رمزِ اَخلاق

جزاک اللہ خیر علوی بھائی ۔
یہ دیکھ لیں :

چلیں اس بہانے آپ دو بزرگوں نے مجھ سے ایک لفظ "دو لفظی " سیکھ ہی لیا۔کوئی بات نہیں کچھ نہ کچھ اپنے چھوٹوں سے بھی سیکھتے ہی رہنا چاہیے۔
میرے نزدیک آدمی بوڑھا تب ہوتا ہے جب اس میں مثبت تبدیلی کی سکت اور گنجائش نہ رہے۔😊
یاسر بھائی ، جواب کا شکریہ ! بھائی ، اِس سے قبل کہ میں کچھ اور عرض کروں ، ایک وعدہ کیجئے کہ آئندہ مجھے بزرگوں میں شمار نہیں کرینگے . مجھے اپنی امیج کی فکر نہیں ، :) مقامِ بُزُرْگی کا پاس ہے ، جس كے لائق میں قطعی نہیں ہوں . اور رہا سیکھنے کا امر تو وہ تو میرے لیے ہمیشہ جاری رہتا ہے اور انشا اللہ رہیگا ، خواه ذریعہ کوئی بھی ہو .
یاسر بھائی ، میں اِخْتِصار کی کوشش میں اکثر اپنی بات واضح نہیں کر پاتا . مجھے ’دو لفظی‘ كے وجود پر شک نہیں تھا . لیکن مسئلہ وہی تھا جو ظہیر بھائی نے فرمایا ہے . آپ نے ’ دو لفظی‘ کو بغیر موصوف كے بطور فاعل استعمال کیا ہے ، اور یہ مجھے عجیب لگا .
 

یاسر شاہ

محفلین
یاسر بھائی ، جواب کا شکریہ ! بھائی ، اِس سے قبل کہ میں کچھ اور عرض کروں ، ایک وعدہ کیجئے کہ آئندہ مجھے بزرگوں میں شمار نہیں کرینگے . مجھے اپنی امیج کی فکر نہیں ، :) مقامِ بُزُرْگی کا پاس ہے ، جس كے لائق میں قطعی نہیں ہوں . اور رہا سیکھنے کا امر تو وہ تو میرے لیے ہمیشہ جاری رہتا ہے اور انشا اللہ رہیگا ، خواه ذریعہ کوئی بھی ہو .
جزاک اللہ خیر و احسن الجزاء -علوی بھائی آپ کی باتیں دل کو بھاتی ہیں -میں آپ کو بزرگوں میں نہیں بلکہ ایک بے تکلف بڑے بھائی کی طرح سمجھوں گا،یوں ان شاء اللہ گفت و شنید سے سیکھنے سکھانے کا سلسلہ چل نکلے گا-

یاسر بھائی ، میں اِخْتِصار کی کوشش میں اکثر اپنی بات واضح نہیں کر پاتا . مجھے ’دو لفظی‘ كے وجود پر شک نہیں تھا . لیکن مسئلہ وہی تھا جو ظہیر بھائی نے فرمایا ہے . آپ نے ’ دو لفظی‘ کو بغیر موصوف كے بطور فاعل استعمال کیا ہے ، اور یہ مجھے عجیب لگا .
آپ کا نکتہ بالکل واضح ہے اور ڈھنگ سے ادا ہوا ہے کہ غلط قرار دے کر "court is adjourned" نہیں کہا گیا بلکہ یوں کہہ کر کہ
اور یہ مجھے عجیب لگا .
صحیح معنوں میں اس شعر کا پاس کیا گیا ہے
خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے "نکتہ چینوں"کو

"نکتہ چینوں" اس لیے کہا کہ میرا دل آبگینہ تو ہے نہیں بلکہ سرتاپا نکتہ چین ہوں اور اوروں کی نکتہ چینی کے لیے ہر دم تیّار رہتا ہوں ،ایسے میں کوئی میری بھی رعایت کر لے تو اضافی شکریے کا حقدار ہوا -

اب آتے ہیں بحث(کہ جو بری چیز نہیں ) کی طرف یعنی آپ کا مدّعا بالکلیہ وہی ہے جو ظہیر صاحب دامت برکاتہم کا ہے کہ دو لفظی ہی نہیں "دو حرفی" صفت بھی بغیر موصوف کے استعمال نہیں ہو سکتی -
دو لفظی کو بطور اسم استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ یہ صفت ہے اور تجنیس سے ماورا ہے۔ اس کے بعد کسی موصوف کا آنا ضروری ہے مثلاً دو لفظی جواب ، دو لفظی بیان ، دو لفظی تحریر وغیرہ۔ بالکل انہی معنوں میں دو حرفی اور دو سطری کے الفاظ بھی مستعمل ہیں اور یہ دونوں بھی صفت ہیں ، اسم نہیں ہیں۔ ان الفاظ کے بعد بھی کسی موصوف کا آنا ضروری ہے ۔
یعنی دلیل سے اگر" دو حرفی" کااستعمال بغیر موصوف ثابت ہو گیا تو "دو لفظی" کا بھی اس قبیل کا استعمال ثابت ہو جائے گا -


لغت کا حوالہ تو یہ رہا
اس حوالے کے آخر میں اردو میں "دو حرفی" کے استعمال کی مثال موصوف کے بغیر درج ہے :

١ - [ کنایتا ] شراب، دارو، مے۔
"آج تو دو حرفی پلواؤ۔" ( ١٨٨٦ء، مخزن المحاورات، ٤٧٣ )

چنانچہ میرے شعر کو دیکھیے :

دو لفظی بھی ان کے ہاں کی ساری کتب پر بھاری ہے
جب سے پڑھا "وَلِرَبِّكَ فَاصْبِر" صبر میں کیف سا طاری ہے

