انسانی تاریخ میں منافقت ایک ایسا روّیہ ہے جوکبھی کسی جماعت' ادا رے یا شخصیت کی پالیسی یا ادارہ جاتی قانون کا باقاعدہ حصّہ نہیں بنا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکا غیر اعلانیہ استعمال بڑھتا رہا۔ دور نبویﷺ میں اس روّیے کے حاملین کو منافقین کہا گیا۔ مگر دور حاضر میں یار لوگوں نے اس کے معنی و مفہوم ہی بدل دیے اب جب دل چاہے جس کو چاہے منافق کہہ دیا جاتا ہے۔

میرے محترم سید انورمحمودنےمیرے مضمون "سید منور حسن کا بیان اور لبرل مکتب فکر کا رد عمل" کے جواب میں اپنا مضمون ارسال فرمایا میں انکا ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھ جیسے نو آموز لکھاری کے مضمون کو قابل توجہ جانا اور اسکے جواب میں اپنا مضمون بھیجا۔ اس مضمون میں جہاں انہوں نے کچھ سچی باتیں کی وہاں حقائق سے نظریں چراتے ہوئے مذہبی طبقے کو با العموم اور طالبان سمیت سید منور حسن کو بالخصوص نشانہ بنایا۔ لگے ہاتھ انہوں نے مجھے بھی منافق قرار دے دیا۔ ان کا مضمون اندھی مخالفت اور حقائق سے چشم پوشی کا غماز ہے۔

شاہ صاحب پڑھے لکھے آدمی ہیں یقیناً منافقت کےمطلب ومفہوم سے بخوبی آگاہ ہونگے۔ پھر اس کے استعمال میں اس قدر بے احتیاتی کیوں؟ میری ناقص معلومات کے مطابق منافق وہ انسان ہوتا ہےجو دل میں سوچتاکچھ اور ہے مگرجب بات کرتا ہے تو محفل یا سامع کے موڈ کے موافق ۔یعنی اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ۔ میرا جماعت اسلامی اور منور حسن سے کوئی کا تعلق نہیں ہے۔ نہ میرا مضمون ان کے بیان کے دفاع یا مخالفت میں تھا۔ میں نے بس ان کے بیان کو بنیاد بنا کر وہ باتیں کہہ دیں جن سےآج تک ہم چشم پوشی کرتے رہے ہیں۔ مثلاً میں قادری صاحب اور عمران خان کی انقلاب و آزادی مارچ اور دھرنےوالی پالیسی سے اتفاق نہیں کرتا مگر ان کے بیشتر مطالبات کی حمایت کرتا ہوں کہ حکومت ان پر غور کرےمیری اس سوچ کے حوالے سے اگر کوئی میری اس بات پر اعتراض کرے اور مجھے منافق کہے تو عجیب بات ہے۔

میرا مقصد ہمارے معاشرے اور نظام میں موجود ان خرابیوں کا ذکر کرنا تھا جو ناسور بن کر ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہیں۔ ساتھ ساتھ میں نے ان نام نہاد لبرل لوگوں کے سامنے یہ سوال اٹھایا کہ جب نظام حکومت ہم ہی جیسے لوگوں کے پاس ہے تو اس کی خرابیوں کے ذمہ دار بھی ہم ہی لوگ ہیں نہ کہ کوئی اور۔

پہلی بات تو یہ کہ مقامی طالبان جو پاکستان میں دہشتگری میں ملوث ہیں انہیں طالبان نہیں کہنا چاہئے۔ دہشتگرد کہیں یا ظالمان کہیں خواہ کچھ اور۔کیونکہ اس سے افغان طالبان پر بھی حرف آتا ہے ملا عمر پہلے ہی ان پاکستانی دہشتگردوں سے تعلق کی تردید کر چکے ہیں جو پاکستانی کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ آج تک افغان طالبان نے کوئی سرحدی خلاف ورزی نہیں کی نہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو کوئی نقصان پہنچایانہ پاکستان مخالف سرگرمیوں کی حمایت کی۔ روس افغان جنگ صرف افغانستان کی نہیں بلکہ پاکستان کی بھی حفاظت اور بقا کی جنگ تھی۔ مگر ہمارا دہرا معیار دیکھیں کہ اگر افغان مجاہد اور القائدہ روس سے لڑیں تو مجاہد اور امریکہ کے خلاف لڑیں تو دہشتگرد۔

جس جہاد کشمیر کا آغاز قائداعظم کے حکم پر قبائلیوں نے کشمیریوں کے ساتھ مل کر کیا تھا جس کے نتیجے میں موجودہ آزاد کشمیر آزاد ہوا۔ آج وہی جہاد بھی ماڈرن ڈکشنری میں دہشت گردی بن چکا ہے۔ یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے۔؟ شیخ مجیب الیکشن جیتے مگر بھٹو صاحب نے ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگا دیا۔ اس عمل کو کیا کہا جائے گا۔؟ ہم بنگالیوں کا رونا روتے ہیں یہاں اپنے گھر میں کیا ہوا کون نہیں جانتا کہ محترمہ فاطمہ جناح کو الیکشن میں دھاندلی سے ہرایا اور انکی موت آج تک مشکوک ہے۔ مگر ہم کس منفقانہ شان سے ان کی محبت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔

ایمل کانسی کو پکڑنے کے لیے امریکی فوجی طیارہ پاکستانی قانون اور اداروں سے بالا تر ہو کر ڈیرہ غازی خان اترتا ہے اور اسے گرفتار کرکے لے جاتے ہیں مگر ریمنڈ ڈیوس کو اسی قانون کے تحت رہائی دے دی جاتی ہے۔ جاسوسی کا الزام ثابت ہونے کے باوجود ایوان ریڈلی طالبان کی قید سے باعزت و عصمت رہا کر دی جاتی ہے مگر کسی لبرل لکھاریوں کو آج تک اس عمل کی تعریف لکھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اور دوسری طرف بے قصور عافیہ کو خود ان کے حوالے کر دیا جاتا ہے مگر اس کا دکھڑا بھی کبھی کسی نام نہاد لبرل کے نوک قلم سے نہ لکھا جا سکا۔ یہ کیا منافقت کی حد نہیں ہے۔؟

مولانا صوفی محمدنفاذ شریعت کا مطالبہ کریں تو جیل بھیجا جاتا ہےاور لا ل مسجد والےیہی مطالبہ کریں تو آپریشن اور عمران خان تین ماہ سے اسلام آباد بلاک کر کے بیٹھا ہےسرکاری عمارات اور املاک کا حشر نشر کیا جاتا ہے۔ اس دھرنے سے اسلام آباد کے باسیوں کی روزمرہ سرگرمیاں متاثر ہویں وہیں حکومتی معاملات اور اہم ممالک سے آنے والے حکومتی اورکاروباری وفود کے دورے بھی موخر ہوئے۔ مگر اس سے مذاکرات۔ کیا یہ واضح تضادنہیں ہے ؟

جس جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے ساتھ دیا اوروفاق پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ داو پے لگا دیا۔ آج اس کے رہنماوں کو دھڑا دھڑ پھانسیاں دی جا رہی ہیں مگر ہماری وزارت خارجہ اسے بنگلہ دیش کا داخلی مسلہ قرار دے کے جان چھڑا لی حالانکہ دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدہ موجود ہے جس کے تحت 1971 کے واقعیات کی بنیاد پر کسی شخص پر کوئی مقدمہ چلایا جا سکتا ہے نہ سزا دی جا سکتی ہے۔ حکومت پاکستان اس معاہدے کو لے کر بنگلہ دیش حکومت سے بات کر سکتی ہے مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اسے آپ بے وفائی کہیں گے یا منافقت۔

