دین میں تشدد اور نفرت کا فروغ ( حصہ دوئم )

ظفری

لائبریرین
گذشتہ سے پیوستہ

ہماری امت میں تشدد کے اس رجحان کا ایک بڑا سبب مذہبی حلقوں کے اختلافات ہیں ۔ اسلام کو پھیلنا ہے ۔ ساری دنیا میں جانا ہے ۔ اس میں مختلف نقطہِ نظر پیدا ہونے ہیں ۔اگر آپ یہ چاہیں کہ ایک ہی طریقے پر لوگ سوچیں تو یہ ممکن نہیں ہے ۔ لوگوں کی سوچ و فکر میں بھی اختلافات ہونگے ۔ چونکہ پچھلے 13 ، 14 سو سال کی ایک تاریخ بن چکی ہے ۔ تو انسان کا مسئلہ کیا ہے کہ وہ تاریخ کے واقعات سے بھی اپنی وابستگی پیدا کرلیتا ہے ۔ ان میں کچھ شخصیات ہوتیں ہیں ۔ ان سے محبتیں وابستہ ہوتیں ہیں ۔ یہ سب انسانی نفسیات کے مسئلے ہیں ۔ ان کو آپ ایک حقیقت کے طور پر مان لیں ۔ اور یہ اصول تسلیم کر لیں کہ لوگوں کو اتفاق کرنا ہے ۔ اور ہمیں اختلافات کے باوجود بہت خود اسلوبی سے جینا ہے ۔ محبت سے بات کرنی ہے ۔ خیر خواہی کے جذبے کیساتھ ایک دوسرے سے مکالمہ کرنا ہے ۔ ایک شخص کی رائے آپ کے نزدیک غلط ہے تو تنقید کریں گے ۔ اس کی غلطی واضع کریں گے ۔ لیکن خوشگوار طریقے سے واضع کریں گے ۔آپ دیکھیں کہ سیاسی معاملات میں اختلافات ہوتے ہیں ۔ جب یہ اختلافات ہوتے ہیں تو ہم بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔ دوسرے علم و فنون میں بھی اختلافات ہوتے ہیں ۔ سائنسی جرائد اور مقالوں کا آپ مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اس میں اہلِ علم کے درمیان مناظرے ہورہے ہوتے ہیں ۔ بےشمار چیزوں کے بارے میں اختلافِ رائے ہونگیں ۔ دوسرا پہلے کی غلطی بتائے گا ۔ پہلا دوسرے کی غلطی بتائے گا ۔ یہ علم کی دنیا میں عمومی مکالمے کا انداز ہوتا ہے ۔ یہی انداز اگر مذہب میں بھی رہے تو اس سے تشدد نہیں پیدا ہوتا ۔ لیکن جس وقت آپ نے دوسرے کو کافر قرار دینا ہے ۔ اس کے بارے میں آپ نے کوئی فتویٰ دینے کی کوشش کرنی ہے ۔ اس کو ملت سے کاٹنے کا طریقہ اختیار کرنا ہے ۔ اگر کسی نے کوئی بات کہی ہے اور اگر اس کی کوئی اچھی توجہہ ہوسکتی ہے ۔ تو اچھی توجہہ کرنے کے بجائے اس کی انتہائی بری توجہہ کو ترجیح دینی ہے ۔ لوگوں کو یہ بارو کرانا ہے کہ یہ شخص تمہاری ملت کا شخص نہیں ہے ۔ یعنی دین تو یہ جذبہ پیدا کرتا تھا کہ ہم لوگوں کو اپنے دین میں لانے کی کوشش کریں ۔ ہمارا دامن وسیع ہو ۔ اور ہم بہت بڑے بڑے اختلافات کو سمیٹ کر ملت کے دائرے میں لاکر اس حل کرنے کی کوشش کریں ۔ لیکن اس کے برعکس یہ رویہ پیدا ہوجائے تو ظاہر ہے آپ پھر اپنے پیروکاروں کو کچھ پیغامات دیتے ہیں ۔ اگر آپ دو ، تین دہائیوں پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمارے ہاں کچھ ایسی تحریکیں اٹھیں جو مکمل طور پر تفریق کی تحریکیں تھیں ۔ بعض تحریکوں نے اپنا نام بھی یہی رکھ لیا ۔ کہ انہوں نے مسلمانوں کے بعض گروہوں کے بارے میں یہ فیصلہ سنانا ہے کہ وہ مسلمان ہیں یا مسلمان نہیں ہیں ۔