یہاں دو لفظی اشارہ ہے اس جزو آیت کی طرف جو دوسرے مصرع میں موجود ہے یعنی :"وَلِرَبِّكَ فَاصْبِر"

اب ڈاکٹر اقبال مرحوم کا ایک فارسی شعر دیکھیے :

نہاں اندر دو حرفی سِرِّ کار است
مقامِ عشق منبر نیست ، دار است

یہاں دو حرفی کنایہ ہے "انا الحق " کی طرف اور بغیر موصوف کے مستعمل ہے -

واللہ اعلم بالصواب
 

یاسر شاہ

محفلین
اور اپنے رب ہی کے لیے پس صبر کر۔صبر صرف اور صرف اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے ہو۔
لقمان نے اپنے بیٹے کو فرمایا تھا ۔۔۔وامر بالمعروف وانہ عن المنکر واصبر علی ما اصابک ان ذلک من عزم الامور) (لقمان : ١٨) ” اور نیکی کا حکم کر اور برائی سے منع کر اور جو تکلیف تجھے پہنچے اس پر صبر کر، یقیناً یہ ہمت کے کاموں سے ہے۔ “
اس آیت کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کے حکم کا انتظار کیجیے اور جو بھی حکم آئے اس پر عمل کیجیے۔۔یہ وہ اولین ہدایات جو اللہ تعالی نے اپنے رسول کو اس وقت دی تھیں جب اس نے آپ کو یہ حکم دیا تھا کہ آپ اٹھ کر نبوت کے کام کا آغاز فرما دیں۔
سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :7 یعنی یہ کام جو تمہارے سپرد کیا جا رہا ہے ، بڑے جان جوکھوں کا کام ہے ۔ اس میں سخت مصائب اور مشکلات اور تکلیفوں سے تمہیں سابقہ پیش آئے گا۔
خالہ جزاک اللہ خیر و احسن الجزاء- آپ کا قرآن سے لگاؤ قابل تعریف ہے-
 

یاسر شاہ

محفلین
اچھے اخلاق یقینا ایک انسان کو اشرف الخلوقات کے درجے تک پہنچا دیتے ہیں۔
کاش ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر اخلاق کے اعلی درجے کو پا سکیں۔ آمین
آمین
@یاسر شاہ بھائی ذرا ان اشعار کے پس منظر پر نظر ڈالئے، اگر ممکن ہو۔ دکھاوا، ظاہر داری، باتیں بنانا اور جلنا بمعنی حسد یا جلنا کڑھنا اخلاقی بیماریاں ہیں۔ ان کا علاج صبر سے کیا جا سکتا ہے۔ یہی سمجھ میں آیا ہے۔ کیا درست سمجھا ہے آپ کی نالائق بہن نے یا نہیں۔ رہنمائی کیجیے۔
صابرہ بہن !آپ بہت قریب ہیں واقعی اخلاق کا نچوڑ دراصل "صبر" ہے اور یہ بہت جامع لفظ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر طرح کے حالات میں کرنے والے کام کرتے رہنا اور نہ کرنے والے کاموں سے بچتے رہنا لیکن رمز اخلاق در اصل محبّت ہے کیونکہ صبر در حقیقت ایک تلخ کام ہے اور محبّت اسے شیریں بنا دیتی ہے -بقول مولانا رومی :

از محبت تلخ ہا شیریں شود
وز محبت مس ہا زریں شود

از محبت درد ہا صافی شود
وز محبت درد ہا شافی شود

از محبت خار ہا گل می شود
وز محبت سرکا ہا مل می شود

از محبت دار تختہ می شود
وز محبت بار بختے می شود

از محبت سجن گلشن می شود
بے محبت روضہ گلخن می شود

از محبت نار نورے می شود
از محبت دیو حورے می شود

از محبت سنگ روغن می شود
بے محبت موم آہن می شود

از محبت نیش نوشے می شود
وز محبت شیر موشے می شود

از محبت سقم صحت می شود
وز محبت قہر رحمت می شود

از محبت مردہ زندہ می شود
وز محبت شاہ بندہ می شود



وہ محبوب حقیقی جو سب کو ہر دم اپنی نظر میں لیے ہوئے ہو ، اگر فرما دے "وَلِرَبِّكَ فَاصْبِر" " آپ ہمارے لیے صبر کیجیے" اور"ربک "فرما کر ربوبیت یعنی پالنے کا واسطہ بھی دے رہا ہو تو عاشق صبر پر مجبور و مست ہو جاتا ہے اور اگر عاشق نہ ہو تو لاکھ کورسز کروا دیجیے ٹٹ فار ٹیٹ رہتا ہے -پس منظر ان اشعار کا در اصل ایک "سافٹ اسکلز" کورس تھا جس میں پیشہ ورانہ اخلاق، ادارے اور اپنی فلاح معاش کے لیے پڑھائے جا رہے تھے جسے دل و دماغ نے یکسر مسترد کر دیا کہ نیت ہی غلط سکھائی جا رہی تھی سو کم از کم میرے لیے سراسر مشقّت تھے -دل میں ایک کڑھن پیدا ہوئی کہ ہمارے پاس دریا ہے اور غیروں کے آگے پانی پانی چلا رہے ہیں -اگر سرور کونین صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اخلاق اپنا لیں تو مخصوص لوگوں کے سامنے آٹھ گھنٹے کے لیے فنکاری کی نوبت ہی نہ آئے بلکہ کیا اپنے کیا پرائے کیا انسان کیا جانور سب کے لیے ہمہ وقت و سراپا شفقت ہو جائیں -

