رؤف کلاسرا بمقابل پی کے پالیٹکس

نبیل

تکنیکی معاون
رونامہ جنگ میں آج مؤرخہ 13 ستمبر 2009 کو شائع ہونے والے رؤف کلاسرہ کے کالم کے مطابق رؤف کلاسرہ نے پی کے پالیٹکس پر ہتک عزت کا دعوی دائر کر دیا ہے۔ مذکورہ کالم کے مطابق رؤف کلاسرہ کے وکیل نے پی کے پالیٹکس کو سو ملین پاؤنڈ ہرجانے کا نوٹس جاری کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ پی کے پالیٹکس پر رؤف کلاسرہ کے خلاف جھوٹے الزامات عائد کیے گئے ہیں اور انہیں گالیاں دی گئی ہیں۔ رؤف کلاسرہ نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ پی کے پالیٹکس اصل میں نواز لیگ کے ایما پر صحافیوں کی کردار کشی کے لیے سیٹ اپ کی گئی ہے۔ مکمل کالم پڑھنے کے لیے اس ربط پر جائیں۔

پی کے پالیٹکس پاکستان کی تہلکہ ڈاٹ کام ثابت ہو رہی ہے۔ پہلے اس سائٹ پر نذیر ناجی کا اصل چہرہ بے نقاب ہوا تھا، اب صحافتی مافیا کے دوسرے کردار بھی سامنے لائے جا رہے ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس معاملے میں صحافی برادری اپنے پیٹی بھائیوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ وہ صحافی جو دوسروں کی معمولی سی لغزش کو لے اڑتے ہیں اور انہیں بدنام کرنے میں کسر نہیں چھوڑتے ہیں، وہی صحافی ان معاملات پر مکمل خاموشی اختیار کرتے ہیں یا پھر متعلقہ صحافیوں کی حمایت میں لکھتے ہیں۔ کالم نویس ہارون رشید نے بھی نام لیے بغیر پی کے پالیٹکس کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور حکومت پر زور دیا گیا اس سائٹ کو فوری پر بند کیا جائے۔ ہارون رشید کا کالم اس ربط پر پڑھا جا سکتا ہے۔
 

فخرنوید

محفلین
میں جناب نواز شریف کا حمائیتی تو نہیں ہوں لیکن اتنا ضرور کہوں گا ۔ کہ آج کل جو بھی اٹھتا ہے سچائی بولنے کے لئے وہ میاں نواز شریف کے خلاف ہی سچ بولتا ہے بس باقی سیاستدان دودھ کے دھلے ہیں۔
جب سے آرٹیکل 6 پر بات چیت شروع ہوئی ہے تب سے بہت سے لوگوں کو سچ بولنے کے دورے پڑنے شروع ہو گئے ہیں۔

میں پی کے پالیٹیکس کی حمایت کروں گا جو زرد صحافیوں کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔
 

محسن حجازی

محفلین
یہ مسئلہ کافی پرانا چل رہا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ پی کے پالیٹکس کی جانب سے کسی قسم کی بوکھلاہٹ دیکھنے میں نہیں آئی۔ کلاسرا صاحب کی مقدمہ بازی محض گیدڑ بھبکیاں ہیں اگر واقعی کیس فائل کیا ہے تو اس کا ریفرنس نمبر وغیرہ بھی تحریر فرما دیتے۔
 

محسن حجازی

محفلین
جنہوں نے اس قضیے کو شروع سے نہیں دیکھا ان کے لیے بتاتا چلوں کہ پہلے تو ہارون الرشید اور کلاسرا صاحب کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان لوگوں کے پیچھے ہے کون۔ پہلے انصار عباسی پر شک رہا۔ پھر پی پی کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر مسلم لیگ پر چڑھ دوڑے تو ان کا وضاحتی بیان آیا کہ ہمارا کوئي لینا دینا نہیں ہے۔ پھر ان بے چاروں کو کاپی رائٹس کے سلسلے میں دھمکایا گیا۔ تاہم پی کے پالیٹکس پر جو ثبوت دئیے گئے ہیں ان سے کلاسرا صاحب کی بدیانتی اور کرشن بالکل صاف واضح ہے۔
 

