دو قومی نظریہ ( غیرمستند تاریخ و حقائق )

ظفری

لائبریرین
پاکستان کی نظریاتی اساس دو قومی نظریے کی بنیاد پہ قائم ہے۔ چونکہ مسلمان حکمرانوں کو زمین پر خدا کا سایہ تصور کیا جاتا ہے اس لیےحکمرانی کے لائق ایک قوم مسلمان تهی جبکہ دوسری قوم غلامی کے لائق ہندو تهی۔دو قومی نظریے کی بنیاد محمد بن قاسم کے دیبل فتح کرنے کے ساتھ پڑی۔ جس نے ستره سال کی عمر میں ایک جری جرنیل کی صورت میں راجہ داہر کو مار کر مسلمانوں کی عزتیں بچائیں لیکن اپنی زندگی بچا نہ سکا اور بیل کی کهال میں سی کر واپس خدا جانے پہنچا بهی کہ نہیں پہنچا۔
چونکہ تاریخ میرا موضوع نہیں ہے۔ اس لیے کچھ عرصے تک دو قومی نظریہ جنگ و جدال کی کیفیت میں رہا تا حال کہ
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
کی صورت میں انسانی تاریخ کے عادل ترین بادشاه امیر تیمور عرف تیمور لنگ نے اس کی نگہداشت کی۔
دو قومی نظریے کی پاسبانی خلجیوں، تغلقوں، سیدوں اور لودهیوں نے کمال بصیرت انگیزی، السلطان ظلل اللہ علی الارض کے عملی نمونے اور جنگ و جدال کے بغیر کی۔
"ایک مرتبہ پهر پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے" کی صورت میں فرغانہ سے بهگایا ہوا ظہیر الدین دو قومی نظریئے کا بابر اعظم ہوا۔اور دو قومی نظریہ بہادر شاه ظفر کی شاعری تک سلامت رہا۔ بیچ میں اگر کہیں ہندووں نے اپنے فرائض منصبی (غلامی) سے رو گردانی کی کوشش کرنی چاہی تو حضرت شاه صاحب نے اپنے ایک خواب کی بنیاد پر احمد شاه ابدالی کو دعوت دی، احمد شاه ابدالی نے دو قومی نظریے کا پاسبان بن کر ہندووں کو واپس اپنے فرض منصبی پر فائز کر دیا۔چونکہ مغل ظل الہی تاریخ و ادب سے گہری دلچسپی رکهتے تهے ۔اس لیے اپنی تزکیں لکهنے کا ساتھ ساتھ مسلمان قوم کو اپنی تاریخ پر فخر کرنے کے لیے تاریخی مقامات تعمیر کرتے رہے۔اسی دوران ہندووں کی طرح ایک اور بدبخت قوم انگریزوں نے دو قومی نظریے پر خواب غفلت میں حملہ کر دیا۔
یہاں سے پهر دو قومی نظریے کا خواب پہلے سر سید نے دیکها جس کو زیاده پذیرائی نہیں ملی کہ وه پہلے ہی مذہبی طور پر معطون ٹہرائے جاچکے تھے۔اس لیے دوسرا خواب علامہ اقبال نے دیکها۔ جس کو حضرات خطبہ الہ آباد کے نام سے موسوم کرتے ہیں، گو کہ اقبال نے دو قومی نظریے کے خد و خال وضع کرنے کی کوشش کی لیکن عرصہ دس سال بعد اور اقبال کی موت کے دو سال بعد پاکستان برآمد کر لیا۔گو کہ محمد علی جناح صاحب نے دو قومی نظریے کی پاسداری ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے بهی کرنے کی کوشش کی ۔لیکن نہرو نامی ایک ہندو کے غلط بیانی کی وجہ سے دو قومی نظریہ پاکستان میں تبدیل ہوتا ہوا نظر آیا۔ساتھ ساتھ انگریزوں کے دانت بهی دوسری جنگ عظیم نے کهٹے کر دیے تهے۔ اور ویسے بھی دنیا میں نوآبادیاتی نظام کی جڑیں ختم ہو چکی تهیں۔سو دو قومی نظریہ ، نظریہ پاکستان میں بدل گیا۔
