رِدا آگ کی ہے قبا آگ کی ہے۔۔۔برائے اصلاح

شیرازخان

محفلین
رِدا آگ کی ہے قبا آگ کی ہے
گلے کیوں پڑی یہ بلا آگ کی ہے

ہے دونوں جہانوں میں دشمن ہماری
جلا دے یہی تو رضا آگ کی ہے

یہاں بھی لگی ہے یہ چاروں ہی جانب
جہنم میں بھی تو سزا آگ کی ہے

یہ لو بن کے سانسوں میں اب ڈھل رہی ہے
ہوا کی بھی اب ہر ادا آگ کی ہے

ضرورت اشد ہے ہو رحمت کی بارش
مگر یاں لبوں پر دعا آگ کی ہے

یہ ماچس سے بڑھ کر خطرناک ہو گی
جو ہاتھوں میں سب کے کَتھا آگ کی ہے

بھڑکتے ہیں شعلے کوئی قہر ہو گا
عجب پھڑپھڑاتی صدا آگ کی ہے

دھواں ہی دھواں ہے علامت اسی کی
دھویں میں ہی پھیلی وبا ءآگ کی ہے

جو خود کھیل کھیلے ہیں شیراز اس کا
جلے تو کہا ہے خطا آگ کی ہے

الف عین
 

الف عین

لائبریرین
معذرت شیراز کہ پسند نہیں آئی۔ اکثر اشعار میں ردیف قوافی کا استعمال درست نہیں لگ رہا۔ محض کرتب بازی لگ رہی ہے۔
 
Top