دیوانہ( افسانہ)

خاورچودھری

محفلین
دیوانہ
(خاورچودھری)

یہ خلافِ معمول ہی تھاکہ میں صبح سویرے اُٹھتے ہی حجام کے پاس چلاآیا۔شیوتومیں گھرپرہی بنا لیتا ہوں مگربال بنانے کے لیے حجام کے پاس آنا ہی پڑتا ہے۔صبح آنے کا ایک فایدہ یہ ہوا کہ حجام بالکل فارغ بیٹھا تھاالبتہ تین آدمی لکڑی کے بنچ پرپاوٴں لٹکائے یوں بیٹھے تھے جیسے زندگی کے منتظر ہوں۔ میں سلام کہہ کرآئینے کے سامنے پڑی گھومنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔کمرسیدھی کرتے ہوئے میں نے اپنے سامنے آئینے میں دیکھا تواُس میں سے اُن افراد کا عکس واضح نظر آرہا تھاجوپیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔وہ لوگ اَب بھی خاموش تھے،شایدمیرے آنے کی وجہ سے اُن کا سلسلہ ء کلام منقطع ہوگیا تھایاپھرلفظوں کی پوٹلی خالی ہوگئی تھی۔ جو بھی تھا اُن کے لبوں پر تالے پڑے ہوئے تھے۔ میں نے غور سے تینوں کے چہروں کاجائزہ لیا۔وہی بے چہرگی تھی جوکہ ایسے موقعوں پر ہوتی ہے۔ تاثر سے خالی ان چہروں میں کوئی بھی تو خاص بات نہیں تھی۔البتہ چوہے کی سی مونچھوں والے اورسرپرتازہ استراپھروائے ہوئے شخص کی آنکھیں کچھ کہنا چاہتی تھیں۔ چالیس کے سن کو چھوتا ہوا پختہ رنگت کاحامل یہ شخص بار بار اپنی گول اور سیاہ آنکھوں کو یوں گھماتا جیسے گاڑی کاپہیہ گھومتا ہے۔پھربے زاری ظاہر کرتے ہوئے باہر دیکھنے لگتا۔کبھی کبھار وہ اپنے ہاتھ کو ساتھ بیٹھے ہوئے دوسرے شخص گھٹنے پریوں مارتا جیسے زندگی کے دروازے پردستک دے رہا ہو۔حجام کی دکا ن میں موجودہم پانچوں افرادسکوتِ پیہم میں مبتلا تھے۔تاہم قینچی چلنے کی آوازسے زندگی کا ثبوت مل رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے میرے دماغ میں یہ بات آئی کہ شاید یہ حجام کی دکان نہیں ،ورنہ اس قدر خاموشی نہ ہوتی۔ میں نے اپنے گلے پرلپٹے ہوئے کپڑے کی سختی کو اُنگلی سے کم کرتے ہوئے اپناسانس تازہ کیااورحجام سے کہا
” نصرت فتح علی خان کی قوالی ہی سنا دو“
”کون سی سنیں گے ؟“
” تم اک گورکھ دھندہ ہو“
ڈیک میں کیسٹ ڈالتے ہوئے حجام نے کہا:
”پروفیسر نیازی جب بھی آتے ہیں یہی کیسٹ سنتے ہیں اوریہ عمرحیات بھی بار باراسی کیسٹ کوسنانے کا مطالبہ کرتا ہے“
” او_____اچھا“
میں نے آئینے میں سے دوبارہ بولتی ہوئی آنکھوں والے عمرحیات کا جائزہ لیا۔اِدھرنصرت فتح علی خان کی آواز برآمد ہوئی اُدھرعمرحیات کی بولتی ہوئی آنکھوں پر پلکوں کا پردہ آن پڑا______وہ اپنے سر کوخاص اندازسے گھمانے لگا،یوں جیسے کسی بات کی تردیدکررہا ہو۔میں نے بھی اپنی آنکھیں میچ کردھیان قوالی پر لگا لیا۔ اَب حجام کی قینچی کی آوازطبلے کی تھاپ اور قوالوں کے الاپ میں کہیں کھو گئی تھی بالکل اُسی طرح جیسے کچھ دیر پہلے ان تین آدمیوں کی آوازیں معدوم تھیں۔ نصرت فتح علی خان کی آواز کا جادوہمیشہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔میں تو جب بھی اس کو سنتا ہوں،دل و دماغ کی حالت بدل جاتی ہے،جس احتیاط سے یہ لفظوں کو ادا کرتا ہے کسی اورقوال کے ہاں وہ بات نہیں______ اورپھرآواز______!
