ام اویس

محفلین
ولیم جرمنی کے دارالحکومت برلن میں اپنے فلیٹ میں بالکل اکیلا تھا۔ شہر میں وبا پھیل چکی تھی۔ ہرنفس دوسرے سے گریزاں خوف کے عالم میں اپنے گھر کی پناہ گاہ میں محصور تھا۔ دستور کے موافق یونیورسٹی میں داخلے سے پہلے ہی دوسرے بچوں کی طرح اس نے بھی والدین کا گھر چھوڑ دیا ، اب تنہائی اس کے رگ وپے میں زہر بن کر دوڑ رہی تھی۔ وبا میں مبتلا ہونے کا خوف دن بدن بڑھتا جا رہا تھا۔ موت کا خوف کسی ناگ کی طرح سوچوں میں پھنکارتا رہتا۔ چوبیس گھنٹے اس خوف سے لڑتے لڑتے وہ ہلکان ہوا جاتا۔ تنہائی پسند ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی کے چند لڑکوں سے ہیلو ہائے کے علاوہ اس کی کوئی سوشل مصروفیت نہ تھی۔
وبا پھیلنے کے ابتدائی دنوں میں ہی اس نے بھی باقی کلاس فیلوز کی طرح ضروریات زندگی کا تمام سامان خریدا اور فلیٹ میں محصور ہوگیا۔ لیکن اب وقت گزارنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ دن رات سکرین پر وبا سے مرنے والوں کے اعداد و شمار اسے مزید وحشت میں مبتلا کررہے تھے۔ آخر تنگ آ کر اس نے سکرین بند کر دی۔
اچانک اسے کسی کی بلند آواز سنائی دی۔ دہشت سے اس کا دل بند ہونے لگا، خوف سے اس کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے ، وہ جھٹ سے دروازہ کھول کر باہر صحن میں آگیا ۔ تیز دھوپ ، صاف شفاف فضا ، خوشگوار ہوا ، فلک پر اڑتے طرح طرح کے پرندوں نے اس کا استقبال کیا۔ وہ حیرت سے سب کچھ دیکھتا اس پکار کی طرف متوجہ ہوگیا جو ہوا کے دوش پر سفر کرتی اس کے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ پکارنے والا کیا کہہ رہا ہے لیکن اس انسانی آواز نے اس کے رگ وپے میں ایک سکون اتار دیا ۔ آواز میں ایسی انوکھی کشش ، پکار ، التجا ، دعا ، فریاد ، ملاحت و نرمی تھی کہ اس کے جسم کا ہر ہر عضو کان بن گیا ۔ آج سے پہلےاس نے ایسی آواز، ایسی پکار ، ایسی صدا کبھی نہیں سنی تھی (۱)۔ تمام تر توجہ کے باوجود اسے الله اکبر کے سوا کچھ سمجھ نہ آیا۔ پکارنے والا خاموش ہوگیا لیکن وہ بہت دیر تک مسحور سا وہیں کھڑا رہا۔
ولیم کے دل سے موت کا خوف ، تنہائی کی وحشت ، سوچوں کا زہریلا اثر سب ہوا ہوگیا۔ وہ واپس کمرے میں آیا اور انٹرنیٹ سے اس آواز کے متعلق معلومات کھوجنے لگا ۔ یہ اذان کی آواز تھی جو دین اسلام میں عبادت کے لیے بلانے پر دی جاتی تھی۔ جوں جوں وہ پڑھتا گیا اس کی آنکھیں کھلتی گئیں ، اس کے دل میں ایمان کا نور اترنے لگا ۔ اس کے شب و روز اسلام کی تحقیق میں گزرنے لگے۔ اب اسے انتظار تھا کہ کب وبا کے دن ختم ہوں اور کب وہ اسلامک سنٹر میں جا کر کلمہ لا الہ الا الله کا باضابطہ اعلان کرے ۔
آخر کار الله تعالی نے اپنی مخلوق میں سے ایک حقیر کیڑے کی مدد سے اس پر اپنی حجت پوری کردی ۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

(حدیث مبارکہ۔اردو مفہوم )
البتہ ضرور یہ معاملہ (دین) وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک دن اور رات پہنچتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کوئی مٹی کا گھر اور خیمہ نہیں چھوڑے گا مگر اس میں اس دین کو داخل کردے گا، عزت والے کی عزت کرتے ہوئے یا ذلت کرنے والے کو ذلیل کرتے ہوئے۔ عزت ایسی کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اسلام کو عزت بخشے گا اور ذلت ایسی کہ اس کے ذریعہ اللہ کفر کو رسوا کرے گا۔ '' مسند احمد
نوٹ:- انگلینڈ اور یورپین ممالک میں تبلیغ کے لیے جانے والی جماعتوں کو اجازت نہیں کہ وہ کسی غیر مسلم کو دعوت اسلام دیں ۔ وہ صرف اپنے مسلمان بھائیوں کواسلامی عقائد وعبادات کی دعوت دے سکتے ہیں۔

(۱)کرونا سے نجات کے لیے پہلی بار جرمنی میں تین ہفتوں کے لیے مساجد سے بلند آواز میں اذان کی اجازت دے دی گئی۔
نزہت وسیم
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
 

زیک

مسافر
لنک پھینک دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ جرمنی میں لاؤڈسپیکر پر اذان متعدد شہروں میں دی جاتی ہے اور بہت سے دوسروں میں منع ہے۔ یہ جس واقعے کا ذکر ہے وہ کچھ یوں ہے کہ کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے مساجد اور چرچ بند تھے تو اس وقت یہ خاص اجازت دونوں کو کچھ صورتوں میں دی گئی
 

ام اویس

محفلین
لنک پھینک دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ جرمنی میں لاؤڈسپیکر پر اذان متعدد شہروں میں دی جاتی ہے اور بہت سے دوسروں میں منع ہے۔ یہ جس واقعے کا ذکر ہے وہ کچھ یوں ہے کہ کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے مساجد اور چرچ بند تھے تو اس وقت یہ خاص اجازت دونوں کو کچھ صورتوں میں دی گئی
میں نے بھی یہی لکھا ہے اسی کسی صورت میں کچھ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔
 
Top