چونکہ دو قومی نظریہ اور نظریہ پاکستان ایک قرار پائے تهے اور نظریہ پاکستان محمد بن قاسم سے شروع ہوا تها جس میں لاکهوں مسلمانوں کی قربانیاں ، کچھ ہندووں، مرہٹوں اور سکهوں کی گردنیں اور دیگرکروڑوں انسانوں کا خون شامل تها۔ اس لیے ناگزیر تها بلکہ ہمارے ممدوحین ،بابا قدرت اللہ شہاب، بابا ممتاز مفتی اور بابا اشفاق احمد صاحب تو اس کے مستقبل کے بهی ضامن تهے. ان کا فرمان تها کہ یہ مملکتِ خداداد اولیاء کی کرامات سے بنا ہے۔جبکہ ایک بابا محمد یحیی خان تو فرماتے ہیں کے یہ مملکت پیغمبرِ خدااور علی ابن ابی طالب نے بنائی ہے۔(گو اس سارے مضمون میں میں بابا محمد یحیی سے اختلاف کی جسارت کروں گا کہ انہوں نے کچھ مبالغہ آر ائی سے کام لیا ہے)۔ویسے مملکتِ خداداد کی تشکیل میں خوابوں کا بہت عمل دخل ہے کہ اچهے خواب تو ویسے بهی نبوت کا چالیسواں حصہ ہے۔شاه صاحب کی خواب کا ذکرہو چکا هے۔علامہ شبیر عثمانی صاحب نے بهی محمد علی جناح کے بارے میں خواب دیکها اور نماز جنازه بھی پڑهائی۔خان آف قلات نے پیغمبرِ خدا کو خواب میں دیکها اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا حکم پایا۔ حاجی مہاجر مکی صاحب نے تو نوے سال پہلے پیشن گوئی فرمائی تهی)۔
لیکن چونکہ دو قومی نظریے کو وجود پذیر ہونا تها اس لیے وه لوگ جو اس کے مخالف تهے انہیں منہ کی کهانی پڑی۔
علامہ محمد اقبال، محمد علی جناح، لیاقت علی خان، سر آغا خان نے اس بصیرت سے یہ ملک حاصل کیا کہ انگریز بهی معترف تهے اور ہزار کوششوں کے باوجود کسی ایک کو بهی ایک دن جیل میں بهی بند نہ کر سکے۔
جبکہ جن لوگوں نے اس ملک کی مخالفت کی۔ چاہےمسلمان ہو یا ہندو، ان کا انجام ایسا تها کہ دنیا میں ہی ان کو اپنے کیے کی سزا ملی۔
کرم چند گاندهی چھ سال کے لیے اندر گئے۔
نہرو نو سال کے لیے اندر گئے۔
ابوالکلام آذاد بارہ سال کے لیے اندر گئے۔
غفار خان پندره سال کے لیے اندر گئے
بالاخر اس سفر کی منزل آ گئی۔ جس کی شروعات محمد بن قاسم سے شروع ہوئی تھی ۔
انگریز پٹواری فیتے لے کر پہنچ گئے اور دهوکے سے ایسی عارضی لکیرکھینچ دی جس میں ہماری شہ رگ ہندو بنیئے کے ہاتھ میں ره گئی۔اور پھر لاکهوں انسانوں کا خون دنوں تک بہتا رہا۔خبر ہے کہ کچھ فوجی بهی شہید ہوئے تهے۔
بعد کی تاریخ مختصر ہے۔بابائے قوم جلد رحلت فرما گئے( بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہیں مار دیا گیا )۔لیاقت علی کے موت کی وجہ دریافت نہ ہو سکی۔ خواجہ ناظم الدین کو غلام محمد صاحب نےبڑی عزت سے رخصت کیا۔غلام محمد صاحب کو مس روتہ بورل کی ہائے لگی اور پوری قوم کی بهی،کہ پہلی مرتبہ انہوں نے ہی اقتدار کا خون جرنیلوں کے منہ کو لگایا۔اس عرصے تک مملکتِ خداداد میں ہندووں اور انگریزوں کا ہی غلیظ آئین مسلط رہا۔اور سکندر مرزا صاحب نے کچھ مسلمانی آئین کا جگاڑ بنا لیا جو کہ اس مملکتِ خداداد کے عظیم سیاسی رہنما جنرل محمد ایوب خان کو پسند نہیں آیا۔پس آئین کے ساتھ ساتھ سکندر مرزا بهی کسم پرسی کی نظر ہو گئے۔

جنرل محمد ایوب خان کے دو احسان ہیں۔ایک پوری قوم پر اور ایک صرف اپنی قوم پر۔
پوری قوم پر ان کا احسان یہ ہے کہ مملکت خداداد چونکہ بے پناه دولت اور عظیم ذخائر سے مالا مال تها اور ایک مرتبہ پهر ہندو بنیے کی نظر اس پر تهی اس لیے انہوں ء65 کی لڑائی میں ہندووں کے پرخچے اڑا دیئے، اور شنید ہے کہ ان کے شانہ بشانہ آسمان سے فرشتے تک اتر کر لڑے تهے،گو کہ مخالفین الزام عائد کرتے ہیں کہ حملہ پہلے پاکستان نے کیا تها۔تو اگر یہ الزام ہم درست بهی تسلیم کر لیں تو کیا ہے کہ اس مرد قلندر نے ہندووں کی نیت بهانپ لی تهی۔
