دین اور ابحاث

الف نظامی

لائبریرین
صحابہ کرام کا دور دین کا بہترین دور تھا۔ اس دور میں کسی کو بھی اور کسی بھی امر پر کوئی اختلاف نہ تھا۔ جس طرح پروانے اپنی ہستی سے بے نیاز و بیخود ہو کر اپنی جانیں شمع پہ وار دینے کے لئے شمع کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں ، عین اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت میں مدہوش ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی اتباع میں محو و منہمک رہتے ۔ انہیں اختلافی مسائل کو کریدنے اور ان پہ بحث کرنے کے لئے کوئی بھی وقت نہ ملتا۔
ان میں سے کسی کو بھی یہ فرصت نصیب نہ ہوتی کہ وہ غیر ضروری باتوں میں اختلافات تلاش کریں ، اور نہ ہی انہیں ایسا کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی۔
دین ایک دوسرے کی محبت اور خیر خواہی کا نام ہے۔ محبت اور خیر خواہی دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ جسے کسی سے محبت ہوگی اس کا خیر خواہ ہوگا۔ بندہ اسی کا خیر خواہ ہوتا ہے جس سے کہ اسے محبت ہو۔
بحث محبت اور خیر خواہی کے بجائے نفاق اور بد خواہی پیدا کرتی ہے اور یہ دونوں دین کی ضد ہیں۔
جب سے دین میں بحث شروع ہوئی ہے ، صالح اعمال رخصت ہوئے۔ بندے کے ناقص خیال کے مطابق جب تک دین میں محبت اور خیرخواہی قائم رہتی ہے ، عمل بھی قائم رہتا ہے۔ صالح عمل کی توفیق ملتی ہے۔اپنا محاسبہ خود کریں اور خود ہی اس بیان کی تصدیق کریں۔
جب سے دین میں بحث نے قدم رکھا ہے ، صالح اعمال رخصت ہوئے۔ ہماری ساری طاقت اور سارا وقت بحث کی تقریبات میں گذر جاتا ہے۔ ذکر جو دین کی اصل ہے ، کہیں نہیں ہوتا ، کوئی نہیں کرتا۔ نہ جلی ہوتا ہے ۔۔۔ نہ خفی۔۔ ۔نہ انفرادی نہ اجتماعی۔۔۔ یہاں تک کہ نماز بھی اچھی طرح ادا نہیں کی جاتی۔
اس کے باوجود
اپنی ساری طاقت اور سارا وقت بحث ہی کی تیاریوں کی نذر کر دیتے ہیں۔ نفاق بے لذتی کے سوا کوئی اور شے اپنے پہلو میں نہیں رکھتا۔ آپ ساری دنیا کے مذاہب کا مطالعہ فرمائیے۔۔ جہاں بحث ہوگی۔۔ بے عملی ہوگی ، آزادی ہوگی ، اور مذہب سے بے پرواہی ہوگی۔
یا حی یا قیوم
مذہب کی تبلیغ کرنے والے خود مذہب سے بیگانہ ہوتے ہیں۔ نہ کسی سے کسی کو محبت ہوتی ہے نہ خیر خواہی۔۔۔ یہ مذہب کیسا؟
اللہ رب العلمین کی بھیجی ہوئی کتاب کا اتنا گہرا مطالعہ نہیں کیا جاتا ۔۔۔ جتنا کہ بندوں بیچاروں کے بولے ہوئے کلمات پر تنقید و تبصرہ کیا جاتا ہے۔بحث کے میدان میں اپنے بھائی کو ہرانے کی خاطر سروں پر کتابوں کے بھار لئے پھرتے ہیں۔ اپنی پروا ہی نہیں رہتی کہ کیا کرتے ہیں۔ جن باتوں سے منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں کو باز رہنے کی تلقین کرتے ہیں ، خود اسی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
اے جان من!
اگر آپ کو اللہ کے دین اسلام کی عزت و ناموس کا پاس اور آدمیت کا احترام ہے تو کسی سے بھی ۔۔۔ اور کسی بھی امر پہ بحث و مباحثہ نہ کریں۔ دین کے فضائل ومسائل بیان کریں۔اپنا عقیدہ و مسلک بیان کریں ، کسی کے عقیدہ و مسلک کی ہرگز تردید نہ کریں ، کسی بات پہ نہ اصرار کریں نہ ضد ، کوئی دوسرا کرے تو صرف یہ کہیں ، ۔۔ کہ جو بات آتی تھی بتا دی ، اس سے زیادہ کی مجھے خبر نہیں۔۔ پھر بھی نہ مانے تو خاموشی اختیار کرلیں۔۔ ہار کروہ بھی ہار جائے گا۔
یہ فطرت کا کلی قاعدہ ہے
جو دین میں محبت اور خیر خواہی کو فروغ نہیں دیتا ،
اسے عمل کی توفیق نہیں دی جاتی ،
ابحاث میں الجھ کر عمل سے محروم رہ جاتا ہے۔
آپس میں محبت اور ایک دوسرے کی خیر خواہی دین اسلام کے دو بنیادی اصول ہیں ، ان کو فروغ دیں۔ جو چیز فطرت کو نا پسند ہے ، اللہ کو بھی نا پسند ہے۔۔ اور بے شک
ابحاث فطرت کو ناپسند ہیں۔
یاحی یا قیوم
و ما علینا الا البلاغ
یا اللہ یا رحمن یا رحیم یا حی یا قیوم
یا ذالجلال و الاکرام یا حنان یا منان
یا بدیع السموت و الارض
کرہ ارض پہ بسنے والے تمام مسلمان بھائی آپس میں متحد ہوں۔
یا حی یا قیوم برحمتک استغیث
یا حی یا قیوم برحمتک استغیث
یا حی یا قیوم برحمتک استغیث
یا حی یا قیوم برحمتک استغیث
یا حی یا قیوم برحمتک استغیث
یا حی یا قیوم برحمتک استغیث
آمین آمین آمین
"مکشوفات منازل احسان" از ابوانیس محمد برکت علی لدھیانوی
 

وجی

لائبریرین
الف نظامی صاحب بے شک وہ بہترین دور تھا
مگر اختلاف ضرور تھا
شاید آپنے وہ واقعہ نہیں سنا جس میں ایک مقام پر پہنچ کر نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا تو کچھ نے وقت پر نماز پڑھی اور کچھ نے مقام پر پہنچ کر نماز پڑھی اور ان میں اختلاف تھا مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حکم دیا کہ دونوں نے ٹھیک کیا تو سب خاموش ہوگئے
پھر غزوائے احد میں تیر اندازوں کا اختلاف بھی تو ہوا ہے
ہم مسلمانوں میں ایک مسلہ ہے کہ ہم جذبات میں بہت زیادہ بات کرجاتے ہیں
 

arifkarim

معطل
صحابہ کرام کا دور دین کا بہترین دور تھا۔ اس دور میں کسی کو بھی اور کسی بھی امر پر کوئی اختلاف نہ تھا۔

صحابہ رسول صللہعلیہسلم بھی عام انسانوں ہی میں سے تھے۔ کوئی روبوٹ یا فرشتے نہیں تھے کہ جو کمانڈ دے دی۔ بغیر کسی سوچ و بچار کے اسپر عمل کر دیا۔ ہاں آپؐ کی نیک سیرت اور والہانہ محبت کی بنا پر جان نچھاور کرنے والے تھے۔
 

باذوق

محفلین
صحابہ رسول صللہعلیہسلم بھی عام انسانوں ہی میں سے تھے۔ کوئی روبوٹ یا فرشتے نہیں تھے کہ جو کمانڈ دے دی۔ بغیر کسی سوچ و بچار کے اسپر عمل کر دیا۔ ہاں آپؐ کی نیک سیرت اور والہانہ محبت کی بنا پر جان نچھاور کرنے والے تھے۔
صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے اعمال و افعال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی "نیک سیرت اور والہانہ محبت" کی بنا پر نہیں بلکہ قرآن کے حکم اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول کے تقاضے کے تحت تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کتابِ مبین میں فرما چکا تھا کہ :
[arabic]فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا[/arabic]
(اے محمد!) تمہارے رب کی قسم لوگ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے باہمی اختلافات میں تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو فیصلہ تم کرو اس پر اپنے دل میں تنگی محسوس نہ کریں بلکہ فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔
( النساء:4 - آيت:65 )

گویا اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ایمان لازم و ملزوم ہیں۔ اطاعت ہے تو ایمان بھی ہے۔ اطاعت نہیں تو ایمان بھی نہیں۔
اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بارے میں قرآنی آیات و احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ دین میں "اتباع سنت" کی حیثیت کسی عملی مسئلہ کی سی نہیں بلکہ ایمان کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک تقاضا ہے۔

