کل مجھے خبر ملی کہ ناروے میں ایک اسلامک سینٹر پر نیوزی لینڈ کی طرز کا حملہ ہوا لیکن یہ حملہ اللہ نے ناکام کردیا۔
کہ اس وقت ظہر کی نماز کی ادائیگی کےبعد نمازی گھر لوٹ چکے تھے۔جب دہشت گرد نے فائر کر کے مسجد کا دروازہ توڑا تو اس وقت دو بزرگ مسجد میں تھے انہوں نے کمال بہادری سے دہشت گرد پہ قابو پالیا۔
اس اسلامک سنٹر میں ہمارے بہت ہی دیرینہ اور سینئر دوست جناب سید اشرف شاہ صاحب ایک مذہبی رہنماء کے طور پر فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔شاہ صاحب ایک انتہائ سلجھے ہوئےاورمضبوط علمی پس منظر رکھنے والی شخصیت ہیں۔آپ کا شمار مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد حسین نعیمی اور مفسر شھیر علامہ غلام رسول سعیدی رحمھما اللہ تعالی کے بہت ہی خاص شاگردوں میں ہوتا ہے۔آپ دینی اور دنیاوی دونوں علوم سے مرصع ہیں اور دور جدید کےتقاضوں سے بالکل ہم آہنگ ہیں۔ناروے میں آپکو بہت عزت حاصل ہے۔
ناروے کی آبادی میری معلومات کے مطابق تقریبا پچاس لاکھ ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد تقریبا ایک لاکھ چورانوے ہزار (194000) ہے۔پاکستانی مسلمانوں کی تعداد یہاں سب سے زیادہ ہے۔یہاں 34 ہزار پاکستانی ہیں جو زیادہ تر اوسلو میں رہتے ہیں۔اوسلو میں23 ہزار پاکستانی آباد ہیں۔اوسلو کا ایک علاقہ گروند لینڈ ہے جو لٹل پاکستان( چھوٹا پاکستان) کہلاتا ہے۔یہاں آپکو حلال گوشت کی دوکانیں،مٹھائی کی دوکانیں،سبزی کی دوکانیں بالکل پاکستانی طرز کی ملیں گی۔اگر آپکا لاہوری ناشتہ کرنے کا موڈ ہو تو وہاں لاہوری ناشتہ بھی دستیاب ہے۔
اس شہر کے بڑےاسلامک سنٹر میں جناب سید اشرف شاہ صاحب خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔جب مجھے اس واردات کا علم ہوا تو میں نے شاہ صاحب سے خیریت دریافت کرنے کے لیے رابطہ کیا۔شاہ صاحب کو بہت پر عزم پایا۔شاہ صاحب فرمانے لگے کہ اب تو یہاں غیر یقینی کی یہ صورت حال ہے کہ ہم ہر وقت ذہنی طور پر تیار رہتے ہیں کہ کسی وقت کوئی بھی حادثہ وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔کہنے لگے کہ آج ہفتہ تھا ظہر کی نماز پر نمازیوں کی تعداد بھی کم تھی اور دہشت گرد ٹائم کی کیلکولیشن بھی صحیح طور پر نہ کر سکا جسکی وجہ سے اللہ نے ہمیں اس حادثہ سے محفوظ رکھا۔
بہرحال شاہ صاحب اس حوالہ سے بڑے فکر مند تھے کہ چونکہ یہاں قوانین سزاؤں کے لحاظ سے بہت کمزور ہیں اس لیے ایسے جرائم پیشہ افراد کو قانون کا کوئی ڈر نہیں ہے اور انہیں پتہ ہے کہ اگر سزا بھی ہوئی تو چند سالوں کے ہوگی۔جیلوں میں آسائشات ہیں کوئی مشکل نہیں ہوتی، اس لیے وہ بلاجھجک کاروائی کرتے ہیں۔شاہ صاحب کے مطابق اس دہشت گرد نے پکڑے جانے کے بعد اعتراف کیا ہے کہ وہ نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کرنے والے نطفئہ حرام سے متاثر ہوا اور اوسلو میں اس دہشت گردی کا منصوبہ بنایا۔
یہ بات بہت ہی قابل افسوس ہے کہ یورب کے جذباتی نوجوانوں کے دلوں میں بہت خطرناک حد تک فارنرز کے لیے نفرت پیدا ہوچکی ہے۔وہ باہر سے آنے والوں کو اپنا بد ترین دشمن سمجھتے ہیں۔یورپ کی ایک قابل ذکر آبادی اسلامو فوبیا کا شکار ہے۔یورپ کے معاشروں میں اسلام سب سے زیادی تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے اور پاکستانی کمیونٹی ان میں بہت اہم عہدوں پر فائز ہے اس لیے یہ لوگ پاکستانی مسلمانوں سے خاص طور پر نفرت کرنے لگے ہیں۔ان معاشروں میں پہلے ہی نسلی امتیار کی بنیاد پر نفرت بہت زیادہ ہے سفید فام سیاہ فام سے بہت نفرت کرتے ہیں انہیں انسان نہیں سمجھتے۔اسلام کا اثر رسوخ بڑھنے سے یہ عداوتیں اور گہری ہوگئی ہیں۔لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ مسلمان ان خطرات کا مقابلہ بھی کررہے ہیں اور مسلسل آگے بھی بڑھ رہے ہیں۔
خدائے بزرگ وبرتر سے دعاء ہے کہ اللہ دنیا کے تمام مسلمانوں کی خیر فرمائے اور بطور خاص وہ پاکستانی جودوسرے ممالک میں زندگی گزار رہے ہیں اللہ انکے جان ومال،اولاد اور عزت کی حفاظت فرمائے۔