آج ہم پورے پاکستان کو سوئی گیس تیل اور دیگر اہم معدنیات فراہم کرنے والے بلوچستان اور بلوچوں کی حالت دیکھ لیں ۔ تو ہمیں اپنا وہ چہرہ نظر آئے گا جو ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔ کیا من حیث القوم ہمارا روّیہ منفاقانہ نہیں؟ میں نے جن باتوں کا ذکر کیا ہے بیشک وہ حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں سے تعلق رکھتی ہیں لیکن اس نظام کا حصہ ہونے کے ناتے اس نظام کو ووٹ دینے کے باعث ہم بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ اوروں کی طرف انگلی اٹھانے والوں کو اپنی جانب مڑی اپنی ہی چار انگلیاں نظر انداز نہیں کرنی چاہیے۔۔

http://naqshefaryadi.blogspot.com/2014/12/blog-post.html
 
آخری تدوین:

Fawad -

محفلین

اگر افغان مجاہد اور القائدہ روس سے لڑیں تو مجاہد اور امریکہ کے خلاف لڑیں تو دہشتگرد۔
۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

افغانستان ميں 80 کی دہائ ميں روسی جارحيت کا امريکی اور نيٹو افواج کی موجودگی سے تقابل کرنا زمينی حقائق کی دانستہ نفی اور تاريخی حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ روسی افواج کے برعکس ہم افغانستان ميں علاقوں پر قبضہ کرنے يا مقامی آباديوں پر حکومت کرنے کی غرض سے نہيں آئے ہيں۔ بلکہ حقيقت يہ ہے کہ ہم اپنے ٹيکس دہندگان کے کئ بلين ڈالرز ترقياتی منصوبوں کی مد میں عام افغان لوگوں کے معيار زندگی کو بہتر بنانے پر صرف کر رہے ہيں تا کہ صحت، تعليم اور بنيادی ڈھانچے کی بحالی جيسے اہم شعبوں ميں مثبت تبديلی لائ جا سکے۔

افغانستان ميں جاری ترقياتی منصوبوں کے حوالے سے يو ايس ايڈ کے اعداد وشمار پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی افغانستان کے عوام کے ساتھ ہماری طويل المدت وابستگی اور اس دعوے کی نفی ہو جاتی ہے کہ خطے ميں ہماری موجودگی علاقوں پر قبضے جمانے کی کوشش ہے۔

http://afghanistan.usaid.gov/en/home

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ 80 کی دہائ ميں افغانستان کی صورت حال کے برعکس، ہماری فوجی کاروائ ان واقعات کے تسلسل کا ناگزير ردعمل ہے جن ميں ہماری سرزمين پر براہراست حملہ بھی شامل ہے۔ يہی وجہ ہے کہ افغانستان ميں ہماری موجودگی کی مکمل حمايت اقوام متحدہ سميت تمام عالمی برداری نے کی ہے اور اسی بدولت کئ درجن قومیں ہمارے ساتھ شامل ہيں۔ يقینی طور پر روس کے ساتھ يہ صورت حال نہيں تھی جن کے اقدام کی ہر عالمی فورم پر مذمت کی گئ۔ بلکہ حقیقت يہ ہے کہ روسی جارحيت کے دوران افغانستان ميں روس کی موجودگی پر کڑی نقطہ چينی نے مسلسل روس کو دباؤ ميں رکھا اور يہی امر سفارتی سطح پر انھيں تنہا کرنے کا سبب بھی بنا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
مبارک ہو شاہ صاحب آپکےپرانے ہمدرد فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ آگے ہیں، اب ذرا اُنکو بھی جواب ارسال کردیں تو ہماری معلومات میں کچھ اضافہ ہوجائے گا۔
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

افغانستان ميں 80 کی دہائ ميں روسی جارحيت کا امريکی اور نيٹو افواج کی موجودگی سے تقابل کرنا زمينی حقائق کی دانستہ نفی اور تاريخی حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ روسی افواج کے برعکس ہم افغانستان ميں علاقوں پر قبضہ کرنے يا مقامی آباديوں پر حکومت کرنے کی غرض سے نہيں آئے ہيں۔ بلکہ حقيقت يہ ہے کہ ہم اپنے ٹيکس دہندگان کے کئ بلين ڈالرز ترقياتی منصوبوں کی مد میں عام افغان لوگوں کے معيار زندگی کو بہتر بنانے پر صرف کر رہے ہيں تا کہ صحت، تعليم اور بنيادی ڈھانچے کی بحالی جيسے اہم شعبوں ميں مثبت تبديلی لائ جا سکے۔

افغانستان ميں جاری ترقياتی منصوبوں کے حوالے سے يو ايس ايڈ کے اعداد وشمار پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی افغانستان کے عوام کے ساتھ ہماری طويل المدت وابستگی اور اس دعوے کی نفی ہو جاتی ہے کہ خطے ميں ہماری موجودگی علاقوں پر قبضے جمانے کی کوشش ہے۔

http://afghanistan.usaid.gov/en/home

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ 80 کی دہائ ميں افغانستان کی صورت حال کے برعکس، ہماری فوجی کاروائ ان واقعات کے تسلسل کا ناگزير ردعمل ہے جن ميں ہماری سرزمين پر براہراست حملہ بھی شامل ہے۔ يہی وجہ ہے کہ افغانستان ميں ہماری موجودگی کی مکمل حمايت اقوام متحدہ سميت تمام عالمی برداری نے کی ہے اور اسی بدولت کئ درجن قومیں ہمارے ساتھ شامل ہيں۔ يقینی طور پر روس کے ساتھ يہ صورت حال نہيں تھی جن کے اقدام کی ہر عالمی فورم پر مذمت کی گئ۔ بلکہ حقیقت يہ ہے کہ روسی جارحيت کے دوران افغانستان ميں روس کی موجودگی پر کڑی نقطہ چينی نے مسلسل روس کو دباؤ ميں رکھا اور يہی امر سفارتی سطح پر انھيں تنہا کرنے کا سبب بھی بنا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
وضاحت کا خیر مقدم۔ یو ایس ایڈ کا دنیا بھر میں ترقیاتی منصوبوں پر کام قا بل ستائش ہے۔ تاہم بہت سےلوگ یو ایس ایڈ اور امریکی دفاعی اداروں کی پالیسیوں کو متوازی خیال نہیں کرتے۔
 
مبارک ہو شاہ صاحب آپکےپرانے ہمدرد فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ آگے ہیں، اب ذرا اُنکو بھی جواب ارسال کردیں تو ہماری معلومات میں کچھ اضافہ ہوجائے گا۔

کیوں آج تیرے چہرے پہ تبسم ہے نمایاں،
کیا بات ہے انداز تیرا شوخ بہت ہے۔۔؟
 
جماعت اسلامی میں منور حسن صاحب کو کم ازکم منافق قرار نہیں دیا جا سکتا، کہ وہی تو ہیں کہ جماعت کے اصل روپ سے دنیا کو اگاہ کرتے ہیں،- پاکستان کے معاشرے میں قتال ( نام نہاد) فی سبیل للہ کون کر رہا ہے اور وہ کس کو سپورٹ کررہے ہیں ، یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی، اور آپ کھل کر اپنی جماعت کی پالیسی واضح کیوں نہیں کر دیتے ہو۔ اور بات کو مان کر نہیں دیتے کہ جماعت اسلامی ،پاکستان کے دیگر مذاہب،مسلک کو مشرک یا مرتد یا کافر قراردے کر قابل گردن زدنی سمجھتی ہے -
لیکن منافقت جن کی رگ و جاں میں رچ بس گئی ہو وہ کبھی پلٹ کر راہ راست پر نہیں آ سکتے
 
