ریڈ لائن

انتہا

محفلین
ریڈ لائن
ڈاکٹر محمد عبدالرحمن العریفی


وہ یونیورسٹی میں میرا طالب علم تھا۔ اس کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ لوگوں سے میل جول بڑھانا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ لیکن اس کا مزاج لوگوں کے لیے نارواتھا۔ ایک دن وہ میرے پاس آیا اور بولا: ''یادکتور! میرے ہم جماعت ہمیشہ مجھ سے ناراض رہتے ہیں۔ وہ میرا مذاق برداشت نہیں کرتے۔''میں نے اس سے سوال کیا: ''وہ تمہارا مذاق کیوں نہیں سہتے ؟ کوئی مثال دے کر واضح کرو''۔کہنے لگا : ایک کو چھینک آئی تو میں نے کہہ دیا :''اللہ تم پر لعنت کرے۔'' اتنا کہہ کر میں خاموش ہوگیا۔ اسے غصہ آیا تو میں نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا:''ابلیس کے بچے ! اللہ تم پر رحم کرے۔''
آہٹ.کتنا سنگین اور ناقابل برداشت مذاق ہے یہ !!
وہ بے چارہ اس وجہ سے اپنے آپ کو خوش طبع خیال کیے ہوئے تھا۔ لوگ آپ کی اٹھکیلیاں اور آپ کا مذاق جتنا بھی برداشت کرلیں لیکن بہرحال ایک ریڈلائن ہوتی ہے جسے پار کرنا لوگ مذاقاً بھی پسند نہیں کرتے۔ خاص طورپر جب ایسا کسی محفل میں ہو۔ بعض افراد اس بات کا خیال نہیں رکھتے ، چنانچہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ان کا بے جا اور حد سے بڑھا ہوا مذاق بعض اوقات انہیں ظلم اور زیادتی کا شکار کرجاتا ہے۔
مثال کے طور پر آپ کا کوئی دوست بے پروائی سے آپ کا موبائل فون اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اور یونہی کوئی نمبر ملاکر بات شروع کردیتا ہے، یا آپ کے موبائل فون کے ذریعے سے ایسے افراد کو پیغامات ارسال کرتا ہے جو آپ کو ناپسند ہیں اور آپ نہیں چاہتے کہ وہ آپ کے فون نمبر سے مطلع ہوں یا آپ کی اجازت کے بغیر آپ کی گاڑی لے اڑتا ہے یا جب تک آپ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے اجازت نہ دے دیں وہ اصرار کرکے گاڑی مانگتا رہتا ہے۔ یا مثلاً یونیورسٹی کے چند طالب علم ایک فلیٹ میں رہائش پذیر ہیں۔ ایک طالب علم یونیورسٹی جانے کے لیے علی الصبح بیدار ہوتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ ا س کا کوٹ فلاں پہن گیا ہے اور اس کا جوتا فلاں کے پیروں میں ہے۔آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ بعض لوگ کسی ایسی محفل میں جہاں عوام کی کثیر تعداد موجود ہو ، کوئی گھناؤنا مذاق یا کوئی بے تکا سوال کرکے اپنے دوست یا ساتھی کو پریشان کردیتے ہیں۔ ایسی حرکت بھی ریڈ لائن سے تجاوز کرنے کے مترادف ہے۔کوئی شخص آپ سے کتنا ہی محبت کرتا ہو اور آپ سے اس کا رشتہ کتنا ہی گہرا اور اٹوٹ ہو وہ بہرحال ایک انسان ہے۔ وہ اگر کسی بات سے راضی ہوتا ہے تو اسے غصہ بھی آسکتا ہے۔ وہ اگر خوش ہوتا ہے تو کسی معاملہ میں تلخ روئی بھی اختیار کرسکتا ہے۔