اطاعتِ رسول عقل کی محتاج بھی نہیں ہے !
ورنہ جن صحابہ نے معراجِ مصطفیٰ کا ذاتی مشاہدہ نہیں کیا تھا وہ یقیناً اپنی عقل کی بنیاد پر اس معراج کا انکار کر دیتے کہ اتنے مختصر وقفے میں جسمانی و روحانی سفر ممکن ہی نہیں۔
مگر تاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ کسی ایک بھی صحابی یا کسی ایک بھی راسخ العقیدہ مسلمان نے معراجِ مصطفوی کا انکار نہیں کیا۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے اعمال و افعال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی "نیک سیرت اور والہانہ محبت" کی بنا پر نہیں بلکہ قرآن کے حکم اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول کے تقاضے کے تحت تھے۔

۔ ۔ ۔ ۔ گویا اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ایمان لازم و ملزوم ہیں۔ اطاعت ہے تو ایمان بھی ہے۔ اطاعت نہیں تو ایمان بھی نہیں۔
ہے
۔

معذرت کے ساتھ باذوق بھائی یہاں میں آپ سے اختلاف کروں گا اول تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے اہنے آقا و مولا نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق خاطر کو محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا حکم خداوندی (یعنی اطاعت رسول کہ قرآنی حکم) کی کسوٹیوں پر ماپتے ہوئے ایکدوسرے کے مقابل لانا میرے نزدیک ناجائز عمل ہے ۔ کیونکہ صحابہ کرام کی محبت اور اطاعت دونوں ہی کامل و اکمل تھیں ۔ ہاں البتہ اگر دونوں کسوٹیوں کے درمیان مطلقا ترجیح ہی مقصود و لازم ٹھرتی ہے تو پھر اس کا حصر ہمیں آج کے زمانہ کے اعتبار سے امت مسلمہ کی حالت زار کو مد نظر رکھتے ہوئے کرنا پڑے گا اور اس اعتبار سے ہم اطاعت بلا محبت کے مقابلے میں محبت بلا اطاعت کو ترجیح دے سکتے ہیں کہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم عین جزو ایمان ہے جبکہ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کا تقاضا ہے لیکن ایمان کا حصہ نہیں بلکہ یہ ایمان کو کامل کرنے والی ہے جبکہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اول شرط ایمان ہے کہ اس کے بغیر ایمان کا حصول ہی ممکن نہیں سو اس حیثیت سے یہ جزو ایمان ہے۔ لہذا پہلے ایمان کے ساتھ ہی محبت پائی گئی پھر اس (محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) کا تقاضا (یعنی اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم) بھی ملزوم ٹھرا۔اور جہاں تک بات ہے فقط اطاعت یا پھر اطاعت بلا محبت کی تو یہ عین نفاق ہے اور یہ بات کہ اطاعت بلا محبت کے عین نفاق ہے خود قرآن پاک سے نہایت واضح طور پر ثابت ہے۔ حوالی مدینہ کے بہت سے اعراب [یعنی دیہاتی]، اسلام کی سیاسی طاقت بڑھ جانے کے بعد اسلامی احکام و قوانین کی ظاہری اطاعت کرنے لگے تھے لیکن یہ اطاعت محض سیاسی مصالح کے تحت مجبورانہ تھی، اللہ اور رسول کی محبت اور اس ایمان کا نتیجہ نہیں تھی جس کی اصلی روح اخلاص و اعتماد ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے جب بعض مواقع پر اپنے ایمان کا دعوی اس طرح کیا جس سے یہ مترشح ہوتا تھا کہ انہوں نے ایمان لا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اسلام پر کوئی بہت بڑا احسان کیا ہے تو قرآن نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت کی کہ ان مدعیان ایمان سے کہہ دو کہ محض اسلامی احکام و قوانین کی ظاہری اطاعت سے آدمی مومن نہیں ہو جایا کرتا بلکہ ایمان کے لئے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اخلاص و محبت شرط اول ہے اور یہ چیز تمہارے اندر مفقود ہے۔ اس وجہ سے ابھی تمہارا دعوائے ایمان غلط ہے۔

قَالَتْ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلْ الإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ۔ (الحجرات 49:14)

ترجمہ:-
اور یہ اعرابی لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، ان سے کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے ہو۔ البتہ یہ کہو کہ ہم نے اطاعت کر لی، ابھی ایمان تمہارے دلوں کے اندر نہیں داخل نہیں ہوا ہے۔


لہذا ثابت یہ ہوا کہ دین میں وہ ایمان یا وہ اطاعت معتبر نہیں ہے جس کی بنیاد محبت پر نہ ہو۔ ایسی اطاعت جس کی تہہ میں محبت کا جذبہ کار فرما نہ ہو بعض حالات میں محض نفاق [یعنی منافقت] ہوتی ہے۔ پھر محبت بھی محض رسمی اور ظاہری قسم کی مطلوب نہیں ہے بلکہ ایسی محبت مطلوب ہے جو تمام محبتوں پر غالب آ جائے، جس کے مقابل میں عزیز سے عزیز رشتے اور محبوب سے محبوب تعلقات کی بھی کوئی قدر و قیمت باقی نہ رہ جائے، جس کے لئے دنیا کی ہر چیز کو چھوڑا جا سکے لیکن خود اس کو کسی قیمت پر باقی نہ چھوڑا جا سکے۔ قرآن مجید میں اس محبت کا معیار یہ بتایا گیا ہے:

قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ۔ (التوبہ 9:24)
ترجمہ :- کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارے خاندان اور مال جو تم نے کمایا ہے اور تجارت جس کے گر جانے کا تمہیں اندیشہ ہے اور مکانات جو تمہیں پسند ہیں، اگر یہ ساری چیزیں تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر کر دے۔
اور اسی حقیقت کو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اہنے ارشادات عالیہ کی روشنی میں یوں واضح فرمایا ۔ ۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ و الناس اجمعین (بخاری، مسلم، مشکوۃ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کے بیٹے، اور دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
اور ایک اور جگہ ارشاد مبارک ہے کہ ۔ ۔
ثلث من کن فیہ وجد بھن حلاوۃ الایمان: من کان اللہ و رسولہ احب الیہ مما سوا۔ (بخاری، مسلم)
تین چیزیں جس شخص میں ہوں گی، وہ ان کے سبب سے ایمان کا مزا چکھے گا۔ ایک وہ شخص جس کے نزدیک اللہ اور اس کا رسول دوسری تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں۔۔۔۔
اسی طرح صحیح بخاری شریف میں خادم رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص (ذو الخویصرۃ) رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا متی الساعۃ (یارسول اللہ قیامت کب قائم ہوگی)۔ جواب میں آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وما اعددت لہا (تونے اسکے لیے کیا تیار کر رکھا ہے)۔ (جواب میں) عرض کیا لاشیٔ الا انی احب اللہ و رسولہ صلّی اللہ علیہ وسلم، یعنی اور تو کچھ نہیں مگر یہ کہ میں بلاشک و تردد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ (اس کا یہ عاشقانہ جواب سن کر) رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا انت مع احببت (جسے تو محبوب رکھتا ہے (کل قیامت کے دن) اسی کے ساتھ ہوگا)۔ راوی حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں فما فرحنا بشیٔ فرحنا بقول النبی صلّی اللہ علیہ وسلم انت مع من احببت، قال انس فانا احب النبی صلّی اللہ علیہ وسلم و ابابکر و عمر و ارجو ان اکون معہم بحبی ایا ہم وان لم اعمل بمثل اعمالہم (صحیح بخاری شریف صفحہ 521 جلد ثانی)۔ ہمیں کسی بھی چیز سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی خوشی رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد انت مع من احببت (یعنی جسے تو دوست رکھتا ہے اسی کے ساتھ ہوگا) سے حاصل ہوئی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں تو نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر وحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما تینون سے محبت رکھتا ہوں، اس لیے مجھے امید ہے کہ (جنت میں بھی) ان کے ساتھ ہونگا محض ان کی محبت کے صدقہ میں اگرچہ میں نے ان کے اعمال جیسے اعمال نہیں کیے۔ اس روایت سے ثابت ہوا کہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی الفت و محبت کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی حصول جنت کا اہم ذریعہ سمجھتے تھے۔ رہ گئی صحابہ کرام کی اطاعت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت تو صحابہ کرام کی زندگی میں اتباع نبوی کا نقش اس قدر گہرا تھا کہ بعض ایسی عادات واطوار جس میں عبادت کا کوئی شائبہ تک نہیں پایا جاتا تھا ان کو بھی وہ نہ صرف ابنائے ہوئے تھے بلکہ پوری شد ومد کے ساتھ اپنے محبوب کے اس عمل کو حزر جان بنائے ہوئے تھے ، صحابہ کرام سے اس اتباع کے بے شمار واقعات تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں محفوظ ہیں :

