رہینِ ستم ہائے روزگار (افسانہ)

رہینِ ستم ہائے روزگار

”دنیا وی عذاب کی دو ہی بڑی قسمیں ہیں۔ایک نوکر ہونااور دوسرے کرائے دار ہونا۔“
گزرے وقت میں جب کسی انسان کی آزمائش مطلوب ہوتی تھی تو اسے میدانِ جہاد میں پکاراجاتا تھا۔مگربعد کے دور میں جب شرعی جہاد مفقود ہوگیا تو اِسی پر اکتفا کیاجانے لگاکہ اسے نوکر یا پھر کرایہ داربنا یا جانے لگا۔اگرکسی کی سخت آزمائش درکار ہوئی تو اسے بیک وقت نوکر اورکرایہ دار بنادیا جاتا ۔اب آخر لوگوں میں اتنا حوصلہ بھی کہاں کہ انہیں پیغمبروں جیسے حالات سے آزمایا جائے کہ اب نہ کوئی خلیلؑ ہے اور نہ کوئی اسماعیلؑ۔
فیض بھی ایک ایسا ہی شخص تھا جس کو اللہ نے ایسی ہی ایک آزمائش کے لئے چن لیا تھا۔اسی لئے اس کی یہ سوچ بن گئی تھی کہ اس کی یہ دونوں حیثیتیں کسی عذاب سے کم نہیں۔حالانکہ وہ اس بات سے واقف تھا کہ آزمائشیں عذاب کی مختلف شکلیں نہیں ، وہ تو انسان کے درجات بلند کرتی ہیں۔
فیض ایک غیر سرکاری ادارے میں ملازم تھااور کرائے کے مکان میں رہتا تھا۔اب وہ عمر کی اس منزل پر تھاکہ زندگی کی کُنھ سے مکمل واقفیت کی قسم کھا سکتا تھا۔مگرجب زندگی ہر بار ایک الگ رنگ وروپ میں اچانک اس کے سامنے آکر کھڑی ہوتی تو اسے لگتا کہ وہ ابلہ¿ محض ہے اور وہ ابھی اس کی ابجد سے بھی واقف نہیں، کُنھ تو بڑی چیز ہے۔اس وقت اسے محسوس ہوتا کہ زندگی اسے بھوت بن کرلپٹ گئی ہے اور جیتے جی اس سے جھٹکارا ملنے والا نہیں ۔اسے لگتا کہ وہ اپنے علم اور تجربات میں جتنا زیادہ پختہ ہوتا جارہا ہے اور زندگی سے لڑنے کی اس کی قوت وصلاحیت میں جس قدر اضافہ ہو رہا ہے زندگی بھی اسی اعتبار سے اپنی صلاحیتیں بڑھا رہی ہے اور اس کو مات دینے کے نئے نئے پینترے آزما رہی ہے۔
کچھ ایسا ہی اس بار بھی ہوا جب وہ نوکری کے منہ پر لات مار کر گھر پہونچا اور اس نے زندگی کو ایک نئے لباس میں دیکھا۔ نیلے ،ارغوانی رنگ کے چست اورباریک لباس میں۔
آدمی کی اوسط عمراگرتین برابر حصوںمیں تقسیم کی جائے تو حاصلِ تقسیم بیس نکلتا ہے۔یعنی زندگی بیس بیس سال پر مشتمل تین برابر حصوں میں بٹ جاتی ہے ۔ پہلا ایک تا بیس ۔دوسرا بیس تا چالیس اورتیسرا چالیس تاساٹھ۔ان میں سب زیادہ قیمتی درمیانی حصہ ہے ۔یہ گویاحاصلِ زندگی ہے۔ زندگی کے اس وسطی دور میں آدمی کی عقل پختہ ہوتی ہے، جسم میں طاقت ہوتی ہے اوروہ عزائم سے بھر پورہوتا ہے ۔ اس نے زندگی کے یہی بیس سال نوکری پر نچھاور کردئے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں، یہ کسی کے لیے جان دینے سے زیادہ اہم ہے۔