http://playit.pk/watch?v=cx7QNakaH6I
عارفِ ربّانی شیخ عبدالغنی العمری الحسنی کے اس لیکچر کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ ابتدائی نصف حصے کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ رب العٰلمین والصلٰوۃ والسلام علیٰ سیدنا محمد خاتم النبیین و اشرف المرسلین و علیٰ آلہ واصحابہ والتابعین۔ امّا بعد:
دینِ اصلی اور دینِ تاریخی
آج ہم دین اور اسکے ان معنوں کے بارے میں بات کریں گے جن سے اکثر لوگ ناواقف ہیں۔ اور قبل اسکے کہ ہم موضوع کے میدان میں داخل ہوں، لازم ہے کہ اس بات کا تذکرہ کرتے چلیں کہ اسلامی کی پہلی تین صدیوں کے گذرجانے کے بعد سے، دین اپنی اصل سے گویا اس قدر دور ہوگیا ہے کہ اسکے معنی ہی الٹ کر رہ گئے ہیں۔ ان تین صدیوں کے بعد امت دین کے ایسے مظاہر میں داخل ہوئی جو اصلِ دین سے کافی مختلف ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر ہونے کی وجہ سے اور انکے ساتھ زندگی گذارنے کی بناء پر اصلی دین پر تھے کیونکہ نورِ نبوت سے براہِ راست متصل تھے، اور نورِ نبوت حق کی دلیل ہوتا ہے۔
چنانچہ اس براہِ راست تعلق سے جس تدیّن (دینداری، مذہبیت) نے جنم لیا ، وہ تدیّن اصلی تھا، ان معنوں میں کہ اس تدیّن کے ذریعے بندے کے معاملات(interactivity) اپنے پروردگار کے ساتھ قائم تھے۔ اور یہ بہت اہم بات ہے کہ بندہ اپنی زندگی میں میں اپنے پروردگار کے ساتھ تعامل (Interaction)رکھتا ہو۔
پوچھنے والے پوچھ سکتے ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہےکہ آجکا متدیّن یعنی مذہبی انسان ، اصلی دین سے دور ہٹ چکا ہو؟ تو ہم کہتے ہیں کہ ہاں ایسا ہی ہوا ہے۔ لوگوں کی اکثریت، وقت کے ساتھ ساتھ ساتھ اور نورِ نبوت سے دور ہوتے جانے کی بناءپر اسی حال کو پہنچ چکی ہے۔ لیکن امت میں ایک طائفہ (گروہ) ایسا بھی ہے جو دینِ اصلی پر ہے اور حق پر حق کے ساتھ بغیر کسی کمی بیشی کے،قائم ہے۔ اور یہ اس امت پر اللہ کے لطف و کرم کی وجہ سے ہے۔ اور یہ طائفہ جو حق پر حق کے ساتھ قائم ہے، امت کا قلب ہے۔ اور صحابہ کرام کے تدیّن کا تسلسل ہے۔ ان لوگوں کے سوا، باقی سب، تیسری صدی ہجری کے بعد سے آہستہ آہستہ جس تدیّن اور دینداری میں جا داخل ہوئے اس کو ہم تدیّن ِ تاریخی(Historical Religion/Religiosity based in history) کا نام دیتے ہیں.
تدیّن تاریخی کیا ہے؟ تدیّن تاریخی وہ ہے جس میں بندے کا اللہ کے ساتھ معاملہ منقطع ہوجائے، اس تعلق میں کوئی زندگی نہ رہے۔ اور بندہ کا معاملہ اللہ کی بجائے اسکےدین کے ساتھ چلنے لگے۔ مطلب یہ کہ بجائے اسکے کہ دین کو ایک وسیلہ سمجھا جاتا، تدیّن تاریخی کے حامل مذہبی انسان کے نزدیک، وہ ایک مقصد اور غایت بن کر رہ گیا۔
اور اگر لوگوں پر ایک گہری نظر ڈالی جائے تو زیادہ تر اسی صنف میں داخل ہیں۔ لوگوں کا اب تعامل اور دین کے ساتھ معاملہ اسکی نصوص اور احکام کے ساتھ ہی رہ گیا، اللہ کے ساتھ نہیں ۔ اور لازم ہے کہ ہم اس بات کی گہرائی کو سمجھیں۔ کیونکہ باتوںکو سطحیت کے ساتھ لینے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آخر کار انسان تدیّن تاریخی اور تدیّن اصلی کو ایک ہی بات سمجھنے لگتا ہے۔ اور ہمارا ارادہ ہے کہ تدیّن کی ان دونوں صنفوں کو مزید واضح کریں۔
تدیّن تاریخی کا حامل مذہبی شخص، ضروری نہیں کہ دین کی نصوص اور احکام کے ساتھ خود براہِ راست معاملہ رکھتا ہو، یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اس بات کی اہلیت نہ رکھتا ہو، عالم نہ ہو، لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو تاکہ براہِ راست قرآن و سنت سے تعامل کرکے احکام و نصوص کو حاصل کرسکے، چنانچہ وہ کسی فقیہہ کے ساتھ تعامل کرتا ہے۔ اور کبھی اسکا قرآن و سنت اور فقیہہ، دونوں کے ساتھ تعامل ہوتا ہے یعنی قرآن سے جب کسی نص کو حاصل کرنے کی قابلیت نہیں رکھتے، تو لوگ اس شخص سے رجوع کرتے ہیں جو ان سے زیادہ علم رکھتا ہو، اور یہ شخص فقیہہ کے علاوہ اور کوئی نہیں۔
چنانچہ جب ہم تدیّن تاریخی پر نظر ڈالتے ہیں تو اس بات کی علت اور سبب معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلامی معاشروں میں فقہاء کو اتنی قدر و منزلت کیوں حاصل ہے۔ اور جب ہم صاحبہ کے فقہاء اور متاخرین کے فقہاء کا آپس میں موازنہ کرتے ہیں تو ان دونوں میں بہت واضح اور جلی فرق دکھائی دیتا ہے۔ اور وہ یہ کہ صحابہ رضی اللہ عنھم کے نزدیک فقہ ایک عملی چیز تھی (لغوی معنوں کے اعتبار سے) یعنی فقیہہ کے پاس دین کے احکامات پر عمل کرنے کا علم ہوتا تھا۔ اور وہ فقیہہ صحابی دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے کسی طور بھی مختلف دکھائی نہیں دیتے تھے یعنی متاخرین کے فقہاء کی طرح کسی خاص پیشے یا کسی خاص لباس اور ہئیت سے وابستہ نہیں ہوتے تھے۔ صحابہ میں کئی کبار صحابی گذرے ہیں جو فقہ (لغوی معنوں کے اعتبار سے)کے میدان کے شہسوار بھی تھے جیسے امام علی علیہ السلام، بلکہ چاروں خلفاء، اور عبداللہ بن عباس، اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم اجمعین۔ اور دین کی سمجھ بوجھ میں ان صحابہ کا مشہور ہونا انکے لئے دوسرے صحابہ پر ایک فضیلت رکھتا ہے۔ تعلیم و تحصیل کے اعتبار سے شروع شروع میں ان فقہاء کو جو تخصص حاصل تھا اور جس انداز میں تھا، بعد کے ادوار میں آنے والے فقہاء اور شرعی علوم کی درسگاہوں میں اس تخصص کی شکل اس حد تک تبدیل ہوگئی کہ۔۔۔ جیسا کہ اب ہم دیکھتے ہیں ۔۔۔فقہائے زمانہ عام انسانوں سے اپنے آپ کو لباس اور دوسرے امور میں اتنا متمیز رکھتے ہیں کہ اس امتیاز اور تخصیص میں اہلِ کتاب کی مانند بالکل جداگانہ ہئیت اختیار کرلی ہوئی ہے۔ اور اسی چیز کے متعلق ہم گفتگو کر رہے ہیں۔ اور یہ سب ترسیم الدین یعنی دین کو کسی مخصوص جداگانہ صورت، شکل یا ہئیت کے ساتھ وابستہ کرنے کا نام ہے۔
