رالف رسل: اردو کا بے لوث خدمت گزار، برطانوی مستشرق

الف عین

لائبریرین
رالف رسل: اردو کا بے لوث خدمت گزار، برطانوی مستشرق

ڈاکٹر مسعود جعفری

اردو کے ممتاز ا سکالر رالف رسل کی حیات اور کارناموں پر انجمن ترقی اردو( دہلی) نے ’’ہماری زبان‘‘ کا ایک خاص شمارہ شائع کیا ہے ۔ اس میں اردو کے ادیبوں نے رسل کو بھر پور خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔ رالف رسل انگریز تھے ۔ان کی مادری زبان انگریزی تھی۔ اس کے باوجود انہو ں نے اردو سیکھی اور اس میں مہارت پیدا کی۔ ان کی خود نوشت کا اردو میں ترجمہ ہوا ہے ۔ اس کا نام ’’جویندہ یا بندہ‘‘ رکھا گیا ہے ۔ یہ کام دہلی یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر ارجمند آرا نے کیا ہے یہ کتاب 455صفحات پر پھیلی ہوئی ہے ۔ رالف رسل نے اپنے نجی تجربات، حادثات، مشاہدات کو کھلے دل سے پیش کیا ہے ۔ انگریز صاف گو ہوتے ہیں ۔ اسی لئے انہوں نے اپنے گھر کے ماحول کی کچھ اس طرح تصویر کھینچی ہے ۔’’ہمارا گھر ہمیشہ ایک مکمل کوڑے دان کا نمونہ پیش کرتا تھا۔ ہر چورس حصہ پر پرانے اخبارات کا ڈھیر لگا رہتا تھا۔اس طرح کہیں بھی بیٹھنے کیلئے جگہ نہیں بچتی تھی۔ اگر کرسی پر بیٹھنا ہو تو پہلے کرسی پر سے کسی ڈھیر کو ہٹانا ضروری تھا۔ ماں اول درجہ کی لا پرواہ منتظم تھیں ۔‘‘ رالف رسل نے اپنے والد کے بارے میں لکھا ہے کہ انہو ں نے اپنے والد کو کبھی چرچ کو جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ بلا وجہ پیسے خرچ کیا کرتے تھے ۔ ان کی فیاضی کا کوئی معقول جواز نہیں تھا۔ بہر حال رالف رسل نے حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ رالف رسل کی پیدائش 21/مئی 1918ء کو ہومرٹن کے ایک Work Houseمیں ہوئی تھی۔ عام طور پر لوگ ورک ہاؤز کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔لیکن رالف نے جائے پیدائش کونہیں چھپایا۔ وہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہو چکے تھے ۔ کینسر کی دوائیں تو بہت ہوتی ہیں ۔ اس کا انجام موت ہی پر ختم ہوتا ہے ۔ یہی ہوا۔ رالف رسل 4!سپٹمبر 2008ء کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ۔ رالف رسل کے اردو رسم اخط کے بارے میں واضح خیالات تھے ۔ وہ جبریہ رسم خط کی تبدیلی کے خلاف تھے ۔ رالف رسل نے 1968ء میں میر تقی میر، مرزا رفیع سودا، میر حسن کو انگریزی میں پیش کیا۔ انہوں نے اس کتاب کا نام Three Mughal Poetsرکھا۔ یعنی مغل عہد کے تین شعرائے کرام۔انہوں نے مغربی دنیا کو ان عظیم المرتبت شاعروں سے روشناس کیا۔ اس کے علاوہ اردو ادب اور تاریخ ادب اردو پر تین کتابیں لکھیں ۔
1- An Anthology of Urdu Literature (1999)
2- How to write the History of Urdu Literature-(1999)
3- The Pursuit of urdu Literature -(1992)
رالف رسل نے غالب کوٹوٹ کر چاہا۔ وہ غالب کے سچے قدر دان اور مداح تھے ۔ رسل غالب کو ایک عظیم شاعر مانتے تھے ۔ انہوں نے غالب اور ان کی شاعری پر انگریزی میں چھ کتابیں لکھ کر غالب شناسی کا ثبوت دیا۔
1-Ghalib- Life and Letters-(1969)
2-Selections from the Persian Ghazals of Ghalibs with Translations-(1977)
3-The famous Ghalib (2000)
4-The oxford India Ghalib- Life, Letters and Ghazals-(2003)
5-The seeing eye- Selections from urdu and Persian Ghazals - (2003)
6- Ghalib, the Poet and his Age -(1997)رالف رسل ڈپٹی نذیر احمد کی تصانیف کے شیدائی تھے ۔