گرائیں

محفلین
جی بالکل محسن۔
جو ثبوت اس ویب سائٹ نے دیئے ہیں، اگر وہ واقعی درست ہیں تو اس کا مطلب ہے ڈاکٹر سید زوار ححسین زیدی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں بھی یہایماندار صحافی ملوث ہے۔
پی کے پالیٹکس والوں نے پکا کام کیا ہے۔ یہ اور بات کہ موصوف اسی طرح دیانتداری اور احساس ذمہ داری کے لیکچر دیتے نظر آئیں گے۔
 

محمداسد

محفلین
بالکل محسن حجازی آپ نے درست فرمایا۔ جن حضرات پر شک کیا جارہا تھا ان میں انصار عباسی کے علاوہ ڈاکٹر شاہد مسعود کا بھی نام لیا جارہا تھا۔ لیکن یہ بات ابھی تک کسی طور ثابت نہیں کہ اس ویب سائٹ کے پیچھے درحقیقت کون ہے؟ یا کوئی ہے بھی یا نہیں؟ موجودہ صورتحال میں (جسے بعض یار دوست 'زمینی حقائق' کہتے ہیں کے مطابق) تو مسلم لیگ ن پر ہی شک کیا جارہا ہے۔ یہ شک کا سلسلہ کوئی نیا نہیں، بلکہ چیف جسٹس کی بحالی اور پھر مشرف کی ایمرجنسی کے خلاف تحریک پر بھی یہی شک کیا جاتا رہا کہ اس کے پیچھے درحقیقت مسلم لیگ ن کا ہاتھ ہے اور وہ ایسی تحاریک کو نا صرف اخلاقی بلکہ فائنینشل سپورٹ بھی کررہی ہے۔

ویب سائٹ نے تو محض روف کلاسرا کی کرپشن کو بے نقاب کیا تھا، لیکن جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، ان کے پیٹی بند بھائی بھی ان کے دفع میں شامل ہوگئے۔ ہارون رشید صاحب نے جس طریقہ سے روف کلاسرا کے دفع میں اپنا وقت ضائع کیا وہ بہت افسوس ناک امر ہے۔ پہلے اس ویب سائٹ کے منتظم کو 'لا پتا' قرار دیا گیا، مگر پھر پی کے پالیٹکس کی جانب سے روف کلاسرا کے متعلق جنگ اخبار کو ایک عدد مضمون بنام سوال: پلاٹ؟ جواب: طالبان سال کیا گیا جس میں (غالبا پہلی بار) غلام مصطفیٰ کا نام بحیثیت منتظم سامنے آیا۔ مقابلہ صرف اخبار تک ہی محدود نا رہا، بلکہ ہارون رشید صاحب کے صاحب زادے مامون الرشید بھی اس وقت روف کلاسرا کے دفع میں شامل ہوگئے جب انہوں نے ایک ویب سائٹ کے ذریعے پی کے پالیٹکس کے خلاف مضمون شائع کیا (مضمون کا ربط) لیکن اس مضمون میں بھی اصل معاملہ کو چھوڑ کر آئیں بائیں شائیں ہی کی گئی اور جوابی تنقید کا راستہ اختیار کیا گیا۔

ویب سائٹ کی سیاسی وابستگی کی باتیں اپنی جگہ لیکن آج کل پی کے پالیٹکس پر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اور عمران خان کے ساتھ کھانے کی جو دعوت دی جارہی ہے، وہ اس کیس کے مستقبل میں بہت اہمیت کی حامل ہوسکتی ہے۔
 

فخرنوید

محفلین
میں نے تو ابھی ابھی وہ کالم پڑھا ہے جس پر پی کے پالیٹیکس نے تبصرہ فرمایا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ کالم کی لمبائی بڑھائی گئی ذومعنی الفاظ استعمال کر کے اور ساتھ میں قارین کا وقت ضائع کیا گیا ہے۔

سیدھی سی بات لکھ دیتا کہ ایسے ہوا اور ایسے نہین ہوا اس میں اتنی چوڑی کہانی بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ تو ایسے ہی تھا جیسے میں کوئی سسپنس ڈائجسٹ میں فرہاد علی تیمور کا افسانہ پڑھ رہا تھا۔

