اگرآپ پاکستانی سڑکوں پر یہ سوچ لے کر چلتے ہیں کہ میں تو اپنے ہاتھ سیدھا سیدھا جارہا ہوں ۔ ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی میں نہیں کر رہا تو میں تو ٹھیک ٹھاک منزل مقصود تک پہنچ جاؤں گا ۔ تو یہ آپ کی بھول ہے ۔آپ نے سمجھ لیا کہ آپ اندھے ہیں جبکہ دوسرے سب بینا ہیں۔ جبکہ یہاں سڑک پر سفر کرنے کا دستور یہ ہے کہ آپ بینا ہیں باقی سب اندھے ہیں اور ان اندھوں کی طوفانی بھاگ دوڑ میں آپ کو اپنا دامن بچا کر گزرے بغیر چارہ نہیں ۔ کیونکہ ابھی تھوڑی دیر کے بعد پاگلوں کا ایک جتھا موٹر سائیکلوں پر سوار آئے گا اور آپکے قریب آکر طوفان بد تمیزی برپا کر کے آپ کو ہر اساں کرتے ہوئے آگے نکل جائے گا ۔ آپ ان کا منہ تکتے رہ جائیں گے اور اتنی دیر میں ایک اور موٹر سائیکل سوار تیز و تند رفتار سے جاتا ہوا ایک پریشر ہارن بجاکر آپ کی جان نکالنے کے قریب جائے گا اور آپ کے اعصاب شل ہو جائیں گے ۔
اپنے محلے کے پاس پہنچیں گے تو گلی میں ایک شادی کا جشن ہورہا ہو گا۔ جس میں اونچی آواز سے بے ہو دہ گانوں کی آوازیں نشر ہو رہی ہوں گی اور آپ کی پوری رات کا سکون غارت کرنے کا سامان کیا جا رہا ہو گا ۔ ان کے پاس ہنگامی حالت میں جنریٹر کی سہولت بھی موجود ہوگی ۔ گھر میں پہنچ کر بھی گھر سے اور ہمسائے سے آتی ہوئی ٹیلی ویژن کی آوازیں سماعتوں میں زہر گھول دیں گی ۔ نیوز چینل چیخ چیخ کر قوم کو مایوسی کی دلدل میں دھکیل رہے ہوں گے اور غیر ملکی ڈرامے اور فلمیں آپ کی نئی نسلوں کے ذہنوں میں ثقافت کے نام پر باطل افکار گھسیڑرہے ہوں گے ۔
اخباروں اور رسالوں میں بھی فحش اور نیم عریاں تصا ویر آپ کو دعوت نظارہ دیں گی اور پیسے لے کر چھاپی گئی ٹکے ٹکے کی خبریں پہلے صفحے پر آپ کو پڑھنے کو ملیں گی ۔ دینی خبریں اور ملت اسلامیہ کی فکری خبریں آپ کو ایک انچ اور ایک کالم کے خانے میں ملیں گی ۔
اداریے کھول کر پڑھنے سے پتہ یہ چلے گا کہ بین الاقوامی سیاسی سطح پر بھی علمی سطح پر بھی اور تاریخی سطح پر بھی ملکی اور ملتی سلامتی سے بڑھ کر اغیار کا دفاع ضروری ہے ۔ آپ کسی مرکزی سڑک سے گزررہے ہوں تو ٹریفک گھنٹوں جام ملے گی ۔ وجہ معلوم کرنے پر عقدہ یہ کھلے گا کہ برسراقتدار پارٹی کے لوگ لو ڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کررہے ہیں اور پولیس ان کو حفاظت فراہم کررہی ہے ۔ جب کہ یہ لوگ صر ف ایک وقت کے کھانے کے عوض توڑ پھوڑ کر کے اپنے گھروں کی راہ لیں گے ۔
ٹریفک کے قوانین کی پابندی کروانے والے مجوزہ چالانوں کا ہدف پورا کریں یا قانون نافذ کروائیں ۔؟
؂ہمارے ہاں چار طرح کی ٹریفک پولیس فورسز ہیں اور پانچویں نو کر شاہی ، چھٹی کوئیک رسپانس فورس اور ساتویں محافظ دستے لیکن نہ تو ٹریفک انسانوں کی طرح چلتی ہے اور نہ ہی سڑکوں سے ڈاکوں کی واردات ختم ہوتے ہیں آرہی ہیں بلکہ ان میں آئے روز اضافہ رو بہ عمل ہے ۔ انتظامیہ مفلوج ہے عوام بے بس، بد حا ل اور خواص بد کردار ۔
لاؤڈ سپیکر کا قانون صرف مسجد کے لیے ہے ۔ باقی سارا سارا دن اور پوری پوری رات فحش گانوں سے جو انار کی پھیلا ئی جارہی ہے وہ تو ثقافت کا حصہ ہے ۔ حالا نکہ اسی سے بدکاری کے رحجان میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