وضاحت کا خیر مقدم۔ یو ایس ایڈ کا دنیا بھر میں ترقیاتی منصوبوں پر کام قا بل ستائش ہے۔ تاہم بہت سےلوگ یو ایس ایڈ اور امریکی دفاعی اداروں کی پالیسیوں کو متوازی خیال نہیں کرتے۔
جماعت اسلامی میں منور حسن صاحب کو کم ازکم منافق قرار نہیں دیا جا سکتا، کہ وہی تو ہیں کہ جماعت کے اصل روپ سے دنیا کو اگاہ کرتے ہیں،- پاکستان کے معاشرے میں قتال ( نام نہاد) فی سبیل للہ کون کر رہا ہے اور وہ کس کو سپورٹ کررہے ہیں ، یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی، اور آپ کھل کر اپنی جماعت کی پالیسی واضح کیوں نہیں کر دیتے ہو۔ اور بات کو مان کر نہیں دیتے کہ جماعت اسلامی ،پاکستان کے دیگر مذاہب،مسلک کو مشرک یا مرتد یا کافر قراردے کر قابل گردن زدنی سمجھتی ہے -
لیکن منافقت جن کی رگ و جاں میں رچ بس گئی ہو وہ کبھی پلٹ کر راہ راست پر نہیں آ سکتے
کیوں آج تیرے چہرے پہ تبسم ہے نمایاں،
کیا بات ہے انداز تیرا شوخ بہت ہے۔۔؟

شاہ صاحب یہ تو نہیں معلوم کہ 1980 میں آپکی کیا عمر تھی۔ برحال فواد اُس یو ایس ایڈ کی بات کررہا جو 1980 میں آپکی جماعت اسلامی اور جنرل ضیاء کھاتے رہے۔ روس کے افغانستان میں آنے کے بعد روس کو سبق سیکھانے کےلیے امریکہ کو کرائے کے فسادی درکار تھے اور اسکا کنٹریکٹ ضیاالحق کی حکومت اور جماعت اسلامی کو دیا گیا، جماعت تو پہلے ہی سے امریکہ کی غلامی کررہی تھی۔ 1977 میں امریکہ نے ڈالر دیے اور جماعت اسلامی نے نظام مصطفی کا نعرہ لگاکر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلائی اور اپنی منافقت سے ضیا الحق کے ساتھ ملکر بھٹو کو پھانسی دے دی۔ نظام مصطفی توآجتک نہیں آیا مگر منافق ضیاالحق ضرور آگیا تھا۔ امریکی ڈالر کے سہارئے جماعت اسلامی نے ساری دنیا سے فسادی لاکر پاکستان اور افغانستان میں جمع کیے اورنام نہاد جہاد کے بہانے فساد برپا کرتے رہے، روس تو واپس چلا گیا مگر بڑا درندہ امریکہ واپس جاکر پھر لوٹ آیا وجہ تھی وہ فسادی جو پہلے امریکہ کے پالتو تھے اب وہ ہی امریکہ کو آنکھیں دیکھارہے تھے، جن میں سب بڑا فسادی اسامہ بن لادن بھی تھا۔ 9/11 کے بعد امریکہ جاہل ملا عمر سے اسامہ بن لادن کو مانگ رہا تھا، اگر اس جاہل انسان میں عقل ہوتی تو اسامہ کو افغانستان سے نکال دیتا جیسا اس سے پہلے سوڈان کرچکا تھا مگرایسا نہ ہوا اور امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ جماعت اسلامی اپنا کھیل کھیل رہی تھی کیوں کہ ارب پتی اسامہ سے جماعت اسلامی مالی اور سیاسی فائدہ اٹھارہی تھی ۔ سابق جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد تو اسامہ بن لادن کے بہت بڑئے فین تھے اور منافقت میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ جماعت اسلامی اور دہشت گردوں کے حامیوں نے پرویز مشرف کو استمال کیا اور متحدہ مجلس عمل کا خیام عمل میں آیا، ایم ایم ائے میں وہ تمام جماعتیں موجود تھیں جو طالبان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتی ہیں۔ پرویز مشرف کو بھی سیاسی حمایت چاہیے تھی لہذا 2002کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے قومی اسمبلی کی 68 نشستیں حاصل کیں،سرحد اور بلوچستان میں متحدہ مجلس عمل کی حمایت یافتہ حکومتیں قائم ہوئیں۔ 28دسمبر 2003کوقاضی حسین احمد،مولانا فضل الرحمن و دیگر قائدین کی موجودگی میں متحدہ مجلس عمل نے آئین میں 17ویں آئینی ترمیم کا بل یعنی لیگل فریم ورک آرڈر منظور کرکے پرویز مشرف کی حکمرانی کو آئینی و قانونی جواز فراہم کردیا اوراسکے ساتھ ہی متحدہ مجلس عمل ”ملا ملٹری الائنس“ بن گی۔ اس ملا ملٹری الائنس نے عوام کے لیے تو کچھ نہیں کیا، مگریا تو مشرف کی خدمت کی یا پھر دہشت گردوں کی تعدادبڑھائی اور سیاسی طور پر حمایت کی جو آج بھی جاری ہے۔القاعدہ کے کمزور پڑنے کے بعد فسادیوں کو پاکستانی طالبان کا نام دیا گیا اور پھر پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز ہوا، دوسری طرف ہندوستانی خفیہ ایجینسی را نے بھی طالبان دہشت گردوں کو اپنا خدمت گذار بنالیا۔ منافقت یہ ہے کہ جس مشرف کی حکمرانی کو آئینی و قانونی جواز فراہم کیا آج اسکے سب سے بڑئے مخالف منافق منور حسن ہیں اور مرحوم قاضی حسین احمد تھے۔

شاہ صاحب اگر کسی تبصرئے کا جواب معلوم نہ ہو ایک لکھاری کو "غیر متفق" کے جواب جچتا نہیں، آپنے بجائے ناصر علی مرزا کے تبصرئے پر جواب دینے کہ "غیر متفق" کا بٹن دبا دیا۔ اصل بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن جو دہشت گرد طالبان کو اپنا بھائی کہتے ہیں، طالبان دہشت گردوں کے ہاتھوں باون ہزار سے زیادہ شہید ہونے والے لوگوں کو جن میں عام آدمی، پولیس کے سپاہی، رینجرز کے اہلکار اور پاکستانی فوج کے اہلکار شامل ہیں اُنکو شہید ماننے سے انکار کرتے ہیں لیکن ہزاروں انسانوں کے قاتل دہشت گردحکیم محسود کو شہید کہتے ہیں۔ وہ متنازعہ بیانات دینے میں شہرت رکھتے ہیں۔ منور حسن نے مینار پاکستان پر 22 نومبر کوجماعت اسلامی کے اجتماع میں اپنی تقریر اُنہوں نے کہا کہ"جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کے لفظ کا استعمال متروک ہوتا جا رہا ہے، وہ ڈنکے کی چوٹ پر اور بلاخوف و تردید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں اس میں اگر جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کے کلچر کو عام نہیں کیا گیا تو محض انتخابی سیاست اور جمہوری سیاست کے ذریعے اس وقت کے حالات پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے"۔