ہمارے معاشرے میں تشدد ، دہشت گردی اور دیگر اس قسم کے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں جس کا مظہر ہم سیاسی و مذہبی دونوں سطح پر دیکھ سکتے ہیں ۔ اس کی بنیادوں میں ان محرکات کی ایک وجہ انہی مذہبی طبقات سے شروع ہوئی ہے ۔ کیونکہ ہم نے کبھی بھی مذہب میں صلاح و مشورہ اور مکالمہ نہیں پیدا ہونے دیا ۔ نہ پہلے تھا اور نہ آج ہے ۔ بلکہ آپ خوف محسوس کرتے ہیں ۔ کئ ایسے دانشور اور عالم ہیں ۔ جن کی اپنی آراء ہیں ۔ ایک نقطہِ نظر ہے ۔ وہ معاشرے کے سامنے مگر اس کا اظہار نہیں کرتے ۔ اس طرح کی صورتحال سے دو طرح کے کردار پیدا ہوجاتے ہیں ۔ یا تو یہ منافقت پیدا کردے گی ۔ یعنی ایک آدمی لکھ کچھ اور رہا ہوگا ۔ کہہ کچھ رہا ہوگا ۔ اور بات کو کچھ اور بنا کر آپ کے سامنے پیش کردیگا ۔ لیکن جو کچھ حقیقت میں ہے ۔ اس کا اظہار نہیں کرے گا ۔ کیونکہ آدمی یہ رسک لینے کے لیئے تیار نہیں ہوتا کہ کہیں اسے معاشرتی طور پر کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑجائے ۔ ایسے بہت سے عالم اور دانشور ہیں جو دین کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں ۔ مگر مصلحت سے کام لیتے ہیں ۔اور یہ مصحلت پوشی کسی قوم کے لیئے اچھی چیز نہیں ہوتی ۔ مگر معاشرے میں تشدد اور دہشت گردی کی جو فضا قائم کردی گئی ہے ۔ اس میں لوگ یہ رویہ اپنانے میں مجبور ہیں ۔ وہ کھل کر اپنی بات نہیں کرسکتے ۔ اور اس طرح علم و تحقیق اور سیکھنے سکھانے کا راستہ بند ہوگیا ۔ چنانچہ اس طرح کی منافقت پیدا ہوجاتی ہے ۔ یا پھر یہ ہوتا ہے کہ کوئی ردعمل پیدا ہوتا ہے ۔ اور جب کوئی ردعمل پیدا ہوتا ہے ۔ تو وہ گروہوں کو آپس میں متحرک کردیتا ہے ۔ جب گروہ بڑے ہوکر پھل پھول جاتے ہیں ۔ تو اس میں سارے محقیق نہیں ہوتے ، سارے دانشور نہیں ہوتے ، سارے علماء نہیں ہوتے ۔ ان کے اندر عام لوگ بھی ہوتے ہیں ۔ عام لوگوں کے بارے میں معاملہ یہ ہوتا ہے کہ جب آپ ان کو دین کے بارے میں جذباتی کر دیتے ہیں ۔ اور یہ باور کرواتے ہیں کہ دیکھو ! ۔۔ یہ دین کا مسئلہ ہے ۔ اور دین اس معاملے میں تم سے حمیت کا تقاضا کرتا ہے ۔ تو ایک جذبہ انسان کے اندر پیدا ہوجاتا ہے ۔ اور اتنا ہی کافی کہ آپ نے یہ جذبہ ایک عام آدمی میں پیدا کردیا ۔ یہ ہوسکتا ہے کہ آپ کسی انتہائی سطح پر نہ جانا چاہتے ہوں ۔ لیکن اگر آپ نے یہ چیز پیدا کردی ہے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ جو نفرت کے جذبات اس کے اندر آپ نے پیدا کیئے ہیں ۔ وہ کسی اقدام میں تبدیل ہوجائیں ۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ اسی بنیاد پر لوگوں نے صرف فرقہ بندیوں پر ایک دوسرے کو مارا ہے ۔ اور آپ دیکھیں کہ اس دوران ہم نے اپنی ملت کے بہترین لوگ کھوئے ۔ یہ بات میں بلاتخصیص کہہ رہا ہوں کہ خواہ ان کا تعلق کسی بھی گروہ سے ہو ۔ اگر وہ عالم ہے ۔ کوئی محقیق ہے ۔ دین کی بات کررہا ہے ۔ تو وہ ہمارا سرمایہ ہے ۔ ہمیں اس کی عزت کرنی چاہیئے ۔ کیونکہ وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے افراد ہیں ۔ ان کے مابیبن اگر کسی چیز کو دیکھنے اور سمجھنے پر اختلاف ہے ۔ تو بجائے ایسی فضا پیدا ہو کہ ہم مکالمہ کرسکیں ۔ مگر جب ہم اس کو حق و باطل کا مسئلہ بنا کر ایک دوسرے کی جان لینے کے لیئے تیار ہوجاتے ہیں ۔ لوگوں کی اپنی بزرگوں کیساتھ ، اپنے اقابر کیساتھ محبت ہوتی ہے ۔ لہذا ان کو نقصان پہنچنے کی صور ت میں انتقام در انتقام کی فضا پیدا ہوگی ۔ اور یہ صورتحال پہلے زمانوں میں ، قبیلوں کے درمیان پیدا ہوتی تھی ( جیسا کہ ہم پڑھتے تھے ) ۔ وہ اب ہمارے ہاں پیدا ہوگئی ۔

ایک انتہا پسندانہ نظریات ہوتے ہیں ۔ یہ دنیا میں ہر جگہ پیدا ہوجاتے ہیں ۔ یعنی آپ کسی قوم کو اس سے خالی نہیں دیکھ سکتے ۔ عیسائیوں اور یہودیوں میں بھی بہت سے ایسے گروہوں مل جائیں کہ جو ایسے رحجان رکھتے ہیں ۔ مگر وہاں مکالمے اور بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرلیا جاتا ہے ۔ مگر جب ہمارے ہاں معمول کی مذہبی حالات میں بھی یہ فضا نہیں ہے تو آپ اس طرح کے انتہا پسند گروہوں کے درمیان مکالمہ اور بات چیت کی فضا کیسے قائم کر سکتے ہیں ۔
 

ظفری

لائبریرین
آپ دیکھیئے کہ ہماری امت میں خوارج کا ایک گروہ پیدا ہوا تھا ۔ اور یہ دیکھیئے کہ وہ کس طرح پیدا ہوا ۔ دو بزرگوں کے درمیان سیاسی اختلاف ہوا ۔ جیل و القدر لوگ تھے ۔ اس کے نتیجے میں جنگ کی نوبت پہنچ گئی ۔ سیاسی اختلاف جب جنگ کی نتیجے میں پہنچ گیا ۔ تو بعض لوگوں نے آگے بڑھ کر کوشش کی کہ صلاح و صفائی کرائیں ۔ اس صلح و صفائی کے اندر سے ایک گروہ پیدا ہوگیا ۔ جس کا نقطہِ نظر یہ تھا کہ ہمیں کسی کو حاکم نہیں بنانا چاہیئے ۔ یعنی ثالثی کی کوشش نہیں کرنا چاہیئے ۔ اب دیکھیئے کہ اس کا تجزیہ کریں کہ یہ کیا چیز ہے ۔ آپ کو فیصلے کرنے ہوتے ہیں ۔ جب آپ دین میں کوئی چیز اختیار کرتے ہیں تو حق و باطل کی بنیاد پر کریں گے ۔ یعنی میں ایک دینی رائے قائم کرتا ہوں ۔ آپ ایک دینی رائے رکھتے ہیں ۔ اس میں ہم یہ نہیں دیکھیں گے کہ اس میں دوسرے لوگوں کو نطقہِ نظر کیا ہے ۔ بلکہ یہ دیکھیں گے کہ صحیح بات کیا ہے ۔ ساری دنیا اس بات کو شاید صحیح نہیں مانتی ہو ۔ مگر ہم مطمئن ہوں کہ یہ بات اللہ اور اللہ کے رسول کی بات سے زیادہ موافق ہے ۔ تو اس کو قبول کرلیں گے ۔ انفرادی طور پر تو یہ بات بلکل ٹھیک ہے ۔ لیکن جب آپ کو اجتماعی زندگی کے فیصلے کرنے ہوں ۔ اور اجتماعی زندگی میں آپ اپنی بات کو حق کہہ رہے ہیں ۔ میں اپنی بات کو حق کہہ رہا ہوں ۔ فرض کرلیں کہ ایک پارلینمٹ کے اندر تین سو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کیدرمیان یہ اختلاف پیدا ہوگیا ہے ۔ تو یہاں آپ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ آپ کوئی مصالحت کا طریقہ اختیار کریں ۔ کیونکہ حق و باطل کی جو گفتگو ہونی تھی وہ ہوگئی ۔ دلائل سب لوگوں نے دیدئے ۔ لیکن میں آپ کے دلائل سے مطمئن نہیں ہوسکا تو اور نہ آپ ہی ہوسکے ۔ مگر ہمیں قومی سطح پر ایک فیصلہ کرنا ہے ۔ تو یا تحقیم کا طریقہ ہوگا ۔ کسی عدالت کے پاس جائیں گے یا پھر اکثریت کی رائے کو فوقیت دیدی جائے گی ۔ فرض کریں کہ آپ عدالت میں چلے گئے ہیں اور وہاں دلائل بھی دے دیئے گئے ہیں ۔ اور وہاں پانچ جج بیٹھے ہوئے ہیں تو وہاں بھی اکثریت کا فیصلہ ماننا پڑے گا ۔ اس میں حق و باطل کا فیصلہ نہیں ہوتا ۔ بلکہ اختلافات اور جھگڑے کو نمٹانے کا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا ۔ یہ بالکل ایک سادہ اصول ہے ۔ اور یہ اصول اللہ تعالی نے خود قرآن مجید میں بیان کردیا ہے ۔ اس اصول کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ۔

