ذات کو اپنی تماشہ ہی بنا رکھا ہے

loneliness4ever

محفلین
برائے اصلاح

ذات کو اپنی تماشہ ہی بنا رکھا ہے
حال دل کا جو زمانے کو بتا رکھا ہے

آپ کرتے ہیں محبت بھی زمانے جیسی
چڑھتے سورج کو سدا جس نے خدا رکھا ہے

وہ تو پگلی ہے محبت کا یقیں کر لے گی
تو نے کیوں خوابوں سے آنکھوں کو سجا رکھا ہے

شہر بھر نے تو فقط پھولوں کو ہی اپنایا
میں نے کانٹوں کو بھی سینے سے لگا رکھا ہے

صبح کرتی ہے بیاں شب کی اداسی تیری
تو نے آنکھوں میں سمندر کو چھپا رکھا ہے

عمر گزری ہے مگر سیکھا نہیں جینا وہ
دوست اس نے جو زمانے کو بنا رکھا ہے

تم ہو انجان محبت کو برا کہتے ہو
درد ِ دل میں بھی کیا خوب مزا رکھا ہے

مجھ پہ احسان ہے جیون کی جفا کاری کا
سچ ہے مشکل میں بھی قدرت نے بھلا رکھا ہے

ماں تو انمول ہے قدرت کے حسیں تحفوں میں
جس کی آغوش میں جنت کا مزا رکھا ہے

تیری رحمت پہ سدا شکر کیا کرتا ہوں
نام میرا جو زمانے میں بنا رکھا ہے

وہ جو مخمور محبت کو برا کہتے ہیں
ایسا لگتا ہے محمد کو بھلا رکھا ہے

س ن مخمور​
 
مدیر کی آخری تدوین:

loneliness4ever

محفلین
لگتا ہے اصلاح کے لئے ذرا بلند آواز لگانی پڑے گی

تمام اہل علم سے گزارش ہے وقت عنایت فرمائیں
جن احباب کے نام لکھنے سے رہ جائیں ان سے فقیر پیشگی معذرت کرتا ہے

محترم الف عین ، محترم محمد یعقوب آسی ، محترم سید عاطف علی ، محترم محمد خلیل الرحمٰن ، محترم مزمل شیخ بسمل ،
محترم محمد وارث ، محترم فاتح ، محترم محمد اسامہ سَرسَری
 
ہماری صلاح

عمر گزری ہے مگر سیکھا نہیں جینا وہ
دوست اس نے جو زمانے کو بنا رکھا ہے​
عمر گزری ہے مگر سیکھ نہ پایا جینا

تم ہو انجان محبت کو برا کہتے ہو
درد ِ دل میں بھی کیا خوب مزا رکھا ہے​

دوسرے مصرع پر بارِ دگر توجہ فرمائیے
 
اشعار کی اصلاح کر دینا، یا یہ کہ
فلاں مصرع یوں کر لیں، فلاں یوں کر لیں؛
ویسا مفید نہیں ہوتا جیسا یوں کہ
صاحب! شعر کہیں تو اس کو وقت دیں، کچھ وقت اس کے ساتھ گزاریں، اپنے لکھے کو بار بار پڑھیں اور سوچیں اسی بات کو "اور اچھا" کیسے بنایا جا سکتا ہے! آپ یقیناً کسی عمدہ نتیجے پر پہنچیں گے اور اپنی فکرِ تازہ کی روشنی میں اپنے ہی کہے کو پھر سے کہیں گے۔

بارے، ایسا کر کے دیکھئے۔
 
میں براہِ راست رائے دینے سے کچھ کترانے لگا ہوں، خاص طور پر ان شعروں پر جہاں نومشقی کا گمان ہوتا ہو۔ ظاہر ہے میں ذاتی طور پر تو نہیں جانتا کہ آپ کب سے شعر کہہ رہے ہیں، اور آپ کے دیگر فن پاروں کا احوال کیا ہے۔ ایک غزل کو سامنے رکھ کر کوئی رائے قائم کر لینا چنداں مفید نہیں ہوتا۔
 