مجھ جیسے ناقص عشق رکھنے والے کو بھی غصّے کے وقت یہ آیت مستحضر ہو جائے تو اکسیر کا کام کرتی ہے -کامل عشاق کو تو ہر وقت یہ مستحضر رہتی ہے چنانچہ جن پہ یہ آیت نازل ہوئی انھوں نے تو فرمان کا حق ادا کر دیا- صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم- کبھی اپنی ذات کے لیے انتقام نہ لیا -بقول شخصے :

ہم زمانے سے انتقام تو لیں
اک حسیں درمیان ہے پیارے

ابھی کچھ عرصہ قبل ایک شخص جو اسلام دشمنی پہ کتاب لکھنے والا تھا ،تحقیق کے دوران حضور صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اخلاق کو پڑھ کر مسلمان ہو گیا کہ کس طرح انھوں نے اپنے محبوب چچا کے قاتلوں کو معاف کر دیا -سننے سے تعلّق رکھتی ہے کار گزاری خصوصا آٹھویں منٹ کے بعد سے :


 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
لغت کا حوالہ تو یہ رہا
اس حوالے کے آخر میں اردو میں "دو حرفی" کے استعمال کی مثال موصوف کے بغیر درج ہے :

١ - [ کنایتا ] شراب، دارو، مے۔
"آج تو دو حرفی پلواؤ۔" ( ١٨٨٦ء، مخزن المحاورات، ٤٧٣ )
یاسر بھاااااائی! آپ تو کمال پر کمال کیے جارہے ہیں ۔ :D

معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ آپ گڑبڑ کررہے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ آپ ادبی بددیانتی سے کام لے رہے ہیں لیکن آپ خود ہی اپنی بات اور لغت کے حوالے پر غور کرلیجیے۔ آپ نے صفت کی بات کرکے مثال اسم کی دے دی۔ دو حرفی اگر صفت ہونے کے علاوہ ایک شراب کا نام بھی ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے بعد کسی موصوف کی ضرورت نہیں۔ موصوف کی ضروت تو صفت کے بعد ہوتی ہے ، اسم کے بعد نہیں۔ اگر کسی لفظ کے ایک سے زیادہ معانی ہوں تو ان پر قواعد بھی بلحاظِ معنی لاگو ہوں گے۔ جیسے لفظ "کھانا" فعل بھی ہے اور اسم بھی۔ جب یہ بطور اسم استعمال ہوگا تو اس پر اسم کے قواعد لاگو ہوں گے اور فعل کی صورت میں فعل کے قواعد۔ وعلیٰ ھذا القیاس۔
دو حرفی کا جو حوالہ آپ نے لغت کا دیا ہے وہ آپ کی تفہیم کے لیے میں جوں کا توں پورا کا پورا ذیل میں نیلے رنگ سے نقل کردیتا ہوں:

صفت ذاتی ( واحد )

١ - نہایت مختصر، تھوڑا سا۔
"وہ اس مجموعے کو . مناسب مقدمے کے ساتھ شائع کریں گے لیکن اس کے ساتھ کوئی دو حرفی تعارف بھی تو ہیں۔" ( ١٩٥٨ء، نکتۂ راز، ٢٨٩ )
٢ - معمولی، تھوڑا سا۔
"ایک لکھانہ پڑھا فاضل مشہور ہے، دوسرا دو حرفی لیاقت کے نشہ میں چور ہے۔" ( ١٩٥٨ء، آزاد (ابوالکلام)، ارمغان آزاد، ١٤٨ )

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )

١ - [ کنایتا ] شراب، دارو، مے۔
"آج تو دو حرفی پلواؤ۔" ( ١٨٨٦ء، مخزن المحاورات، ٤٧٣ )


اب ڈاکٹر اقبال مرحوم کا ایک فارسی شعر دیکھیے :

نہاں اندر دو حرفی سِرِّ کار است
مقامِ عشق منبر نیست ، دار است
ارمغانِ حجاز سے علامہ اقبال کا جو فارسی شعر آپ نے لکھا ہے اس میں "دو حرفی" نہیں بلکہ "دو حرفے" استعمال ہوا ہے۔ (فارسی میں بڑی ے نہیں ہوتی اسے چھوٹی ی سے لکھتے ہیں لیکن اس کا تلفظ "کہ" کی طرز پر بڑی ے کی طرح کرتے ہیں)۔ دوسری بات یہ کہ فارسی زبان میں اردو کے "دو حرفی" کی طرح کوئی ترکیب موجود نہیں ہے۔ دو اور حرفے الگ الگ الفاظ ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ بات جان لیجیے کہ اردو میں اکثر کسی اسم کے آخر میں چھوٹی ی (جسے یائے نسبتی کہتے ہیں) کا اضافہ کرکے اس سے صفت بنائی جاتی ہے جیسے وزن سے وزنی ، فلک سے فلکی ، زمین سے زمینی ، وغیرہ۔ لیکن فارسی میں اسم کے آخر میں "ی" کے اضافے سے عموماً اسم نکرہ بنایا جاتا ہے۔ جیسے اس مشہور شعر میں:
برمزارِ ما غریباں نی چراغی نی گلی
نی پرِ پروانہ سوزد نی صدای بلبلی
فارسی زبان میں حرف کے معنی بات ،سخن یا لفظ کے ہوتے ہیں۔ (جیسے حرفِ تحسین ، حرفِ دگر ، حرفِ نارسا وغیرہ)۔ کسی لغت میں معنی دیکھ لیجیے۔ اقبال کے شعر میں دو حرفی (دو حرفے) کے معنی ہوئے دو لفظ یا دو باتیں ۔ جس طرح یک حرفی کے معنی ایک بات یا ایک لفظ ہوتے ہیں۔
 

