دو شہزادوں کی کہانی ,,,,کارزار/انور غازی

برطانوی حکومت نے 29 فروری 2008ء کی شام شہزادہ ہیری کو افغانستان کی سنگلاخ وادیوں سے واپس بلالیا ہے۔ ہیری گزشتہ تین ماہ سے افغانستان کے صوبے ”ہلمند“ میں طالبان کے خلاف برسرپیکار تھے۔ برطانیہ نے ہیری کی حفاظت کے پیش نظر ان کی افغانستان میں موجودگی کو انتہائی خفیہ رکھا تھا۔ پس منظر کے طورپر یاد رہے کہ 23 سالہ ہنری پرنس آف ویلز (Prince Henry of Wales) 15 ستمبر 1984ء میں لندن کے علاقے پیڈنگٹن میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم Wetherby School میں حاصل کی۔ اس کے بعد ستمبر 1992ء کو ”برک شائر“ کے ”لیوڈ گرو اسکول“ (Ludgrove School) میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ 1998ء میں مزید تعلیم کے لیے برک شائر ہی کے ”ایٹن کالج“ (Eton College) میں داخل ہوئے۔ 2003ء میں اپنی تعلیم دو ”اے لیولز“ (A-levels) کے ساتھ مکمل کی۔ ”آرٹ“ (Art) میں بی گریڈ اور ”جیوگرافی“ میں ڈی گریڈ حاصل کیا۔ 8 مئی 2005ء کو فوج کی ابتدائی تربیت لینے کے لیے ہیری نے ”رائل ملٹری اکیڈمی سینڈ ہرسٹ“ (Royal Military Academy Sandhurst) جوائن کی۔ اب پرنس ہیری برطانوی فوج کی ”بلیو اور رائلز رجمنٹ“ (Blues and Royals Regiment) میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کے عہدے پر فائز ہیں۔ ہیری 14 دسمبر 2007ء میں پہلی دفعہ افغانستان گئے اور طالبان کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ ان کا یہ سارا مشن خفیہ رہا۔ 28 فروری 2008ء کو عالمی میڈیا کو ان کی افغانستان میں موجودگی کا پتا چلاتو پوری دنیا کے میڈیا نے اس خبر کو چنگھاڑتی سرخیوں کے شائع کردیا۔ برطانوی حکومت ان کی حفاظت کے حوالے سے سخت پریشان ہوگئی۔ جب طرح طرح کے خدشات جنم لینے لگے تو اگلے ہی دن یعنی 29 فروری 2008ء کو انہیں واپس بلالیا گیا۔ مجموعی طور پر ہیری افغانستان میں 77 دن رہے۔ برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن نے ہیری کو ایک مثالی اور بہادر فوجی قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ برطانیہ کو ان کی اس شاندار کارکردگی پر ہمیشہ فخر رہے گا۔ برطانیہ پہنچنے کے بعد ہیری نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا: ”میری افغانستان میں تعیناتی زندگی کا پُرمسرت تجربہ ہے۔ اتنی جلدی میری واپسی میرے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔ مجھے دہشت گرد نشانہ بنانا چاہتے تھے۔“ ادھر طالبان کے ڈپٹی کمانڈر نے کہا: ”ہم جانتے تھے کہ ایک ”اہم چوزہ“ بھی برطانوی فوج میں شامل ہے۔ ہم انہیں پہلے قیدی بنانا چاہتے تھے۔ یہ شکار ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اگر ہم جانتے تو بہت پہلے اسے قتل کردیتے۔“ قارئین! یہ تو تھا برطانوی شاہ زادے کا تعارف۔ ان پر بات کرنے سے قبل میں ایک اور شہزادے کا تعارف بھی کروانا چاہتا ہوں اور پھر ان دونوں پر تبصرہ کروں گا۔ یمن کے ایک بڑے تاجر محمد اعواد بن لادن کے گھر 1957ء کو ایک بچہ پیدا ہوا۔ والدین نے اس کا نام ”اسامہ“ رکھا۔ اس بچے کا بچپن نازونعم میں گزرا جیسا کہ شہزادوں کا بچپن ہوا کرتا ہے۔ ان کے والد اس زمانے میں اتنے بڑے سرمایہ دار تھے کہ بعض اوقات وہ ایک نماز مسجد نبوی میں پڑھتے، دوسری مسجد حرام میں اور تیسری بیت المقدس میں۔ سعودی عرب میں سب سے بڑی تعمیراتی کمپنی انہی کی تھی۔ اسامہ کی ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ ”کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی“ گئے جہاں انہوں نے اکنامکس اور مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انجینئرنگ کی ڈگری لی۔ اسامہ کو گھڑ سواری اور مطالعے کا بے حد شوق تھا چنانچہ انہوں نے گھڑ سواری ”ایتھوپیا“ کے ایک ماہر گھڑ سوار ”عبدل“ سے سیکھی۔ اسامہ کا دوسرا شوق کتب بینی تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے مشاہیر کی تاریخ کا سیر ہوکر مطالعہ کیا اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے کردار سے بہت متاثر ہوئے۔ خالد بن ولید، اسامہ کے آئیڈیل تھے۔ 1968ء میں اسامہ کے والد کا انتقال ہوگیا تو انہیں وراثت میں بے پناہ دولت ملی۔ 17 سال کی عمر میں انہوں نے باقاعدہ اپنا کاروبار سنبھال لیا۔ اسی دوران یعنی 1979ء میں سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کردیا۔ اسامہ نے اپنی شہزادوں والی زندگی اور عیش وعشرت کو خیر باد کہا اور افغانستان کی سنگلاخ وادیوں میں ڈیرہ ڈال دیا۔ جب یہ افغانستان میں آئے تو ان کے پیچھے پیچھے چار ہزار کے قریب عرب نوجوان بھی آگئے۔ وہ تمام کے تمام اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ اسامہ بن لادن 1979ء سے 1989ء تک مکمل دس سال افغانستان میں روس کے خلاف برسرپیکار رہے۔ جب سوویت یونین ٹوٹا تو اسامہ بن لادن واپس سعودی عرب چلے گئے اور اپنے کام میں مشغول ہوگئے لیکن جب امریکی سامراج نے خلیجی ممالک میں ڈیرے ڈالے تو اس وقت اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں نے پہلے دبے لفظوں میں کہا کہ یہ ہماری سلامتی پر حملہ ہے لہٰذا طاغوتی فوجیں یہاں سے نکل جائیں ہم اپنے وطن اور عالم اسلام کے مذہبی مرکزکی حفاظت کا فریضہ خود انجام دیں گے لیکن جب ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی تو پھر اسامہ نے امریکی پالیسیوں کی علی الاعلان مخالفت شروع کردی۔ جب امریکا نے حرمین الشریفین کے تحفظ کے بہانے مزید فوجیں اُتاریں تو اسامہ نے کہا تھا: ”یہ فوجیں یہاں سے چلی جائیں، حرمین کا تحفظ ہم خود کریں گے۔“ اس کے بعد حالات کشیدہ ہوئے تو وہ سوڈان چلے گئے۔ 1996ء میں جب افغانستان میں طالبان کا ظہور ہوا تو اسامہ افغانستان آگئے اور اسلامی حکومت کے قیام کے لیے کوشاں رہے۔ نائن الیون کا واقعہ ہوا تو اس المیے کا ذمہ دار امریکا نے اسامہ بن لادن کو ٹھہرادیا اور طالبان سے اسامہ کو امریکا کے حوالے کرنے کا مطالبہ کردیا۔ انکار پر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ طالبان حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد سے اسامہ کے تعاقب میں امریکا، برطانیہ اور اس کے دیگر اتحادی آج تک خاک چھان رہے ہیں لیکن اسامہ ہیں کہ مل کے نہیں دے رہے بلکہ امریکا وبرطانیہ اور ان کے اتحادیوں کو ان کے تعاقب کے درمیان زبردست مار پڑ رہی ہے۔ امریکا وبرطانیہ کے فوجیوں کے تابوت جب اپنے علاقوں میں پہنچے تو امریکی وبرطانوی عوام چونکہ حساس ہیں لہٰذا عوام کی طرف سے ان حکومتوں پر زبردست دباؤ آیا کہ وہ ہمارے جوانوں کو واپس بلائیں۔ گزشتہ دو سالوں سے عراق اور افغانستان میں زیادہ تر امریکی اور برطانوی فوجی ہی مر رہے ہیں، اس لیے ان کے حوصلے پست ہیں۔ عراق اور افغانستان میں مبینہ مجاہدین اور مزاحمت کاروں کے خلاف برسرپیکار افواج کو تھپکی دینے کے لیے کبھی امریکی صدربش تو کبھی نائب صدر، کبھی وزیر دفاع تو کبھی نائب وزیر دفاع، کبھی وزیرخارجہ کنڈو لیزا رائس تو کبھی نائب وزیر خارجہ اور کبھی ”امن کے سفیر“ ٹونی بلیئر تو کبھی خیرسگالی کی سفیر انجلینا عراق اور افغانستان کے چکر لگاتے رہتے ہیں تاکہ جنگ کی بھٹی میں جھونکے جانے والے ان فوجیوں کو نفسیاتی بیماریاں لاحق نہ ہوں اور نفسیاتی طورپر تنہائی کا احساس نہ ہو۔ شہزادہ ہیری بھی اسی سلسلے میں افغانستان میں محاذِ جنگ پر آئے تھے۔ اس سے قبل وہ عراق جانے کے لیے کہتے رہے لیکن جب انہیں محسوس ہوا کہ عراق میں میدانِ کارزار زیادہ گرم ہے اور وہاں کے مزاحمت کار اس کے انتظار میں ہیں تو پھر گزشتہ سال خفیہ طورپر انہیں افغانستان بھیج دیا گیا اور اس وقت تک ظاہر نہ کیا گیا جب تک کہ وہ واپس لندن نہ پہنچ گئے۔ افغانستان کے متعدد صوبوں پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق افغانستان کے دس فیصد حصے پر طالبان کا قبضہ ہے۔ افغان عوام بھی طالبان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ طالبان نے 2 امریکی ہیلی کاپٹر مار گرائے تھے اور 3 ماہ کے دوران مجموعی طورپر 33 فوجی مرچکے ہیں جن میں 4 افسر بھی شامل ہیں۔ ادھر طالبان اور افغان عوام بھی بڑی تعداد میں شہید ہورہے ہیں۔ روزانہ کے اخبارات اُٹھاکر دیکھ لیں، کوئی دن ایسا نہیں جب دوچار افغان زندگی سے ہاتھ نہ دھوبیٹھتے ہوں لیکن افغانستان کے عوام اور طالبان سمجھتے ہیں کہ امریکا غاصب اور جارح ہے۔ ان سے آزادی حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ کم ازکم ہماری اولاد یں ہی غلامی کی ذلت سے بچ سکیں اس لیے وہ جان مال سب کچھ تج کیے ہوئے ہیں اور یہ اٹل حقیقت ہے کہ عوام سے جنگ جیتی نہیں جاسکتی جس کا اعتراف سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن نے بھی ان الفاظ میں کیا تھا: ”دنیا کی کوئی فوج کسی فوج کو شکست دے سکتی ہے لیکن وہ عوام کو شکست نہیں دے سکتی۔