یعنی دین اب اس پہلے معنی کی طرح اپنی اصل پر یعنی بندے کے اپنے رب کے ساتھ معاملے اور تعلق پر نہیں بلکہ ایک شعبے یا ایک پیشے کی شکل اختیار کرگیا ہے بالخصوص فقہاء کے معاملے میں۔ اور عام لوگوں کے حق میں یہ دین ایک مقطوعہ معاملہ ہے۔ چنانچہ دین کیلئے لوگ فقیہہ سے مدد حاصل کرتے ہیں اور فقیہہ کی معاونت، اللہ کے ساتھ بندے کے معاملے اور تعلق میں گویا ایک حجاب کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے؟جبکہ فقیہہ تو اپنی زبان سے اللہ اور اسکے ساتھ معاملے کی ہی گفتگو کرتا ہے، اور قرآن و حدیث سے استدلال کرتا ہے، اور سیرتِ نبویہ اور حیاتِ صحابہ سے مثالیں پیش کرتا ہے؟ یہ کیسے ہوگیا کہ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ سب کچھ باہم مخالف لگتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ ظاہر سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ باطنی ہے۔ اصل معاملے اور اصلی دین کی بنیاد باطن میں ہے، ظاہر میں نہیں۔ اگر آج کے فقیہہ کے پاس کوئی شخص نماز کے بارے میں کچھ پوچھنے جاتا ہے تو وہ اسے نماز کی حرکات و سکنات کے بارے میں بتائے گا، اسکے، ارکان، افعال اور احکام بتائے گا لیکن اسے یہ پتہ نہیں ہوگا کہ نماز کا باطنی معاملہ کیا ہے؟ بہت کم بتاسکے گا اگر کچھ جانتا ہوا تو۔ اور فقیہہ اس معاملے میں کسی بھی عام شخص کی طرح حجاب میں ہے، بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ عام انسان سے بھی بدتر حالت میں ہو۔ ایسا کس لئیے؟ اس لئیے کہ وہ سمجھتا ہے کہ وہ دینِ حق پر قائم ہے، بخلاف اس عامی کے جو اپنے جہل کا اعتراف اور اقرار کرتا ہے۔ کیونکہ اپنے جہل کا اقرار اسے عبودیتِ حق کے کنارے کے پاس لے آتا ہے۔
اور فقیہہ اپنے سارے ظاہری علم کے باوجود کسی عامی سے بھی بدتر حال میں ہوسکتا ہے، کیونکہ معاملہ (interaction) اسکے حق میں مفقود ہے۔ اور باطن کا معاملہ ظاہر کے معاملے سے کہیں زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ انسان اپنے تدیّن کے میدان میں ظاہری طور جو کچھ پیش کرسکتا ہے، وہ اسکے تدیّن کا ایک چھوٹا حصہ ہے۔اور اسکے تدیّن کی اولین بنیاد جسے معتبر سمجھنا چاہئیے، وہ پاک پروردگار کے ساتھ اسکا باطنی معاملہ ہے۔ اور یہ باطنی معاملہ، قرونِ اخیرہ کے لوگوں کے حق میں گویا مفقود ہوکر رہ گیا ہے، اور وجہ اسکی وہی ہے یعنی تدیّن تاریخی۔
طریقِ فلسفہ اور طریقِ دین
اور جیسا کہ ہم اپنے گذشتہ لیکچر میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ حقیقتِ وجود اور اسکی معرفت کیلئے فلاسفہ جن حدود پر جاکر رک جاتے ہیں جہاں سے انکو آگے بڑھنا نصیب نہیں ہوتا، دین عقلِ بشری کو ان حدود سے آگے لیکر چلتا ہے۔ سبھی فلسفی یہ چاہتے تھے کہ انہیں ارد گرد کی دنیا میں اور اپنے اندر جو کچھ دکھائی دیتا ہے ، اسکی حقیقت تک پہنچیں۔ لیکن وہ اپنی فکر سے جن حدود تک پہنچ گئے ، ان سے اگے بڑھنا انکو نصیب نہ ہوا۔ ایسا کیوں ہے؟ اسلئیے کہ حقیقت تک رسائی، یا یوں کہیں کہ حقیقت کی راہ پر چلنے کی توفیق اور حق کو پہچاننے کیلئے اسکے راستے کا سفر ، اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک حق سبحانہ کا اذن اور اجازت نہ ہو۔
اور اس بات سے تمام فلاسفہ لاعلم ہیں کہ اللہ تک کوئی بھی شخص کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ اپنے نفس کی جانب سے اپنے نفس کے ذریعے اس تک پہنچنا چاہتا ہو۔ ایسا کوئی شخص نہیں قطعاّ نہیں جو اس تک اسکی مرضی کے بغیر پہنچ جائے۔ چنانچہ جب فلسفی کی عقل ایک خاص مقام پر آکر عاجز رہ جاتی ہے اور رستہ بند پاتی ہے تو اس مقام پر دین ہی ہے جو عقلِ انسانی کو اللہ کے اذن سے یہ موقع دیتا ہے کہ حق اور حقیقت کی معرفت کیلئے رستے پر آگے بڑھ سکے۔
اور فلاسفہ جس میدان میں آکر چار و ناچار رک جاتے ہیں، اس سے آگے بڑھنے کیلئے اور حقائق کی معرفت کیلئے، فلسفیانہ فکر سےہٹ کر، مختلف قسم کے اسباب و وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔مطلب یہ کہ یہاں دو مختلف اور اہم امور ہیں اور ان دونوں اہم امور کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے جیسا کہ ہم نے تدیّن تاریخی اور تدیّن اصلی میں فرق کیا ہے۔
حقیقت کی راہ میں عقل کے کردار کے حوالے سے ضروری ہے کہ ہم فلاسفہ کی راہ اور متشرعین(الٰہی شریعتوں کو ماننے والے) کی راہ میں فرق کو سمجھیں۔