۱) سیدنا علی بن ابی طالب5 جب بھی سفر پر روانہ ہوتے ، تو سواری پر بیٹھ کر دعائے سفر پڑھتے ، پھر مسکراتے ، اور فرماتے : میں نے پیارے حبیب 1کو اسی طرح مسکراتے ہوئے دیکھا تھا ۔(ا بوداو :۲۰۶۲ )۲) سیدنا عبد اﷲ بن عمر5 سفر حج پر جاتے ، راستے میں ایک مقام پر پیشاب کرنے کے لئے تشریف لے جاتے ، اور ایک مخصوص مقام پر پیشاب کرتے ، اور فرماتے : میں نے نبی کریم 1کو اس مقام پر یہ عمل کرتے ہوئے دیکھا تھا ۔ بسا اوقات آپ کو حاجت نہ بھی ہوتی ، پھر بھی اس مقام پر اترتے اور تھوڑی دیر کے لئے اس مقام پر اس طرح بیٹھتے ،گویا وہ پیشاب کررہے ہوں ۔ (بخاری )

۳)سیدنا ابوہریرہ 5 نے رسول پاک 1 سے ایک حدیث سنی ، جس میں آپ 1 نے ان کے ہاتھ کو پکڑ کر پانچ باتیں گن گن کر بتلائیں وہ جب بھی اس حدیث کو بیان کرتے تو جس سے بیان کرتے تو اس کا ہاتھ پکڑ کر بیان کرتے اور فرماتے کہ اس حدیث کو سنتے وقت میرا ہاتھ رسول عربی 1 کے ہاتھ میں تھا

۴) ایک صحابی حضرت قرة بن ایاس مزنی 5 نے رسول اکرم1 کو اس حال میں دیکھا کہ آپ کی قمیص کے بٹن کھلے تھے ، اس کے بعد انہوں نے زندگی میں کبھی بٹن کا استعمال نہیں کیا ، انکے صاحب زادے حضرت معاویہ بن قرة رحمہ اﷲ(تابعی )کہتے ہیں : کہ میرے والد نے سردی ہوکہ گرمی ، کبھی اپنا سینہ نہیں ڈھانکا بلکہ ہمیشہ اپنا گریبان آزاد رکھا ۔( مسند احمد )

یہ بقول ” مشتے نمونہ از خروارے ،، اتباع نبوی 1کے کچھ نمونے تھے ،جو اجر وثواب کے احکام ومسائل سے ہٹ کر، ان عادات واطوار نبوی کی اتباع کے جوش وجذبے سے کردار و عمل میں ڈھلے ہوئے تھے ، جن میں اتباع ضروری نہیں ، جب اس کا یہ عالم ہے تو پھر ان سنتوں پر عمل کا کیا عالم ہوگا جو باعث اجر وثواب ہیں ؟صحابہ کرام7 سے اس طرح کے سینکڑوں واقعات مروی ہیں ، جن کی تفصیل کی اس لئے گنجائش نہیں کہ :

ع سفینہ چاہئے اس بحر بیکران کے لئے
 

طالوت

محفلین
یہاں تو پھر بحث شروع ہونے جا رہی ہے :) چلیں رہنے دیتے ہیں اگرچہ بہت کچھ ہے کہنے کو اوپر سے نیچے تک ۔
وسلام
 

عین عین

لائبریرین
طالوت بھائی ٹھیک کہتے ہیں آپ۔
بحث‌ ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر دھاگے کا یہ موضوع بھی۔۔۔۔۔۔۔۔ بندش کا شکار
برقی اختیارات کی نذر ہو جائے گا۔
اختلافات تو تھے
 
الف نظامی صاحب کی پوسٹ پر جو کچھ باذوق نے یا آبی ٹو کول نے بیان کیا ہے وہ اپنا پانا نکتہ نظر بیان کرنے کا ایک بہت بہتر طریقہ ہے جس میں نہ تو تڑاق ہے نہ گالم گلوچ اور نہ ہی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا عمل سو روایتی بحث سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اپنا اپنا نکتہ نظر بیان کرنے کا سب کو حق ہے اگر کوئی اس حق کو ادا کرنے کے طریقے سے باخبر ہو تو۔
 
یہاں میں عروہ بن مسعود ثقفی کی وہ گفتگو نقل کرنا چاہوں گا جو صلح حدیبیہ کے موقع پر انہوں نے قریش سے کی تھی اور یہ گفتگو الرحیق المختوم سے پیش کی جارہی ہے۔
اے قوم بحدا میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے پاس جا چکا ہوں۔بخدا میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اسکے ساتھی اسکی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کرتے ہیں‌۔ خدا کی قسم وہ کھنکار بھی تھوکتے تھے تو کسی نہ کسی آدمی کے ہاتھ پر پڑتا تھا اور وہ شخص اسے اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا تھا ۔ اور وہ جب کوئی حکم دیتے تھے تو اس کی بجا آوری کے لیے سب دوڑ پڑتےتھے ، اور جب وضو کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ اس کے وضو کے پانی کے لیے لوگ لڑ پڑیں گئے ؛ اور جب کوئی بات بولتے تھے تو سب اپنی آوازیں پست کر لیتے تھے اور فرط تعطیم کے سبب انہیں بھر پور نظر سے نہ دیکھتے تھے ۔
درحقیقت صحابہ کرام اطاعت رسول ار عشق رسول کا سب سے مکمل اور بہترین مرقع تھے اللہ ہم کو بھی ایسی ہی اطاعت و محبت عطا کریں آمین۔
 

طالوت

محفلین
طالوت بھائی ٹھیک کہتے ہیں آپ۔
بحث‌ ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر دھاگے کا یہ موضوع بھی۔۔۔۔۔۔۔۔ بندش کا شکار
برقی اختیارات کی نذر ہو جائے گا۔
اختلافات تو تھے
یہ ہوتا کیوں ہے ؟ ۔۔ جب کوئی نظریہ "اجماع" کے خلاف سامنے آتا ہے۔
الف نظامی صاحب کی پوسٹ پر جو کچھ باذوق نے یا آبی ٹو کول نے بیان کیا ہے وہ اپنا پانا نکتہ نظر بیان کرنے کا ایک بہت بہتر طریقہ ہے جس میں نہ تو تڑاق ہے نہ گالم گلوچ اور نہ ہی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا عمل سو روایتی بحث سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اپنا اپنا نکتہ نظر بیان کرنے کا سب کو حق ہے اگر کوئی اس حق کو ادا کرنے کے طریقے سے باخبر ہو تو۔
درست کہا ۔ جی ہاں بلاشبہ ایک بہترین طرز عمل ہے ۔ اگر یہی طرز عمل سب ، سب سے روا رکھیں تو یہ نوبت ہی کیوں آئے ؟ ۔ یہاں عموما یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ جب ذرا بات نا پسند ہوئ طنز کرنا شروع کر دیا یا پھر اتحاد بین المسلمین کا ناقابل عمل نعرہ لگا کر ٹھاہ ۔ اور پھر بیان کرنے کی صلاحیت سب میں ایک جیسی نہیں ہوتی اسلئے یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ کسی کے کہنے کا انداز کیا ہے ۔ البتہ تو تڑاق گالم گلوچ اس سے مبراء ہیں ۔ چار چھ روز قبل ایک صاحب جن کو خود عالمِ عالم ہونے کا دعویٰ ہے انھوں نے یہی رویہ میرے ساتھ روا رکھا مگر میں اب تک حیرت میں ہوں کہ کسی نے نہ تو اس کا نوٹس لیا اور نہ مذمت کی ۔
وسلام
 

باذوق

محفلین
معذرت کے ساتھ باذوق بھائی یہاں میں آپ سے اختلاف کروں گا
آبی ٹو کول بھائی !!
میں آپ کے خیالات کا احترام کرتا ہوں۔ جزاک اللہ خیر۔
اب کچھ میرا نقطۂ نظر بھی مطالعہ فرمائیں تو عین نوازش۔

آپ نے لکھا ہے :
ہاں البتہ اگر دونوں کسوٹیوں کے درمیان مطلقا ترجیح ہی مقصود و لازم ٹھرتی ہے تو پھر اس کا حصر ہمیں آج کے زمانہ کے اعتبار سے امت مسلمہ کی حالت زار کو مد نظر رکھتے ہوئے کرنا پڑے گا اور اس اعتبار سے ہم اطاعت بلا محبت کے مقابلے میں محبت بلا اطاعت کو ترجیح دے سکتے ہیں کہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم عین جزو ایمان ہے جبکہ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کا تقاضا ہے لیکن ایمان کا حصہ نہیں بلکہ یہ ایمان کو کامل کرنے والی ہے۔
میرے خیالات بس اسی پیراگراف کے خلاف ہیں۔ باقی سے مجھے ایسا کوئی سنگین اختلاف نہیں ہوگا۔
آپ کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔
محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم عین جزو ایمان ہے جبکہ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ ایمان کا حصہ نہیں ۔۔۔۔

کیا اس کا مطلب ہم یہ لیں کہ :
اگر کوئی قادیانی اٹھ کر کہہ دے کہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل اسی طرح محبت ہے جیسے کہ شیعہ اور سنی بھائیوں کو ہوتی ہے!
تو ہم اسے مومن مسلمان مان لیں ؟؟

اور پھر اس پر بھی سوچئے کہ : محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، کس لئے عین جزو ایمان ہے؟؟
کیا اس لئے نہیں کہ یہ فرمانِ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) ہے؟؟ اور فرامینِ رسول پر عمل ، کیا اتباع و اطاعتِ نبوی نہیں‌ کہلائے گا؟

مزید ۔۔۔
ایک آسان سا سوال یہ ہے کہ :
محبتِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا پیمانہ کیا ہے؟؟

وہ وحی کا دَور تھا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ نے ان اعرابیوں کے "ایمان" کی حالت ظاہر کر دی۔
آج تو ایک قادیانی بھی کہے گا کہ : مجھے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے دل و جان سے محبت ہے!
اور ایک دیوبندی/بریلوی/اہلحدیث/شیعہ بھی کہے گا کہ اسے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے دل و جان سے محبت ہے!