قتال فی سبیل اللہ کا مطلب ہے، "اللہ کے راستے میں مسلح جنگ"۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جنگ میں شریک انسان کو صرف اور صرف اپنے رب کی رضا جوئی مقصود ہوتی ہے، اور یہ اُن شرائط کے مطابق لڑی جاتی ہے جو ہم پر دین کی طرف سے لازم کی گئی ہیں۔حضورؐ نے فرمایا: ’’لڑائیاں دوقسم کی ہیں۔جس نے خالص اللہ کی رضاجوئی کےلئیے لڑائی کی۔اس میں اپنے حکمران کی اطاعت کی،اپنا بہترین مال خرچ کیا،اپنے ساتھیوں کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کیا اور فساد سے اجتناب کیا، تو اس کا سونا جاگنا سب باعثِ اجر ہوگا۔اس کے برعکس جس نے دنیا کو دکھانے اور شہرت وناموری کے لئے تلوار اٹھائی،اپنے حکمران کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد پھیلایا تو وہ برابر بھی نہ چھو ٹے گا‘‘۔ (نسائی۔حدیث نمبر3188) ۔۔۔۔ بحوالہ کتاب: ۔۔۔جہاد و قتال ، مصنف فاروق خان۔۔۔۔۔

منور حسن جو شرانگیز بیانات دینے اور دہشت گردوں کو اپنا بھائی کہنے میں مشہور ہیں اُنکا یہ دو ٹوک بیان ریاست کی نافرمانی کرنےاور فساد پھلانے کےلیے ہے۔ پاکستان کی فوج کی جانب سےآپریشن ضرب عضب کے بعد دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گی ہے، منور حسن "جہاد اور قتال فی سبیل اللہ" کے نام پر فساد پھلانا چاہتے ہیں۔ پاکستان علما کونسل کے چیئرمین علامہ طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ منور حسن کا بیان قابل وضاحت ہے، اگر قتال فی سبيل الله موجود نظام کے خلاف کرنا ہے تو سراج الحق سے آغاز کریں۔ اس بیان سے جماعت اسلامی کا اصل مقصد اور خفیہ پروگرام ایک بار پھر عوام کے سامنے آگیا ہے اوراس سے یہ بات سمجھنا کوئی دشوار نہیں کہ پاکستان میں داعش(شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ) کی نمائندگی کون کر رہا ہے اور داعش کے قتل و غارت گری کے پیغام کو کون پھیلا رہا ہے۔ داعش کی کراچی اور لاہور میں موجودگی کی خبریں گذشتہ ایک ماہ سے زیادہ سے آرہی ہیں، کراچی اور لاہور میں داعش کی حمایت میں وال چاکنگ بھی کی گی ہے۔ لاہور میں پولیس نے دعوی کیا ہے کہ اُس نے داعش کی حمایت میں وال چاکنگ کرنے والے کچھ لوگوں کو پکڑا ہے۔ پہلے یہ شک تھا کہ داعش کی حمایت میں وال چاکنگ جماعت اسلامی کے دہشت گردوں نے کی ہے لیکن منور حسن کے دو ٹوک شرانگیز بیان سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ جماعت اسلامی ہی پاکستان میں داعش کےلیے کام کررہی ہے۔ ہوسکتا ہے پولیس یہ معلومات حاصل بھی کرچکی ہواور شایدپاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار کے علم میں یہ بات ہوکہ داعش کی حمایت میں وال چاکنگ جماعت اسلامی کے دہشت گردوں نے کی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ انہوں نے اطمینان سے فرمادیا کہ پاکستان میں داعش کا وجود نہیں ہے لیکن اب اس جھوٹے وزیر داخلہ کے بیان کی تردید وزارت خاجہ نے کردی اور پاکستان میں داعش کی موجودگی کو تسلیم کرلیا ہے۔

پاکستان میں مہذب کے نام پر جس قدر اسلام کو نقصان ان مذہبی سیاسی جماعتوں نے پہنچایا ہے اسکی مثال آپکو پوری دنیا میں نہیں ملے گی اور ان میں سرفہرست جماعت اسلامی ہے۔ اسکی ایک مثال 1970 کے عام انتخابات ہیں جس میں جماعت اسلامی نے نعرہ لگایا تھا کہ "اسلام خطرئے میں ہے" لیکن عوام نے جماعت کو مسترد کردیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ 1970 کے الیکشن میں جماعت کو جو ذلت آمیز شکت ہوئی تھی کیا پاکستان میں اسلام ختم ہوگیا ؟ جی نہیں اسلام قیامت تک قائم رہے گا مگر یہ جماعت اسلامی کےمنافق اسلام کو اپنے مفاد میں استمال کرنے سے باز نہیں آینگے۔ منافقت کی علامت ۔۔۔۔۔۔
منافقتکی علامات کیا ہیں؟ جواب:منافقتایسے طرز عمل کو کہتے ہیں جو قول و فعل کے تضاد سے عبارت ہو جس میں انسان کا ظاہر، باطن سے مختلف بلکہ برعکس ہو۔

شاہ صاحب جواب میں دو ٹوک عرض ہے کہ پاکستانی ابو بکر البغدادی عرف منافق منور حسن کا یہ بیان کہ "طالبان ہمارے بھائی ہیں" ایسے ہی ہے جیسے مستنصر حسین تارڑ نے اپنی ایک کتاب کا عنوان "اُلو ہمارے بھائی ہیں" رکھا تھا؛ جب اُلو کا بھائی اُلو ہوسکتا ہے تو پھر طالبان دہشت گردوں کےبھائی دہشت گرد ہی ہوسکتا ہے۔

آخر شاہ صاحب میرئے لیے شعر لکھنے کا شکریہ، میں نے اسکا مطلب اپنی سوچ کے مطابق کرلیا۔ امید ہے آج کےلیے یہ بھرپور ڈوز آپکے لیے کافی ہوگا۔
خوش رہیں واسلام۔ س ا م
 

x boy

محفلین
آئی لوو ضیاالحق
مرد مومن مرد حق

آئی لوو ایوب خان
شیردل شیر جان

مشرف اگر دو کام نہیں کرتا تو اسکی بھی تعریف کرتا۔
 

Fawad -

محفلین
روس کے افغانستان میں آنے کے بعد روس کو سبق سیکھانے کےلیے امریکہ کو کرائے کے فسادی درکار تھے اور اسکا کنٹریکٹ ضیاالحق کی حکومت اور جماعت اسلامی کو دیا گیا، جماعت تو پہلے ہی سے امریکہ کی غلامی کررہی تھی۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ دليل ميں نے اکثر اردو فورمز پر ديکھی ہے کہ چونکہ 80 کی دہائ ميں امريکہ نے عالمی برادری کے ساتھ مل کر افغان کے عوام کی مدد کی تھی اس ليے اسامہ بن لادن کے عفريت اور دنيا بھر ميں جاری دہشت گردی کے ليے امريکی حکومت اور سی آئ اے کو ہی مورد الزام قرار ديا جانا چاہیے۔

فورمز پر اکثر رائے دہندگان انتہائ جذباتی انداز ميں مجھے بے شمار پرانی تصاوير، خبروں اور بيانات کے ريفرنس ديتے ہیں اور پھر اس بات کا چيلنج بھی پيش کرتے ہيں کہ ان "ثبوتوں" کا جواب دوں۔ دلچسپ بات يہ ہے کہ اس ضمن ميں جو مواد فورمز پر پيش کيا جاتا ہے وہ اکثر تناظر سے ہٹ کر اور مسخ شدہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اکثر رائے دہندگان يہ پرجوش دعوی کرتے ہيں کہ 80 کی دہائ ميں امريکی اور طالبان ايک ہی صف میں کھڑے تھے، باوجود اس کے کہ طالبان کی تحريک قبائلی تنازعات کے باعث اس وقت پروان چڑھی تھی جب روسی افواج افغانستان سے نکل چکی تھيں اور ان کو اقتدار افغانستان ميں 1994 کے بعد اس وقت ملا تھا جب امريکہ کی جانب سے افغانستان کی مالی اور لاجسٹک امداد بند ہوئے کئ برس گزر چکے تھے۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ بھی واضح کر دوں کہ امريکی حکومت نے افغانستان ميں طالبان حکومت کو نہ ہی کبھی تسليم کيا اور نہ ہی اس کی حمايت کی۔ اس لیے يہ دليل اور دعوی بالکل بے بنياد ہے کہ امريکہ کو دہشت گردی کی اس لہر کے لیے موردالزام ٹھہرايا جا سکتا ہے جس کا آغاز اور اس ميں وسعت القائدہ اور اس سے منسلک تنظيموں کی جانب سے طالبان حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھی۔

