ناصر کاظمی رہ نوردِ بیابانِ غم صبر کر صبر کر

رہ نوردِ بیابانِ غم صبر کر صبر کر​
کارواں پھر مِلیں گے بہم صبر کر صبر کر​
بے نِشاں ہے سفر رات ساری پڑی ہے مگر​
آرہی ہے صدا دم بدم صبر کر صبر کر​
تیری فریاد گو نجے گی دھرتی سے آکاش تک​
کوئی دِن اور سہہ لے سِتم صبر کر صبر کر​
ترے قدموں سے جاگیں گے اُجڑے دِلوں کے ختن​
پاشکستہ غزالِ حرم صبر کر صبر کر​
شہر اُجڑے تو کیا ، ہے کشادہ زمین خُدا​
اِک نیا گھر بنائیں گے ہم صبر کر صبر کر​
یہ محلاّتِ شاہی تباہی کے ہیں منتظر !​
گِرنے والے ہیں اِن کے علم صبر کر صبر کر​
دف بجائیں گے برگ و شجر صف بہ صف ہر طرف​
خشک مٹّی سے پھوٹے گا نم صبر کر صبر کر​
لہلہائیں گی پھر کھیتیاں کارواں کارواں​
کُھل کے برسے گا ابرِکرم صبر کر صبر کر​
کیوں پٹکتا ہے سر سنگ سے جی جلا ڈھنگ سے​
دِل ہی بن جائے گا خود صنم صبر کر صبر کر​
پہلے کِھل جائے دِل کا کنول پھر لِکھیں گے غزل​
کوئی دم اے صریرِ قلم صبر کر صبر کر​
درد کے تار مِلنے تو دے ہونٹ ہلنے تو دے​
ساری باتیں کریں گے رقم صبر کر صبر کر​
دیکھ ناصِر زمانے میں کوئی کِسی کا نہیں​
بھُول جا اُس کے قول و قسم صبر کر صبر کر​
 

غدیر زھرا

لائبریرین
یہ محلاّتِ شاہی تباہی کے ہیں منتظر !
گِرنے والے ہیں اِن کے علم صبر کر صبر کر

دف بجائیں گے برگ و شجر صف بہ صف ہر طرف
خشک مٹّی سے پھوٹے گا نم صبر کر صبر کر

کیا کہنے بہت عمدہ :)
 

طارق شاہ

محفلین
شہر اُجڑے تو کیا ، ہے کشادہ زمینِ خُدا
اِک نیا گھر بنائیں گے ہم صبر کر صبر کر

بہت لاجواب انتخاب
تشکّر شیئر کرنے پر صاحب!
بہت خوش رہیں
 
Top