آپ دونوں فریقین کے دعوؤں میں فرق کرنے کے لئے کیا معیار قائم کریں گے؟؟
محبت کی گہرائی ہو یا دل کا ایمان ۔۔۔۔ یہ وہ معاملات ہیں جو سوائے اللہ تعالیٰ کے ، کوئی دوسرا نہیں جان سکتا۔
یہی سبب ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو کچھ لوگوں کا مواخذہ وحی کے ذریعے ہو جاتا تھا ، لیکن اب وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے ( اور باطن کے احوال پر مواخذہ ممکن نہیں رہا ) اس لیے اب ہم تمہارا مواخذہ صرف تمہارے ان عملوں پر کریں گے جو ہمارے سامنے آئیں گے۔
صحيح بخاري ، كتاب الشهادات

آپ دیکھیں کہ اس مستند روایت میں فاروق اعظم نے لوگوں کے اعمال پر زور دیا ہے ، لوگوں کے دلوں میں موجود محبت کے درجے پر نہیں!
اور یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی فرمایا ہے کہ :
اللہ تمہارے دلوں اور تمہارے عملوں کو دیکھتا ہے۔
صحیح مسلم ، كتاب البر والصلة والآداب

اب کچھ فلسفیانہ گفتگو ۔۔۔۔
فطری یا خونی رشتوں پر مبنی محبتوں کو چھوڑ کر دیگر محبتیں کیسے دل میں قیام پاتی ہیں؟ کیسے اکملیت کے درجے کو پہنچتی ہیں؟؟

میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ کیوں ؟؟
ظاہر ہے آپ کے اوتار میں لگی آپ کی تصویر کو دیکھ کر تو نہیں۔ آپ کے خیالات پڑھے ، آپ کا مطالعہ دیکھا ، آپ کو پرکھا برتا ، آپ کی سنجیدگی ، بردباری ، تحمل مزاجی دیکھی ۔۔۔۔ ان سب سے متاثر ہوا ، ان رویوں اور مزاج کو خود بھی اپنانے کی کوشش کی ۔۔۔۔ تب دل کے کسی کونے سے اظہار ہوا کہ بھئی ، آبی ٹو کول سے کچھ نظریاتی اختلافات سہی مگر وہ مجھے عزیز ہیں ، میں ان سے محبت کرتا ہوں۔ :)

بالی ووڈ کی فلموں میں ہوتا ہوگا کہ ایک نظر ڈالی ہیرو نے ہیروئین پر اور پہلی نظر کی محبت ہو گئی ، لیجئے بن گئی ایک نئی فلم !
لیکن کیا حقیقی دنیا میں یہ ممکن ہے؟ ایک آدھ استثنائی مثال ممکن ہے لیکن اگر ہم اس فلمی یا پھر ادبی محاورے پر ہی یقین رکھیں:
محبت کی نہیں جاتی ہو جاتی ہے۔
تو پھر رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے محبت کون کرے گا اور محبت کیسے اپنے آپ ہو جائے گی؟

بےشک اللہ نے امت مسلمہ کے دل میں اپنے نبی یعنی خاتم النبیین کے لئے فطری محبت کا گوشہ ضرور رکھا ہے لیکن بات وہی ہے کہ اسے ابھارا کیسے جائے، اس محبت کو کامل کیسے کیا جائے؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :
ہم نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ (الذاریات:57)
اور عبادت میں "اللہ کی اطاعت" ازخود شامل ہے۔ اور اللہ کی اطاعت کیسے ممکن ہے؟
جو رسول کی اطاعت کرے گا بےشک اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ (النساء:80)

یہی سبب ہے کہ مجھے آپ کے اس جملے پر اختلاف ظاہر کرنا پڑا ہے :
ہم اطاعت بلا محبت کے مقابلے میں محبت بلا اطاعت کو ترجیح دے سکتے ہیں
جب تک اطاعت نہیں ہوگی ، تب تک محبت کے جذبے کو ابھارا نہیں جا سکے گا۔ صرف زبانی کلامی دعویٰ کرنا تو نہایت آسان کام ہے۔
جو ڈینگیں ہم اپنے دوستوں کے سامنے ہانکتے ہیں کہ میں اپنے آفس میں یہ یہ کرتا ہوں وہ وہ کرتا ہوں کیا ایسی ہی ہوائیاں اپنے باس کے سامنے چھوڑی جا سکتی ہیں؟ کیا ہم اپنے باس سے صرف یہ کہہ کر چھوٹ سکتے ہیں کہ :
میں کام بلا محبت کے بجائے محبت بلا کام کو ترجیح دیتا ہوں؟؟
آدمی جب کام کرنا شروع کرتا ہے ، لگاتار کام کرتا ہے تو اپنے کام سے محبت اور لگن بھی فطری طور اپنے آپ میں پیدا ہوتی جاتی ہے۔
یہ انسانی فطرت کا عام سا اصول ہے۔

ورنہ صرف اتنا سوچ لیں کہ ہمارے نبیل بھائی صرف یہ شور مچاتے رہیں کہ انہیں اردو سے محبت ہے اور وہ نیٹ پر اردو کی ترقی و ترویج چاہتے ہیں ۔۔۔ مگر صرف نعرے لگاتے رہیں اور کام کچھ نہ کریں ۔۔۔۔ تو یہ محبت ہوگی؟؟
جبکہ نبیل کی اردو سے محبت ، اظہار کی قطعاً محتاج نہیں ۔۔۔۔ محفل پر ان کا کام ہی گواہ ہے کہ انہیں کس قدر "اردو سے محبت" ہے !!

اور یہ جو میں نے لکھا تھا ۔۔۔۔۔
گویا اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ایمان لازم و ملزوم ہیں۔ اطاعت ہے تو ایمان بھی ہے۔ اطاعت نہیں تو ایمان بھی نہیں۔
اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بارے میں قرآنی آیات و احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ دین میں "اتباع سنت" کی حیثیت کسی عملی مسئلہ کی سی نہیں بلکہ ایمان کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک تقاضا ہے۔
یہ میرے ذاتی خیالات نہیں ہیں !
بلکہ تفسیر ابن کثیر سے ماخوذ ہیں۔
سورہ النساء ، آیت:65 کی وہ تفسیر ، ابن کثیر کے الفاظ میں یوں ہے:
[ARABIC]يقسم تعالى بنفسه الكريمة المقدسة أنه لا يؤمن أحد حتى يحكم الرسول صلى الله عليه وسلم في جميع الأمور, فما حكم به فهو الحق الذي يجب الانقياد له باطناً وظاهراً ۔۔۔۔ كما ورد في الحديث «والذي نفسي بيده, لا يؤمن أحدكم حتى يكون هواه تبعاً لم جئت به». [/ARABIC]
اردو ترجمہ: محمد جوناگڑھی
اللہ تعالیٰ اپنی بزرگ اور مقدس ذات کی قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ کوئی شخص ایمان کی حدود میں نہیں آ سکتا جب تک کہ تمام امور میں اللہ کے اس آخر الزماں افضل تر رسول کو اپنا سچا حاکم نہ مان لے اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہر حکم ہر فیصلے کو قابل قبول اور حق صریح تسلیم نہ کرنے لگے۔ دل اور جسم کو یکسر تابع رسول نہ بنا دے۔ غرض جو بھی ظاہر و باطن ، چھوٹے بڑے کل امور میں حدیثِ رسول کو اصل اصول سمجھے ، وہی مومن ہے ۔۔۔۔ جیسے فرمانِ رسول ہے : اس کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے ، تم میں سے کوئی صاحب ایمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنی خواہش کو اس چیز کا تابع نہ بنا دے جسے میں لایا ہوں۔