فلاسفہ محض فکر پر ہی تکیہ کرتے ہیں۔ فکر کیا ہے؟ مختصرا ّ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فکر ایک عقلی عمل ہے جو ہمیشہ مسلّمات اور بدیہیات(Axioms ) سے شروع ہوکر تدریجا ّ(Gradually )آگے کو بڑھتا ہے۔ مسلّمات اور بدیہیات ، فکر کیلئے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور اہلِ فکر ہمیشہ دو مقدمات یعنی دو باتوں کو تسلیم کرکے ان سے نتیجہ یعنی تیسری بات کا استنباط کرتے ہیں اور پھر اگلے مرحلے میں نتیجے کو اسی طریقے سے حاصل کردہ کسی دوسرے نتیجے سے ملا کر ایک تیسرا نتیجہ برآمد کیا جاتا ہے۔ اور یوں درجہ بدرجہ، مرحلہ وار یکے بعد دیگرے نتائج نکلتے چلے جاتے ہیں فکر اسی طریقے سے آگے بڑھتی ہے۔ چنانچہ ایک اچھے فلسفی کیلئے ضروری ہے کہ وہ فکر کے ان اصولوں کو بہت اہمیت دیتا ہو اور منطق(Logic ) انہی اصولوں سے نکلی ہے۔
لیکن منطق مختلف ہوسکتی ہے۔ یعنی یہ بات سمجھ لینی چاہئیے کہ یہاں مختلف قسم کی منطقیں ہیں۔ یعنی ایک تو عام منطق ہے کہ جسے عام لوگ بھی سمجھتے ہیں اور اسے منطق ہی کا نام دیتے ہیں۔ لیکن فکر و فلسفے کے ہر مذہب (School of Thought ) کی منطق ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے۔ چنانچہ کوئی بھی مفکّر کسی خاص منطق کو اختیار کرلیتا ہے۔ مطلب یہ کہ تما م مفکرین کو ایک ہی منطق کی قیود و حدود کا پابند نہیں بنایا جاسکتا۔ یہ بات فقط اشارے کی حد تک بیان کی ہے تاکہ ہم اپنی فہم کو ذرا وسیع کریں
اور حقیقت کے ادراک کیلئے فلاسفہ کا رستہ یہ ہے کہ فلسفی اپنے آپ کو اور اپنے ارد گرد کی دنیا کو دیکھتا ہے اور اپنی فکر سے حقیقت کو سمجھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ اس سے مختلف قسم کے علوم جو فلسفے سے متعلقہ ہیں، انکی بنیاد پڑی۔ چنانچہ سائیکالوجی اور سوشیالوجی کو بھی ان معنوں میں فلسفے کی شاخ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ یہ بات تو ہوئی طریقِ فلسفہ کی۔
رہی بات طریقِ متشرّعین کی، تو انکا راستہ ذرا مختلف ہے۔ مختلف ان معنوں میں ہے کہ متشرّعین فکر پر اس طرح تکیہ نہیں کرتے جس طرح فلاسفہ کرتے ہیں۔ اور یہی وہ بات ہے جس سے تدیّنِ تاریخی کے حامل مذہبی افراد ناواقف ہیں۔ کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ دینی معلومات کا حصول اور پھر ان سے نتائج برآمد کرکے ہی دین کی راہ میں آگے بڑھا جاسکتا ہے یا یہ کہ اس سےدین میں بہتر ہوا جاسکتا ہے۔ اور یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ لیکن یہ بات غلط ہونے کے ساتھ ساتھ عام بھی ہے۔اور اس غلطی میں عوام تو کیا علماء و فقہاء بھی مبتلا ہیں۔ چنانچہ ہم کسی عالم کو دیکھتے ہیں تو وہ اس گمان میں مبتلا ملتا ہے کہ چونکہ اس کے پاس دین کا علم ہے، چنانچہ وہ تدیّن میں اس شخص سے آگے ہے جسکے پاس یہ علم نہیں ہے۔ اور یہ جہلِ کبیر ہے۔
اور جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ کوئی عامی اور ان پڑھ آدمی بھی ممکن ہے کہ کسی عالم سے زیادہ دیندار ہو۔ اور تدیّن میں اس سے آگے بڑھ جائے، اس بات کے ہوتے ہوئے کہ عالم کے پاس اس عامی سے زیادہ معلومات ہیں۔ اور اسکا سبب تدینّ میں اللہ کے ساتھ معاملے کو پیشِ نظر رکھنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ کیونکہ تدیّن کثرتِ معلومات کا نام نہیں ہے، جیسا کہ آجکل سمجھا جانے لگا ہے۔ بلکہ تدیّن تو اللہ کے ساتھ معاملہ کرنے کا نام ہے۔ دینِ اصیل یہی ہے۔
ہم نے کہا کہ متشرّعین فلاسفہ سے مختلف ہیں کیونکہ وہ فکر پر تکیہ نہیں کرتے ، ان معنوں میں کہ وہ اپنے تدیّن میں آگے بڑھنے کیلئے اپنے پاس موجود مقدمات سے نتائج برآمد نہیں کرتے۔ اچھا تو پھر اس صورت میں اہلِ شریعت، تدیّن میں تقدم کیلئے جو کچھ کرتے ہیں اسے کیا کہا جائے گا؟ اسے کہا جائے گا شریعتوں کے احکام کے مطابق عمل کرنا۔ اور یہیں سے اہلِ شریعت کی منطق فلاسفہ کی منطق سے علیحدہ ہوجاتی ہے۔ ہم اسے منطقِ دینی یا منطقِ ایمانی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن منطقِ دینی زیادہ بہتر نام ہے۔
وارد
منطقِ دینی، منطقِ فلسفی سے الگ ہوتی ہے۔ لازم ہے کہ اس فرق کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ منطقِ دینی کے مطابق متدیّن کو آگے بڑھنے کیلئے ضروری ہے کہ اللہ نے جو حکم دیا ہے اسے پورا کرے، اللہ نے جو اس پر فرض کیا ہے۔۔۔ یعنی عبادات جنہیں ہم شعائر کہتے ہیں۔۔۔ انکو ادا کرے، ان شعائر کی ادائیگی کے بعد اللہ کی جانب سے چو چیز بندے کی طرف آتی ہے اسے وارد کہا جاتا ہے۔ وارد کسی عمل کے نتیجے کی مانند ہے۔ اور یہ بات لفظ 'جزاء 'سے صرفِ نظر کرکے کہی گئی ہے، کیونکہ لوگ بشمول عوام الناس اور علماء، عملِ شرعی کے نتیجے کو عموماّ جزائے آخرت سے ہی تعبیر کرتے ہیں۔ اور یہ ایک غلط بات ہے۔ جزاء ایک تیسری شئے ہے۔ اور اسے دنیوی جزاء بھی سمجھا جاتا ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ کچھ اعمال ایسے ہیں جن سے رزق بڑھتا ہے، عمر میں اضافہ ہوتا ہے، یا صالحین کے قلوب میں اس بندے کیلئے محبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، الیٰ غیر ذاٰلک۔ لیکن ہم جو بات کہہ رہے ہیں اور جسے ہم دین اور دینداری کے معنی کو سمجھنے کیلئے بنیادی بات سمجھتے ہیں، وہ یہی وارد ہے جو عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ اور یہ بات صوفیہ اور متصوفین دوسروں کی نسبت زیادہ بہتری سے جانتے ہیں۔ اور یہ بات صوفیہ کو دوسرے لوگوں سے ممتاز کرتی ہے، اگرچہ انکے اس امتیاز کیلئے اور بھی کئی وجوہ اور تفاصیل ہیں اور یہی بات ہے جس سے یہ صوفیہ دینِ تاریخی کی بجائے دینِ اصلی پر اور حق پر قائم ہیں۔ وارد وہ نورانیت ہے جسے اللہ تعالیٰ عبادت کرنے والے بندے کے دل میں انڈیل دیتا ہے۔
