فرخ منظور
لائبریرین
ذائقے جو روپوش ہو گئے
از قلم انتظار حسین
عطاء الحق قاسمی نے ایک مرتبہ پھر اپنے کالم میں دلی کے کریم ہوٹل کا ذکر چھیڑا ہے۔ اور پھر اس پر اپنی حیرت کا اظہار کیا ہے کہ اس ہوٹل کے کھانوں میں ایسی کونسی بات ہے کہ پاکستان سے ادھر جانے والے اس ہوٹل کی طرف لپکتے ہیں۔ وہاں سے ہونٹ چاٹتے ہوئے نکلتے ہیں۔ وہ ہمیں بھی ساتھ میں کانٹوں میں گھسیٹتے ہیں کہ یہ شخص بھی وہاں ہمارا ہم نوالہ تھا۔ اور اس حوالے پر ہم شرمندگی سے سر جھکا لیتے ہیں۔ شاید وہ عزیز ہمیں شرمندہ کرنے ہی کے لیے ذکر چھیڑتا ہے۔
خیر اب ہم نے دلی کے کھانوں ہی کے حوالے سے کشور ناہید کا کالم بھی پڑھ لیا ہے۔ سو ہم نے سوچا کہ آخر ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ گونگے کا گڑ کھا کر کب تک بیٹھے رہیں۔ کچھ ہمیں بھی بولنا چاہیے۔ اندیشہ ہمیں عطاء الحق قاسمی کی طرف سے نہیں، دلی والوں کی طرف سے ہے۔ کوئی بھی دلی والا ہمیں ٹوک سکتا ہے کہ تم دلی کے کھانوں پر سند کب سے بن گئے۔
تم نے جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر کتنے کھانے کھائے ہیں۔ بجا سوال کیا۔ اس پر ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ جامع مسجد کی سیڑھیوں پر یا دلی کے کسی بھی کوچے میں قورمے کی دیگ کھلتی تھی اور بریانی کی دیگ سے ڈھکن اٹھایا جاتا تھا تو اس کی مہک میرٹھ اور ہاپوڑ تک پہنچتی تھی۔ سو ہم ان ذائقوں سے اتنے ناآشنا بھی نہیں ہیں۔
ان کھانوں کی کچھ مہک براہ راست ہمارے مشام تک پہنچی۔ اس سے بڑھ کر ان غذائوں کی مہک ہم تک منشی فیض الدین اور اشرف صبوحی کے مہکتے بیان کے ذریعہ پہنچی۔ مگر منشی فیض الدین نے جس دسترخوان کا تذکرہ لکھا ہے وہ تو جہان آباد کا دسترخوان تھا۔ سن اٹھارہ سو ستاون میں جب جہان آباد اجڑگیا تو سمجھ لو کہ وہ تہذیب بھی مع اپنے دسترخوان کے اجڑ گئی۔ پھر جب دلی پھر سے آباد ہوئی تو کتنے ماہر باورچی بھٹیارے مر کھپ چکے تھے۔
مگر مٹھو بھٹیارا، گھمی کبابی، اور گنجے نہاری والے ابھی زندہ تھے۔ انھوں نے جو پکایا اسے اشرف صبوحی نے چکھا۔ ان کے واسطے سے ہم نے چکھا۔ ان ذائقوں کو ہم کیسے بھول جائیں۔ مگر 1947ء میں دلی میں جو رستخیز بیجا برپا ہوئی اس میں یہ ہنر مند بھی تتر بتر ہو گئے۔ کوئی وہیں اسی قیامت میں ڈھیر ہو گیا کسی نے وہاں سے نکل کر لاہور کا رخ کیا کسی نے کراچی کا۔
لیجیے اس پر ہمیں اپنا مرحوم دوست مظفر علی سید یاد آگیا۔ اس یار عزیز نے جتنا دلی کی شعر و شاعری کو چھانا پھٹکا تھا اتنا ہی دلی کے دسترخوان پر حق تحقیق ادا کیا تھا۔ یہ 1948ء کے اوائل کا ذکر ہے جب اس نے ہمیں خبردار کیا کہ دلی کا نہاری والا لاہور آن پہنچا ہے۔ یہاں آ کر لوہاری دروازے کے ایک گوشے میں اس نے اپنا تندور گرم کیا ہے اور نہاری کا کاروبار شروع کر دیا ہے۔
مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اکثر بے خبر۔ فلاں فلاں صبح منہ اندھیرے مرغ کی بانگ کے ساتھ ہم تم اس کوچے میں پہنچیں گے اور نہاری کھائیں گے۔ لاہور کی انھی اولین صبحوں میں وہ صبح ابھی تک ہمارے تصور میں زندہ ہے اور وہ ذائقہ ہمارے تالو اور زبان کے بیچ چٹخارہ پیدا کر رہا ہے۔
اگر عطاء الحق قاسمی تھوڑا پہلے پیدا ہوئے ہوتے اور ہمارے ساتھ مل کر وہ نہاری کھالیتے اور مظفر نے اس ذائقہ پر جو تحقیق کر رکھی تھی اسے سن اور سمجھ لیتے تو کریم ہوٹل کے قورمے کو اجڑی ہوئی پرانی دلی کے حساب میں ڈال کر اس نگر کے تہذیبی زوال پر تھوڑا ماتم کرتے اور پھر بھول جاتے۔
اب ہم سوچ رہے ہیں کہ جب آبادیاں ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر منتقل ہو رہی تھیں تو دلی سے کتنی چیزیں کتنے ہنر پاکستان منتقل ہو گئے۔ کتنے تو غزل گو وہاں سے چل کر یہاں آن براجے۔ اسی ہلہ میں ایک نہاری والا بھی اپنی نہاری والی دیگ سر پر رکھ کر یہاں آن پہنچا۔
مگر عجب ہوا کہ دلی کے غزل گو یہاں نہیں چل پائے۔ بس دلی کی نہاری چل گئی۔ ہاں اب جو نہاری یہاں چل رہی ہے تو اگر یہ وہ نہاری نہیں ہے جو پاکستان کی ایک نئی صبح کے ہون میں ہم نے کھائی تھی تو اس میں اس نہاری کی کوئی خطا نہیں ہے۔ خطا ہے شہر میں فروغ پاتے کمرشیلائزیشن کی۔ شاید کریم ہوٹل کا قورمہ بھی اسی کمرشیلائزیشن کا حاصل ہے۔
اب جامع مسجد کی کسی سیڑھی پر مٹھو بھٹیارا یا گھمی کبابی یا گنجا نہاری والا نظر نہیں آئے گا۔ سیڑھیوں کے بالمقابل ایک مارکیٹ قائم ہو گیا ہے۔ وہاں جو کچھ ہوٹلوں میں تیار ہوتا ہے اس کے اپنے ذائقے ہیں۔ ہونٹ چاٹنے والوں کو یہ سمجھانا بہت مشکل ہے کہ یہ مال اور ہے۔ جن ذائقوں کی مہک کو زمانے کی ہوا اڑا کر لے گئی وہ ذائقے اور تھے۔
ہاں اگر دلی کے کسی مہذب گھر کے باورچی خانے تک آپ کی رسائی ہے تو ان بچے کھچے ذائقوں سے تعارف کا امکان ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ کشور ناہید نے شمیم حنفی کی بیگم کے بنائے ہوئے کھانوں کا کس چٹخارے کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ادھر ہم سوچ رہے ہیں کہ اگر اس دیار میں ہمارا جانا نکل آیا تو ہمارے پہنچتے پہنچتے تو بھادوں کی رُت بوندوں سے بھرا اپنا دامن جھاڑ کر گزر چکی ہو گی۔ ہم کس منہ سے اس بی بی سے دال کے پراٹھوں کی فرمائش کریں گے۔
