سیدہ شگفتہ
لائبریرین
راوی: بلیماروں کے محلہ میں کرایہ کا نیا مکان ۔ میر مہدی اور شیو نرائن چارپائی کے پاس مونڈھوں پر بیٹھے ہیں ، غالب بستر پر پڑے گنگنا رہے ہیں:
غالب: مژدہء صبح دریں تیرہ شبانم دادند
شمع کشتند وزخورشید نشانم دادند
رخ کشودند و لب ہرزہ سرایم بستند
دل ربودند و چشم نگرانم دادند
سوخت آتشکدہ ز آتش نفسم بخشیدند
ریخت بت خانہ ز ناقوس فغانم دادند
گوہر از تاج گسستند و بدانش بستند
ہر چہ بردند بہ پیدا بہ نہانم دادند
میر مہدی: قبلہ آپ نے جو کہا اگر اس کا کوئی تعلق ہماری تہذیب و ادب کے مستقبل سے ہے تو کم از کم میں مایوس ہوں ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ شاہجہاں آباد اور قلعہ کے مٹنے کے بعد ہماری تہذیب کیسے سلامت رہ سکتی ہے اور اسے قائم کون رکھ سکتا ہے
غالب: میاں مہدی! کیا تم واقعی سمجھتے ہو کہ مغل بادشاہت میں رکھ رکھاو کے سوا کچھ رہ بھی گیا تھا ، شاہ عالم کے بارے میں دلی والے کہا کرتے تھے کہ حکومت شہنشاہ عالم از دہلی تا پالم ، بادشاہ ظفر مرحوم تو بس لال قلعہ تک تھے اور ان کے مرنے کے بعد غدر نہ بھی ہوتا تو بھی شاہی خاندان قلعہ سے نکال دیا جاتا ۔ میاں مستقبل کی سوچو، یہ گڑے ہوئے مردے کب تک اکھاڑو گے
میر مہدی : میرا مطلب بادشاہت سے نہ تھا ، میں اس انتشار پر سوچ رہا تھا جو سو ڈیڑھ سو برس سے برپا ہے ۔ دہلی نے اس زمانہ میں نادر گردی ، بھاو گردی ، جاٹ گردی ، روہیلا گردی ، غرض کہ طوفان ہی دیکھے ہیں اور ان طوفانوں میں جو شیرازہ بندی شہنشاہیت کے نام پر صدیوں سے جاری تھی اس کا تاروپود ہمیشہ کے لئے بکھر گیا ۔ اب اس کی جگہ نئی بنیاد کیا ہوگی مجھے تو کوئی نظر نہیں آتی اور جو دکھائی دے رہا ہے وہ دل بندی ہے جس میں ہندو مسلمان سے ، سنی شیعہ سے ، وہابی بدعتی سے دست بہ گریباں ہے ۔
غالب : تو پھر میرا خیال ہے کہ ان بکھیڑوں نے آنے والوں کی منزل اور بھی آسان کر دی ہے ۔
شیو نرائن : آسان یا مشکل ، ۔۔۔
غالب : نہیں عزیزم ، آسان اور بہت آسان، میرا شعر یاد کرو
بسکہ دشوار ہے ہر اک کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
حقیقت ان فرقہ ورانہ تعصبات سے ماورا اور بعید ہے میں تو بنی آدم کو چہ مسلمان یا ہندو یا نصرانی عزیز رکھتا ہوں اور اپنا بھائی گنتا ہوں دوسرا مانے یا نہ مانے ۔ میرا خیال ہے اب زیادہ لوگ اس حقیقت کو سمجھیں گے
کفر و دیں چیست جز آلائش پندار وجود
پاک شو پاک کہ ہم کفر تو دین تو شود
شیونرائن: بندہ پرور ، سب مذہبوں کو ملا کر ایک نیا مذہب آخر اکبر نے بھی تو بنایا تھا مگر آخر میں اس کا انجام کیا ہوا، آج اس کا نام و نشان بھی نہیں ہے ڈھونڈو تو بس تاریخوں میں مذکور ہے
غالب : مگر میاں شیونرائن ، بادشاہوں کے اختراع کردہ مذاہب کو انسانیت سے کیا تعلق ، اور پھر اس میں اکبر کی سیاسی مصلحتیں یہ کوئی گوتم بدھ کی واردات تھوڑی تھی ، بادشاہت کے ہتھکنڈے تھے ، میری مراد تو بس اتنی ہے لو رباعی سنو
یارب بہ جہانیاں دل خرم دہ
در دعوی جنت آشتی باہم دہ
شداد پسر نداشت باغش ازتست
آں مسکی آدم بہ بنی آدم دہ
