دکن کے معروف و منفرد شاعر جناب غیاث متین کا انتقال

حیدرآبادی

محفلین
پرفیسر غیاث متین
سابق صدر شعبہ اردو ، جامعہ عثمانیہ ، حیدرآباد ، انڈیا
کا انتقال پُر ملال​

السلام علیکم
معزز قارئین
ابھی کچھ دن قبل ہم نے پاکستان کی لال مسجد سانحے کے متعلق ایک نظم ’زمین والوں کے نام‘ ، اردو محفل پر یہاں لگائی تھی۔
حیدرآباد کے جس معروف اور منفرد قادر الکلام شاعرِ محترم جناب غیاث متین کی وہ نظم تھی ، وہی محبی و محترمی شاعر مشیت یزدی سے آج بروز منگل 21۔اگست 2007ء بوقت شام چھ بجے (ہندوستانی معیاری وقت) انتقال فرما گئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔

معزز قارئینِ اردو محفل سے ادباََ گذارش ہے کہ جناب غیاث متین کے لیے دعائے مغفرت فرمائیں ۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔

غیاث متین کا انتخابِ کلام
 

تلمیذ

لائبریرین
الل۔ّھ تعالیٰ مغفرت فرمائیں

دو روز میں تین ادبی شخصیات کے انتقال کی خبریں ملی ہیں ، لگتا ہے اُردو ادب پر بھاری وقت ہے۔

گیان چند ، قرۃ العین حیدر اور اب پروفیسر غیاث متین۔

باری تعالےٰ سے دعا ہے کہ ان سب کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائیں۔ آؔمین !!
 

الف عین

لائبریرین
اوہو۔ پچھلےاتوار کو ان سے ملاقات ہوئی تھی جب ہم دونوں ادارہ تہذیبِ ادب کی ایک نشست میں شریک تھے جو سعودی سے فہیم جاوید کی آمد اور ان کے اعزاز میں ہوئی تھی۔ غیاث متین صاحب نے جو غزل سنائی تھی، وہ اگرچہ دکنی اسلوب کی تھی، اور غیر دکنی کو سمجھنے میں دقت پیش آ سکتی تھی۔ اس کا ایک مصرعہ یہ یاد رہ گیا
یہ منظر آنکھ کے پردے سے ہٹتے دن لگیں گے
ردیف تھی دن لگیں گے۔ اور پہلا مصرعہ یاد نہیں رہا لیکن مرزد کچھ یہ تھی کہ محبوب ہر نم آنکھوں سے مسکرا رہا تھا۔ اور بعد میں میں نے ان کو اپنا یہ شعر سنایا تھا اسی قسم کے موضوع پر کہ
گلے لگ کر مرے جانے وہ ہنستا تھا کہ روتا تھا
نہ کھِل کر دھوپ پھیلی تھی، نہ بادل کھُل کے برسا تھا
بہر حال موت پر کس کی ترستگاری ہے۔۔ اور یہ کہ عجب اک حادثہ سا پہو گیا ہے۔ عینی آپا اور گیان چند کے بعد۔
 

الف عین

لائبریرین
حیدرآبادی۔ کیا ان کا کچھ اور مواد آپ مہیا کر سکتے ہیں۔ یہاں تمھارا پوسٹ کیا ہوا مواد بھی ہے، اس کے علاوہ کچھ اور مل جائے تو ’سمت‘ کے اگلے شمارے میں عینی آپا اور غیاث کے گوشے شامل کر دوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون

پچھلے دو تین دنوں سے بہت بھاری خبریں آرہی ہیں اردو کیلیے۔

اللہ تعالٰی مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دیں، آمین یا رب العالٰمین۔
 

حیدرآبادی

محفلین
حیدرآبادی۔ کیا ان کا کچھ اور مواد آپ مہیا کر سکتے ہیں۔ یہاں تمھارا پوسٹ کیا ہوا مواد بھی ہے، اس کے علاوہ کچھ اور مل جائے تو ’سمت‘ کے اگلے شمارے میں عینی آپا اور غیاث کے گوشے شامل کر دوں۔
محترم اعجاز اختر صاحب ! پروفیسر غیاث متین ، میرے ایک قریبی رشتہ دار بھی تھے۔
یوں سمجھئے کہ ہم کچھ کزنز اور بھائی بہنوں کی اردودانی اور ادبی ذوق کی آبیاری میں مرحوم کا بھی کافی حصہ تھا۔ میرے بچپن کا کچھ حصہ ان کی گود میں بھی بیتا۔
ان کا کافی مواد ہے میرے پاس ، لیکن ڈھونڈنے کا مسئلہ ہے اور شائد ان پیج فائلوں میں‌ہے۔ یہ سارا مواد میں‌ نے بہت پہلے اردوستان پر لگایا تھا۔
بہرحال آپ کو بھیجتا ہوں اور ان شاءاللہ کل یا پرسوں تک مرحوم پر ایک تاثراتی مضمون بھی سمت کے لیے آپ کو ای۔میل کروں‌ گا۔
 

الف عین

لائبریرین
اوہو۔ پچھلےاتوار کو ان سے ملاقات ہوئی تھی جب ہم دونوں ادارہ تہذیبِ ادب کی ایک نشست میں شریک تھے جو سعودی سے فہیم جاوید کی آمد اور ان کے اعزاز میں ہوئی تھی۔ غیاث متین صاحب نے جو غزل سنائی تھی، وہ اگرچہ دکنی اسلوب کی تھی، اور غیر دکنی کو سمجھنے میں دقت پیش آ سکتی تھی۔ اس کا ایک مصرعہ یہ یاد رہ گیا
یہ منظر آنکھ کے پردے سے ہٹتے دن لگیں گے
ردیف تھی دن لگیں گے۔ اور پہلا مصرعہ یاد نہیں رہا لیکن مرزد کچھ یہ تھی کہ محبوب ہر نم آنکھوں سے مسکرا رہا تھا۔ اور بعد میں میں نے ان کو اپنا یہ شعر سنایا تھا اسی قسم کے موضوع پر کہ
گلے لگ کر مرے جانے وہ ہنستا تھا کہ روتا تھا
نہ کھِل کر دھوپ پھیلی تھی، نہ بادل کھُل کے برسا تھا
بہر حال موت پر کس کی ترستگاری ہے۔۔ اور یہ کہ عجب اک حادثہ سا پہو گیا ہے۔ عینی آپا اور گیان چند کے بعد۔
غیاث صاحب کا شعر یوں تھا
بچھڑتے وقت آنسو روک کر وہ ہنس رہا تھا
یہ منظر آنکھ کے پردے سے ہٹنے دن لگیں گے
دیکھیں آج کے منصف میں اس تقریب کی رپورٹ

http://www.munsifdaily.com/NEWS/adab7.gif
 
Top