دیکھو پیاری لڑکی پچھتاؤگی۔ ایک پشتو آزاد نظم کا نثری ترجمہ

دہلوی جی جویریہ نے واقعی ترجمہ کا حق ادا کردیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں تک پشتو زبان کا تعلق ہے تو یہ پیدائشی طور پر ہی بولی جاتی ہے یہ زبان آپ سیکھ نہیں سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔کیونکہ کچھ لوگوں کے بقول یہ دوزخ کی زبان ہے لیکن حمزہ خان شینواری فرماتے ہیں
اغیار وائی دہ دوزخ جبہ دہ
زہ بہ جنت تہ دہ پختو سرہ زم
اغیار کہتے ہیں کہ یہ پشتو زبان دوزخ کی زبان ہے
لیکن میں اسی پشتو کے ساتھ جنت میں جاؤں گا...
 

محمد وارث

لائبریرین
دوزخ کی زبان سے ایک لطیفہ یاد آ گیا۔

ایک بار جوش ملیح آبادی، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر سے ملنے گئے، تو وہاں بیدی صاحب کے بہت سے ملنے والے تھے، گفتگو پنجابی میں ہو رہی تھی، جوش گھبرا گئے اور کہنے لگے، بیدی صاحب دیکھ لیجیے گا، دوزخ کی سرکاری زبان یہی آپ کی پنجابی زبان ہوگی۔ بیدی بولے، پھر تو آپ کو ضرور سیکھ لینی چاہیے۔

سو جو کہتے ہیں کہ دوزخ کی زبان پشتو ہے ان کو ضرور یہ سیکھ لینی چاہیے :)
 
دہلوی جی جویریہ نے واقعی ترجمہ کا حق ادا کردیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں تک پشتو زبان کا تعلق ہے تو یہ پیدائشی طور پر ہی بولی جاتی ہے یہ زبان آپ سیکھ نہیں سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔کیونکہ کچھ لوگوں کے بقول یہ دوزخ کی زبان ہے لیکن حمزہ خان شینواری فرماتے ہیں
اغیار وائی دہ دوزخ جبہ دہ
زہ بہ جنت تہ دہ پختو سرہ زم
اغیار کہتے ہیں کہ یہ پشتو زبان دوزخ کی زبان ہے
لیکن میں اسی پشتو کے ساتھ جنت میں جاؤں گا...
ڈیر مزیدار شعر دے کانا۔
 

مغزل

محفلین
معافی چاہتا ہوں لڑی کا موضوع تو نہیں مگر جیہ بٹیا کو خاصی مدت سے مس کر رہا ہوں۔۔ پتہ نہیں کہاں کس حال میں ہوگی ہماری بہنا۔ اللہ کریم خصوصی کرم فرمائے ۔ آمین
 

جیہ

لائبریرین
عبدالباری جہانی پشتو کے صف اول کا شاعر ہے۔ اس کی ایک آزاد نظم مجھے بہت پسند ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے اس نظم کی مخاطب میں ہوں۔ اس کا نثری ترجمہ پیش خدمت ہے۔ ترجمہ اگرچہ ناقص ہے مگر کوشش کی ہے کہ شاعر جو کہنا چاہتا ہے، وہ مفہوم ضایع نہ ہو۔

پشتو نظم

ګوره ښائستې انجلۍ پښيمانه به شې
خله تر قيامته څوک خلګۍ نه بولي
دا بې انصافه دا هيرجن خريدار
پرونۍ ښکلې ناوکۍ نه بولي
څوک ئې و اوښکو ته هم نه ورګوري
هغه کتو کښې چې رمزونه نه وي
ځاۍ ئې د شعر په څپو کښې نشته
چې د ځوانۍ په کښې موجونه نه وي
کله چې واؤړي د زمان پر ګتو
دا د سيليو په شان تيز کلونه
کله چې وغوړيړيږي نوې ځوانۍ
اؤ تا ته پاتې شي خالي نقلونه
نور به دې اوښکې ملغلرې نه وي
ناز به دې هم څوک توصولے نه شي
د تودې غيږې ګرمه مينه به دې
دا چا اورونه سړولے نه شي
پر سرکۍ شونډو به دې ورک تبسم
زاړه دردونه هيرولے نه شي
د باڼه غشي به دي پس وي هلته
د خلقو زړونه به پيئلے نه شي
پر سپينه غاړه به دې تورې څڼې
را تاتيويدلے، ځنګيدلے نه شي
د ناساپه کتو يادونه به دې
د چا خوبونه ويښولے نه شي
ستا به هم زما په شان ځواني تيره شي
ستا به هم ما غوندې مستي هيره شي
ته به هم ياد کې
د ځوانۍ خوبونه
په ژوندانه به دې هستي هيره شي
ګوره ښائستې انجلۍ پښيمانه به شې
خله تر قيامته څوک خلګۍ نه بولي

