رائل پاکستان آرمی

زین

لائبریرین
رائل پاکستان آرمی


تحریر :::
قاضی حسین احمد
امیر جماعت اسلامی پاکستان

پشاور کے ایک بڑے گراﺅنڈ میں فرنٹیر کوررجمنٹ کی سو سالہ تقریب میں صوبہ سرحد سے ممبر سینٹ کی حیثیت سے میں بھی شریک تھا۔ لاﺅڈ سپیکر پر فرنٹیرکوررجمنٹ کا تعارف پیش کیا جا رہاتھا اوران کے کارناموں کے بارے میں شرکا کو آگاہ کیا جارہا تھا۔ گراﺅنڈ کے اندر پریڈ ہورہی تھی ۔ سب سے آگے مہمند رائفلز کا ایک دستہ انیسویں صدی کےآخراوربیسویں صدی کے آغاز کے زمانے کا یونیفارم پہنے ہوئے جا رہاتھا۔ سپاہیوں نےگھٹنےسے نیچے تک لٹکے ہوئے جانگیے پہنے ہوئے تھے اور ان کی داڑھیاں ایک قبضے سے بڑھی ہوئی سنت رسول کے مطابق تھیں۔ ہاتھوں میں اس زمانے کی جدید ترین رائفل تین سو تین (303)یا تھری ناٹ تھری پکڑے ہوئے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ دستہ فرنٹیرکور رجمنٹ کا پہلا دستہ تھا۔ ان کے بعد دوسرے دستوں کا تعارف بھی کرایا گیاجنہوں نے اپنے دور میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے تھے۔ پریڈ کے خاتمے پر چائے کی تقریب تھی۔ تقریب میں ان بوڑھے ریٹائرڈ برطانوی افسروں سے بھی ملاقات ہوئی جوخاص طور پر اس تقریب میں شرکت کے لیے برطانیہ سے بلائے گئے تھےاورجنھوں نے اپنی جوانی میں فرنٹیرکورکے مختلف دستوں کی کمان کی تھی ۔


میں نے فرنٹیر کور کے ایک سینئر افسر سے پوچھنے کی جسارت کی کہ یہ مہمند رائفلزجو آپ کی فرنٹیر کوررجمنٹ کا پہلا دستہ تھا اور پہلا دستہ ہونے کی وجہ سے جن کے کارناموں کو آج بھی آپ لوگ یا د کرتے ہیں، کن لوگوں کے خلاف نبرد آزما تھا۔ پاکستانی افسرمیرامدعا سمجھ گئے، اس لیے میرے سوال کا سیدھا جواب دینے کی بجائے گریزکرنےلگے تومیں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہی وہ لوگ نہیں تھے جو آزادی کے عظیم مجاہد اور تحریک اصلاحِ افاغنہ کے بانی عظیم مصلح حاجی صاحب ترنگزئی کے خلاف مہمند کی پہاڑیوں میں انگریزوں کی طرف سےلڑرہے تھے۔ وہ کھسیانے ہوگئے۔
میں نے پھران سے پوچھا کہ کیا ہم حاجی صاحب ترنگزئی کو اپنا ہیروسمجھیں یا فرنٹیر کورکےاس پہلےدستے مہمند رائفلزکو اپنے لیے مثال بنائیں۔ انھوںنے جواب دیاکہ یہ ہماری تاریخ ہے۔