دینی لٹریچر تو لوگوں کو گمراہ کرنے کا ذریعہ قرار دیا جارہا ہے ۔ جبکہ فحاشی پھیلانے کے اسباب کو تفریح بتایا جارہا ہے اور جرائم کی شرح میں اضافہ اسی نادانی کی وجہ سے بتدریج بڑھ رہا ہے ۔دینی کتابیں مفت لے کر بھی کوئی پڑھنے کو تیار نہیں ۔ جبکہ ہفتہ وار فیشن میگزین زر کثیر خرچ کرکے منگوائے جاتے ہیں اور گھروں میں ناچاقی کا سبب خرچ اور آمدن کا توازن بگاڑنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔
اخباروں کے حوالے سے نوجوان نسل کا رحجان کھیل اور شو بز کی خبروں تک اور ستارے دیکھنے تک اگر
سو فی صد ہے تو تعلیمی اور دینی خبروں تک دس فی صد بھی نہیں ۔ رشوت لے کر لکھے گئے اداریے اور کالم ایک دن کا ادب تخلیق کرتے ہیں ۔ جبکہ چند دن کے بعد وہی کالم نویس اپنے پہلے نظریے کے خلاف لکھ رہا ہوتا ہے ۔ کیونکہ پیسے سے اُس کی ذات کیا اس کا ایمان بھی باآسانی خریدا رجارہا ہو تا ہے اور وہ دنیا کی عارضی عیش و عشرت کے لیے باطل کا ترجمان بن رہا ہوتاہے ۔
اپنی حکومت میں اُسی پارٹی کا لو ڈشیڈنگ کے خلاف مظاہرہ صرف عوامی جذبات کو اپنی حمایت میں لے کر آنے کیلئے ہو تا ہے ورنہ اُ ن کے محلات کے پرندوں کو بھی لوڈ شیڈنگ کے لفظ کے معانی نہ آتے ہوں گے ۔
دراصل اس قوم کو کسی کی نظر لگ گئی ہوئی ہے ۔ اس میں بہت جوش و جذبہ ہے لیکن اُس کے استعمال کی درست خبر نہیں ہے ۔ جو ہر تو ہے جوہر شناس کی کمی ہے ۔ لوہا تو ہے مگر اُسے صیقل کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ وسائل تو موجو د ہیں لیکن اُن کو صحیح جگہ پر خرچ کرنے راستہ معلوم نہیں ۔ تڑپ تو سبھی رکھتے ہیں لیکن جدوجہد کرنے کا طریقہ نہیں آتا ۔حقیقتاً اُن کے پاس دنیا کا سب سے بڑا نظام حیات ہے ۔ ان کے پاس اعلیٰ ترین دستور بھی موجود ہے لیکن اُن کو بتایا نہیں گیا ۔ بتانے والے رات کو فلم دیکھ کر سو جاتے ہیں صبح آٹھ بجے جاگ کر اُن کو کسی طرح یہ پیغام دیا جائے کہ مسجد بھی ہے اور صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے فجر کی نماز ادا کرلی جاتی ہے ۔ وہاں نماز فجر کے بعد قرآن پاک کی تدریس بھی ہوتی ہے اور مفت تعلیم کا انتظام بھی ہے لیکن اس قوم کو سمجھانے والے کبھی بھی ان کو معاشرے کا کارآمد شخص بنانے کی کاوش نہیں فرماتے ۔ وہ ان کو اپنے استاد کا ادب کرنے کا نہیں سکھاتے ۔ اس قوم کو پالنے والوں نے اس استاد کا تصور ایک ملازم سے زیادہ نہیں دیا ۔ حالاں کہ اساتذہ ہی وہ طبقہ ہیں جو تعلیم دے کر قوموں کو عروج کی طرف لے جاتے ہیں لیکن استاد سے استفادہ صرف وہی لو گ کرپاتے ہیں جن کی تربیت اُن کے اپنے گھر سے اچھی بنیادوں پر کی گئی ہو ۔اگر تخلیق دینے والے والدین اپنے بچوں کو نیک بننے کا درس نہیں دیتے اور اُن کو ایک متوازن شخصیت نہیں بناتے ، اُن کو انسانیت نہیں سکھلاتے تو ہماری سٹرکوں پر نہ تو ڈاکے ختم ہونگے اور نہ ہی بدتمیزی والی ڈرائیونگ ختم ہو گی اور نہ فحش گانوں کا عذاب ختم ہو گا اور نہ ہی ٹی وی پر کفریہ افکار کی یلغار ختم ہو گی، نہ ہی معاشرہ پرُامن ہو گا اور نہ سکون کی زندگی میسر آسکے گی ۔
اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر
 