چنانچہ ہوا یہ کہ صرف ایک بات کو جاننے اور سمجھنے میں ایک غط بات کردی گئی ۔ یعنی جو مذہبی ذہن رکھتے تھے ۔ انہوں نے یہ کہا کہ ” کیا ہم یہ جانتے ہوئے کہ بات دوسرے کی غلط ہے ۔ محض اس لیئے اس بات کو مان لیں گے کہ اکثریت اس بات کو مان رہی ہے ۔ ” ۔ آج بھی دیکھ لیں کہ کئی ایسے لوگ ہونگے جو یہ کہیں گے کہ ہم جمہوریت کو کیسے مان لیں ۔ یعنی کیا حق و باطل کا فیصلہ جمہوریت سے ہوگا ۔ اصل بات دراصل یہ تھی کہ جمہوری طریقہ دراصل نزاع کو ختم کرنے کا طریقہ ہے ۔ حق و باطل کا فیصلہ تو استدلال کی بناء پر ہی ہوتا ہے ۔ مجھے حق ہے کہ میں دلیل کی بنیاد پر ایک رائے قائم کروں ۔ آپ کو بھی یہی حق حاصل ہے ۔ لیکن جب یہ معاملہ اجتماعی زندگی سے متعلق ہوگا تو اجتماعی زندگی میں کون فیصلہ کرے گا ۔ اللہ اب براہ راست کوئی فیصلہ نہیں سنائے گا کہ وہ ختم ِ نبوت کیساتھ ہی ختم ہوچکا ۔ یا میں اور آپ کوئی اختلاف کر رہے ہیں اور ا سمیں کوئی فیصلہ کرنا ہے تو کسی کو حاکم بنائیں گے ۔ اور یہ چیز بھی نہیں ہے اور ملت کی سطح پر فیصلہ کرنا ہے تو سارے لوگ بیٹھیں گے اور وہ فیصلہ کریں گے ۔ اور یہی وہ بنیادی اصول تھا ۔ اور اس اصول پر انہوں نے ایک علمی بحث پیدا کردی ۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ لوگوں کی جان لینا شروع کردی ۔ ان کے خلاف اقدامات کرنے شروع کردیئے ۔ تاریخ میں آپ کو ایسے بہت سے واقعات ملیں گے کہ وہ اکثر مجلسوں میں چلے جاتے تھے ۔ اور ان کے ایمان کا فیصلہ کرتے تھے ۔ اور بعض اوقات وہ وہیں لوگوں کی جان بھی لے لیتے تھے ۔ اس کے بعد آپ دیکھیئے کہ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ پر حملہ کیا ۔ سیدنا علی رضی اللہ پر حملہ کیا ۔ تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملت کے بہترین لوگ جانے شروع ہوگئے ۔ یعنی اس انار کی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ اس کے نتیجے میں حق کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا ۔ اگر ا سکا کوئی نتیجہ نکلا تو وہ پوری ملت کے خلاف نکلا ۔ اس کے بعد آپ دیکھیں کہ حسن بن صباح کی تحریک اٹھی ۔ جس کو شیخ الجمال کہا جاتا تھا ۔ اس کے نتیجے میں فدائین کا ایک گروہ پیدا ہوگیا ۔ جن کا خنجر ایک زمانے میں بہت مشہور تھا ۔ جس کسی سے ان کو اختلاف ہوتا ۔ اس کے پاس وہ خنجر پہنچا دیا جاتا ۔ اس کی ایک بڑی داستان ہے ۔ اس پر افسانے ، اور بہت سے ناول بھی لکھے گئے ۔
( جاری ہے )
 