یاسر شاہ

محفلین
ظہیر بھائی السلام علیکم

بحث تو چلتی رہے گی سوچا ایک اعتراف کرتا چلوں، محفل میں دو لوگ ہیں جن کی خندہ پیشانی اور کشادہ دلی نے مجھے بہت متاثر کیا -ایک سیما خالہ اور دوسرے آپ ،آپ لوگوں کے دم سے یہاں رونق ہے ،الله تعالیٰ آپ لوگوں کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے، صحت و عافیت سے رکھے آمین -ان شاء الله اس بحث سے آپ کے لیے جو میرے دل میں احترام و محبّت کے جذبات ہیں ،ان میں کمی نہیں آئے گی- امید ہے آپ کے دل میں بھی میری شفقت کم نہ ہو گی اور میرے برتاؤ کی کوتاہیوں سے درگزر کرتے رہیں گے ،یوں ہی اگر سلسلہ چلے تو بحث بھی ایک عمدہ طریقہ ہے سیکھنے سکھانے کا، محفل میں بھی ہلچل لگی رہتی ہے-اب ملاکھڑا شروع کرتے ہیں :)

اس حوالے کے آخر میں اردو میں "دو حرفی" کے استعمال کی مثال موصوف کے بغیر درج ہے :

١ - [ کنایتا ] شراب، دارو، مے۔
"آج تو دو حرفی پلواؤ۔" ( ١٨٨٦ء، مخزن المحاورات، ٤٧٣ )
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ آپ گڑبڑ کررہے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ آپ ادبی بددیانتی سے کام لے رہے ہیں لیکن آپ خود ہی اپنی بات اور لغت کے حوالے پر غور کرلیجیے۔ آپ نے صفت کی بات کرکے مثال اسم کی دے دی۔
چلیں موصوف لکھنے پہ معذرت چاہتا ہوں -اصل آپ کا نکتہ اعتراض یہ تھا :
آپ نے دو لفظی کو بطور اسمِ مؤنث استعمال کیا ( دو لفظی بھی ان کے ہاں کی ساری کتب پر بھاری ہے)

دو لفظی کو بطور اسم استعمال نہیں کیا جاسکتا
بالکل انہی معنوں میں دو حرفی اور دو سطری کے الفاظ بھی مستعمل ہیں اور یہ دونوں بھی صفت ہیں ، اسم نہیں ہیں۔

اور اس کی مثال یہ پیش کر دی

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )​

١ - [ کنایتا ] شراب، دارو، مے۔
"آج تو دو حرفی پلواؤ۔" ( ١٨٨٦ء، مخزن المحاورات، ٤٧٣ )

یعنی "دو حرفی" کا اسمیہ بطور تانیث استعمال -اب ٹھیک ہے ؟
 

یاسر شاہ

محفلین
ظہیر بھائی فارسی سے میں خود بھی نابلد ہوں لیکن اقبال کا فارسی شعر پیش کر رہا تھا تو تھوڑی سی تحقیق بطور ہوم ورک کی تھی جس کی وجہ سے آپ کی رائے سے اختلاف پیدا ہو رہا ہے دیکھ لیجیے گا :

دوسری بات یہ کہ فارسی زبان میں اردو کے "دو حرفی" کی طرح کوئی ترکیب موجود نہیں ہے۔ دو اور حرفے الگ الگ الفاظ ہیں

اردو میں اکثر کسی اسم کے آخر میں چھوٹی ی (جسے یائے نسبتی کہتے ہیں) کا اضافہ کرکے اس سے صفت بنائی جاتی ہے جیسے وزن سے وزنی ، فلک سے فلکی ، زمین سے زمینی ، وغیرہ۔ لیکن فارسی میں اسم کے آخر میں "ی" کے اضافے سے عموماً اسم نکرہ بنایا جاتا ہے

دوحرفی​

لغت‌نامه دهخدا​

دوحرفی . [ دُ ح َ ] (ص نسبی ) ثنایی . کلمه ای که دو حرف داشته باشد. (یادداشت مؤلف ). با دو حرف .

جست‌وجوی دوحرفی در واژه‌نامه‌های دیگر نگارش معنی دیگر برای دوحرفی

فارسی میں اسم کے آخر میں "ی" کے اضافے سے عموماً اسم نکرہ بنایا جاتا ہے۔ جیسے اس مشہور شعر میں:
برمزارِ ما غریباں نی چراغی نی گلی
نی پرِ پروانہ سوزد نی صدای بلبلی
اس کو یائے تنکیر کہتے ہیں اور یہ غیر معیّن اشخاص یا اشیاء کے لیے استعمال ہوتی ہے جیسا کہ آپ کے پیش کردہ شعر میں گل اور بلبل خاص نہیں بلکہ عام مراد ہیں تو انھیں "گلی" اور "بلبلی" کر دیا -حوالہ دیکھیے:

یائے تَنکِیر​

yaa-e-tankiirया-ए-तंकीर​

یائے تَنکِیر کے اردو معانی​

اسم, مؤنث
  • اعلام مشترکہ کے آخر میں غیر معین اشخاص یا اشیاء مراد لینے کی غرض سے بڑھائی جانی والی ’’ے ‘‘ جیسے شخصے ، مردے وزیرے وغیرہ ایسی ے اردو میں لازما مجہول ہوتی ہے اور جدید فارسی میں معروف ہوتی ہے ۔

اسی طرح مولانا رومی کا شعر ہے :