اور ۔۔۔۔۔ حرفِ آخر کے طور پر ۔۔۔۔
ایک مخصوص مکتب فکر کے شعلہ بیاں مقرر جب جوشِ خطابت میں آتے ہیں تو فرماتے ہیں :
جو محبت ، سنتِ رسول پر عمل کرنا نہ سکھائے ، وہ محض دھوکہ اور فریب ہے
جو محبت ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور پیروی نہ سکھائے ، وہ محض جھوٹ اور نفاق ہے
جو محبت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے آداب نہ سکھائے ، محض ریا اور دکھاوا ہے
جو محبت ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے قریب تر نہ لے جائے ، محض جھوٹا شور و نعرہ ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
قل عشق محمد مذھبی و حبہ ملتی و طاعتہ منزلی
(یہ کہہ) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق میرا مذھب ، محبت میری ملت اور اتباع میری منزل ہے
از حضرت ابوانیس محمد برکت علی لدھیانوی
 
جو محبت ، سنتِ رسول پر عمل کرنا نہ سکھائے ، وہ محض دھوکہ اور فریب ہے
جو محبت ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور پیروی نہ سکھائے ، وہ محض جھوٹ اور نفاق ہے
جو محبت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے آداب نہ سکھائے ، محض ریا اور دکھاوا ہے
جو محبت ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے قریب تر نہ لے جائے ، محض جھوٹا شور و نعرہ ہے۔
درست بات ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
قل عشق محمد مذھبی و حبہ ملتی و طاعتہ منزلی
(یہ کہہ) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق میرا مذھب ، محبت میری ملت اور اتباع میری منزل ہے
از حضرت ابوانیس محمد برکت علی لدھیانوی

کیا خوبصورت جملہ ہے، عشق اور اطاعت کی جملہ ابحاث جو اوپر گزریں اور جن پر ابھی دفاتر کے دفاتر سیاہ ہو سکتے ہیں، ان سب کے تند و تیز و طوفاں خیز دریاؤں کو اس جملے کے کوزے میں بند کر دیا ہے۔

سبحان اللہ!
 

dxbgraphics

محفلین
یہ ہوتا کیوں ہے ؟ ۔۔ جب کوئی نظریہ "اجماع" کے خلاف سامنے آتا ہے۔

درست کہا ۔ جی ہاں بلاشبہ ایک بہترین طرز عمل ہے ۔ اگر یہی طرز عمل سب ، سب سے روا رکھیں تو یہ نوبت ہی کیوں آئے ؟ ۔ یہاں عموما یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ جب ذرا بات نا پسند ہوئ طنز کرنا شروع کر دیا یا پھر اتحاد بین المسلمین کا ناقابل عمل نعرہ لگا کر ٹھاہ ۔ اور پھر بیان کرنے کی صلاحیت سب میں ایک جیسی نہیں ہوتی اسلئے یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ کسی کے کہنے کا انداز کیا ہے ۔ البتہ تو تڑاق گالم گلوچ اس سے مبراء ہیں ۔ چار چھ روز قبل ایک صاحب جن کو خود عالمِ عالم ہونے کا دعویٰ ہے انھوں نے یہی رویہ میرے ساتھ روا رکھا مگر میں اب تک حیرت میں ہوں کہ کسی نے نہ تو اس کا نوٹس لیا اور نہ مذمت کی ۔
وسلام

ارے جب وہ صاحبان مرضی کی باتیں کریں گے تو مذمت کس بات کی ۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
آبی ٹو کول بھائی !!
میں آپ کے خیالات کا احترام کرتا ہوں۔ جزاک اللہ خیر۔
اب کچھ میرا نقطۂ نظر بھی مطالعہ فرمائیں تو عین نوازش۔
اسلام علیکم باذوق بھائی !
آپ نے فرمایا کہ آپ میرے خیالات کا احترام کرتے ہیں بجا مگر آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ اصلا ہم نے آپکی جس بات سے اختلاف کیا تھا کیا آپ اس بات پر ہمیں حق بجانب سمجھتے ہیں کہ نہیں؟ اصلا ہمارا اعتراض آپکی اس عبارت پر تھا جو کہ درج زیل ہے ۔ ۔
صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے اعمال و افعال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی "نیک سیرت اور والہانہ محبت" کی بنا پر نہیں بلکہ قرآن کے حکم اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول کے تقاضے کے تحت تھے۔
اس میں آپ نے ایک سنگین غلطی کی ہے کہ صحابہ کرام کی اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے عنصر محبت جو کہ صحابہ کرام کے ایمان کا حصہ تھی اسکی نفی کرڈالی ہے (معاذاللہ) ہمیں آپ سے ایک عرصہ سے تعلق خاطر رہا ہے اور اسی تعلق کی بنا پر ہم آپ سے یہ حسن ظن ہے کہ آپ نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا اور نہ ہی آپکا ایسا کوئی ارادہ تھا بلکہ آپ کہنا کچھ اور چاہتے تھے مگر نا دانستہ طور پر کہہ کچھ اور گئے لہذا اسی نادانستگی میں آپ کے قلم سے یہ شنیع وارد ہوئی ۔ ۔ ۔ سو اسی بنیاد پر ہم نے آپ سے عرض کی صحابہ کرام کی اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جس محبت کی آپ نفی کررہے ہیں وہ تو عین جزو ایمان ہے کہ بغیر اس محبت کے نری اطاعت تو منافقین کا خاصہ ہے اسی لیے ہم نے صاف صاف عرض کردیا کہ صحابہ کرام کی محبت و اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کامل و اکمل تھیں لہذا اس میں کوئی تخصیص روا ہی نہیں اور نہ ہی یہ ہمارا حق ہے ۔ ۔ باقی رہ گئی مطلقا اطاعت یا محبت کی بات تو اسے ہم نے عصر حاضر کے حوالہ سے امت مسلمہ کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے بیان کیا ہے کہ اور وہاں بھی ہمارا بیان فقط محبت یا اطاعت کے درمیان اولیت کو بیان کرنا ہے نہ کے دونوں میں سے کسی ایک کی نفی یا پھر دونوں ہی میں سے کسی ایک کی پہچان کو بیان کرنا ہی مقصود تھا ۔ ۔۔ ۔


آپ نے لکھا ہے :

میرے خیالات بس اسی پیراگراف کے خلاف ہیں۔ باقی سے مجھے ایسا کوئی سنگین اختلاف نہیں ہوگا۔
آپ کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔
محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم عین جزو ایمان ہے جبکہ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ ایمان کا حصہ نہیں ۔۔۔۔

کیا اس کا مطلب ہم یہ لیں کہ :
اگر کوئی قادیانی اٹھ کر کہہ دے کہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل اسی طرح محبت ہے جیسے کہ شیعہ اور سنی بھائیوں کو ہوتی ہے!
تو ہم اسے مومن مسلمان مان لیں ؟؟
میرے بھائی آپ صاحب علم ہیں جب ہم نے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عین جزو ایمان ہونے کی بات کی تو اس سے ہماری مراد حقیقت ایمان یعنی نفس ایمان تھی سو اس لحاظ سے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایمان کا حصہ ہے اور آپ جانتے ہیں کہ محبت کوئی کسبی شئے نہیں ہے بلکہ یہ خالصتا وھبی ہوتی ہے یعنی عام الفاظ میں محبت کی نہیں جاتی بلکہ ہوجاتی ہے ۔ ۔ ۔سو اس لحاظ سے ہم نے مطلقا محبت و اطاعت میں سے محبت کی اولیت کو بیان کیا کیونکہ محبت وھبی امر ہے جبکہ اطاعت کسبی ۔ ۔ ۔ اب یہ الگ بحث ہے کہ محبت کا اظہار کیسے ہوگا یا اس کی پہچان کیا ہوگی وغیرہ ہمیں اس سے بحث ہی نہیں ۔ ۔ ۔ ۔
رہ گئی قادیانی کی بات تو میرے بھائی آپ صاحب علم ہیں جب کوئی قادیانی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوٰی کرے گا تو اس سے کہا جائے گا کہ بھائی جس محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تم دعویدار ہو اس کا سب سے پہلا ستون ایمان ہے اور وہ محبت ایمان کا حصہ ہے اور ایمان بحث کرتا ہے عقیدے سے لہذا تمہارا تو عقیدہ ہی صحیح نہیں سو تم پہلے اپنا عقیدہ ٹھیک کرو پھر محبت کی بات کرنا پھر ہم اس کے بعد ہم تم سے اس محبت کے ثبوت کے بطور تمہارے افعال کی بات کریں گے ۔ ۔ ۔

