غلام علی راز کی باتیں لکھیں اور خط کھلا رہنے دیا


راز کی باتیں لکھیں اور خط کھلا رہنے دیا
جانے کیوں رسوائیوں کا سلسلہ رہنے دیا

عمر بھر مرے ساتھ رہ کر وہ نہ سمجھا دل کی بات
دو دلوں کے درمیاں اک فاصلہ رہنے دیا

اپنی فطرت وہ بدل پایا نہ اس کے با وجود
ختم کی رنجش مگر پھر بھی گلہ رہنے دیا

میں سمجھتا تھا خوشی دے گی مجھے صابر فریب
اس لیے میں نے غموں سے رابطہ رہنے دیا

(صابر جلال آبادی)

نوٹ: مکمل غزل کسی کے پاس دستیاب ہو تو پسندیدہ کلام زمرے کی زینت بن سکتا ہے۔ :) :) :)
 
Top