دیکھ تُو گھر سے نکل کر ۔۔۔۔۔۔

ظفری

لائبریرین
غزل

دیکھ تُو گھر سے نکل کر گلی میں کیا ہے
تجھ میں کچھ نہ سہی اور کسی میں کیا ہے

کون ہے جو تکتا نہیں ترے چہرے کی جانب
سب میں ہوتی ہے ہوس ، اک مُجھی میں کیا ہے

جو اُفتاد پڑے ، سر سے گذر جاتی ہے
فائدہ اس کے سوا بادہ کشی میں کیا ہے

میں نے یہ سوچ کر روکا نہیں اسے جانے سے
بعد میں بھی یہی ہوگا ، ابھی میں کیا ہے

ثانیوں میں گذر جاتی ہیں صدیاں اکثر
فرق پھر ثانیے اور صدی میں کیا ہے

آدمی کے لیئے رونا بڑی بات ہے نامعلوم
ہنس تو سب سکتے ہیں ، ہنسی میں کیا ہے

شاعر : نامعلوم ( معذرت کیساتھ ) ۔ ;)
 

الف عین

لائبریرین
ظفری ہر مصرع میں کچھ لفظ کم یا زیادہ ہے، اپنی ڈائری سے لکھا ہے غالباً۔ کس کا ہے ، یہ معلوم ہوتا تو احباب درست متن ڈھونڈ سکتے تھے۔
کچھ شعر بے وزن ہونے پر بھی اچھے ہیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
اگر اس غزل میں اشعار وزن میں نہیں ہیں تو پھر یہ ظفری صاحب کی ہی شرارت لگتی ہے۔ ;) اگر تو ان کی اپنی غزل ہے تو بہت ہی اچھی ہے اور اگر کسی دوست کی ہے تو پھر اسے چاہیے کہ محفل میں آکر زانوئے تلمذ تہہ کرے۔
 

ظفری

لائبریرین
یہ آٹھویں یا نویں جماعت کی شرارتوں میں سے ایک شرارت لگتی ہے ۔ دراصل استادِ محترم نے توجہ دلائی کہ کئی غلطیاں ہیں‌ تو سوچنا پڑا کہ

یہ بوجھ کہیں اپنا تو نہیں ۔۔۔۔
;)
 

زونی

محفلین
یہ تو نامعلوم سے ہی ظاہر ھے کہ بوجھ کس کا ھے :grin:


ویسے اصلاح‌ کروا لی جائے تو غزل بری نہیں ھے
:party:
 

عین عین

لائبریرین
انور شعور کی غزل ہے۔ اور بہت ہی برا سلوک کیا گیا ہے اس کے ساتھ ۔ (ظفری اگر انّو بھائی کے علم میں‌ آ گئی یہ بات تو پھر آپ کی خیر نہیں‌)
مجھے یاد تھی مگر اس وقت حافظہ ساتھ نہیں‌ دے رہا۔ کہیں‌سے نقل کروں‌ گا موقع ملا تو۔
 

عین عین

لائبریرین
ویسے ظفری یہ کہاں‌ پڑھی آپ نے اس حالت میں۔۔۔۔۔ ایس ایم ایس ملا تھا؟ کیوں‌کہ زیادہ تر خرابی ایس ایم ایس کے ذریعے ہی ہو رہی ہے۔ لوگ جلد بازی میں ٹائپ کر دیتے ہیں اور آگے کر دیتے ہیں۔
 
Top