اور پھر اس پر بھی سوچئے کہ : محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، کس لئے عین جزو ایمان ہے؟؟
کیا اس لئے نہیں کہ یہ فرمانِ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) ہے؟؟ اور فرامینِ رسول پر عمل ، کیا اتباع و اطاعتِ نبوی نہیں‌ کہلائے گ
ا؟
بے شک اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی وجہ سے بھی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم لازم ہے اور اسکا یہ لزوم بطور وجوب ہے لیکن اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ اگر اللہ اور اسکے رسول کا فرمان اس بابت میں نہ ہوتا تو یہ محبت مشروع ہی نہ ہوتی کیونکہ عقل سلیم کا بھی یہی تقاضا ہے اور فطرت سلیمہ اور انسانی نفسیات کا بھی یہی رہین ہے کہ انسان اپنے معبود اور اس معبود نے خود تک رسائی کا جو واسطہ (رسالت) مقرر کیا ہے ان دونوں سے محبت کرے ۔ ۔ اور فرمان الٰہی اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مشروعیت کو بطور فرض لازم ٹھرانا باجودیکہ محبت انسانی نفس کے اندر ودیعت کردہ ایک امر حقیقی ہے خرد والوں کے لیے ایک جزو لاینفک جبکہ جنوں والوں کے لیے کسی تحفہ ابدیت سے کم نہیں اور اس کی حقیقت اصل میں عشق والے ہی سمجھ سکتے ہیں ۔ ۔ ۔

مزید ۔۔۔
ایک آسان سا سوال یہ ہے کہ :
محبتِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا پیمانہ کیا ہے؟؟

وہ وحی کا دَور تھا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ نے ان اعرابیوں کے "ایمان" کی حالت ظاہر کر دی۔
آج تو ایک قادیانی بھی کہے گا کہ : مجھے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے دل و جان سے محبت ہے!
اور ایک دیوبندی/بریلوی/اہلحدیث/شیعہ بھی کہے گا کہ اسے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے دل و جان سے محبت ہے!

آپ دونوں فریقین کے دعوؤں میں فرق کرنے کے لئے کیا معیار قائم کریں گے؟؟
محبت کی گہرائی ہو یا دل کا ایمان ۔۔۔۔ یہ وہ معاملات ہیں جو سوائے اللہ تعالیٰ کے ، کوئی دوسرا نہیں جان سکتا۔
[/url]

میرے بھائی محبت کا پیمانہ حقیقت میں محبت ہی ہے کہ محبت کو کسی بھی بیرونی پیمانے سے حقیقت میں ماپا ہی نہیں جاسکتا رہ گئی آپ کی بات آپ جس امر (اطاعت) کی طرف اشارہ کرہے ہیں وہ محبت کا پیمانہ نہیں بلکہ محبت کے بہت سے اہم تقاضوں میں سے فقط ایک اہم تقاضا ہے ۔ رہ گئی مختلف مکاتب فکر کے دعوائے محبت کی بات اور اسکے نتیجے میں ان کے اس دعوٰی کی جانچ کی بات تو میرے بھائی عرض یہ ہے کہ آپکو یہ تو تسلیم ہے کہ محبت ایمان کی طرح چھپا ہوا امر ہے سو اسے کوئی نہیں جان سکتا سوائے اللہ کے اور آپکے نزدیک محبت کو جانچنے کا واحد معیار فقط اطاعت ہی ہے مگر مجھے انتہائی افسوس ہے اس سب کے باوجود بھی جب صحابہ کرام کی باری آئی تو وہاں پر محبت بھی تھی اور آپ ہی کا تسلیم کردہ پیمانہ (یعنی اطاعت) بھی تھا مگر پھر بھی آپ نے وہاں پر صحابہ کرام سے محبت کی نفی کی حالانکہ ایک طرف آپ اسے دل کا معاملہ تسلیم کرتے ہیں کہ جس پر کوئی غیر سوائے اللہ کے مطلع نہیں ہوسکتا ؟؟؟؟ میرے بھائی جو بھی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوٰی کرئے گا اسے اس کے بنیادی تقاضے پورا کرنے ہوں گے یعنی پہلے ٹھیک ٹھیک ایمان لانا ہوگا اور پھر اسلام کے دائرے میں داخل ہوکر کامل اطاعت کی صورت میں اپنی محبت کی اکملیت کا ثبوت دینا ہوگا لہذا ان میں سے جو کوئی بھی اول الذکر یعنی ایمان کا اظہار ہی نہیں کرتا تو اس میں تو سرے سے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت داخل ہی نہیں ہوئی لہذا وہ اپنے دعوٰی محبت میں باطل ہے اور ان میں سے جو کوئی بھی ثانی الذکر یعنی محبت کے تقاضے اطاعت میں کمزور ہے یعنی فاسق و فاجر ہے تو اس سے دعوائے محبت کی نفی تو نہ ہوگی ہاں البتہ وہ اپنے دعوٰی میں کمزور یا ناقص یا غیر کامل سمجھا جائے گا امید کرتا ہوں مکاتب فکر کے دعوائے محبت والی بات کلئر ہوگئی ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہی سبب ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو کچھ لوگوں کا مواخذہ وحی کے ذریعے ہو جاتا تھا ، لیکن اب وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے ( اور باطن کے احوال پر مواخذہ ممکن نہیں رہا ) اس لیے اب ہم تمہارا مواخذہ صرف تمہارے ان عملوں پر کریں گے جو ہمارے سامنے آئیں گے۔
آپ دیکھیں کہ اس مستند روایت میں فاروق اعظم نے لوگوں کے اعمال پر زور دیا ہے ، لوگوں کے دلوں میں موجود محبت کے درجے پر نہیں!

صحيح بخاري ، كتاب الشهادات
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا قول درست مگر یہاں اس کا کوئی محل نہیں کہ وہاں بات اعمال یا انکی نیتوں کی تھی یعنی اصل میں بات نفاذ شریعت کی ہورہی تھی کہ جب شریعت کے ظاہر سے کوئی بھی عمل ٹکرائے گا تو ہم تمہاری نیت نہیں دیکھیں گے بلکہ شریعت کے ظاہر قول کے مطابق ہی حکم نافذ کریں گے کیونکہ اب نیتوں تک رسائی پانے والی ذات پاک پردہ فرماچکی ۔ ۔ لہذا وہاں بات نفاذ شریعت کی تھی نہ کہ تفاوت مابین المحبت والاطاعت کی ۔ ۔ ۔ جیسا کے ہماری بات پر آپ کا پیش کردہ درج زیل قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی شاہد ہے

اور یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی فرمایا ہے کہ :
اللہ تمہارے دلوں اور تمہارے عملوں کو دیکھتا ہے۔
صحیح مسلم ، كتاب البر والصلة والآداب
http://www.al-eman.com/hadeeth/viewchp.asp?bid=1&cid=137&sw=6708#sr1

کے اللہ پاک دلوں اور اعمال کو دونوں کو دیکھتا ہے نہ کہ فقط ظاہری اعمال کو لہذا جب اعمال فقط دکھاوے یا بدنیتی پر مشتمل ہونگے تو نہ قابل قبول اور اسی طرح جب اعمال منافقت یعنی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مشتمل ہونگے تو تب بھی ناقابل قبول ۔ ۔ ۔ ۔
اب کچھ فلسفیانہ گفتگو ۔۔۔۔

آپنے خود ہی سوال پوچھا اور خود ہی اگلے حصے میں اس کا جواب بھی دے دیا کہ امت مسلمہ کے دل میں محبت رسول رکھ دی گئی ہے اور یہ رکھ دینا ہی ہوجانے کے مترادف ہے ۔ ۔ ۔