طالب دعاء
گلزار احمد نعیمی
کہ اس وقت ظہر کی نماز کی ادائیگی کےبعد نمازی گھر لوٹ چکے تھے۔جب دہشت گرد نے فائر کر کے مسجد کا دروازہ توڑا تو اس وقت دو بزرگ مسجد میں تھے انہوں نے کمال بہادری سے دہشت گرد پہ قابو پالیا۔
اس اسلامک سنٹر میں ہمارے بہت ہی دیرینہ اور سینئر دوست جناب سید اشرف شاہ صاحب ایک مذہبی رہنماء کے طور پر فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔شاہ صاحب ایک انتہائ سلجھے ہوئےاورمضبوط علمی پس منظر رکھنے والی شخصیت ہیں۔آپ کا شمار مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد حسین نعیمی اور مفسر شھیر علامہ غلام رسول سعیدی رحمھما اللہ تعالی کے بہت ہی خاص شاگردوں میں ہوتا ہے۔آپ دینی اور دنیاوی دونوں علوم سے مرصع ہیں اور دور جدید کےتقاضوں سے بالکل ہم آہنگ ہیں۔ناروے میں آپکو بہت عزت حاصل ہے۔
ناروے کی آبادی میری معلومات کے مطابق تقریبا پچاس لاکھ ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد تقریبا ایک لاکھ چورانوے ہزار (194000) ہے۔پاکستانی مسلمانوں کی تعداد یہاں سب سے زیادہ ہے۔یہاں 34 ہزار پاکستانی ہیں جو زیادہ تر اوسلو میں رہتے ہیں۔اوسلو میں23 ہزار پاکستانی آباد ہیں۔اوسلو کا ایک علاقہ گروند لینڈ ہے جو لٹل پاکستان( چھوٹا پاکستان) کہلاتا ہے۔یہاں آپکو حلال گوشت کی دوکانیں،مٹھائی کی دوکانیں،سبزی کی دوکانیں بالکل پاکستانی طرز کی ملیں گی۔اگر آپکا لاہوری ناشتہ کرنے کا موڈ ہو تو وہاں لاہوری ناشتہ بھی دستیاب ہے۔
اس شہر کے بڑےاسلامک سنٹر میں جناب سید اشرف شاہ صاحب خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔جب مجھے اس واردات کا علم ہوا تو میں نے شاہ صاحب سے خیریت دریافت کرنے کے لیے رابطہ کیا۔شاہ صاحب کو بہت پر عزم پایا۔شاہ صاحب فرمانے لگے کہ اب تو یہاں غیر یقینی کی یہ صورت حال ہے کہ ہم ہر وقت ذہنی طور پر تیار رہتے ہیں کہ کسی وقت کوئی بھی حادثہ وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔کہنے لگے کہ آج ہفتہ تھا ظہر کی نماز پر نمازیوں کی تعداد بھی کم تھی اور دہشت گرد ٹائم کی کیلکولیشن بھی صحیح طور پر نہ کر سکا جسکی وجہ سے اللہ نے ہمیں اس حادثہ سے محفوظ رکھا۔
بہرحال شاہ صاحب اس حوالہ سے بڑے فکر مند تھے کہ چونکہ یہاں قوانین سزاؤں کے لحاظ سے بہت کمزور ہیں اس لیے ایسے جرائم پیشہ افراد کو قانون کا کوئی ڈر نہیں ہے اور انہیں پتہ ہے کہ اگر سزا بھی ہوئی تو چند سالوں کے ہوگی۔جیلوں میں آسائشات ہیں کوئی مشکل نہیں ہوتی، اس لیے وہ بلاجھجک کاروائی کرتے ہیں۔شاہ صاحب کے مطابق اس دہشت گرد نے پکڑے جانے کے بعد اعتراف کیا ہے کہ وہ نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کرنے والے نطفئہ حرام سے متاثر ہوا اور اوسلو میں اس دہشت گردی کا منصوبہ بنایا۔
یہ بات بہت ہی قابل افسوس ہے کہ یورب کے جذباتی نوجوانوں کے دلوں میں بہت خطرناک حد تک فارنرز کے لیے نفرت پیدا ہوچکی ہے۔وہ باہر سے آنے والوں کو اپنا بد ترین دشمن سمجھتے ہیں۔یورپ کی ایک قابل ذکر آبادی اسلامو فوبیا کا شکار ہے۔یورپ کے معاشروں میں اسلام سب سے زیادی تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے اور پاکستانی کمیونٹی ان میں بہت اہم عہدوں پر فائز ہے اس لیے یہ لوگ پاکستانی مسلمانوں سے خاص طور پر نفرت کرنے لگے ہیں۔ان معاشروں میں پہلے ہی نسلی امتیار کی بنیاد پر نفرت بہت زیادہ ہے سفید فام سیاہ فام سے بہت نفرت کرتے ہیں انہیں انسان نہیں سمجھتے۔اسلام کا اثر رسوخ بڑھنے سے یہ عداوتیں اور گہری ہوگئی ہیں۔لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ مسلمان ان خطرات کا مقابلہ بھی کررہے ہیں اور مسلسل آگے بھی بڑھ رہے ہیں۔
خدائے بزرگ وبرتر سے دعاء ہے کہ اللہ دنیا کے تمام مسلمانوں کی خیر فرمائے اور بطور خاص وہ پاکستانی جودوسرے ممالک میں زندگی گزار رہے ہیں اللہ انکے جان ومال،اولاد اور عزت کی حفاظت فرمائے۔
طالب دعاء
گلزار احمد نعیمی