اس کے باوجود اسے کبھی یہ خیال نہیں گزرا کہ اس نے ادارے پر کوئی احسان کیا ہے بلکہ الٹا یہ خیال سائے کی طرح اس کے ساتھ لگا رہا کہ بھائی نے نوکری دے کر اس پر اور اس کے پورے خاندان پراحسان کیا ہے۔ یہ وہ چھوٹی سی نوکری ہی تھی جس کے بوتے پر وہ زندگی کے ناقابلِ شکست بھوت سے جنگ لڑرہا تھا، ایک پورے خاندان کی زندگیاں اس چھوٹی سی نوکری کی نوک پر رکھی ہوئی تھیں۔ اگر وہ نوک ذرابھی ہلتی تو خاندان کے تمام افراد کے جسم لہو لہان ہوجاتے ۔اس نے بچپن میں سنا تھا کہ دنیاایک مافوق الفطرت بیل کے سینگ پر ٹکی ہوئی ہے ۔ جب وہ سینگ ہلاتا ہے تو زمین لرز جاتی ہے اور لوگ زلزلے کے جھٹکے محسوس کرتے ہیں۔اسے اپنا خاندان بھی نوکری کے سینگ پر ٹکا ہوا محسوس ہوتا۔جب کبھی اس سے کوئی غلطی ہوجاتی ، وہ آفس پہنچنے میں دیر کردیتا تو وہ بڑی پریشانی محسوس کرتاجیسے اس کے پھیپڑوں کا نظام فیل ہوگیا ہے جس کی وجہ سے اسے سانس لینے میں دشواری ہورہی ہے۔اسے لگتا جیسے ابھی بیل کو کھجلی لگے گی ، وہ مضطرب ہوکر کھجائے گا ، سینگ ہلیں گے اور سینکڑوں بے گناہ لوگ زلزلوں میں مارے جائیں گے۔وہ سہم کر رہ جاتا۔
جب وہ گھر کا بڑا فردتھا تو اس کا فرض تھا کہ زندگی کی جس گاڑی میں وہ جتا ہوا ہے اس پراپنے پورے خاندان کوسوار کرے کیونکہ بچپن میںوہ بھی ایک ایسی ہی بنا پہیّووں کی گاڑی میں سوار تھا جس میں اس کے ماں باپ جتے ہوئے تھے اور پھر بڑھاپے میں اس کو ایک بار پھر ایسی گاڑی میں سوار ہونا ہے جس میں اس کے بچے جتے ہوئے ہوں گے۔زندگی کی گاڑی میں گھر والوں کو سوار کرنا قرض اتارنے جیسا عمل تھا اور قرض اتارنا ضروری تھا۔ اور یہ نوکری ہی تھی جو اسے اس لائق بنا رہی تھی کہ وہ قرض اتار پائے۔ہمیشہ سے ایسا ہوتا آیا ہے اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہے گاکہ لوگ ایک دوسرے کا قرض اتارنے کے لیے زندگی کی اس گاڑی میں جتتے اور سوار ہوتے رہیں گے ۔ اور زندگی کی یہ گاڑی اسی طرح لشتم پشتم آگے بڑھتی رہے گی۔یہاں تک کہ قیامت واقع ہوگی اور وہ اپنے تمام تر لاو¿لشکر کے ساتھ گدلے پانی میں ڈوب جائے گی۔
”فیض“ احساسات سے عاری،سرد اور لے دار؛بھائی کی آواز اس کے کانوں سے ٹکراتی۔
” جی سر“ اور ساتھ ہی اس کے لبوں سے مضطرب، ردیف آواز ابھرتی۔
عبدالغفور محلے میں بااثر آدمی تھے ، کئی شہروں میں ان کا بزنس پھیلا ہوا تھا ، بیسیوں آدمی ان کے یہاں ملازم تھے ۔ وہ ان میں انتہائی محبوب تھے اور اسی لیے سب انہیں بھائی کہہ کر پکارتے تھے ۔پہلے اِکا دُکا چاپلوس قسم کے ملازموں نے انہیں بھائی کہنا شروع کیا اور پھر رفتہ رفتہ سارے ملازم بھائی کہنے لگے ۔یہاں تک کہ اب وہ محلے میں بھی اسی نام سے جانے جاتے تھے ۔