قیصرانی

لائبریرین
بھائی جی، اونچی آواز میں گانوں کے علاوہ اونچی آواز میں رات رات بھر مساجد میں محفلیں ہوتی ہیں، وہ بھی ایک طرح ہمسائیوں کے لئے عذاب ہوتا ہے کہ جس نے امتحان کی تیاری کرنی ہے یا جس کی طبعیت ٹھیک نہیں، وہ بے چارے تو مفت میں مارے گئے

آپ کی باتیں ٹھیک ہیں۔ ہمیں انتہا پسندی سے بچنا چاہیئے، چاہے وہ جس شکل میں بھی ہو
 

باباجی

محفلین
ایک سچی اور کڑوی حقیقت
جس کے حق میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ سب کو پتا ہے
کیا صحیح ہے کیا غلط
اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے
آمین
 

باباجی

محفلین
بھائی جی، اونچی آواز میں گانوں کے علاوہ اونچی آواز میں رات رات بھر مساجد میں محفلیں ہوتی ہیں، وہ بھی ایک طرح ہمسائیوں کے لئے عذاب ہوتا ہے کہ جس نے امتحان کی تیاری کرنی ہے یا جس کی طبعیت ٹھیک نہیں، وہ بے چارے تو مفت میں مارے گئے

آپ کی باتیں ٹھیک ہیں۔ ہمیں انتہا پسندی سے بچنا چاہیئے، چاہے وہ جس شکل میں بھی ہو
قیصرانی بھائی
برا نہیں منایئے گا
اونچی آواز میں گانے اور مساجد کی محافل دونوں الگ الگ چیزیں ہیں

باقی اظہار رائے کا سب کو حق ہے
لیکن اگر ہم کسی اعتراض کے اوپر اعتراض کریں گے
تو اصل مسئلہ کہیں پیچھے رہ جائے گا
اور ایک طرح کی بد مزگی پیدا ہوجائے گی

یہ میری آپ سے بہت ہی مودبانہ گزارش ہے
کہ اعتراض کرنے کا طریقہ کار بدلیں
یعنی اس کو بنا سنوار کر پیش کریں
کیوں کہ مجھے ایسا لگا کہ آپ ان تمام مسائل جن کا ذکر قادری بھائی نے کیا ہے
ان کی حمایت کر رہے ہیں

اسلیئے میں نے اتنا کچھ لکھ دیا
آپ سے پیشگی معذرت کرتا ہوں
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی بھائی
برا نہیں منایئے گا
اونچی آواز میں گانے اور مساجد کی محافل دونوں الگ الگ چیزیں ہیں

باقی اظہار رائے کا سب کو حق ہے
لیکن اگر ہم کسی اعتراض کے اوپر اعتراض کریں گے
تو اصل مسئلہ کہیں پیچھے رہ جائے گا
اور ایک طرح کی بد مزگی پیدا ہوجائے گی

یہ میری آپ سے بہت ہی مودبانہ گزارش ہے
کہ اعتراض کرنے کا طریقہ کار بدلیں
یعنی اس کو بنا سنوار کر پیش کریں
کیوں کہ مجھے ایسا لگا کہ آپ ان تمام مسائل جن کا ذکر قادری بھائی نے کیا ہے
ان کی حمایت کر رہے ہیں

اسلیئے میں نے اتنا کچھ لکھ دیا
آپ سے پیشگی معذرت کرتا ہوں
اگر آپ نے میرے پیغام کی آخری لائن پڑھی ہوتی تو شاید الجھن نہ ہوتی :) میں نے محض قادری بھائی کی بتائی ہوئی باتوں میں اپنی طرف سے ایک اضافہ کیا تھا :) تاہم جزاک اللہ
 

باباجی

محفلین
اگر آپ نے میرے پیغام کی آخری لائن پڑھی ہوتی تو شاید الجھن نہ ہوتی :) میں نے محض قادری بھائی کی بتائی ہوئی باتوں میں اپنی طرف سے ایک اضافہ کیا تھا :) تاہم جزاک اللہ
آپ کی بات میں نے پڑھی ہے
بہت صحیح لکھا آپ نے