زهره نی کس را که یک حرفی از آن
یا بدزدد یا فزاید در بیان

.None dares either steal (take away) a single letter thereof or add to the plain Word
یہاں بھی حرف خاص نہیں کوئی بھی ایک حرف مراد ہے لہٰذا "یک حرفی " میں یائے تنکیر ہے جو ترجمے سے بھی عیاں ہے لیکن اقبال کے شعر میں ،میرا غالب گمان یہی ہے
نہاں اندر دو حرفی سِرِّ کار است
مقامِ عشق منبر نیست ، دار است
دار (سولی )کا ذکر کر کے خاص منصور( ر ح )کی طرف اشارہ ہے سو دو حرفی سے بھی ان کے کہے دو لفظ "انا الحق " مراد ہیں،لہٰذا دو حرفی میں تخصیص ہے نہ کہ تعمیم -واللہ اعلم بالصواب
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
جن کی خندہ پیشانی اور کشادہ دلی نے مجھے بہت متاثر کیا -ایک سیما خالہ اور دوسرے آپ ،آپ لوگوں کے دم سے یہاں رونق ہے ،الله تعالیٰ آپ لوگوں کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے، صحت و عافیت سے رکھے آمین
اللہ پاک آپ پر ہمیشہ اپنا کرم فرمائے ۔آپکی محبت کا بیحد شکریہ ۔سلامت رہئے ۔ڈھیر ساری دعائیں 🥰
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی السلام علیکم

بحث تو چلتی رہے گی سوچا ایک اعتراف کرتا چلوں، محفل میں دو لوگ ہیں جن کی خندہ پیشانی اور کشادہ دلی نے مجھے بہت متاثر کیا -ایک سیما خالہ اور دوسرے آپ ،آپ لوگوں کے دم سے یہاں رونق ہے ،الله تعالیٰ آپ لوگوں کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے، صحت و عافیت سے رکھے آمین -ان شاء الله اس بحث سے آپ کے لیے جو میرے دل میں احترام و محبّت کے جذبات ہیں ،ان میں کمی نہیں آئے گی- امید ہے آپ کے دل میں بھی میری شفقت کم نہ ہو گی اور میرے برتاؤ کی کوتاہیوں سے درگزر کرتے رہیں گے ،یوں ہی اگر سلسلہ چلے تو بحث بھی ایک عمدہ طریقہ ہے سیکھنے سکھانے کا، محفل میں بھی ہلچل لگی رہتی ہے-اب ملاکھڑا شروع کرتے ہیں :)

چلیں موصوف لکھنے پہ معذرت چاہتا ہوں -اصل آپ کا نکتہ اعتراض یہ تھا :

اور اس کی مثال یہ پیش کر دی

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )​

١ - [ کنایتا ] شراب، دارو، مے۔
"آج تو دو حرفی پلواؤ۔" ( ١٨٨٦ء، مخزن المحاورات، ٤٧٣ )

یعنی "دو حرفی" کا اسمیہ بطور تانیث استعمال -اب ٹھیک ہے ؟
وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔
یاسر بھائی ، آپ کے نیک جذبات و خواہشات اور دعاؤں کے لیے آپ کا بہت شکریہ!میں بہت ممنون ہوں۔ اللّٰہ کریم آپ کو خوش رکھے۔ یہ دعائیں آپ کے حق میں بھی قبول کرے۔ آپ کو دین و دنیا کی فلاحِ عظیم نصیب فرمائے ۔ آمین ۔
بھائی ، میں گوشہ نشین آدمی ہوں اور یہ گوشہ نشینی خود اختیار کردہ ہے۔ یہ مجھے راس آتی ہے اور عافیت میں رکھتی ہے۔ اردو محفل پر اس لیے آتا ہوں کہ مجھ پر جو قرض ہے اسے بقدرِ توفیق اتار سکوں یعنی جو کچھ میں نے اپنے بڑوں سے حاصل کیا اس میں سے کچھ نہ کچھ اوروں تک پہنچا سکوں۔ یہ شمع سے شمع جلانے کا عمل ہے کہ جسے یہاں جاری رکھنے کی اپنی سی سعی کرتا ہوں۔ اس سعی میں داد و بیداد ، تحسین و تحقیر ، پھول یا پتھر جو کچھ بھی ملے میرے لیے بے معنی ہے۔ الحمدللّٰہ میں نے آج تک محفل میں کسی کے تبصرے یا رویے کو ذاتی مسئلہ نہیں بنایا۔ اس لیے کہ اردو کو تندرست اور زندہ رکھنے کا مشن میری ذات سے بہت بلند و بالا ہے۔ ورنہ منہ میں زبان تو ہر شخص رکھتا ہے۔
یاسر بھائی ، شاید آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ میں شعر کے نفسِ مضمون پر کبھی بات نہیں کرتا کہ اس بارے میں ہر قاری کا اپنا نکتۂ نظر اور زاویہ ہوتا ہے۔ میں ہمیشہ شعر کے لسانی پہلو پر بات کرتا ہوں۔کوئی لفظ درست استعمال نہ ہوا ہو ، گرامر کا کوئی سقم ہو ، زبان و بیان کی کوئی خامی ہو تو میں مناسب انداز اور مناسب موقع پر اس کی نشاندہی کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی آمد کے بعد سے اردو بوجوہ انحطاط پذیر نظر آتی ہے چنانچہ اس بگاڑ کو روکنے کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔ دوسری بات یہ کہ لسانی بحث کو فیصل کرنا نہایت آسان ہے۔ فیصلے کے لیے لغت اور گرامر کے مسلم اور مستند اصول اور نظائر موجود ہیں جو ذاتی رائے اور قیاس آرائی پر فوقیت رکھتے ہیں۔ انہیں کوئی مانے یا نہ مانے یہ الگ بات ہے۔ لیکن میرا فرض ادا ہوجاتا ہے۔ اس محفل پر بہت سارے لوگ ان مباحث کو پڑھتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ کچھ فیض ضرور پاتے ہوں گے۔