اشعار کی اصلاح کر دینا، یا یہ کہ
فلاں مصرع یوں کر لیں، فلاں یوں کر لیں؛
ویسا مفید نہیں ہوتا جیسا یوں کہ
صاحب! شعر کہیں تو اس کو وقت دیں، کچھ وقت اس کے ساتھ گزاریں، اپنے لکھے کو بار بار پڑھیں اور سوچیں اسی بات کو "اور اچھا" کیسے بنایا جا سکتا ہے! آپ یقیناً کسی عمدہ نتیجے پر پہنچیں گے اور اپنی فکرِ تازہ کی روشنی میں اپنے ہی کہے کو پھر سے کہیں گے۔

بارے، ایسا کر کے دیکھئے۔

استاد مشق کے لیے کیا بہتر طریقہ ہے ؟
 
رہی بات اصلاح کی ۔۔ اس کا پہلا اصول یہ جان لیجئے کہ

آپ کا قاری کچھ بھی نہیں جانتا، اور نہ وہ آپ کے شعر کو اپنے طور پر کوئی معانی دے سکتا ہے۔ آپ کا شعر اس کو بتائے گا، کہ کس طرح سوچنا ہے اور کیا سوچنا ہے۔ یعنی آپ کے (خاص طور پر غزل کے) شعر کو اپنی جگہ ایک مکمل مضمون پورے در و بست کے ساتھ بیان کرنا ہے۔ آپ کا شعر پڑھ کر آپ کا قاری کوئی ایسا مفہوم بھی لے سکتا ہے جو آپ نہ چاہتے ہوں، یا آپ کے شعر کا وہ مقصود نہ ہو۔ یہ بھی آپ کا شعر بتائے گا؛ یعنی اس میں کوئی ایسی گنجائش نہ دیجئے کہ قاری "بھٹک" سکے۔
 
استاد مشق کے لیے کیا بہتر طریقہ ہے ؟
شعر بہت پیچیدہ چیز ہے، یہ مشق کا کام نہیں، مشق ہم دراصل جو کرتے ہیں وہ یہ کرتے ہیں کہ اپنے خیال کو کس طور اور کتنے احسن انداز میں قاری تک پہنچانا ہے۔ خیال، تصور، مضمون، جذبات ۔۔ ۔۔ یہ چیزیں مشقی نہیں ہوا کرتیں، انسان کے اندر ہوتی ہیں؛ اور اظہار چاہتی ہیں۔
بہ این ہمہ ایک طریقہ ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھیں، کہیں کوئی ادبی تنظیم ہے؟ اس کے معمول کے ادبی اجلاس ہوتے ہیں؟ ان اجلاسوں میں جائیں، ان لوگوں میں بیٹھیں، گپ شپ میں حصہ لیں؛ آپ سے آپ بہت کچھ کھلتا چلا جائے گا۔
آپ کے سوال کا "نصابی" جواب میرے پاس نہیں ہے۔ سینئر دوست موجود ہیں، دیکھئے کیا فرماتے ہیں۔
 
ذات کو اپنی تماشہ ہی بنا رکھا ہے
حال دل کا جو زمانے کو بتا رکھا ہے

درست لفظ "تماشا" ہے "تماشہ" نہیں۔ حال کے ساتھ سنانا اچھا لگتا ہے، بتانے سے۔
یہ مت کہئے گا کہ جی مطلب واضح ہو گیا، بس ٹھیک ہے۔ ہمیں مطلب ہی واضح کرنا ہو تو شعر کہنے کی ضرورت نہیں، وہ تو نثر میں بھی ہو جاتا ہے اور کہیں زیادہ سہولت سے ہو جاتا ہے۔ نہ وزن کا مسئلہ، نہ قافیے کا جھنجٹ! شعر کہنے کے پیچھے ایک محرک ہوتا ہے، اپنی بات کو بنا سنوار کر، سجا کر، ممکنہ حد تک دل پذیر انداز میں پیش کرنا۔ وہاں آ کے حال بتانا اور حال سنانا ۔۔ ان کا تقابل بھی ہو گا اور ان کو جمالیاتی سطح پر بھی دیکھا جائے گا۔
 
آپ کرتے ہیں محبت بھی زمانے جیسی
چڑھتے سورج کو سدا جس نے خدا رکھا ہے

جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، یہاں لفظ "بھی" کا مقصود "آپ بھی" ہے نہ کہ "محبت بھی"؛ مگر لفظیات اس کا ساتھ نہیں دے رہی۔
دوسرا مصرع ایک نومشق کے لئے قابلِ قبول ہے، کہنہ مشق کے لئے نہیں۔
 