فلسفی کی عقل کو فکر کے تدریجی عمل کے ذریعے نئی نئی معلومات ملتی ہیں چنانچہ وہ حق کی معرفت کیلئے اپنے نفس کے ذریعے اپنے نفس کی جانب سے آگے بڑھتا ہے، یہی جبکہ متدیّن اپنے نفس کی جانب سے اپنے رب کی طرف سفر کرتا ہے، ان معنوں میں کہ شرع پر عمل کرنے والے کی طرف نورانی وارد پہنچتا ہے جو اسکے قلب کو صاف کرتا ہے جس سے اسکا قلب پہلے سے زیادہ وسیع ہوجاتا ہے۔ کیونکہ نور ہمیشہ وسعت عطا کرتا ہے، برخلاف ظلمت کے کہ جو ہمیشہ تنگی پیدا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہنم میں اندھیرا ہوگا۔ اگر جہنم کی آگ میں نور کا امکان بھی ہوتا تو اسے عذاب الشدید کے لفظ سے بیان نہ کیا جاتا۔ اور جہنم کو عذاب کیلئے بنایا گیا ہے نعمت کیلئے نہیں، اگرچہ حظوظ و لذّات سے گھرا ہوا ہے۔۔ یہ صفائی اور یہ وسعت جو نور کی بدولت آتی ہے، اسی کی بدولت اس بندے کا قلب اللہ کے ساتھ تلقیّ یعنی اسکا پیغام وصول کرنے، اس سے ملنے کے قابل بنتاجاتا ہے۔ چنانچہ متدیّن کی عقل اسے ان نئی معلومات تک لیکر جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے وارد کی شکل میں اسکے قلب میں ڈالی ہوتی ہیں۔
اور فلسفی کا معاملہ اسکے برعکس ہے کیونکہ اسے اس چیز کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوتا جس چیز سے اس نے رہائی پانی چاہی تھی۔ اور یہاں پر فلسفی اور متدیّن کا فرق واضح ہوتا ہے۔ یعنی یہ ممکن نہیں ہے کہ فلسفی کا ادنیٰ ترین متدیّن کے ساتھ موازنہ کیا جاسکے۔ کیونکہ فلسفی کو بالآخر جو شئے زیادہ سے زیادہ حاصل ہوتی ہے وہ اسکے نفس کے ذریعے اسکے نفس کی جانب سے ہی ہوتی ہے جبکہ متدیّن کو جو کچھ ملا وہ اسکے نفس کی جانب سے نہیں بلکہ اسکے رب کی عطا سے ملا۔
لیکن جو کچھ معلومات مومن کے قلب پر عملِ صالح کے نتیجے کے طور پر وارد ہوتی ہیں، لازم ہے کہ انکی اصل قرآن و سنت میں پائی جاتی ہو اور قرآن و سنت کی سند اسے حاصل ہو تاکہ اس کا نور جانا جاسکے اور پہچانا جاسکے کہ یہ حق کی طرف سے ہے۔ اور اگر قرآن و سنت کی سند اور اصل کے بغیر مطلقاّ امور اخذ کئے جائیں تب اس عمل میں خواہشِ نفس داخل ہوجاتی ہے اور وارد میں ظلمت بھی کھنچی چلی آتی ہے۔ اور یہ اُن مختلف اسباب میں سے ایک سبب ہے جنکی بناء پر لوگوں کو دینداری درست رکھنے کیلئےشیخ یعنی مرشد کی ضرورت پڑتی ہے۔
اور اب ہم گفتگو کو دین اور اسکے معنوں کی طرف موڑتے ہیں۔
(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)
 
آخری تدوین:
لیکچر کے بقیہ حصے کا اردو ترجمہ
اس سے پہلے کہ ہم دین کے کچھ معانی بیان کریں، اس بات کا ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ تدّین پہلے آیا ہے اور فلسفے نے بعد میں جنم لیا۔جو شخص تاریخِ انسانیت پر نظر ڈالتا ہے وہ اس بات کو جانتا ہے۔ یہ کہنا زیاد ہ مناسب ہوگا کہ بندوں اور انکے پروردگار کے درمیان تمام معاملات کی اصل تدیّن ہی ہے۔ اور فکر بحیثیتِ فلسفہ، گویا عقلِ انسانی کے مختلف امراض میں سے ایک مرض کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ لیکن یہ بات علی الاطلاق نہیں ہے، مطلب یہ کہ ضروری نہیں کہ فکر ہمیشہ ایک مرض ہی سمجھی جائے۔ یہ مرض اس وقت بنتی ہے جب جب معرفتِ حق کیلئے مطلقاّ اسی پر تکیہ کرلیا جائے۔ عقل کی رسائی البتہ ایک جزئی معرفت تک ضرور ہے۔ جیسا کہ ہم آگے بیان کریں گے کہ عقل کو مختلف ادیان میں سے دینِ حق کی پہچان کیلئے ضرور دخل حاصل ہے، اور عقل کے اس فعل کو اعمالِ تدیّن یعنی دینداری میں ایک جزوی حیثیت سے شمار کیا جاسکتا ہے۔ فکر(Reasoning ) ممنوع نہیں ہے اور نہ ہی کلیّ طور پر تدیّن سے خارج کی جاسکتی ہے، لیکن اسکے لئے کچھ مخصوص کام ہیں اور اسے ان سے تجاوز نہیں کرنا چاہئیے۔ اور تدیّن کی جزوی حیثیت میں ،فکر کے کرنے والے کاموں میں سے ایک تو فقہ ہے یعنی احکام کا استنباط( Deduction)۔ اور بیشک فقہاء یہی کام کرتے ہیں جب وہ احکام کے استنباط کیلئے فکر پر اعتماد کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن انکے لئے یہ کام اسلئے مباح کردیا گیا، کیونکہ وہ اس بات کی استطاعت نہیں رکھتے کہ طریقِ کشف یعنی اللہ کی طرف سے القاء کے ذریعےاحکام تک پہنچ سکیں۔ چنانچہ فقیہہ کیلئے ہمیشہ یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ فقہی احکام کا استنباط و استخراج ، اپنے درجہِ تدیّن کی بناء پر کشف و القاء کے طریق سے کرسکے۔ چنانچہ وہ مجبور ہوتا ہے کہ نصوص سے فقہی احکام کے استخراج اور کانٹ چھانٹ کیلئے اپنی فکر کو بروئے کار لائے۔ اور اسی مقام پر اسکے نکالے ہوئے نتائج میں غلطی اور خطاء کا احتمال و امکان رہتا ہے۔ چنانچہ ایک مجتہد فقیہہ کیلئے عین ممکن ہے کہ اس سے اپنے اجتہاد میں خطاء سرزد ہو۔ اور یہ خطاء کہاں سے آئی؟ اسکی فکر کی جانب سے!
