روشن صبح

جاسمن

لائبریرین
آئیے ہم تلاش کرتے ہیں ایسی مثبت ،خوشگوار اور اچھی خبریں۔۔۔۔۔:rose::rainbow::flower::wiltedrose:
جو ہمارے دِلوں کو سکون ،طمانیت اور خوشی دے سکیں،:laugh1:
ہمارے ہونٹوں پر :LOL::):happy: مسکراہٹیں بکھیر سکیں:laughing3::smile3:

خبریں۔۔جو کا میابیوں کی ہوں:victory::airplane1::computer1::good1:
خبریں۔۔جو عزم و ہمت کی ہوں:clap:
خبریں۔۔جو ایثارو قُربانیوں کی ہوں:handshake:
خبر۔۔۔۔۔۔۔ہو۔۔۔۔۔۔۔قدیم :telephonereceiver:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جدید :mobilephone:
۔۔چاہے ہمارے پاکستان کی ہو:pak1:
۔۔۔یا ۔عالمِ اسلام کی:flag::flag1:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔مستند۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(تبصرہ جات کیجیئے۔۔۔۔لیکن موضوع کی مناسبت سے۔۔۔۔ایسے تبصرہ جات کہ مثبت ہوں،دِل آزاری نہ کرتے ہوں،
پڑھنے والا مسکرائے نہ تو کم از کم روئے بھی نہ:D)
 
آخری تدوین:
آئیے ہم تلاش کرتے ہیں ایسی مثبت ،خوشگوار اور اچھی خبریں۔۔۔ ۔۔ جو ہمارے دِلوں کو سکون ،طمانیت اور خوشی دے سکیں، ہمارے ہونٹوں پر :LOL::):happy: بکھیر سکیں:laughing3::smile3:
خبریں۔۔جو کامیابیوں کی ہوں:grin:
خبریں۔۔جو عزم و ہمت کی ہوں:clap:
بہت خوب ۔سفر شروع کریں دنیا کو اور خود کو بھی دیکھائیں -گرد و غبار ہٹا کر - ایک روشن روشن صبح
اس دعا کے ساتھ

خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
 
حصولِ عِلم کے لئے کئی کلومیٹر رینگ کر پہنچنے والا معزور اور یتیم نوجوان
http://beta.jang.com.pk/JangDetail.aspx?ID=145024
جزاک اللہ خیر اس عمدہ شراکت پر ۔ میں آپ کی بات کو تھوڑا آگے بڑھانے کی جسارت کر رہا ہوں
ہمت مرداں مدد خدا

headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif

shim.gif

Pakistan-poliostudent_4-18-2014_145024_l.jpg

جمرود… حصول تعلیم کیلئے پرامن اورسازگار ماحول ،بزرگوں کی سرپرستی اور مالی وسائل کو لازمی سمجھا جاتا ہے۔ تاہم خیبر ایجنسی کے معذور اور یتیم نوجوان نے ان تمام مفروضوں کو غلط ثابت کردیا۔ خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود کے کوچہ اور بازار میں رینگنے والا یہ نوجوان کوئی بھکاری نہیں بلکہ جمرود ہائی ا سکول میں نویں جماعت کا طالب علم نورزادہ ہے۔ جو حصول علم کے شوق میں روزانہ 8کلومیٹر کی مسافت اسی طرح رینگ کرطے کر تا ہے۔جسمانی معذوری ، وسائل کی نایابی اور والدین کی سرپرستی سے محرومی بھی اسے آگے بڑھنے سے نہیں روک سکی۔نورزادہ کا کہنا ہے کہ غربت اور تمام تر مشکلات کے باوجودا سکول آتا ہوں۔اور میں پڑھائی جاری رکھوں گا۔نورزادہ دوسال کے عمر میں پولیوکا شکار ہوکر عمر بھر کے لئے معذور ہوگیا۔12 سال قبل والدہ جبکہ 7سال قبل والد کا سایہ سر اٹھ گیا۔ نورزادہ کا گردآلود چہرہ ان کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مگر دل میں علم سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔نور زادہ علم کا نور حاصل کرنیکے لیے روزانہ کئی کلومیٹرکا دشوارگزار سفر کرتا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
جزاک اللہ خیر اس عمدہ شراکت پر ۔ میں آپ کی بات کو تھوڑا آگے بڑھانے کی جسارت کر رہا ہوں
ہمت مرداں مدد خدا

headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif

shim.gif

Pakistan-poliostudent_4-18-2014_145024_l.jpg

جمرود… حصول تعلیم کیلئے پرامن اورسازگار ماحول ،بزرگوں کی سرپرستی اور مالی وسائل کو لازمی سمجھا جاتا ہے۔ تاہم خیبر ایجنسی کے معذور اور یتیم نوجوان نے ان تمام مفروضوں کو غلط ثابت کردیا۔ خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود کے کوچہ اور بازار میں رینگنے والا یہ نوجوان کوئی بھکاری نہیں بلکہ جمرود ہائی ا سکول میں نویں جماعت کا طالب علم نورزادہ ہے۔ جو حصول علم کے شوق میں روزانہ 8کلومیٹر کی مسافت اسی طرح رینگ کرطے کر تا ہے۔جسمانی معذوری ، وسائل کی نایابی اور والدین کی سرپرستی سے محرومی بھی اسے آگے بڑھنے سے نہیں روک سکی۔نورزادہ کا کہنا ہے کہ غربت اور تمام تر مشکلات کے باوجودا سکول آتا ہوں۔اور میں پڑھائی جاری رکھوں گا۔نورزادہ دوسال کے عمر میں پولیوکا شکار ہوکر عمر بھر کے لئے معذور ہوگیا۔12 سال قبل والدہ جبکہ 7سال قبل والد کا سایہ سر اٹھ گیا۔ نورزادہ کا گردآلود چہرہ ان کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مگر دل میں علم سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔نور زادہ علم کا نور حاصل کرنیکے لیے روزانہ کئی کلومیٹرکا دشوارگزار سفر کرتا ہے۔
جزاک اللہ ناصر علی بھائی۔
 
پاکستان کا ایک گمنام سپاہی
اللہ عزو جل اس سپاہی کی آخرت بہتر کرے آمین
1947ء کے واقعات سے ایک واقعہ جو یقیناً آپکے دل کو چُھو لے گا۔

ایک بڑھیا بےچاری بڑی مشکل سے ہانپتی کانپتی ٹرین کے ڈبے میں سوار ہو گئی۔ چھوٹی سی گٹھری اس کے ساتھ تھی۔ اسے لے کر بمشکل وہ ایک طرف کو تھوڑی سی جگہ بنا کر بیٹھ گئی۔ یہ دو آدمیوں کا چھوٹا سا فرسٹ کلاس کا ڈبہ تھا لیکن اس کے اندر بیس آدمی ٹھسے ہوئے تھے۔ کوئی کھڑا تھا، کوئی بیٹھا تھا، جو جگہ لوگوں سے بچ گئی تھی اس میں سامان رکھا ہوا تھا۔ حالات کچھ ایسے تھے کہ کوئی کسی سے پوچھ نہ سکتا تھا کہ "بھیا تم کس درجہ کے مسافر ہو؟، یہ فرسٹ کلاس کا ڈبہ ہے اور پہلے سے دو آدمیوں کے لئے ریزرو ہے۔"

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملک تقسیم ہوا تھا پاکستان ابھی ابھی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ واله وسلم کے نام پر وجود میں آیا ہی تھا۔ اس لئے یہی مسلمانوں کا وطن تھا۔ ہندوستان سے مسلمان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جان بچائے کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچ رہے تھے۔

یہ بے چاری بڑھیا بھی اپنا سب کچھ لٹا کر نہ جانے کس طرح بچتی بچاتی پاکستان پہنچ گئی تھی۔ اسے اتنا ہوش ہی کہاں تھا کہ یہ تمیز کر سکتی کہ وہ کس درجہ میں آکر بیٹھ گئی ہے۔ اُسے تو بس یہی معلوم تھا کہ "یہ میرا ملک ہے، یہ میری گاڑی ہے۔"