رسول اللہ ؐ تبوک سے مدینہ واپس آئے۔ اسی مہینے عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ آپ کی طرف روانہ ہوئے۔ وہ اپنی قوم ثقیف کے ایک عالی مقام اور جلیل القدر سردار تھے۔ مدینہ پہنچنے سے قبل ہی وہ رسول اللہ ؐ سے جاملے اور مسلمان ہوگئے۔ انہوں نے آپ سے اجازت چاہی کہ وہ لوٹ جائیں اور اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دیں۔ رسول اللہ ؐ نے خدشہ ظاہر کیا کہ عروہ رضی اللہ عنہ کی قوم انہیں گزند پہنچائے گی۔ آپ نے ان سے کہا: ''وہ آپ کو مارڈالیں گے ''۔ رسول اللہ ؐ جانتے تھے کہ ثقیف ایک تندخو اور سخت مزاج قوم ہے۔ غرور وتکبراس کاشیوہ ہے۔ اپنی نخوت کے آگے وہ اپنے بلند مرتبہ سردار کی بڑائی کو بھی خاطر میں نہیں لائے گی۔عروہ رضی اللہ عنہ نے اطمینان دلایا: ''اے اللہ کے رسول ! میں انہیں ان کی کنواری عورتوں اور ان کے تمام شرفاء سے زیادہ پیارا ہوں۔'' عروہ رضی اللہ عنہ واقعی اپنی قوم کے محبوب ومقتدا تھے۔ چنانچہ وہ انہیں اسلام کی طرف بلانے کا عزم لیے مدینہ سے روانہ ہوئے۔ عروہؓ کو امید تھی کہ قوم اپنے درمیان ان کی عظمت اور بڑائی کی وجہ سے ان کی مخالفت نہیں کرے گی۔ وہ اپنی قوم کی آبادی میں پہنچے اور ایک اونچی جگہ پر کھڑے ہوکر انہیں پکارا۔ وہ سب جمع ہوگئے۔ عروہ بن مسعود ؓ نے جو ان کے سردار تھے،انہیں اسلام کی دعوت دی اور بتایا کہ وہ مسلمان ہوچکے ہیں۔ عروہؓ باربار کہتے رہے : '' میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں۔''یہ سن کر ان کی قوم نے غْل مچانا شروع کردیا۔ وہ اس بات پر مشتعل ہوگئے کہ ان سے ان کے خداؤ ں کو چھوڑ دینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ انہو ں نے ہرطرف سے عروہ ؓ پر تیروں کی بارش کردی۔ عروہ ؓ شدید زخمی ہوکر گر پڑے۔ ان کے عم زادے بھاگے بھاگے ان کے پاس آئے۔ عروہ ؓ دم توڑ رہے تھے۔ چچا زاد بھائیوں نے کہا: ''عروہ ! اپنے خون کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ کیا ہم آپ کے خون کا بدلہ لیں ؟'' عروہ ؓ نے جواب دیا: ''یہ تو شرف ہے جو اللہ نے مجھے بخشا ہے۔ یہ شہادت ہے جس سے اللہ نے مجھے ہمکنا ر کیا ہے۔ میرے متعلق وہی بات ہے جو رسول اللہ ؐ کی ہمراہی میں قتل کیے جانے والے شہداء کے متعلق تھی۔ آپ میری خاطر کسی کو قتل مت کرنا اور نہ کسی سے میرا بدلہ لینا ''
کہا جاتا ہے جب نبی ؐ کو عروہ ؓکے شہید ہونے کی خبر دی گئی توآپ نے فرمایا: ''اپنی قوم کے اندر عروہ (سورہ ) یٰس والے آدمی کے مانند تھے ''۔
