دیکھ کتنا عجیب لگتا ہوں۔

ایم اے راجا

محفلین
ایک اور غزل آپکی اصلاح و رائے کی نذر۔

دیکھ کتنا عجیب لگتا ہوں
بعد تیرے غریب لگتا ہوں

تو نہ جانے اگر تری مرضی
پر میں تیرا نصیب لگتا ہوں

کل مجھے ڈھونڈنے کو نکلیں گے
آج جن کو رقیب لگتا ہوں

ایسے چمٹا ہوا ہے غم مجھ سے
جیسے اس کا حبیب لگتا ہوں

خوب ہنستا تھا کل میں لوگوں پر
آج غم کا نقیب لگتا ہوں

ہر طرف ایک دھند ہے راجا
کس نگر کے قریب لگتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
پہلے مطالعے میں اکثر اشعار درست ہیں لیکن مطلع اور دوسرا شعر
دیکھ کتنا عجیب لگتا ہوں
بعد تیرے غریب لگتا ہوں

تو نہ جانے اگر تری مرضی
پر میں تیرا نصیب لگتا ہوں
جب تک مطلب نہ بتایا جائے، کوئی سمجھ نہیں سکتا!!
 

ایم اے راجا

محفلین
ایسے چمٹا ہوا ہے غم مجھ سے
جیسے اس کا حبیب لگتا ہوں

سر اگر اس شعر کو یوں کہا جائے تو،

یو ں چمٹا ہے آج غم مجھ سے
جیسے اسکا حبیب لگتا ہوں
 

ایم اے راجا

محفلین
معافی چاہتا ہوں لکھنے میں بھول ہو گئی، اصل میں لکھنا “جیسے“ تھا مگر ذہن کچھ اور سوچ رہا تھا سو اس سوچ کا“ یوں“ یہاں لکھ دیا :)

ایسے چمٹا ہے آج غم مجھ سے
جیسے اس کا حبیب لگتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
میرا بھی یہی خیال تھا کہ کچھ بھول گئے ہو لکھنے میں۔ اب یہ شعر درست ہے۔ لیکن اصل میں کیا مشکل تھی جو تبدیل کر دیا، میرے خیال میں وہ بھی درست بلکہ بہتر تھا۔
ایسے چمٹا ہوا ہے غم مجھ سے
جیسے اس کا حبیب لگتا ہوں
 

ایم اے راجا

محفلین
شکریہ استاد مھترم، چلیں ٹھیک ہے ویسے ہی رکھتا ہوں اس شعر کو
ایسے چمٹا ہوا ہے غم مجھ سے
جیسے اس کا حبیب لگتا ہوں
 
Top