جو دوسرے مسافر تھے ان کا بھی یہی حال تھا۔ ہر ایک کا چہرہ غم و الم کی تصویر تھا۔ کیا کچھ کھویا تھا کہ اس ملک کو پا لیں، مسلسل صدمات برداشت کرتے کرتے دلوں میں ناسور پڑ گئے تھے اور زبانیں گنگ ہو گئی تھیں۔ اشکوں کا ایک سمندر تھا جو پلکوں پر کھڑا تھا لیکن سبھی خاموشی سے ٹکٹکی لگائے کسی یادوں کی وادیوں میں گم تھے۔

گاڑی کو پاکستان کی سرحد میں داخل ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک اسٹیشن پر ٹکٹ چیکر ڈبے میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک کاپی تھی، ٹکٹ چیکر کو دیکھ کر سب مسافروں کے دل میں خیال آیا کہ دیکھو! "یہ ٹکٹ چیکر کیا کرتا ہے۔۔۔!!"

چیکر نے بڑھیا کو دیکھا تو اس سے ٹکٹ کا مطالبہ کیا۔ وہ اللہ کی بندی کسی قابل ہوتی تو کچھ کہتی۔ بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ پڑے۔ اس کے پاس ٹکٹ نہ تھا۔ کسی درجہ کا بھی ٹکٹ نہ تھا۔ ملک کے حالات، بڑھیا کی کیفیت، غم واندوہ کی فضا ایسی تھی کہ عام معمولات کی پابندی بہت مشکل تھی۔ سب مسافروں نے بڑٰی حیرت سے دیکھا کہ چیکر نے اپنی نوٹ بک نکالی اور بلا ٹکٹ سفر پر بڑھیا کا چالان کر دیا۔ اس نے رسید کاٹ دی تو بڑھیا اپنے آنسوؤں کو قابو کرتے ہوئے ڈوبی ہوئی آواز میں بولی "بیٹا! میرے پاس تو کچھ بھی نہیں دینے کو تو یہ رسید نہ کاٹ"

جواب ملا "امّاں جی! اگر ہم بلا ٹکٹ سفر کریں گے تو ہمارے نئے ملک کا کام کیسے چلے گا؟ آپکا چالان ہو گا پیسے داخل ہوں گے۔ آپ بہت دکھیاری ہو۔ اِسکے لئے میرا دل بھی دکھی ہے۔ یہ جرمانہ آپ نہیں دو گی، میں اپنی طرف سے دے دوں گا۔"

عزیز دوستو! احساسِ فرض، ملک کی محبت اور بے سہاروں کی خدمت کا یہ ایسا انمول واقعہ تھا کہ وہاں موجود سب مسافروں کے دلوں پر نقش ہو گیا۔ آج کوئی نہیں جانتا کہ یہ فرض شناس اور ملک دوست ٹکٹ چیکر کون تھا؟ لیکن دل بے اختیار کہتا ہے کہ وہ بہت بڑا آدمی تھا۔
آئیے ہم سب بھی اپنے ملک کے لیے کچھ ایسا اچھا کام کریں جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے، کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔۔!!
 

جاسمن

لائبریرین
دِل پر نقش ہونے والا واقعہ ہے۔اللہ اُس ٹکٹ چیکر کو خوش رکھے۔ آمین! ( چاہے وہ کہیں بھی ہو)۔
آئیے ہم سب بھی اپنے وطن کے لیے کچھ ایسا اچھا کام کریں جو اگر لوگوں نے یاد نہ بھی رکھا تو کیا ہؤا اللہ تویاد رکھے گا ۔کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔۔!!
 