لوگوں کے اپنے احساسات اور جذبات ہوتے ہیں۔ آپ ان کے کتنا ہی قریب ہوں ان کے ساتھ برتاؤ میں یا خوش طبعی کرتے ہوئے اپنی حد میں رہنے کی کوشش کریں اور زیادہ جرأ ت وبے باکی کا مظاہرہ نہ کریں۔ ریڈ لائن سے دور ہی رہیں تو بہتر ہے۔ افراد کی عزت نفس مجروح نہ کریں ،چاہے ان کے دلوں میں آپ کی کیسی ہی قدر ومنزلت ہو اور خواہ خاندانی حیثیت اور رشتے کے اعتبار سے وہ آپ سے کم تر اور چھوٹے ہی ہوں۔ نبی ؐ نے اس کی سخت تاکید کی اور مومن کو گھبراہٹ میں ڈالنے سے منع کیا ہے۔
ایک دن آپ ؐ صحابہ کرام کے ہمراہ محو سفر تھے۔ ہرآدمی کے پاس اس کا ذاتی سامان،اسلحہ ،بستر اور کھانا وغیرہ موجود تھا . قافلے نے کسی منزل پر پڑاو کیا۔ ایک آدمی سویا تو اس کا ساتھی ہنسی مذاق میں اس کی رسے کی طرف بڑھا اور اسے اٹھالیا۔ وہ آدمی جاگا تو اسے اپنا سامان گم لگا۔ وہ پریشانی کے عالم میں اپنا رسّا ڈھونڈنے چلاگیا۔ اس پر نبی ؐ نے فرمایا: ''ایک مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان کو مضطرب کردے ''۔ (سنن ابی داو د 5004، جامع الترمذی 2159)
ایک اور واقعے میں صحابہ کرام نبی اکرم ؐ کی معیت میں سفر کررہے تھے۔ ایک آدمی کو سواری پر بیٹھے بیٹھے اونگھ آگئی۔ ساتھی نے موقع پاکر اس کے ترکش سے ایک تیر اڑالیا۔ اس آدمی کو کھٹک گیا کہ کوئی اس کے ہتھیاروں سے چھیڑچھاڑ کر رہا ہے۔ وہ ڈر کے مارے جاگ اٹھا۔ اس پر اللہ کے پیغمبر ؐ نے فرمایا: ''کسی آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ ایک مسلمان کو پریشان کر ے ''۔ مجمع الزوائد 6/254
یہی حال اس شخص کا بھی ہے جو آپ سے یہ سمجھ کر مذاق کرتا ہے کہ یوں وہ آپ کو خوشی دے گا ،حالانکہ وہ آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اور آپ کے دل کو اضطراب اور کرب سے بھر دیتا ہے۔ آپ اپنی گاڑی کسی دکان پر کھڑی کرکے دکان میں داخل ہوتے ہیں ، آپ کے دوست کو مذاق سوجھتا ہے- وہ کھیل کھیل میں آپ کی گاڑی چلاکر دور لے جاتا ہے۔ آپ پریشان ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ گاڑی چوری ہوگئی جبکہ دراصل آپ انجانے میں اپنے دوست کے مذاق کا نشانہ بن چکے ہوتے ہیں۔ آپ کو حقیقت کا پتا چلتا ہے تو ہنس کر ٹال دیتے ہیں جبکہ اندر سے سینہ فگار ہوتا ہے اور آپ پیچ وتاب کھا رہے ہوتے ہیں۔ کسی شاعر نے کہا ہے
''اکثر ایسا ہوتا ہے کہ متحمل مزاج آدمی تکلیف پر صبر کرلیتا ہے جبکہ اس کا دل تکلیف کی سوزش سے آہ آہ کر رہا ہوتا ہے۔''
''اور عام طور پر بردبار انسان بات سے پرہیز کرتے ہوئے اپنی زبان مقید کرلیتا ہے جبکہ وہ بڑاباتونی ہوتا ہے ''۔
''ہروہ چیز جو حد سے بڑھ جائے ، نقصان دہ ہوتی ہے۔ کئی مذاق ہاتھاپائی پر ختم ہوتے ہیں۔''
 

