام ہوجائےگا۔ ہم یہ بھی سوچتے ہیں لیکن یہ بھی میرا ایک ذاتی خیال ہے کہ دعا کی طرف پہلے توجہ دینی چاہیے اور کوشش بعد میں ہونی چاہیے ۔ دعا کی بڑی اہمیت ہے۔ دعا کے ساتھ گہری اور یقین کے ساتھ وابستگی ہونی چاہیے، اور جب گہری وابستگی ہو تو اس یقین کے ساتھ کوشش کرکے سوچنا چاہیے کہ اب عرضی چلی گئی ہے ، اب اس کا نتیجہ ضرور نکلے گا۔ دعا ہر زبان میں پوری ہوتی ہے جس زبان میں بھی کی جائے۔ ١٨٥٧ء میں انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان جنگ آزادی جا ری تھی اور مولوی حضرات اس جنگ کی رہنمائی کر رہے تھے اور توپیں بھر بھر کے چلا رہے تھے تو اس جنگ کے خاتمے پر ایک مولوی نے ایک انگریز سے کہ کہ حیرانی کی بات ہے کہ ہم جو بھی تدبیر یا تجویز کرتے ہیں وہ پوری نہیں ہوتی اور آپ جو بھی کام کرتے ہیں ہر جگہ پر آپ کو کامیابی ملتی رہی ہے ، اس کی کیا وجہ ہے۔ انگریز نے ہنس کے کہا “ ہم ہر کام کے لیے دعا مانگتے ہیں۔ “ مولوی صاحب نے کہا ، دعا تو ہم بھی مانگتے ہیں ۔ انگریز نے کہا ، ہم انگریزی میں دعا مانگتے ہیں ۔ اب مولوی بیچارہ خاموش ہو گیا۔ اس وقت بھی انگریزی کا ایک خاص رعب اور دبدبہ ہوتا تھا تو مولوی صاحب نے بھی کہا کہ شاید انگریزی میں مانگی ہوئی دعا کامیاب ہوتی ہوگی۔ دعا کے لیے کسی زبان کی قید نہیں ہے۔ بس دلی وابستگی اہم ہے۔ اب میں آپ سے اجازت چاہوں گا۔ میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین ۔ اللہ حافظ۔
 

فریب

محفلین
محاورے
ایسے مقام پر پہنچ کر اور ایک ایسی پر فضا جگہ پر آ جانے کے بعد مجھے اپنے لڑکپن کا زمانہ یاد آتا ہے جب ہم سکول میں پڑہتے تھے۔ اس وقت ہمارے ماسٹر صدیق صاحب ہمیں اکثر اپنے ساتھ کلاس سے اٹھا کر ایسے باغوں اور گلستانوں میں لے جاتے تھے جہاں قدرت کےنظارے کتابی و نصابی علوم سے بڑھ کر ہوتے تھے اور جو ہماری زندگی کے قریب تر ہوا کرتے تھے اور ماسٹر صدیق صاحب بات کو سمجھانے اور بتانے کا بہتر فن جانتے تھے اور اس قدرت پر ملکہ رکھتے تھے۔ وہ ایک ایک پتے سے لے کر ایک تنا آور درخت تک اور ایک اڑتی ہوئی چڑیا سے لے کر ایک بیٹھی ہوئی گدھ تک ہر ایک بات اور مفہوم پر سیر حاصل کرتے تھے۔ ہمیں ان کی کچھ باتیں سمجھ میں آتی تھیں اور کچھ نہیں آتی تھیں لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا ان کی باتیں آہستہ آہستہ ہمارے اوپر کھلتی گئیں پھر ایک وقت ایسا بھی آگیا جب ہم ساتویں جماعت پاس کر کے آٹھویں میں داخل ہو گئے تو انھوں نے خصوصی طور پر ہمیں اس بات کا حکم دیا کہ انگریزی کے محاوروں کو اچھی طرح سے زبانی یاد کرو اور ان کو اپنے ذہن میں بٹھاؤ کیونکہ آگے چل کر جب آپ کو انگریزی لکھنے کا موقع ملے گا تو یہ یاد کیے ہوئے محاورے آپ کی مدد کرتے رہیں گے چناچہ وہ بیشمار محاورے جن کو انھوں نے ترتیب دے رکھا ہوا تھا ان کا بوجھ ہمارے اوپر لاد دیا۔