جب بھائی اسے آواز دیتے تو وہ بنا ایک سیکنڈ کی تاخیر کے ”جی سر“ کہتا اور بجلی کی سی سرعت کے ساتھ ان کے سامنے جا کھڑا ہوتا۔جیسے وہ کوئی انسان نہ ہوبلکہ روبوٹ ہو۔بھائی کے علاوہ دنیا کے کسی بھی انسان کی آواز میں اتنی کشش نہیں تھی۔دوسرا کوئی بھی اسے پکارتا تو وہ اپنی سہولت سے اس کا جواب دیتامگر بھائی کی آواز کے ساتھ ایسا کوئی آپشن نہیں تھا۔بھائی کی آواز ڈوبنے سے پہلے اس کی آوازفضامیں بکھر جاتی تھی ۔اور اس سے پہلے کہ اس کی آواز بھائی کی سماعتوں سے ٹکرائے وہ مجسم وجود کے ساتھ ان کے سامنے جا کھڑا ہوتا۔ماں باپ جنہوں نے اپنے خون اور پسینے سے اس کو پال پوس کر بڑا کیا تھااس نے ان کی آواز میں بھی اتنی کشش محسوس نہیں کی تھی۔جب کہ ان کی آواز محبت اور اپنائیت کے گرم جذبات سے بھری ہوتی تھی۔جس طرح بکری کے تھن دودھ سے بھرے ہوتے ہیں۔جب وہ جنگل سے لوٹتی ہے۔وہ اس کے لیے کبھی بھی مضطرب نہیں ہوا اور اس نے ان کی آواز ڈوبنے کبھی کچھ پروا نہیں کی۔
”بیٹافیض “ ایک تھرتھراتی ہوئی آوازگھر کے ایک گوشے سے ابھرتی۔
”فیض بیٹا“ آواز پھر سے ابھرتی۔
”ارے فیض بیٹا نہیں ہے کیا؟کب سے آواز دے رہا ہوں“ آواز گھر کی امس زدہ فضا میں تھرتھراتی رہتی اوروہ بدستور بچوں کے ساتھ خوش گپیوں میںمگن رہتا۔اور اپنے کانوں کے پردوں کے ارتعاش کو نظرانداز کرتا رہتا۔
”فیض سنتے کیوں نہیں۔ تمہارے ابو کب سے چلا رہے ہیں“ دفعتاً عقب سے اس کی امی کی کڑک دار آواز گونجتی۔
”جی ابو! آیا ابھی وہ “ وہ عذرکرنا چاہتا مگر خاموش ہوجاتا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ عذرِ گناہ بد تر از گناہ۔
کتنا فرق تھا بھائی کی اوراس کے والد عبدالرحمان کی آواز میں۔اور مزے کی بات تو یہ تھی کہ یہ فرق اس نے کبھی محسوس ہی نہیں کیا تھا۔بھائی کی آواز پر لبیک کہنے پر اگر ذرا سی تاخیر ہوجاتی تو وہ انہیں سوری کہنا نہ بھولتا۔اگر اس تاخیر پر بھائی کی ابرو¿وں میں ذراسا خم آجاتا تو وہ عذرخواہی پر اتر آتا۔وہ نہ صرف ان کے اشاروں کو سمجھتا تھا بلکہ وہ ان کے مزاج اور نفسیات سے بھی پوری طرح واقف ہو چکا تھا۔ بھائی کے ابرووں کے بے شمار زاویے اس کے ذہن کے پردے پر نقش ہوچکے تھے اور وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ کونسا زاویہ کونسے خاص اشارے کے لئے خاص ہے۔