دا بې انصافه دا هيرجن خريدار
پرونۍ ښکلې ناوکۍ نه بولي



میرا ترجمہ۔


دیکھو پیاری لڑکی تم پچھتاو گی
کوئی رخسار وں کو ہمیشہ
گل رخ کہہ کے یاد نہیں کرتا
یہ بے انصاف،
یہ بھول جانے والا خریدار
کل کی دلہن کو
آج دلہنیا نہیں کہتا
جس کی نظروں میں رمز و اشارہ نہ ہو
کوئی اس کے آنسووؤں کو نہیں دیکھتا
جن نگاہوں میں شباب موجزن نہ ہو
ان نگاہوں کا
شعر کی بحروں میں جگہ نہیں
جب گزر جائیں گے زمانے کے ہاتھوں
طوفانوں کے طرح تیز شب و روز
جب کھل جائیں گی شباب کی نئی کلیاں
اور تیرے لیے رہ جائیں گی بس یادیں
تب تیرے آنسو موتی نہیں ہوں گے
کوئی تیری ناز و ادا کی تعریف نہیں کرے گا
تب تیری گرم آغوش
کسی کی آگ بجھا نہیں سکے گی
تیرے سرخ لبوں کے وہ تبسم
پرانے درد بھلا نہ پائیں گے
تب تیری پلکوں کے تیروں میں تیزی نہ ہوگی
کہ کسی کے دل کو گھائل کر سکیں
تیرے حسین رخساروں پر تیری کالی زلفیں
پھر کبھی لہرا نہ سکیں گی
تیرے اچانک ہونے والی دیدار کی یادیں
کسی کی نیندیں اڑا نہ سکیں گی
میری طرح تیری بھی جوانی گزر جائے گی
تو بھی میرے طرح مستی بھول جائے گی
تو بھی یاد کرے گی
جوانی کے حسین خواب
جیتے جی ہستی بھول جائے گی
دیکھو پیاری لڑکی تم پچھتاو گی
کوئی رخساروں کو ہمیشہ
گل رخ کہہ کے یاد نہیں کرتا
یہ بے انصاف،
یہ بھول جانے والا خریدار
برسوں پرانی دلہن کو
دلہنیا نہیں کہتا



اور یہ ہے م۔م۔ مغل بھائی کا (میرے ترجمے کا) ترجمہ

(مغل بھائی بہت خوب)

دیکھو پیاری لڑکی تم پچھتاو گی
کوئی رخسار وں کو ہمیشہ
گل رخ کہہ کے یاد نہیں کرتا
بے انصاف بھلادینے والا گاہگ
کل کی دلہن کو آج دلہن کب کہتا ہے
اس کی نظریں رمز و اشارہ دونوں ہی سے عاری ہیں
کوئی اس کے آنسووؤں کو دیکھے کیسے ممکن ہے
جن نظروں میں لہریں لیتے قوس و قزع کے رنگ نہ ہوں
ان نظروں کو شعر کی بحریں کب ایجاب کے رنگ دیتی ہیں
کہ جب بیت چلے ہوں لمحے ،طوفانوں کی مانند تیز
روز و شب کی انگنائی میں جب کھل جائیں تازہ کلیاں
اورتمھاری انگنائی میں رہ جائیں گی
خزاں رتوں کے خشک پتوں کی صورت یادیں
تب تمھاری آنکھ کے آنسو موتی نہ کہلائیں گے
کون تمھارے نرم لبوں کی ، نازو ادا کی
مدح سرائی کرپائے گا
تب اس آغوش کی گرمی
سرد جذبات کے دوزخ کی آگ بجھا نہ پائے گی
اور پرانے درد تمھارے سرخ لبوں پہ کھل جائیں گے
تب پلکوں کے گہرے سائے ٹھنڈک سے عاری ہوجائیں
تب ابرو کی دھار سے کوئی دل گھائل نہ ہوپائے گا
میری طرح تمھاری جوانی تنہا بیتے جائے گی
میری طرح سے تم بھی اپنی شوخی بھول کے تنہا رہ جاؤگی
اور تمھارے رخساروں پر کالی ناگن جیسی زلفیں
رقص کہاں کر پائیں گی
اور تمھارے چہرے کے دیداد کے شاکی
پھر سے کسی بنجارے کی نیند اڑا نہ پائیں گی
تم بھی یاد کروگی وہ دن
تم بھی یاد کرو گی وہ دن
دیکھو پیاری لڑکی تم پچھتاو گی
کوئی رخسار وںکو ہمیشہ
گل رخ کہہ کے یاد نہیں کرتا
بے انصاف بھلادینے والا گاہگ
کل کی دلہن کو آج دلہن کب کہتا ہے
 

