مکمل رحمت صاحب. (افسانہ) تحریر: شوکت حیات

کاشف اختر

لائبریرین
ریٹائرمنٹ کے بعد رحمت صاحب کی زندگی ان کے لئے عذاب بن گئی تھی . جن بال بچوں کے لئے انہوں نے اپنا خون پسینہ ایک کیا تھا، اب وہ لوگ انہیں اجنبی اور حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھتے تھے. سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ دھیرے دھیرے وہ زندگی کے کس مقام پر پہنچ گئے. انہیں بھرے پرے گھر اور شہر کے شور،ہنگامے میں بھی سناٹے کا گمان ہوتا تھا.

کبھی کبھی وہ سوچتے، اگر ان کی بیوی زندہ ہوتی تو کیا ان کی نگاہیں اس طرح بدل جاتیں؟ گہری رفاقت اتنی آسانی سے بے اعتنائی میں تبدیل ہوجاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ان کا ماضی خوشگوار تھا. زندگی میں تلخیوں اور مسائل کی کمی نہ تھی لیکن باہمی اتحاد اور پُرخلوص افہام و تفہیم کے ذریعے وہ ان پر آسانی سے قابو پالیتے.

انہیں یاد آیا کہ انہوں نے اپنی قلیل آمدنی میں بھی اپنے بچوں کی اعلٰی تعلیم و تربیت کا ہمیشہ خیال رکھا. اووَر ٹائم، ہالی ڈے اور پارٹ ٹائم جاب کرکے ان کی ضرورتوں کی کفالت کی . اپنی خواہشات اور تمناؤں کو پس پشت ڈال دیا . ان کی قربانیوں کا نتیجہ تھا کہ ان کے تمام لڑکے آج اپنے پاؤں پر کھڑے تھے. لڑکیوں کی شادی معقول گھروں میں ہوگئی تھی.

رحمت صاحب کو یاد آیا کہ جب تک وہ ریٹائر نہیں ہوئے تھے،ان کے تمام لڑکے کس طرح اپنی ملازمتوں کے باوجود ان کے آگے پیچھے پھرتے تھے. انہوں نے کبھی کسی بیٹے کی تنخواہ سے کوئی مدد قبول نہیں کی. ملازمت سے سبک دوشی کے وقت انہیں دفتر کی طرف سے ایک بڑی رقم ملنے والی تھی . تقریبا لاکھ روپے . ان کی نوکری میں پینشن کی سہولت نہیں تھی. ان دنوں ان کے تمام لڑکے ان کے آرام کے لئے بےحد فکرمند رہتے تھے. سب میں اس بات کے لئے مسابقت ہوتی کہ رحمت صاحب سبک دوشی کے بعد اس کے ساتھ رہیں.

رحمت صاحب ابھی سوچوں میں گم تھے کہ چھوٹی بہو نے ان کے پاس ناشتہ بھجوا دیا. بھوک سے ان کی آنتیں کلبلا رہی تھیں. اب تمام بیٹوں کے ہاں انہیں سب سے آخر میں ناشتہ ملتا تھا. جب ان کے پوتے اسکول چلے جاتے. ان کا بیٹا دفتر کے لئے روانہ ہوجاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رحمت صاحب کی عادت تھی سات بجتے بجتے ناشتہ کرلینے کی. نوکری کے زمانے میں دس بجے تک ان کا کھانا ان کے آگے لگادیا جاتا تھا. اب تقریبا گیارہ بج چکے تھے.

آلو کی بھاجی اور سوکھی روٹیاں. ان کی طبیعت مکدر ہوگئی. لیکن اب وہ ان تکدرات کے عادی ہوچکے تھے. گھی لگا پراٹھا تو ریٹائرمنٹ کے کچھ دنوں کے بعد تک ہی چلا. جب تک ان کے اکاؤنٹ میں فنڈ کے روپے ان کے نام رہے. جب ان کے بیٹوں نے زمین خریدنے، مکان بنانے، لڑکی کی شادی اور دوسرے مختلف بہانوں سے ان کے سارے روپے نکلوا لئے تو ان کی اہمیت اچانک ختم ہوگئی.

