رواداری مابین شیعہ و سنی ؛ چند واقعات

الف نظامی

لائبریرین
حضرت مولانا زاہد الراشدی لکھتے ہیں:
صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے ابتدائی دور کی بات ہے کہ راقم الحروف مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں باغ جناح کی جانب اپنے کمرہ کی کھڑکی کھول کر اس کے ساتھ بیٹھا تھا کہ گلی سے مولانا مفتی جعفر حسین صاحب چند ساتھیوں کے ہمراہ گزرے۔ مفتی صاحب اہل تشیع کے قومی سطح پر بہت بڑے عالم تھے اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کے بانی و سربراہ تھے، انہوں نے گلی سے گزرتے ہوئے مجھے دیکھا تو جامع مسجد کی سیڑھیاں چڑھ کر کمرے میں آگئے اور میں نے اٹھ کر ان کا خیرمقدم کیا اور احترام سے بٹھایا۔ مفتی صاحب کہنے لگے کہ میں ماضی کی یاد تازہ کرنے کے لیے اوپر آگیا ہوں، میں اس کمرہ میں چار سال تک پڑھتا رہا ہوں اور حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ میرے استاذ ہیں۔ وہ تھوڑی دیر بیٹھے اور اپنے دورِ طالب علمی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے رخصت ہوگئے۔ اب سوچتا ہوں کہ دس پندرہ برس میں صورتحال کس قدر بدل گئی ہے کہ ان باتوں کا اب تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

اسی طرح میں اپنی پہلی گرفتاری کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جو ایک شیعہ اے ایس آئی کے ہاتھوں ہوئی اور اس وضعداری اور احترام کے ساتھ کہ اب شاید کسی کو اس کہانی پر یقین ہی نہ آئے۔ اکتوبر ۱۹۷۵ء میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان نے جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ملک گیر کنونشن کیا جس کی پاداش میں مسجد نور کو سرکاری تحویل میں لینے کا اعلان ہوا۔ اس کے خلاف ایک تحریک چلی، سینکڑوں کارکنوں کی گرفتاریاں ہوئیں اور حکومت مسجد کا قبضہ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اس تحریک سے قطع نظر کنونشن کے مقررین کے خلاف ۱۶ ایم پی او کے تحت تین مقدمات درج ہوئے جن میں مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ، مولانا مفتی محمودؒ، مولانا عبید اللہ انورؒ، مولانا محمد شاہ امروٹیؒ اور مولانا ایوب جان بنوریؒ سمیت تیس سے زائد سرکردہ علماء کرام شامل تھے اور میرا نام بھی ان میں شامل تھا۔ جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ نے ان کیسوں میں قبل از گرفتاری ضمانتیں نہ کرانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس لیے میں بھی پابند تھا کہ ضمانت نہ کراؤں جبکہ میں مقامی طور پر رہنے والا تھا اور ہر وقت پولیس چوکی گھنٹہ گھر کی نظروں میں تھا۔ پولیس چوکی کے اے ایس آئی غضنفر شاہ نے جو شیعہ تھا خود مجھے جامع مسجد میں آکر کہا کہ آپ کے خلاف مقدمہ ہے اس لیے آپ ضمانت کرالیں۔ میں نے جواب دیا کہ ہم نے ضمانت نہ کرانے کا فیصلہ کیا ہے، وہ خاموشی سے واپس چلا گیا۔ ہفتہ عشرہ کے بعد پھر آیا اور ضمانت کا تقاضہ دہرایا، میں نے وہی جواب دہرایا اور وہ پھر واپس چلا گیا۔