باذوق

محفلین
فرض کریں کہ آپ عدالت میں چلے گئے ہیں اور وہاں دلائل بھی دے دیئے گئے ہیں ۔ اور وہاں پانچ جج بیٹھے ہوئے ہیں تو وہاں بھی اکثریت کا فیصلہ ماننا پڑے گا ۔ اس میں حق و باطل کا فیصلہ نہیں ہوتا ۔ بلکہ اختلافات اور جھگڑے کو نمٹانے کا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا ۔ یہ بالکل ایک سادہ اصول ہے ۔ اور یہ اصول اللہ تعالی نے خود قرآن مجید میں بیان کردیا ہے ۔ اس اصول کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ۔
جب آپ اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی بات کرتے ہوں تو کوشش کرنی چاہئے کہ اللہ اور رسول (ص) کی ایسی بات کا متعلقہ حوالہ بھی آیت یا حدیث کے ذریعے سے دیا جائے۔
قرآن کریم میں تو اللہ تعالیٰ اپنا وہ فیصلہ بیان فرما رہا ہے جو آپ کے بیان کردہ نظریے کا سراسر مخالف ہے۔ مجھے بتائیے کہ میں‌آپ کے فلسفے کو قبول کروں‌ یا قرآن کی بات پر ایمان لاؤں ؟؟
( سورة الانعام : 6 ، آیت : 116 )
[ARABIC]وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ[/ARABIC]
اردو ترجمہ : ڈاکٹر طاہر القادری
اور اگر تو زمین میں (موجود) لوگوں کی اکثریت کا کہنا مان لے تو وہ تجھے اﷲ کی راہ سے بھٹکا دیں گے۔ وہ (حق و یقین کی بجائے) صرف وہم و گمان کی پیروی کرتے ہیں اور محض غلط قیاس آرائی (اور دروغ گوئی) کرتے رہتے ہیں۔
تاریخی واقعات / تاریخی حقائق بھی درج بالا اقتباس کی نفی کرتے ہیں۔ مشرکین مکہ کے سامنے جب اسلام کی دعوت پیش کی گئی تو اکثریت بھی انہی کفار کی تھی۔ اور انہوں نے اسلام کی دعوت کے مقابلے میں اپنا اکثریتی مشورہ یہ دیا کہ اختلافات اور جھگڑے کو مٹانے کے لئے ان کے بتوں کو مان لیا جائے۔ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثار ساتھیوں (رضی اللہ عنہم) نے مشرکین کا مشورہ مان کر اپنے آپسی اختلافات اور جھگڑے کو ختم کر دیا تھا ؟؟
اصل بات دراصل یہ تھی کہ جمہوری طریقہ دراصل نزاع کو ختم کرنے کا طریقہ ہے ۔ حق و باطل کا فیصلہ تو استدلال کی بناء پر ہی ہوتا ہے ۔ مجھے حق ہے کہ میں دلیل کی بنیاد پر ایک رائے قائم کروں ۔ آپ کو بھی یہی حق حاصل ہے ۔ لیکن جب یہ معاملہ اجتماعی زندگی سے متعلق ہوگا تو اجتماعی زندگی میں کون فیصلہ کرے گا ۔ اللہ اب براہ راست کوئی فیصلہ نہیں سنائے گا کہ وہ ختم ِ نبوت کیساتھ ہی ختم ہوچکا ۔ یا میں اور آپ کوئی اختلاف کر رہے ہیں اور ا سمیں کوئی فیصلہ کرنا ہے تو کسی کو حاکم بنائیں گے ۔ اور یہ چیز بھی نہیں ہے اور ملت کی سطح پر فیصلہ کرنا ہے تو سارے لوگ بیٹھیں گے اور وہ فیصلہ کریں گے ۔ اور یہی وہ بنیادی اصول تھا ۔
کیا شریعتِ اسلامی میں اجتماعی زندگی کا کوئی ذکر نہیں ہے؟؟ بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات مبارک کے ساتھ وحی کا نزول بھی ختم ہو چکا ہے۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر قسم کے اختلاف کو دور کرنے کے لئے کیا شریعتِ اسلامی موجود نہیں‌ ہے ؟؟
قرآن تو ببانگ دہل کہتا ہے :
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ
( سورة النسآء : 4 ، آیت : 59 )
اردو ترجمہ : طاہر القادری
اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو

اللہ کی طرف : یعنی قرآن کی طرف لوٹاؤ
رسول کی طرف : یعنی حدیث کی طرف لوٹاؤ

اور آپ قرآن کے اس فیصلہ کے عین مخالف میں جا کر فرماتے ہیں کہ : جمہوریت کے فیصلے کو قبول کرو ۔۔۔۔ چاہے قرآن و حدیث کچھ بھی کیوں نہ کہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ظفری

لائبریرین
اصلی پوسٹ بذریعہ ظفری
فرض کریں کہ آپ عدالت میں چلے گئے ہیں اور وہاں دلائل بھی دے دیئے گئے ہیں ۔ اور وہاں پانچ جج بیٹھے ہوئے ہیں تو وہاں بھی اکثریت کا فیصلہ ماننا پڑے گا ۔ اس میں حق و باطل کا فیصلہ نہیں ہوتا ۔ بلکہ اختلافات اور جھگڑے کو نمٹانے کا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا ۔ یہ بالکل ایک سادہ اصول ہے ۔ اور یہ اصول اللہ تعالی نے خود قرآن مجید میں بیان کردیا ہے ۔ اس اصول کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی


جب آپ اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی بات کرتے ہوں تو کوشش کرنی چاہئے کہ اللہ اور رسول (ص) کی ایسی بات کا متعلقہ حوالہ بھی آیت یا حدیث کے ذریعے سے دیا جائے۔
قرآن کریم میں تو اللہ تعالیٰ اپنا وہ فیصلہ بیان فرما رہا ہے جو آپ کے بیان کردہ نظریے کا سراسر مخالف ہے۔ مجھے بتائیے کہ میں‌آپ کے فلسفے کو قبول کروں‌ یا قرآن کی بات پر ایمان لاؤں ؟؟
( سورة الانعام : 6 ، آیت : 116 )
[ARABIC]وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ[/ARABIC]
اردو ترجمہ : ڈاکٹر طاہر القادری
اور اگر تو زمین میں (موجود) لوگوں کی اکثریت کا کہنا مان لے تو وہ تجھے اﷲ کی راہ سے بھٹکا دیں گے۔ وہ (حق و یقین کی بجائے) صرف وہم و گمان کی پیروی کرتے ہیں اور محض غلط قیاس آرائی (اور دروغ گوئی) کرتے رہتے ہیں۔
تاریخی واقعات / تاریخی حقائق بھی درج بالا اقتباس کی نفی کرتے ہیں۔ مشرکین مکہ کے سامنے جب اسلام کی دعوت پیش کی گئی تو اکثریت بھی انہی کفار کی تھی۔ اور انہوں نے اسلام کی دعوت کے مقابلے میں اپنا اکثریتی مشورہ یہ دیا کہ اختلافات اور جھگڑے کو مٹانے کے لئے ان کے بتوں کو مان لیا جائے۔ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثار ساتھیوں (رضی اللہ عنہم) نے مشرکین کا مشورہ مان کر اپنے آپسی اختلافات اور جھگڑے کو ختم کر دیا تھا ؟؟
محترم ۔۔۔۔ چونکہ میں آپ کے طرزِ استدلال سے واقف ہوچکا ہوں ۔ لہذا ٰ آپ کی باتیں اور طور طریقے کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگیں ہیں کہ آپ ملت میں تفریق اور تقسیم کے قائل ہیں ۔ خیر میں آپ کی طرف نہیں‌ آتا ۔ میرے کوٹس اور پھر آپ کا ان پر جو اعتراض ہے ۔ اس پر کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہوں ۔
آپ نے ارشاد فرمایا کہ " جب آپ اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی بات کرتے ہوں تو کوشش کرنی چاہئے کہ اللہ اور رسول (ص) کی ایسی بات کا متعلقہ حوالہ بھی آیت یا حدیث کے ذریعے سے دیا جائے۔
اللہ تعالی نے قرآن میں بڑے ہی واضع انداز میں یہ اصول واضع کیا ہے کہ ۔ " امرھم شوری بینھم " ۔ مسلمانوں‌کا نظمِ اجتماعی ان کے مشورے اور رائے پر مبنی ہوگا ۔
یہ تو حوالہ ہوگیا ۔ اب آیئے اس ضمن میں آپ کے دوسرے اعتراض کی جانب ۔ آپ نے یہاں بھی ارشاد فرمایا کہ :

