حفیظ تائب دے تبسم کی خیرات ماحول کو

الف نظامی

لائبریرین
دے تبسم کی خیرات ماحول کو ہم کو درکار ہے روشنی یا نبی
ایک شیریں جھلک ایک نوری ڈھلک ، تلخ و تاریک ہے زندگی یا نبی

اے نوید مسیحا تری قوم کا حال عیسی کی بھیڑوں سے ابتر ہوا
اس کے کمزور اور بے ہنر ہاتھ سے چھین لی چرخ نے برتری یا نبی

کام ہم نے رکھا صرف اذکار سے ، تیری تعلیم اپنائی اغیار نے
حشر میں منہ دکھائیں گے کیسے تمہیں ہم سے ناکردہ کار امتی یا نبی

دشمن جاں ہوا میرا اپنا لہو میرے اندر عدو میرے باہر عدو
ماجرائے تحیر ہے پرسیدنی ، صورتحال ہے دیدنی یا نبی

سچ میرے دور میں جرم ہے عیب ہے ، جھوٹ فن عظیم آج لاریب ہے
گلشنوں ، شہروں ، قریوں پہ ہے پر فشاں ایک گھبیر افسردگی یا نبی

راز داں اس جہاں میں بناوں کسے ، روح کے زخم جاکر دکھاوں کسے
غیر کے سامنے کیوں تماشا بنوں ، کیوں کروں دوستوں کو دکھی یا نبی

زیست کے تپتے صحرا پہ شاہ عرب ، تیرا اکرام کا ابر برسے گا کب
کب ہری ہوگی شاخ تمنا مری ، کب مٹے گی مری تشنگی یا نبی

یا نبی اب تو آشوب حالات نے تیری یادوں کے چہرے بھی دھندلا دئیے
دیکھ لے تیرے تائب کی نغمہ گری ، بنتی جاتی ہے نوحہ گری یا نبی
از حفیظ تائب​
 
مدیر کی آخری تدوین:
کام ہم نے رکھا صرف اذکار سے ، تیری تعلیم اپنائی اغیار نے
حشر میں منہ دکھائیں گے کیسے تمہیں ہم سے ناکردہ کار امتی یا نبی
سبحان اللہ۔جزاکم اللہ
 
Top