A bird in hand is worth two in the Bush
(نو نقد نہ تیرہ ادھار)
Never put off till tomorrow, What you can do today
(آج کا کام کل پر نہ چھوڑو)
Might is Right
(جس کی لاٹھی اس کی بھینس)
اس طرح کے کئی اور محاورے انہوں نے ہمیں یاد کروائے اور ان محاوروں اور Idioms کے سہارے اور اس گراری پر چلتے ہوئے آگے آگے زندگی کے سفر میں چلتے ہی چلتے گئے لیکن جب ہم فرسٹ ایئر میں داخل ہوئے انہی انگریزی محاوروں میں سے جو ہماری زندگی کے اندر رچ بس چکے تھے اور جو ہمارے اندر اپنی کئی منزلیں طے کر چکے تھے، ہم نے یہ محسوس کرنا شروع کیا کہ کچھ محاورے ایسے ہیں کہ جن کا مفھوم تو سمجھ میں آتا ہے لیکن وہ ہماری زندگی پر کچھ اور ہی طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ شاید اس سے پہلے آپ نے اس کا جائزہ نہیں لیا ہو گا لیکن آج میں آپ کی خدمت میں اپنی مشکلات کا ذکر کرتا ہوں۔
جب میں نے پہلی مرتبہ انگریزی کے دو الفاظ "Take Care" جو عام طور پر بہت استعمال ہوتے ہیں۔ تو دل میں خیال آیا کہ ہم ان کا کیا کریں یعنی اگر میں گاڑی پر جا رہا ہوں اور میری خالہ جو لندن سے تشریف لائی تھیں انھوں نے کہا Ashfaq Take Care۔
اب میں حیران ہوں کہ میں اپنی ہی ذات کا Care Taker ہوں کیونکہ ہمرے ہاں تو “اللہ حافظ“ ( اللہ تم کو اپنی حفظ و امان میں رکھے) کہنے کا رواج ہے لیکن انگریزی بولنے والے کہتے ہیں کہ اللہ حافظ نہیں‘ ہم اللہ کے اوپر یہ ذمہ داری نہیں تھوپتے اور نہ ہی ہم اپنے اوپر ذمہ داری لیتے ہیں بلکہ یہ تمھاری اپنی ذمہ داری ہے کہ تم خود ہی اپنی Take Care کرو اور تم احتیاط کے ساتھ زندگی بسر کرو۔ بڑے زمانے کی بات ہے ہم ایک روز گاڑی پر جا رہے تھے اور آگے سڑک کھدی ہوئی تھی اور وہاں ایک بہت بڑا سائین بورڈ لگا ہوا تھا جس میں انتباہ کی گئی تھی کہ .Travel at your own risk
میں نے بورڈ پڑھ کے ڈرائیور سے کہا کہ بھائی ذرا آہستہ اور احتیاط کے ساتھ چلو۔ ساتھ میری خالہ بیٹھی ہوئی تھیں انہوں نے کہا احتیاط سے کیوں؟ کیا وجہ ہے؟ تو میں نے کہا کہ یہاں اتنا بڑا بوورڈ لگا ہوا ہے کہ “ آپ اپنی ذمہ داری پر سفر کریں، سڑک ٹوٹی ہوئی ہے اور زیرِ تعمیر ہے۔“ اس پر میری خالہ ہنسی اور کہنے لگی پچھلا سفر ہم کس کی ذمہ داری پر طے کر کے آئے ہیں اور اگلا کس کی ذمہ داری پر طے کریں گے۔ یہ بورڈ یہاں کیوں لگایا ہوا ہے۔ اس پر مجھے خیال آیا کہ Take Care کا بھی بڑا عجیب و غریب معاملہ ہے کہ مجھ ہی سے کہا جا رہا ہے کہ میں اپنا خیال رکھوں۔ میرا ہی پروفیسر مجھے گاڑی پر چھوڑتے وقت مجھے کہتا ہے کہ .Ashfaq you are going to abroad, Take care
