راہوں کا خوف ہے نہ مجھے فاصلوں کا ڈر

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایک پرانی غزل دستیاب ہوئی ہے ۔ ایک زمانے میں چند غزلیں نئے طرز کے آزاد قوافی کے ساتھ لکھی تھیں ۔ ان میں سے ایک غزل ’’ یہ شاعری تو نہیں ہماری ، یہ روزنامہ ہے ہجرتوں کا ‘‘ آپ پہلے دیکھ چکے ہیں ۔ میں اپنی اس غزل کو کئی اور غزلوں کی طرح رد کرچکا تھا لیکن ایک دوست کے کہنے پر یہاں پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں ۔ شاید آپ کو پسند آئے ۔


راہوں کا خوف ہے نہ مجھے فاصلوں کا ڈر
اُس کو سفر کا شوق ، مجھے رہبروں کا ڈر

جب سر پہ دھوپ تھی تو رہی بادلوں کی آس
اب سر پہ چھت ہوئی تو مجھے بارشوں کا ڈر

اک شخص جاتے جاتے بہت خامشی کے ساتھ
کانوں پہ رکھ گیا ہے دبی آہٹوں کا ڈر

محتاط چل رہا ہوں کہ چاروں طرف مرے
شیشہ مزاج لوگ ہیں اور کرچیوں کا ڈر

دیکھے ہیں میری آنکھ نے سورج کے جب سے داغ
دل سے نکل گیا ہے مرے آئنوں کا ڈر

(۲۰۰۳)
 
آخری تدوین:
لاجواب غزل۔
مجھے حیرت ہے کہ رد کیونکر ہو گئی؟
اور
کئی اور غزلوں کی طرح رد کرچکا تھا
ان پر بھی نظرِ ثانی کی درخواست ہے۔ :)

راہوں کا خوف ہے نہ مجھے فاصلوں کا ڈر
اُس کو سفر کا شوق ، مجھے رہبروں کا ڈر

جب سر پہ دھوپ تھی تو رہی بادلوں کی آس
اب سر پہ چھت ہوئی تو مجھے بارشوں کا ڈر

محتاط چل رہا ہوں کہ چاروں طرف مرے
شیشہ مزاج لوگ ہیں اور کرچیوں کا ڈر

دیکھے ہیں میری آنکھ نے سورج کے جب سے داغ
دل سے نکل گیا ہے مرے آئنوں کا ڈر
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
لاجواب غزل۔
مجھے حیرت ہے کہ رد کیونکر ہو گئی؟

تابش بھائی ، صرف قوافی کی وجہ سے ہی فیصلہ کیا تھا کہ اس غزل کو نکال دیا جائے ۔ میں روایت کا کچھ زیادہ ہی پابند ہوں اس معاملے میں ۔ لیکن اب پچھلے ڈیڑھ دو سالوں میں میرا موقف بھی کچھ کچھ تبدیل ہوا ہے ۔ اگرچہ میں اب بھی پوری طرح قائل نہیں ہوا ہوں ۔ قافیے پر کچھ تحقیق جاری ہے اور لکھنے کی کوشش بھی۔ شاید مکمل ہوجائے ۔ اس قسم کے قوافی میں بھی اصول ڈھونڈنے اور قواعد قائم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے ۔
پرانے کلام کی چھان بین میں ایک اصول یہ بھی رکھا ہے کہ اگر کسی غزل میں تین چار بھی ڈھنگ کے اشعار ہوں تو اسے شامل کرلیا جائے ورنہ سرکلر فائل کی نذر۔ بہت ساری غزلیات نامکمل ہیں ۔ جن غزلوں کے صرف ایک دو اشعار ہی ہوئے تھے ان کے صرف مطلع بچالئے تھے اور وہ آپ کی خدمت میں پہلے ہی پیش کرچکا ہوں ۔ یعنی اپنی دانست میں تو مقدار سے زیادہ معیار پر ہی زور رکھا ہے ۔ اب فیصلہ تو پڑھنے والوں کے ہاتھ ہی ہوتا ہے ۔ :):):)
 
Top