رحمت صاحب باری باری تمام بیٹوں کے ہاں رہتے تھے. شروع شروع میں سب کے ہاں ہر معاملے میں انہیں اولیت دی جاتی تھی. بعد میں سب کے سب دھیرے دھیرے آنکھیں پھیرنے لگے. پہلے جہاں تمام بیٹے رحمت صاحب کو اپنے ہاں لے جانے کے لئے اپنی باری کا بے صبری سے انتظار کرتے تھے، قیام کی معینہ مدت سے دوچار دنوں قبل ہی انہیں لینے کے لئے پہنچ جاتے تھے ،اب انہیں طرح طرح کی باتیں سنا کر روانگی کے وقت کی یاد دلائی جاتی تھی . جس بیٹے کے ہاں ان کے جانے کا نمبر ہوتا، اس کا دُور دُور تک پتا نہ ہوتا.

سال میں تین تین مہینے وہ چاروں بیٹوں کے ہاں قیام کرتے تھے. جیسے تیسے زندگی کے دن گزر رہے تھے. قیام کی مدت ختم ہونے کے بعد اب انہیں دوسرے بیٹے کے ہاں جانے کی بے حد دشواری ہوتی. کئی دنوں تک جب انہیں کوئی اپنے ہمراہ لے جانے نہ آتا تو تھک ہار کر تنہا چل پڑنے کا قصد کرتے. اس طرح انہیں بڑی دقتیں پیش آتیں. بینائی کمزور پڑ چکی تھی. ایک زمانے سے بیٹوں کی بے توجہی کی وجہ سے موتیا بند کا آپریشن ٹلتا آرہا تھا. اس معاملے میں اب انہوں نے خاموشی اختیار کرلی تھی. ان کے لئے کسی کے پاس وقت نہیں تھا. ہر آدمی اپنی گوناگوں مصروفیات کا رونا روتا. ایسے میں بھلا کیوں کر وہ اپنا مسئلہ رکھنے کی ہمت کرتے. آپریشن کرانا زیادہ مشکل کام نہیں تھا. لیکن یہ تھا کہ اسپتال میں ان کی تیمارداری کے لئے کون اپنا قیمتی وقت برباد کرتا ؟ وہ اداس آنکھوں سے اپنے اطراف کا جائزہ لیتے. ہرچیز انہیں اپنی جگہ ساکت دکھائی دیتی. کہیں کوئی حرکت نہیں. دن کی صاف و شفاف روشنی میں بھی انہیں ڈھلتی ہوئی شام کا احساس ہوتا. ہانپتے ہوئے نڈھال قدموں سے جس کے ہاں پہنچتے، وہ ان کی آواز پہچان کر دروازہ کھولتے ہوئے سردمہری کا مظاہرہ کرتا .

"آپ آگئے ابا! " بیٹا اکتائے ہوئے لہجے میں کہتا.
"تم وقت سے نہیں آئے. وہاں باتیں مجھے سننی پڑیں. مجھے یہ سب اچھا نہیں لگتا. تمہیں کیا پریشانی تھی؟

رحمت صاحب اپنی بجھی بجھی آنکھیں بیٹے کی انکھیوں میں گاڑتے. بیٹا ان کی آنکھوں کی تاب نہ لاتے ہوئے نظریں چرا کر کہتا.