انتہا پسندی بے شک غلط ہے
ہم اسکو کسی صورت صحیح نہیں کہہ سکتے
اسی لیئے ہر کام میں اعتدال کا حکم ہے

ہر مسلمان
چاہے نام کا مسلمان ہی کیوں نہ ہو
اپنے مذہبی مراکز کے بارے میں کوئی سچی نامناسب بات برداشت نہیں کرتا

میں خود انہی نام کے مسلمانوں میں شامل ہوں جو خود شاید جمعہ کی نماز بھی ریگولرلی نہیں پڑھتا
لیکن کوئی سچی نا مناسب بات بھی برداشت نہیں ہوتی :)

لیکن بات آپ کی سچی ہے بھائی
 
بھائی جی، اونچی آواز میں گانوں کے علاوہ اونچی آواز میں رات رات بھر مساجد میں محفلیں ہوتی ہیں، وہ بھی ایک طرح ہمسائیوں کے لئے عذاب ہوتا ہے کہ جس نے امتحان کی تیاری کرنی ہے یا جس کی طبعیت ٹھیک نہیں، وہ بے چارے تو مفت میں مارے گئے

آپ کی باتیں ٹھیک ہیں۔ ہمیں انتہا پسندی سے بچنا چاہیئے، چاہے وہ جس شکل میں بھی ہو
آپکی بات سے سو فیصد متفق ہوں۔۔۔اس کالم میں صرف یک طرفہ بات کی گئی ہے لاؤڈسپیکر کے حوالے سے۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ جسقدر مکروہ طریقے سے لاؤڈسپیکر کا استعمال مساجد کی طرف سے کیا جاتا ہے، اسکا عشرِ عشیر بھی کسی اور جگہ سےنہیں ہوتا۔۔یہ میں اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں ، سنی سنائی بات نہیں ہے
 
لاہور میں موٹر سائیکل چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔میرا ایک بار دل کیا تھا کہ اس بارے میں لکھوں۔
میں بھی پہلے آرام سے موٹر سائیکل چلاتا تھا اور دوسروں کو راستہ دے دیا کرتا تھا لیکن بعد میں احساس ہوا کہ میں غلطی پر ہوں۔نتیجتاً یہ کہنے پر مجبور ہوگیا
لاہور میں ٹریفک کا ایک ہی اصول--کسی کو رستہ دینا انتہائی فضول
شادی بیاہ والی بات بھی بالکل ٹھیک ہے۔میں یہ نہیں کہتا ہے کہ شادی پر خوشی نہ منائی جائے لیکن یہ خوشی کسی کی دل آزاری کا باعث نہ بنے۔ہمارے گاؤں میں اگر کسی کے گھر شادی ہو تو پورے گاؤں والوں کو رات جاگ کر گزارنی پڑتی ہے۔ایک طرف بے ہنگم موسیقی اور دوسری طرف ساری رات پٹاخے۔اگر آپ نے پٹاخے چلانے ہی ہیں تو دن کو چلاتے رہو۔رات کو لوگوں کی نیند کیوں خراب کرتے ہو؟

میرا گاؤں والی مساجد میں لاؤڈ سپیکر صرف اذان یا اعلانات کیلیے ہی استعمال ہوتا ہے۔بہر حال ایک مسجد میں ہر قسم کا اعلان کیا جاتا ہے یعنی گوشت سے لیکر کپڑا بیچنے کا۔میرے خیال میں یہ مسجد کے ساتھ ناانصافی ہے
 
بھائی جی، اونچی آواز میں گانوں کے علاوہ اونچی آواز میں رات رات بھر مساجد میں محفلیں ہوتی ہیں، وہ بھی ایک طرح ہمسائیوں کے لئے عذاب ہوتا ہے کہ جس نے امتحان کی تیاری کرنی ہے یا جس کی طبعیت ٹھیک نہیں، وہ بے چارے تو مفت میں مارے گئے

آپ کی باتیں ٹھیک ہیں۔ ہمیں انتہا پسندی سے بچنا چاہیئے، چاہے وہ جس شکل میں بھی ہو
اگر آپ کے لیے
اونچی آواز میں رات رات بھر مساجد میں محفلیں ہوتی ہیں، وہ بھی ایک طرح ہمسائیوں کے لئے عذاب ہوتا ہے
نقل کفر کفر نباشد
یہ نظریہ ہے تو آپ بہت ترقی کر چکے ہیں۔ بلکہ اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔ انتظار فرمائیں اللہ کے وعدے کا۔
 