آمدم برسرِ مطلب ، یہ گفتگو اپنے اصل موضوع سے کوسوں دور چلی گئی ہے۔یاسر بھائی، معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اب تک آپ کی ساری گفتگو دو حرفی سے متعلق رہی ہے۔ آپ اصل نکتے سے زیادہ ضمنی نکات پر گفتگو کررہے ہیں جن کا اصل موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور اس میں استدلال بھی آپ کا ٹھیک نہیں ہے۔ خیر ، اب تک جو بات میں نے اوپر اپنے مراسلوں میں کی ہے اس کو مختصراً پھر بیان کر دیتا ہوں تاکہ نکتۂ زیرِ بحث واضح ہوجائے اور گفتگو اصل موضوع پر واپس آجائے: :)
آپ نے دولفظی کو بطور اسم مؤنث استعمال کیا جبکہ یہ اسم ہے ہی نہیں۔ یہ صفت ہے اور اس کے معنی ہیں مختصر یا اجمالی۔ یہ صفت ہے اور تجنیس سے ماورا ہے۔ اس کی جنس کا تعین اس کے موصوف سے ہوگا۔ یعنی دولفظی بیان (مؤنث) ، دو لفظی جواب (مذکر) ، دو لفظی تمہید (مذکر)۔ وعلیٰ ھذاالقیاس۔ گرامر کا مسلم اصول ہے کہ صفت کے ساتھ موصوف کا ہونا ضروری ہے۔
میں نے مندرجہ بالا بات کی وضاحت کے لیے یہ مثال دی کہ دو حرفی اور دوسطری بھی بالکل انہی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں ، یہ دونوں الفاظ بھی صفت ہیں اور اسم نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ بھی کسی موصوف کا آنا ضروری ہے۔ اب آپ کہتے ہیں کہ دو حرفی کے ایک معنی شراب کے بھی ہیں (حوالہ: آج تو دو حرفی پلوادو) ، یہ اسم مؤنث ہے اور مجرد استعمال ہوا ہے چنانچہ دو لفظی بھی مجرد استعمال ہوسکتا ہے۔ یاسر بھائی ، یہ تو ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ والی بات ہوئی۔ :)
بندۂ خدا ، جب میں نے دو لفظی کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ لکھا کہ دو حرفی اور دوسطری بھی بالکل انہی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں ، یہ دونوں الفاظ بھی صفت ہیں اور اسم نہیں ہیں ، ان کے ساتھ بھی کسی موصوف کا آنا ضروری ہے تو گفتگو کے تناظر یعنی سیاق و سباق میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دو حرفی اور دو سطری کے معانی بھی "مختصر ، اجمالی" ہوتے ہیں۔ اور اِن معنوں میں یہ دونوں الفاظ بھی صفت ہیں ، اسم نہیں ہیں۔ اب دو حرفی یا دو سطری کا لفظ اتفاق سے کسی شراب یا برتن یا اوزار یا ہتھیار کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے تو ہوتا رہے اس کا مذکورہ بحث سے کیا تعلق ہے۔ ایک لفظ کے ایک سے زیادہ معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک ہی لفظ کسی معنی میں اسم ہو سکتا ہے ، کسی معنی میں صفت اور کسی معنی میں فعل بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں اس سے غرض نہیں۔ گفتگو تو اس بارے میں ہورہی ہے کہ دو حرفی ، دو لفظی ، دو سطری ان سب کے معنی ہیں مختصر ، اجمالی۔ ان معنوں میں یہ تینوں الفاط صفت ہیں اور استعمال کے لیے موصوف کے محتاج ہیں۔
یاسر بھائی، اگر اب بھی بات سمجھ میں نہیں آئی تو پھر ایک اور بالکل ہی سادہ سی بیہودہ مثال دیتا ہوں: لفظ "شکست" کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے میں یہ کہتا ہوں کہ بالکل انہی معنوں میں لفظ "ہار" بھی استعمال ہوتا ہے۔ اتفاق سے ہار کے ایک معنی پھولوں کی مالا کے بھی ہیں۔ اب اس پر قیاس کرتے ہوئے اگر کوئی یہ کہے کہ امجد صاحب نے دولہا کے گلے میں شکست ڈالی تو آپ ہی بتائیے کہ یہ استدلال درست ہے یا نا درست؟ اسی طرح شکست اسم ِ مؤنث ہے۔ ہار کا لفظ جب پھولوں کی مالا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے تو اسمِ مذکر ہے ۔ اب اس پر قیاس کرتے ہوئے کوئی یہ کہے کہ چونکہ ہار مذکر ہے اس لیے شکست کو بھی مذکر استعمال کیا جاسکتا ہے تو کیا یہ درست ہوگا؟! جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا اگر کسی لفظ کے ایک سے زیادہ معانی ہوں تو ان پر قواعد بھی بلحاظِ معنی لاگو ہوں گے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی فارسی سے میں خود بھی نابلد ہوں لیکن اقبال کا فارسی شعر پیش کر رہا تھا تو تھوڑی سی تحقیق بطور ہوم ورک کی تھی جس کی وجہ سے آپ کی رائے سے اختلاف پیدا ہو رہا ہے دیکھ لیجیے گا :
دوحرفی

لغت‌نامه دهخدا​

دوحرفی . [ دُ ح َ ] (ص نسبی ) ثنایی . کلمه ای که دو حرف داشته باشد. (یادداشت مؤلف ). با دو حرف .
جست‌وجوی دوحرفی در واژه‌نامه‌های دیگر نگارش معنی دیگر برای دوحرفی