”جی سر“یہ وہ چار حرفی مختصر جملہ تھا جو اس نے اپنی زندگی میںسب سے زیادہ بولا تھا۔ یہ جملہ اس کی زبان پر کچھ اس طرح چڑھ گیا تھا کہ کئی بار چھوٹے بچوں اور معمولی لوگوں کے لیے بھی بے اختیاراسی جملے کااستعمال کرجاتا اور معاً بعد اسے اپنی حماقت پر ہنسی آجاتی۔”چلو اس منحوس جملے سے تو نجات ملی“ اس نے سوچا، سگرٹ سلگایا اور دل میں یہ عہد کیا کہ وہ آئندہ کسی خاں کے لیے بھی ”جی سر “ نہیں بولے گا۔چاہے وہ کسی منسٹر سے ہی مخاطب کیوں نہ ہو۔
”نوکری کی زندگی دراصل غلامی کے زندگی کا نیا ایڈیشن ہے۔ اس کے سوا کچھ اور نہیں۔“ کالی سڑک پر تیز دوڑتی ہوئی گاڑی اسے گھر کی طرف اڑائے لئے جاری تھی۔
اس نے سگرٹ کاایک کش لیا، ساتھ ہی گاڑی کی رفتار تیز کی۔ وہ جلد از جلد گھر پہونچ جانا چاہتا تھا۔سگرٹ کا دھواں دھیرے دھیرے تیز رفتار گاڑی کے اندر کے گرم ماحول میں تحلیل ہو رہاتھا اوراس کے دماغ کی چمنی سے بلند ہوتا ہواخیالات کا دھواںسوچ کے تاروں میں ارتعاش پیدا کررہا تھا۔
”نوکری میں انسان کی صلاحیتیں محدود ہوجاتی ہیں،کیونکہ اسے محدود کام ملا ہوتا ہے۔اس کے خیالات سکڑ جاتے ہیں کیونکہ اس کے تجربات محدود ہوجاتے ہیں۔یہ بھی کوئی زندگی ہے ۔نہ لذت نہ حسرتِ لذت۔آخر ایسی زندگی میں کیا خاک لذت ہوسکتی ہے جس کا بیشتر حصہ ”جی سر جی سر“ کرتے گزرجائے۔انسان کا اپنا بزنس ہوتا ہے تو آدمی کم از کم اپنی مرضی کا مالک تو ہوتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے کہیں بھی آ،جاسکتاہے۔ وہ اپنی مرضی سے کام کرسکتا ہے اور اپنی مرضی سے آرام کرسکتا ہے۔ ایک تو خدا نے ہی پورا اختیار کب دیا تھا اور جودیا تھا وہ بھائیوں نے چھین لیا“ اس کے ذہن کے دریچے میں جمع خیالات کا بے ترتیب دھواں بے صوتی مگر بامعنیٰ لفظوں میںڈھلتا رہا۔ خود کلامی اس کی عادت نہیں تھی مگر اس وقت وہ جس طرح کی ذہنی کیفیت سے دوچار تھا وہ اسے خودکلامی پر اکسائے جارہی تھی۔
”ٹررررن ٹرررررنٹررررن“اچانک فون بج اٹھا۔
”ہیلو“
”کیا میں فیض صاحب سے بات کررہا ہوں“ دوسری طرف کوئی اجنبی تھا۔
”جی سربول رہا ہوں بتائیں کیا کام ہے“
”اگر آپ برا نہ مانیں توآپ سے جاننا چاہ رہا تھا کہ آپ جاب کرتے ہیںیاپھر کوئی بزنس وزنس ہے آپ کادراصل آپ کو ایل آئی سی کی نئی پالیسی کے بارے میں بتانا چاہ رہا تھا“ اجنبی آواز میں بلا کااعتماد تھا۔مگر بولنے والا کسی انجانے خوف کی وجہ سے جلدی جلدی بول رہا تھا۔شاید اسے خوف تھا کہ فون ڈسکنکٹ نہ کردیا جائے۔ابھی اس کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ اسے اپنا عہد یاد آگیا۔” وہ آئندہ کسی خاں کے لیے بھی ”جی سر“ نہیں بولے گا“۔اس پر ایک دم سے جھنجلاہٹ طاری ہوگئی ۔اس نے چند ناشائستہ الفاظ کہے اور گاڑی کی رفتار بڑھادی۔
