سید شہزاد ناصر
محفلین
راگی کی وار
وار کے لفظی معنی رزمیہ نظم کے ہیں۔ وار یا جنگنامہ دنیا کے تمام قبائلی اور زرعی معاشروں کا حصہ رہا ہے۔ پنجاب میں وار صدیوں تک بہت مقبول رہی ہے لیکن شاید اب اس میں کچھ ایسی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی تھیں۔
وار تھیٹر کی ایک انتہائی قدیم صنف ہے۔ تھیٹر کے ایک کمرشل حقیقت کے طور پر ابھرنے اور آہستہ آہستہ تھیٹر ہالز میں مختلف طبقات کے لیے مختلف نشستیں مخصوص ہونے سے قبل تھیٹر صدیوں تک تہذیبوں کی رسومات کا حصہ رہا ہے۔ مذہبی رسومات سے لے کر جنگوں تک تھیٹر انسانی زندگی میں شامل رہا اور مختلف جذباتی اور روحانی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔
پرانے زمانے میں پنجاب میں جہاں قصے اور رومانوی داستانیں چوپال میں بیٹھ کر سنی جاتی تھیں، وار میدانِ جنگ میں سنائی جاتی۔
سعید خاور بھٹہ وہ واحد سکالر ہیں جو واروں اور قصوں پر ایک عرصے سے تحقیق کا کام کررہے ہیں اور انہوں نے کئی قصوں اور واروں کو کتابی شکل میں محفوظ کیا ہے۔ پروفیسر بھٹہ کے بقول یہ روایت دنیا کی کئی زبانوں میں موجود ہے اور جب سورما میدانِ جنگ میں لڑرہے ہوتے تھے تو واریئے، میراثی، راگی یا ڈھاڈی پیچھے سے بلند آواز میں ان کے اجداد کے کارنامے انہیں سناتے تھے جنہیں وار کہتے تھے۔
ڈھڈ یا ڈمرو
ڈھاڈی بنیادی طور پر ڈھڈ یا ڈمرو بجانے والے کو کہتے ہیں۔ پنجاب میں بابا گرو نانک اور بابا فرید شکر گنج کی نسبت سے ڈھاڈیوں، میراثیوں، ربابیوں اور راگیوں کے بہت سے سلسلے پشت در پشت آگی بڑھے۔ گرو گرنتھ پڑھ کے سنانے والے آج راگی کہلاتے ہیں اور گرو گرنتھ کی بہت سی شاعری واروں کی شکل میں محفوظ ہے۔
پروفیسر بھٹہ کا کہنا ہے کہ پنجاب میں وار کی تاریخ بہت قدیم ہے اور یہ سلاطین کے عہد سے بھی پہلے سے چلی آرہی ہے۔ سکھوں کے گرو ارجن دیو جی نے گرو گرنتھ کی شاعری کے لیے طرزیں مرتب کرنے کے لیے پنجاب بھر سے ڈھاڈیوں کو جمع کیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرقی پنجاب کے راگی اپنا شجرہِ نسب سکھوں کے پہلے گرو بابا نانک کے دو ساتھیوں میں سے ایک بابا مردانہ کے ساتھ جوڑتے ہیں جو بابا کے ہمراہ رہتے تھے اور ان کی شاعری یاد کر لیا کرتے تھے۔ بابا مردانہ مسلمان تھے، رباب بجاتے تھے اور اسی نسبت سے ربابی کہلاتے تھے۔
ایک اور روایت کے مطابق سکھوں کے چھٹے گرو ہرگوبند کے حکم پر ڈھاڈیوں، ربابیوں اور راگیوں نے واروں میں ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کیا کہ یہ زمانہ پنجاب میں سکھ گروؤں اور مغلوں کے درمیان مسلسل جنگوں کا زمانہ رہا ہے۔ اس زمانے کے دو ڈھاڈی بھائی ناتھا اور بھائی عبداللہ کو آج تک سکھ تاریخ میں یاد کیا جاتا ہے۔ بھائی عبداللہ ایک زبردست شاعر تھے اور گرو کے دربار میں اپنا کلام گایا کرتے تھے۔
بقول پروفیسر بھٹہ کے ان واروں میں قدیم پنجاب کی عام زندگی کی تمام تاریخ موجود ہے۔ مثلاً سماج کی کیا اخلاقی اقدار تھیں، بہادری کیا تھی اور دھوکہ دہی کیا تھی؟ سچ کیا تھا اور سچ کے لیے مرنا کیا؟ جانور کیسے ہوتے تھے اور انہیں پالنے کے طریقے کیا تھے؟ وغیرہ
پروفیسر سعید بھٹہ
بعد میں ان واروں میں جنگوں کے علاوہ عشق کی داستانیں بھی سنائی جانے لگیں کہ ان صوفی مزاج گانے والوں کے مطابق یہ بھی سماج کے جامد رویوں کے خلاف بغاوت کی ایک شکل تھیں۔