اس حوالے سے میری خالہ کی بات تو ٹھیک تھی کہ ہم زندگی کا جو بھی سفر طے کرتے ہیں اپنی ذمہ ڈاری پر یا اللہ کے حوالے سے یا اس کی مہرباتی سے طے کرتے ہیں۔ یہ لکھنا یا کہنا کہ دیکھو یہاں سڑک ٹوٹی ہوئی ہے اور تم اپنی ذمہ داری سے سفر کرو آگے گورنمنٹ تمھاری ذمہ دار ہے یا معاشرہ اس ذمہداری کو پورا ادا کرے گا ایسا ہوتا نہیں ہے۔اس طرح جب ان معمول یا روزمرہ کے فقرات یا محاوروں پر نظر پڑنے لگی تو اس حوالے سے مشاہدہ بھی تیز ہونے لگا۔ جب ہم نے جیوگرافکمیگزین پڑھنا شروع کیا اور دنیا کے ان منطقوں کے مطالعہ میں بہت گہرے اترے جہاں جانور کثیر تعداد میں بستے ہیں جسے افریکہ کہا جاتا ہے تو ہمیں پتہ چلا کہ جانوروں کا باقاعدہ ایک قانون ہوتا ہے اور کوئی جانور اس قانون سے تجاوز نہیں کرتا۔ یہ صرف انسان ہی ہے جو اپنے قانون اور طے شدہ باتوں میں آہستہ آہستہ تنسیخ کرتا رہتا ہے اور اس میں تبدیلیاں پیدا کرتا رہتا ہے۔ شیر جب بھوکا ہوتا ہے تب شیکار کرتا ہے اور جب وہ شکار کو مار چکتا ہے تو تین روز تک مزید کسی جانور کا شکار نہیں کرتا۔ شکار ہونے والے جانور بھی اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں آپنے آپ کو قربانی کے لیے تیار کرنا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ شیر اعلیٰ درجے کے ہوائی جہاز میں بم بھر کر اونچے آسمانوں میں اڑنا شروع کرے اور اوپر سے بم پھینک کر بغیر سوچے سمجھے انسانوں، جانوروں یا دوسرے بشروں کو قتل کرنا شروع کرے۔ یہ انسان کا ہی ایک خوفناک قانون ہے جو ایک ظالم کا قانون ہے۔ آپ ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کی انسان نے بیچارے‘ معصوم‘ شریف جانوروں کے حوالے سے “ جنگل کا قانون“ کا لفظ بنا کر خود کو بری الزمہ کر لیا ہے۔ آپ زندگی میں چھوٹے چھوٹے معاملات سے لے کر بڑے بڑے مسائلِ معاشرت تک نظر دوڑا کر دیکھیں تو آپ کو سب اندازہ ہو جائے گا۔ بڑے ملک غریب‘ کمزور اورچھوٹے ملکوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اورآپ دم نہیں مار سکتے اور یہ انسانی قانون ہی ہے جو اس قدر تکلیف دہ اور انسان کو آزار پہنچانے والا ہے۔ خواتین و حضرات ایک اور بھی محاورا ہے جس نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا۔ جب ہم بی اے میں پہنچے تو ایک نیا محاورا سامنے آیا جس کا سامنا کرنے کے لیے ہم کسی بھی صورت میں تیار نہیں تھے۔ وہ تھا “. It is too Good ti be True" یعنی یہ بات اتنی سچی، اچھی اور پاکیزہ ہے کہ یہ سچی ہو ہی نہیں سکتی۔ اب آپ یہ بتائیں ہم کیا کریں یعنی اس محاورے کو ساتھ لے کر کہاں تک اور کدھر تک جائیں اور یہ ہماری زندگیوں پر ایسے اثرانداز ہوا کہ ہم نے لاشعوری طور پر یہ سوچنا شروع کر دیا کہ جو بات اچھی ہوتی ہے وہ بات پاکیزہ، صباح اور نیکی پر مبنی ہوتی ہے وہ سچی نہیں ہوتی اس لیے سچی بات پر دارومدار کرنے کے لیے‘ اس کے پس منظر کی بات کو گھٹیا‘ ظالم‘ بے انصاف اور سنگدل ہونا چاہیے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ میری خالہ زاد بہن جن کے خاوند ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ ان کی زندگی زیادہ ہنگامہ خیز کبھی نہیں رہی۔ کام پر جاتے ہیں اور واپس سیدھے گھر آ جاتے ہیں لیکن ہیں بڑے اچھے۔ وہ ایک دن اچانک دفترسے اٹھ کر گھر آ گئے اور آ کر میری بہن سے کہنے لگے کہ لو بئی عذرا میں نے تو آج مچھلی پکڑ کے لانے کا پروگرام بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے زندگی میں پہلے کبھی مچھلی پکڑی تو ہے نہیں‘ وہ ان سے پھر گویا ہوئیں کہ آپ نے مچھلی پکڑنے والی کنڈی دیکھی ہے؟ کہنے لگے نہیں دیکھی۔ کبھی وہ پانی دیکھا ہے جس میں مچھلیاں ہوتی ہیں انہوں نے کہا اتنی مقدار میں تو نہیں دیکھجا۔ کھڑے یا گلاس کا پانی ہی دیکھا ہے۔ وہ کہنے لگیں آپ کا پھر بھی مچھلی پکڑنے کا ارادہ ہے تو وہ کہنے لگے‘ بس میرا جی چاہا‘ دفتر میں ایک فائل بڑی پیچیدہ قسم کی تھی۔ میں نے سوچا اس کو کل نمٹا لیں گے اور مجھے انگریزوں نے کہا( دفتر میں کام کرنے والے ساتھی انگریز) تم آج مچھلی پکڑنے جاؤ اور اب میں نے مچھلی پکڑنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ اگر تمھاری بھی خواہش ہے تو میرے ساتھ چلو‘ بلو کی کے مقام پر دریا بڑی ٹھاٹھیں مارتا ہوا گزرتا ہے اور سنا ہے وہاں مچھلی بہت ہوتی ہے۔ میں ڈوری‘ کانٹا اور مچھلی پکڑنے کے دیگر لوازمات ساتھ لایا ہوں۔ اس نے(عذرا) نے کہا میں تو ساتھ جا نہیں سکتی کیونکہ آپ نے اچانک پروگرام بنا لیا ہے تو وہ کہنے لگے کوئی بات نہیں میں اکیلا چلا جاؤں گا۔ تب میری خالہ زاد بہن پریشان ہوئیں اور کہا ہائے ہائے آپ نے زندگی میں پہلی بار از خود پکنک کا ایسا پروگرام بنایا ہے اور میں پھر گھر میں کیوں بیٹھی رہوں۔ یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا لیکن وہ بڑی بے چین کبھی گھر کے اندر جائے اور کبھی گھر کے باہر آئے۔
اس پر ان کے میاں کہنے لگے کہ تم اس قدر پریشان کیوں ہو؟