"ابا! آپ تو جانتے ہیں دفتر میں کام اتنا بڑھ گیا ہے کہ چھٹی لینے سے اپنا ہی نقصان ہوتا ہے! میں نے فرحان سے کہا تھا کہ وہ آپ کو جا کر لے آئے. شاید وہ امتحان کے سر پر ہونے کی وجہ سے نہیں جا سکا. ابھی پوچھتا ہوں!" یہ کہتا ہوا بیٹا کمرے میں چلا جاتا. رحمت صاحب اپنا زنگ آلوده پرانا بکس برآمدے میں رکھتے . ہر بیٹے کے گھر میں اب انہیں کمرے سے منتقل کر کے برآمدے میں جگہ دے دی گئی تھی. جہاں ان کے پوتے پوتیوں کا شور ان کے کانوں کے پردے پھاڑتا. انہیں ایک پل بھی چین نصیب نہ ہوتا. بچوں سے پیار کرنے کو کس کا جی نہیں چاہتا ؟ لیکن ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے. ان کا کھیل کچھ ہی دیر میں شور و غل میں تبدیل ہوجاتا. انہیں لگتا کہ سارا گھر زلزلے کی زد پر ہے. رحمت صاحب سوچتے: یہی بیٹے ان کی آنکھوں کا نور اور بڑھاپے کا سہارا تھے. ان کے مستقبل کے لئے انہوں نے اپنا سارا ماضی داؤ پر لگادیا تھا.

دروازے پر دستک کی آواز سن کر ان کی بہو کی بک بک شروع ہوگئی.
"آگیا بڈھا. چائے کا خرچ بڑھانے. کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا! "

رحمت صاحب چونکے. بہو کی حقارت آمیز بات ان کے لئے تھی یا دستک دینے والے کے لئے؟ انہوں نے خود کو تسلی دی. ہو نہ ہو اس نے یہ باتیں آنے والے کے لئے کہی ہیں ...... ان کے سلسلے میں ابھی اتنا گھٹیا سلوک کی نوبت نہیں آئی ...... لیکن انہیں خیال آیا ...... آنے والے کے بہانے یہ سب کہیں انہیں ہی تو نہیں سنایا جارہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ رحمت صاحب نے ایک پوتے کو آنے والے کے بارے میں پتہ لگانے کے لئے کہا. بہو نے تنک مزاجی کے ساتھ کہا .

"وہی آپ کے دوست ورما صاحب ہیں . انہیں کوئی اور کام نہیں کہ آپ کا وقت برباد کرنے چلے آتے ہیں! "
رحمت صاحب باہر آئے. دونوں دوست گلے مل کر اپنے اپنے سینے کا بوجھ کم کرنے کی کوششں کرنے لگے.

"کیوں بھائی ورما! کیا حال ہے؟ "

"کیا پوچھتے ہو ریٹائرمنٹ کے بعد حال چال! بیٹوں کی نظریں ہمیں پہچانتی ہیں. یہی غنیمت ہے. "

"یہ بات تو ہے بھائی . ہم تو سمجھتے تھے کہ تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے بعد زندگی کا آخری دور سکھ چین کی سانس لیتے ہوئے گزرے گا . لیکن اب تو خود اپنی ذات، زندگی کا سب سے بڑا عذاب بن گئی."

"ارے برادر..." ورما صاحب نے گلا صاف کیا اور پھیکی ہنسی ہنسنے کی کوشش کی. صاف لگتا تھا کہ ان کی ہنسی کے پیچھے درد کا دریا موجزن ہے.

"دوست کیا زمانہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں باپ کتنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں. بعد میں سارے بچے مل جل کر بھی ماں باپ کی کفالت نہیں کر پاتے! "

ورما صاحب کی آنکھیں کہیں دور کھوگئیں . رحمت صاحب بھی یہ بات سن کر سوچوں میں گم ہوگئے. اچانک ان کے اندر سے آواز آئی :

شاید سماجی ارتقا کے پیچیدہ عمل کا یہ لازمی نتیجہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آگے بڑھتے ہوئے چکے کے پیچھے گرد اڑتی ہی ہے!

دونوں بہت دیر تک یوں ہی خاموش رہے.