قرآن کریم میں تو اللہ تعالیٰ اپنا وہ فیصلہ بیان فرما رہا ہے جو آپ کے بیان کردہ نظریے کا سراسر مخالف ہے۔ مجھے بتائیے کہ میں‌آپ کے فلسفے کو قبول کروں‌ یا قرآن کی بات پر ایمان لاؤں ؟؟
( سورة الانعام : 6 ، آیت : 116 )
[ARABIC]وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ[/ARABIC]
اردو ترجمہ : ڈاکٹر طاہر القادری
اور اگر تو زمین میں (موجود) لوگوں کی اکثریت کا کہنا مان لے تو وہ تجھے اﷲ کی راہ سے بھٹکا دیں گے۔ وہ (حق و یقین کی بجائے) صرف وہم و گمان کی پیروی کرتے ہیں اور محض غلط قیاس آرائی (اور دروغ گوئی) کرتے رہتے ہیں۔
تاریخی واقعات / تاریخی حقائق بھی درج بالا اقتباس کی نفی کرتے ہیں۔ مشرکین مکہ کے سامنے جب اسلام کی دعوت پیش کی گئی تو اکثریت بھی انہی کفار کی تھی۔ اور انہوں نے اسلام کی دعوت کے مقابلے میں اپنا اکثریتی مشورہ یہ دیا کہ اختلافات اور جھگڑے کو مٹانے کے لئے ان کے بتوں کو مان لیا جائے۔ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثار ساتھیوں (رضی اللہ عنہم) نے مشرکین کا مشورہ مان کر اپنے آپسی اختلافات اور جھگڑے کو ختم کر دیا تھا ؟؟


سب سے پہلے تو مجھے یہ بتائیں کہ میرے جس جملے کو آپ نے کوٹ کیا ہے ۔ اس میں کیا ایسی بات ہے ۔ جس کا فیصلہ نکالنے میں قرآن و سنت سے ٹکراؤ ہورہا ہے ۔ میں‌ نے بلکل ایک عام فہم بات کی ہے کہ جب کسی گروہ یا قوم میں کوئی تنازعہ کھڑا ہوجاتا ہے ۔ اور اس میں شر وفساد اور قتل و غارت کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے تو کوشش کی جانی چاہیئے کہ مشاورت سے اسے حل کر لیا جائے ۔اور عدالت میں ججوں کا حوالہ اس لیئے دیا تھا کہ عدالت میں فیصلہ کا دارومدار ججوں کی اکثریت کے فیصلے پر ہوتا ہے ۔ اب یہ بتائیں کہ عدالت میں کون سا حق و باطل کا فیصلہ ہونے جا رہا تھا کہ آپ نے اسے قرآن سےمتصادم قرار دیدیا ۔ مگر آپ نے میرے اس جملے کو میری ساری بات کے سیاق و سباق سے نکال کر اسے اپنے انداز سے کسی اور مفہوم میں پیش کرنے کی کوشش کی ۔ بلکل اسی طرح جیسے آپ نے قرآن کی سورہ الانعام کی اس آیت کو قرآن کے سیاق و سباق سے بلکل جدا کر میرے جملے سے موازنہ کرنے کی کوشش کی ۔ میں ایک سیاسی مسئلے کو مشاورت سے حل کرنے کی بات کررہا تھا کہ ( جس کا پس منظر یہ تھا کہ میں نے خوارج کے واقعہ کے ضمن میں بات ‌کی تھی کہ کس طرح دو جلیل والقدر بزرگوں کے درمیان " سیاسی " اختلاف ہوا اور پھر اس اختلاف کو کیسے ہوا دی گئی اور پھر کس طرح ہزاروں مسلمان اس جنگ میں مارے گئے ) ۔ تو کیا ان دونوں بزرگوں کے درمیان حق و باطل کا فیصلہ ہونے جا رہا تھا ( اب پتا نہیں حق و باطل کو آپ کا استدلال کسی معنی میں لیتا ہے ) ۔ مطلب یہ کہ آپ کی سورہ الانعام کی دی ہوئی آیت کے حوالے کا وہاں اطلاق ہو رہا تھا ۔ ( نعوذ باللہ ) ۔ اگر یہ بات نہیں تھی تو اگر اکثریت کا فیصلہ مان لیا جاتا تو مسلمانوں کی تاریخ میں یہ سیاہ باب کبھی رونما نہیں‌ ہوتا ۔ اور مسلمانوں کو آپس میں ہی ایک دوسرے کو خون میں نہلا کر اس طرح " سرخرو " ہونا نہیں پڑتا ۔ اورپتا نہیں مسلمانوں کی آج تاریخ کیا ہوتی کہ بعد میں انتقام " بھی ہزاروں مسلمان مارے گئے ۔
میں آپ کے طرزِ استدلال کا ایک پہلو یہاں سب کے سامنے رکھتا ہوں ۔ تاریخی واقعات / تاریخی حقائق بھی درج بالا اقتباس کی نفی کرتے ہیں۔ مشرکین مکہ کے سامنے جب اسلام کی دعوت پیش کی گئی تو اکثریت بھی انہی کفار کی تھی۔ اور انہوں نے اسلام کی دعوت کے مقابلے میں اپنا اکثریتی مشورہ یہ دیا کہ اختلافات اور جھگڑے کو مٹانے کے لئے ان کے بتوں کو مان لیا جائے۔ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثار ساتھیوں (رضی اللہ عنہم) نے مشرکین کا مشورہ مان کر اپنے آپسی اختلافات اور جھگڑے کو ختم کر دیا تھا ؟؟ ۔
اب مجھے کوئی یہ بتائے کہ موصوف " باذوق " کے اس حوالے اور میری بات میں کیا مماثلت ہے ۔ ان صاحب نے جس طرح میری جس بات کو کوٹ کرکے اسے میری پوری بات کے سیاق و سباق سے الگ کرکے بلکل الگ تاثر پیش کیا ۔ اور پھراس تاثر کو ثابت کرنے کے لیئے سورہ الانعام کے اس سورہ کا جس طرح حوالہ دیا ۔ اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ان کا کام بھی وہی ہے جو خوارج میں ان لوگوں نے انجام دیا ۔ جن کا مقصد صرف ملت کو پارہ پارہ کرنا تھا ۔ یعنی کہ حد ہوگئی کہ میرے اس سارے ٹاپک میں ملت کے اتحاد قائم کرنے اور تشدد کو دور کرنے کا بارے میں کہا جا رہا ہے ۔ ماضی حال کے حوالے دیئے جا رہے ہیں ۔ مگر یہ موصوف اپنے جھتے کے افراد کے ایمان کو ہی اصل ایمان سمجھ کر سوا ارب مسلمانوں کی نفی کر رہے ہیں ۔