اور اگر وہ فقیہہ صاحبِ کشف بھی ہوتا، تو خطاء میں نہ پڑتا۔ لیکن اصحاب ِکشف بہت قلیل ہیں امت میں۔ چنانچہ یہ ممکن نہیں ہے کہ پوری امت کو کشف کےطریقے سے احکام کے استنباط و استخراج کیلئے مکلف کیا جاتا۔ یہ بات ہم نے اسلئیے کہی تاکہ سامعین میں سے کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ دین میں فکر سے کام لینا بالکل ہی منع ہے۔
اب ہم موضوع، یعنی دین کے معانی کی طرف واپس پلٹتے ہیں۔
دین لفط دان سے نکلا ہے۔ اور اسی لفظ دان سے نکلتے ہیں دِین اور دَین۔ دان کے معنی ہیں اقتراض یعنی قرض لینا، ادھار لینا اور ادان کے معنی ہیں اقراض یعنی قرض دینا۔
اسکے ایک معنی حساب لینا اور جزا دینا بھی ہیں۔ چنانچہ انہی معنوں میں آیا ہے یوم الدّین۔ یعنی یومِ حساب۔ چنانچہ اسی سے اللہ تعالیٰ کا اسم دیّان ہے یعنی حساب لینے والا جزاء دینے والا۔
اور دان کے ایک معنی ہیں جھک جانا، مطیع ہوجانا(Surrender )، چنانچہ یہاں سے اسلام کے معنی نکلے۔ دینِ اسلام۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے کہ بیشک اللہ کے نزدیک دین اسلام ہے۔ یعنی اللہ سبحانہ کے آگے جھک جانا، سرنڈر کردینا۔ اور اسی کو اطاعت کہتے ہیں۔ چنانچہ یہاں سے یہ بات واضح ہوئی کہ دین اللہ کی عبودیت یعنی بندگی کا نام ہے۔ عبودیت میں عبادت کے معنی شامل ہیں، یعنی عملِ صالح کی ادائیگی۔ اور قرآن میں کئی جگہ ایمان اور عملِ صالح ساتھ ساتھ آئے ہیں۔ اعمالِ صالحات عبادت ہیں۔ اور عبادت اور ایمان دونوں معنی مل جائیں تو وہ عبودیت ہے۔ اور یہاں اس سے بھی خالص ایک معنی ہیں جسکے لئے لفظ عبودۃ ہے۔ عبودۃ اپنے اندر عبودیت سے زیادہ گہرے اور قوی معنی رکھتا ہے۔ چنانچہ ہم اس بات تک پہنچے کہ دین اللہ کی خاطرعبودیت کا نام ہے۔اجمالی طور پر بھی اور تفصیلی طور پر بھی۔
اب ہم کچھ ایسے معنوں کی طرف واپس لوٹتے ہیں جو ہم نے لغت میں اور قرآن میں دان اور دین کیلئے پائے۔ مثال کے طور پر اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے کہ " من ذالّذی یقرض اللہ قرضاً حسناً لیضاعف لہ اضعافاً کثیرۃ" ( کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسنہ دے تاکہ وہ اسکے لئے اسے کئی گنا بڑھادے)۔ یہاں ہم نے جانا کہ اللہ کو قرضِ حسنہ دینا دین یعنی عبودیت کے معنوں میں سے ا یک معنیٰ ہے۔ چنانچہ وہ تمام لغوی معانی جنکا مصدر 'دان' ہے، وہ دین یعنی عبودیت کے معنوں میں شامل ہیں۔
یعنی کون ہے جو اللہ کو قرض دے؟ قرض کیا دیا جائے گا؟ یہاں عام معنی بھی ہیں جو مخلوق میں سے کسی کو اللہ کی خاطر مال دینے کیلئے استعمال ہوتے ہیں، اور وہ بھی درست ہیں کیونکہ مال دینے والا اللہ کی خاطر یہ کام کر رہا ہے، چنانچہ وہ اللہ کو قرض دے رہا ہے۔ لیکن ہم ایک دوسرے معنی کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں اور وہ معنی ایک دوسرے معنی کو سمجھنے کے بعد واضح طور پر سمجھ میں آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے " و من النّاس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ واللہ رووفٌ للعباد"( اور لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو اﷲ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی جان بھی بیچ ڈالتا ہے، اور اﷲ بندوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہے )۔ مطلب یہ کہ لوگوں میں سے کوئی شخص اپنے نفس کو اللہ کے آگے بیچ دیتا ہے۔ یہاں سے ہم نے جانا کہ عبودیت اور دین کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنے نفس کو اللہ کے آگے بیچ ڈالتا ہے۔ یہی مفہوم ہے۔ چنانچہ جب ہمیں معلوم ہوگیا کہ کیا چیز یہاں بیچی جارہی ہے تو اسی سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ کیا چیز قرض کے طور پر دی جارہی تھی۔ یعنی نفس کو اللہ کے آگے بیچا بھی جاسکتا ہے اور قرض پر بھی دیا جاسکتا ہے، عبودیت میں انسان کے درجے کے مطابق۔
جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ لغت میں 'دان' کے معنی ہیں قرض لینا، اور 'ادان' کے معنی ہیں قرض دینا۔ چنانچہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ سے قرض لیتے ہیں یعنی اللہ سے اپنا نفس قرض پر لیتے ہیں، بخلاف ان لوگوں کے جنہوں نے اللہ کو قرض دیا تھا۔ پس جاننا چاہئیے کہ یہ کون لوگ ہیں جنہیں اللہ انکے نفوس قرض کے طور پر دیتا ہے؟ یہ معنی یعنی اللہ سے نفس قرض لینا، اگرچہ وضاحت کے واضح لفظ کے ساتھ مذکور نہیں ہیں، لیکن سمجھ میں آتے ہیں۔ اور ہمیں سوائے انبیاء علیھم السلام کے، اور کوئی قوم اس لائق نظر نہیں آتی کہ وہ اللہ سے اپنے نفوس قرض کے طور پرلے ۔ صرف انبیاء علیھم السلام ہی ہیں جو اعمالِ تدیّن کیلئے اللہ سے اپنے نفوس کا قرض لیتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ انبیاء علیھم السلام اپنے پروردگار کی خاص معرفت کی حامل فطرت پر پیدا کئے گئے ہیں۔ انکو اپنی ولادت سے ہی، اور سنِ تمیز سے ہی اپنے نفوس کی حقیقت کا علم ہوتا ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ اس عمر میں بھی اُن غفلتوں میں نہیں پڑتے جن میں دوسرے لوگ پڑجاتے ہیں۔ اور اگر انبیاء میں سے کسی نبی کوبعثت سے قبل غفلت سے منسوب کیا گیا ہے تو وہ کسی دوسرے معنوں میں ہے ان معنوں میں نہیں۔ کیونکہ ہم ایک عام معنی کی بات کر رہے ہیں جسکا تعلق نفس کی حقیقت کے علم سے ہے۔ انبیاء علیھم السلام اپنی فطرت کی رُو سے اپنے رب کی طرف سے اپنی حقیقت کے ایک خاص علم پر ہوتے ہیں جو انہیں غفلت میں پڑنے نہیں دیتا۔ چنانچہ اسی علم کا نتیجہ ہے کہ وہ اللہ سے اپنے نفوس بطور قرض حاصل کرتے ہیں تاکہ انکے ذریعے اللہ سبحانہ کیلئے اعمال سرانجام دے سکیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ تمام انسانوں میں سے کسی کیلئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ جزاء میں انبیاء کے قریب بھی پہنچ سکے، کیونکہ کوئی بھی اس طرح عمل ادا نہیں کرسکتا جس طرح انبیاء ادا کرتے ہیں۔ یہ محض اخلاص نہیں بلکہ خلوص ہے۔
اب یہاں پر وہ لوگ ہیں جو اللہ کو اپنے نفوس قرض میں دیتے ہیں۔ یہ عام مؤمنین ہیں۔ اور انبیاء کے برعکس، ان لوگوں میں کثافت اور ظلمت بھی پائی جاتی ہے جو ولادت کے بعد عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے اور مضبوط ہوتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ تمام لوگ فطرت پر پیدا ہوتے ہیں۔ فطرت کے معنی یہاں کیا ہیں؟ کہا گیا کہ اسلام۔ ہاں ٹھیک ہے، لیکن دین کے معنوں میں نہیں۔ کیونکہ اس صورت میں ضروری ہے کہ ہر فرد کو پیدائش کے ساتھ ہی نماز، حج زکٰوۃ، دین اور دینی معاملات وغیرہ کا علم ہوتا۔ چاہے ان معاملات کا تعلق اللہ کے ساتھ ہو یا بندوں کے ساتھ ، اصل کے اعتبار سے یہ سب عبادت میں شامل ہیں۔ کیونکہ عبادت معاملہ ہے اور معاملہ عبادت ہے ۔ جس طرح فقہاء نے معاملات کودینی اور دنیوی کی تقسیم میں ڈال دیا ہے، اصل معاملہ ویسا نہیں ہے۔
انبیاء کے سواء باقی سب لوگ، ظلمت میں بڑھتے رہتے ہیں زمانہ لاعلمی سے لیکر سنِ شعور یعنی سن ِ رشد کو پہنچنے تک ۔ سن ِ رشد بھی عرفاّ کہا ہے، حقیقۃً نہیں۔ اس عمر تک پہنچنے تک ان لوگوں کے نفوس اور حق کے درمیان ایک قوی حجاب پیدا ہوچکا ہوتا ہے اور اسکی وجہ وہی ظلمت ہے جو عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ یہی وہ وقت ہے جب انکو دین میں رسمی طور پر داخل کیا جانا چاہئیے۔ یعنی دین میں بطور مکلف داخل کرنا چاہئیے۔ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کی شہادت اس سن میں واجب ہے۔ اور یہ انسان کی سمجھداری اور اسکے والدین اور معلمین کی سمجھداری مین سے ہے اگر وہ اسے رسمی طور پر کلمہ شہادت زبان سےادا کرنے کا حکم دیں، تاکہ انکا فرض ادا ہوجائے۔ اور وہ دین میں رسمی طور پر داخل ہوجائے۔
اور ہم دین میں رسمی دخول کے وجوب کے ساتھ ساتھ اب تزکئے کے وجوب کی بات بھی کریں گے۔ کیونکہ تزکیہ دین کی اساس ہے۔ اور یہ بہت ضروری ہے۔ کیوں؟ اس لئے تاکہ وہ ظلمت اور کثافت جو سنِ شعور تک پہنچنے تک اسکو لاحق ہوچکی ہے، اس سے رہائی حاصل ہو۔ اس عمر تک یہ ظلمت و کثافت اس درجے کو پہنچ جاتی ہے کہ اسکی عقل کی نظر میں اسکےنفس کی صورت میں قرار پکڑ لیتی ہے۔ چنانچہ مراتبِ دین میں ترقی کے ساتھ ساتھ اس نفس سے بتدریج خلاصی حاصل ہوتی جاتی ہے۔لیکن ایسا یکدم نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ متدیّن جو قدرے ظلمت کا حامل ہوتا ہے، اسکی نظر میں اعمالِ صالحہ کی انجام دہی گویا اللہ کو قرض دینے کے مترادف معلوم ہوتی ہے، کیونکہ یہ بات اسکی سوچ سے باہر ہوتی ہے کہ نفس اللہ کی جانب سے بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اعمال انجام دیتا ہے اور یہ گمان رکھتا ہے کہ یہ اعمال اس سے صادر ہورہے ہیں۔ ہم یہاں متکلمین کے ان اقوال کی بات نہیں کر رہے جو انہوں نے مسئلہ جبر و اختیار وغیرہ کے مباحث میں عمل اور اسکی جزاء کے حوالے سے کئے ہیں۔ ہم اس مبحث میں داخل نہیں ہورہے۔ لیکن ہوتا ایسے ہی ہے کہ صاحبانِ نفس( اکثر مومنین اسی صفت پر ہیں) اپنے نفس کو اس سے الگ اور جداگانہ خیال کرتے ہیں اور انکے لئے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اس وہم سے ہٹ کر کچھ اور گمان کرسکیں۔ چنانچہ وہ اس وہم میں بتلا ہوتے ہیں کہ جن اعمال کا انہیں مکلف بنایا گیا ہے، وہ اعمال انکے نفوس سے صادر ہورہے ہیں ، چنانچہ قرض دینے کے یہی معنی ہیں۔ چنانچہ یہ بندہ اللہ کو اپنا نفس قرض کے طور پر دیتا ہے۔ جبکہ اسکے برعکس، انبیاء ہیں جو اللہ سے اپنا نفس قرض پر لیتے ہیں تاکہ اس سے اعمال سرانجام دیں اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرسکیں جو ان پر واجب کی گئی ہیں اور تبلیغ بھی اسی میں شامل ہے۔