لاہور میں موٹر سائیکل چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔میرا ایک بار دل کیا تھا کہ اس بارے میں لکھوں۔
میں بھی پہلے آرام سے موٹر سائیکل چلاتا تھا اور دوسروں کو راستہ دے دیا کرتا تھا لیکن بعد میں احساس ہوا کہ میں غلطی پر ہوں۔نتیجتاً یہ کہنے پر مجبور ہوگیا
لاہور میں ٹریفک کا ایک ہی اصول--کسی کو رستہ دینا انتہائی فضول
شادی بیاہ والی بات بھی بالکل ٹھیک ہے۔میں یہ نہیں کہتا ہے کہ شادی پر خوشی نہ منائی جائے لیکن یہ خوشی کسی کی دل آزاری کا باعث نہ بنے۔ہمارے گاؤں میں اگر کسی کے گھر شادی ہو تو پورے گاؤں والوں کو رات جاگ کر گزارنی پڑتی ہے۔ایک طرف بے ہنگم موسیقی اور دوسری طرف ساری رات پٹاخے۔اگر آپ نے پٹاخے چلانے ہی ہیں تو دن کو چلاتے رہو۔رات کو لوگوں کی نیند کیوں خراب کرتے ہو؟

میرا گاؤں والی مساجد میں لاؤڈ سپیکر صرف اذان یا اعلانات کیلیے ہی استعمال ہوتا ہے۔بہر حال ایک مسجد میں ہر قسم کا اعلان کیا جاتا ہے یعنی گوشت سے لیکر کپڑا بیچنے کا۔میرے خیال میں یہ مسجد کے ساتھ ناانصافی ہے
اور جن کو مسجد سے مفت تعلیم اور ایمان میں مضبوطی کے لیے حمد و نعت سننے کو ملتی ہے وہ نا عاقبت اندیش اسی معاملے کو عذاب کہتے ہیں
 
آپکی بات سے سو فیصد متفق ہوں۔۔۔ اس کالم میں صرف یک طرفہ بات کی گئی ہے لاؤڈسپیکر کے حوالے سے۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ جسقدر مکروہ طریقے سے لاؤڈسپیکر کا استعمال مساجد کی طرف سے کیا جاتا ہے، اسکا عشرِ عشیر بھی کسی اور جگہ سےنہیں ہوتا۔۔یہ میں اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں ، سنی سنائی بات نہیں ہے
آپ کا تجربہ اور مشاہدہ متعصبانہ نظری کا غماز ہے
 
آپ کا تجربہ اور مشاہدہ متعصبانہ نظری کا غماز ہے
اچھا جی مان لیتے ہیں کہ ہمارا تجربہ اور مشاہدہ "متعصبانہ نظری" (ویسے یہ لفظ پہلی مرتبہ سنا ہے) کا شکار ہے۔۔۔مان لیتے ہیں جی ۔۔اور یہ بھی مان لیتے ہیںکہ آپ کا تجربہ و مشاہدہ کسی قسم کے شک و شبہے یا غلط فہمی سے ماوراء ہے۔ اب خوش؟ :)
 

قیصرانی

لائبریرین
اگر آپ کے لیے

نقل کفر کفر نباشد
یہ نظریہ ہے تو آپ بہت ترقی کر چکے ہیں۔ بلکہ اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔ انتظار فرمائیں اللہ کے وعدے کا۔
محترم آپ اپنی پوسٹس پر مجھے یا تو ٹیگ نہ فرمایا کریں یا پھر میرا نقطہ نظر سننے کو تیار رہا کریں۔ باقی رہا اللہ کا عذاب تو مولویوں کی شکل میں آج کل بنی نوع انسان اسے بہت بھگت رہی ہے۔ مزید عذاب کی دھمکی دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ذیل کی ایک پوسٹ میں نے خاور کے بلاگ سے اتاری ہے۔ آپ بھی پڑھیئے اور سر دھنیئے کہ اللہ کا عذاب کس پر نازل ہو :)