اس سے کچھ روز بعد کی بات ہے کہ راقم الحروف اور جمعیۃ علماء اسلام کے راہنما ڈاکٹر غلام محمد صاحب جی ٹی روڈ پر جا رہے تھے کہ وہی اے ایس آئی سامنے سے آرہا تھا۔ اس نے ملتے ہی پوچھا کہ مولوی صاحب ضمانت نہیں کرانی؟ میں نے جواب دیا، نہیں۔ اس نے کہا کہ آئیں پھر چلیں (یعنی آپ کو گرفتار کر رہا ہوں)۔ ڈاکٹر غلام محمد صاحب نے اس سے کہا کہ اللہ کے بندے تین روز کے بعد عید ہے اس لیے عید کے بعد چلیں گے۔ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے عید کی چھٹیاں ختم ہوتے ہی آپ پولیس چوکی میں آجائیں۔ اس وقت تھانہ باغبانپورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور وہاں چوکی پولیس گھنٹہ گھر ہوا کرتی تھی۔ عید کی چھٹیاں گزرنے کے بعد میں اور ڈاکٹر غلام محمد صاحب حسبِ وعدہ چوکی پہنچے، اس شیعہ اے ایس آئی نے میری گرفتاری ڈالی اور کہا کہ مولوی صاحب! مجھے آپ کو رات حوالات میں رکھتے ہوئے شرم آتی ہے، آپ گھر چلے جائیں اور صبح ۹ بجے سٹی مجسٹریٹ اقبال بوسن کی عدالت میں آجائیں میں وہاں سے ریمانڈ لے کر آپ کو جیل میں چھوڑ آؤں گا۔ چنانچہ میں چوکی پولیس میں گرفتاری ڈلوا کر گھر چلا گیا، دوسرے روز ڈاکٹر غلام محمد صاحب کے ساتھ وعدہ کے مطابق سٹی مجسٹریٹ کی عدالت کے سامنے پہنچا تو مذکورہ اے ایس آئی ندارد۔ انتظار طویل ہوتا چلا گیا اور جب ایک بج گیا تو مجھے تشویش ہوئی۔ ایمانداری کی بات ہے کہ یہ تشویش اپنے بارے میں نہیں بلکہ اس اے ایس آئی کے بارے میں تھی کہ اس نے کل سے میری گرفتاری ڈال رکھی ہے اور اگر وہ آج عدالت کے وقت میں نہ پہنچا تو اس غریب کا کیا بنے گا؟ ہم نے چوکی پولیس میں فون کر کے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ کلر آبادی میں کوئی قتل ہوگیا ہے اور وہ اے ایس آئی تفتیش کے لیے گیا ہوا ہے۔ ہم نے چوکی محرر کو صورتحال بتائی کہ ہم تو اس کے انتظار میں کچہری میں کھڑے ہیں۔ چوکی والوں نے اسے کسی طرح اطلاع کرائی اور وہ بے چارہ بائیسکل پر بھاگم بھاگ دو بجے سے پہلے سٹی مجسٹریٹ کی عدالت میں پہنچا۔ ریمانڈ لیتے ہوئے سٹی مجسٹریٹ نے اے ایس آئی سے پوچھا کہ ملزم کو ہتھکڑی کیوں نہیں لگائی؟ اس نے جواب دیا کہ سر! یہ ملزم ہتھکڑی والا ہے؟ سٹی مجسٹریٹ نے پوچھا کہ اگر ملزم فرار ہوگیا تو؟ اے ایس آئی نے جواب دیا کہ سر! میں ذمہ دار ہوں۔

یہ واقعہ دسمبر ۱۹۷۵ء کا ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
ڈپٹی محبوب عالم نے آپ (شاہ ابو الخیر) سے کہا ؛ روسیوں نے مشہد میں ظلم و تعدی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ آپ کو بہت رنج ہوا۔ آپ کے رنج و افسوس کو دیکھ کر حاضرین میں سے کسی نے کہا۔ حضور وہاں تو شیعہ رہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:
" آخر کلمہ گو تو ہیں۔ ان کا نقصان ہمارا نقصان ، ان کی راحت ہماری راحت ہے۔ افسوس کہ اسی اختلاف نے مسلمانوں کو یہ روزِ بد دکھایا"