اس سورہ کا جو پس منظر انہوں نے یہاں بیان کیا ہے کیا کوئی اس کی تاکید کرے گا کہ یہ بتوں کو ماننے اور نہ ماننے والی اکثریت کی بات ان دونوں بزرگوں کے اختلافات کا باعث تھی ۔ اور پھر اسی بنیاد پر وہ خونریز جنگ لڑی گئی ۔


کیا شریعتِ اسلامی میں اجتماعی زندگی کا کوئی ذکر نہیں ہے؟؟ بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات مبارک کے ساتھ وحی کا نزول بھی ختم ہو چکا ہے۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر قسم کے اختلاف کو دور کرنے کے لئے کیا شریعتِ اسلامی موجود نہیں‌ ہے ؟؟

میں یہی سوال آپ سے کرتا ہوں ۔ کیونکہ 1400 سال بعد میں اب ملت کی اس قدر تقسیم کے بعد میں کیا بات کروں ۔ مگر یہی سوال اگر پہلی صدی کے ضمن میں کیا جائے جب خوارج اور شیخ الجمال جیسے فتنے کھڑے ہوئے تو وہاں یہ اختلافات ختم کرنے کے لئے شریعتِ اسلامی کو کیوں نہیں استعمال کیا گیا ۔ جبکہ اس دور میں صحابہ کرام ری بھی حیات تھے ۔ کیا وجہ تھی ۔ ؟
قرآن تو ببانگ دہل کہتا ہے :
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ
( سورة النسآء : 4 ، آیت : 59 )
اردو ترجمہ : طاہر القادری
اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو

اللہ کی طرف : یعنی قرآن کی طرف لوٹاؤ
رسول کی طرف : یعنی حدیث کی طرف لوٹاؤ

اور آپ قرآن کے اس فیصلہ کے عین مخالف میں جا کر فرماتے ہیں کہ : جمہوریت کے فیصلے کو قبول کرو ۔۔۔۔ چاہے قرآن و حدیث کچھ بھی کیوں نہ کہیں ۔

اگر اللہ کی طرف لوٹائیں گے تو آپ جیسے لوگ قرآن کی آیت کو اسی طرح توڑ مروڑ دیں گے ۔ جیسا ایک مظہر اسی ٹاپک پر موجود ہے ۔
رسول کی طرف لوٹائیں گے تو آپ جیسے لوگ احادیث کے صحیح اور غلط ہونے میں اعتراضات اٹھانے شروع ہوجائیں گے ۔ جس ایک ایک مظہر ٹاپک " کیا ارواح کو ثواب پہنچانا صحیح ہے ۔ ؟ جہاں پر آپ نے صحیح حدیث کی تکرار کی ہے ۔ اب اگر کوئی حدیث آپ لوگوں کے مفادات کے معیار پر اترتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ پھر ضعیف حدیث ٹہری ۔
اور آخری جملے کے بارے میں اب کیا کہا جائے کہ میرے اسی ٹاپک کے پہلے حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کوٹ کرتا ہوں جو شاید آپ کے جھتے کے معیار پر پورا نہیں اترتا کہ " اگر تم نے کسی شخص کو کافر کہا ۔ کسی کے ایمان کے بارے میں اجتماع کا اظہار کیا اور اگر وہ غلط ہوا تو وہ تمہاری طرف لوٹ آئے گا " ۔
 
ظفری میں صرف شکریہ ادا کرونگا اس پوسٹ پر اور اس سیریز کی پچھلی پوسٹ پر۔۔۔۔۔

اچھا لکھا ہے مگر میں بحث میں حصہ نہیں لونگا ۔۔۔ کیونکہ میرے لئے اس پوسٹ میں بحث کی گنجائش نہیں ہے۔۔۔۔
 