خیر جب تک ایسے لوگ پاکستان میں زندہ ہیں ۔ زرد صحافت خوب پھلتی پھولتی رہے گی۔

آج دوپہر کو کالم کار دیکھ رہا تھا ایکسپریس نیوز چینل پر ریکارڈنگ چل رہی تھی جب کوئی بولنے والا کام کی بات بولنے لگتا تھا تو اسی وقت بریک کر لی جاتی تھی اور بات گول مول کر لی جاتی تھی۔
ایسے پروگرام تو ہوتے ہی بس اب ریٹ بڑھانے کے لئے ہیں کہ یار ہمیں مربع کھلاو تو ہم آپ کے خلاف کسی کو نہیں بولنے دیں گے۔

خیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو مرضی کر لو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان قائم ہے اور قائم رہے گا ۔۔۔ انشاللہ
 

فخرنوید

محفلین
بالکل محسن حجازی آپ نے درست فرمایا۔ جن حضرات پر شک کیا جارہا تھا ان میں انصار عباسی کے علاوہ ڈاکٹر شاہد مسعود کا بھی نام لیا جارہا تھا۔ لیکن یہ بات ابھی تک کسی طور ثابت نہیں کہ اس ویب سائٹ کے پیچھے درحقیقت کون ہے؟ یا کوئی ہے بھی یا نہیں؟ موجودہ صورتحال میں (جسے بعض یار دوست 'زمینی حقائق' کہتے ہیں کے مطابق) تو مسلم لیگ ن پر ہی شک کیا جارہا ہے۔ یہ شک کا سلسلہ کوئی نیا نہیں، بلکہ چیف جسٹس کی بحالی اور پھر مشرف کی ایمرجنسی کے خلاف تحریک پر بھی یہی شک کیا جاتا رہا کہ اس کے پیچھے درحقیقت مسلم لیگ ن کا ہاتھ ہے اور وہ ایسی تحاریک کو نا صرف اخلاقی بلکہ فائنینشل سپورٹ بھی کررہی ہے۔

ویب سائٹ نے تو محض روف کلاسرا کی کرپشن کو بے نقاب کیا تھا، لیکن جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، ان کے پیٹی بند بھائی بھی ان کے دفع میں شامل ہوگئے۔ ہارون رشید صاحب نے جس طریقہ سے روف کلاسرا کے دفع میں اپنا وقت ضائع کیا وہ بہت افسوس ناک امر ہے۔ پہلے اس ویب سائٹ کے منتظم کو 'لا پتا' قرار دیا گیا، مگر پھر پی کے پالیٹکس کی جانب سے روف کلاسرا کے متعلق جنگ اخبار کو ایک عدد مضمون بنام سوال: پلاٹ؟ جواب: طالبان سال کیا گیا جس میں (غالبا پہلی بار) غلام مصطفیٰ کا نام بحیثیت منتظم سامنے آیا۔ مقابلہ صرف اخبار تک ہی محدود نا رہا، بلکہ ہارون رشید صاحب کے صاحب زادے مامون الرشید بھی اس وقت روف کلاسرا کے دفع میں شامل ہوگئے جب انہوں نے ایک ویب سائٹ کے ذریعے پی کے پالیٹکس کے خلاف مضمون شائع کیا (مضمون کا ربط) لیکن اس مضمون میں بھی اصل معاملہ کو چھوڑ کر آئیں بائیں شائیں ہی کی گئی اور جوابی تنقید کا راستہ اختیار کیا گیا۔

ویب سائٹ کی سیاسی وابستگی کی باتیں اپنی جگہ لیکن آج کل پی کے پالیٹکس پر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اور عمران خان کے ساتھ کھانے کی جو دعوت دی جارہی ہے، وہ اس کیس کے مستقبل میں بہت اہمیت کی حامل ہوسکتی ہے۔


ویسے اب تحریک انصاف مشکوک ہو جانی ہے کہ یہ اشتہار کے نام پر اسے چلا رہے ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
کوئی دوست رؤف کلاسرہ والے معاملے کی پوری تفصیل فراہم کر دے تو سب کے لیے سہولت ہو جائے گی۔ اس کے لیے روزنامہ جنگ اور پی کے پالیٹکس کے کچھ روابط اکٹھے کرنے ہوں گے۔
 
Top