امريکی حکام کی طرف سے پاکستانی حکام کو طالبان کی جانب سے مسلح دہشت گرد گروپوں کی پشت پناہی کے نتيجے ميں اس خطے ميں بالخصوص اور دنيا بھر ميں بالعموم دہشت گردی کے ممکنہ خطرات سے مسلسل آگاہ کيا گيا۔ قریب 30 سے زائد رپورٹوں ميں جس امر پر سب سے زيادہ زور ديا گيا اس کی بنياد دہشت گردی کے ضمن میں ممکنہ خطرات اور خدشات تھے۔ ہم نے حکام کو تنبہيہ کی تھی کہ وہ آگ سے کھيل رہے ہيں۔

اگر يہ دعوی مان ليا جائے کہ طالبان کے وہ ليڈر جنھوں نے اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھيوں کو افغانستان ميں پناہ گاہيں دی، وہ وہی ہيں جنھيں 80 کی دہائ ميں امريکہ اور عالمی برادری کی جانب سے مدد فراہم کی گئ تھی تو پھر تو امريکی حکومت اور امريکی شہريوں کو اس مدد کا تفصيلی حوالہ دے کر ان طالبان ليڈروں سے يہ سوال کرنا چاہيے کہ ان کی جانب سے اس شخص کو محفوظ ٹھکانہ کيوں فراہم کيا گيا جو کئ ہزار امريکی شہريوں کا قاتل تھا باوجود اس کے کہ افغانستان پر جب سويت يلغار کے دوران برا وقت آيا تو امريکہ ہی کی جانب سے مدد فراہم کی گئ تھی؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ

"جس پر احسان کرو۔ اس کے شر سے بچو"

امريکہ اور عالمی برادری کی جانب سے مدد کا کبھی بھی يہ مقصد نہيں تھا کہ دہشت گردی کو پھيلا کر دنيا کے سٹيج پر اس عفريت کو روشناس کروايا جائے۔ اس ضمن میں حتمی ذمہ داری اسامہ بن لادن اور ان کے
حمايتيوں کی ہے جنھوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے دنيا بھر ميں بے گناہ انسانوں کو نشانہ بنايا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

x boy

محفلین
امریکہ علی کرم اللہ وجہہ کی قول کو سامنے رکھ کر سب کچھ کررہی ہے
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ



حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ

"جس پر احسان کرو۔ اس کے شر سے بچو"

امريکہ اور عالمی برادری کی جانب سے مدد کا کبھی بھی يہ مقصد نہيں تھا کہ دہشت گردی کو پھيلا کر دنيا کے سٹيج پر اس عفريت کو روشناس کروايا جائے۔ اس ضمن میں حتمی ذمہ داری اسامہ بن لادن اور ان کے
حمايتيوں کی ہے جنھوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے دنيا بھر ميں بے گناہ انسانوں کو نشانہ بنايا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 
ًمحترم آپکی معلومات میں اضافے کے لیے عرض ہے کہ جہاد افغانستان کی ابتداء افغانوں نے تن تنہا کیا تھا۔ امریکہ بعد میں شامل ہوا اور واقعی اپنے مفاد کے پیش نظر آیا تھا۔پاکستان بھی اپنے مفاد کے تحت شامل ہوا مقصد روس کی گرم پانیوں تک رسائی کو راستہ روکنا تھا۔ سب کو اپنا مفاد عزیز تھا۔ ایسے میں اگر افغانوں نے باہر سے کوئی امداد قبول کر لی تو کیا ہرج ہے۔ سب ہی ایسا کرتے ہیں۔ آپ بھی تو ساتویں بحری بیڑے کا انتظار کرتے رہے تھے۔
 

x boy

محفلین
افغان جہاد سے مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا ہے
خاص طور پر طاقت یکطرفہ ہوگیا یا چلاگیا
جس کے بعد امریکہ ہر جگہہ اپنی رپ سونگ اورڈانس کو عام کرنے میں کامیاب ہوتا چلاگیا۔
اسرائیل کو بھی اس کے بعد کافی شہ مل گئی جو قتال اسرائیل اور امریکہ اب کررہے ہیں اس سے قبل انکی جرات نہیں تھی۔
جس کو چاہے جب چاہے کہہ دے کہ تم دنیا کے لئے خطرہ ہو اور ہم تمہارا کریک ڈاؤن کرینگے۔
 
شاہ صاحب یہ تو نہیں معلوم کہ 1980 میں آپکی کیا عمر تھی۔ برحال فواد اُس یو ایس ایڈ کی بات کررہا جو 1980 میں آپکی جماعت اسلامی اور جنرل ضیاء کھاتے رہے۔ روس کے افغانستان میں آنے کے بعد روس کو سبق سیکھانے کےلیے امریکہ کو کرائے کے فسادی درکار تھے اور اسکا کنٹریکٹ ضیاالحق کی حکومت اور جماعت اسلامی کو دیا گیا، جماعت تو پہلے ہی سے امریکہ کی غلامی کررہی تھی۔ 1977 میں امریکہ نے ڈالر دیے اور جماعت اسلامی نے نظام مصطفی کا نعرہ لگاکر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلائی اور اپنی منافقت سے ضیا الحق کے ساتھ ملکر بھٹو کو پھانسی دے دی۔ نظام مصطفی توآجتک نہیں آیا مگر منافق ضیاالحق ضرور آگیا تھا۔ امریکی ڈالر کے سہارئے جماعت اسلامی نے ساری دنیا سے فسادی لاکر پاکستان اور افغانستان میں جمع کیے اورنام نہاد جہاد کے بہانے فساد برپا کرتے رہے، روس تو واپس چلا گیا مگر بڑا درندہ امریکہ واپس جاکر پھر لوٹ آیا وجہ تھی وہ فسادی جو پہلے امریکہ کے پالتو تھے اب وہ ہی امریکہ کو آنکھیں دیکھارہے تھے، جن میں سب بڑا فسادی اسامہ بن لادن بھی تھا۔ 9/11 کے بعد امریکہ جاہل ملا عمر سے اسامہ بن لادن کو مانگ رہا تھا، اگر اس جاہل انسان میں عقل ہوتی تو اسامہ کو افغانستان سے نکال دیتا جیسا اس سے پہلے سوڈان کرچکا تھا مگرایسا نہ ہوا اور امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ جماعت اسلامی اپنا کھیل کھیل رہی تھی کیوں کہ ارب پتی اسامہ سے جماعت اسلامی مالی اور سیاسی فائدہ اٹھارہی تھی ۔ سابق جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد تو اسامہ بن لادن کے بہت بڑئے فین تھے اور منافقت میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ جماعت اسلامی اور دہشت گردوں کے حامیوں نے پرویز مشرف کو استمال کیا اور متحدہ مجلس عمل کا خیام عمل میں آیا، ایم ایم ائے میں وہ تمام جماعتیں موجود تھیں جو طالبان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتی ہیں۔ پرویز مشرف کو بھی سیاسی حمایت چاہیے تھی لہذا 2002کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے قومی اسمبلی کی 68 نشستیں حاصل کیں،سرحد اور بلوچستان میں متحدہ مجلس عمل کی حمایت یافتہ حکومتیں قائم ہوئیں۔ 28دسمبر 2003کوقاضی حسین احمد،مولانا فضل الرحمن و دیگر قائدین کی موجودگی میں متحدہ مجلس عمل نے آئین میں 17ویں آئینی ترمیم کا بل یعنی لیگل فریم ورک آرڈر منظور کرکے پرویز مشرف کی حکمرانی کو آئینی و قانونی جواز فراہم کردیا اوراسکے ساتھ ہی متحدہ مجلس عمل ”ملا ملٹری الائنس“ بن گی۔ اس ملا ملٹری الائنس نے عوام کے لیے تو کچھ نہیں کیا، مگریا تو مشرف کی خدمت کی یا پھر دہشت گردوں کی تعدادبڑھائی اور سیاسی طور پر حمایت کی جو آج بھی جاری ہے۔القاعدہ کے کمزور پڑنے کے بعد فسادیوں کو پاکستانی طالبان کا نام دیا گیا اور پھر پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز ہوا، دوسری طرف ہندوستانی خفیہ ایجینسی را نے بھی طالبان دہشت گردوں کو اپنا خدمت گذار بنالیا۔ منافقت یہ ہے کہ جس مشرف کی حکمرانی کو آئینی و قانونی جواز فراہم کیا آج اسکے سب سے بڑئے مخالف منافق منور حسن ہیں اور مرحوم قاضی حسین احمد تھے۔