ان دونوں یعنی مؤمنین(اللہ کو قرض دینے والے )اور انبیاء ( اللہ سے قرض لینے والے)کے درمیان میں ایک تیسری قسم کے لوگ بھی ہیں ، جو اپنے نفس کو اللہ کے آگے بیچتے ہیں، یعنی نفس سے خلاصی حاصل کرتے ہیں۔ اور نفس سے خلاصی حاصل ہونا دوصورتوں میں ہوتا ہے۔ ایک تو شہادت کا مرتبہ پاکر یعنی اللہ کی راہ میں شہید ہوکر،جو کہ اعمالِ مشروعہ میں سے بلاشبہ ایک بڑا عمل ہے ، اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سلوک کے تمام مراحل اور مقامات کو طے کرکے اللہ کی معرفت سے متحقق ہونا۔ چنانچہ ان دونوں صورتوں کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ نفس کو اللہ کے آگے فروخت کردیا۔ اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا ( اگر جہاد شرعی ہو تو) اپنے نفس کو اللہ کیلئے فروخت کردیتا ہے۔ اور اسی طرح مراحلِ سلوک طے کرکے اللہ سے واصل ہونے والا بھی اپنے نفس کو اسکے لئے فروخت کرچکا ہوتا ہے۔
یہاں عارفِ واصل اور نبی میں ایک اور فرق بھی ہے، اور وہ یہ کہ نبی کیلئے یہ صفتِ اصلیہ ہوتی ہے جبکہ عارف کیلئے یہ صفت کسبی ہوتی ہے۔ یعنی یہ صفت اسکو حاصل نہیں تھی، بعد میں حاصل ہوئی۔ یعنی وہ شخص جو اصل سےنفس رکھتا ہی نہیں اور وہ شخص جو نفس رکھتا تھا اور بعد میں اس سے رہائی پائی، دونوں میں فرق ہے۔ بیشک انکی نہایت اور غایت یعنی وصول الی اللہ ایک ہے لیکن اصل اور کسب کا فرق ہر حال میں رہے گا۔ پس وہ شخص جو اپنے نفس کی ظلمت سے آگاہ تھا اور بعد میں واصل الی اللہ ہوا، وہ اللہ کے ساتھ اپنے معاملے میں انبیاء کے قدم پر ہوتا ہے لیکن ان سے مرتبے میں نہیں مل سکتا۔ کیونکہ اصیل اور مستخلص میں فرق ہے۔ مستخلص وہ جس نے اپنے نفس کو اللہ کیلئے بیچ دیا اور اسکے عوض جنت کے ساتھ ساتھ وہ حیات پائی جس میں دوسرے مسلمان اسکے شریک نہیں ہیں۔ چنانچہ یہ بات اسکو دوسرے مسلمانوں سے امتیاز بخشتی ہے اور اسکے لئے جزاء اور بیچنے والی چیز کی قیمت کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن واصلِ حق جو معرفت کی راہ میں معنوی شہادت سے سرفراز ہوتا ہے وہ جزاء سے بلند تر ہے۔ کیونکہ اپنے پروردگار کی معرفت، جزاء نہیں کہلاتی۔ معرفت کبھی بھی جزاء نہیں ہوتی۔ کیونکہ ہر قسم کی جزاء اعمال کی جنس کی قبیل سے ہوتی ہے، سوائے معرفت کے۔ کیونکہ معرفت کیلئے اعمال میں کوئی اس جیسی جنس نہیں ہے۔ چنانچہ یہ کبھی بھی بطور جزاء نہیں ہوتی اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی عطا اور فضل سے ہوتی ہے۔
اور یہاں ایک لطیف بات ہے، لازم ہے کہ ہم اسکا ذکر کرتے چلیں۔ وہ یہ کہ خرید و فروخت اور قرض لینے اور دینے جیسے مالی معاملات میں اللہ نے رباء کو حرام کیا ہے۔ رباء زیادتی یعنی اضافے اور بڑھوتری کو کہتے ہیں۔ اور یہ زیادتی خرید و فروخت میں اس طرح ہوتی ہے اگر حد ِ مشروع سے زیادہ نفع حاصل کیا جائے،اور قرض کے معاملات میں یہ زیادتی یوں ہوتی ہے اگر جو چیز قرض میں دی گئی تھی ، اس سے زیادہ لوٹائی جائے۔ چاہے یہ اضافہ اور زیادتی عینی ہو یا منافع کمانے کی غرض سے ہو۔ اللہ نے بندوں کیلئے یہ معاملہ حرام کیا ہے۔ ایسا کیوں؟ اسلئیے کہ اسکی بنیاد اور اصل حقائق میں سے ایک حقیقت میں ہے، اور وہ یہ کہ بندوں کی حقیقت عدم ہے۔ چنانچہ ان کے پاس ہے کیا کہ وہ کسی دوسرے پر بطور اضافہ پیش کرسکیں۔ رباء کا معاملہ جب بندوں کے درمیان ہو تو حرام ہے لیکن اللہ کی طرف سے ہو تو حرام نہیں ۔ مطلب یہ کہ اگر لفظ رباء سے صرفِ نظر کرکے دیکھیں تو یہ بعینہِ وہی معاملہ ہے جو اللہ اپنے بندوں کے ساتھ کرتا ہے۔ یعنی اللہ اپنے بندوں کے ساتھ ربا ءوالا معاملہ کرتا ہے لیکن اسکا نام فضل و احسان رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ اللہ اجر کو کئی گنا بڑھا کر دیتا ہے۔ بندہ کوئی عمل کرتا ہے اور اسکا پروردگار اسکو کئی گنا زیادہ جزاء دیتا ہے۔ یہی تو وہ شئے ہے کہ جسکا نام بندوں کیلئے ربا ء رکھا گیاہے اور یہ انکے لئے حرام ہے۔ کیوں؟ اسلئیے کہ انکی حقیقت عدم ہے۔ وہ کیسے کسی دوسرے پر کوئی فضل اور اضافہ کرسکتے ہیں جبکہ وہ خود کسی چیز کے مالک ہی نہیں۔ پس زیادہ سے زیادہ بندہ اگر کچھ کرسکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ وہ واپس کردے۔ اگر وہ کسی سے کچھ قرض لیتا ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتا ہے کہ جو لیا تھا وہی واپس کردے۔ پس اسی بات پر باقی معاملات کو قیاس کرلینا چاہئیے۔
اب ہم نفس کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ دین اور تدیّن کیلئے نفس ایک محور اور اساس ہے۔ بہت سے لوگ اس بات سے غافل ہیں یا غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ جائز ہے کہ ہم اس بات سے واقف ہوں کہ آخر یہ نفس ہے کیا؟ عامۃ المسلمین اور علماء کے نزدیک نفس و شئے ہے جو اللہ کی نافرمانیوں پر مائل کرتی ہے اور ہر اس شئے کو جو عبادتکو باطل کرے، اور لذات و شہوات اور گناہوں پر ابھارے، نفس کا نام دیا جاتا ہے۔ اور یہ ایک حد تک درست بات ہے اگر ہم یہ سمجھیں کہ یہ اصل معنوں کا ایک جزو ہے، فی نفسہ اصل معنی نہیں ہے۔ فرعی معانی ہیں۔ اور یہ جو کچھ نفس کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ نفس کی صفات ہیں، نفس نہیں ہے۔ نفس کی صفات ہیں حد سے بڑھنا، حدود اللہ سے تجاوز کرنا اور نفس ان خصلتوں سے اس وقت رہائی نہیں پاتا جب تک اسکی مخالفت کرکے اسکے ساتھ جہاد کرکے اسکو اس قدر کمزور نہ کردیا جائے کہ یہ اثر اس میں سے نکل جائے۔ لیکن فی الحقیقت نفس ہے کیا، تو یہ ہر وہ شئے ہے جسکو انسان 'انا' یعنی 'میں' کا نام دیتا ہے۔ ہر وہ شخص جو نفس رکھتا ہے اور اس سے واقف ہے تو وہ جس چیز کو اپنا آپ سمجھتا ہے، وہی نفس ہے۔ آخرکار ہم کہتے ہیں کہ نفس وہی شخص ہے بذاتِ خود۔ اگر معاملہ ایسا ہے تو انسان تزکئے کے بعد جش شئے سے رہائی پاتا ہے تو لازمی ہے کہ اس بات کی انتہاء نفس سے رہائی پر ہو۔ تو وہ کس شئے سے رہائی پائے گا؟ کیا اپنی انانیت سے جیسا کہ لوگوں میں مشہور ہے یا یہ کہ وہ کلیۃً نفس سے رہائی پاجائے گا؟ اگر ایسا ہے تو وہ کیا کہلائے گا؟