”آج مالکن آئی تھی ، کرایہ بڑھانے کہہ رہی تھیکہہ رہی تھی کہ اگلے ماہ سے پانچ سو بڑھا کر دینا“اس کی بیوی نے ڈرائی فروٹ کی ٹرے اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
وہ دل برداشتہ ہوگیا۔ملازمت کی دنیاایک الگ دنیا تھی اور گھر کی دنیاایک الگ دنیا۔وہاں الگ طرح کے مسائل تھے اور یہاں بالکل دوسری طرح کی الجھنیں۔وہ آج رات آرام سے سونا چاہتا تھا۔ آج اس نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا رسک لیا تھا۔ آج وہ ایسا ہی کچھ محسوس کررہا تھا جیسا کوئی گدھا اپنا بوجھ گرانے کے بعد محسوس کرتا ہے۔آخر اس نے بھی تو اپنے سر سے ایک بوجھ اتار پھینکا تھا جسے وہ گزشتہ بیس سالوں سے ڈھو رہا تھا۔اس نے بیس سال کی عمر میں بھائی کے یہاں نوکری شروع کی تھی اوراتفاق سے آج اس کی چالیسویں سالگرہ تھی۔ وہ سالگرہ منانے کا عادہ نہیں تھا ۔ مگر جب راستے میں اسے سالگرہ کا خیال آیا تو اس نے خود سے مخاطب ہوکر کہا تھا۔”فیض ! زندگی میں پہلی بار آج ہم تمہیں سالگرہ کا خاص تحفہ دے رہے ہیں۔لو؛ آج تمہیں ملازمت کی بھاری آہنی زنجیروں سے آزاد کرتے ہیں۔جاو¿ پھلو پھولوخوش رہو آباد رہو“اسے یاد آیا کہ اپنے آپ کو اس طرح مخاطب کرنے کے بعد وہ عجیب طرح کی ترنگ سے بھر گیا تھا، اس کی رگوں میں خون کی گردش تیز ہوگئی تھی اسی ترنگ کے زور کے زیر اثر اس نے سگریٹ کے باقی ماندہ ٹکڑے کو ایک دم فلمی انداز میں چٹکی بجاتے ہوئے باہر پھینکا تھا۔ جلتا ہواسگریٹ سفیدے کے موٹے تنے سے ٹکرایا تھا۔ ایک لمحے کے لیے اسے اپنے اس مصنوعی ایکشن پر خوشگوار حیرت ہوئی تھی مگر پھر دوسرے لمحے اسے یہ خیال ستانے لگا تھا کہ کہیں سوکھے پتوں میں آگ نہ لگ جائے۔ سفیدے کے سوکھے پتے کروسین کی طرح بھک سے جل اٹھتے ہیں۔وہ یقینا ڈر گیا تھا۔
”اور کیا کہہ رہی تھی “ اس نے خود کو خیالات کے تیز دھارے کی ضرب سے بچانے کی کوشش میں سوال کیا۔
”اورکہہ رہی تھی بچوں کو دروازوں اوریواروں پر پینسل اور کلرچلانے سے روکا کرو۔“
”میں تو ہر وقت ڈانٹی رہتی ہوں ۔ عاجز آگئی میں تو تم نے بچے ہی ایسے پیدا کئے ہیں،ساری دنیا سے نرالے۔“
وہ اس آخری بات پر ہنس دیامگر یہ ہنسی زیادہ دیر نہ رہ سکی کیونکہ وہ ایک بار پھر خیالات کی تیز رو کی پیہم ضربوں کا شکار ہوچکا تھا۔