اَب جو آنکھ کھولی تو کیا دیکھتا ہوں عمرحیات اُٹھ کرباقاعدہ جھوم رہا ہے اور اُس کے ہونٹ بھی مسلسل ہل رہے ہیں۔پھریکایک ساکت ومبہوت ہماری طرف گھورنے لگتا ہے۔ایک زوردارچیخ اُس کے حلق سے برآمد ہوتی ہے اورپھرحجام سے کہتا ہے:
” بند کرو ______ میں کہتا ہوں بند کرواسے“
حجام میری طرف دیکھتا ہے تو میں آنکھوں کے اشارے سے اُسے اجازت دیتا ہوں۔سرگوشی کے سے انداز میں حجام کہتا ہے:
” اسے دورہ پڑا ہے،اَب نہ جانے یہ کیا کیا کہے گا‘میں تو کہتا ہوں یہ کھسکا ہوا ہے“
میں نے حجام کی بات سنتے ہوئے دوبارہ آئینے میں سے عمر حیات کا جائزہ لیا۔اَب وہ بنچ پر دوبارہ بیٹھ چکا تھااوراپنی داہنی ہتھیلی سے اپنے گھٹنوں پر مسلسل دستک دیتا جا رہا تھا۔خاموشی نے ایک بارپھرڈیرے ڈال لیے تھے۔کچھ دیر تومیں نے اُس کا جائزہ لیاپھر کسی اَن ہونی کے ظاہر نہ ہونے پرآنکھیں موند لیں۔چند ساعتیں ہی گزری ہوں گی کہ ایک گونج دارآوازنے ماحول پر لرزہ طاری کردیا
” میں حرامی ہوں______میں؟
اور وہ حرامی نہیں ہیں جودوسروں کاخون چوستے اورماس کھاتے ہیں،کم سِن بچوں اوربچیوں کواستعمال کرتے ہیں،جانوروں اور بے زبانوں کے ساتھ منہ کالا کرتے ہیں۔وہ حرامی نہیں ہیں جوسود دیتے اور منشیات بیچتے ہیں؟اور وہ جوقوم اور دین کی خدمت کا نعرہ بلند کرکے ووٹ لیتے اور بھول جاتے ہیں۔
میں حرامی ہوں تویہ سب کون ہیں؟“
عمر حیات کا اَنگ اَنگ غصے سے کانپ رہا تھا۔یوں لگتا تھا جیسے وہ اچانک کوئی چیز اُٹھا کر ہم میں سے کسی کے سر پر دے مارے گا۔اُس کی بے لاگ چیخ آمیز باتوں کا سلسلہ جاری تھا۔حجام بار باراُسے چلے جانے کے لیے کہتامگروہ اپنی جگہ سے نہ ہلتا۔میں نے حجام سے پوچھایہ روزانہ یہاں آتا ہے تواُس نے بتایا نہیں مگرجب بھی آتا ہے ،پریشان کرتاہے۔اس سے جان چھڑانا مشکل ہوجاتی ہے۔عمرحیات بولے جارہا تھا
” چاند میں بیٹھ کر جب تم نے پانچ سائے نیچے پھینکے تھے ، میں انھیں دیکھ رہا تھا۔اُن کے چہرے دوسری طرف تھے لیکن میں نے کوشش کر کے سب کو پہچان لیا تھا، یہ سائے ،اُلو،سور،بندر،بلی اور گائے کے تھے۔اُن سب کے سرنیچے اور پاوٴں اُوپرکی طرف تھے۔تم نے انھیں اُلٹا کر پھینکا تھا۔ میں بے دھیانی میں درختوں کے جھنڈ سے باہر نکل آیا تھا، تب اچانک یہ پانچوں سائے سانسوں کے راستے سے میری رگوں میں اُتر گئے اور پھر میرے خون میں شامل ہو گئے۔ میں بہت چیختا چلاتا رہا مگروہاں میری مدد کے لیے کوئی نہ آیا۔اَب میں تھا ______اورصحراوٴں کی ویرانی تھی۔پھر میں ایک سمت میں چلنے لگا۔کتنے ہی سال چلتا رہا تب کہیں جاکرمجھے میرے جیسے لوگ ملے۔ میں اجنبی تھا اوروہ مجھے اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے،میری بات کا اعتبار نہیں کرتے تھے______پھر انھوں نے مجھے قتل کرنا چاہالیکن تم نے مجھے لکڑی کے تختے پر بٹھا کرپانی کی لہروں پر ڈال دیا۔میرے خون میں اُترے ہوئے سائے مجھے اَب بھی بے چین کرتے تھے۔ میں پہاڑوں ، جنگلوں،بیابانوں اور غاروں میں پناہ ڈھونڈتا رہامگرسکون کہیں نہ ملا۔میرے پاوٴں زخمی ہوچکے تھے اور میرے ہونٹوں پرپیپڑیاں بن چکی تھیں۔
لق و دق صحراوٴں میں چلتے چلتے میں پیاس اور بھوک سے نڈھال ہو چکا تھا۔تب میں زمین پر گرپڑا اورتڑپتے ہوئے اپنے پاوٴں زمین پررگڑنے لگا______ میرے پاوٴں ریت سے اُلجھ اُلجھ کرریتلے اور گرم ہو چکے تھے پھرتپتے ہوئے صحرا کے سینے سے چشمہ جاری ہوگیا اورمیں نے خوب سیر ہوکرپانی پیا اوراپنے اندراورباہر کو دھویا۔“
” اوئے عمرحیات______ چل اُٹھ اَب نکل ادھرسے“
حجام نے ایک بارپھر اُس سے کہا مگروہ یوں اپنی گفتگو میں محوتھاجیسے اُس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔حجام نے اُسے بازو سے پکڑ کراُٹھاناچاہامگرناکا م رہا۔اُس نے اپنا بازو چھڑاتے ہوئے حجام سے کہا،چائے منگواوٴپھرچلتا ہوں۔لیکن حجام اُسے چائے پلانا نہیں چاہتا تھا۔
” دو پہاڑوں کے بیچ کیاہوتا ہے______ تم جانتے ہو۔ روحیں توہزاروں سال سے اُتر رہی ہیں اور اُترتی رہیں گی۔میرے اندرپانچ سائے لڑتے رہیں گے اور تم چاند میں بیٹھے رہو گے۔“
میں عمرحیات کی باتیں سُن کربہت دُور نکل آیا تھا،اتنی دورکہ اگرعمرحیات پھر نہ چیختا تومیں واپس نہ پلٹ سکتا۔
” میں ہوں حرامی______ میں؟ ______اگرمولوی کے ہاں پیدا ہوا ہوتا تولوگ میرے ہاتھ چوم رہے ہوتے،پاوٴں میں بیٹھتے اورنذرونیازدیتے۔تم مجھے حرامی کہتے ہو______تم؟ میری بہن کے پرس میں کنڈوم نہیں ہوتا______میں تودوسروں کے گھروں میں نہیں جھانکتا______ اورتم؟ _____تم اور تمہاری بہن______“
قینچی کی دھار کام دکھا چکی تھی۔عمرحیات کی پسلیاں خون آلود تھیں اوروہ ایک طرف بے سدھ پڑا تھا۔
ooo
 
Top