ان کا دوسرا احسان اپنی قوم پر یہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو یہ احساس دلایا کہ اس ملک میں سب سے بڑا سیاسی عہده جنرل کا ہے، پهر برگیڈئیر ، کرنل ، میجر اور پھراس کے بعد وزیراعظم ، اور دیگروزیروغیره آتے ہیں۔
پهر بهٹو آئے ، ساتھ میں مسلمانوں کے لیے روٹی کپڑے مکان کا نصب العین بهی لائے، چونکہ بنگالیوں کو روٹی کے بجائے چاول پسند تهے۔اس لیے بهٹو صاحب نے انہیں شیخ مجیب سمیت ملک بدرکر دیا کہ بقول بهٹو ایک تو وه ہندووں کا ایجنٹ تها اور دوسرا اگر بنگالیوں نے بهی روٹی کپڑا مکان مانگ لیا تو چونکہ عد دی اکثریت ان کی تهی اس لیے مغربی پاکستان بے گهر، بے خوراک اور بے لباس ره جائے گا۔سو ادهر تم ادهرہم۔یار لوگ کہتے ہیں کہ اس غزوه میں ہزاروں بنگالی تہہ تیغ ہوئے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کچھ بنگالی مرے اور وه بهی ہندووں نے مارے۔بهلا ایک مسلمان مسلمان کی جان کیوں لے گا ۔ ؟
جبکہ غدار لوگ کہتےہیں کہ بنگالیوں کی عصمتیں لٹیں۔ہم ایسے پروپیگنڈہ کرنے والوں پر اپنی ذمہ دار حیثیت میں لعنت بهیجتے ہیں۔(ذمہ دار حیثیت کی اصطلاح حضرت مولانا فضل الرحمن سے مستعار نہیں ہے۔)
بهٹو صاحب چونکہ صدیوں کی تاریخ پر مشتمل مملکت خداداد میں سوشل ازم جیسا کافر نظام لانا چاہتے تهے۔ اس لیے قدرت کے کارخانے سے ان پر عذاب کی شکل میں مردِ مومن مرد حق مسلط ہو گئے اور ان کو اپنی ذمہ دار حیثیت کے حوالے سے تختہ دار پر لٹکا دیا۔
طوالت کا خوف نہ ہوتا تو ضیا ء الحق صاحب کے احسانات پر الگ مضمون فرض تها۔اختصار کے ساتھ اتنا جان لیجئےکہ مملکت خداداد کو حقیقی معنوں میں انہوں نے ہی مشرف بہ اسلام کیا۔نماز روزے کی پابندی،آئین کو مسلمان کرنا،قرآنی سزاؤں کو نافذ کرنا بلکہ قرآنی سزائیں چونکہ صرف چار تهیں اور جرائم زیادہ ،اس لیے بیس پچیس اجتہادی سزائیں بهی انہوں نے اس کے ساتھ ملا دیں ۔ دنیا کے سب سے بڑے کافر ملک روس کو شکست دینا۔ یار لوگ کہتےہیں کہ امریکہ کی مد د شامل تهی۔ارے بهائی وه تو اہلِ کتاب ہیں ۔ان سے تو نکاح بهی جائز ہے اور پهر امریکہ نے تو صرف مالی مد د کی تهی ۔سُرخ فوج کو اصل شکست تو برادرمِ اسلامی مملکتِ سعودیہ شریف کی مد د اور عرب مجاہدین کی عظمت سے دی تهی۔اب بهلا خانہ کعبہ کے میتولیوں اور حرم پاک کے معماروں کی نیتوں پر شک کرنا کہاں کی مسلمانی ہے۔روس نے نہ صرف برادرم اسلامی مملکت پر حملہ کیا تها بلکہ ہم سمجهتے ہیں کہ پاکستان کے پانچویں صوبے پر حملہ کیا تها۔مردِ مومن مردِ حق نے نہ صرف روس کو شکست دی بلکہ مسلمانوں کی ایک ایسی خود مختارجہادی فوج بنائی جو رہتی دنیا تک اسلام کے نفاذ کے لیے کافروں، مشرکوں .منافقوں اور ان سب کے ساتهیوں کی گردنیں کاٹتی رہیں گی۔ وہ تو امریکہ کو خوف لاحق ہو گیا کہ ضیاء الحق پوری دنیا میں اسلام کے نفاذ کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ اس لیے بے وفائی کی لیکن وه کہتے ہیں ناں کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔اس لیے پرویز مشرف نے نہ صرف امریکہ سے مد د لی بلکہ اپنے پیشرو کے انجام سے بهی بچ گیا اور عین امریکہ کی ناک کے نیچے نہ صرف مجاہدین ِاسلام کو پناه دی بلکہ ان کو یہ تک پتہ نہ لگنے دیا کہ ہم نے کوئی پناه دی ہےیا ہماری فوج مجاہدینِ اسلام کے شانہ بشانہ صوبہ افغانستان لڑ رہی ہے ۔