”تنخواہ کچھوئے کی رفتار سے بڑھتی ہے اور کرایہ پیٹرول کی قیمتوں کی رفتارسےیہ کیسی بوالعجبی ہے جو چیزوہ دنیا سے لیتا ہے اس کی اسے بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے اور جو کچھ وہ دنیا کو دیتا ہے وہ کوڑیوں کے مول جاتی ہے۔آخر دنیا اس قدر نیرنگی کیوں واقع ہوئی ہے۔وہ جتنا زیادہ سوچتا اتنا ہی اور الجھتا جاتااُدھر ملازمت میں کام ایڈوانس میں کرنا ہوتا ہے اور محنتانہ بعد میں ملتا ہے اوراِدھر گھر کا کرایہ پیشگی دینا ہوتا ہے اور اس سے استفادہ کا موقع بعد میں حاصل ہوتا ہے۔اُدھر بھائی یہ دلیل دیتے ہیں کہ کیاپتہ آپ پیسے لے کر بھاگ جاو اور اِدھر بھی یہی دلیل کام کرتی ہے کہ کیا پتہ آپ کرایہ دئے بغیر گھر خالی کرکے راتوں رات بھاگ جاو¿۔کیسی ہے یہ دنیاچت بھی اس کی پٹ بھی اس کینوکر ہوناایک طرح کا عذاب ہے اور کرائے دار ہونادوسری طرح کا عذابسچ مچ؛ ایسی زندگی عذاب سے کم نہیں۔“
” اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ رہی تھیمجھے تو اس موٹی کی صورت سے ہی نفرت ہوگئی ہےہاں اورکہہ رہی تھی کہ آپ کے بچے زیادہ ہیںہم زیادہ بچوں والوں کو کرائے پرنہیں رکھتے، تمہیں اپنی طرف کا ہونے کی وجہ سے رکھ لیامگر تم نے اس کی بھی پرواہ نہیں کیبرباد کرکے رکھ دیا سارا گھرابھی تو رنگ وروغن کروایا تھا اپنی چیز ہوتو درد بھی ہو مالِ مفت دلِ بے رحم پتہ نہیں کیا کیا بک رہی تھیدل تو چاہ رہا تھا کہ ترکی بہ ترکی جواب دوںکیا ہم مفت رہ رہے ہیں یہاں ۔اور ان کامنہ ہے ایسا کہ یہ کسی کو مفت میں رکھ لیں گے موٹی کہیں کی“ بیوی اپنی رو میں بولے جارہی تھی اور وہ اپنے خیالات کی منجھداروں سے لڑ رہا تھا۔
”سر! آج مجھے چھٹی چاہئے“ اس کے ذہن کے پردے پرماضی کی سرگزشت فلم کی طرح چلنے لگی۔
”کیوںابھی پچھلے ہفتہ ہی تو چھٹی کی تھی تم نے“
اسے جب بھی کسی کام سے چھٹی لینی ہوتی تو وہ عجیب سے مخمصے میں گرفتار ہوجاتا ، گھنٹوں تک چھٹی لینے یا نہ لینے کی تشویش میں مبتلا رہتا، موقع ومحل کی نزاکتوںپر غور کرتا،بھائی کا موڈ پہچاننے کی کوشش کرتا ۔ مگر وہ ایک انجانے خوف سے ڈر جاتا،بھائی کے کالے موٹے ہونٹوں سے نکلنے والی ایک زہریلی ”کیوں“اس کے کانوں میں مدھو مکھی کی طرح بھنبھنانے لگ جاتی۔اور وہ چھٹی مانگے کے خیال کو ترک کرنے کی کوشش کرتا، کئی طرح کے متبادلات پر غور کرتا کہ چھٹی کئے بغیر ہی کسی طرح کام نکل جائے مگر جب اسے لگتا کہ چھٹی کے بغیر چارہ نہیں تو وہ ایک بار پھر خود کو اس کے لیے تیارکرتا ،اپنی پوری طاقت جمع کرتا، سانس روکتا اور دبے دبے لفظوں اور سہمے ہوئے لہجے میں ایک جملہ بھائی کی سماعتوں کی طرف اچھال دیتا۔
”سر! آج مجھے چھٹی چاہئے“
”ٹھیک ہے“ بھائی کی بجھی بجھی اور روکھی پھیکی آواز اس کے رگ وریشے میں تازگی کی لہر دوڑادیتی۔کبھی کبھار جب اسے اتنی آسانی سے چھٹی مل جاتی تو اسے لگتا جیسے کوئی بہت بھاری بوجھ اس کے سر سے اتر گیا ہے۔اور وہ خوامخواہ پریشانی میں مبتلا تھا۔