شاہ صاحب اگر کسی تبصرئے کا جواب معلوم نہ ہو ایک لکھاری کو "غیر متفق" کے جواب جچتا نہیں، آپنے بجائے ناصر علی مرزا کے تبصرئے پر جواب دینے کہ "غیر متفق" کا بٹن دبا دیا۔ اصل بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن جو دہشت گرد طالبان کو اپنا بھائی کہتے ہیں، طالبان دہشت گردوں کے ہاتھوں باون ہزار سے زیادہ شہید ہونے والے لوگوں کو جن میں عام آدمی، پولیس کے سپاہی، رینجرز کے اہلکار اور پاکستانی فوج کے اہلکار شامل ہیں اُنکو شہید ماننے سے انکار کرتے ہیں لیکن ہزاروں انسانوں کے قاتل دہشت گردحکیم محسود کو شہید کہتے ہیں۔ وہ متنازعہ بیانات دینے میں شہرت رکھتے ہیں۔ منور حسن نے مینار پاکستان پر 22 نومبر کوجماعت اسلامی کے اجتماع میں اپنی تقریر اُنہوں نے کہا کہ"جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کے لفظ کا استعمال متروک ہوتا جا رہا ہے، وہ ڈنکے کی چوٹ پر اور بلاخوف و تردید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں اس میں اگر جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کے کلچر کو عام نہیں کیا گیا تو محض انتخابی سیاست اور جمہوری سیاست کے ذریعے اس وقت کے حالات پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے"۔

قتال فی سبیل اللہ کا مطلب ہے، "اللہ کے راستے میں مسلح جنگ"۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جنگ میں شریک انسان کو صرف اور صرف اپنے رب کی رضا جوئی مقصود ہوتی ہے، اور یہ اُن شرائط کے مطابق لڑی جاتی ہے جو ہم پر دین کی طرف سے لازم کی گئی ہیں۔حضورؐ نے فرمایا: ’’لڑائیاں دوقسم کی ہیں۔جس نے خالص اللہ کی رضاجوئی کےلئیے لڑائی کی۔اس میں اپنے حکمران کی اطاعت کی،اپنا بہترین مال خرچ کیا،اپنے ساتھیوں کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کیا اور فساد سے اجتناب کیا، تو اس کا سونا جاگنا سب باعثِ اجر ہوگا۔اس کے برعکس جس نے دنیا کو دکھانے اور شہرت وناموری کے لئے تلوار اٹھائی،اپنے حکمران کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد پھیلایا تو وہ برابر بھی نہ چھو ٹے گا‘‘۔ (نسائی۔حدیث نمبر3188) ۔۔۔۔ بحوالہ کتاب: ۔۔۔جہاد و قتال ، مصنف فاروق خان۔۔۔۔۔

منور حسن جو شرانگیز بیانات دینے اور دہشت گردوں کو اپنا بھائی کہنے میں مشہور ہیں اُنکا یہ دو ٹوک بیان ریاست کی نافرمانی کرنےاور فساد پھلانے کےلیے ہے۔ پاکستان کی فوج کی جانب سےآپریشن ضرب عضب کے بعد دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گی ہے، منور حسن "جہاد اور قتال فی سبیل اللہ" کے نام پر فساد پھلانا چاہتے ہیں۔ پاکستان علما کونسل کے چیئرمین علامہ طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ منور حسن کا بیان قابل وضاحت ہے، اگر قتال فی سبيل الله موجود نظام کے خلاف کرنا ہے تو سراج الحق سے آغاز کریں۔ اس بیان سے جماعت اسلامی کا اصل مقصد اور خفیہ پروگرام ایک بار پھر عوام کے سامنے آگیا ہے اوراس سے یہ بات سمجھنا کوئی دشوار نہیں کہ پاکستان میں داعش(شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ) کی نمائندگی کون کر رہا ہے اور داعش کے قتل و غارت گری کے پیغام کو کون پھیلا رہا ہے۔ داعش کی کراچی اور لاہور میں موجودگی کی خبریں گذشتہ ایک ماہ سے زیادہ سے آرہی ہیں، کراچی اور لاہور میں داعش کی حمایت میں وال چاکنگ بھی کی گی ہے۔ لاہور میں پولیس نے دعوی کیا ہے کہ اُس نے داعش کی حمایت میں وال چاکنگ کرنے والے کچھ لوگوں کو پکڑا ہے۔ پہلے یہ شک تھا کہ داعش کی حمایت میں وال چاکنگ جماعت اسلامی کے دہشت گردوں نے کی ہے لیکن منور حسن کے دو ٹوک شرانگیز بیان سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ جماعت اسلامی ہی پاکستان میں داعش کےلیے کام کررہی ہے۔ ہوسکتا ہے پولیس یہ معلومات حاصل بھی کرچکی ہواور شایدپاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار کے علم میں یہ بات ہوکہ داعش کی حمایت میں وال چاکنگ جماعت اسلامی کے دہشت گردوں نے کی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ انہوں نے اطمینان سے فرمادیا کہ پاکستان میں داعش کا وجود نہیں ہے لیکن اب اس جھوٹے وزیر داخلہ کے بیان کی تردید وزارت خاجہ نے کردی اور پاکستان میں داعش کی موجودگی کو تسلیم کرلیا ہے۔

پاکستان میں مہذب کے نام پر جس قدر اسلام کو نقصان ان مذہبی سیاسی جماعتوں نے پہنچایا ہے اسکی مثال آپکو پوری دنیا میں نہیں ملے گی اور ان میں سرفہرست جماعت اسلامی ہے۔ اسکی ایک مثال 1970 کے عام انتخابات ہیں جس میں جماعت اسلامی نے نعرہ لگایا تھا کہ "اسلام خطرئے میں ہے" لیکن عوام نے جماعت کو مسترد کردیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ 1970 کے الیکشن میں جماعت کو جو ذلت آمیز شکت ہوئی تھی کیا پاکستان میں اسلام ختم ہوگیا ؟ جی نہیں اسلام قیامت تک قائم رہے گا مگر یہ جماعت اسلامی کےمنافق اسلام کو اپنے مفاد میں استمال کرنے سے باز نہیں آینگے۔ منافقت کی علامت ۔۔۔۔۔۔
منافقتکی علامات کیا ہیں؟ جواب:منافقتایسے طرز عمل کو کہتے ہیں جو قول و فعل کے تضاد سے عبارت ہو جس میں انسان کا ظاہر، باطن سے مختلف بلکہ برعکس ہو۔