محفل میں بات چل پڑی
کہ
شیطان کی ذاتی زندگی اور نظریات اور مذہب کیا ہے؟
اور
کس کام سے شیطان ہے؟
بتانے والے نے بتانا شروع کیا
کہ
اس کا نام عزازئیل تھا!۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ
عزازئیل آدم کی تعمیر کا بھی شاہد ہے
کہ جب اس نے ادم کا بت دیکھا تو یہ اس میں داخل ہو کر کبھی ناک سے نکل جاتا اور کبھی کان سے داخل ہو کر منہ سے نکل جاتا
اس نے رب سے یہ بھی کہا کہ
یہ کیا چیز بنائی ہے اتنے سوراخوں والی؟ اس چیز کو مجھے سونپ دے میں اس کو سیدھا کردیتا ہوں!۔

رب کا بڑا ہی عبادت گزار ، فرمانبردار ۔ حتی کی شرک سے بھی بہت دور ، خالص توحید والا۔
اس نے زمین کے چپے چپے پر سجدہ کیا ہوا ہے
رب کی ربوبیت کی حقیقت کا نزدیک سے شاہد!۔
جنت میں ایک جھولا بنا ہوا تھا اس کے لئے جس پر بیٹھ کر یہ فرشتوں کو رب کی ربوبیت کا علم دیا کرتا تھا
فرشتے اس کے اس جھولے کو اگے دھکیلتے جاتے تھے
اور "وہ" ان کو علم کی باتاں بتاتا جاتا تھا
یعنی کہ فرشتوں کا بھی استاد!
اس کا کام رب کی عبادت اور اسی کا نام جپنا تھا!
عبادت گزار ہر وہ عبادت کرتا تھا جس جس سے کہ رب راضی ہو
رب کی رضا کے حصول کے لئے اس نے جتنی کوشش کی ہے اتنی کسی اور مخلوق نے کم ہی کی ہو گی

جب بات یہاں تک پہنچی تو
سننے والوں میں سے ایک نے پوچھا
کہ پھر کیا ہوا کہ ، ایک عبادت گزار ، کو رب نے ناپسند کر دیا ؟

بتانے والے نے بتایا کہ
پھر ایک دن رب نے "اس" کو حکم دیا کہ
یہ ہے آدمی ! اس کی رسپکٹ کرو یعنی کہ آدم کے حقوق کا جو نظام ترتیب دیا گیا ہے ۔ اس نظام کے تحت میرے حکم سے ان کو ادا کرو!!!۔
تو
عبادت گزار نے رب کی عبادات کو ترجیع دی اور بندے کے حقوق ماننے سے انکار کر دیا
حالنکہ ان حقوق کی ادائیگی کا حکم بھی "وہی رب" دے رہا ہے ، جس کی عبادت ، عبادت گزار کرتا ہے
اس لئے
عبادت گزار عزازئیل حقوق العباد کے انکار سے شیطان ہو گیا!!!۔
سننے والوں میں سے سے ایک نے سوال جڑ دیا
کہ
سر جی
یہ اپ نے شیطان کا "سی وی " بتایا ہے
کہ
ہمارے زمانے کے عبادت گزار مولوی کا؟؟
جو وظیفے پر وظیفے اور ثواب پر ثواب کے طریقے بتاتا ہے
اور اولاد ادم میں سے بہت سوں کو کم تر جانتا ہے!!۔

شیطان کی پرسنل ہسٹری بتانے والے نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا تھا
اس لئے
اپ بھی امریکیوں کی طرح کندھے اچکا کر ، پنجابیوں کی طرح کہیں
سانوں کی!!!۔​

بقلم خود خاور کھوکھر
 

قیصرانی

لائبریرین
اور جن کو مسجد سے مفت تعلیم اور ایمان میں مضبوطی کے لیے حمد و نعت سننے کو ملتی ہے وہ نا عاقبت اندیش اسی معاملے کو عذاب کہتے ہیں
اللہ کرے کہ دو تین الگ الگ فرقوں کی مساجد آپ کے گھر کے عین پڑوس میں قائم ہوں اور دن رات آپ کا ایمان آپ کے اپنے الفاظ میں، مضبوط ہوتا رہے اور دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا رہے
 

قیصرانی

لائبریرین
اضافہ، مطلب: تحریف
او بھائی، لوگوں نے تو خدا کے کلام تک میں تحاریف کر دینے کی کوشش کی ہے، آپ کون سے اتنی اہم شخصیت ہیں کہ آپ کے کلام کا اضافہ مطلب تحریف کی پروا کی جائے؟ اگر آپ کی چند باتیں دوستانہ رنگ میں لے کر اس پر اپنی طرف سے میں نے اپنی رائے دے دی تو اسے اضافہ یعنی تحریف سمجھ لیا؟ اتنے "عقلمند" دوست سے خدا بچائے
 
Top