اس کو یائے تنکیر کہتے ہیں اور یہ غیر معیّن اشخاص یا اشیاء کے لیے استعمال ہوتی ہے جیسا کہ آپ کے پیش کردہ شعر میں گل اور بلبل خاص نہیں بلکہ عام مراد ہیں تو انھیں "گلی" اور "بلبلی" کر دیا -حوالہ دیکھیے:
یائے تَنکِیر

yaa-e-tankiirया-ए-तंकीर​

یائے تَنکِیر کے اردو معانی​

اسم, مؤنث
  • اعلام مشترکہ کے آخر میں غیر معین اشخاص یا اشیاء مراد لینے کی غرض سے بڑھائی جانی والی ’’ے ‘‘ جیسے شخصے ، مردے وزیرے وغیرہ ایسی ے اردو میں لازما مجہول ہوتی ہے اور جدید فارسی میں معروف ہوتی ہے ۔
اسی طرح مولانا رومی کا شعر ہے :
زهره نی کس را که یک حرفی از آن
یا بدزدد یا فزاید در بیان

.None dares either steal (take away) a single letter thereof or add to the plain Word
یہاں بھی حرف خاص نہیں کوئی بھی ایک حرف مراد ہے لہٰذا "یک حرفی " میں یائے تنکیر ہے جو ترجمے سے بھی عیاں ہے لیکن اقبال کے شعر میں ،میرا غالب گمان یہی ہے
دار (سولی )کا ذکر کر کے خاص منصور( ر ح )کی طرف اشارہ ہے سو دو حرفی سے بھی ان کے کہے دو لفظ "انا الحق " مراد ہیں،لہٰذا دو حرفی میں تخصیص ہے نہ کہ تعمیم -واللہ اعلم بالصواب
یاسر بھائی ، فارسی کا عالم تو میں بھی نہیں ہوں لیکن الحمدللّٰہ تھوڑی بہت شد بد ضرور ہے ۔ کام چلاؤ واقفیت تو ہے ۔ علامہ اقبال کے فارسی شعر پر بات کرتے ہوئے میں نے گفتگو کو مختصر اور محدود ہی رکھا تاکہ بات اس غیر متعلق ضمنی نکتے پر نہ چل نکلے ، اصل موضوع تک ہی محدود رہے۔ لیکن اب آپ نے اسی غیر متعلق نکتے کو مزید پھیلا دیا۔ اس سے خلط مبحث پیدا ہوگیا ہے۔ خیر ، میں اس نکتے پر اپنی بات کو پھر مختصراً دہرا دیتا ہوں اور بات کو مزید صاف کردیتا ہوں۔ تکرار کے لیے پیشگی معذرت:
فارسی زبان میں اردو کی طرح "دو حرفی" کی ترکیب موجود نہیں ہے۔ یعنی فارسی میں دو حرفی کا مطلب " مختصر ، اجمالی" نہیں ہوتا۔ اقبال کے محولہ شعر میں جو دو حرفی (جسے اردو میں اور فارسی خطاطی میں دو حرفے لکھتے ہیں) استعمال ہوا ہے وہ دو الگ الگ الفاظ ہیں یعنی دو اور حرفی ۔ فارسی میں دو حرفے کے معنی ہوتے ہیں دو الفاظ یا دو بول یا دو باتیں یا دو کلمات۔ اقبال کے شعر کا لفظی ترجمہ یہ ہے: دو الفاظ (یا دو کلمات) کے اندر بہت کام کا راز پوشیدہ ہے۔ (وہ دو الفاظ یا دو کلمات یہ ہیں کہ) عشق کا اصل مقام منبر نہیں ہے ، دار ہے ۔

میں نے اقبال کے شعر میں دو حرفی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اردو میں اکثر کسی اسم کے آخر میں چھوٹی ی (جسے یائے نسبتی کہتے ہیں) کا اضافہ کرکے اس سے صفت بنائی جاتی ہے جیسے وزن سے وزنی ، فلک سے فلکی ، زمین سے زمینی ، وغیرہ۔ لیکن فارسی میں اسم کے آخر میں "ی" کے اضافے سے عموماً اسم نکرہ بنایا جاتا ہے (اسی لیے اسے یائے تنکیر کہتے ہیں)۔ عموماً کا مطلب یہ کہ فارسی میں بھی یائے نسبتی استعمال ہوتی ہے لیکن بہت کم۔ دھخدا کا جو اندراج آپ نے نقل کیا وہاں یائے نسبتی کی مثال ہے۔ یہاں دو حرفی کے معنی درج ہیں: دو حرفی لفظ یعنی کلمۂ دو حرفی۔ اسے عربی میں ثنائی کہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے سہ حرفی لفظ کوعربی میں ثلاثی کہتے ہیں۔ دو حرفی اور سہ حرفی انہی معنوں میں اردو میں بھی مستعمل ہیں ۔ یاسر بھائی ، اِس فارسی دو حرفی کا کوئی تعلق اردو کی اُس دو حرفی سے دور دور تک بھی نہیں ہے کہ جس کے معنی مختصر یا اجمالی ہوتے ہیں اور جس کے بارے میں یہ ساری گفتگو ہورہی ہے۔ امید ہے کہ میں اپنی بات واضح کرنے میں کامیاب ہوا ہوں گا اور گفتگو نکتۂ زیرِ بحث پر مرکوز رہے گی۔
یاسر بھائی ، اقبال کے شعر کے بارے میں یہ تو آپ نے لکھا ہی نہیں کہ میری رائے سے آپ کو کیا اختلاف پیدا ہورہا ہے۔ اگر اختلاف شعر کے مفہوم کے بارے میں ہے کہ یہاں اشارہ منصور کی طرف ہے یا نہیں ۔ تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ۔ اشارہ کسی طرف بھی ہو نکتہ یہ ہے کہ اس شعر میں "دو حرفی" دراصل "دو حرف" ہے جسے یائے تنکیر کے استعمال سے دو حرفی (یا اردو میں دو حرفے) بنادیا گیا ۔ اس کا اردو والے دو حرفی سے کوئی تعلق نہیں کہ جس کے بارے میں یہ گفتگو ہورہی ہے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
جزاک اللہ خیر ظہیر بھائی آپ کی شفقتوں کا بہت مقروض ہوں کہ باوجود مصروفیات کے اتنا وقت دیتے ہیں مجھے ۔
اتفاق سے ہار کے ایک معنی پھولوں کی مالا کے بھی ہیں۔ اب اس پر قیاس کرتے ہوئے اگر کوئی یہ کہے کہ امجد صاحب نے دولہا کے گلے میں شکست ڈالی تو آپ ہی بتائیے کہ یہ استدلال درست ہے یا نا درست؟
میں غلط ہوں آپ درست ہیں ،غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے ۔ بحث کی کامیابی کی شکست (پھولوں کی مالا) آپ کے حوالے۔:):)