سید زبیر

محفلین
آپ نے ایک ایسی تحریر شریک محفل کی ہے جو ایک اہم معاشرتی پہلو کو اجاگر کرتی ہے ۔ ہمیں دوسروں کے ساتھ وہی رویہ اختیار کرنا چاہیے جو ہم اپنے لیے پسند کریں بے شک اللہ کے پیغمبر ؐ نے فرمایا: ''کسی آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ ایک مسلمان کو پریشان کر ے ''۔ مجمع الزوائد6/254
 
رسول اللہ ؐ تبوک سے مدینہ واپس آئے۔ اسی مہینے عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ آپ کی طرف روانہ ہوئے۔ وہ اپنی قوم ثقیف کے ایک عالی مقام اور جلیل القدر سردار تھے۔ مدینہ پہنچنے سے قبل ہی وہ رسول اللہ ؐ سے جاملے اور مسلمان ہوگئے۔ انہوں نے آپ سے اجازت چاہی کہ وہ لوٹ جائیں اور اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دیں۔ رسول اللہ ؐ نے خدشہ ظاہر کیا کہ عروہ رضی اللہ عنہ کی قوم انہیں گزند پہنچائے گی۔ آپ نے ان سے کہا: ''وہ آپ کو مارڈالیں گے ''۔ رسول اللہ ؐ جانتے تھے کہ ثقیف ایک تندخو اور سخت مزاج قوم ہے۔ غرور وتکبراس کاشیوہ ہے۔ اپنی نخوت کے آگے وہ اپنے بلند مرتبہ سردار کی بڑائی کو بھی خاطر میں نہیں لائے گی۔عروہ رضی اللہ عنہ نے اطمینان دلایا: ''اے اللہ کے رسول ! میں انہیں ان کی کنواری عورتوں اور ان کے تمام شرفاء سے زیادہ پیارا ہوں۔'' عروہ رضی اللہ عنہ واقعی اپنی قوم کے محبوب ومقتدا تھے۔ چنانچہ وہ انہیں اسلام کی طرف بلانے کا عزم لیے مدینہ سے روانہ ہوئے۔ عروہؓ کو امید تھی کہ قوم اپنے درمیان ان کی عظمت اور بڑائی کی وجہ سے ان کی مخالفت نہیں کرے گی۔ وہ اپنی قوم کی آبادی میں پہنچے اور ایک اونچی جگہ پر کھڑے ہوکر انہیں پکارا۔ وہ سب جمع ہوگئے۔ عروہ بن مسعود ؓ نے جو ان کے سردار تھے،انہیں اسلام کی دعوت دی اور بتایا کہ وہ مسلمان ہوچکے ہیں۔ عروہؓ باربار کہتے رہے : '' میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں۔''یہ سن کر ان کی قوم نے غْل مچانا شروع کردیا۔ وہ اس بات پر مشتعل ہوگئے کہ ان سے ان کے خداؤ ں کو چھوڑ دینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ انہو ں نے ہرطرف سے عروہ ؓ پر تیروں کی بارش کردی۔ عروہ ؓ شدید زخمی ہوکر گر پڑے۔ ان کے عم زادے بھاگے بھاگے ان کے پاس آئے۔ عروہ ؓ دم توڑ رہے تھے۔ چچا زاد بھائیوں نے کہا: ''عروہ ! اپنے خون کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ کیا ہم آپ کے خون کا بدلہ لیں ؟'' عروہ ؓ نے جواب دیا: ''یہ تو شرف ہے جو اللہ نے مجھے بخشا ہے۔ یہ شہادت ہے جس سے اللہ نے مجھے ہمکنا ر کیا ہے۔ میرے متعلق وہی بات ہے جو رسول اللہ ؐ کی ہمراہی میں قتل کیے جانے والے شہداء کے متعلق تھی۔ آپ میری خاطر کسی کو قتل مت کرنا اور نہ کسی سے میرا بدلہ لینا ''
کہا جاتا ہے جب نبی ؐ کو عروہ ؓکے شہید ہونے کی خبر دی گئی توآپ نے فرمایا: ''اپنی قوم کے اندر عروہ (سورہ ) یٰس والے آدمی کے مانند تھے ''۔
اچھا مضمون ہے۔ مگر اس میں اس روایت کی سمجھ نہیں آئی۔​
 
Top