فرحت کیانی

لائبریرین
دو پیڑ تھے بچارے

بستی میں اک کنارے
دو پیڑ تھے بچارے
کہتے تھے اپنا دکھڑا
کس کو سنائیں پیارے
انساں نے ہم سے بدلے
کس بات کے اُتارے
ہم تو انہیں دکھائیں
دلکش ، حسیں نظارے
خود پاس کچھ نہ رکھیں
پھل ان کو دے دیں سارے
ان کے مویشیوں کو
دیں ہم ہی سبز چارے
بارش ہو ہم جو چھوڑیں
کچھ بھاپ کے غبارے
ہو دھوپ چچلاتی
تب ہم بنیں سہارے
گرمی میں ہم چلائیں
ٹھنڈی ہوا کے دھارے
گندی ہوا کو چھانیں
شاخوں کو ہم پسارے
لیکن صلہ یہ پایا
ان خدمتوں کا پیارے
مارے کوئی کلہاڑی
کوئی چلائے آرے
بچوں کا غول آیا
جب بھی تلے ہمارے
شاخیں کسی نے توڑیں
پتھر کسی نے مارے
چاقو سے نام کھودا
چھلکے بھی چھین اُتارے
ہم تو یہاں پہ اُگ کے
مارے گئے ہیں، مارے
جنگل میں ہم جو اُگتے
ہوتے مزے ہمارے
دن ، شہری زندگی کے
کس دُکھ سے ہیں گزارے



احمد حاطب صدیقی
 
Top