شعر بہت پیچیدہ چیز ہے، یہ مشق کا کام نہیں، مشق ہم دراصل جو کرتے ہیں وہ یہ کرتے ہیں کہ اپنے خیال کو کس طور اور کتنے احسن انداز میں قاری تک پہنچانا ہے۔ خیال، تصور، مضمون، جذبات ۔۔ ۔۔ یہ چیزیں مشقی نہیں ہوا کرتیں، انسان کے اندر ہوتی ہیں؛ اور اظہار چاہتی ہیں۔
بہ این ہمہ ایک طریقہ ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھیں، کہیں کوئی ادبی تنظیم ہے؟ اس کے معمول کے ادبی اجلاس ہوتے ہیں؟ ان اجلاسوں میں جائیں، ان لوگوں میں بیٹھیں، گپ شپ میں حصہ لیں؛ آپ سے آپ بہت کچھ کھلتا چلا جائے گا۔
آپ کے سوال کا "نصابی" جواب میرے پاس نہیں ہے۔ سینئر دوست موجود ہیں، دیکھئے کیا فرماتے ہیں۔

استاد بہت سے ادبی حلقوں میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔
بہت سے اچھے اور نامی گرامی ادیبوں اور شعراء سے بھی یاد اللہ ہے ۔
شاعری کے بارے میں آپ پہلے بھی فرما چکے ہیں کہ یہ سیکھنے یا سکھانے کی شے نہیں ہے قدرتی جوہر ہے اگر انسان میں ہے تو ٹھیک نہیں تو نہیں۔
مگر پھر بھی اگر کوئی شخص یہ محسوس کرے ( اور پروفیشنل شاعر، ادیب بھی یہ ہی کہیں) کہ شاعری کے بھرپور "جراثیم" مجود ہیں تو ایسی صورت میں صلاحیتوں کو نکھارنے کےلیے مشق کی ضرورت ہوتی ہے ۔
میرے پوچھنے کا مقصد یہی تھا کہ مشق کا کیا طریقہ بہتر سمجھتے ہیں اساتذہ ۔
 
وہ تو پگلی ہے محبت کا یقیں کر لے گی
تو نے کیوں خوابوں سے آنکھوں کو سجا رکھا ہے

یہاں دو باتیں ہیں۔
ایک تو شعر کا مضمون بہت سطحی اور عامیانہ ہے۔ دوسرے، اظہار کے وسائل یعنی علامات، رعایات بھی وہی ہیں؛ ایسا مضمون جو ہزار بار ہزار انداز میں باندھا جا چکا۔
ایسا مضمون لانا ہو تو اس کو کوئی نیا رُخ دیتے ہیں، کسی طور اپنے اور اپنی پگلی کے درمیان کوئی بہت نازک سا احساس بیان میں لاتے ہیں۔ قاری یہ نہ سمجھے کہ وہ کسی عامیانہ فلمی گانے کے بول پڑھ رہا ہے۔
 
استاد بہت سے ادبی حلقوں میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔
بہت سے اچھے اور نامی گرامی ادیبوں اور شعراء سے بھی یاد اللہ ہے ۔
شاعری کے بارے میں آپ پہلے بھی فرما چکے ہیں کہ یہ سیکھنے یا سکھانے کی شے نہیں ہے قدرتی جوہر ہے اگر انسان میں ہے تو ٹھیک نہیں تو نہیں۔
مگر پھر بھی اگر کوئی شخص یہ محسوس کرے ( اور پروفیشنل شاعر، ادیب بھی یہ ہی کہیں) کہ شاعری کے بھرپور "جراثیم" مجود ہیں تو ایسی صورت میں صلاحیتوں کو نکھارنے کےلیے مشق کی ضرورت ہوتی ہے ۔
میرے پوچھنے کا مقصد یہی تھا کہ مشق کا کیا طریقہ بہتر سمجھتے ہیں اساتذہ ۔
جی وہ میں نے عرض کر دیا کہ ادبی ماحول سے تعلق قائم کیجئے۔ وہاں بھی لازمی نہیں کہ ہر شخص استاد ہی ہو گا یا آپ کو پسند بھی آئے گا۔ آپ آپ ہیں، اپنی ذات کی نفی نہیں ہو سکتی۔ دوسری چیز مطالعہ ہے۔ اپنی ادبی استعداد کے مطابق مطالعے کا انتخاب کریں۔ نومشقوں سے میں کہا کرتا ہوں کہ وہ خاص طور پر ناصر کاظمی اور احمد فراز کی غزلیں پڑھا کریں اور کم از کم اتنی بلند آواز میں کہ ان کے کان سن سکیں کہ ہونٹوں نے کون سا لفظ کیسے ادا کیا ہے۔ صرف پڑھنا مقصد نہیں ہے، ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ شاعر کے کون سی بات کس انداز میں کی ہے، لفظیات کیسی لائے ہیں، ان کی املاء کیا ہے، صوتیت کے ساتھ ساتھ صوتی تاثر کیا بنتا ہے۔ یعنی ایک انداز سے اپنی حد تک بھرپور تجزیہ کرنا۔ پھر وہی طریقہ آپ کے اندر نفوذ کر سکتا ہے۔
ایک ضروری بات! پہلے پہلے شعر کہئے اور درست کہئے، اغلاط سے بچئے۔ نکھار از خود آتا جائے گا۔
 