شاہ صاحب جواب میں دو ٹوک عرض ہے کہ پاکستانی ابو بکر البغدادی عرف منافق منور حسن کا یہ بیان کہ "طالبان ہمارے بھائی ہیں" ایسے ہی ہے جیسے مستنصر حسین تارڑ نے اپنی ایک کتاب کا عنوان "اُلو ہمارے بھائی ہیں" رکھا تھا؛ جب اُلو کا بھائی اُلو ہوسکتا ہے تو پھر طالبان دہشت گردوں کےبھائی دہشت گرد ہی ہوسکتا ہے۔

آخر شاہ صاحب میرئے لیے شعر لکھنے کا شکریہ، میں نے اسکا مطلب اپنی سوچ کے مطابق کرلیا۔ امید ہے آج کےلیے یہ بھرپور ڈوز آپکے لیے کافی ہوگا۔
خوش رہیں واسلام۔ س ا م


ًمحترم آپکی معلومات میں اضافے کے لیے عرض ہے کہ جہاد افغانستان کی ابتداء افغانوں نے تن تنہا کیا تھا۔ امریکہ بعد میں شامل ہوا اور واقعی اپنے مفاد کے پیش نظر آیا تھا۔پاکستان بھی اپنے مفاد کے تحت شامل ہوا مقصد روس کی گرم پانیوں تک رسائی کو راستہ روکنا تھا۔ سب کو اپنا مفاد عزیز تھا۔ ایسے میں اگر افغانوں نے باہر سے کوئی امداد قبول کر لی تو کیا ہرج ہے۔ سب ہی ایسا کرتے ہیں۔ آپ بھی تو ساتویں بحری بیڑے کا انتظار کرتے رہے تھے
 
images
 
شاہ صاحب یہ تو نہیں معلوم کہ 1980 میں آپکی کیا عمر تھی۔ برحال فواد اُس یو ایس ایڈ کی بات کررہا جو 1980 میں آپکی جماعت اسلامی اور جنرل ضیاء کھاتے رہے۔ روس کے افغانستان میں آنے کے بعد روس کو سبق سیکھانے کےلیے امریکہ کو کرائے کے فسادی درکار تھے اور اسکا کنٹریکٹ ضیاالحق کی حکومت اور جماعت اسلامی کو دیا گیا، جماعت تو پہلے ہی سے امریکہ کی غلامی کررہی تھی۔ 1977 میں امریکہ نے ڈالر دیے اور جماعت اسلامی نے نظام مصطفی کا نعرہ لگاکر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلائی اور اپنی منافقت سے ضیا الحق کے ساتھ ملکر بھٹو کو پھانسی دے دی۔ نظام مصطفی توآجتک نہیں آیا مگر منافق ضیاالحق ضرور آگیا تھا۔ امریکی ڈالر کے سہارئے جماعت اسلامی نے ساری دنیا سے فسادی لاکر پاکستان اور افغانستان میں جمع کیے اورنام نہاد جہاد کے بہانے فساد برپا کرتے رہے، روس تو واپس چلا گیا مگر بڑا درندہ امریکہ واپس جاکر پھر لوٹ آیا وجہ تھی وہ فسادی جو پہلے امریکہ کے پالتو تھے اب وہ ہی امریکہ کو آنکھیں دیکھارہے تھے، جن میں سب بڑا فسادی اسامہ بن لادن بھی تھا۔ 9/11 کے بعد امریکہ جاہل ملا عمر سے اسامہ بن لادن کو مانگ رہا تھا، اگر اس جاہل انسان میں عقل ہوتی تو اسامہ کو افغانستان سے نکال دیتا جیسا اس سے پہلے سوڈان کرچکا تھا مگرایسا نہ ہوا اور امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ جماعت اسلامی اپنا کھیل کھیل رہی تھی کیوں کہ ارب پتی اسامہ سے جماعت اسلامی مالی اور سیاسی فائدہ اٹھارہی تھی ۔ سابق جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد تو اسامہ بن لادن کے بہت بڑئے فین تھے اور منافقت میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ جماعت اسلامی اور دہشت گردوں کے حامیوں نے پرویز مشرف کو استمال کیا اور متحدہ مجلس عمل کا خیام عمل میں آیا، ایم ایم ائے میں وہ تمام جماعتیں موجود تھیں جو طالبان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتی ہیں۔ پرویز مشرف کو بھی سیاسی حمایت چاہیے تھی لہذا 2002کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے قومی اسمبلی کی 68 نشستیں حاصل کیں،سرحد اور بلوچستان میں متحدہ مجلس عمل کی حمایت یافتہ حکومتیں قائم ہوئیں۔ 28دسمبر 2003کوقاضی حسین احمد،مولانا فضل الرحمن و دیگر قائدین کی موجودگی میں متحدہ مجلس عمل نے آئین میں 17ویں آئینی ترمیم کا بل یعنی لیگل فریم ورک آرڈر منظور کرکے پرویز مشرف کی حکمرانی کو آئینی و قانونی جواز فراہم کردیا اوراسکے ساتھ ہی متحدہ مجلس عمل ”ملا ملٹری الائنس“ بن گی۔ اس ملا ملٹری الائنس نے عوام کے لیے تو کچھ نہیں کیا، مگریا تو مشرف کی خدمت کی یا پھر دہشت گردوں کی تعدادبڑھائی اور سیاسی طور پر حمایت کی جو آج بھی جاری ہے۔القاعدہ کے کمزور پڑنے کے بعد فسادیوں کو پاکستانی طالبان کا نام دیا گیا اور پھر پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز ہوا، دوسری طرف ہندوستانی خفیہ ایجینسی را نے بھی طالبان دہشت گردوں کو اپنا خدمت گذار بنالیا۔ منافقت یہ ہے کہ جس مشرف کی حکمرانی کو آئینی و قانونی جواز فراہم کیا آج اسکے سب سے بڑئے مخالف منافق منور حسن ہیں اور مرحوم قاضی حسین احمد تھے۔

شاہ صاحب اگر کسی تبصرئے کا جواب معلوم نہ ہو ایک لکھاری کو "غیر متفق" کے جواب جچتا نہیں، آپنے بجائے ناصر علی مرزا کے تبصرئے پر جواب دینے کہ "غیر متفق" کا بٹن دبا دیا۔ اصل بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن جو دہشت گرد طالبان کو اپنا بھائی کہتے ہیں، طالبان دہشت گردوں کے ہاتھوں باون ہزار سے زیادہ شہید ہونے والے لوگوں کو جن میں عام آدمی، پولیس کے سپاہی، رینجرز کے اہلکار اور پاکستانی فوج کے اہلکار شامل ہیں اُنکو شہید ماننے سے انکار کرتے ہیں لیکن ہزاروں انسانوں کے قاتل دہشت گردحکیم محسود کو شہید کہتے ہیں۔ وہ متنازعہ بیانات دینے میں شہرت رکھتے ہیں۔ منور حسن نے مینار پاکستان پر 22 نومبر کوجماعت اسلامی کے اجتماع میں اپنی تقریر اُنہوں نے کہا کہ"جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کے لفظ کا استعمال متروک ہوتا جا رہا ہے، وہ ڈنکے کی چوٹ پر اور بلاخوف و تردید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں اس میں اگر جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کے کلچر کو عام نہیں کیا گیا تو محض انتخابی سیاست اور جمہوری سیاست کے ذریعے اس وقت کے حالات پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے"۔