میر مہدی : مگر قبلہ یہ تو تصوف کے رمز ہوئے ، بتائے یہ کہ اس نئی سماج کی بنیاد کیا ہوگی ۔
(جاری ۔ ۔ ۔ )
غالب: مژدہء صبح دریں تیرہ شبانم دادند
شمع کشتند وزخورشید نشانم دادند
رخ کشودند و لب ہرزہ سرایم بستند
دل ربودند و چشم نگرانم دادند
سوخت آتشکدہ ز آتش نفسم بخشیدند
ریخت بت خانہ ز ناقوس فغانم دادند
گوہر از تاج گسستند و بدانش بستند
ہر چہ بردند بہ پیدا بہ نہانم دادند
میر مہدی: قبلہ آپ نے جو کہا اگر اس کا کوئی تعلق ہماری تہذیب و ادب کے مستقبل سے ہے تو کم از کم میں مایوس ہوں ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ شاہجہاں آباد اور قلعہ کے مٹنے کے بعد ہماری تہذیب کیسے سلامت رہ سکتی ہے اور اسے قائم کون رکھ سکتا ہے
غالب: میاں مہدی! کیا تم واقعی سمجھتے ہو کہ مغل بادشاہت میں رکھ رکھاو کے سوا کچھ رہ بھی گیا تھا ، شاہ عالم کے بارے میں دلی والے کہا کرتے تھے کہ حکومت شہنشاہ عالم از دہلی تا پالم ، بادشاہ ظفر مرحوم تو بس لال قلعہ تک تھے اور ان کے مرنے کے بعد غدر نہ بھی ہوتا تو بھی شاہی خاندان قلعہ سے نکال دیا جاتا ۔ میاں مستقبل کی سوچو، یہ گڑے ہوئے مردے کب تک اکھاڑو گے
میر مہدی : میرا مطلب بادشاہت سے نہ تھا ، میں اس انتشار پر سوچ رہا تھا جو سو ڈیڑھ سو برس سے برپا ہے ۔ دہلی نے اس زمانہ میں نادر گردی ، بھاو گردی ، جاٹ گردی ، روہیلا گردی ، غرض کہ طوفان ہی دیکھے ہیں اور ان طوفانوں میں جو شیرازہ بندی شہنشاہیت کے نام پر صدیوں سے جاری تھی اس کا تاروپود ہمیشہ کے لئے بکھر گیا ۔ اب اس کی جگہ نئی بنیاد کیا ہوگی مجھے تو کوئی نظر نہیں آتی اور جو دکھائی دے رہا ہے وہ دل بندی ہے جس میں ہندو مسلمان سے ، سنی شیعہ سے ، وہابی بدعتی سے دست بہ گریباں ہے ۔
غالب : تو پھر میرا خیال ہے کہ ان بکھیڑوں نے آنے والوں کی منزل اور بھی آسان کر دی ہے ۔
شیو نرائن : آسان یا مشکل ، ۔۔۔
غالب : نہیں عزیزم ، آسان اور بہت آسان، میرا شعر یاد کرو
بسکہ دشوار ہے ہر اک کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
حقیقت ان فرقہ ورانہ تعصبات سے ماورا اور بعید ہے میں تو بنی آدم کو چہ مسلمان یا ہندو یا نصرانی عزیز رکھتا ہوں اور اپنا بھائی گنتا ہوں دوسرا مانے یا نہ مانے ۔ میرا خیال ہے اب زیادہ لوگ اس حقیقت کو سمجھیں گے
کفر و دیں چیست جز آلائش پندار وجود
پاک شو پاک کہ ہم کفر تو دین تو شود
شیونرائن: بندہ پرور ، سب مذہبوں کو ملا کر ایک نیا مذہب آخر اکبر نے بھی تو بنایا تھا مگر آخر میں اس کا انجام کیا ہوا، آج اس کا نام و نشان بھی نہیں ہے ڈھونڈو تو بس تاریخوں میں مذکور ہے
غالب : مگر میاں شیونرائن ، بادشاہوں کے اختراع کردہ مذاہب کو انسانیت سے کیا تعلق ، اور پھر اس میں اکبر کی سیاسی مصلحتیں یہ کوئی گوتم بدھ کی واردات تھوڑی تھی ، بادشاہت کے ہتھکنڈے تھے ، میری مراد تو بس اتنی ہے لو رباعی سنو
یارب بہ جہانیاں دل خرم دہ
در دعوی جنت آشتی باہم دہ
شداد پسر نداشت باغش ازتست
آں مسکی آدم بہ بنی آدم دہ
میر مہدی : مگر قبلہ یہ تو تصوف کے رمز ہوئے ، بتائے یہ کہ اس نئی سماج کی بنیاد کیا ہوگی ۔
(جاری ۔ ۔ ۔ )