دو مطلع

محمد بلال اعظم

لائبریرین
دو مطلعے برائے اصلاح
اس شہر میں آندھی کے نظر آتے ہیں آثار​
شاید کسی مزدور کی محنت گئی بیکار​
اور​
سوکھا ہوا جنگل ہوں، مجھے آگ لگا دو​
اور پھر کسی دریا میں مری راکھ بہا دو​
استادِ مترم الف عین صاحب​
محمداحمد بھائی
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
مجھے تو اصلاح کی صورت نظر نہیں آرہی اس وقت۔۔۔ رہی وزن کی بات تو آپ کی تقطیع پر شبہ فی الحال تو نہیں ہوا۔۔۔

تقطیع بحر ھزج میں کی ہے۔

مفعول/ مفاعیل/ مفاعیل/فعولان
اس شہر/ مِ آدی کے/ نظر آتِ/ ہِ آثار​
شاید ک/سِ مزدور/ کِ محنت گ/ئی بیکار​

اور

مفعول/ مفاعیل/ مفاعیل/فعولن
سوکا ہُ/ وَ جنگل ہُ/ مجے آگ/ لگا دو​
ار پر ک /سِ دریا مِ/ مری راک/ بہا دو​
 
پہلے شعر میں زمانے کا استعمال غلط ہے۔
اس شہر میں آندھی کے نظر آتے ہیں آثار
شاید کسی مزدور کی محنت گئی بیکار
ابھی تو آثار ہی نظر آتے ہیں تو محنت بیکار کیسے چلی گئی؟​
محنت بیکار ہونے کو امکان کے طور پر باندھو تو درست ہوجائے۔​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
پہلے شعر میں زمانے کا استعمال غلط ہے۔
اس شہر میں آندھی کے نظر آتے ہیں آثار
شاید کسی مزدور کی محنت گئی بیکار
ابھی تو آثار ہی نظر آتے ہیں تو محنت بیکار کیسے چلی گئی؟​
محنت بیکار ہونے کو امکان کے طور پر باندھو تو درست ہوجائے۔​

میرا مطلب یہ تھا کہ "آندھی کے آثار بتلا رہے ہیں کہ کسی مزدور کی محنت بیکار چلی گئی ہے"۔
محنت بیکار چلی گئی ہے، یہ چیز آندھی کے آثار بتا رہے ہیں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میرا مطلب یہ تھا کہ "آندھی کے آثار بتلا رہے ہیں کہ کسی مزدور کی محنت بیکار چلی گئی ہے"۔
محنت بیکار چلی گئی ہے، یہ چیز آندھی کے آثار بتا رہے ہیں۔
کچھ چیزیں شاعر کو خود بھی معلوم نہیں ہوتیں لیکن وہ کہہ دیتا ہے۔ اس شعر کا ایک مطلب یہ بھی نکال سکتے ہیں کہ مزدور کی محنت بے کار چلی گئی، اس سے خدا کا غضب جو نازل ہونے کو ہے، اس سے شہر میں آندھی کے آثار نظر آتے ہیں۔ مطالب اور بھی ہوسکتے ہیں لیکن استاد محترم اور مزمل بھائی شاید اس پر کچھ روشنی ڈالنا چاہیں کہ جومطلب میں نے اخذ کیا ہے وہ درست ہے یا نہیں اور اگر ہے تو اس شعر میں اس کا استعمال ٹھیک طرح سے آپ کر پائے یا نہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
پہلے شعر میں زمانے کا استعمال غلط ہے۔
اس شہر میں آندھی کے نظر آتے ہیں آثار
شاید کسی مزدور کی محنت گئی بیکار
ابھی تو آثار ہی نظر آتے ہیں تو محنت بیکار کیسے چلی گئی؟​
محنت بیکار ہونے کو امکان کے طور پر باندھو تو درست ہوجائے۔​
امکان ظاہر کرنے کے لئے ’شاید‘ کا استعمال تو ہے ہی!!
میرے خیال میں دونوں مطلع درست ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ اطلا ع بھی دے دوں کہ اصلاح کا کام شروع کر چکا ہوں، شاید شام یا کل صبح تک آج سے پہلے تک کی کاپی ہوئی شاعری کی اصلاح کر دی جائے گی۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کچھ چیزیں شاعر کو خود بھی معلوم نہیں ہوتیں لیکن وہ کہہ دیتا ہے۔ اس شعر کا ایک مطلب یہ بھی نکال سکتے ہیں کہ مزدور کی محنت بے کار چلی گئی، اس سے خدا کا غضب جو نازل ہونے کو ہے، اس سے شہر میں آندھی کے آثار نظر آتے ہیں۔ مطالب اور بھی ہوسکتے ہیں لیکن استاد محترم اور مزمل بھائی شاید اس پر کچھ روشنی ڈالنا چاہیں کہ جومطلب میں نے اخذ کیا ہے وہ درست ہے یا نہیں اور اگر ہے تو اس شعر میں اس کا استعمال ٹھیک طرح سے آپ کر پائے یا نہیں۔

متفق
 
Top