قتال فی سبیل اللہ کا مطلب ہے، "اللہ کے راستے میں مسلح جنگ"۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جنگ میں شریک انسان کو صرف اور صرف اپنے رب کی رضا جوئی مقصود ہوتی ہے، اور یہ اُن شرائط کے مطابق لڑی جاتی ہے جو ہم پر دین کی طرف سے لازم کی گئی ہیں۔حضورؐ نے فرمایا: ’’لڑائیاں دوقسم کی ہیں۔جس نے خالص اللہ کی رضاجوئی کےلئیے لڑائی کی۔اس میں اپنے حکمران کی اطاعت کی،اپنا بہترین مال خرچ کیا،اپنے ساتھیوں کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کیا اور فساد سے اجتناب کیا، تو اس کا سونا جاگنا سب باعثِ اجر ہوگا۔اس کے برعکس جس نے دنیا کو دکھانے اور شہرت وناموری کے لئے تلوار اٹھائی،اپنے حکمران کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد پھیلایا تو وہ برابر بھی نہ چھو ٹے گا‘‘۔ (نسائی۔حدیث نمبر3188) ۔۔۔۔ بحوالہ کتاب: ۔۔۔جہاد و قتال ، مصنف فاروق خان۔۔۔۔۔

منور حسن جو شرانگیز بیانات دینے اور دہشت گردوں کو اپنا بھائی کہنے میں مشہور ہیں اُنکا یہ دو ٹوک بیان ریاست کی نافرمانی کرنےاور فساد پھلانے کےلیے ہے۔ پاکستان کی فوج کی جانب سےآپریشن ضرب عضب کے بعد دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گی ہے، منور حسن "جہاد اور قتال فی سبیل اللہ" کے نام پر فساد پھلانا چاہتے ہیں۔ پاکستان علما کونسل کے چیئرمین علامہ طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ منور حسن کا بیان قابل وضاحت ہے، اگر قتال فی سبيل الله موجود نظام کے خلاف کرنا ہے تو سراج الحق سے آغاز کریں۔ اس بیان سے جماعت اسلامی کا اصل مقصد اور خفیہ پروگرام ایک بار پھر عوام کے سامنے آگیا ہے اوراس سے یہ بات سمجھنا کوئی دشوار نہیں کہ پاکستان میں داعش(شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ) کی نمائندگی کون کر رہا ہے اور داعش کے قتل و غارت گری کے پیغام کو کون پھیلا رہا ہے۔ داعش کی کراچی اور لاہور میں موجودگی کی خبریں گذشتہ ایک ماہ سے زیادہ سے آرہی ہیں، کراچی اور لاہور میں داعش کی حمایت میں وال چاکنگ بھی کی گی ہے۔ لاہور میں پولیس نے دعوی کیا ہے کہ اُس نے داعش کی حمایت میں وال چاکنگ کرنے والے کچھ لوگوں کو پکڑا ہے۔ پہلے یہ شک تھا کہ داعش کی حمایت میں وال چاکنگ جماعت اسلامی کے دہشت گردوں نے کی ہے لیکن منور حسن کے دو ٹوک شرانگیز بیان سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ جماعت اسلامی ہی پاکستان میں داعش کےلیے کام کررہی ہے۔ ہوسکتا ہے پولیس یہ معلومات حاصل بھی کرچکی ہواور شایدپاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار کے علم میں یہ بات ہوکہ داعش کی حمایت میں وال چاکنگ جماعت اسلامی کے دہشت گردوں نے کی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ انہوں نے اطمینان سے فرمادیا کہ پاکستان میں داعش کا وجود نہیں ہے لیکن اب اس جھوٹے وزیر داخلہ کے بیان کی تردید وزارت خاجہ نے کردی اور پاکستان میں داعش کی موجودگی کو تسلیم کرلیا ہے۔

پاکستان میں مہذب کے نام پر جس قدر اسلام کو نقصان ان مذہبی سیاسی جماعتوں نے پہنچایا ہے اسکی مثال آپکو پوری دنیا میں نہیں ملے گی اور ان میں سرفہرست جماعت اسلامی ہے۔ اسکی ایک مثال 1970 کے عام انتخابات ہیں جس میں جماعت اسلامی نے نعرہ لگایا تھا کہ "اسلام خطرئے میں ہے" لیکن عوام نے جماعت کو مسترد کردیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ 1970 کے الیکشن میں جماعت کو جو ذلت آمیز شکت ہوئی تھی کیا پاکستان میں اسلام ختم ہوگیا ؟ جی نہیں اسلام قیامت تک قائم رہے گا مگر یہ جماعت اسلامی کےمنافق اسلام کو اپنے مفاد میں استمال کرنے سے باز نہیں آینگے۔ منافقت کی علامت ۔۔۔۔۔۔
منافقتکی علامات کیا ہیں؟ جواب:منافقتایسے طرز عمل کو کہتے ہیں جو قول و فعل کے تضاد سے عبارت ہو جس میں انسان کا ظاہر، باطن سے مختلف بلکہ برعکس ہو۔

شاہ صاحب جواب میں دو ٹوک عرض ہے کہ پاکستانی ابو بکر البغدادی عرف منافق منور حسن کا یہ بیان کہ "طالبان ہمارے بھائی ہیں" ایسے ہی ہے جیسے مستنصر حسین تارڑ نے اپنی ایک کتاب کا عنوان "اُلو ہمارے بھائی ہیں" رکھا تھا؛ جب اُلو کا بھائی اُلو ہوسکتا ہے تو پھر طالبان دہشت گردوں کےبھائی دہشت گرد ہی ہوسکتا ہے۔

آخر شاہ صاحب میرئے لیے شعر لکھنے کا شکریہ، میں نے اسکا مطلب اپنی سوچ کے مطابق کرلیا۔ امید ہے آج کےلیے یہ بھرپور ڈوز آپکے لیے کافی ہوگا۔
خوش رہیں واسلام۔ س ا م


اور اگر آپ نے تفصیل سے افغانستان کی تاریخ پڑھی ہو تو میں آپکہ یاد دلاتا چلوں کہ احمدشا مسعود، حکمت یار اور پروفیسر ربانی کے اسلامی اتحاد کو1975 میں داود خان کی حکومت کے خلاف تربیت اور وسائل بھٹو مرحوم نے فراہم کیے تھے۔ بعد میں یہی اتحاد روس کے خلاف لڑا۔ بعد ازاں ان کی آپس کی لڑایئوں اور حکومت کے ظلم کے خلاف طالبان کا میدان میں آئے۔ضیاء مرحوم نے بھٹو مرحوم کی پالیسیوں کو جاری رکھا۔ جیسے افغان جنگ، ایٹمی پروگرام، اسلامی ممالک کا اتحاد یہ ساری شروعات بھٹو صاحب نے کی ضیاء مرحوم نے انکو جاری رکھا۔ مگر سارا نزلہ ضیاء صاحب پر کیوں گرتا ہے۔ یہی وہ منافقانہ رویہ ہے جس کا میں نے اپنی دوسرے اور تیسرے مضمون میں ذکر کیا۔۔
اب خدارا مجھے ضیاء صاحب کا حامی مت سمجھ لیجیے گا میں بس تاریخ کا طالب علم ہوں۔ اور درست تاریخ بیان کرنے پہ مجبور ہوں۔۔
 
Top