کچھ دن بعد صوبہ سرحد کے گورنر ہاﺅس میں میری ملاقات اس وقت کے گورنرریٹائرڈ میجرجنرل خورشید علی خان سے ہوئی۔ میں نےان سے پوچھا کہ پاکستانی فوج دور برطانیہ کی اپنی روایات کو برقرار رکھنے پر کیوں مصر ہے۔ انھوں نے بے تکلفی سے بتایا کہ ہمیں تو اپنے فوجی یونٹ کی پوری تاریخ پڑھائی جاتی ہے اور اس میں یہی درج ہوتاہے کہ ”دشمن “ کا ہم نے کس طرح پیچھا کیا اور "دشمن"نے کیا کیا طریقے اختیار کیےاور ہم نے کس طرح دشمن کے ہتھکنڈوں کا توڑ کیا۔ یہ "دشمن"حاجی صاحب ترنگزئی یا اسی طرح کے دوسرے انگریز دشمن مجاہد ہی تھے اورہمارے یونٹ ان کے خلاف نبردآزما تھے۔ یہ ہماری روایات اور ہماری تاریخ ہے اور پاکستانی فوج ان روایات کی وارث ہے۔
ہمارے مسائل کی جڑیہی ہے کہ برطانوی راج نے ہندوستان میں جواینگلو سیکسن Anglo Saxon نظام قائم کیا اور جس نظام کے تحت انھوںنے مقامی باشندوں پر حکمرانی کی۔ اس نظام کو قائم رکھتے ہوئے برطانوی سامراج کی وارث انتظامیہ (Establishment) اب تک عوام پر حکمران ہے ۔ یہ انتظامیہ نہ صرف برطانیہ اورسامراجی ممالک کی تہذیب و تمدن کی محافظ ہے بلکہ ان کے معاشی مفادات کی بھی نگران ہے۔ برطانوی سامراج نے جانے سے پہلے یقینی بنا لیاتھاکہ نام نہاد آزادی کے باوجود ان کے بعد ان کی قائم کردہ انتظامیہ کی مضبوط گرفت برقرار رہے۔ ان کی زبان ،ان کی ثقافت اور ان کی تہذیب پھلتی پھولتی رہے اور ان کے معاشی مفادات محفوظ رہیں چنانچہ آزادی کے 61 سال گزرنے کے بعد ہم اپنی زبان سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ اقبال کا فارسی کلام ایران ،وسط ایشیا اور افغانستان میں تو سمجھا جاسکتاہے لیکن پاکستانی قوم اس سے قطعاً نابلد ہوچکی ہے بلکہ اب تو اردو سے بھی نئی نسل نا آشنا ہو رہی ہے۔ جب ہم کہیں بات کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ذرا آسان اردو میں بات کریں، مطلب یہ کہ انگلش نما اردو میں بات کی جائے۔ اپنی زبان سے نا بلد ہونے کی وجہ سے ہماری نئی نسل ندرت خیال (Original Thinking)سے محروم ہو رہی ہے اور ہم محض نقالوں کی قوم بن رہے ہیں۔
چند سال قبل ملا کنڈ ایجنسی کے ایک گاﺅں ”ملاکنڈ “ کے باشندوں نے مجھ سے شکایت کی کہ ملاکنڈ کئی نسلوں سے ہمارا گاﺅں ہے۔ اس کی مٹی میں ہمارے آباﺅ اجداد کی ہڈیاں ملی ہوئی ہیں،مگر اب پاکستانی فوج ہمیں اپنے گاﺅں سے بے دخل کرنا چاہتی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ ہم نے 1887ءمیں اس علاقے کو فتح کیاتھا، اس لیے یہ ہمارا مفتوحہ علاقہ ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر صدمہ ہوا کہ پاکستان کی وزارت دفاع نے ایک خط میں انھیں یہ لکھ دیا تھا کہ ہم نے اس علاقے کو 1887ءمیں فتح کیا تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستانی فوج آج بھی اپنے آپ کو برطانوی سامراج کی وارث سمجھتی ہےاوران کےمفتوحہ علاقوں کو اپنا مفتوحہ علاقہ قرار دیتی ہے۔ اپنی اس تربیت کی بنا پر پاکستانی فوج کو امریکی فوج کے حلیف کے طور پر اپنی ہی قوم کو سوات ، باجوڑ ، مہمند ،وزیرستان ،قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں بم باری اور گولہ باری کا نشانہ بنانے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا۔اس وقت لاکھوں لوگ اپنی ہی فوج کے ہاتھوں اپنے گھروں سے باہر نکالے گئے ہیں اورسخت سردی میں کھلے آسمان کے نیچے پڑے ہوئے ہیں۔
ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم تین نسلوں سے سپاہیانہ کردار ادا کررہے ہیں ۔
”سو سال سے ہے پیشہ آبا سپہ گری “
یہ کہتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی دو نسلوں نے برطانوی سامراج کی خاطر امت مسلمہ کی مرکزیت کی آخری نشانی خلافت عثمانیہ کے خاتمے میں کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ سرزمین حجاز پر بھی برطانوی سامراج کو مسلط کرنے میںپیش پیش رہے اور بیت اللہ پر گولیاں چلانے سے بھی باز نہیں آئے۔ پاکستانی فوج کا ہر یونٹ اپنے ڈانڈے رائل انڈین آرمی سے ملاتا ہے، جنگ عظیم اول کے کارناموں کا ذکر کرتا ہے، جنگ عظیم دوم میں جن جن محاذوں پر انھوںنے خدمات سرانجام دی ہیں اور بہادری کے جو تمغے انھیں ملے ہیں، فخریہ انداز میں ان کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑتا ہے۔ 14 اگست 1947ءکا دن ان کی تاریخ میں کسی آزادی اور انقلاب کے دن کے بجائے برطانوی سامراج کی وراثت کو اپنانے کا دن ہے، بالکل اسی طرح جیسے ایک بیٹا سن رشد کو پہنچنے کے بعد اپنے باپ کے کاروبار کو سنبھال لیتاہے۔ اس دن ہماری فوج رائل انڈین آرمی کی بجائے رائل پاکستان آرمی بن گئی تھی ۔ ہماری نیوی رائل پاکستان نیوی اور ہماری ائیر فورس رائل پاکستان ائیر فورس بن گئی ۔ سامراجی دور کی روایات آج بھی اسی طرح محفوظ ہیں اور اگر تھوڑی بہت تبدیلی آئی تھی تو پرویز مشرف کے دور میں امریکہ کا حلیف بن کر اس تبدیلی پرپانی پھیر دیا گیا اور ہماری فوج کو پھر سے کرائے کی فوج بنادیا گیاہے۔ جو پاکستانی قوم اور امت مسلمہ کے مفادات کے بجائے امریکی سامراج کے مفادات کی محافظ ہے ۔
اس کے باوجود ہمارے آرمی چیف توقع رکھتے ہیں کہ پاکستانی قوم فوج کے ساتھ تعاون کرے کیونکہ قوم کے تعاون کے بغیر فوج وطن کے دفاع کا فریضہ سرانجام نہیں دے سکتی ۔ قوم پوچھتی ہے کہ سوات ،باجوڑ ،مہمند ، وزیرستان اور بلوچستان میں کارروائیاں کرکے کیا فوج وطن کے دفاع کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے ؟۔ پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے کی خواہش میں امریکہ نے اسلام اور عالم اسلام کے خلاف جو جنگ برپا کر رکھی ہے اس کی زد میں فلسطین ،عراق اور افغانستان کے بعد اب پاکستان اورایران بھی آ رہے ہیں ۔ قبائلی علاقوں پر مسلسل بمباری کی وجہ سے لاکھوں لوگ اپنا گھربارچھوڑ کر وطن کے اندر ہی بے وطن ہو رہے ہیں ۔ ان اندرونی طور پربے گھر ہونے والوں کے لیے Internally Displaced People (IDP)کی اصطلاح وضع کی گئی ہے اور اب ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے۔ قبائلی علاقوں میں ان ظالمانہ کاروائیوں کی وجہ سے ردعمل پھیل رہاہے۔ ان علاقوں میں اب تک علیحدگی کا کوئی رجحان نہیں ہے نہ ہی ان علاقوں میں پاکستان دشمن عناصر پائے جاتے ہیں ۔ لیکن ایسا معلوم ہورہاہے کہ ایک منصوبے کے تحت یہ جذبات پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔
مہمند ایجنسی پرامن تھی مگر ایک سازش کے تحت باجوڑ، وزیرستان، کرم اور خیبر کے بعدایک اور ایجنسی میں ملک دشمنی اور فوج کے خلاف نفرت کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔ 20اکتوبر سے وہاں کرفیونافذ ہے، راستے بند ہیں،لوگوں کو ہجرت کے لیے بھی راستہ نہیں دیا جا رہا۔ پوری ایجنسی میں اشیائے خوردونوش کی شدید قلت ہے جس سے لاکھوں افراد کے بھوک سے مرنے کا خطرہ ہے۔ یکہ غونڈ تحصیل میں ہونے والے فوجی آپریشن میں کس کور،ظریف کور،عائشہ کور سمیت درجنوں علاقے گولہ باری کی زد میں ہیں، عام آبادی پر مارٹر گولے برسائے جارہے ہیں، بھاری توپخانے کا استعمال کیا جارہاہے اور ہیلی کاپٹرز سے شیلنگ کی جارہی ہے۔اسکولوں اور طالب علموں کو نشانہ بنایا جارہا ہے،راستے میں کھڑے لوگوں اور دریا پارکرنے والوں پربھی شیلنگ کی جاتی ہے۔16نومبر سے ایجنسی کے علاقے قندارو میںبھی آپریشن شروع کردیاگیا ہے۔ فوجی آپریشن اب پشاور کے قرب و جوار تک آ پہنچا ہے اور پشاور کی جوگئی یونین کونسل کے گاؤں سرخنی میں مارٹر کا گولہ گرنے سے ایک شخص جھلس کرجاں بحق ہوا، بیوی کے دونوں ہاتھ کاٹ دیے گئے اور بچے شدید زخمی ہوئے۔ امریکی ڈرون طیارے قبائلی علاقوں سے بڑھ کر اب شہری علاقوں پر حملہ آورہیں اور بنوں میں ایک گھر کونشانہ بنایا گیاہے۔ ادھر سوات میں گن شپ ہیلی کاپٹرز اوربھاری توپوں کا استعمال ہورہاہے۔ تحصیل کبل میں دوہفتوں سے شدید گولہ باری ہورہی ہے۔ عمر بھر خلیج کے ممالک میں محنت مزدوری کرکے غریب لوگوںنے اپنے اہل خانہ کے لیے جو سرمایہ فراہم کیا تھا،وہ پاکستان کی اپنی فوج کے ہاتھوںختم ہوچکا ہے۔ لوگوں کو 2گھنٹے کے نوٹس پر مکانات خالی کرنے کا آرڈر ملتا ہے اور لوگ سراسیمگی کی حالت میں گھروں کوچھوڑکر بھاگنے پرمجبور ہوجاتے ہیں۔ اورمکانات زمین بوس کردیے جاتے ہیں۔ بیشتر حالات میں بے گناہ لوگوں کے مکانات مسمار کرنے کے بعدفوجی اہلکار معذرت پیش کرتے ہیں لیکن اس سے دلوں کے زخم نہیں بھرے جا سکتے۔
یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ جو لوگ پاکستان کو اسلام کا قلعہ سمجھتے ہیں اور اس کی حفاظت کو دین کی حفاظت کے برابر سمجھتے ہیں ان کو انتہا پسند Extremists، عسکریت پسند Militantsاور دہشت گرد Terroristsقرار دیا جارہاہے اور جو لوگ پاکستان کو انگریزی سامراج کی سازش کانتیجہ اور پنجابی استعمار کا دوسرا نام قرار دیتے رہے ہیں، انھیں اعتدال پسند ، روشن خیال اور امن پسند قرار دے کر ملک کا تیا پانچہ کرنے کی سازش پر عمل ہو رہاہے ۔
اس سازش کو ناکام بنانے کا واحد راستہ عوام کی بیداری ہے۔ عوام کو آگاہی دے کر ایک عوامی جدوجہد کے ذریعے ہی ان سازشوں کا مقابلہ کیاجاسکتاہے۔ مراعات یافتہ طبقے سے یہ توقع رکھناعبث ہے کہ وہ ملک کی حفاظت کے لیے کوئی قربانی دیں گے۔ یہ لٹیروں کا طبقہ ہے ان سے پاکستان بچانے کے لیے عوام الناس کواٹھ کھڑے ہونا چاہیے ۔
 
Top