“ ا ب ان دونوں شہزادوں ”پرنس ہیری“ اور ”شہزادہ اسامہ“ کے تقابل کی طرف آتے ہیں۔ اگرچہ کئی اعتبار سے ان دونوں میں بعد المشرقین ہے۔ ہیری کو اپنی حکومت کی مکمل سپورٹ اور سرپرستی حاصل ہے جبکہ اسامہ دنیا بھر کی طاغوتی قوتوں کو مطلوب ہیں۔ اسامہ اس کو دین کی خدمت سمجھ کر کررہے ہیں۔ ہیری اس لیے عراق اور افغانستان میں محاذِ جنگ پر جانے پر بضد تھے کہ مستقبل میں طمطراق سے بادشاہت کرسکیں۔ پرنس ہیری مذہبی جنگ سمجھ کر بھی اس میں حصہ لینا چاہتے ہیں جس کا اظہار امریکی صدر بش کئی مرتبہ ببانگِ دہل کرچکے ہیں۔ یہ جنگ چونکہ مذہبی بنیادوں پر لڑی جارہی ہے اس لیے اس میں ہر اہم شخص حصہ لینا اپنی ”سعادت“ سمجھ رہا ہے۔ گزشتہ مہینے اسی سلسلے میں افغانستان میں حصہ لینے والوں میں نیوزی لینڈ کے وزیراعظم کا بھتیجا بھی شامل تھا جو افغانستان کے علاقے ”نورستان“ میں طالبان کے ہاتھوں مارا گیا۔ چونکہ یہ مذہبی جنگ ہے تو پھر جب اس میں اسامہ بن لادن، عرب مجاہدین اور دنیا بھر کے مسلمان حصہ لیں تو وہ دہشت گرد کیوں؟ ستم ظریفی تو دیکھیے اگر امریکا اور برطانیہ کے اہم لوگ اور شاہ زادے عراق اور افغانستان کے محاذوں پر مذہبی فریضہ سمجھ کر جنگ میں حصہ لیں تو مستحسن اور لائق تعریف، ان کی کارکردگی مثالی اور شاندار… لیکن اگر کوئی مسلمان شہزادہ اس میں شریک ہو تو اسے عالمی امن کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے اور اسے شدت پسند اور دہشت گرد جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ یہ فرق کیوں؟ جنگ تو جنگ ہے اس میں شریک اسامہ دہشت گرد ہے تو افغانستان میں جارح افواج کے ہمراہ آنے والے ہیری کو بھی دہشت گرد سمجھا جائے اور اگر یہ جنگ صلیبی اور مذہبی ہے تو پھر اس میں حصہ لینے والے خواہ کوئی بھی ہوں ان پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ عالمی مذہبی مبصرین اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں، صلیبی جنگ ہے۔ چھ سال میں مکمل کیے گئے ایک عالمی سروے میں 93 فیصد مسلمانوں نے مبینہ دہشت گردی کو یکسر مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ امریکا نے عالمِ اسلام کے وسائل ہتھیانے اور اپنے بھیانک منصوبوں کی تکمیل کیلئے یہ جنگ شروع کررکھی ہے۔“ سامراج نے اس کو نام دہشت گردی کا دیا ہوا ہے تاکہ ان کا حقیقی چہرہ چھپا رہے لیکن حقائق حقائق ہوتے ہیں وہ چھپائے نہیں چھپتے۔ دوسری بات یہ کہ مغرب تو اس جنگ کو مقدس صلیبی جنگ قرار دے رہا ہے اور شہزادے اس مقدس جہاد میں شرکت کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں اور ان کے حکمران ان کے اس فعل کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے دفاع میں بولنے والا کوئی نہیں

بحوالہ جنگ
 

شمشاد

لائبریرین
سارا مسئلہ میڈیا کا ہے۔ جس کا میڈیا جتنا طاقتور ہو گا اس کا پروپیگنڈا اتنا ہی موثر ہو گا۔
اور اس معاملے میں ہم بہت ہی پیچھے ہیں۔
 
Top