لیجیے اس پر ہمیں یاد آیا کہ ایک تقریب سے جب ہم دلی میں تھے تو شمس الرحمن فاروقی بھی الٰہ آباد سے وہاں پہنچے ہوئے تھے اور اپنی صاحبزادی باراں کے یہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ انھوں نے ہمیں پیش کش کی کہ آپ ہمارے ساتھ آ کر کھانا کھائیے۔ ہماری بیٹی مزعفر سے آپ کی تواضع کرے گی۔ مزعفر۔ اچھا۔ مزعفر تو اب ہمارے دسترخوانوں سے کنارہ کر کے دلی لکھنؤ کے تذکروں میں جا چھپا ہے۔
ہم انھیں تذکروں میں اس کا احوال پڑھ کر اپنے تالو اور زبان کے بیچ اس ذائقہ کی تجدید کر لیتے ہیں۔ مگر باراں بی بی نے جو دسترخوان اس شام سجایا تھا وہاں اصلی اور سچے مزعفر کی رکابی ہمارے سامنے مہک رہی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ جب کسی تہذیب کا بستر لپٹتا ہے تو اس کے رنگ، اس کی مہک، اس کے ذائقے اپنی ناقدری دیکھ کر جہاں تہاں مہذب گھروں میں جا چھپتے ہیں۔ انھیں بازاروں میں مت ڈھونڈو
کیوں شاہد گل باغ سے بازار میں آوے
چاہے وہ شاہجہانی مسجد کے سائے میں پروان چڑھنے والا کھانے پینے کا بازار ہی کیوں نہ ہو۔
اور پرانی دلی کی بدنصیبی یہ ہے کہ وہ نئی دلی تو بن نہیں سکی۔ اور اسے بننا بھی نہیں چاہیے تھا۔ اسے پرانی دلی ہی کے طور پر رہنا زیب دیتا تھا۔ مگر افسوس کہ اب وہ پرانی دلی بھی نہیں رہی جس کے کوچے بھلے دنوں میں اوراق مصور نظر آتے تھے۔
از قلم انتظار حسین
عطاء الحق قاسمی نے ایک مرتبہ پھر اپنے کالم میں دلی کے کریم ہوٹل کا ذکر چھیڑا ہے۔ اور پھر اس پر اپنی حیرت کا اظہار کیا ہے کہ اس ہوٹل کے کھانوں میں ایسی کونسی بات ہے کہ پاکستان سے ادھر جانے والے اس ہوٹل کی طرف لپکتے ہیں۔ وہاں سے ہونٹ چاٹتے ہوئے نکلتے ہیں۔ وہ ہمیں بھی ساتھ میں کانٹوں میں گھسیٹتے ہیں کہ یہ شخص بھی وہاں ہمارا ہم نوالہ تھا۔ اور اس حوالے پر ہم شرمندگی سے سر جھکا لیتے ہیں۔ شاید وہ عزیز ہمیں شرمندہ کرنے ہی کے لیے ذکر چھیڑتا ہے۔
خیر اب ہم نے دلی کے کھانوں ہی کے حوالے سے کشور ناہید کا کالم بھی پڑھ لیا ہے۔ سو ہم نے سوچا کہ آخر ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ گونگے کا گڑ کھا کر کب تک بیٹھے رہیں۔ کچھ ہمیں بھی بولنا چاہیے۔ اندیشہ ہمیں عطاء الحق قاسمی کی طرف سے نہیں، دلی والوں کی طرف سے ہے۔ کوئی بھی دلی والا ہمیں ٹوک سکتا ہے کہ تم دلی کے کھانوں پر سند کب سے بن گئے۔
تم نے جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر کتنے کھانے کھائے ہیں۔ بجا سوال کیا۔ اس پر ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ جامع مسجد کی سیڑھیوں پر یا دلی کے کسی بھی کوچے میں قورمے کی دیگ کھلتی تھی اور بریانی کی دیگ سے ڈھکن اٹھایا جاتا تھا تو اس کی مہک میرٹھ اور ہاپوڑ تک پہنچتی تھی۔ سو ہم ان ذائقوں سے اتنے ناآشنا بھی نہیں ہیں۔
