رسوا ہوئے ہیں وہ سرِ بازار عشق میں - فرحان محمد خان

رسوا ہوئے ہیں وہ سرِ بازار عشق میں
بن کے جو لوگ آئے خریدار عشق میں

کیسے کوئی وہ سمجھے محبت کیے بغیر
کہتے ہیں جو بھی صاحبِ اسرار عشق میں

منصور سے یہ پوچھیو دے گا جواب وہ
سر دینا کیوں ضروری ہے سرکار عشق میں

مجھ سے کہا یہ عشق نے کافر ہے تُو مرا
مارے گا تجھ کو کوئی مرے یار عشق میں

مجھ سے کیا سوال یہ دل نے جواب دے
کیوں ہوتا ہے یوں آدمی سرشار عشق میں

عشقِ خدا کی بات ہے ایسے نہ کیجئے
کر لیجئے نہ خود کو بھی سرشار عشق میں

فرحان جی جو کہتے ہو سچ کہتے ہو مگر
یہ بھی کہو کہ تم ہو گرفتار عشق میں​
 

الف عین

لائبریرین
رسوا ہوئے ہیں وہ سرِ بازار عشق میں
بن کے جو لوگ آئے خریدار عشق میں
÷÷÷عشق نام کیا کوئی بازار ہے کیا؟

کیسے کوئی وہ سمجھے محبت کیے بغیر
کہتے ہیں جو بھی صاحبِ اسرار عشق میں
÷÷یہاں بھی ردیف کا محل نہیں۔

منصور سے یہ پوچھیو دے گا جواب وہ
سر دینا کیوں ضروری ہے سرکار عشق میں
÷÷ٹھیک

مجھ سے کہا یہ عشق نے کافر ہے تُو مرا
مارے گا تجھ کو کوئی مرے یار عشق میں

مجھ سے کیا سوال یہ دل نے جواب دے
کیوں ہوتا ہے یوں آدمی سرشار عشق میں

عشقِ خدا کی بات ہے ایسے نہ کیجئے
کر لیجئے نہ خود کو بھی سرشار عشق میں

فرحان جی جو کہتے ہو سچ کہتے ہو مگر
یہ بھی کہو کہ تم ہو گرفتار عشق میں
÷÷÷یہ چاروں اشعار محض تک بندی لگتے ہیں۔ خیالات واضح نہیں یا خاص نہیں۔
 
Top