دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

سیما علی

لائبریرین
یوں بھی ہزاروں لاکھوں تم انتخاب ہو
پورا کرو سوال تو پھر لاجواب ہو
داغ

سوال
ڈرا رہا ہے مسلسل یہی سوال مجھے
گزار دیں گے یونہی کیا یہ ماہ و سال مجھے

بچھڑتے وقت اضافہ نہ اپنے رنج میں کر
یہی سمجھ کہ ہوا ہے بہت ملال مجھے
عرفان ستار

ملال
 
ڈرا رہا ہے مسلسل یہی سوال مجھے
گزار دیں گے یونہی کیا یہ ماہ و سال مجھے

بچھڑتے وقت اضافہ نہ اپنے رنج میں کر
یہی سمجھ کہ ہوا ہے بہت ملال مجھے
عرفان ستار

ملال
فراق یار کی بارش ،ملال کا موسم
ہمارے شہر میں اترا کمال کا موسم
وہ اک دعا میری جو نامراد لوٹ آئی
زباں سے روٹھ گیا پھر سوال کا موسم
محسن نقوی

زبان
 

سیما علی

لائبریرین
فراق یار کی بارش ،ملال کا موسم
ہمارے شہر میں اترا کمال کا موسم
وہ اک دعا میری جو نامراد لوٹ آئی
زباں سے روٹھ گیا پھر سوال کا موسم
محسن نقوی

زبان
یہ بھید وسعتِ صحرا میں ہم پہ جا کے کھُلا
کہ شہرِ درد میں ہم بے زبان کیا کیا تھے

ہمیں ہی مل نہ سکا، وُہ بہر قدم ورنہ
مہ و گلاب سے اُس کے نشان کیا کیا تھے

نشا ن
 
یہ بھید وسعتِ صحرا میں ہم پہ جا کے کھُلا
کہ شہرِ درد میں ہم بے زبان کیا کیا تھے

ہمیں ہی مل نہ سکا، وُہ بہر قدم ورنہ
مہ و گلاب سے اُس کے نشان کیا کیا تھے

نشا ن
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کمال صدق ومروت ہے زندگی ان کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
علامہ اقبال

زندگی
 

سیما علی

لائبریرین
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کمال صدق ومروت ہے زندگی ان کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
علامہ اقبال

زندگی
موت کے سامنے بھی لہرا کر
ہم نے گائے ہیں زندگی کے گیت

جس کا دُکھ درد تم نہ بانٹ سکے
بُھول بھی جاؤ اُس کوی کے گیت

گونجتے ہیں، شکیبؔ، خوابوں میں
آنے والی کسی صدی کے گیت
شکیب جلالی
خواب ۔۔خوابوں
 
موت کے سامنے بھی لہرا کر
ہم نے گائے ہیں زندگی کے گیت

جس کا دُکھ درد تم نہ بانٹ سکے
بُھول بھی جاؤ اُس کوی کے گیت

گونجتے ہیں، شکیبؔ، خوابوں میں
آنے والی کسی صدی کے گیت
شکیب جلالی
خواب ۔۔خوابوں
نہ ہم رہے نہ وہ خوابوں کی زندگی ہی رہی
گماں گماں سی مہک خود کو ڈھونڈتی ہی رہی
عجب طرح رخ آئندگی کا رنگ اڑا
دیار ذات میں از خود گزشتگی ہی رہی
جون ایلیا

دیار
 

سیما علی

لائبریرین
دیارِ دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
ملا نہیں توکیا ہوا وہ شکل تو دکھا گیا
ناصر کاظمی

شکل
دیارِ دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
ملا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دِکھا گیا

وہ دوستی تو خیر اب نصیبِ دُشمناں ہوئی
وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا

دوستی
 

صاد الف

محفلین
میں بھی سچ کہتا ہوں، اس جرم میں دنیا والو
میرے ہاتھوں میں بھی اک زہر کا پیالہ دے دو
عقیل دانش

پیالہ
 

صاد الف

محفلین
جن کے ہونٹوں پہ ہنسی پاؤں میں چھالے ہوں گے
ہاں وہی لوگ تمہیں چاہنے والے ہوں گے
پرواز جالندھری

چھالے
 

صاد الف

محفلین

شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاؤں والے
کیا ہوئے لوگ وہ زلفوں کی گھٹاؤں والے
محسن نقوی

دھوپ
 
Top