ان کھانوں کی کچھ مہک براہ راست ہمارے مشام تک پہنچی۔ اس سے بڑھ کر ان غذائوں کی مہک ہم تک منشی فیض الدین اور اشرف صبوحی کے مہکتے بیان کے ذریعہ پہنچی۔ مگر منشی فیض الدین نے جس دسترخوان کا تذکرہ لکھا ہے وہ تو جہان آباد کا دسترخوان تھا۔ سن اٹھارہ سو ستاون میں جب جہان آباد اجڑگیا تو سمجھ لو کہ وہ تہذیب بھی مع اپنے دسترخوان کے اجڑ گئی۔ پھر جب دلی پھر سے آباد ہوئی تو کتنے ماہر باورچی بھٹیارے مر کھپ چکے تھے۔
مگر مٹھو بھٹیارا، گھمی کبابی، اور گنجے نہاری والے ابھی زندہ تھے۔ انھوں نے جو پکایا اسے اشرف صبوحی نے چکھا۔ ان کے واسطے سے ہم نے چکھا۔ ان ذائقوں کو ہم کیسے بھول جائیں۔ مگر 1947ء میں دلی میں جو رستخیز بیجا برپا ہوئی اس میں یہ ہنر مند بھی تتر بتر ہو گئے۔ کوئی وہیں اسی قیامت میں ڈھیر ہو گیا کسی نے وہاں سے نکل کر لاہور کا رخ کیا کسی نے کراچی کا۔
لیجیے اس پر ہمیں اپنا مرحوم دوست مظفر علی سید یاد آگیا۔ اس یار عزیز نے جتنا دلی کی شعر و شاعری کو چھانا پھٹکا تھا اتنا ہی دلی کے دسترخوان پر حق تحقیق ادا کیا تھا۔ یہ 1948ء کے اوائل کا ذکر ہے جب اس نے ہمیں خبردار کیا کہ دلی کا نہاری والا لاہور آن پہنچا ہے۔ یہاں آ کر لوہاری دروازے کے ایک گوشے میں اس نے اپنا تندور گرم کیا ہے اور نہاری کا کاروبار شروع کر دیا ہے۔
مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اکثر بے خبر۔ فلاں فلاں صبح منہ اندھیرے مرغ کی بانگ کے ساتھ ہم تم اس کوچے میں پہنچیں گے اور نہاری کھائیں گے۔ لاہور کی انھی اولین صبحوں میں وہ صبح ابھی تک ہمارے تصور میں زندہ ہے اور وہ ذائقہ ہمارے تالو اور زبان کے بیچ چٹخارہ پیدا کر رہا ہے۔
اگر عطاء الحق قاسمی تھوڑا پہلے پیدا ہوئے ہوتے اور ہمارے ساتھ مل کر وہ نہاری کھالیتے اور مظفر نے اس ذائقہ پر جو تحقیق کر رکھی تھی اسے سن اور سمجھ لیتے تو کریم ہوٹل کے قورمے کو اجڑی ہوئی پرانی دلی کے حساب میں ڈال کر اس نگر کے تہذیبی زوال پر تھوڑا ماتم کرتے اور پھر بھول جاتے۔
اب ہم سوچ رہے ہیں کہ جب آبادیاں ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر منتقل ہو رہی تھیں تو دلی سے کتنی چیزیں کتنے ہنر پاکستان منتقل ہو گئے۔ کتنے تو غزل گو وہاں سے چل کر یہاں آن براجے۔ اسی ہلہ میں ایک نہاری والا بھی اپنی نہاری والی دیگ سر پر رکھ کر یہاں آن پہنچا۔