( مقاماتِ خیر از ابو الحسن زید فاروقی ، صفحہ 473 )
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
خواجہ قمر الدین سیالوی اور ایک سید صاحب
ایک دفعہ ایک سید صاحب جو اعتقادا شیعہ تھے اور دق کے مرض میں مبتلا ، خود کمانے سے مکمل طور پر معذور تھے اور گھر میں دوسرا کوئی شخص بھی اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہ تھا۔ ان کا ایک چھوٹا سا بچہ تھا اور بیوی اور بچیاں بھی۔
اپنے مسلک کے لینڈ لارڈ سادات کے پاس جا کر اپنی حالت زار عرض کی اور اپنی نسبت اور ہم عقیدگی کا واسطہ بھی دیا مگر کسی نے ان کی حالتِ زار کو در خور اعتناء نہ سمجھا۔ ناچار سیال شریف حاضر ہوئے اور اپنی لاچاری بتائی اور ساتھ اعتقادی تفاوت اور تخالف بھی۔ آپ نے محض ان کی نسبتی قرابت کو مدنظر رکھتے ہوئے عرصہ دراز تک ان کی بیماری ، خوراک اور اہل خانہ کا بوجھ برداشت کیا اور علیحدہ باپردہ مکان مہیا کر دیا۔ بندہ (مولانا محمد اشرف صاحب شیخ الحدیث) نے ایک دفعہ دیکھا کہ ان کا چھوٹا بچہ حضرت شیخ الاسلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور ضروری اشیاء مہیا کرنے کا مطالبہ کیا تو آپ نے فورا سب چیزیں مہیا کر دیں اور اپنے دونوں ہاتھ اس بچے کے قدموں پر رکھ کر کہا ، شاہ جی! مجھ سے راضی تو ہو؟ ناراض تو نہیں ہو؟
(ماہنامہ ضیائے حرم ، لاہور ، شیخ الاسلام نمبر )
 

سیما علی

لائبریرین
خواجہ قمر الدین سیالوی اور ایک سید صاحب
ایک دفعہ ایک سید صاحب جو اعتقادا شیعہ تھے اور دق کے مرض میں مبتلا ، خود کمانے سے مکمل طور پر معذور تھے اور گھر میں دوسرا کوئی شخص بھی اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہ تھا۔ ان کا ایک چھوٹا سا بچہ تھا اور بیوی اور بچیاں بھی۔
اپنے مسلک کے لینڈ لارڈ سادات کے پاس جا کر اپنی حالت زار عرض کی اور اپنی نسبت اور ہم عقیدگی کا واسطہ بھی دیا مگر کسی نے ان کی حالتِ زار کو در خور اعتناء نہ سمجھا۔ ناچار سیال شریف حاضر ہوئے اور اپنی لاچاری بتائی اور ساتھ اعتقادی تفاوت اور تخالف بھی۔ آپ نے محض ان کی نسبتی قرابت کو مدنظر رکھتے ہوئے عرصہ دراز تک ان کی بیماری ، خوراک اور اہل خانہ کا بوجھ برداشت کیا اور علیحدہ باپردہ مکان مہیا کر دیا۔ بندہ (مولانا محمد اشرف صاحب شیخ الحدیث) نے ایک دفعہ دیکھا کہ ان کا چھوٹا بچہ حضرت شیخ الاسلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور ضروری اشیاء مہیا کرنے کا مطالبہ کیا تو آپ نے فورا سب چیزیں مہیا کر دیں اور اپنے دونوں ہاتھ اس بچے کے قدموں پر رکھ کر کہا ، شاہ جی! مجھ سے راضی تو ہو؟ ناراض تو نہیں ہو؟
(ماہنامہ ضیائے حرم ، لاہور ، شیخ الاسلام نمبر )
بے حد کمال اصل کمالِ انسانیت یہی ہے ۔ مالک اُنکو جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔۔۔۔۔
 
Top