پاکستان بننے کے بعد پنجاب کے سب سے زیادہ مقبول واریں گانے والے شریف اور صدیق راگی رہے ہیں۔ صدیق راگی کی وفات کے بعد جو استاد تھے، شریف راگی اب اکیلے یہ واریں سناتے ہیں۔
اگر پنجاب کے زرعی معاشرے میں نصرت فتح علی خان کی طرح کوئی مقبول فنکار رہا ہے تو وہ شریف راگی ہی ہیں۔ نصرت کے زیادہ تر ریکارڈز اور کیسٹس ریلیز کرنے والی فیصل آباد کی کمپنی رحمت گراموفون ہی نے شریف راگی کے اب تک باسٹھ والیوم ریلیز کئے ہیں جبکہ اٹھارہ مزید والیوم ابھی موجود ہیں۔
شریف راگی شاید ان چند واریوں میں سے بچ گئے ہیں جو آج بھی پرانے انداز میں واریں سناتے ہیں۔
اگلے صفحات میں آپ شریف راگی کی آواز اور تصویر میں ان کی زندگی کی چند جھلکیاں دیکھ سکتے ہیں۔
وار گانے والے کھڑے ہو کر گاتے ہیں اور اسے دو واضح حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ نثری بیانیہ حصے جن میں کہانی کو واقعات کی اہم تبدیلیوں کے ذریعے آگے بڑھایا جاتا ہے اور شعر بند یا بحر میں بندھے ہوئے حصے جنہیں گا کر سنایا جاتا ہے۔ واریں گانے والے روایتی چمک دمک والے لباس پہن کر میدان میں اترتے ہیں اور موضوع کی مناسبت سے اداکارانہ انداز میں روایتیں بیان کرتے ہیں۔ داستان کے المیہ، طربیہ، پرجوش اور جنگی حصوں کے ساتھ ساتھ بیان کرنے والے کی شخصیت اور انداز بدلتا رہتا ہے جو انہیں کرداروں اور ان کی اس لمحے کی حقیقت کے قریب تر لے جاتا ہے۔
الغوزہ واروں کے تین سازوں میں سے ایک ہے_
ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستانی درسی کتب میں پڑھائی جانے والی تاریخ ان واروں کے بالکل برعکس ہے۔ ان واروں کے ہیرو اس مذہبی شناحت سے بالکل بالاتر ہیں جو پاکستانی ریاست کا خاصہ رہی ہے۔ جہاں یہ سکندرِ اعظم سے لڑنے والے ہندو راجہ پورس کے گن گاتی ہیں، وہاں یہ مغلوں کو ’چغتے‘ کے طور پر یاد کرتی ہیں اور ان کے خلاف لڑنے والے دلا بھٹی اور جیمل پھتہ کی بہادری کے قصے سنا کر نوجوانوں کو ان جیسے سورما بننے کی ترغیب دیتی ہیں۔
جیمل پھتہ ایک آزاد طبع ہندو سورما تھا جس نے اکبر کے بہت سے مطالبے پورے کیے مگر جب اکبر نے اس کی بیٹی کی خوبصورتی کی تعریف سن کا رشتہ مانگا تو وہ اکبر کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ سوال یہ ہے کہ گاؤں میں یہ وار سنتے ہوئے بڑا ہونے والا ایک پنجابی بچہ جب سکول میں تاریخ پڑھتا ہوگا تو اس کے لیے سچ کیا ہوگا؟ مغلوں کے بارے میں سرکاری تاریخی مؤقف یا بچپن سے سنی جانے والی ان واروں کا دیومالائی تصور؟
آج کے پنجاب میں وار بھی اپنے اختتام پر ہے۔ زمانے بدلنے کے ساتھ ساتھ جہاں باقی اصناف میں لکھنے، گانے، اداکاری اور ہدایت کاری کی سپیشلائزیشن بڑھتی گئی ہے، دوسری رویتوں کے ساتھ یہ قدیم روایت بھی غائب ہو رہی ہے۔ پنجاب میں اب صرف نجم حسین سید ہی ایک شاعر ہیں جو جدید شاعری میں واریں لکھتے ہیں۔ ان کی واریں عام لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں ہیں جو ہمارے آج کی حقیقت سے قریب تر ہیں لیکن ان واروں کو قدیم انداز میں گاکر بیان کرنے کی روایت کسی جدید شکل میں دکھائی نہیں دیتی۔
کیا آج کے پنجاب میں وار کی گنجائش موجود ہے؟ کیا آج کے پنجاب میں جبر کے خلاف بغاوت کی خواہش موجود ہے جو ان کہانیوں کا اصل مقصد تھی؟ پروفیسر سعید بھٹہ کا کہنا ہے کہ پنجاب میں جب تک بقاء کی خواہش موجود ہے، واریں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہیں گی۔
ربط
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/1350_theatrms/page11.shtml