ہم اس بات کی زیادہ گہرائی میں نہیں جاتے ہمارا مقصد تو فقط یہ واضح کرنا ہے کہ انسان دین اور دینداری کے معنی سمجھے اور اس راہ پر چلنے سے پہلے اسے یہ تو پتہ ہو کہ یہ راہ کہاں پر لیکر جاتی ہے۔ یعنی دین اور دینداری کا مقصد جان لے۔ دینداری کی وہ شکل جو آج کل لوگوں میں معروف ہے، یہ تو گویا اللہ کے ساتھ ایک اجر اور صلے والے معاملے تک محدود ہے۔ یہ معنی بھی اگرچہ عبودیت کا ایک جزو ہیں لیکن یہ کامل بندگی اور عبودیتِ تامّہ تونہیں ۔ عبودیتِ تامّہ کا مطلب ہے کہ بندہ کلیّ طور پر اپنے رب کا ہوکر رہ جائے۔ اور یہ کُلّی طور پر رب کا ہوجانا، نفس کی فناء کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ جب بندہ اس نتیجے تک پہنچ جاتا ہے تو اب ممکن نہیں کہ وہ اپنے اعمال کی جزاء کا منتظر رہے۔ کیونکہ اسکے اعمال تو خود اللہ کی طرف سے ہیں۔ تو اب وہ کیسے اس عمل کی جزاء کا منتظر رہ سکتا ہے جو اس کی طرف سےنہیں ہے۔ یہ بات اس بندے کے اپنے آپ اور اپنے نفس کی طرف نظر ڈالنے کی جہت سے کہی گئی ہے۔ اگر حق سبحانہ کی طرف سے دیکھیں تو وہ اپنے فضل سے اس بندے کو نواز دیتا ہے جو اپنے نفس سے فانی ہے۔ اور یہ سب سے بڑی جزاء ہے اگرچہ وہ بندہ اپنے اعمال کی طرف نظر نہیں ڈالتا۔ چنانچہ لازم ہے کہ ہم ان دونون نظروں اور ان دونوں منطقوں کے درمیان کم از کم اتنے فرق کو سمجھیں جو ہم نے بیان کیا، تاکہ انسان پر واضح ہوسکے کہ دین کے یہ بلند م ترین مقامات جب بھلا دئیے جائیں تو کیا ہوتا ہے۔ جب دین کے یہ معانی بالکل فراموش کردئیے جاتے ہیں تو ہوتا یہ ہے کہ بعض قسم کا تدیّن اور دینداری، انسان کے حق میں وبال بن جاتی ہے۔ چنانچہ کچھ لوگ بجائے اسکے کہ عبودیت سے اور عبودت سے اللہ کے بندے بنتے، وہ ارباب یعنی رب بننے لگے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اسلئیے کہ وہ ظلمت والے نفوس کہ جن کیلئے واجب تھا کہ اس ظلمت سے تزکیہ حاصل کرتے، ایک گمراہ شدہ تدیّن میں جا داخل ہوئے جس نے اس ظلمت کو مزید بڑھا دیا۔ حتیٰ کہ اس مقام کا مذہبی انسان کئی غیر مذہبی انسانوں سے کہیں زیادہ تاریکی میں بڑھ گیا اور اسی تاریکی نے ان میں عبودیت کی بجائے ربوبیت پیدا کردی۔ چنانچہ یہاں وے وہ شخص اپنے نفس کو چھوڑ کر دوسروں کا محاکمہ کرنے والا بن گیا۔ فلاں کو کافر اور فلاں کو فاسق کہنے لگا۔ کیونکہ انسان اس درجے پر نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ اپنے نفس کو فراموش نہ کرچکا ہو۔ اور اپنے نفس کو فراموش نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنے معاملات میں اپنے رب کو فراموش نہ کردے۔ انہی معنوں میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ " الذین نسوا اللہ فانساہ انفسھم" (اور وہ لوگ جو اللہ کو بھول گئے تو اس نے انکو انکے نفوس بھلا دئیے)۔ اپنے نفوس کو بھلادینے کا مطلب ہے کہ اپنی حقیقت اور اپنی عبودیت کو بھلا دیا۔ یہ نسیان اس نسیان کے نتیجے میں پیدا ہوا جب انہوں نے اپنے معاملات میں اپنی دینداری میں اور اپنے اعمال میں اپنے رب کو فراموش کردیا۔
ہمارا مقصد یہ ہے کہ سننے اور دیکھنے والے کی نظر پورے دین پر پڑے تاکہ اسے پتہ چل سکے کہ کیا وہ تدیّنِ اصیل پر ہے یا تدیّنِ تاریخی پر۔ کیا وہ اس تدیّن پر ہے کہ اسکے قلب اسکے رب کی طرف سے واردات نازل ہوتے ہیں؟ یا وہ اس تدیّن پر ہے جس میں اس نے کتابوں اور علماء سے حاصل کرنے والی معلومات پر ہی تکیہ کر رکھا ہے؟ یہ اصل نہیں ہے۔ کیا وہ اس تدیّن پر ہے کہ تھوڑا تھوڑا کرکے اسکا نفس مٹ رہا ہے اور نورِ حق سے اسکی ذات منور ہورہی ہے تاکہ وہ یہ امید رکھ سکے کہ دنوں میں سے کسی دن اس پر حقیقت کھلے گی یا کہیں وہ اس تدیّن پر تو نہیں کہ اسکی ظلمت بڑھتے بڑھتے اسے رب کے بالمقابل ایک رب بنا ڈالے؟ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک رب دوسرے رب کا سامنا کرسکے۔
ان معنوں اور ان تفاصیل کے بعد دیکھنے والے کو یہیں چھوڑتے ہیں تاکہ وہ اپنے آپ پر غور کرے۔
اور ہم اللہ سے مغفرت چاہتے ہیں اگر ہم نے حق کے برخلاف کچھ کہا ہو۔ اور اس پاک ذات سے ہمیشہ یہ امید کرتے ہیں کہ وہ درگذر سے کام لیتا رہے گا۔
و صل اللہ علیٰ سیدنا محمد الھادی الی الخیر والدّال علٰی اللہ، و علیٰ آلہِ و صحبہِ والحمد للہ رب ّالعٰلمین۔
از عارف باللہ شیخ عبدالغنی العمری الحسنی
(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)
 
آخری تدوین:
Top