دماغی تھکن کو دور کرنے کے لیے میں کبھی کبھی لوز ٹاک دیکھ لیتا ہوں ۔آپ بھی بطور تفریح طبع دیکھیے کہ پاکستان میں ڈاکٹرز کیا کر رہے ہیں:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جزاک اللہ خیر ظہیر بھائی آپ کی شفقتوں کا بہت مقروض ہوں کہ باوجود مصروفیات کے اتنا وقت دیتے ہیں مجھے ۔

میں غلط ہوں آپ درست ہیں ،غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے ۔ بحث کی کامیابی کی شکست (پھولوں کی مالا) آپ کے حوالے۔:):)

دماغی تھکن کو دور کرنے کے لیے میں کبھی کبھی لوز ٹاک دیکھ لیتا ہوں ۔آپ بھی بطور تفریح طبع دیکھیے کہ پاکستان میں ڈاکٹرز کیا کر رہے ہیں:
غلطی کیسی ، یاسر بھائی۔ ان چھوٹی موٹی کوتاہیوں سے کون سا شاعر پاک ہے؟ الحمدللّٰہ ، آپ کی یہ نظم بہت اچھی ہے اور اس کا پیغام وقت کی ضرورت ہے ۔ اتنے اچھے شعر میں یہ ایک چھوٹا سا سقم نظر آیا تو میں نے آپ کی توجہ اس طرف دلائی ۔ آپ کے لیے اس مصرع کو درست کرنا کیا مشکل ہے ۔ بیشک صرف اور صرف کلامِ الہٰی ہر عیب سے پاک ہے ۔ بیشک دو لفظی اک بات بھی ان کی ساری کتب پر بھاری ہے۔ اللّٰہ کریم ہمیں اس کی کتاب اور اس کے رسول سے جڑنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ اس محفل سے بہت سارے لوگ فیضیاب ہوتے ہیں ۔ اردو محفل پر اردو زبان کی صحت کا جو معیار ہے وہ دیگر ویبگاہوں کی بدولت بہت بہتر ہے ۔ یہ ہم سب محفلین کی ذمہ داری ہے کہ اس معیار کو قائم رکھیں ۔ صحت مند لسانی مباحث جاری رکھیں ۔ اس ساری گفتگو کے پیچھے یہی ایک خیال کارفرما تھا ۔ اللّٰہ کریم آپ کو خوش رکھے ، شاد آباد رکھے۔ آمین۔
یاسر بھائی ، وقت ملا تو ویڈیو دیکھنے کی کوشش کروں گا ۔ وعدہ نہیں کرتا ، کوشش کروں گا۔ :)
 

صابرہ امین

لائبریرین
محفل میں دو لوگ ہیں جن کی خندہ پیشانی اور کشادہ دلی نے مجھے بہت متاثر کیا -ایک سیما خالہ اور دوسرے آپ ،آپ لوگوں کے دم سے یہاں رونق ہے ،الله تعالیٰ آپ لوگوں کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے، صحت و عافیت سے رکھے آمین۔

بجا فرمایا آپ نے۔ صد فی صد متفق۔ اگرچہ کچھ اور محفلین بھی اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ :D
ویسے خندہ پیشانی اور کشادہ دلی وغیرہ وغیرہ کی ہم میں بھی Deficiency نہیں پائی جاتی ۔ ۔:grin:
 
رمزِ اَخلاق

خُلق نہیں جو خدا کے لیے وہ کچھ بھی نہیں فنکاری ہے
باتیں بنانا اور مسکانا رسم ہے، ظاہرداری ہے

دو لفظی بھی ان کے ہاں کی ساری کتب پر بھاری ہے
جب سے پڑھا "وَلِرَبِّكَ فَاصْبِر" صبر میں کیف سا طاری ہے

بچ کے وبا سے بھی مرنا تو ہے اس کی بھی کچھ تیّاری ہے
جلنا بھی تو سیَد صاحب اک مہلک بیماری ہے​
بہت عمدہ۔ حرف حرف حق ہے۔
 

یاسر شاہ

محفلین

یاسر شاہ

محفلین
جیتے رہیے شاد و آباد رہیے ۔پروردگار کی بارگاہ میں قبول ہو جائے ہمارا یہ لگاؤ ۔۔۔

اللہ پاک آپ پر ہمیشہ اپنا کرم فرمائے ۔آپکی محبت کا بیحد شکریہ ۔سلامت رہئے ۔ڈھیر ساری دعائیں 🥰
دل و جان سے آمین -ثم آمین
 
Top