بیچ بیچ میں مملکت خداداد پر مغربی اور کفری جمہوریت کے قائل بے نظیر اور نواز شریف نے بھی حکومت کی۔ لیکن بینظیر کو اس کے گناہوں کی سزا مل گئی۔ قریب تها کہ نواز شریف کو بهی مل جاتی لیکن خادمینِ حرم کو میاں صاحب کی معلوم نہیں کیوں جان بخشی منظور تهی۔حالانکہ خادمینِ حرم کو کفری جمہوریت ایک آنکھ نہیں بهاتی۔ اسی لیے محمد مرسی کے حکومت کے خاتمے پر مد د فرمائی۔چونکہ میاں صاحب خود مذہبی آدمی ہیں، روزے، نماز، عمرے اور بلیغی سہ روزے کے پابند ہیں اور ساتھ ساتھ امریکہ کی جنگ سے بهی بری الذمہ ہیں۔مجاہدین اسلام کے لیے نرم گوشہ رکهتے ہیں۔سعودیہ شریف سے کمایا ہوا رزق حلال کهاتے ہیں۔ طالبانِ اسلام کے ساتھ مذاکرات کے بهی حامی ہیں۔ اس لیے کارخانہ قدرت سے ابهی تک زندہ ہیں۔لیکن ان میں بهی ایک بہت بڑی خامی یہ ہے کے وہ نہ صرف کفری جمہوریت کے قائل ہیں بلکہ مکمل جمہوری روایات کے بهی حامی ہیں اور مدینۃ الثانی الباکستان کے واحد بڑی اور ایٹمی فوج کو مسند اقتدار سے باہر رکهنے کے خواہشمند بهی ہیں ۔اس لیے ان کی کا مستقبل بهی زیادہ روشن نہیں ہے۔ اب بهلا کہاں کی دانشمندی ہے کہ ایک لوہا کوٹنے والے تاجر کو ایک جرنیل شریف پر فوقیت حاصل ہو سکتی ہے۔ جو مدینتہ الثانی الباکستان کے واحد بڑی اور ایٹمی فوج کا جرنیل ہو ، اور اعلی تعلیم سے منورہو،ساتھ لاکھ بندوق بردار سپاہیوں کا سپہ سالار ہو، میاں صاحب کو کیسے گوارا کر سکتا ہےکہ میاں صاحب تو ان کے بقول ان کے اپنے تراشیدہ ہیں۔
شنید ہے کہ مملکت خداداد کا یہ عظیم بیڑه اب ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں تهمایا جا رہا ہے ۔جو ظاہری طور پر تو لبرل نظر آئے تاکہ کفری طاقتوں کو دهوکہ دیا جا سکے لیکن اندر سے مکمل مسلمان ہو ، مجاہدین اسلام کا حامی ہو، مکمل کفری جمہوری روایات کا دل سے پابند نہ ہو بلکہ کرکٹ کی طرح سیاست میں بهی ڈیکٹیٹرشپ کا حامی، خارجہ امور اسلامی فوج کی مرضی سے طے کرتا ہو، کسی سوشل ازم یا نیشنل ازم جیسے کفری نظریوں پر یقین نہ رکهتا ہو، کوئی سیاسی تاریخ نہ رکهتا ہو، بس زبانی کلامی مجاہد ہو ۔
امید ہے کہ مملکت خداداد کا احیاء اور اسلام کی نشاتہ ثانیہ انہی ہاتهوں میں ظہور پذیرہو گا کہ قائد ثانی یہی نظر آ رہا ہے۔.خواہش تو تهی کہ مدینتہ الثانی الباکستان میں اسلام کا ظہور علمائے اسلام حضرت مولانا فضل الرحمن، حضرت مولانا منور حسن، حضرت مولانا طاہر القادری، حضرت مولانا صوفی محمد کے ہاتهوں سے ہو۔جو نہ صرف علمائے اسلام ہیں بلکہ حقیقی متشرع بهی ہیں۔ لیکن افسوس اور شکر کے کفری طاقتوں کے منظور نظر نہیں ہے۔ ورنہ مملکت خداداد میں بهی امارت اسلامی صوبہ افغانستان کی طرح صحیح اسلامی ریاست ہوتی اور دو قومی نظریے کی تکمیل ہو جاتی۔
(مصنف نےحفظِ ماتقدم کے تحت اپنا نام ظاہر کرنے سے معذرت کی ہے ۔ویسے ہم انہیں بیضاء صاحب کے حوالے سے جانتے ہیں)
 
آخری تدوین:
Top