جاسمن

لائبریرین
آج پوسٹ آفس بہاولپور کے ایک کلرک نے ایک پوسٹ مین کا واقعہ سنایا: ڈاک لے کے جاتے ہوئے اسے ایک بیگ ملا جس میں پچھتر ہزار(75000) روپے تھے۔ساتھ میں کاغذات تھے۔ اُس نے وہ بیگ لا کر اپنے پوسٹ ماسٹر کو دیا کہ اِسکے مالک کو تلاش کر کے دے دیں۔ وہ بیگ اصل مالک کے حوالے کر دیا گیا۔
 

جاسمن

لائبریرین
پھانسی سے فقط چند سیکنڈز پہلے ایران کی عظیم ماں نے اپنے بیٹے کا قتل معاف کردیا
اسلام ٹائمز: سرعام پھانسی دینے کیلئے مجرم بلال کو میدان میں لاکر آنکھوں پر پٹی باندھی گئی۔ تختہ دار کی طرف گھسیٹتے ہوئے مجرم کو لیجانے لگے تو اپنی موت کو دیکھ کر اس نے چیخنا شروع کر دیا، مجرم کی والدہ اپنے بیٹے کو دیکھ کر مسلسل روئے جارہی تھی، اس دوران مقتول کی والدہ آگے بڑھیں اور بیٹے کا قتل معاف کر دیا۔

اسلام ٹائمز۔ جمہوری اسلامی ایران کے شہر رویان میں ہزاروں افراد کے سامنے ایک مجرم کو سرعام پھانسی دینے کے لئے تمام تیاریاں مکمل تھیں اور منظر دیکھنے والے دل تھام کر اگلے لمحے کے منتطر تھے۔ اِسی دوران ایک خاتون نے آکر قاتل کے چہرے پر ایک طمانچہ رسید کیا اور اعلان کر دیا، ”جاﺅ تمہیں معاف کیا۔“ تفصیلات کے مطابق بلال نامی نوجوان نے سات سال قبل اپنے ہم عمر عبداللہ کو لڑائی جھگڑے کے دوران قتل کر دیا تھا، جس کا جرم ثابت ہونے پر اسے سزائے موت ہوئی۔ سرعام پھانسی دینے کے لئے مجرم بلال کو میدان میں لاکر آنکھوں پر پٹی باندھی گئی۔ تختہ دار کی طرف گھسیٹتے ہوئے مجرم کو لیجانے لگے تو اپنی موت کو دیکھ کر اس نے چیخنا شروع کر دیا، مجرم کی والدہ اپنے بیٹے کو دیکھ کر مسلسل روئے جا رہی تھی۔ دوسری طرف مجمع کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں اور سانس رک گئی، تمام جمع کی نگاہیں پھندے کی طرف تھیں جو قاتل بلال کے گلے میں ڈل چکا تھا، مجرم کے ورثاء زار و قطار روئے جا رہے تھا۔ قاتل لٹکایا جانے والا تھا کہ اچانک مقتول عبداللہ کی والدہ کے دل میں رحم آگیا اور قاتل کو صرف ایک تھپڑ لگایا اور کہا جاو تجھے معاف کر دیا۔ اس خبر کو دینا بھر کے تمام میڈیا نے اٹھایا ہے اور مقتول عبداللہ کی والدہ کے اس عمل کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ سلام ہو ایسی ماں پر جس نے اپنے لخت جگر کا خون معاف کرکے دوسری ماں کو بیٹے کی جدائی کے درد سے بچا لیا ہے۔
www.islamtimes.org/vdcgxt9w7ak9uw4.,0ra.html
 
دنیا کے کم ترین مائیکروسافٹ ایکسپرٹ کا اعزاز پاکستان کے نام ، مہروز نے ارفع کریم کا ریکارڈ بھی توڑدیا
18 اپریل 2014 (14:17) حوالہ۔۔روزنامہ پاکستان
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) لاہور کے 6 سالہ مہروزنے ارفع کریم اور عزیز اعوان کا ریکارڈ توڑ کر دنیا کا کم عمر ترین مائیکروسافٹ ویئر سرٹیفائیڈ ٹیکنالوجسٹ اور مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ سلوشنز ایسوسی ایٹ کا اعزاز اپنے نام کرلیا ہے ۔ مہروز نے ایک ہی روز مائیکروسافٹ کے 2 ٹیسٹ پاس کرکے سب کو حیران کردیا ۔مہروز نے دنیا کا کم عمر ترین مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ ٹیکنالوجسٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ لاہورکا علاقہ کریم پارک کا رہائشی مہروز یہ اعزاز حاصل کرنے کے بعد ملک کا صدر بننا اور پاکستان کو ترقی یافتہ بنانے کی خواہش رکھتا
محترم بہن سلمیٰ جیلانی (فیس بک)
 