باذوق

محفلین
آپ ملت میں تفریق اور تقسیم کے قائل ہیں ۔
مگر میں اس کا انکار کرتا ہوں اور کہوں گا کہ یہ آپ کا اپنا ذاتی خیال ہو سکتا ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن میں بڑے ہی واضع انداز میں یہ اصول واضع کیا ہے کہ ۔ " امرھم شوری بینھم " ۔ مسلمانوں‌کا نظمِ اجتماعی ان کے مشورے اور رائے پر مبنی ہوگا ۔
یہ تو حوالہ ہوگیا ۔
لیکن میری نظر میں یہ حوالہ درست نہیں۔ وجہ یہ کہ آپ کا اصل پیراگراف یوں تھا :
ظفری نے کہا:
فرض کریں کہ آپ عدالت میں چلے گئے ہیں اور وہاں دلائل بھی دے دیئے گئے ہیں ۔ اور وہاں پانچ جج بیٹھے ہوئے ہیں تو وہاں بھی اکثریت کا فیصلہ ماننا پڑے گا ۔ اس میں حق و باطل کا فیصلہ نہیں ہوتا ۔ بلکہ اختلافات اور جھگڑے کو نمٹانے کا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا ۔ یہ بالکل ایک سادہ اصول ہے ۔ اور یہ اصول اللہ تعالی نے خود قرآن مجید میں بیان کردیا ہے ۔
اب دیکھئے کہ اپنی بات کی تائید میں آپ نے درج ذیل آیت کا ایک ٹکڑا پیش کیا :
[ARABIC]وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ[/ARABIC]
اردو ترجمہ : طاہر القادری
اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے
( سورة الشورٰی : 42 ، آیت : 38 )
میرا اعتراض آپ کے اس فقرے سے ہے :
اکثریت کا فیصلہ ماننا پڑے گا
جبکہ اس آیت میں اکثریت کے فیصلے کو ماننے کی بات کی ہی نہیں جا رہی بلکہ یہاں تو صرف "باہمی مشورہ" لینے کی بات کی جا رہی ہے اور وہ بھی "اُن لوگوں" سے جو اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں !
اب اتنی عقل تو صاحب ، ہم میں بھی ہے کہ سب سے باہمی مشورہ کرنے اور کسی "خاص گروپ" کے فیصلہ کو جبراً ماننے میں فرق بہرحال ضرور ہے۔
اگر اکثریت کے ہی فیصلے کو ماننا معیار ہے تو پھر مجھے بتائیے کہ قرآن کی اس آیت کے کیا معنی آپ پیش فرمائیں گے جو اکثریت کی باتوں پر نہ چلنے کا حکم دیتی ہے؟؟
سب سے پہلے تو مجھے یہ بتائیں کہ میرے جس جملے کو آپ نے کوٹ کیا ہے ۔ اس میں کیا ایسی بات ہے ۔ جس کا فیصلہ نکالنے میں قرآن و سنت سے ٹکراؤ ہورہا ہے ۔ میں‌ نے بلکل ایک عام فہم بات کی ہے کہ جب کسی گروہ یا قوم میں کوئی تنازعہ کھڑا ہوجاتا ہے ۔ اور اس میں شر وفساد اور قتل و غارت کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے تو کوشش کی جانی چاہیئے کہ مشاورت سے اسے حل کر لیا جائے ۔اور عدالت میں ججوں کا حوالہ اس لیئے دیا تھا کہ عدالت میں فیصلہ کا دارومدار ججوں کی اکثریت کے فیصلے پر ہوتا ہے ۔
مشاورت کی حد تک تو بات صحیح ہے۔ لیکن آپ کے اصل پیرا گراف میں "اکثریت کا فیصلہ ماننا پڑے گا" والی جو بات تھی (اور جس کو آپ نے اب یہاں نہیں دہرایا) وہ حقیقتاً قابل اعتراض ہے۔
آپ قرآن و سنت کے ہوتے ہوئے کس طرح اقلیت و اکثریت کی بات کر سکتے ہیں؟؟ کیا قرآن و سنت معیار نہیں ہے؟
اگر عدالت میں دس میں سے آٹھ جج رشوت لے کر مجرم کو چھوڑنے پر اتفاق کریں اور باقی دو جج صاحبان دلائل کے ساتھ مجرم کے جرم کو ثابت کرتے ہوئے سزا کا فیصلہ سنائیں تو کس کے فیصلے کو اختیار کیا جانا چاہئے؟؟ کیا یہاں قرآن کا معیار اپلائی نہیں ہوگا کہ رب کا فرمان جو قبول کرتے ہیں (یعنی : رشوت نہیں لیتے بلکہ حق پر چلتے ہیں) ان کے درمیان ہی " باہمی مشورہ " ہونا چاہئے ، عددی اکثریت کے درمیان نہیں !
کیا اکثریت کو یا دلائل کو ؟؟

اور میرے بھائی ! میں آپ کی باتوں سے کوئی ذاتی اختلافات نہیں کر رہا اور نہ فرضی مسائل کھڑے کر رہا ہوں۔ بلکہ قرآن و سنت کو ترجیح دئے جانے کی بات کر رہا ہوں بس۔

اور جہاں تک آپ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کے آپسی معرکوں کی بات کر رہے ہیں ، ان معاملات پر ہم کو جہاں تک ہو سکے خاموشی اختیار کرنی چاہئے۔ کیونکہ صحابہ کی فضیلت و معیارِ تقویٰ کے متعلق جتنی مشہور احادیث ہیں وہ غالباً آپ کو بھی پتا ہوں گی۔ کوئی ایک بھی مسلمان یہ نہیں کہتا کہ ان کے درمیان حق و باطل کا معرکہ ہوا تھا۔ وہ صحابہ کے اپنے اجتہاد تھے ، جو غلط بھی ہوں تو اس کے لئے وہ عنداللہ ماجور ہیں۔
آپ غلطی یہ کر رہے ہیں کہ صحابہ کے آپسی معرکوں کو آج کے مسلمانوں کے درمیان کی لڑائیوں سے تعبیر کر رہے ہیں ۔۔۔ کیا یہ قابلِ قبول ہے؟؟
کون کمبخت مسلمان آج ایسا ہے جو علم و فضیلت ، بر و تقویٰ میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کی ہمسری کا دعویٰ کر سکے ؟؟
 
باہمی مشورہ اور فیصلہ کا مروجہ طریقہ یہ ہے کہ لوگ آپس میں مشورہ کریں، اصول اللہ کا ہو اور اس اصول کے اندر اندر فیصلہ کریں۔ یہ فیصلہ ہمیشہ اکثریت کا فیصلہ ہوتا ہے ۔ یہ ضرور ہے کہ اللہ کے قائم کردہ اصول سے باہر نہیں ہوگا، لیکن ہوگا اکثریت کا ہی۔

مثال ، جیسے مسجد بنانی ہے کہ اس میں اللہ کا نام لیا جائے گا۔ مسجد کا قبلہ اللہ کے اصول کے مطابق ہوگا۔ لیکن وہ سڑک کے دائیں طرف بنے گی یا بائیں طرف۔ یہ فیصلہ اکثریت کا مانا جائیگا۔ یہ متفقہ اصول بہت پہلے طے ہو چکے ہیں۔
 

باذوق

محفلین
مجھے یہ تاکیدی نوٹ تحریر کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آ رہی ہے کہ کہیں کوئی "صاحبِ علم" میری پچھلی پوسٹ کی ان باتوں سے کوئی غلط مطلب اخذ نہ کر بیٹھیں جو عدالت اور ججوں سے متعلق ایک فرضی مثال پر میں نے کی ہیں۔
وہ صرف ایک فرضی مثال ہے جس کے ذریعہ عددی اکثریت کی اہمیت کو قرآن و سنت کے مقابلے میں اولیت نہ دینے کی بات کی گئی ہے۔
ورنہ تو حکومت کے خلاف خروج یا عدالت کے فیصلوں کے خلاف بغاوت جیسے خیالات یا نظریات یا رویوں کو قطعاً ردّ کیا جانا چاہئے کہ یہ اسلامی تعلیمات کے منافی امور ہیں !
 