آپ کو اپنا ذاتی تجربہ بتاؤں۔ میں نے تیس پینتیس برس میں کل اسی (80) غزلیں اور چالیس پینتالیس نظمیں کہی ہیں (اردو شاعری کی بات کر رہا ہوں)۔
اب اور کیا کہوں!
 
جی وہ میں نے عرض کر دیا کہ ادبی ماحول سے تعلق قائم کیجئے۔ وہاں بھی لازمی نہیں کہ ہر شخص استاد ہی ہو گا یا آپ کو پسند بھی آئے گا۔ آپ آپ ہیں، اپنی ذات کی نفی نہیں ہو سکتی۔ دوسری چیز مطالعہ ہے۔ اپنی ادبی استعداد کے مطابق مطالعے کا انتخاب کریں۔ نومشقوں سے میں کہا کرتا ہوں کہ وہ خاص طور پر ناصر کاظمی اور احمد فراز کی غزلیں پڑھا کریں اور کم از کم اتنی بلند آواز میں کہ ان کے کان سن سکیں کہ ہونٹوں نے کون سا لفظ کیسے ادا کیا ہے۔ صرف پڑھنا مقصد نہیں ہے، ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ شاعر کے کون سی بات کس انداز میں کی ہے، لفظیات کیسی لائے ہیں، ان کی املاء کیا ہے، صوتیت کے ساتھ ساتھ صوتی تاثر کیا بنتا ہے۔ یعنی ایک انداز سے اپنی حد تک بھرپور تجزیہ کرنا۔ پھر وہی طریقہ آپ کے اندر نفوذ کر سکتا ہے۔
ایک ضروری بات! پہلے پہلے شعر کہئے اور درست کہئے، اغلاط سے بچئے۔ نکھار از خود آتا جائے گا۔

بہت بہت شکریہ استادِ محترم ، یہ کام کام کی باتیں مجھ ایسے لوگوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں ۔
 
وہ جو بات کہی جاتی ہے کہ اگر آپ طبعی طور پر شاعر نہیں ہیں تو کوئی آپ کو شاعر نہیں بنا سکتا، اگر ہیں تو آپ نکھر سکتے ہیں؛ یہ بات زیادہ تر اوزان کے ادراک کے حوالے سے کہی جاتی ہے۔ پھر رہ جاتا ہے مطالعہ اور سننا، وہ بہت ضروری ہے۔ پھر زندگی کے بارے میں آپ کا طرزِ فکر ہے، طرزِ احساس ہے؛ اس کو بیان کرنا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم سیکھتے ہیں۔ اور ہمارا سیکھا ہوا ہمارے الفاظ میں جھلکتا بھی ہے۔
 
آپ کو اپنا ذاتی تجربہ بتاؤں۔ میں نے تیس پینتیس برس میں کل اسی (80) غزلیں اور چالیس پینتالیس نظمیں کہی ہیں (اردو شاعری کی بات کر رہا ہوں)۔
اب اور کیا کہوں!

استاد تعداد تو کم ہے مگر جتنا آپ کو علم ہے اور جتنی باریک بینی سے آپ شعر کہتے ہیں اس اعتبار سے یہ بہت بڑی تعداد ہے ۔ ویسے اردو کے علاوہ ، کِس کِس زبان کو زینت بخشتے ہیں استاد ؟
 
Top