”نازش کیا کر رہے ہوگندی بات ، چلو ادھر آو¿۔“اس نے خفگی کے انداز میں بیٹے کو پکارا۔ اس طرح اس کے ذہن کے پردے پر چلتی ہوئی فلم تھوڑی دیر کے لیے رک گئی۔نازش دروازے پر پڑوسی بچوں سے لڑ رہا تھا۔بچوں کے لڑنے جھگڑنے کی آواز نے اسے چونکا دیا تھا ۔
جب وہ گھر میں ہوتا تو بیوی بچوں کو ہدایات دیتا رہتا۔ ایسا کرلو ، ویسا کرلو، تو تم نے ان کو منع کردیا ہوتا کہ ہم شادی میں شرکت نہیں کرسکتے۔کبھی ماں باپ سے مخاطب ہوتا۔ کھانا وقت پر کھایا کریں، زیادہ دیر ٹی وی کے سامنے نہ بیٹھا کریں۔ جب وہ گھر پر ہوتا تو ہدایات دیتا اور ان پر عمل کروانے کی کوشش کرتا اور جب آفس میں ہوتا تو ہدایات سنتا اور ان کے مطابق عمل کرتا۔کس قدر متضادشخصیتوں کا مالک تھا وہ۔ وہ ان دونوں میں فرق رکھنے کی شعوری کوشش کرتا اور اس کوشش میں اس کی رگِ جاں کے تمام تاروں میںارتعاش پیدا ہوجا تااور اس کی حالت ایسی ہوجاتی جیسے اسے نچوڑ دیا گیا ہو۔کبھی کبھی اس کا الٹ ہوجا تا تو آفس میں اپنے ساتھیوں پر ہدایات جاری کرنے لگ جاتا ،بھائی کو مشورے دینے لگ جاتا۔ سر! ایساکرلیں ، سر! ویسا نہ کریں۔ اس کے بر عکس جب گھر پراس سے کام کے لیے کہاجاتا تو وہ روبوٹ بن جاتا اور گدھوں کی طرح کام میں جٹ جاتا ، اس پر ہدایات سننے اور ان پر عمل کرنے والی حالت طاری رہتی اور اس میں اسے سکون سا محسوس ہوتا مگر جب اسے خیال آتا کہ وہ آفس میں نہیں گھر میں ہے تو وہ جھلا اٹھتا ۔اسے لگتا کہ وہ آج گھر میں بھی نوکر کی حیثیت میں ہے۔
اسے گھر آئے ہوئے آٹھ دس منٹ ہی ہوئے تھے ، ابھی وہ خیالات کے شدید دباو¿ سے باہر نہیں نکلا تھا ، بلکہ بیوی کی زبانی مالکن کی شکایات سن کر اس کے ذہنی تناو¿ میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔
” استعفیٰ دینے کے باوجود بھی نوکری کا خیال میرے ذہن پر کیوں چھایا ہوا ہے۔نہیں اب ایسا نہیں ہونا چائیے اب تو میں نوکری کے جنجال سے باہر آگیا ہوں“
اسے ایک دم جیسے جھٹکا لگا، وہ سیدھا ہوکر بیٹھ گیا، ایک دو گھونٹ پانی لیا پھر دوبارہ اسی پوزیشن میں چلا گیا اورکچھ دیر صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھا رہا جب قدرے افاقہ ہوا تو نوکری کے منہ پر لات مارنے کے اپنے فیصلے سے ماں باپ اور بیوی بچوں کو آگاہ کرنے کا عزم اپنے دل میں پختہ کیا۔پھر اس نے آنکھیں کھول دیں مگر اس بار دنیا کا ایک الگ روپ اس کے سامنے تھاتعجب ہے دنیا اتنی جلدی اپنا چولا بدل لیتی ہے۔