یہی سبب ہے کہ مجھے آپ کے اس جملے پر اختلاف ظاہر کرنا پڑا ہے :
ہم اطاعت بلا محبت کے مقابلے میں محبت بلا اطاعت کو ترجیح دے سکتے ہیں
جب تک اطاعت نہیں ہوگی ، تب تک محبت کے جذبے کو ابھارا نہیں جا سکے گا۔ صرف زبانی کلامی دعویٰ کرنا تو نہایت آسان کام ہے۔
ہمارا یہ کہنا کہ اطاعت بلا محبت کے مقابلے میں ہم محبت بلا اطاعت کو ترجیح دیتے ہیں تو ہمارے اس دعوٰی کا بنیادی نقطہ اولیت مابین محبت والاطاعت ہے کہ محبت کو نفسی اعتبار سے تقدم حاصل ہے اطاعت پر کہ محبت ایمان کا حصہ یعنی جزو ہے ۔ ۔ ۔یعنی جس نفس میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں اس میں ایمان بھی نہیں جبکہ جو نفس اطاعت سے محروم ہو یا کمزور ہو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ مومن ہی نہیں ۔ ۔
سو اگر فلسفیانہ گفتگو ہی مقصود ہے تو پھر فلسفے کی رو سے آپ ہماری اسی بات کا اقرار کرچکے کہ آپ نے لکھا کہ ۔ ۔ جب تک اطاعت نہیں ہوگی ، تب تک محبت کے جذبے کو ابھارا نہیں جا سکے گا۔ یہاں آپ نے اطاعت کا ذکر کیا اور محبت کا نہیں ۔ ۔ ۔ یعنی آپ نے اطاعت کے نہ ہونے کا زکر تو کیا مگر محبت کے نہ ہونے کی بات نہیں کی بلکہ آپ نے اطاعت میں ہی محبت کو مضمر جانا یعنی آپ نے یہ نہیں کہا کہ جب اطاعت نہیں تھی تو محبت کا وجود بھی نہ تھا بلکہ آپ نے یہ کہا کہ جب تک اطاعت نہ تھی تب تک محبت تو تھی مگر کامل نہ تھی اور جب اس محبت کو کامل کرنے والی یعنی اطاعت آئی تو وہی اس محبت کے اظہار اور ابھار کا زریعہ بنی لہذا آپکے کہنے کا مقصد ہوا کہ اطاعت نہ تھی مگر محبت تھی مگر ظاہر یا مکمل یا کامل نہ تھی اور اطاعت نے آکر اس محبت کو کامل و اکمل اور ظاہر کردیا ۔لہذا یہ وہی بات ہے جو ہم نے عرض کردی تھی نفس محبت کو ترجیح بطور اولیت دے کر وگرنہ ہمیں اس سے تو بحث ہی نہیں کہ اطاعت کے زریعے ہی محبت کو کمال بخشا جاسکتا ہے بلکہ اس معاملہ میں ہم اور آپ یکساں ہیں بحث تو اطاعت و محبت میں سے کسی ایک کی مطلقا اولیت کی تھی سو وہ آپ نے تسلیم کرلی یعنی آپ نے اطاعت کے نہ ہونے سے محبت کی نفی نہیں کی بلکہ اطاعت کے نہ ہونے سے کمال محبت کی نفی کی اور فلسفہ کی رو سے جب کسی شئے کے کمال کی نفی کی جاتی ہے تو اس شئے کے وجود کو پہلے تسلیم کیا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ اور یہی ہمارا مدعا تھا ۔ ۔ ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
معراجِ اتباع
جو سید الانام کے سانچے میں ڈھل گئے
تقدیس و احترام کے سانچے میں‌ ڈھل گئے

جب عشق غنچہ فام کے سانچے میں ڈھل گئے
نالے بھی ابتسام کے سانچے میں‌ڈھل گئے

رنگینی جمال میں‌کچھ لوگ کھو گئے
کچھ شوخیٗ کلام کے سانچے میں‌ڈھل گئے

جب عشق کو بنا لیا مقصودِ زندگی
انفاس بھی پیام کے سانچے میں ڈھل گئے

یہ انتہائے جذب یہ معراج ِ اتباع
خود مقتدی امام کے سانچے میں‌ ڈھل گئے

جو پا سکے نہ جلوہ روئے سحر فروغ
وہ تیرہ بخت شام کے سانچے میں‌ ڈھل گئے

ان کا نظام آج بھی ماحول تاب ہے
جو مطلقا نظام کے سانچے میں‌ڈھل گئے

وہ تزک و احتشام سے محروم ہوگئے
جو تزک و احتشام کے سانچے میں‌ڈھل گئے

یاد آئے جب حضور کے ابروے تابدار
ہم تیغ بے نیام کے سانچے میں‌ ڈھل گئے

ان کی نظر میں‌بھوک کی وقعت نہیں‌رہی
جو عظمتِ صیام کے سانچے میں‌ڈھل گئے

عارف حصولِ نانِ جویں‌ہوگیا محال
ہم جب غمِِ طعام کے سانچے میں‌ڈھل گئے

عارف سیمابی
 
مدیر کی آخری تدوین:

arifkarim

معطل
شکریہ آبی کو ٹول صاحب۔ آپنے بہت اچھے طریقہ سے اپنا مؤقف بیان کیا ہے۔ جہاں تک باذوق بھائی کا خیال ہے کہ اطاعت پہلے ہو اور محبت اپنے آپ اجاگر ہو جائے گی تو یہ بات انسانی فطرت کے ہی منافی ہے۔ کسی کام کے لگاتار کرنے سے بے شک اس سے انسیت ہو جاتی ہے۔ مگر حقیقی محبت جسکا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ وہ حسن اخلاق اور بہترین سیرت سے ہی ممکن ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ظالم شخص کسی کو غلام بنا کر رکھے اور اس سے زبردستی اپنی اطاعت کروائے تو کیا اس غلام کے دل میں‌اپنے آپ آقا سے محبت ہو جائے گی؟ صرف اسلئے کہ وہ اپنے آقا کے دئے ہوئے کام متواتر کر تا ہے؟
اسکے برعکس ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صللہعلیہسلم سے صحابہ کرام کی محبت کا موازنہ کر لیں کہ حضرت زید بن حارثہ ضیللہعنہ جیسے غلام بھی اپنے سگے باپ کی بجائے آپکی غلامی میں رہنا زیادہ پسند کرتےتھے۔
 

باذوق

محفلین
اسلام علیکم باذوق بھائی !
و علیکم السلام آبی ٹو کول بھائی۔
اس میں آپ نے ایک سنگین غلطی کی ہے کہ صحابہ کرام کی اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے عنصر محبت جو کہ صحابہ کرام کے ایمان کا حصہ تھی اسکی نفی کرڈالی ہے (معاذاللہ) ہمیں آپ سے ایک عرصہ سے تعلق خاطر رہا ہے اور اسی تعلق کی بنا پر ہم آپ سے یہ حسن ظن ہے کہ آپ نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا اور نہ ہی آپکا ایسا کوئی ارادہ تھا بلکہ آپ کہنا کچھ اور چاہتے تھے مگر نا دانستہ طور پر کہہ کچھ اور گئے لہذا اسی نادانستگی میں آپ کے قلم سے یہ شنیع وارد ہوئی ۔ ۔ ۔
ممکن ہے کہ آپ کو یہ سنگین غلطی نظر آتی ہو ، لیکن بہرحال میری نظر میں یہ "سنگین" غلطی نہیں ہے جیسا کہ میرے متعلق خود آپ بھی یہ حسن ظن رکھتے ہیں کہ :
نبی کریم کے تئیں صحابہ کرام کے محبت کی نفی میں(باذوق) نے جان بوجھ کر نہیں کی اور نہ میرا کوئی ارادہ تھا۔
آپ ایک بار پھر میرا یہ جملہ غور سے پڑھیں :
صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے اعمال و افعال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی "نیک سیرت اور والہانہ محبت" کی بنا پر نہیں بلکہ قرآن کے حکم اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول کے تقاضے کے تحت تھے۔
یہاں صحابہ کے اعمال و افعال کا صرف سبب بیان کیا گیا ہے اور وہ سبب قرآن کا حکم "اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول" ہے ، محبت کے اثبات یا انکار کا ذکر یہاں موجود نہیں۔ اور اتنی بات تو آپ کو بھی معلوم ہونی چاہئے کہ عدم ذکر ، عدم وجود کا ثبوت نہیں ہوتا۔
میں اپنے والد کے ہر حکم کی تعمیل بجا لاؤں اور کچھ دیکھنے والے کہیں کہ باذوق کے اعمال و افعال ، اپنے والد کی فرمانبرداری کے تحت ہیں تو کیا آپ یہ سن کر کہہ سکتے ہیں کہ ایسا کہنے والے باذوق کی اس کے اپنے والد سے محبت کی نفی کر رہے ہیں؟؟
رہ گئی قادیانی کی بات تو میرے بھائی آپ صاحب علم ہیں جب کوئی قادیانی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوٰی کرے گا تو اس سے کہا جائے گا کہ بھائی جس محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تم دعویدار ہو اس کا سب سے پہلا ستون ایمان ہے اور وہ محبت ایمان کا حصہ ہے اور ایمان بحث کرتا ہے عقیدے سے لہذا تمہارا تو عقیدہ ہی صحیح نہیں سو تم پہلے اپنا عقیدہ ٹھیک کرو پھر محبت کی بات کرنا پھر ہم اس کے بعد ہم تم سے اس محبت کے ثبوت کے بطور تمہارے افعال کی بات کریں گے ۔ ۔ ۔
بڑی عجیب بات ہے کہ پہلے تو آپ نے لکھا تھا کہ :
ہمارا بیان فقط محبت یا اطاعت کے درمیان اولیت کو بیان کرنا ہے ۔۔۔ نفس محبت کو ترجیح بطور اولیت دے کر
مگر جب کوئی قادیانی آپ کی "منطق" کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اسی "محبت" کی اولین ترجیح کی بات کرتا ہے تو آپ اسے "عقیدہ" کی جانب کھینچ لے جاتے ہیں؟؟
آپ خود ذرا اپنے الفاظ ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔
تمہارا تو عقیدہ ہی صحیح نہیں سو تم پہلے اپنا عقیدہ ٹھیک کرو پھر محبت کی بات کرنا
یعنی یہاں "عقیدہ" کو آپ نے اولین ترجیح دی اور "محبت" کو ثانی کر دیا۔ یعنی کہ خود ہی اپنے پہلے موقف کی تردید کر ڈالی۔
اب ظاہر ہے "عقیدہ" بنتا ہے اتباع اور اطاعتِ نبوی سے۔ اور یہی سبب ہے کہ میں نے اعمال و افعال میں ترجیح "محبت" کو نہیں بلکہ اطاعتِ نبوی یعنی بقول آپ کے "عقیدہ" کو دی تھی۔
ہمارا یہ کہنا کہ اطاعت بلا محبت کے مقابلے میں ہم محبت بلا اطاعت کو ترجیح دیتے ہیں تو ہمارے اس دعوٰی کا بنیادی نقطہ اولیت مابین محبت والاطاعت ہے کہ محبت کو نفسی اعتبار سے تقدم حاصل ہے اطاعت پر کہ محبت ایمان کا حصہ یعنی جزو ہے ۔ ۔ ۔یعنی جس نفس میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں اس میں ایمان بھی نہیں جبکہ جو نفس اطاعت سے محروم ہو یا کمزور ہو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ مومن ہی نہیں ۔ ۔
میرے عزیز بھائی ! جوش میں نہ آئیں ، کچھ ہوش سے بھی کام لیں۔
یہ میں ذاتی طور پر نہیں کہہ رہا کہ : جو نفس اطاعت سے محروم ہو یا کمزور ہو وہ مومن ہی نہیں!
بلکہ یہ تو فرمانِ نبوی ہے ، جس کا حوالہ میں تفسیرِ ابن کثیر (النساء:82) کے حوالے سے دے چکا ہوں۔
محبت ایمان کا حصہ یعنی جزو ہے
جبکہ میں کہوں گا کہ مطلق محبت نہیں بلکہ ایمان کا حصہ "محبت کا کامل درجہ" ہے۔ کیونکہ اگر مطلق محبت ایمان کا حصہ ہوتی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کبھی اللہ تعالیٰ سے درخواست نہ کرتے کہ : اے اللہ ، (امہات المومنین کے درمیان) عدل و انصاف پر ضرور میرا مواخذہ کر ، لیکن محبت پر میری گرفت نہ کرنا کہ یہ میرے اختیار میں نہیں۔