وہ اپنے شاگردوں کو توبۃ النصوح اور مراۃ العروس پڑھنے کی ہدایت کرتے تھے ۔ رسل مارچ 1942ء میں ہندوستان آئے تھے وہ اگسٹ 1945ء تک رہے ۔ وہ ایک فوجی افسر تھے ۔انہوں نے کم و بیش ساڑھے تین سال کے قریب ہندوستان میں ملازمت کی۔ اس اثنا میں انہوں نے اردو سیکھی۔ برطانیہ واپس جانے کے بعد انہوں نے اردو کا بی اے آنرس کا کورس کیا اس کے ساتھ سنسکرت بھی پڑھی۔ اس کے بعد 1949ء میں لندن یونیورسٹی کے ا سکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹڈیز میں اردو لکچر ر کے حیثیت سے کام کرنے لگے ۔ حکومت پاکستان نے رالف رسل کی اردو خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ستارۂ امتیاز کے ایوارڈ سے سر فراز کیا ۔ رالف رسل ہندوستان آئے تو ان کی عمر 23سال کی تھی۔ جب وہ لندن لوٹے تو 27برس کے تھے ۔ اپنے قیام کے دوران انہوں نے شمالی ہند اور جنوبی ہند کا دورہ کیا۔ وہاں کی تہذیب و تمدن کے نظارے دیکھے ۔ زبانوں کا مشاہدہ کیا۔ ان کا تاثر تھا کہ شمالی ہند کے بر عکس جنوب میں فرقہ وارانہ فضا نہیں ہے ۔ وہا ں لوگ امن و سکون سے جی رہے ہیں ۔ رسل نے برطانیہ کے مدارس میں اردو کی تعلیم کو عام کرنے کی مساعی جمیلہ کی۔ انہوں نے 1975ء میں کچھ روپیہ اکٹھا کیا اور برطانیہ کے 28,27اضلاعی مدارس میں اردو جماعتوں کا آغاز کیا۔ جہاں صرف پانچ سات طلبا ہوتے وہاں بھی اردو پڑھنے کا انتظام کیا انہوں نے درس و تدریس کے لئے اردو میں نصابی کتابیں تیار کیں ۔ ان کی پہلی کتاب کا عنوان تھا۔
New Course in Urdu & Spoken Hindi for Learners in Britain- (1980)
دوسری کتاب 1982میں شائع ہوئی وہ تھی Urdu in Britain۔ برطانیہ میں اردو بولنے والے بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم سے بہرہ ور کرنا سب سے بڑا مرحلہ تھا جسے رالف رسل نے سر کیا۔ وہ اردو کے ہمدرد، مونس و دلدار تھے ۔ انہیں اردو سے لگاؤ ہی نہیں عشق تھا۔ وہ مشہور صحافی سوم آنند کو برطانیہ سے مطلوب کتابیں بھیجا کرتے تھے ۔انہوں نے کبھی اس کی قیمت وصول نہیں کی۔ سوم آنند نے دبے دبے لہجہ میں پیسوں کی بات کی تو رالف رسل نے جواب دیا کہ حکومت نے انہیں وظیفہ یاب ہو جانے پر بہت سی رقم دی ہے ۔ وہ پیسوں کی فکر نہ کریں ۔ ان کی شرافت کی ایک اور مثال سامنے آتی ہے جب ان کی خودنوشت سوانح عمری کا اردو ترجمہ ڈاکٹر ارجمند آرا نے کیا اور وہ 2004ء میں لندن گئیں ۔ ان کے ساتھ مل بیٹھ کر اردو اور انگریزی متن اور اقتباسات کا تقابلی جائزہ لیا گیا۔ بعض مقامات پر ضروری تصحیح کی گئی۔ یہ کام کم و بیش ایک مہینہ تک جاری رہا الف رسل نے ارجمند آرا سے کہا کہ انھوں نے ترجمہ پر ساڑھے سات سو گھنٹے صرف کئے ہیں ۔ وہ بھی ارجمند آرا کے لئے اتنا ہی وقت دینے تیار ہیں ۔ وہ اپنی اردو کتابوں کا رسل سے انگریزی میں ترجمہ کر وا سکتی ہیں ۔ اس کام کے لئے رسل تیار تھے ۔ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی اور بلند کرداری تھی اردو کے فروغ کے لئے بہت سے غیر ملکی عالموں نے کام کیا ہے ۔ اس فہرست میں انگریزی مشترق ڈاکٹر جان گلگر سٹ، فرانسیسی مستشرق گارساں دتاسی کے نام قابل ذکر ہیں ۔ ان ناموں میں ایک اور نام رالف رسل کا بھی لیا جا سکتا ہے ۔ جنہوں نے اردو کے لئے تادم زیست دامے ، درمے ، سخنے کام کیا۔ ہم اردو کے چوٹی کے ادیب، محقق، دانشور، مدیر اعلی پروفیسر خلیق انجم کے شکر گذار ہیں کہ انہوں نے رالف رسل نمبر شائع کر کے اردو والوں پر ایک مستشرق ا سکالر کے احسانات کو واشگاف کیا ہے ۔

///
تشکر: روزنامہ منصف، حیدر آباد
 

الف عین

لائبریرین
یہ مضمون در اصل ’ہماری زبان‘، انجمنِ ترقی اردو کے اخبار، کے خاص نمبر پر تبصرہ تھا جو رالف رسل نمبر کے طور پر شائع ہوا تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ اعجاز صاحب اس مضمون کیلیے!

محمود ہاشمی کا لکھا ہوا رالف رسل کا ایک خاکہ کچھ عرصہ قبل 'نقوش سالنامہ 1985ء' سے ٹائپ کر کے میں نے اپنے بلاگ پر پوسٹ کیا تھا، آپ کی اس پوسٹ سے یاد آ گیا کہ وہ محفل پر نہیں ہے، انشاءاللہ پیش کرتا ہوں :)
 

مغزل

محفلین
شکریہ بابا جانی ، رسل کا ایک انٹرویو مجھے دستیاب ہوا ہے ، تحریر کیا جارہا ہے پیش کرتا ہوں ، جب رالف پاکستان آئے تھے،
 
Top