وہ کہنے لگی کہ میں نے آج تین مرتبان اچار ڈالنے کا فیصلہ کیا تھا اور آپا صغریٰ سے درخواست کی تھی کہ وہ آ کر مجھے اچار ڈال دیں۔ خواتین و حضرات ہمارے اکثر گھروں میں کئی آپا صغریٰ آئیں ہوتی ہیں جو گو poor relations ہوتی ہیں اور ہم ان کے ساتھ کچھ زیادہ محبت نہیں رکھتے لیکن مشکل اوقات میں وہ ہمارا بڑا ساتھ دیتی ہیں مثلاً شادیاں ہوں‘ مہندی کی رات ہو تو آپا صغریٰ آجاتی ہیں۔ وہ ساری بنی ٹھنی بچیوں کے پرس سنبھال کے گود میں بیٹھی رہتی ہیں اور پھر جانے کے وقت ان کو دے دیتی ہیں‘ اچار ڈالنا ہو‘ چٹنیاں بنانی ہوں‘ رضائی سینی ہو تو وہ بڑے کام آتی ہیں۔ عذرا کہنے لگی کہ میں نے اتنے سارے آم لے کے رکھے ہوئے ہیں اور آپا صغریٰ نے بھی آنا ہے۔ سارے مصالحے بھی تیار ہیں لہذا میں نہیں جا سکتی۔ پھر جب وہ چلنے لگے تو کہنے لگی نہیں نہیں میں آپ کے ساتھ چلتی ہوں اور تیار ہو گیئں اور اس نے آپا صغریٰ کے نام ایک پرچی لکھ کر لیٹر بکس میں ڈال دی( عذرا اور آپا صغریٰ کے درمیان یہ بات طے تھی کہ اگر کبھی وہ گھر پر نہ ہوں تو گھر کی چابی اور ہدایات لیٹر بکس میں پڑی ہوں گی) چناچہ وہ دونوں میاں بیوی چلے گئے۔ جب وہاں پہنچ گئے تو ان سے مچھلی وچھلی تو کیا بکڑی جانی تھی لیکن انہوں نے بہت زیادہ Enjoy کیا‘ دن بھر وہ دونوں وہاں رہے۔ جب وہ لوٹ کر شام کو گھر آئے تو میری ہمشیرہ (عذرا) کہتی ہیں تو میرا اوپر کا دم اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا اور میری چیخ نکل گئی کیونکہ جس گھر میں ہم داخل ہو رہے تھے وہ کچھ اور ہی عجیب و غریب نقشہ پیش کر رہا تھا اور جب میں اندر گئی تو حیران ہوئی کہ تین مرتبانوں میں اچار ڈال کے رکھا ہوا تھا اور ان کے اوپر ڈھکنا پڑا ہوا تھا لیکن میری چیخ اس وجہ سے نکلی کہ میرے گھر کی جو سیڑھیاں تھیں وہ عرصہ دس سال سے خراب تھیں وہ تمام کی تمام چمکدار اور بہت اعلیٰ درجے کی پالش کی ہوئی لگتی تھیں۔ میز کے اوپر ایک کاغذ پڑا تھا اور اس پر لکھا تھا کہ محترمہ آپا جی السلام علیکم میرا نام کرم داد ہے۔ میں یہاں سے گزرا آپ کے گھر کی گھنٹی بجائی تو آپ نے دروازہ نہیں کھولا۔ پھر میں ہمت کر کے پھاٹک کھول کے اندر داخل ہو گیا۔ اندر داخل ہوا تو آپ کا دروازہ بند تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ کوئی بھی گھر پر نہیں ہے‘ اِدھر اُدھر دیکھا تو مجھے لیٹر بکس نظر آیا۔ اس میں مجھے گھر کی چابی نظر آئی اور اس کے ساتھ ہی ایک خط پڑا تھا جو آپ نے آپا صغریٰ کے نام لکھا تھا۔ وہ میں نے پڑھا اور سوچا کہ آپا صغریٰ تو آئی نہیں میں ہی یہ کام کر دوں۔ میں نے آپ کا اچار ڈال دیا ہے۔ میری ماں اچار میں کلونجی زیادہ ڈالا کرتی تھی میں نے بھی اسی لحاظ سے ڈالی ہے اور نمک مرچیں میں نے کم رکھی ہیں۔ اگر آپ اسے بڑھانا چاھیں تو بڑھا دیں۔ باقی آپا آپ کا اتنا خوبصورت گھر ہے اور اس کی ریلنگ کا ستیاناس ہوا پڑا تھا اس پر کسی نے توجہ ہی نہیں دی‘ میں نے کوشش کر کے یہں پڑے برش پالش سے سب ٹھیک کر دیا ہے۔ اس رقعہ میں مزید لکھا تھا کہ ساتھ والوں کا ملازم ککر مانگنے آیا تھا تو میں نے آپا انکار کر دیا کیونکہ معاف کرنا آپا یہ لوگ چیزیً مانگ کر لے جاتے ہیں تو واپس نہیں کرتے یا خراب کر دیتے ہیں لہزا میں نے اس سے کہا کہ ہمارے ککر کا ربڑ خراب ہے تو وہ چلا گیا۔ باقی کمروں میں گھوما اور میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا اور آپ مجھے بہر نیک خاتوں معلوم ہوتی ہیں آپ کی ہیرے کی دو انگوٹھیاں تکیے کے نیچے پڑی ہوئی تھیں وہ کافی خراب ہو چکی تھیں اس لیے میں نے انہیں کھٹا لگا کر صاف کر دیا ہے اور میں نے انھیں دھو کر ٹشو پیپر میں لپیٹ کے مجبوراً ویسے ہی تکیے کے نیچے ہی رکھ دیا ہے۔ خدا کے واسطے خیال کریں تیس تیس پینتیس پینتیس ہزار کی ایک ایک انگوٹھی کو آپ نے کتنی لا پرواہی سے رکھا ہوا ہے۔ اس نے مزید لکھا کہ میں نے غسل خانے میں دیکھا کہ صاحب کی شیونگ کٹ میں تمام کے تمام بلیڈ پرانے ہیں اور وہ صاحب ان سے گھسا گھسا کے شیو کر لیتے ہوں گے۔ یہ تو بہت بری بات ہے۔ آپ مہربانی فرما کر آج ہی انہیں نئے بلیڈوں کا ایک پیکٹ لے کر دیں اور جو چیزیں آپ نے پکنک پر لے جانے کے لیے تیار کی تھیں وہ چیزیں میں نے اٹھا لی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ میرا حق ہے۔ میں حیدر آباد نوکری کی غرض سے جا رہا ہوں۔ وہاں مربے اور چٹنیاں بنانے والی فکٹری میں میرا ایک “ گرائیں“ ( علاقے کا آدمی ) ہے اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مجھے وہاں نوکری دلوا دے گا کیونکہ میں سال ڈیڑھ سال سے بے روزگار ہوں۔ آپ میرے حق میں دعا کرنا اور میں آپ کا آپا صغریٰ کے لیے کھانے کا رکھا ہوا سامان ساتھ لے جا رہا ہوں تاکہ رستے میں کھا سکوں۔ میں آپ کو اس کھانے کے لیے دعا دوں گا۔ اس رقعے کے نیچے اس نے درج کیا تھا۔
“ کرم داد“
ریٹائرڈ بیٹ مین برگیڈیئر فلاں فلاں۔
جب میری بہن نے مجھے یہ خط دیکھایا تو میں یہ خط لے کر میں اخبار کے ایک بڑے دفتر میں گیا۔ میں نے ان سے کہا کہ تم خوفزدہ کرنے والی خبریں تو چھاپتے ہو۔ ایک یہ خبر بھی چھاپو کہ ایسا ایک واقع ہوا ہے۔ تو وہ صاحب کہنے لگے ۔Sir, It is too good to be true ایسے تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک انجان آدمی بھرے پڑے گھر میں داخل ہوا اور صفائی وغیرہ اور کام کر کے چلا جائے اور باقی سب کچھ چھوڑ جائے اور ہمیں تو خبریں ہی ایسی چھاپنی پڑتی ہیں جو خوفزدہ کرنے والی ہوں‘ جب تک ایسی خبریں نہیں چھاپی جائیں گی تو لوگ اخبار ہی نہیں خریدیں گے۔ اس نے مجھے کہا کہ دیکھیں جب کوئی بنک لوٹنے آتا ہے تو وہ خوفزدہ کر کے اور پستول دیکھا کے پیسے چھینتے ہیں اور ہمارے پاس بھی اسی طرح کے خوفناک خبروں کے پستول ہوتے ہیں اور ہم ان سے اپنی سیل میں اضافہ کرتے ہیں اور یہ کہ کر اس خبر چھاپنے کا ارادہ انہوں نے ترک کر دیا۔