نیلم دوسرے کمرے سے نمودار ہوئی ،اس نے نیلے اور ارغوانی رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے ۔ہونٹوں پر شوخ رنگ کی لپ اسٹک، آنکھوں میں کاجل، بغل میں پرس اور پیروں میںچوٹی کے رنگ سے میچ کرتی ہوئی اونچی ہلز کی جوتیاں۔ کپڑے اتنے زیادہ باریک اورچست تھے کہ ایک ذراسی غیر محتاط حرکت سے پھٹ سکتے تھے۔اس نے نیلم کا یہ حُلیہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ عید اور شادی بیاہ کے موقع پر بھی نہیں۔اس نے نگاہ ہٹالی۔غیرت کی ایک اوڑھنی اس کی آنکھوں پر چھاگئی۔
وہ نیلم کو اور اس کے حلےے کونظر انداز کرنا چاہتا تھا پر پتہ نہیں کیوں اس کا ذہن بیک اینڈ میں چلا گیا۔
”پاپا میں جاب کرنا چاہتی ہوں۔ یہاں گھر پرتنہا پڑے پڑے میرا دم گھٹتا ہے۔میری سہلی کہہ رہی تھی کہ کال سینٹر میں مجھے آسانی سے جاب مل جائے گی۔“
”بیٹا ! جیسی تمہاری مرضی مگر جس منحوس چیز سے میں چھٹکا را پانا چاہتا ہوں تم اسی کو حاصل کرنا چاہتی ہومیںاپنے بیس سال کے تجربے کی روشنی میں بات کررہا ہوںتم سمجھ رہی ہو نانوکری کرنے سے اچھا ہے کہ آدمی کولہو کے بیل کی جگہ جُت جائےکتنی عجیب بات ہے جس بوجھ کو میں مرد ہوکر اتار پھینکنا چاہتا ہوں اسی بوجھ کو تم لڑکی ہوکر اٹھانا چاہتی ہوجب نوکری ایک آدمی کو گدھا بنا سکتی ہے تو ایک عورت کو کیا بنائے گیتم سمجھ رہی ہو نانیلم ؛ میری پیاری بچی! اب تم بچی نہیں ہو۔“
”ہوںپاپاآپ تو ایسی ہی اوکھڑی باتیں لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔میری کئی سہیلیاں جاب کررہی ہیں کتنا اچھا پہنتی اور کھاتی ہیں وہ ہر ہفتے پکنک پر جاتی ہیں کتنی خوش لگ رہی تھی شاہینہ میری دوست آپ نے تو دیکھا ہی ہوگا اسے ۔ ایک ماہ پہلے آئی تھی اپنے گھرجو سونے کے کنڈل وہ پہنے ہوئے تھی وہ اس نے نوکری کے پیسوں ہی سے خریدے تھے۔“
وہ جلد ہی بیک اینڈ کے تاریک خیالی گڑھے سے ابھر آیا۔ اور نظریں نیچی رکھتے ہوئے پوچھا۔
”کہاں کی تیاری ہے آج“
” پاپا میں نے بتا یا تھا نا آپ کوآج سے میں نے نوکری جوائن کرلی ہے نائٹ شفٹ ہے صبح چھے بجے کمپنی کی گاڑی یہیں گلی کے موڑ پر ڈراپ کرجائے گی۔“ اس کا لہجہ سپاٹ تھا، آنکھیں جذبات سے عاری تھیں۔
”اچھا ! میں چلتی ہوں، کہیں ایسا نہ ہو کہ پہلے دن ہی لیٹ ہوجاوں اللہ حافظ پاپا ۔۔ اللہ حافظ ممی اور رجّو! پریشان مت کرنا ممی کوسمجھی“ اس نے چھوٹی رجو کے موٹے گال پر چٹکی لی اورکھٹ کھٹ کرتی ہوئی باہر نکل گئی ۔
وہ ہونقوں کی طرح اس کی پیٹھ پر بکھرے گیلے بالوں کو تکتا رہ گیا۔


محمد الیاس ندوی رامپوری
Mob.0999002673
 
Top