ظفری

لائبریرین
مجھے یہ تاکیدی نوٹ تحریر کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آ رہی ہے کہ کہیں کوئی "صاحبِ علم" میری پچھلی پوسٹ کی ان باتوں سے کوئی غلط مطلب اخذ نہ کر بیٹھیں جو عدالت اور ججوں سے متعلق ایک فرضی مثال پر میں نے کی ہیں۔
وہ صرف ایک فرضی مثال ہے جس کے ذریعہ عددی اکثریت کی اہمیت کو قرآن و سنت کے مقابلے میں اولیت نہ دینے کی بات کی گئی ہے۔
ورنہ تو حکومت کے خلاف خروج یا عدالت کے فیصلوں کے خلاف بغاوت جیسے خیالات یا نظریات یا رویوں کو قطعاً ردّ کیا جانا چاہئے کہ یہ اسلامی تعلیمات کے منافی امور ہیں !
بلکل غلط ۔۔۔۔ یہ آپ کی اپنی خود ذہنی اختراع ہے ۔ اس فرضی مثال میں جو بات کہی گئی ہے ۔ اس کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں نکلتا ۔ مگر چونکہ اس بات میں جہموری تاثر مل رہا ہے ۔ اس لیئے آپ سے وہ بات ہضم نہیں ہو رہی ہے ۔ جس سورہ کا وہاں حوالہ دیا گیا ہے ۔ اس سے بات واضع ہوگئی ہے کہ بات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کرنا آپ کا محبوب پیشہ ہے ۔ اس طرزِ عمل سے یہ بات بھی واضع ہے کہ آپ تشدد پر مائل ہیں ۔ لہذا افہام و تفہیم اور صلاح و مشورہ آپ کے نزدیک خودکشی ہے ۔
 

بلال

محفلین
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

علامہ اقبال کا یہ شعر آپ نے پہلے بھی سنا یا پڑھا ہو گا۔۔۔ معذرت کے ساتھ محفل میں دوبارہ پوسٹ کر رہا ہوں۔
امید ہے تمام دوست احباب شعر لکھنے کا مطلب سمجھ گئے ہوں گے۔۔۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو اسلام کی صحیح سمجھ، صبر، آپسی بھائی چارہ اور مکالمہ کی فضا پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔آمین
 
باذوق نے قرآن کی جو آئت پیش کی ہے اس کے معانی یہ ہیں کہ ار اکثریت کے اصول اللہ کے اصولوں‌کے برعکس مانو گے تو بھٹکو گے۔ اگر اصول اللہ کا ہو اور اس میں جہاں ممکن ہے کہ وہاں آپ اپنی مرضی استعمال کرسکیں‌تو پھر اس ممکنہ مرضی کے بارے میں‌فیصلہ اکثریت کی رائے سے ہوگا۔ مسجد بنانے والی مثال اس کے لئے استعمال کیجئے۔ قبلہ اللہ کے اصول کے مطابق ہوگا۔ لیکن مسجد کہیں‌بھی اکثریت کے فیصلے کے مطابق ہوگی۔ انسان کی عقل کو استعمال سے روکا نہیں گیا ہے اور باہمی عقل کے استعمال سے بھی روکا نہیں گیا ہے۔ مقصد باہمی اور آپسی مشورہ کا اللہ کے خلاف نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے لئے ہے۔ اب یہ پتہ نہیں کہ اس کے معانی باذوق اللہ کے خلاف کیونکر لیتے ہیں۔ کسی مسلمان کی یہ مجال کیسے ہوسکتی ہے کہ وہ اللہ کے خلاف جائے؟
 

باذوق

محفلین
بلکل غلط ۔۔۔۔ یہ آپ کی اپنی خود ذہنی اختراع ہے ۔ اس فرضی مثال میں جو بات کہی گئی ہے ۔ اس کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں نکلتا ۔ مگر چونکہ اس بات میں جہموری تاثر مل رہا ہے ۔ اس لیئے آپ سے وہ بات ہضم نہیں ہو رہی ہے ۔ جس سورہ کا وہاں حوالہ دیا گیا ہے ۔ اس سے بات واضع ہوگئی ہے کہ بات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کرنا آپ کا محبوب پیشہ ہے ۔ اس طرزِ عمل سے یہ بات بھی واضع ہے کہ آپ تشدد پر مائل ہیں ۔ لہذا افہام و تفہیم اور صلاح و مشورہ آپ کے نزدیک خودکشی ہے ۔
1۔ یہ آپ کی اپنی خود ذہنی اختراع ہے
آپ سے وہ بات ہضم نہیں ہو رہی ہے
3۔ بات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کرنا آپ کا محبوب پیشہ ہے
آپ تشدد پر مائل ہیں
5۔ افہام و تفہیم اور صلاح و مشورہ آپ کے نزدیک خودکشی ہے


خوب ! بہت خوب !!
ایک چار سطری پیراگراف میں بلاثبوت پانچ شخصی حملے ؟؟!!
ویسے بھی معروف مقولہ ہے کہ جب آدمی کے پاس کہنے کو کچھ نہ رہ جائے تو وہ ذاتیات پر اُتر آتا ہے !!
جس کا ایک مظاہرہ ابھی حال میں‌ آپ ہی کے برادرِ عزیز فاروق صاحب محترم کے ذریعہ ہو چکا ہے۔ لہذا عقلمند کو اشارہ کافی ہونا چاہئے کہ یہاں محفل پر بعض احباب ایسے بھی رونق افروز ہیں جنہیں اپنی عقل پر بڑا ناز ہے اور اپنی عقلی برتری اور اپنے شکرگزار محسنین کے زعم میں مخالفانہ نظریات کو برداشت کرنے کا حوصلہ ان میں پایا نہیں جاتا !!

میں معذرت چاہتا ہوں حضرات ! یہ میرا میدان نہیں ہے ۔۔۔۔ مجھے اجازت دیجئے ، مہربانی ہوگی۔
 
Top