اس کے بعد ایسا ہی ایک واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آیا۔ میں نے یہ بات شاید آپ کو پہلے بھی سنائی ہو گی کہ ایک بڑی خوبصورت دھان پان کی پتلی سی لڑکی ایک ٹوٹے سے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر انار کلی بازار میں آئی۔ وہاں میں آپنے دوست ریاض صاحب کے کپڑے کی دوکان میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس لڑکی نے کہا کہ کیا آپ کے پاس کوئی اعلیٰ درجے کا عروسی جوڑا ہو گا تو میرے دوست نے کہا جی بالکل ہے۔ یہ دس ہزار کا‘ یہ پندرہ ہزار کا ہے، یہ بیس ہزار کا ہے‘ پسبد کر لیجیے۔ بہت اچھے ہیں۔ یہ پچیس ہزار کا بھی ہے۔
وہ کہنے لگی بس بس یہاں تک کا ہی ٹھیک ہے۔ کیا مجھے اسے پہن کر دیکھنے کی اجازت ہے۔ میرے دوست کہنے لگے ہاں ہاں ضرور۔ یہ ساتھ ہمارا ٹرائی روم ہے آپ ٹرائی کریں۔ وہ لڑکی اندر گئی۔ اس کے ساتھ ایک سہما اور ڈرا ہوا نوجوان بھی تھا۔( جیسے آج کل کے سارے خوفزدہ سے نوجوان ہیں کہ زندگی کیسے کاٹیں گے اور مستقبل کا فکر انہیں لاحق ہوتا ہے) وہ عروسی جوڑا پہن کر باہر نکلی اور دکاندار نے اسے دیکھ کر کہا“سبحان اللہ بی بی یہ تو آپ پر بہت ہی سجتا ہے ایسی دلہن تو ہمارے پورے لاہور میں کبھی ہوئی نہ ہو گی“ ( جس طرح دکاندار کہتے ہیں)۔ کہنے لگی جی بڑی مہربانی ٹھیک ہے اسے دوبارہ پیک کر لیں۔ وہ مزید کہنے لگی کہ میں تو صرف ٹرائی کرنے کے لیے آئی تھی میں اپنے اس خاوند کو جو میرے ساتھ آیا ہے یہ بتانے کے لیے لائی تھی کی اگر ہم امیر ہوتے اور ہمارے پاس عروسی جوڑا ہوتا اور اگر میں اسے پہن سکتی تو ایسی دیکھائی دیتی۔ آج ہماری شادی کو سات دن گزر چکے ہیں۔ ہم اللہ کے فضل سے بہت خوش ہیں لیکن میں اپنے خاوند کو جو بڑا ہی Depressed رہتا ہے اسے خوش کرنے آئی تھی۔ میرے داست نے کہا کیا آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس نے کہا نہیں ہمارے پا پیسے تو تھے لیکن میری ایک چھوٹی بہن جو ایم بی بی ایس کر رہی ہے اس کو پیسوں کی ضرورت تھی اور میرے والدین نے کہا کہ اگر میں یہ قربانی دوں تو اس کی ضرورت پوری ہو جائے۔ تب میں نے کہا کہ بسم اللہ یہ زیادہ ضروری ہے۔ چناچہ میں نے سادہ کپڑوں میں شادی کر لی۔ جب میں یہ بات اپنے دوستوں کے پاس لے کر گیا تو انہوں نے کہا کہ ۔It is too good to be true۔ خواتین و حضرات اب وقت کم ہے لیکن میں ایک آخری اور خوفناک و خطرناک محاورہ ابھی آپ کی خدمت میں پیش کر ہی دوں وہ ہے : Live and Let to Live۔