مزید آپ نے لکھا کہ :
محبت کو نفسی اعتبار سے تقدم حاصل ہے اطاعت پر
حالانکہ "اطاعت" ہوتی ہے اعمال و افعال کے ذریعے اور "محبت" کو خود آپ نے "وھبی" قبول کیا ہے۔
پھر ان دونوں میں "تقدم" دینے کی ضرورت ہی کیوں درپیش ہے؟ جب کوئی چیز ہمارے اختیار میں نہیں اور کوئی چیز اپنے اختیار میں ہو تو دونوں میں سے کسی کو کسی پر ترجیح کی ضرورت کیوں کر درپیش ہوگی؟
آبی ٹو کول بھائی ! میں آپ کی مجبوری کو سمجھ سکتا ہوں کہ یوں زور و شور سے محض منطق کے سہارے مطلق محبت کی "اولیت" یا "ترجیح" کی بات کر کے آپ کن کن چیزوں کو سندِ جواز عطا کرنا چاہتے ہیں۔ :)
خیر ایسا تو ہوتا ہے ایسے ہی کاموں میں۔ ;)
جس نفس میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں اس میں ایمان بھی نہیں
بڑے بھائی ! اس کی کوئی دلیل ؟؟
جبکہ سب کو پتا ہے کہ ایمان اختیاری چیز ہے اور آپ نے ہم کو بتایا ہے کہ محبت "وھبی" ہوتی ہے یعنی کہ جس میں ہمارا اختیار نہیں ہوتا۔
پھر ایمان لانے کے لئے مطلق محبت کیسے پیدا کی جائے گی جبکہ خود آپ فرماتے ہیں کہ "محبت" وھبی ہوتی ہے ، کی نہیں جاتی۔
دراصل سارا مسئلہ حدیث کے الفاظ کو درست معنوں میں نہ لینے کے سبب پیدا ہوا ہے :
اور اسی حقیقت کو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اہنے ارشادات عالیہ کی روشنی میں یوں واضح فرمایا ۔ ۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ و الناس اجمعین (بخاری، مسلم، مشکوۃ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کے بیٹے، اور دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
اور ایک اور جگہ ارشاد مبارک ہے کہ ۔ ۔ثلث من کن فیہ وجد بھن حلاوۃ الایمان: من کان اللہ و رسولہ احب الیہ مما سوا۔ (بخاری، مسلم)
تین چیزیں جس شخص میں ہوں گی، وہ ان کے سبب سے ایمان کا مزا چکھے گا۔ ایک وہ شخص جس کے نزدیک اللہ اور اس کا رسول دوسری تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں۔۔۔۔
آپ خط کشیدہ سرخ الفاظ پر غور کریں۔ ان دونوں روایات میں مطلق محبت نہیں بلکہ "محبت کا کامل درجہ" مطلوب ہے۔
محبت بےشک وھبی جذبہ ہے لیکن ان احادیث میں مطلق محبت نہیں بلکہ محبت کے اکمل ترین درجے کے حصول کی جانب توجہ دلائی گئی ہے جو اطاعت و اتباعِ نبوی کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے اور اسی کے نتیجے میں آدمی "مومن" کہلانے کا حقدار ہو سکتا ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ میں نے شروعات میں ہی اعمال و افعال میں ترجیح اطاعتِ نبوی کو دینے کی بات کی تھی۔
اور مطلق محبت کا انکار میں نے کہیں بھی نہیں کیا جیسا کہ پچھلی پوسٹ میں ہی لکھ چکا ہوں :
بےشک اللہ نے امت مسلمہ کے دل میں اپنے نبی یعنی خاتم النبیین کے لئے فطری محبت کا گوشہ ضرور رکھا ہے لیکن بات وہی ہے کہ اسے ابھارا کیسے جائے، اس محبت کو کامل کیسے کیا جائے؟

آخر میں ، مَیں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے میرے متعلق حسن ظن رکھتے ہوئے کہا کہ :
آپ سے ایک عرصہ سے تعلق خاطر رہا ہے اور اسی تعلق کی بنا پر ہم آپ سے یہ حسن ظن ہے کہ آپ نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا اور نہ ہی آپکا ایسا کوئی ارادہ تھا
مگر ۔۔۔۔۔۔ اس حسن ظن کے باوجود آپ نے آگے چل کر یہ پھر کہا کہ :
مجھے انتہائی افسوس ہے اس سب کے باوجود بھی جب صحابہ کرام کی باری آئی تو وہاں پر محبت بھی تھی اور آپ ہی کا تسلیم کردہ پیمانہ (یعنی اطاعت) بھی تھا مگر پھر بھی آپ نے وہاں پر صحابہ کرام سے محبت کی نفی کی
تو بھائی ! اگر میں آپ کے مفروضہ "حسن ظن" کو "بحث برائے بحث" کا مترادف سمجھ لوں تو امید ہے ناراض نہیں ہوں گے۔ :)
 

باذوق

محفلین
مثال کے طور پر اگر کوئی ظالم شخص کسی کو غلام بنا کر رکھے اور اس سے زبردستی اپنی اطاعت کروائے تو کیا اس غلام کے دل میں‌اپنے آپ اپنے آقا سے محبت ہو جائے گی؟ صرف اسلئے کہ وہ اپنے آقا کے دئے ہوئے کام متواتر کر تا ہے؟
بھائی ! معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ آپ کی یہ مثال یہاں بالکل غیر موزوں ہے۔
یہاں بات "آقا" کے طرز عمل یا رویے کی نہیں ہو رہی بلکہ خود کے اپنے اعمال و افعال کی ہو رہی ہے۔
اگر "آقا" کے طرز عمل یا رویے کی بات ہو بھی تو کون ایسا بدبخت مسلمان ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ادنیٰ سے ادنیٰ ترین فعل کو غیرفطری یا ظلم سے تعبیر کرنے کا جرم کرے گا؟؟
اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے تمام احکام و ہدایات (چاہے وہ انسانی عقل کی دسترس میں‌ آئیں یا نہ آئیں) ، انسانوں پر زبردستی تھوپے نہیں‌ گئے ہیں بلکہ یہ انسانوں کی خود کی بھلائی کے لئے ہی قائم کئے گئے ہیں جن کا اجر ان شاءاللہ روزِ آخرت نصیب ہوگا۔
 
Top