فلک شیر

محفلین
کم کسی نظم نے مجھے اتنا متاثر کیا ہے، جتنا اس ترجمے نے۔ یقیناََ پشتو بھی خوب چیز ہو گی۔
مغزل صاحب کا ترجمہ اچھا ہے، بہت اچھا ہے۔ لیکن سچ کہوں ، تو جو روانی اور سچائی جیہ کے ترجمہ میں ہے ، وہ اور ہی چیز ہے۔
بہت اعلیٰ ۔ اگرچہ عورت کے ان احساسات کی ترجمانی مختلف زبانوں میں ہمیشہ عورت کرتی چلی آئی ہے، لیکن اس آزاد نظم اور اس کے ترجمے نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔
 

جیہ

لائبریرین
کم کسی نظم نے مجھے اتنا متاثر کیا ہے، جتنا اس ترجمے نے۔ یقیناََ پشتو بھی خوب چیز ہو گی۔
مغزل صاحب کا ترجمہ اچھا ہے، بہت اچھا ہے۔ لیکن سچ کہوں ، تو جو روانی اور سچائی جیہ کے ترجمہ میں ہے ، وہ اور ہی چیز ہے۔
بہت اعلیٰ ۔ اگرچہ عورت کے ان احساسات کی ترجمانی مختلف زبانوں میں ہمیشہ عورت کرتی چلی آئی ہے، لیکن اس آزاد نظم اور اس کے ترجمے نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔
شکریہ فلک شیر نظم اور ترجمہ پسند کرنے کے لئے
 
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں ، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اُٹھتی ہے ، گردُوں پہ گذر رکھتی ہے
نظم پڑھ کر بہت دیر سوچتا رہا کیا تبصرہ کروں
بہت سوچنے کے بعد صرف اتنا کہ سکتا ہوں
it's not end of the world but it make me sad
 
اس قدر خوبصورت نظم
اتنا دلکش ترجمہ
اتنا گہرا اور دیر پا تاثر چھوڑنے والے خیالات
کہ ہم سے رہا نہ گیا
اور ہم نے اس نظم کے اس خوبصورت نثری ترجمے کو فورآ کاپی کرلیا اور آدھی نظم کو فی الفور منظوم قالب میں ڈھال گئے
پھر آلکس نے آلیا
اب ہم ایک سطر روزآنہ کے حساب سے باقی کام کررہے ہیں
اسی باعث آپ کے ٹیگ کو عارضی طور پر نظر انداز کیا کہ آج ہی اس نظم کو مکمل کرکے جواب دے دیں گے
ایسی جلدی بھی کیا ہے


بہت شکریہ بٹیا اس نظم کا ترجمہ پیش کرنے پر
 

شاکرالقادری

لائبریرین
بہت خوبصورت اور متاثر کن نظم ہے ۔۔۔ ترجمہ بھی خوب کیا ہے آپ دونوں نے
آن مرغِ طرب کہ نام او بود شباب
افسوس ندانیم کہ کے آمد و کے شد
خیام

شادمانی کا پرندہ نام تھا جسکا شباب
کب خدا معلوم آیا اور کس دم اڑ گیا
 
Top