جاسمن

لائبریرین
ٹھک !ٹھک! ٹھک!:hammer:
کوئی ہے؟؟؟؟؟؟:question:
جو اچھّی اچھّی خبریں پڑھنا چاہتا ہو؟:best::great::good::zabardast1::a6::haha:
کوئی ہے؟؟؟؟؟:desire:
جو روشن صبحوں جیسی خبریں شیئر کرنا چاہتا ہو؟:sun:
کوئی ہے؟؟؟؟:search::waiting:
 
آخری تدوین:
میرے خیال میں کوئی بھی بات ہو واقعہ ہو اس کے ان گنت پہلو ہوتے ہیں اس واقعہ میں ماں جی کی ٹائمنگ کا انتخاب لاجواب، قاتل تو مر ہی چکا تھا
شاید ہون بندے دا پتر بن جے
 
”سعید! میں کوفہ میں بھی محفوظ رہا اور تم مدینہ میں مار دئیے گئے۔“
پاکستان کے افق کا ایک تابندہ ستارہ
ایک عہد ساز شخصیت کے احوال زندگی -ڈاکٹر امجد ثاقب کی زبانی

حکیم محمد سعید واقعتاً ایک انعام تھے۔ وہ انعام کے طور پر ملے اور سزا کے طور پر واپس لے لئے گئے۔ جب وہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان پہنچے تو ان کے پاس دام و درہم نام کی کوئی شے نہ تھی اور جب شہید ہو کر دنیا سے رخصت ہوئے تو کروڑوں نہیں اربوں کے مالک بن چکے تھے۔ مال و دولت ‘ مرتبہ ‘ جائیداد --- لیکن وہ اپنے ساتھ کچھ بھی لے کے نہ گئے۔ دمِ رخصت اپنی تمام دولت ایک ٹرسٹ کی صورت میں غریبوں کیلئے وقف کر گئے۔ صرف یہ کہا کہ میں نے اس مٹی سے جو کچھ کمایا اس پہ اسی مٹی کا حق ہے۔ ایک دانا شخص نے کہا حکیم محمد سعید طبیب نہیں حکیم تھے۔ طبیب وہ ہوتا ہے جسے طب میں کما ل حاصل ہو۔ حکیم وہ ہوتا ہے جو طب کے ساتھ ساتھ حکمت میں بھی یدِ طولیٰ رکھتا ہو۔ فہم و فراست کا پیکر، دانشمندی کا مظہر۔ حکیم سعید دیدہ ور تھے۔ حُسنِ نظر سے مزین۔ وہ ادیب بھی تھے اور مقرر بھی۔ بولتے تو پھول جھڑتے اور لکھتے تو چمن کھلا دیتے۔ لہجے میں گداز اور لفظوں میں خوشبو۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہزاروں تقریریں کیں اور بیسیوں کتابیں لکھیں۔ انکی تقریریں بھی کما ل‘ انکی تحریریں بھی کمال۔ اخلاص انکی عادت تھی اور انکسار ان کا وطیرہ۔ وہ ایک عظیم منتظم بھی تھے۔ ہمدرد کے نام سے ملک بھر میں پھیلا ہُوا کاروباری ادارہ انکی انتظامی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کیا یہ بات معجزہ نہیں کہ ایک شخص نے طب اور مشروبات کو بھی تہذیب اور ثقافت کا حصہ بنا دیا۔ حکیم سعید نے طب کا علم اس وقت اٹھایا جب لوگ اس سے منہ موڑ رہے تھے۔ بڑا آدمی وہ نہیں جو خود عظمت سے ہمکنار ہو۔ بڑا آدمی تو وہ ہے جو نئے راستوں کا تعین کر لے اور پھر لوگ ان راستوں کو اپنی منزل بنا لیں۔ حکیم سعید نے ہمدرد پاکستان کی صورت میں ایک راستے کا تعین کیا اور پھر بہت سے لوگ اس راستے پر چلنے لگے۔ حکیم سعید نے دنیا بھر کی سیر کی اور کئی ایک سفرنامے بھی لکھے۔کچھ منتخب تحریریں، زندگی آمیز اور زندگی آموز ادب۔ یہ ایسا ادب ہے جو قلب و جاں کو راحت بھی دیتا ہے اور ایک کسک بھی بیدار کرتا ہے۔ یہ کسک جستجو سے عبارت ہے۔ تبدیلی کی طرف آمادہ کرتی ہے، کسی بڑے آدرش سے جوڑتی ہے، ذات سے بلند کرکے انسانیت کی طرف لے جاتی ہے۔ حکیم سعید نے اپنی زندگی میں عوامی اور سیاسی عہدے بھی قبول کئے۔ جب گورنر بنے تو تنخواہ ‘ گاڑی اور دیگر مراعات لینے سے انکار کر دیا۔ کوئی ہے جو ایثار کی یہ مثال قائم کر سکے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو صدر یا سپیکر بن کر قومی دولت سے مستفید ہوتے ہیں اور پھر تاحیات انہی مراعات کے ساتھ زندہ رہتے ہیں۔ اس عظیم شخص کی یاد میں ہونے والی اس خوبصورت تقریب میں بہت سے لوگ موجود تھے۔ محترمہ ذکیہ شاہنواز ‘ جسٹس نذیر احمد غازی‘ ابصار عبدالعلی، حکیم سعید کی نواسی، مشہور قانون دان ایس ایم ظفر اس تقریب کے منتظم تھے۔ انہوں نے بے حد خوبصورت باتیں کیں رُلا دینے والی۔ ان باتوں کے دوران انہوں نے یہ سوال بھی پوچھا کہ ”کیا کوئی قوم حکیم سعید کو بھی شہید کر سکتی ہے۔“ کچھ لوگوں نے اس کا جواب دینے کی کوشش کی --- ”جب حرص اور طمع کے اندھیرے پھیلنے لگیں‘ جب تعصب اور جہالت وطیرہ بن جائیں‘ جب شرافت اور اقدار منہ موڑ لیں‘ جب کم ظرف کرسی¿ اقتدار کی طرف دیکھنے لگیں‘ جب سیاست اور خدمت کاروبار بن جائیں تو قدرت اپنا انعام واپس لے لیتی ہے۔ اس گھٹی ہوئی فضا میں حکیم سعید زندہ نہیں رہتے شہید ہو جاتے ہیں۔“ کچھ مقررین نے بہت سی ایسی باتیں کیں جن پر لوگوں کی آنکھیں بھیگنے لگیں لیکن آنسو اظہارِ ندامت ہیں، جرم کا مداوا نہیں۔ حکیم سعید کا خون ہمارے قومی ضمیر پر بدنما داغ ہے۔ اس خون سے ہماری بزدلی اور بے حسی کی بُو آتی ہے۔ اُٹھو اے اہلِِ پاکستان اُٹھو --- نفرت اور تشدد‘ حرص اور طمع، تعصب اور جہالت، ان کا خاتمہ کرو۔ وطن کی مٹی سے یہ سوال نہ پوچھو کہ اس نے تمہیں کیا دیا، اپنے آپ سے یہ سوال پوچھو کہ تم نے اس مٹی کو کیا دیا۔ تقسیم اور تخریب یا ایثار اور قربانی، محبت اور بھائی چارہ --- ”بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا“حکیم محمد سعید ہر روز جنم نہیں لیتے۔ انہوں نے جو کمایا وہ وطنِ عزیز کو لوٹا دیا، دولت ہی نہیں زندگی بھی دے دی شاید اس لئے کہ کچھ اور لوگوں کو زندگی مل سکے۔ اے اہلِ وطن! تم بھی تو کچھ دو کہ جو دیتا ہے وہی بقا سے ہمکنار ہوتا ہے۔ حکیم سعید کی شہادت پر بہت سی آنکھیں اشکبار ہوئیں لیکن ان کے بھائی حکیم عبدالحمید نے دلی سے جو پیغام بھیجا وہ امر ہو گیا۔ انہوں نے لکھا ”سعید! میں کوفہ میں بھی محفوظ رہا اور تم مدینہ میں مار دئیے گئے۔“ یہ فقرہ صرف حکیم سعید کا مرثیہ نہیں پوری قوم کا مرثیہ ہے۔ وہ ایک خوبصورت شام تھی۔
 