اندر سے چائے نہیں آئی ورما صاحب نے اٹھنا چاہا . رحمت میاں نے انہیں چائے کے لئے روکا. اندر گئے. دبی زبان سے بہو کو چائے کے لئے کہا. باہر آ کر بیٹھے کچھ وقت گزرا. رحمت صاحب پھر اندر گئے. اس بار ڈرتے ڈرتے انہوں نے پوتے سے اپنی ماں کو چائے کے لئے یاد دلانے کو کہا . رحمت صاحب باہر آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رحمت میاں کئی بار اندر گئے. باہر آئے . ورما صاحب نے کئی بار اٹھنا چاہا اور رحمت صاحب نے انہیں بیٹھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چائے نہیں آئی.

رخصت ہوتے وقت دونوں کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں. دل پر منوں بوجھ تھا. دونوں کے قدم لڑکھڑا رہے تھے. ہاتھوں میں رعشہ تھا. ہونٹوں پر عجیب کپکپاہٹ. کس سے کہیں؟ کیوں کر کہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کہنے سے کیا ہوگا ؟ بیٹا ان کی باتوں پر کان دھرے گا ؟ بہو کی سرزنش کرے گا؟ یا ایک کان سے سنے گا، دوسرے کان سے اڑا دے گا!

رحمت صاحب اپنے سالخوردہ پلنگ پر لیٹ گئے. ان کے ہاتھ پیشانی پر تھے. آنکھیں بند تھیں. ذہن بڑی تیزی سے کام کر رہا تھا .

کیا ارتقا اس کو کہتے ہیں کہ دوڑتی ہوئی تہذیب کا ساتھ دینے والا، تکان سے سست پڑنے لگے تو پیچھے سے آتی ہوئی نسل اسے کچلتی ہوئی آگے بڑھ جائے؟ میں نے سارے بچوں کی اچھی طرح پرورش کی! کیا سارے بچے مل کر بھی مجھے سہارا نہیں دے سکتے ........!؟

اچانک ان کے ذہن میں سوال اٹھا. وہ بھی تو کسی کے بیٹے تھے . کیا انہوں نے اپنے ماں باپ کی خبرگیری کی تھی؟

ان کے دل میں ہوک اٹھی. اس سوال کا واضح جواب ان کے پاس نہیں تھا. ان کو خیال آیا. یہ روایت بدلنی چاہئے. کسی بھی قیمت پر بدلنی چاہئے. اس نسل میں نہیں تو آئندہ نسل میں. بیٹے کے ذریعے نہیں تو پوتے کے وسیلے سے.

رحمت صاحب کی آنکھوں میں امید کی کرن جھلملانے لگی. نقاہت کے باوجود انہیں اپنے اندر ایک نئی طاقت کا احساس ہوا. ایک نئی توانائی کے ساتھ وہ اٹھے. اپنے سب سے چھوٹے ایک سال کے پوتے کو انہوں نے پیار سے پکارا.

" شبّو ! ...... آجا بیٹے ...... دادا کے ساتھ کھیلے گا ....... زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھائے گا ...... !؟"

پاؤں پاؤں بڑھتے، ڈگمگا کر چلتے ہوئے پوتے نے ان کی طرف غور سے دیکھا. رحمت صاحب نے دونوں ہاتھ آگے بڑھائے. شبّو قریب آیا. انہوں نے اسے گود میں اٹھالیا.

"کیوں بیٹے! تو تبدیلی لائے گا نا ......؟"

پوتے کو دادا کی بوڑھی بانہوں میں کچھ راحت ملی. اچانک اس نے ان کے چہرے پر پیشاب کرنا شروع کردیا. رحمت صاحب کے چہرے کا رنگ عجیب و غریب تھا. ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ انہیں کیا کرنا چاہئیے. لگ رہا تھا ان پر گھڑوں پانی پڑ گیا ہو.

پھر انہوں نے سوچا، ان کے چہرے کے ساتھ پوتے کا یہ سلوک ایک طرح سے ٹھیک بھی تھا. ممکن ہے کہ اس طرح مذموم روایت کے گرد آلود چہرے کی تطہیر ہوجائے .

چھوٹی بہو نے باورچی خانے سے یہ نظارہ دیکھا. اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کے سسر ہنس رہے تھے یا رو رہے تھے.




( ختم شد )
 
Top