ربِ جن و بشر برائے اصلاح

افاعیل--- فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
( رمل مثمن محذوف )
-----------------
ہے تجھی پر میرا ایمان اے ربِّ جن و بشر
جان تجھ پر میری قربان اے ربِّ جن و بشر

تُو بڑا ہے سب سے تجھ سے تو بڑا کوئی نہیں
تّو جہانوں کا ہے سُلطان اے ربِّ جن و بشر

حشر کے دن جب اُٹھایا جاؤں اے میرے خدا
میرے سجدے ہی ہوں پہچان اے ربِّ جن و بشر

روح کی بے چینیاں تو بڑھ رہی ہیں دن بدن
ہو کہیں تو میرا درمان اے ربِّ جن و بشر
یہ جہان تو دل لگانے کی جگہ ہرگز نہیں
چار دن کا ہوں مہمان اے ربِّ جن و بشر

ہے تُو ہی ارشد کا یا رب مرکزِ قلب و نظر
کم نہ ہو اُس کا یہ ایمان اے ربِّ جن و بشر
 

الف عین

لائبریرین
'ربے جن نو بشر' تقطیع ہوتا ہے حالانکہ املا میں 'رب' پر تشدید درست لگائی گئی ہے۔اس کی جگہ 'مالک جن و بشر' کیسا رہے گا؟ لیکن 'اے' کے الف کا ما قبل سے وصال ممکن نہیں اور نون کو غنہ بنانا پڑے گا، جو پہچان کے سلسلے میں درست نہیں ۔ ردیف درست ہو جائے تب باقی غزل دیکھی جائے گی۔ جن و بشر لانا ضروری ہے کیا؟
 

عظیم

محفلین
معاف کیجیے گا، اگر 'پہچان' کا قافیہ نکال دیا جائے اور ردیف 'اے خدائے ذو الجلال' کر دی جائے تو کام چل سکتا ہے۔
 
تبدیلیوں کے بعد دوبارا حاضرِ خدم---
---------------------------
منسرح مثمن مطوی مکسوف (مفتعِلن فاعلن مفتعِلن فاعلن)
میرا تجھی پر ہے ایمان اے میرے خدا
جان بھی تجھ پر ہے قربان اے میرے خدا

کوئی بھی تجھ سے بڑا سارے جہاں میں نہیں
تُو ہے جہانوں کا سلطان اے میرے خدا

یومِ قیامت اُٹھوں جب سبھی کے سامنے
سجدے ہی میری ہوں پہچان اے میرے خدا


روح کی بے چینیاں بڑھ رہی ہیں دن بدن
ہو کوئی تو میرا درمان اے میرے خدا

دنیا تو دل کو لگانے کی جگہ ہی نہیں
چار ہی دن کا ہوں مہمان اے میرے خدا

میری خطائیں بہت ہیں اے خدایا مگر
کوئی ہو بچنے کا سامان اے میرے خدا

ہے تُو ہی ارشد کے تو قلب ونظر میں یا رب
کم نہ ہو اُس کا یہ ایمان اے میرے خدا
 
Top