مگر عجب ہوا کہ دلی کے غزل گو یہاں نہیں چل پائے۔ بس دلی کی نہاری چل گئی۔ ہاں اب جو نہاری یہاں چل رہی ہے تو اگر یہ وہ نہاری نہیں ہے جو پاکستان کی ایک نئی صبح کے ہون میں ہم نے کھائی تھی تو اس میں اس نہاری کی کوئی خطا نہیں ہے۔ خطا ہے شہر میں فروغ پاتے کمرشیلائزیشن کی۔ شاید کریم ہوٹل کا قورمہ بھی اسی کمرشیلائزیشن کا حاصل ہے۔
اب جامع مسجد کی کسی سیڑھی پر مٹھو بھٹیارا یا گھمی کبابی یا گنجا نہاری والا نظر نہیں آئے گا۔ سیڑھیوں کے بالمقابل ایک مارکیٹ قائم ہو گیا ہے۔ وہاں جو کچھ ہوٹلوں میں تیار ہوتا ہے اس کے اپنے ذائقے ہیں۔ ہونٹ چاٹنے والوں کو یہ سمجھانا بہت مشکل ہے کہ یہ مال اور ہے۔ جن ذائقوں کی مہک کو زمانے کی ہوا اڑا کر لے گئی وہ ذائقے اور تھے۔
ہاں اگر دلی کے کسی مہذب گھر کے باورچی خانے تک آپ کی رسائی ہے تو ان بچے کھچے ذائقوں سے تعارف کا امکان ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ کشور ناہید نے شمیم حنفی کی بیگم کے بنائے ہوئے کھانوں کا کس چٹخارے کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ادھر ہم سوچ رہے ہیں کہ اگر اس دیار میں ہمارا جانا نکل آیا تو ہمارے پہنچتے پہنچتے تو بھادوں کی رُت بوندوں سے بھرا اپنا دامن جھاڑ کر گزر چکی ہو گی۔ ہم کس منہ سے اس بی بی سے دال کے پراٹھوں کی فرمائش کریں گے۔
لیجیے اس پر ہمیں یاد آیا کہ ایک تقریب سے جب ہم دلی میں تھے تو شمس الرحمن فاروقی بھی الٰہ آباد سے وہاں پہنچے ہوئے تھے اور اپنی صاحبزادی باراں کے یہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ انھوں نے ہمیں پیش کش کی کہ آپ ہمارے ساتھ آ کر کھانا کھائیے۔ ہماری بیٹی مزعفر سے آپ کی تواضع کرے گی۔ مزعفر۔ اچھا۔ مزعفر تو اب ہمارے دسترخوانوں سے کنارہ کر کے دلی لکھنؤ کے تذکروں میں جا چھپا ہے۔
ہم انھیں تذکروں میں اس کا احوال پڑھ کر اپنے تالو اور زبان کے بیچ اس ذائقہ کی تجدید کر لیتے ہیں۔ مگر باراں بی بی نے جو دسترخوان اس شام سجایا تھا وہاں اصلی اور سچے مزعفر کی رکابی ہمارے سامنے مہک رہی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ جب کسی تہذیب کا بستر لپٹتا ہے تو اس کے رنگ، اس کی مہک، اس کے ذائقے اپنی ناقدری دیکھ کر جہاں تہاں مہذب گھروں میں جا چھپتے ہیں۔ انھیں بازاروں میں مت ڈھونڈو
کیوں شاہد گل باغ سے بازار میں آوے
چاہے وہ شاہجہانی مسجد کے سائے میں پروان چڑھنے والا کھانے پینے کا بازار ہی کیوں نہ ہو۔
اور پرانی دلی کی بدنصیبی یہ ہے کہ وہ نئی دلی تو بن نہیں سکی۔ اور اسے بننا بھی نہیں چاہیے تھا۔ اسے پرانی دلی ہی کے طور پر رہنا زیب دیتا تھا۔ مگر افسوس کہ اب وہ پرانی دلی بھی نہیں رہی جس کے کوچے بھلے دنوں میں اوراق مصور نظر آتے تھے۔