”سعید! میں کوفہ میں بھی محفوظ رہا اور تم مدینہ میں مار دئیے گئے۔“
حکیم سعید کی شہادت پر بہت سی آنکھیں اشکبار ہوئیں لیکن ان کے بھائی حکیم عبدالحمید نے دلی سے جو پیغام بھیجا وہ امر ہو گیا۔ انہوں نے لکھا ”سعید! میں کوفہ میں بھی محفوظ رہا اور تم مدینہ میں مار دئیے گئے۔“ یہ فقرہ صرف حکیم سعید کا مرثیہ نہیں پوری قوم کا مرثیہ ہے۔ وہ ایک خوبصورت شام تھی۔
 

جاسمن

لائبریرین
کوئی ہے جو ایثار کی یہ مثال قائم کر سکے۔..................”کیا کوئی قوم حکیم سعید کو بھی شہید کر سکتی ہے"۔.................... لیکن آنسو اظہارِ ندامت ہیں، جرم کا مداوا نہیں............۔ حکیم سعید کا خون ہمارے قومی ضمیر پر بدنما داغ ہے..........اُٹھو اے اہلِِ پاکستان اُٹھو --- نفرت اور تشدد‘ حرص اور طمع، تعصب اور جہالت، ان کا خاتمہ کرو۔ وطن کی مٹی سے یہ سوال نہ پوچھو کہ اس نے تمہیں کیا دیا، اپنے آپ سے یہ سوال پوچھو کہ تم نے اس مٹی کو کیا دیا۔ تقسیم اور تخریب یا ایثار اور قربانی، محبت اور بھائی چارہ --- ”بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا“حکیم محمد سعید ہر روز جنم نہیں لیتے۔۔..........................
ندامت ہے۔۔۔پر الفاظ نہیں ہیں۔۔۔۔
 
سعید! میں کوفہ میں بھی محفوظ رہا اور تم مدینہ میں مار دئیے گئے
حکیم عبدالحمید ساحب کےاس فقرے میں، مجھے ذاتی طور پر لفظ مدینے سے خوشی ہے کہ پاکستان کو مدینہ قرار دیا ب شک تشبیہ ہی دی ہے ویسے بھی لفظی معنی میں پاکستان اور مدینہ طیبہ مترادف ہیں
لیکن اپنا حال تو یہ ہے ایسی تاریکیاں آنکھوں میں بسی ہیں فراز۔۔رات تو رات ہم دن کو جلاتے ہیں چراغ
اس کو ختم کرنے نہیں تھوڑا دھندلانے کو کو ہی شاید محترم بہن نے یہ لڑی شروع کی ہے لیکن اس لڑی کو ہم حقیقت سے آنکھیں چرانا یا ، بلی کو دیکھ کر کبوتر کا آنکھیں بند کرنا نہ سمجھ لیں - یہ بس جوش ولولہ اور امید پیدا کرنی کی ایک کوشش سمجھی جا سکتی ہے -
کیونکہ ابھی چراغ روشن ہیں، اور اچھے لوگ موجود ہیں، مجھے تو اس محفل میں سب ہی اپنے سے برتر ہی ملے ہیں ، علم ہو یا اخلاق
اور میں وہ غلط معروف فقرہ تو نہیں لکھوں گا کہ نعوذباللہ خدا مایوس نہیں ہوا ، بلکہ ہم پر امید ہیں کہ قائد محترم نے بھی فرمایا تھا کہ مسلمان مصیبت سے گھبرایا نہیں کرتا
 
آخری تدوین:
Top