پاکستان کا ہر شخص آج کل اس وقت بڑی شدت کے ساتھ اس محاورے پر عمل کر رہا ہے۔ میں اپنے بہت امیر دوستوں سے ملتا ہوں تو وہ کہتے ہیں اشفاق صاحب ہم توLive and Let to Live پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم جس طرح سے زندگی بسر کر رہے ہیں اس پر خوش ہیں اور ہم لوگوں کی زندگیوں میں دخل نہیں دیتے۔ ہمارے ارد گرد جھگی والے رہتے ہیں‘ دوسرے لوگ رہتے ہیں ہم نے کبھی جا کر ان سے نہیں پوچھا کہ تم کیسے ہو۔ ہمارا اصول Live and Let to Live ہے۔ ہمارے اب یہ اصول ہی چل رہا ہے کہ کوئی زندہ رہے‘ مرے کھپے‘ جیئے ہم اس میں دخل نہیں دیں گے۔ پچھلے سے پچھلے سال مجھے امریکہ جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ریاست کیلے فورنیا میں ایک صاحب نے ہماری دعوت کی۔ میرے ساتھ بانو قدسیہ بھی تھیں۔ وہ دعوت بڑی ہی پر تکلف تھی۔ وہ ہمارے دوست ایئر فورس کے بھاگے ہوئے افسر تھے۔ وہ ماشاءاللہ پاکستان سے بڑی دولت لوٹ کر ساتھ لے گیے تھے۔ وہ آج کل امریکہ میں انگور سکھا کر دنیا بھر میں سپلائی کےنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا آپ تو یہاں ہمارا سارا پیسہ لے کر آ گئے ہیں۔ وہ کہنے لگے اشفاق صاحب ہم تو Live and Let to Live پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم یہاں Live کر رہے ہیں اور آپ کو ہم نے Let Live کے لیے چوڑ دیا ہے کہ جیسے مرضی زندگی بسر کرو۔ میں نے کہا کہ میں ایک دن صبح جاگا تو جیسے سود خور پٹھان ڈنڈا پکڑ کر دروازے پر آیا کرتا ہے اس طرح آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا ایک بندہ ہم سے وصولی کے لیے آ جاتا ہے اور پٹھان کی طرح کہتا ہے کہ “ دیکھو ہمارا پیسہ نکالو۔“
اور میں اس سے کہتا ہوں کہ میں نے تو تم سے ساری زندگی کوئی پیسہ نہیں لیا تو وہ کہتا ہے کہ تم نے لیا ہے اور تمہیں ٣٢ بلین ڈالر دینا پڑیں گے۔
میں نے کہا کب لیا؟ کس نے لیا؟ تو اس نے کہا تمھارے بڑوں نے قرضہ لیا۔
اس پر میرے دوست نے کہا کہ ہم نے پیسہ لیا اور اسے اچھی طرح کے ساتھ استعمال کیا اور اگر اب بھی ہمیں موقع ملا تو ہم انشاءاللہ اسی طرح سے استعمال کریں گے۔ خواتین و حضرات دنیا کا یہ معروف ترین محاورہ پاکستان میں بڑے اطمینان‘ اعتماد اور یقین کے ساتھ بولا جاتا ہے لیکن کسی نے کسی موٹر کا شیشہ نیچا کر کے یہ نہیں دیکھا کہ پیچھے آنے والا زندہ ہے کہ مر گیا ہے۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 
Top